اور یہ جتنے نام لکھ کر آخر میں ان کو "یہ بھی حنفی تھا" کہہ دیا گیا ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے؟
سلا طین اکثر حنفی تھے
ایک خاص بات یہ ہے کہ عنانِ حکومت جن لوگوں کے ہاتھ میں رہی وہ اکثر حنفی فقہ کے ہی پابند تھے خلفاءِ عباسیہ میں عبد اللہ بن معتز جو فنِ بدیع کا موجد تھا اور خلفاء عباسیہ میں سب سے بڑ ا شاعر اور ادیب تھا وہ حنفی المذہب تھا۔ ( تاریخ ابن خلکان)۔
خلافتِ عباسیہ کے تنزل کے ساتھ جن خاندانوں کو عروج ہوا اکثر حنفی تھے۔ خاندانِ سلجوق جس نے ایک وسیع مدت تک حکومت کی اور جن کے دائرہ حکومت کی وسعت طول میں کاشغر سے لے کر بیت المقدس تک اور عرض میں قسطنطنیہ سے بلادِ خرز تک پہنچی، حنفی تھا۔
محمود غزنوی جس کے نام سے ہندوستان کا بچہ بچہ واقف ہے فقہ حنفی کا بہت بڑ ا عالم تھا۔ فن فقہ میں اس کی ایک نہایت عمدہ تصنیف موجود ہے جسکا نام"التفرید" ہے اور جس میں کم و بیش ساٹھ ہزار مسئلے ہیں۔
نورالدین زنگی کا نام چھپا ہوا نہیں ہے وہ ہمارے ہیروز میں داخل ہے۔ بیت المقدس کی لڑائیوں میں اول اسی نے نام حاصل کیا۔ صلاح الدین فاتحِ بیت المقدس اسی کے دربار کا ملازم تھا۔ دنیا میں پہلا دارالحدیث اس نے قائم کیا۔ وہ خود اور اس کا تمام خاندان مذہباً حنفی تھا۔ (الجوہر المضئیہ)۔
داعیان دین کی کوششیں اورکاوشیں
یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ سلطنت عباسیہ کے خلفاء حنفی مذہب سے ارادت اورعقیدت رکھتے تھے۔سلطنت عباسیہ کے قاضی اورچیف جسٹس وغیرہ حنفی ہواکرتے تھے۔یہ حکومتیں کفر کی سرزمین پر لشکرکشی کیاکرتی تھیں۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہزاروں افراد اسلام لے آتے تھے۔ان نومسلموں کواسلامی تعلیمات سکھانے کی ذمہ داری قاضیوں کی ہواکرتی تھی ۔یہ قاضی چونکہ خود بھی حنفی ہوتے تھے؛ لہٰذا ان کو مسائل فقہیہ کی تعلیم بھی فقہ حنفی کے مطابق دیاکرتے تھے۔ اس طرح رفتہ رفتہ تھوڑے ہی عرصہ میں فقہ حنفی نے ایک بڑی اوروسیع جگہ پیداکرلی۔بالخصوص نومسلمین تمام کے تمام فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ان نومسلمین قبائل میں سے آگے چل کر جنھوں نے سلطنت وحکومت کی باگ ڈورسنبھالی۔ جیسے کہ
سلجوقی،مغل،آل عثمان وغیرہ ۔وہ سب کے سب بھی حنفی ہوئے۔اس کے علاوہ بھی دیگر داعیانِ دین جنہوں نے انفرادی طورپر دعوت دین کاعلم بلند کیاوہ بھی زیادہ تر حنفی تھے۔
جب چنگیز خان کی قیادت میں تاتاریوں نے عالم اسلامی کوروند دیاتواس وقت عالم اسلام زوال کا شکار تھا۔ اورایسالگتاتھاکہ اس کے دن پورے ہوچکے ہیں؛ لیکن خداکی رحمت جوش میں آئی اورفاتحین نے مفتوحین کے مذہب کوقبول کرلیا۔
چنگیز خان کی حکومت اس کے بیٹوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔چنگیز کے بڑے بیٹے کی نسل جوجی خان میں سے برکہ خان نے اسلام قبول کیا،اس طرح کہ اس کو خود اسلام کی طرف رغبت ہوئی اور اس نے مسلم تاجروں سے اس کے حوالے سے پوچھااوراسلام قبول کرلیااوراپنے چھوٹے بھائی کوبھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔
چنگیز خان کا پوتاقازان بن ارغوان امیرتوزون کی تلقین سے ان کے ہاتھ پرمشرف بہ اسلام ہوا۔چنگیز خان کے خاندان کی تیسری شاخ جو بلادمتوسطہ پر قابض تھی، اس میں سے تیمور خان نے ایک مسلم داعی شیخ جمال الدین کاشغر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔(بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۳۳۱)
حقیقت یہ ہے کہ مغل اورترک تمام کے تمام حنفی گزرے ہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے جن کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیاوہ سب حنفی تھے، لہٰذا اس اثر سے انھوں نے بھی فقہیات میں حنفی مسلک کواپنایا۔
اسی طرح ہم ہندوستان میں دیکھیں کہ حضرات صوفیاء کرام کے وجود باجود سے ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت ہوئی ۔صرف خواجہ اجمیر ی کے تعلق سے بعض مورخین نے لکھاہے کہ 90لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ان کی وجہ سے ہوئے۔پھران کے خلفاء اورمریدین نے دوردراز کے مقامات پر جس طرح اسلام کو پھیلایا،وہ تاریخ کاحصہ ہے۔
سیر الاولیاء کے مصنف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اوران کے خلفاء کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”ملک ہندوستان اپنے آخری مشرقی کنارہ تک کفروشرک کی بستی تھی ۔اہل تمرد انا ربکم الاعلیٰکی صدالگارہے تھے۔اورخداکی خدائی میں دوسری ہستیوں کوشریک کرتے تھے اوراینٹ، پتھر، درخت،جانور،گائے کوسجدہ کرتے تھے۔کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اورمقفل تھے۔ سب دین وشریعت سے غافل،خداوپیغمبر سے بے خبرتھے۔ نہ کسی نے قبلہ کی سمت پہچانی۔نہ کسی نے اللہ اکبرکی صداسنی،آفتاب اہل یقین حضرت خواجہ معین الدین کے قدم مبارک کا یہاں پہنچنا تھاکہ اس ملک کی ظلمت نوراسلام سے مبدل ہوگئی۔اوران کی کوشش وتاثیر سے جہاں شعائرشرک تھے، وہاں مسجد ومحراب ومنبر نظرآنے لگے۔ جوفضاء شرک کی صداؤں سے معمورتھی، وہ نعرئہ اللہ اکبر سے گونجنے لگی۔اس ملک میں جس کو اسلام کی دولت ملی اورقیامت تک جوبھی اس دولت سے مشرف ہوگا۔ نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد دراولاد نسل درنسل سب ان کے نامہ اعمال میں ہوں گے اوراس میں قیامت تک جوبھی اضافہ ہوتارہے گا اوردائرہ اسلام وسیع ہوتارہے گا۔ قیامت تک اس کاثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری کی روح کو پہنچتارہے گا“۔ (سیر اولیاء ص۴۷، بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۲۸-۲۹)
سیر الاقطاب کے مصنف لکھتے ہیں:
”ہندوستان میں ان کی وجہ سے اسلام کی اشاعت ہوئی اورکفر کی ظلمت یہاں سے کافور ہوئی“۔(سیرالاقطاب۱۰۱)
یہ صرف صوفیانہ خوش عقیدگی نہیں ہے؛ بلکہ دیگر مورخین نے بھی اس کااعتراف کیاہے۔ ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتاہے:
”اجمیر میں عزلت گزریں ہوئے اوراسلام کا چراغ بڑی آب وتاب سے روشن کیااوران کے انفاسِ قدسیہ سے جوق درجوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی“۔ (آئین اکبری،سرسید ایڈیشن ص ۲۷۰،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۳۰)
یہ سب صوفیائے کرام چونکہ حنفی تھے، لہٰذا نومسلم بھی فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔
برصغیر ہندوپاک میں کس طرح اسلام پھیلا۔اس پرپروفیسر آرنلڈ کی کتاب ”پریچنگ آف اسلام“ کا مطالعہ کیاجائے۔ہم اس مختصر مضمون میں کچھ اشارے کردیتے ہین بالخصوص ہندوستان کے تعلق سے۔
کشمیر جوبرہمنوں کا گڑھ تھا،اس کو سید علی ہمدانی نے اپنی دعوتی کوششوں سے اسلام کے مرکز میں تبدیل کردیااوراس طرح تبدیل کیاکہ آبادی کاتوازن ہی بالکل الٹ دیا۔جہاں کبھی برہمن اکثریت میں تھے، اب وہ اقلیت میں آگئے۔سید علی ہمدانی حنفی تھے، لہٰذا ظاہرسی بات ہے کہ ان کے اثر سے اسلام قبول کرنے والے بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے جس طرح ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت کی۔ اس کے بارے میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
”سلسلہٴ چشتیہ کی بنیاد ہندوستان میں پہلے ہی دن سے اشاعت وتبلیغ اسلام پر پڑی تھی۔ اوراس کے عالی مرتبت بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہاتھ پر اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ تاریخ کے اس اندھیرے میں اس کا اندازہ لگانابھی مشکل ہے“۔(تاریخ دعوت وعزیمت جلد سوم)
پنجاب کے مغربی صوبوں کے باشندوں نے خواجہ بہاء الحق ملتانی اوربابافرید پاک پٹن کی تعلیم سے اسلام قبول کیا۔یہ دونوں بزرگ تیرہویں صدی عیسوی کے قریب خاتمہ اورچودھویں صدی عیسوی کے شروع میں گزرے ہیں۔ بابافرید گنج کے بارے میں مصنف نے لکھاہے کہ انھوں نے سولہ قوموں (برادریوں)کو تعلیم وتلقین سے مشرف بہ اسلام کیا۔ (پریچنگ آف اسلام)
اس کے علاوہ تمل ناڈو کے بارے میں آتاہے کہ وہا ں نویں صدی میں ایک بزرگ مظہر نامی آکربسے تھے اوران کے ساتھ۹۰۰ مریدین تھے۔ انھوں نے وحشیوں کو زیربھی کیااوراپنے اخلاق وکردارسے ان کو اسلام کی جانب مائل بھی کیا۔بنگال وبہار میں بھی اسلام کی شاعت صوفیاء کرام ہی کے زیر اثر ہوئی۔اوریہ بات مخفی نہیں ہے کہ صوفیاء کرام میں سے تمام کے تمام حنفی تھے، لہٰذا ان کے وابستگان بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔
انڈونیشیااورملیشیاء میں حنفیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جب کہ وہاں پر کوئی لشکر کشی نہیں ہوئی، وہاں تاجروں کے ذریعہ اسلام پھیلا۔گمان غالب یہ ہے کہ یہ تاجربھی حنفی ہوں گے اوران کے اثر سے اسلام قبول کرنے والوں نے فقہ حنفی کو اپنایاہوگا۔
یہ اگرچہ انتہائی مختصر جائزہ ہے؛ لیکن اس سے اتنی بات ثابت ہورہی ہے کہ صوفیاء کرام اور داعیان دین کا فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں اہم کردارہے۔
۷- حکومت وسلطنت کااثر
عمومی طورپر مورخین نے بھی فقہ حنفی کے قبولِ عام اوراقطارِعالم میں پھیلنے کاایک سبب حکومت وسلطنت کی سرپرستی قراردیاہے۔اورامام ابویوسف کے عباسی سلطنت میں قاضی القضاة (چیف جسٹس)بننے کو بڑی وجہ قراردیاہے۔
ابن حزم لکھتے ہیں:
مذہبان انتشرا فی بدء امرھمابالریاسة الحنفی بالمشرق والمالکی بالاندلس (وفیات الاعیان۲/۲۱۶)
دومذہب ابتداء میں حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے پھیلے مشرق میں حنفی اوراندلس میں مالکی مذہب۔
ابن خلدون لکھتے ہیں:
”امام ابوحنیفہ کے ماننے والے آج عراقی، سندھی، چینی ،ماوراء النہر اورتمام عجمی شہروں کے مسلمان ہیں؛ کیونکہ ان کامذہب خصوصیت سے عراق اوردارالسلام کامذہب تھااورسرکاری مذہب کو ہی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے“۔
حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
وَکَانَ اشہرَ اَصْحَابہ ذکرا اَبُو یُوسُفَ تولّٰی قَضَاءَ الْقُضَاةِ اَیَّامَ ہَارُونِ الرشید فَکَانَ سَببًا لظُہُور مذْہبہ وَالْقَضَاء بِہِ فِی اقطارِ الْعرَاقِ وخراسان وَمَا وَرَاءِ النَّہر (الانصاف فی اسباب الاختلاف ص ۳۹)
اس سے انکار نہیں کہ یہ بھی فقہ حنفی کے نشرواشاعت کاایک سبب ہے؛ لیکن اسی کو مکمل سبب قراردینا،نہ صرف امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کے کارناموں کے ساتھ ظلم ہے؛ بلکہ ان تمام فقہائے احناف کے ساتھ ظلم ہے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی فقہ حنفی کی خدمت میں لگادی۔
دورحاضر میں یہ ایک طرفہ تماشاہے کہ کچھ لوگ حنفیوں کی کثر تِ تعداد پر توفوراًان آیتوں کی تلاوت شروع کردیتے ہیں، جن میں اکثریت کو گمراہ بتایاگیاہے؛ لیکن اسی کے ساتھ پورے تن من دھن سے اپنی جماعت کی تکثیر کی بھی کوشش کرتے ہیں اور اس کثرت کے حصول میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔
یہ بھی کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے کہ ہمارے کچھ مہربان فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تمام اسباب وذرائع کونگاہ میں رکھنے کے بجائے، بس ایک ہی راگ الاپتے رہتے ہیں کہ فقہ حنفی کے پھیلنے میں سلطنت وحکومت کاکام ہے۔ان سے بس اتناساسوال ہے کہ چلوفقہ حنفی کے انتشار وشیوع میں توسلطنت وحکومت کاہاتھ ہے؛ لیکن آپ اپنی غیرمقلدیت کی توسیع واشاعت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ کی تمام تر اچھل کود کیاصرف پٹرول اور ریال کی مرہون منت نہیں ہے؟ وہ راز اب راز نہیں؛ بلکہ طشت ازبام ہوکر شہرت عام سے فائز المرام ہوچکا ہے۔
مستشرقین کایہ عمومی الزام رہاہے کہ اسلام تلوار سے پھیلاہے؛ لیکن مستشرقین خودیہ بھول جاتے ہیں کہ عیسائیت کس طرح پھیلی ہے،اس کاجواب اکبرالہ آبادی نے بڑا ہی اچھا دیاہے۔وہ کہتے ہیں:
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ7-8 ، جلد: 99 ، رمضان - شوال 1436 ہجری مطابق جولائی -اگست 2015ء