• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی اہل حدیث نے کوئی علاقہ فتح کیا تحقیق درکار ہے

شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
لگتا ہے کسی بڑے فتنہ کا پیش خیمہ ہے ، مسلم فاتحین کی افواج میں شامل کس مسلک کے فوجی تہے اور جو بہی رہے ہوں اہلحدیث نہ رہے ہونگے ۔ آخر اس سوال کا کوئی مطلب تو ہوگا ہی۔ نیک مقصد تو ہرگز نہیں ہو سکتا ۔
اللہ۔ہمیں ہر فتنہ سے بچائے رکہے ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
یہ کس بات کے دلائل ہیں ؟
یعبی اہل حدیث نے کوئی علاقہ فتح نہیں کیا۔ چاروں اماموں سے پہلے کی فتوحات کی دلیل دی جائے اگر یہ دلیل دی جائے۔اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے۔کہ اگر بالفرض یہ مان لیا جائے۔ تو چاروں اماموں کے بعد اہل حدیث کہاں غائب ہو گے تھے۔اسلام پر اتنے مشکل دور آئے یعنی منگولوں اور صیلبی جنگوں اس وقت یہ کہا تھے؟ ۔ اور جتنے بھی علاقوں میں اسلام پھیلایا اس میں زیادو تر حنفی اور دیگر مقلد تھے ۔ ان ہی کہ وجہ سے آج اہل حدیث بھی کلمہ پڑھنے ہیں۔اہل حدیث نے کس علاقے میں اسلام پھیلایا
حا صل کلام یہ کہ اہل حدیث ماجودا دور کا ایک انگریز وں کا بنایا ہوا فرقہ ہے ۔جس نے امت میں امنتشار پھیلانے اور مسلمانوں کو نقصان پہچانے کہ سواء کچھ نہیں کیا ۔ انہوں ہی نے یہ خلافت عثمانیاں کو ختم کیا مثلا کہتے ہیں شاہ سعود انگریزوں کے دوست رہے۔ اور خلا فت عثمانیاں کو نقصان پہنچایا۔
 
Last edited:

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
یعبی اہل حدیث نے کوئی علاقہ فتح نہیں کیا۔ چاروں اماموں سے پہلے کی فتوحات کی دلیل دی جائے اگر یہ دلیل دی جائے۔اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے۔کہ اگر بالفرض یہ مان لیا جائے۔ تو چاروں اماموں کے بعد اہل حدیث کہاں غائب ہو گے تھے۔اسلام پر اتنے مشکل دور آئے یعنی منگولوں اور صیلبی جنگوں اس وقت یہ کہا تھے؟ ۔ اور جتنے بھی علاقوں میں اسلام پھیلایا اس میں زیادو تر حنفی اور دیگر مقلد تھے ۔ ان ہی کہ وجہ سے آج اہل حدیث بھی کلمہ پڑھنے ہیں۔اہل حدیث نے کس علاقے میں اسلام پھیلایا
حا صل کلام یہ کہ اہل حدیث ماجودا دور کا ایک انگریز وں کا بنایا ہوا فرقہ ہے ۔جس نے امت میں امنتشار پھیلانے اور مسلمانوں کو نقصان پہچانے کہ سواء کچھ نہیں کیا ۔ انہوں ہی نے یہ خلافت عثمانیاں کو ختم کیا مثلا کہتے ہیں شاہ سعود انگریزوں کے دوست رہے۔ اور خلا فت عثمانیاں کو نقصان پہنچایا۔
22 ھجری میں جو محمد بن قاسم نے ایران، مکران اور سندھ وغیرہ علاقے فتح کئے، اس وقت تک تو حنفیوں کے امام کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ غیر مقلد اہلحدیث ہی تھے جنہوں نے اول اول اسلام ان علاقوں میں پھیلایا۔ لہٰذا اہلحدیث کی وجہ سے آج حنفی اور دیگر مقلد کلمہ پڑھتے ہیں، نا کہ اس کے برعکس۔

اور یہ جتنے نام لکھ کر آخر میں ان کو "یہ بھی حنفی تھا" کہہ دیا گیا ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
آئیندہ کی منصوبہ بندی ہو سکتی ہے، جہاد فی سبیل اللہ جنہوں نے بہی کیا ، وہ جو بہی تہے ، انکا مقصد اللہ کی رضا ہی تہی ، اللہ انکی شہادتوں کو قبول فرمائے اور انکے درجات کو بلند فرمائے ۔ فتح اور نصرت اللہ کی ۔
بہرحال مخلصین نے اپنا فرض ادا کیا ۔ ہم اور آنیوالی نسلیں انکے لئے دعاء ہی کرتے رہینگے ۔ اہلحدیث نے کیا کیا اسکی سند کی ضرورت اہلحدیث کو کسی سے لینے کی حاجت ہی نہیں کیونکہ جو کیا اللہ کیلئے کیا اور اللہ تعالی ہر عمل اور اس عمل کی نیت کو جانتا ہے ، بیشک اجر اللہ ہی دینے والا ہے ۔ دوسروں کی لعن و طعن انہی کو مبارک ہمیں کیا فکر ، ہمارا صلہ اللہ دینے والا ہے ۔
دو علامتوں کا ذکر ضروری ہے بات کو سمجہانے کی خاطر، شیخ الاسلام ابن تیمہ نے کہا:
جعل الله لأهل محبته علامتين :
اتباع السنة .. والجهاد في سبيل الله.
ابن تيميه رحمه الله
علامتیں تلاش کرتے رہیں کہاں کہاں ملتی ہیں ، کہاں کہاں فقدان ہے ۔
والسلام
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اور یہ جتنے نام لکھ کر آخر میں ان کو "یہ بھی حنفی تھا" کہہ دیا گیا ہے۔ اس کی دلیل کیا ہے؟
سلا طین اکثر حنفی تھے

ایک خاص بات یہ ہے کہ عنانِ حکومت جن لوگوں کے ہاتھ میں رہی وہ اکثر حنفی فقہ کے ہی پابند تھے خلفاءِ عباسیہ میں عبد اللہ بن معتز جو فنِ بدیع کا موجد تھا اور خلفاء عباسیہ میں سب سے بڑ ا شاعر اور ادیب تھا وہ حنفی المذہب تھا۔ ( تاریخ ابن خلکان)۔

خلافتِ عباسیہ کے تنزل کے ساتھ جن خاندانوں کو عروج ہوا اکثر حنفی تھے۔ خاندانِ سلجوق جس نے ایک وسیع مدت تک حکومت کی اور جن کے دائرہ حکومت کی وسعت طول میں کاشغر سے لے کر بیت المقدس تک اور عرض میں قسطنطنیہ سے بلادِ خرز تک پہنچی، حنفی تھا۔

محمود غزنوی جس کے نام سے ہندوستان کا بچہ بچہ واقف ہے فقہ حنفی کا بہت بڑ ا عالم تھا۔ فن فقہ میں اس کی ایک نہایت عمدہ تصنیف موجود ہے جسکا نام"التفرید" ہے اور جس میں کم و بیش ساٹھ ہزار مسئلے ہیں۔

نورالدین زنگی کا نام چھپا ہوا نہیں ہے وہ ہمارے ہیروز میں داخل ہے۔ بیت المقدس کی لڑائیوں میں اول اسی نے نام حاصل کیا۔ صلاح الدین فاتحِ بیت المقدس اسی کے دربار کا ملازم تھا۔ دنیا میں پہلا دارالحدیث اس نے قائم کیا۔ وہ خود اور اس کا تمام خاندان مذہباً حنفی تھا۔ (الجوہر المضئیہ)۔
داعیان دین کی کوششیں اورکاوشیں

یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ سلطنت عباسیہ کے خلفاء حنفی مذہب سے ارادت اورعقیدت رکھتے تھے۔سلطنت عباسیہ کے قاضی اورچیف جسٹس وغیرہ حنفی ہواکرتے تھے۔یہ حکومتیں کفر کی سرزمین پر لشکرکشی کیاکرتی تھیں۔ اسلامی تعلیمات سے متاثر ہوکر ہزاروں افراد اسلام لے آتے تھے۔ان نومسلموں کواسلامی تعلیمات سکھانے کی ذمہ داری قاضیوں کی ہواکرتی تھی ۔یہ قاضی چونکہ خود بھی حنفی ہوتے تھے؛ لہٰذا ان کو مسائل فقہیہ کی تعلیم بھی فقہ حنفی کے مطابق دیاکرتے تھے۔ اس طرح رفتہ رفتہ تھوڑے ہی عرصہ میں فقہ حنفی نے ایک بڑی اوروسیع جگہ پیداکرلی۔بالخصوص نومسلمین تمام کے تمام فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ ان نومسلمین قبائل میں سے آگے چل کر جنھوں نے سلطنت وحکومت کی باگ ڈورسنبھالی۔ جیسے کہ سلجوقی،مغل،آل عثمان وغیرہ ۔وہ سب کے سب بھی حنفی ہوئے۔اس کے علاوہ بھی دیگر داعیانِ دین جنہوں نے انفرادی طورپر دعوت دین کاعلم بلند کیاوہ بھی زیادہ تر حنفی تھے۔

جب چنگیز خان کی قیادت میں تاتاریوں نے عالم اسلامی کوروند دیاتواس وقت عالم اسلام زوال کا شکار تھا۔ اورایسالگتاتھاکہ اس کے دن پورے ہوچکے ہیں؛ لیکن خداکی رحمت جوش میں آئی اورفاتحین نے مفتوحین کے مذہب کوقبول کرلیا۔

چنگیز خان کی حکومت اس کے بیٹوں میں تقسیم کردی گئی تھی۔چنگیز کے بڑے بیٹے کی نسل جوجی خان میں سے برکہ خان نے اسلام قبول کیا،اس طرح کہ اس کو خود اسلام کی طرف رغبت ہوئی اور اس نے مسلم تاجروں سے اس کے حوالے سے پوچھااوراسلام قبول کرلیااوراپنے چھوٹے بھائی کوبھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔

چنگیز خان کا پوتاقازان بن ارغوان امیرتوزون کی تلقین سے ان کے ہاتھ پرمشرف بہ اسلام ہوا۔چنگیز خان کے خاندان کی تیسری شاخ جو بلادمتوسطہ پر قابض تھی، اس میں سے تیمور خان نے ایک مسلم داعی شیخ جمال الدین کاشغر کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا۔(بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۳۳۱)

حقیقت یہ ہے کہ مغل اورترک تمام کے تمام حنفی گزرے ہیں اوراس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے جن کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیاوہ سب حنفی تھے، لہٰذا اس اثر سے انھوں نے بھی فقہیات میں حنفی مسلک کواپنایا۔

اسی طرح ہم ہندوستان میں دیکھیں کہ حضرات صوفیاء کرام کے وجود باجود سے ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت ہوئی ۔صرف خواجہ اجمیر ی کے تعلق سے بعض مورخین نے لکھاہے کہ 90لاکھ افراد حلقہ بگوش اسلام ان کی وجہ سے ہوئے۔پھران کے خلفاء اورمریدین نے دوردراز کے مقامات پر جس طرح اسلام کو پھیلایا،وہ تاریخ کاحصہ ہے۔

سیر الاولیاء کے مصنف حضرت خواجہ معین الدین چشتی اوران کے خلفاء کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”ملک ہندوستان اپنے آخری مشرقی کنارہ تک کفروشرک کی بستی تھی ۔اہل تمرد انا ربکم الاعلیٰکی صدالگارہے تھے۔اورخداکی خدائی میں دوسری ہستیوں کوشریک کرتے تھے اوراینٹ، پتھر، درخت،جانور،گائے کوسجدہ کرتے تھے۔کفر کی ظلمت سے ان کے دل تاریک اورمقفل تھے۔ سب دین وشریعت سے غافل،خداوپیغمبر سے بے خبرتھے۔ نہ کسی نے قبلہ کی سمت پہچانی۔نہ کسی نے اللہ اکبرکی صداسنی،آفتاب اہل یقین حضرت خواجہ معین الدین کے قدم مبارک کا یہاں پہنچنا تھاکہ اس ملک کی ظلمت نوراسلام سے مبدل ہوگئی۔اوران کی کوشش وتاثیر سے جہاں شعائرشرک تھے، وہاں مسجد ومحراب ومنبر نظرآنے لگے۔ جوفضاء شرک کی صداؤں سے معمورتھی، وہ نعرئہ اللہ اکبر سے گونجنے لگی۔اس ملک میں جس کو اسلام کی دولت ملی اورقیامت تک جوبھی اس دولت سے مشرف ہوگا۔ نہ صرف وہ بلکہ اس کی اولاد دراولاد نسل درنسل سب ان کے نامہ اعمال میں ہوں گے اوراس میں قیامت تک جوبھی اضافہ ہوتارہے گا اوردائرہ اسلام وسیع ہوتارہے گا۔ قیامت تک اس کاثواب شیخ الاسلام معین الدین حسن سنجری کی روح کو پہنچتارہے گا“۔ (سیر اولیاء ص۴۷، بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۲۸-۲۹)

سیر الاقطاب کے مصنف لکھتے ہیں:

”ہندوستان میں ان کی وجہ سے اسلام کی اشاعت ہوئی اورکفر کی ظلمت یہاں سے کافور ہوئی“۔(سیرالاقطاب۱۰۱)

یہ صرف صوفیانہ خوش عقیدگی نہیں ہے؛ بلکہ دیگر مورخین نے بھی اس کااعتراف کیاہے۔ ابوالفضل آئین اکبری میں لکھتاہے:

”اجمیر میں عزلت گزریں ہوئے اوراسلام کا چراغ بڑی آب وتاب سے روشن کیااوران کے انفاسِ قدسیہ سے جوق درجوق انسانوں نے ایمان کی دولت پائی“۔ (آئین اکبری،سرسید ایڈیشن ص ۲۷۰،بحوالہ تاریخ دعوت وعزیمت ص۳۰)

یہ سب صوفیائے کرام چونکہ حنفی تھے، لہٰذا نومسلم بھی فقہ حنفی سے ہی وابستہ ہوئے۔

برصغیر ہندوپاک میں کس طرح اسلام پھیلا۔اس پرپروفیسر آرنلڈ کی کتاب ”پریچنگ آف اسلام“ کا مطالعہ کیاجائے۔ہم اس مختصر مضمون میں کچھ اشارے کردیتے ہین بالخصوص ہندوستان کے تعلق سے۔

کشمیر جوبرہمنوں کا گڑھ تھا،اس کو سید علی ہمدانی نے اپنی دعوتی کوششوں سے اسلام کے مرکز میں تبدیل کردیااوراس طرح تبدیل کیاکہ آبادی کاتوازن ہی بالکل الٹ دیا۔جہاں کبھی برہمن اکثریت میں تھے، اب وہ اقلیت میں آگئے۔سید علی ہمدانی حنفی تھے، لہٰذا ظاہرسی بات ہے کہ ان کے اثر سے اسلام قبول کرنے والے بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔

خواجہ معین الدین چشتی اجمیری نے جس طرح ہندوستان میں اسلام کی نشرواشاعت کی۔ اس کے بارے میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

”سلسلہٴ چشتیہ کی بنیاد ہندوستان میں پہلے ہی دن سے اشاعت وتبلیغ اسلام پر پڑی تھی۔ اوراس کے عالی مرتبت بانی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے ہاتھ پر اس کثرت سے لوگ مسلمان ہوئے کہ تاریخ کے اس اندھیرے میں اس کا اندازہ لگانابھی مشکل ہے“۔(تاریخ دعوت وعزیمت جلد سوم)

پنجاب کے مغربی صوبوں کے باشندوں نے خواجہ بہاء الحق ملتانی اوربابافرید پاک پٹن کی تعلیم سے اسلام قبول کیا۔یہ دونوں بزرگ تیرہویں صدی عیسوی کے قریب خاتمہ اورچودھویں صدی عیسوی کے شروع میں گزرے ہیں۔ بابافرید گنج کے بارے میں مصنف نے لکھاہے کہ انھوں نے سولہ قوموں (برادریوں)کو تعلیم وتلقین سے مشرف بہ اسلام کیا۔ (پریچنگ آف اسلام)

اس کے علاوہ تمل ناڈو کے بارے میں آتاہے کہ وہا ں نویں صدی میں ایک بزرگ مظہر نامی آکربسے تھے اوران کے ساتھ۹۰۰ مریدین تھے۔ انھوں نے وحشیوں کو زیربھی کیااوراپنے اخلاق وکردارسے ان کو اسلام کی جانب مائل بھی کیا۔بنگال وبہار میں بھی اسلام کی شاعت صوفیاء کرام ہی کے زیر اثر ہوئی۔اوریہ بات مخفی نہیں ہے کہ صوفیاء کرام میں سے تمام کے تمام حنفی تھے، لہٰذا ان کے وابستگان بھی فقہ حنفی سے وابستہ ہوئے۔

انڈونیشیااورملیشیاء میں حنفیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔جب کہ وہاں پر کوئی لشکر کشی نہیں ہوئی، وہاں تاجروں کے ذریعہ اسلام پھیلا۔گمان غالب یہ ہے کہ یہ تاجربھی حنفی ہوں گے اوران کے اثر سے اسلام قبول کرنے والوں نے فقہ حنفی کو اپنایاہوگا۔

یہ اگرچہ انتہائی مختصر جائزہ ہے؛ لیکن اس سے اتنی بات ثابت ہورہی ہے کہ صوفیاء کرام اور داعیان دین کا فقہ حنفی کی نشرواشاعت میں اہم کردارہے۔

۷- حکومت وسلطنت کااثر

عمومی طورپر مورخین نے بھی فقہ حنفی کے قبولِ عام اوراقطارِعالم میں پھیلنے کاایک سبب حکومت وسلطنت کی سرپرستی قراردیاہے۔اورامام ابویوسف کے عباسی سلطنت میں قاضی القضاة (چیف جسٹس)بننے کو بڑی وجہ قراردیاہے۔

ابن حزم لکھتے ہیں:

مذہبان انتشرا فی بدء امرھمابالریاسة الحنفی بالمشرق والمالکی بالاندلس (وفیات الاعیان۲/۲۱۶)

دومذہب ابتداء میں حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے پھیلے مشرق میں حنفی اوراندلس میں مالکی مذہب۔

ابن خلدون لکھتے ہیں:

”امام ابوحنیفہ کے ماننے والے آج عراقی، سندھی، چینی ،ماوراء النہر اورتمام عجمی شہروں کے مسلمان ہیں؛ کیونکہ ان کامذہب خصوصیت سے عراق اوردارالسلام کامذہب تھااورسرکاری مذہب کو ہی زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے“۔

حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:

وَکَانَ اشہرَ اَصْحَابہ ذکرا اَبُو یُوسُفَ تولّٰی قَضَاءَ الْقُضَاةِ اَیَّامَ ہَارُونِ الرشید فَکَانَ سَببًا لظُہُور مذْہبہ وَالْقَضَاء بِہِ فِی اقطارِ الْعرَاقِ وخراسان وَمَا وَرَاءِ النَّہر (الانصاف فی اسباب الاختلاف ص ۳۹)

اس سے انکار نہیں کہ یہ بھی فقہ حنفی کے نشرواشاعت کاایک سبب ہے؛ لیکن اسی کو مکمل سبب قراردینا،نہ صرف امام ابوحنیفہ اوران کے شاگردوں کے کارناموں کے ساتھ ظلم ہے؛ بلکہ ان تمام فقہائے احناف کے ساتھ ظلم ہے، جنہوں نے اپنی پوری زندگی فقہ حنفی کی خدمت میں لگادی۔

دورحاضر میں یہ ایک طرفہ تماشاہے کہ کچھ لوگ حنفیوں کی کثر تِ تعداد پر توفوراًان آیتوں کی تلاوت شروع کردیتے ہیں، جن میں اکثریت کو گمراہ بتایاگیاہے؛ لیکن اسی کے ساتھ پورے تن من دھن سے اپنی جماعت کی تکثیر کی بھی کوشش کرتے ہیں اور اس کثرت کے حصول میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے۔

یہ بھی کسی لطیفہ سے کم نہیں ہے کہ ہمارے کچھ مہربان فقہ حنفی کی نشرواشاعت کے تمام اسباب وذرائع کونگاہ میں رکھنے کے بجائے، بس ایک ہی راگ الاپتے رہتے ہیں کہ فقہ حنفی کے پھیلنے میں سلطنت وحکومت کاکام ہے۔ان سے بس اتناساسوال ہے کہ چلوفقہ حنفی کے انتشار وشیوع میں توسلطنت وحکومت کاہاتھ ہے؛ لیکن آپ اپنی غیرمقلدیت کی توسیع واشاعت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ کی تمام تر اچھل کود کیاصرف پٹرول اور ریال کی مرہون منت نہیں ہے؟ وہ راز اب راز نہیں؛ بلکہ طشت ازبام ہوکر شہرت عام سے فائز المرام ہوچکا ہے۔

مستشرقین کایہ عمومی الزام رہاہے کہ اسلام تلوار سے پھیلاہے؛ لیکن مستشرقین خودیہ بھول جاتے ہیں کہ عیسائیت کس طرح پھیلی ہے،اس کاجواب اکبرالہ آبادی نے بڑا ہی اچھا دیاہے۔وہ کہتے ہیں:
ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7‏-8 ، جلد: 99 ‏، رمضان - شوال 1436 ہجری مطابق جولائی -اگست 2015ء
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ھجری میں جو محمد بن قاسم نے ایران، مکران اور سندھ وغیرہ علاقے فتح کئے، اس وقت تک تو حنفیوں کے امام کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ غیر مقلد اہلحدیث ہی تھے جنہوں نے اول اول اسلام ان علاقوں میں پھیلایا۔ لہٰذا اہلحدیث کی وجہ سے آج حنفی اور دیگر مقلد کلمہ پڑھتے ہیں، نا کہ اس کے برعکس۔
اس کا جواب اوپر کی تحریر مین مجواد ہے
مزید خلافت عباسی حنفی تھی اس کا نقشہ ملاخت کریں اس میں محمد بن قاسم کا فتح کردہ علاقہ بھی ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
اس کا جواب اوپر کی تحریر مین مجواد ہے
مزید خلافت عباسی حنفی تھی اس کا نقشہ ملاخت کریں اس میں محمد بن قاسم کا فتح کردہ علاقہ بھی ہے
پہلی بات ہے کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ حنفی نہیں اہل حدیث تھے

میں احناف کو بھی اپنے جیسا مسلمان ہی سمجھتا ہوں البتہ انکو اجتہدی غلطی پہ سمجھتا ہوں اگر عقائد میں غلطیاں نہ کرتے ہوں
مگر جو یہ بات چھوڑی گئی ہے کہ کوئی ہل حدیث حکمران کیوں نہ گزرا پس اہل حدیث غلط ہوئے تو یہ بے عقلوں والی بات ہے ابھی جلدی میں کچھ لکھتا جاؤں

1-فقہ حنفی پہ تو سب متفق ہیں کہ یہ چوتھی صدی میں آئی پس اس سے پہلے تو اہل حدیث کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا پس انکا اعتراض اگر ہے بھی تو زیادہ سے زیادہ چوتھی صدی کے بعد پہ ہو سکتا ہے کہ اسکے بعد بھی اہل حدیث حکمران کیوں نہ ہوئے
2-خیر القرون قرنی کے تحت تین ادوار بہترین تھے اسی طرح حذیفہ رضی اللہ عنہ کی غلبا حدیث کہ پہلے میں لوگوں سے کاروبار کر لیتا تھا اشتراکت میں یا تو اسکا ایمان مجھے لوٹا دیتا یا پھر حکمران لوٹا دیتا اب معملہ یہ نہیں رہا یعنی صحابہ کے دور میں معاملہ حکمرانوں کا کہاں تھا دوسرا ہم سب بنو امیہ میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کوعادل مانتے ہیں باقیوں کو مسلمان حکمران تو مانتے ہیں مگر سب میں غلطیاں مانتے ہیں
پس فسق و فجور یا کم از کم کچھ نہ کچھ گناہوں کا معاملہ عوام میں تو آ ہی گیا تھا حکمرانوں میں بھی یہ معاملہ تھا پس کوئی اگر یہ کہے کہ چونکہ حکمران زیادہ تر غیر عادل یا غیر ثقہ تھے تبھی علماء و محدثین انکے پاس جانے سے کتراتے تھے پس اسکا مطلب ہے کہ وہی کردار والے یعنی فاسق و فاجر یا گناہ گار ہی لوگ درست تھے کیونکہ صحیح مومنوں کو تو حکومت ملی ہی نہیں
خلافت اور نبوت یا حق کا ایک جگہ جمع ہونا کوئی لازمی نہیں سلام کے وارث علماء ہیں نہ کہ حکمران پس حکمران جو رہے وہ جس طرح عدالت میں یا ایمان میں کمزور ایمان والے یا پھر فاسق و فاجر کبھی رہے ہیں اسی طرح وہ عقائد یا فروعات میں بھی غلط کیوں نہ رہے ہوں گے جہاں انکو آسانیاں ملتی ہوں اس میں کون سا مشکل سمجھنے کا معاملہ ہے
اس طرح تو پھر لوگ کہیں گے کہ آجکل چونکہ فاسق و فاجر حکمران ہیں پس فسق و فجور اختیار کرنے والے ہی درست ہیں کیونکہ تمام مسلمان حکمومتوں کو فاسق و فاجر یا کمزور ایمان والوں نے ہی کنٹرول کر رکھا ہے
اللہ کا ارشاد ہے کہ انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء تو ہمارے لئے یہ سکیل ہے نہ کہ حکمران
پس اگر کوئی اعتراض کرنا چاہئے کہ کیو ہمارے حکمران کسی دور میں رہے ہیں تو اس پہ ہم بات کر سکتے ہیں
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
میں احناف کو بھی اپنے جیسا مسلمان ہی سمجھتا ہوں البتہ انکو اجتہدی غلطی پہ سمجھتا ہوں اگر عقائد میں غلطیاں نہ کرتے ہوں
مگر جو یہ بات چھوڑی گئی ہے کہ کوئی ہل حدیث حکمران کیوں نہ گزرا پس اہل حدیث غلط ہوئے تو یہ بے عقلوں والی بات ہے ابھی جلدی میں کچھ لکھتا جاؤں
آپ نے صحیح فرمایاکہ یہ بے عقلوں کی بات ہے لیکن ہم نے کئی بے عقلوں کو اسی طرح کی بے عقلی کی بات کرتے ہوئے دیکھاہے جو یہ کہتے ہیں کہ سعودی عربیہ میں فلاں کام ایساہوتاہے یہاں بھی ایساہوناچاہئے، بے عقلی کی انتہاتویہ ہے کہ روزہ اورعید بھی سعودیہ کے چاند کے مطابق کرنے پر مصر رہتے ہیں۔
فقہ حنفی پہ تو سب متفق ہیں کہ یہ چوتھی صدی میں آئی پس اس سے پہلے تو اہل حدیث کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا پس انکا اعتراض اگر ہے بھی تو زیادہ سے زیادہ چوتھی صدی کے بعد پہ ہو سکتا ہے کہ اسکے بعد بھی اہل حدیث حکمران کیوں نہ ہوئے
لگتاہے کہ آنجناب اس پیراگراف کے لکھتے وقت اونگھ کی حالت میں تھے لہذا تقلید شخصی اور فقہ حنفی دونوں آنجناب پر گڈمڈ ہوگئی،براہ کرم تقلید شخصی (اگرچہ وہ بھی چوتھی صدی سے پہلے کی چیز ہے)اورفقہ حنفی دونوں ایک نہیں ہے اوردونوں میں فرق کرناسیکھئے۔
خلافت اور نبوت یا حق کا ایک جگہ جمع ہونا کوئی لازمی نہیں سلام کے وارث علماء ہیں نہ کہ حکمران پس حکمران جو رہے وہ جس طرح عدالت میں یا ایمان میں کمزور ایمان والے یا پھر فاسق و فاجر کبھی رہے ہیں اسی طرح وہ عقائد یا فروعات میں بھی غلط کیوں نہ رہے ہوں گے جہاں انکو آسانیاں ملتی ہوں اس میں کون سا مشکل سمجھنے کا معاملہ ہے
علماء اسلام کے وارث ہیں یہ کس حدیث یاآیت کا ترجمہ ہے، علماء انبیاء کے وارث اور علوم دین کے حامل ہیں۔اسلام کا وارث ہرسچاپکامسلمان ہے چاہے وہ عالم ہو یانہ ہ،کیامجاہدین اسلام کے وارث نہیں ہیں خواہ وہ عالم ہوں یانہ ہوں۔میں آخری جملہ سمجھنے سے قاصر ہوں کیایہ کہناچاہتے ہیں کہ فقہ حنفی میں آسانی ملی اسی لئے حکمرانوں نے فقہ حنفی قبول کرلیا۔اگریہی بات ہے تو ذرااخلاقی جرات دکھاتے ہوئے کھل کر لکھیں تاکہ آپ کی غلط فہمی کو پورے طورپر دورکیاجاسکے۔
پہلی بات ہے کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ حنفی نہیں اہل حدیث تھے
یہ کس کتاب میں لکھاہے کہ محمد بن قاسم اہل حدیث تھے؟اوریہ خوش فہمی کہاں سے دماغ میں راہ پاگئی کہ فقہ حنفی کے نشوونما سے پہلے سب اہل حدیث تھے اور اس دعوی کی دلیل کیاہے؟واضح رہے کہ دعویٰ جتنا عام ہے دلیل بھی اتناہی عام ہوناچاہئے۔
وماتوفیقی الاباللہ
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
آپ نے صحیح فرمایاکہ یہ بے عقلوں کی بات ہے لیکن ہم نے کئی بے عقلوں کو اسی طرح کی بے عقلی کی بات کرتے ہوئے دیکھاہے جو یہ کہتے ہیں کہ سعودی عربیہ میں فلاں کام ایساہوتاہے یہاں بھی ایساہوناچاہئے، بے عقلی کی انتہاتویہ ہے کہ روزہ اورعید بھی سعودیہ کے چاند کے مطابق کرنے پر مصر رہتے ہیں۔
میرے بھائی اسکی وجہ یہ نہیں کہ سعودیہ کو وہ کوئی علاقے کی وجہ سے شرعی دلیل مانتے ہیں بلکہ اور وجوہات ہوتی ہیں مثلا
پاکستان میں اعلان کرنے والی ہماری کمیٹی مشرک لوگوں پہ مشتمل ہے جنکی گواہی کو قبول کرنا شریعت کی صریح خلاف ورزی ہے اس لئے وہ انکی گواہی کو قبول کر لیتے ہیں دوسرا کچھ س وجہ سے بھی کرتے ہیں کہ جہاں پہلی دفعہ چاند نظر آ جائے تو پوری دنیا کے لئے وہ حجت ہو سکتا ہے اس پہ اگر آپ کو کوئی بحث کرنی ہے تو میں وہ متعلقہ تریڈ بتا دیتا ہوں اس میں کر لیں اگر آپ کے پس کوئی دلئل ہیں کیونکہ میں پاکستان کی کمیٹی کو غیر شرعی کمیٹی سمجھتا ہوں

لگتاہے کہ آنجناب اس پیراگراف کے لکھتے وقت اونگھ کی حالت میں تھے لہذا تقلید شخصی اور فقہ حنفی دونوں آنجناب پر گڈمڈ ہوگئی،براہ کرم تقلید شخصی (اگرچہ وہ بھی چوتھی صدی سے پہلے کی چیز ہے)اورفقہ حنفی دونوں ایک نہیں ہے اوردونوں میں فرق کرناسیکھئے۔
بھائی یہاں اوپر بات ہی تقلید شخصی کے پس منظر میں ہو رہی تھی اور میں وہاں شاہ ولی اللہ کا حوالہ لکھنے بھی لگا اسکی وجہ یہ ہے کہ تقلید مطلق کا انکار تو ہم بھی نہیں کرتے اور میرے نزدیک اہل حدیث بھی تقلید کرتے ہیں مگر وہ تقلید مطلق ہوتی ہے اس پہ میری پہلے بھی بحث ہو چکی ہے پس میں تقلید شخصی کو ہی وہ تقلید سمجھتا ہوں جس کا رد کرتا ہوں پس اس سے پہلے سارے میرے نزدیک اہل حدیث ہی تھے

علماء اسلام کے وارث ہیں یہ کس حدیث یاآیت کا ترجمہ ہے، علماء انبیاء کے وارث اور علوم دین کے حامل ہیں۔اسلام کا وارث ہرسچاپکامسلمان ہے چاہے وہ عالم ہو یانہ ہ،کیامجاہدین اسلام کے وارث نہیں ہیں خواہ وہ عالم ہوں یانہ ہوں۔میں آخری جملہ سمجھنے سے قاصر ہوں کیایہ کہناچاہتے ہیں کہ فقہ حنفی میں آسانی ملی اسی لئے حکمرانوں نے فقہ حنفی قبول کرلیا۔اگریہی بات ہے تو ذرااخلاقی جرات دکھاتے ہوئے کھل کر لکھیں تاکہ آپ کی غلط فہمی کو پورے طورپر دورکیاجاسکے۔
إن العلماء ورثة الأنبياء، إن الأنبياء لم يورثوا ديناراً ولا درهماً إنما ورثوا العلم فمن أخذه أخذ بحظ وافر. رواه الترمذي وغيره وصححه الألباني.
اور بھائی ہمارے ہاں تو کسی بھی چیز کا علم رکھنے والا اس چیز کا عالم ہی ہو گا چاہے اسکے سترہ یا سولہ علوم آتے ہوں یا نہیں یعنی ہر سچا پکا مسلمان کچھ باتوں کا عالم ہی ہوتا ہے ورنہ بغیر عالم کے کوئی عامل ہی نہیں ہو سکتا اور بغیر عامل کے کوئی سچا مسلمان ہی نہیں ہو سکتا لیکن میں نے اوپر یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اگر آپ نے اسی طرح کے معیار بنانے ہیں تو حکمران کی بجائے عالم کا معیار بنائیں اور پھر سوال کریں
جہاں تک حکمرانوں کی آسانی والی بات ہے تو میں ان بحثوں میں پڑتا نہیں لیکن یہاں چونکہ مخالفین نے حکمرانوں کو غلط معیار بنایا تھا تو میں نے کہا کہ ان حکمرانوں کو ہی معیار بنانا ہے تو پھر انکے بارے تواکثر فقہاء اور محدثین یہ کہتے کہ انکے پاس جانے سےبچنا چاہئے ورنہ یا تو آپ کو تکلیف اٹھانا پڑے گی یا پھر نکے لئے کوئی آسانی نکالنی پڑے گی اور جس میں آپ کو رائے کی آسانی ہو اس میں گنجائش نکالنا آسان ہوتا ہے یہ سب صرف جوابا لکھا تھا

یہ کس کتاب میں لکھاہے کہ محمد بن قاسم اہل حدیث تھے؟اوریہ خوش فہمی کہاں سے دماغ میں راہ پاگئی کہ فقہ حنفی کے نشوونما سے پہلے سب اہل حدیث تھے اور اس دعوی کی دلیل کیاہے؟واضح رہے کہ دعویٰ جتنا عام ہے دلیل بھی اتناہی عام ہوناچاہئے۔
وماتوفیقی الاباللہ
میں نے یہ اوپر لکھ دیا ہے کہ میں بعض اہل حدیث سے بھی اس سلسلے میں اختلاف رکھت ہوں کہ میرے نزدیک کثریت اہل حدیث بھی تقلید کرتی ہے مگر میں اس تقلید کو اجتہادی غلطی نہیں بلکہ ضرورت سمجھتا ہوں البتہ میرا اجتہادی اختلاف تقلید شخصی سے شروع ہوتا ہے پس میرے نزدیک تقلید مطلق کرنے والا اہل حدیث ہی ہو گا پس تقلید شخصی کے فرض ہونے سے پہلے میرے نزدیک اکثریت غلط نہیں تھی یعنی اہل حدیث تھی
 
Top