السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مجھے وہ مصرعہ یاد آگیا کہ: دل کو رو لوں تو پوچھوں جگر کو میں
میں اپنے محدود علم کی بنیاد پر یہ عرض کرنا چاہوں گاکہ منہج اہل حدیث سے اختلاف کی بنیاد پر اہل بدعت کے درجات ہیں، اور ان درجات کی نوعیت و کیفت کی بناء پر کوئی راوی اور اس کی حدیث مقبول یا مردود ٹھہرتی ہے، اسی طرز پر علوم دینی بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ماشاء اللہ ! تھریڈ میں تمام اہل علم اراکین اس بحث میں شامل ہیں۔ وہ جرح و تعدیل کے اس بنیادی اصول سے واقف ہونگے!
ڈاکٹر فرحت ہاشمی ہوں یا ڈاکٹر ذاکر نائک، ان سے کن امور میں علماء اہل الحدیث نے اختلاف کیا ہے؟ اہل حدیث کہلوانےمیں، یا اہل البدعت کے ساتھ شریک ہونے اور انہیں اپنے پروگرامز میں شریک ہونے میں؟
جہاں تک بات رہی ، مولانا مودودی اور اور ڈاکٹر اسرار کی تفاسیر کی موجودگی!! تو محترمہ! علمائے اہل حدیث زمخشری معتزلی کی الکشاف اور فخر الدین الرازی کی مفاتح الغیب بھی مطالعہ میں رکھتے ہیں۔ اگر ان کتابوں کی تدریس تنقیح و تصحیح کے ساتھ کی جائے، تو یہ تو ہمیشہ سے علماء اہل حدیث کا طریقہ رہا ہے!
میرے مؤقف میں کوئی کمی خامی ہو تو برائے کرم اصلاح فرمائیں!