• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی اہل حدیث نے کوئی علاقہ فتح کیا تحقیق درکار ہے

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
1-فقہ حنفی پہ تو سب متفق ہیں کہ یہ چوتھی صدی میں آئی پس اس سے پہلے تو اہل حدیث کے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا پس انکا اعتراض اگر ہے بھی تو زیادہ سے زیادہ چوتھی صدی کے بعد پہ ہو سکتا ہے کہ اسکے بعد بھی اہل حدیث حکمران کیوں نہ ہوئے
یہ آپ کا پہلا جملہ ہے جس میں آپ نے فقہ حنفی کی آمد چوتھی صدی میں بتائی ہے۔
بھائی یہاں اوپر بات ہی تقلید شخصی کے پس منظر میں ہو رہی تھی اور میں وہاں شاہ ولی اللہ کا حوالہ لکھنے بھی لگا اسکی وجہ یہ ہے کہ تقلید مطلق کا انکار تو ہم بھی نہیں کرتے اور میرے نزدیک اہل حدیث بھی تقلید کرتے ہیں مگر وہ تقلید مطلق ہوتی ہے اس پہ میری پہلے بھی بحث ہو چکی ہے پس میں تقلید شخصی کو ہی وہ تقلید سمجھتا ہوں جس کا رد کرتا ہوں پس اس سے پہلے سارے میرے نزدیک اہل حدیث ہی تھے
اوریہاں اس کی ایسی تاویل فرمائی ہے کہ ناطہ سربگریباں ہے اسے کیاکہئےاورخامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیالکھئے،فقہ حنفی امام ابوحنیفہ سے منسوب ہے، امام ابوحنیفہ کا انتقال 150ہجری میں ہوا، تو فقہ حنفی چوتھی صدی کی چیز کیسے ہوگئی۔فقہ حنفی تو خیرالقرون کی چیز ہے۔چوتھی صدی کی چیز قطعآنہیں ہے۔
میرے بھائی اسکی وجہ یہ نہیں کہ سعودیہ کو وہ کوئی علاقے کی وجہ سے شرعی دلیل مانتے ہیں بلکہ اور وجوہات ہوتی ہیں مثلا
پاکستان میں اعلان کرنے والی ہماری کمیٹی مشرک لوگوں پہ مشتمل ہے جنکی گواہی کو قبول کرنا شریعت کی صریح خلاف ورزی ہے اس لئے وہ انکی گواہی کو قبول کر لیتے ہیں دوسرا کچھ س وجہ سے بھی کرتے ہیں کہ جہاں پہلی دفعہ چاند نظر آ جائے تو پوری دنیا کے لئے وہ حجت ہو سکتا ہے اس پہ اگر آپ کو کوئی بحث کرنی ہے تو میں وہ متعلقہ تریڈ بتا دیتا ہوں اس میں کر لیں اگر آپ کے پس کوئی دلئل ہیں کیونکہ میں پاکستان کی کمیٹی کو غیر شرعی کمیٹی سمجھتا ہوں
یہ بھی الگ طرفہ تماشاہے ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اورچاند دیکھ کر عید منائو ،اگر کمیٹی مشرک لوگوں پر مشتمل ہے توزیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتاہے کہ آپ ان کی خبر پر اعتماد نہ کریں بلکہ خود چاند دیکھنے کی کوشش کریں لیکن اس کے بجائے سعودیہ کے چاند سے روزہ رکھنا ،عید منانا کس منطق سے جائز ہوگیا۔

میں نے یہ اوپر لکھ دیا ہے کہ میں بعض اہل حدیث سے بھی اس سلسلے میں اختلاف رکھت ہوں کہ میرے نزدیک کثریت اہل حدیث بھی تقلید کرتی ہے مگر میں اس تقلید کو اجتہادی غلطی نہیں بلکہ ضرورت سمجھتا ہوں البتہ میرا اجتہادی اختلاف تقلید شخصی سے شروع ہوتا ہے پس میرے نزدیک تقلید مطلق کرنے والا اہل حدیث ہی ہو گا پس تقلید شخصی کے فرض ہونے سے پہلے میرے نزدیک اکثریت غلط نہیں تھی یعنی اہل حدیث تھی
جب مطلق تقلیدآپ کے نزدیک جائز ہے تو تقلیدشخصی کیسے ناجائز ہوگئی،ایک شخص دس علماء سے مسئلہ پوچھے اورایک شخص ہرمسئلہ میں ایک ہی عالم سے مسئلہ پوچھے توایک ہی عالم سے مسئلہ پوچھنے کا عمل کس بنیاد پر ناجائز ہے؟
دوسرے احناف بایں معنی تقلید شخصی کہاں کرتے ہیں کہ ہرہرمسئلہ میں ایک ہی فرد کی رائے پر عمل کیاجاتاہو، بعض مسائل میں صاحبین کے قول پر عمل ہوتاہے،17مسائل ایسے ہیں جن میں امام زفر کے قول پر فتوی اورعمل ہے اور بعض مسائل ایسے ہیں جہاں متاخرین نے ان تمام کی رائے سے ہٹ کر دیگر اقوال پر فتویٰ کا مدار رکھاہے توپھر فقہ حنفی میں اوراحناف میں تقلید شخصی کا گذر کہاں سے ہوگیا؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
یہ آپ کا پہلا جملہ ہے جس میں آپ نے فقہ حنفی کی آمد چوتھی صدی میں بتائی ہے۔

اوریہاں اس کی ایسی تاویل فرمائی ہے کہ ناطہ سربگریباں ہے اسے کیاکہئےاورخامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیالکھئے،فقہ حنفی امام ابوحنیفہ سے منسوب ہے، امام ابوحنیفہ کا انتقال 150ہجری میں ہوا، تو فقہ حنفی چوتھی صدی کی چیز کیسے ہوگئی۔فقہ حنفی تو خیرالقرون کی چیز ہے۔چوتھی صدی کی چیز قطعآنہیں ہے۔
بھائی میں کیسے سمجھاؤں کہ میں امام ابو حنیفہ کی بات نہیں کر رہا میں تو اس فقہ حنفی کی بات کر رہا ہوں جو آج کل یہاں رائج ہے یعنی متاخرین نے کچھ قول کسی کے کچھ کسی کے اور کچھ اپنی مرضی کے لے کر ایک فائنل اور فکس دین باقیوں کے لئے بنا دیا ہے جیسا کہ آپ نے خود اوپر کہا ہے اب یہ جو ایک خاص گروہ نے بنا دیا ہے چاہے وہ ایک شخص نے بنایا یا زیادہ نے اسکی بات ہو رہی ہے

یہ بھی الگ طرفہ تماشاہے ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اورچاند دیکھ کر عید منائو ،اگر کمیٹی مشرک لوگوں پر مشتمل ہے توزیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتاہے کہ آپ ان کی خبر پر اعتماد نہ کریں بلکہ خود چاند دیکھنے کی کوشش کریں لیکن اس کے بجائے سعودیہ کے چاند سے روزہ رکھنا ،عید منانا کس منطق سے جائز ہوگیا۔
بھائی یہ تو بچہ بھی جانتا ہے کہ خالی چاند دیکھ کر عید نہیں کی جاتی اگر ایسا ہوتا تو پھر یہ روئیت ہلال کمیٹی پاکستان والے مفتی منیب کیا کرتے ہیں وہ پوری قوم کو گواہی دیتے ہیں ناں کہ کسی نے چاند دیکھا ہے اسکی گواہی پہ عمل کر لو
خیر یہ ایک علیحدہ موضوع ہے میں تو بھائی جو کہتا ہوں اس پہ عمل کرتا ہوں مگر آپ ایسا نہیں کرتے ہوں گے اور میرا یہ چیلنج ہے کہ آپ کا اس سلسلے میں عمل بالکل دلیل سے نہیں ہو گا بلکہ آپ بس آنکھیں بند کر کے عید کے چاند کی تقلید کرتے ہوں گے اگر میرے چیلنج کو چیلنج کرنا ہے تو یہاں بات اور ہو رہی ہے
اسکے لئے مندرجہ ذیل لنک میں میرا تھریڈ موجود ہے وہاں جا کر بات کر لیتے ہیں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ اس سلسلے میں کوئی دلیل والا عمل کرتے ہیں اور اندھی تقلید نہیں کرتے
لنک

جب مطلق تقلیدآپ کے نزدیک جائز ہے تو تقلیدشخصی کیسے ناجائز ہوگئی،ایک شخص دس علماء سے مسئلہ پوچھے اورایک شخص ہرمسئلہ میں ایک ہی عالم سے مسئلہ پوچھے توایک ہی عالم سے مسئلہ پوچھنے کا عمل کس بنیاد پر ناجائز ہے؟
دوسرے احناف بایں معنی تقلید شخصی کہاں کرتے ہیں کہ ہرہرمسئلہ میں ایک ہی فرد کی رائے پر عمل کیاجاتاہو، بعض مسائل میں صاحبین کے قول پر عمل ہوتاہے،17مسائل ایسے ہیں جن میں امام زفر کے قول پر فتوی اورعمل ہے اور بعض مسائل ایسے ہیں جہاں متاخرین نے ان تمام کی رائے سے ہٹ کر دیگر اقوال پر فتویٰ کا مدار رکھاہے توپھر فقہ حنفی میں اوراحناف میں تقلید شخصی کا گذر کہاں سے ہوگیا؟
تلید مطلق اور تقلید شخصی کے فرق بارے بھی یہ تھریڈ نہیں آپ متعلقہ تھریڈ ڈھونڈ کے یا نیا بنا کے یہاں لنک لگا دیں وہاں جا کے فرصت ملنے پہ بات کر لیتے ہیں جزاک اللہ خیرا
 
شمولیت
جنوری 16، 2012
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
163
پوائنٹ
49
محمود غزنوی حنفی

وہ پہلے مسلمان حکمران تھے جنہوں نے ہندوستان پر 17 حملے کئے اور ہر حملے میں فتح حاصل کی ۔اس عظیم مجاہد کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے ہندوستان کے بت کدے لرز اٹھتے تھے ۔یہ بھی حنفی تھا

شہاب الدین غوری حنفی

شہاب الدین محمد غوری کی فوجی کارروائیاں موجودہ پاکستان کے علاقے سے شروع ہوئیں اور وہ مشہور عالم درہ خیبر کے بجائے درہ گومل سے پاکستان میں داخل ہوا۔ اس نے سب سے پہلے ملتان اور اوچ پر حملے کئے جو غزنویوں کے زوال کے بعد ایک بار پھر اسماعیلی فرقے کا گڑھ بن گئے تھےمحمد غوری نے 571ھ بمطابق 1175ء میں ملتان اور اوچ دونوں فتح کرلئے اس کے بعد 575ھ بمطابق 1179ء میں محمد غوری نے پشاور اور 576ھ بمطابق 1182ء میں دیبل کو فتح کرکے غوری سلطنت کی حدود کو بحیرہ عرب کے ساحل تک بڑھادیں۔ لاہور اس کے نواح کا علاقہ ابھی تک غزنوی خاندان کے قبضے میں تھا جن کی حکومت غزنی پر جہانسوز کے حملے کے بعد لاہور منتقل ہوگئی تھی۔ شہاب الدین محمد غوری نے 582ھ بمطابق 1186ء میں لاہور پر قبضہ کرکے غزنوی خاندان کی حکومت کو بالکل ختم کردی۔ یہ بھی حنفی تھا
ظہیر الدین محمد بابر حنفی

گوالیار ، حصار ، میوات ، بنگال اور بہار وغیرہ کو فتح کیا۔ اس کی حکومت کابل سے بنگال تک اور ہمالیہ سے گوالیار تک پھیل گئی یہ بھی حنفی تھا
اورنگزیب عالمگیر حنفی

1665ء میں آسام ، کوچ بہار اور چٹاگانگ فتح کیے اور پرتگیزی اور فرنگی بحری قزاقوں کا خاتمہ کیا۔ 1666ء میں سرحد کے شاعر خوشحال خان خٹک کی شورش اور متھرا اور علیگڑھ کے نواح میں جاٹوں کی غارت گری ختم کی۔ نیز ست نامیوں کی بغاوت فرو کی ۔ سکھوں کے دسویں اور آخری گرو گوبند سنگھ نے انند پور کے آس پاس غارت گری شروع کی اور مغل فوج سے شکست کھا کر فیروزپور کے قریب غیر آباد مقام پر جا بیٹھے۔ جہاں بعد میں مکتسیر آباد ہوا۔ عالمگیر نے انھیں اپنے پاس دکن بلایا یہ ابھی راستے میں تھے کہ خود عالمگیر فوت ہوگیا۔
اورنگزیب قرآن پاک پڑھتے ہوئے

عالمگیر نے 1666ء میں راجا جے سنگھ اور دلیر خان کو شیوا جی کے خلاف بھیجا۔ انھوں نے بہت سے قلعے فتح کر لے۔ شیواجی اور اس کا بیٹا آگرے میں نظربند ہوئے۔ شیواجی فرار ہو کر پھر مہاراشٹر پہنچ گیا۔ اور دوبارہ قتل و غارت گری شروع کی۔ 1680ء میں شیواجی مرگیا تو اس کا بیٹا سنبھا جی جانشین ہوا یہ بھی قتل و غارت گری میں مصروف ہوا۔ عالمگیر خود دکن پہنچا۔ سنبھا جی گرفتار ہو کر مارا گیا ۔ اس کا بیٹا ساہو دہلی میں نظربند ہوا۔ دکن کا مطالعہ کرکے عالمگیر اس نتیجے پرپہنچا کہ بیجاپور اور گولکنڈہ کی ریاستوں سے مرہٹوں کو مدد ملتی ہے اس نے 1686ء میں بیجاپور اور 1687ء میں گولگنڈا کی ریاستیں ختم کر دیں۔ اس کے بعد مرہٹوں کے تعاقب میں‌ ہندوستان کے انتہائی جنوبی حصے بھی فتح کر لیے۔ مغلیہ سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔

احمد شاہ ابدالی حنفی
ا س نے 1748ء تا 1767ء ہندوستان پر کئی حملے کیے۔پہلا معرکہ پنجاب کے حاکم میر معین الملک عرف میر منو کے ساتھ ہو اجس نے بہادری اور دلیری کی داستان رقم کی مان پور میں ہندوستانیوں کا بہادر جرنیل ڈٹا رہا آخرکار ابدالی فوج کو شکست ہوئی یہ مغل سلطنت کی آخری فتح تھی اس کے بعد مغلوں نے پنجاب کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ احمدشاہ ابدالی کے ہندوستان پر حملوں میں سے سب سے مشہور حملہ 1761ء میں ہوا۔ اس حملے میں اس نے مرہٹوں کو پانی پت کی تیسری لڑائی میں شکست فاش دی۔ کابل ، قندھار ، اور پشاور پر قبضہ کرنے کے بعد احمد شاہ ابدالی نے پنجاب کا رخ کیا اور سر ہند تک کا سارا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ 1756ء میں دہلی کو تاخت و تاراج کیا اور بہت سا مال غنیمت لے کر واپس چلا گیا۔ یہ بھی حنفی تھا
پہلی بات تو یہ ہے کہ سب کے سب فاتحین نہیں تھے زیادہ تر بادشاہ تھے
اورجو فاتحین تھے انہوں نے بھی پہلے سے مسلم علاقوں کو مقبوضہ بن جانے کے بعد چھڑوایا تھا۔
جو بادشاہ تھے ان کی بادشاہت کا سلسلہ باپ دادا (یا جانشین نامزد کرنے والوں)سے ہوتا ہوا صحابہ کرام سے چلا آرہا تھا کچھ کو تو جانشینی میں بادشاہت ملی تھی اور کچھ کو جدوجہد کرکے درباری سازشیوں سے گتھم گتھا ہوکر کبھی آپس میں لڑ بھِڑ کر لینی پڑی تھی۔جیسے اورنگ زیب عالمگیر ہے۔ایسی جنگوں سے جو آپس میں اقتدار کے لیے لڑی گئیں اُن سے مسلم اُمت کو کچھ بھی فائدہ نہ تھا۔یہ خالص اپنے مفاد کی جنگیں تھیں کیونکہ جن علاقوں میں یہ اقتدار حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں یا جنگیں لڑی گئی وہاں کی آبادی پہلے ہی سے مسلمان تھی مثال کے طور پر علاؤ الدین محمد خوارزم شاہ(حنفی) نے خلیفہ ناصر سے جنگیں لڑیں حالانکہ خوارزم کا علاقہ تخت بغداد خلیفہ ناصر کا ایک صوبہ تھا لیکن خوارزم شاہ نے نہ صرف خودکار حکومت قائم کی بلکہ خلیفہ ناصر کی فوجوں کو شکست بھی دی۔حالانکہ بغداد کا یہ صوبہ خوارزم پہلے سے مسلمان تھا اس کے علاوہ پھر خوارزم شاہ نے مسلمانوں ہی کے فتح کردہ علاقے اپنی سلطنت میں شامل کرلیے یہاں تک کہ شہاب الدین غوری جیسے عظیم فاتح کو بھی ایک میدان میں شکست دی۔اور اپنے مسلمان بھائیوں سے لڑ کر اُن کے پہلے سے مسلمان علاقوں کو فتح کیا گیا یہ کون سے فاتح ہوئے ایسے فاتح اپنے لیے تو فاتح ہونگے لیکن مسلم امت کے لیے نہیں۔ ہاں اس بات میں کچھ شک نہیں کہ ایسے حکمران جنہیں پہلے سے کلمہ گو مسلمان ریاستیں ملیں انہوں نے مزید چند نئے علاقے بھی فتح کیے اور اپنی حکومتوں کو مزید پھیلاؤ دیا لیکن یہ کہنا کہ پوری کی پوری ریاست انہی کی وجہ سے کلمہ گو بنی ہے بالکل نانصافی کی بات ہے۔ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ خوارزم کو سب سے پہلے فتح کس نے کیا تھا اور کس کی فتح کی بدولت یہاں کے عوام کلمہ پڑھتے چلے آرہے تھے۔کیوں کہ اس موضوع کو شروع کرنے والے مقلدین حضرات نے خود یہ اُ صول بنادیا ہے مزید آسانی کے لیے کہ جو فاتح ہوگا اُسی نے کلمہ پہنچایا ہے عوام کو اُس فاتح کا تعلق جس مسلک سے ہے کلمے کا تاج اُس کے سر پر یہ آپ کا اُصول ہے۔
یہی صورت ِ حال اورنگ زیب عالمگیر (حنفی)کے ساتھ بھی ہے اورنگ زیب نے مختلف لڑائیوں اور اپنے دربار کی سازشوں اور اپنے باپ کو قید کرکے(بعض جگہ باپ کو کڑاھے میں اُبلوا کے)خاصی جدوجہد کے بعد بادشاہت حاصل کی لیکن یہ ریاست ہر گز اورنگزیب کی وجہ سے کلمہ گو مسلمان نہیں ہوئی اورنگزیب نے پہلے سے مسلمان کلمہ گو ریاست پر حکومت کی اس کے باپ دادا اور اُن سے پہلے کے بادشاہ سب مسلمانوں پر ہی حکومت کرتے رہے اور اس ریاست میں پہلے سے مسلمان تھے۔یہاں بھی ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہندوستان کو سب سے پہلے فتح کس نے کیا تھا اور کس کی فتح کی بدولت یہاں کے عوام کلمہ پڑھتے چلے آرہے تھے۔یہاں ہندوستان میں بھی وہی اُصول رکھیں گے کہ علاقہ پہلے کس نے فتح کیا وہی کلمہ پڑھانے کا تاج پہنے گا۔
اب صلاح الدین ایوبی کو ہی دیکھ لیں بیت القدس کو حضرت عمر ؓ نے فتح کیا انکی اس فتح کے بعد سے یہاں کے لوگوں تک کلمہ پہنچا لوگ مسلمان ہوئے علاقہ مسلمانوں کا بن گیا پھر عیسائیوں نے تقریبا پانچ سو سال بعد یہ علاقے اپنے قبضے میں لے لیے جہاں کی عوام کلمہ گو مسلمان تھی جن تک کلمہ پہلے سے پہنچ چکا تھاصلاح الدین ایوبی نے ان پہلے سے کلمہ گو مسلم مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروایا تو کیا ان لوگوں تک فاتح ایوبی(آپ کے مطابق شافعی) کی وجہ سے کلمہ پہنچا جب کہ یہاں کے لوگوں کو حضرت عمر ؓ نے فتح کرکے کلمہ پہنچایا تھا۔
امیر یزید کے دور میں عقبہ بن نافع نے مغربی اقصیٰ فتح کیا۔
امیر معاویہ کے دور مین سندھ پر دوطرفہ حملہ کیا گیا ایک مہم مہلب اور دوسری بلوچستان کی طرف منذر کی سرکردگی میں کی گئی مہلب نے افغانستان کے علاقے بھی فتح کیے پھر سندھ میں داخل ہوا۔
امیر معاویہ کے دور میں ہی ترکستان اور شمالی افریقہ کی فتوحات ہوئیں۔انہی کے دور میں جزیرہ روڈس اور ارواڈ جزیرہ فتح ہوا۔
امیر یزید ہی کے دور میں مسلم بن زیاد نے خوارزم کو فتح کیا۔
حضرت ابوبکرؓ کے دور میں خالد بن ولیدؓ نے عراق کو فتح کرلیا تھا
حضرت عمر کے دور میں شام عراق اور ایران فتح ہوا۔
محمد بن قاسم بنو اُمیہ کے سپہ سالار حجاج بن یوسف کے بھتیجے تھے۔ سندھ کو سب سے پہلے انہوں نے فتح کرکے یہاں کے لوگوں تک اسلام اور کلمہ پہنچا دیا۔
بنو اُمیہ کے دور میں مسلمانوں کی سلطنت چین کے ایک حصے سے افریقہ و یورپ کے ایک حصے تک پہنچ چکی تھی۔
اب جب کہ فلسطین ترکی خوارزم عراق ایران ہندوستان چین افریقہ اور روس ویورپ کی سرحدوں تک اسلام صحابہ ؓ کے دور میں اور ان کے دور کے فوری بعد تک پہنچ چکاتھا یہاں کے لوگوں تک کلمہ انہی لوگوں نے پہنچایاتھا بعد میں ان میں سے کچھ علاقوں پر کافروں نے قبضہ کیا جسے چھڑایا گیا لیکن چھڑوانے سے پہلے ہی یہاں کے لوگ مسلمان تھے کلمہ گو تھے۔
صحابہ کرامؓ اور صحابہ کے فوری بعد کے دور میں کسی مسلک یا کسی امام کے پیروکار نہیں تھے کوئی ایک فاتح بھی چاروں اماموں میں سے کسی کا مقلد نہیں تھا۔کوئی ایک فوجی بھی مقلد نہیں تھا چار مسلکوں کا وجود ہی نہیں تھا۔سب کے سب غیر مقلد تھے کیونکہ کوئی مقلد تھا ہی نہیں۔
لیکن اگر اُس دور کو دیکھا جائے جب کوئی مقلد فاتح کسی مقبوضہ علاقے کو چھڑواتا ہے یا کوئی علاقہ فتح کرتا ہے تو کوئی ایک بھی شخص یہ بات ہرگز کہہ ہی نہیں سکتا کہ ان مقلد فاتحین کی فوج میں کوئی غیر مقلد نہیں تھا ان کی فوج میں مقلد بھی تھے اور غیر مقلد بھی کیونکہ یہ فاتحین مسلمانوں کی آزادی اور فتوحات کے لیے لڑ رہے تھے اس لیے ہر مسلک کا شخص صرف جہاد اور ایک اسلام کے لیے لڑ رہا تھا ان میں ہر مسلک کا شخص موجود تھا۔
لیکن صحابہ کرام کے کلمہ پہنچانے والے فاتحین کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان کی صفوں میں کوئی ایک بھی مقلد نہیں تھا۔کسی امام کا مقلد نہ تھا سب کے سب غیر مقلد تھے یعنی پہلے کلمہ پہنچانے والے سب کے سب غیر مقلد اور اُنکی فوج ساری کی ساری غیر مقلد کیونکہ اس دور میں چاروں اماموں کے مقلد تھے ہی نہیں۔جس سے یہ ثابت ہوا کہ غیر مقلدین نے اسلام پہنچایا تو پوری کی پوری ان کی فوج غیر مقلد اور مقلدین جب مقبوضہ جات چھڑوائے یا کچھ علاقے فتح کیے تو ان کی فوج میں ہر مسلک کا پیروکا ر موجود تھا۔
کلمہ ہم تک وہی پہنچا گئے تھے آج کے فاتحین ہمیں آزادی تو دلوا سکتے ہیں لیکن کلمہ گو مسلمان یہ نہیں ان سے پہلے ہم تک پہنچایا جاچکا تھا اب ایک چھوٹی سی ہندوستان ہی کی مثال لیں لیں۔
انگریز سے ہمیں آزادی محمد علی جناح نے دلوائی لیکن ہمیں انگریز سے آزادی دلوانے والا یہ شخص کیاہمیں کلمہ پہنچا کے گیا ہے کیا ہم اس کے توسط سے کلمہ گو بنے ہیں نہیں بلکہ مقبوضہ ہندوستان میں مسلمان صدیوں سے چلے آرہے ہیں ہمیں تو انہوں نے صرف آزادی دلوائی ہے کلمہ ہم تک نہیں پہنچایا۔
اگر آزادی دلوانے والے اور پہلے سے مسلم لوگوں کو (مقلدین کی زبان میں)فتح کرنے والے ہی ہمیں کلمہ پرھا گئے ہیں اور ہم ان سے کلمہ سیکھ کر اُن کے خلاف زبان استعمال کرتے ہیں تو پھر محمد علی جناح کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرمائیں گے کیونکہ آپ لوگوں کے اُصول کے مطابق تو آزادی دلوانے والے کا مسلک جو ہوگا ہمیں اُسی نے کلمہ سکھایا ہے۔محمد علی جناح تو حنفی نہیں تھا وہ اسماعیلی تھا اور بعد میں اثناء عشری شیعہ بن گیا تھا۔پھر تو آپ مقلدین ءِ پاکستان نے ایک شیعہ کے ذریعے کلمہ پڑھا ہے پھر آپ کیوں شیعوں کے خلاف اپنی زبا ن استعمال کرتے ہیں اُنہی سے کلمہ سیکھ کر۔؟؟؟
سچ یہی ہے کہ ہمیں ماننا پڑے گا کہ سب کے سب فاتحین جنہوں نے چین سے یورپ تک کے علاقے فتح کیے سب کے سب صحابہؓ تھے اور سب غیر مقلد تھے کسی امام کے مقلد نہ تھے اور اُنہی فاتحین کے ذریعے ہم نے کلمہ پڑھا ہے اور آج اُنہی غیر مقلدین کے خلاف زبان فر فر چلاتے ہیں۔
ہندوستان پر اگر کوئی غزنوی کوئی غوری کوئی بابر چھ سو بار حملہ کرے لیکن ہندوستان تک اسلام محمد بن قاسم کی فتح سندھ سے ہی پہنچا بابر نے اپنی بادشاہت ہی قائم کی پہلے موجود مسلمانوں پر۔
اسی طرح مہلب نے افغانستان کو امیر معاویہ کے دور میں فتح کیا چاہے کوئی ابدالی آئے یا غزنوی یا کوئی خوارزم شاہ یہاں تک اسلام اور کلمہ امیر معاویہ کے کمانڈر مہلب کی فتوحات سے پہنچنا شروع ہوگیا۔
بیت المقدس کو کوئی سو بار مقبوضہ علاقے سے چھڑوائے یہاں کی عوام کو کلمہ حضرت عمرؓ کی فتوحات کی دین ہے۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
ائمہ اربعہ کے مذاہب سے قبل کے لوگوں کو اہل حدیث قراردینا اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ جب ائمہ اربعہ کا مذہب نہیں تھا تو سب لوگ اہل حدیث ہی ہوں گے ،حالانکہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ اگرکسی مکان کا رنگ ہرانہیں ہے توپیلاضرورہوگا؟
اصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ کے دور میں ،عہد صحابہ، عہد کبار تابعین میں کوئی تھاٹ آف اسکول قائم نہیں ہواتھااگرچہ اس کی بنیادیں پڑ چکی تھیں ،ورنہ جس بنیاد پر اہل حدیث حضرات خود کو صحابہ کرام کے دور تک پہنچاتے ہیں، احناف بھی کرسکتے ہیں، مالکیہ بھی کرسکتے ہیں،شوافع اورحنابلہ بھی کرسکتے ہیں کیونکہ رشتہ سبھی کا جڑتاہے بہرحال صحابہ کرام سے ہی۔
لہذا جب تک ہمیں کسی معاصر کا یابعد کے معتبر مورخین کا کسی کے بارے میں قول نہ ملے کہ فلاں اہل حدیث تھا،فلاں شافعی تھافلاں مالکی تھاتوہم مذہب یہ کہہ جب مذاہب اربعہ نہیں تھے تواہلحدیث ہوں گے، کہہ کر کسی کو اہل حدیث قرارنہیں دے سکتے۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
جب تک ہمیں کسی معاصر کا یابعد کے معتبر مورخین کا کسی کے بارے میں قول نہ ملے کہ فلاں اہل حدیث تھا،فلاں شافعی تھافلاں مالکی تھاتوہم مذہب یہ کہہ جب مذاہب اربعہ نہیں تھے تواہلحدیث ہوں گے، کہہ کر کسی کو اہل حدیث قرارنہیں دے سکتے۔
ملا علی قاری حنفی اپنی کتاب "سم القوارض فی ذم الروافض" میں لکھتے ہیں: "اس امت میں کسی ایک پر حنفی یا شافعی یا مالکی یا حنبلی ہونا واجب نہیں"
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتے ہیں کہ:
"حنفی، شافعی ہونا جزوایمان نہیں، ورنہ صحابہ و تابعین کا غیر مومن ہونا لازم آئے گا۔"
(امداد الفتاویٰ:ج5،ص300)
مولانا کفایت اللہ حنفی دیوبندی بیان کرتے ہیں کہ:
"محض ترک تقلید سے اسلام میں فرق نہیں پڑتا اور نہ اہل سنت والجماعت سے تارک تقلید باہر ہوتا ہے"
(کفایت المفتی:ج،1ص325)
اگر حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی بعد کی پیداوار نہیں ہیں، اور صرف یہی مکتب فکر اہل سنت میں شامل ہیں تو صحابہ کے بارے میں کیا کہو گے؟
امام ابو حنیفہ رح کے بارے میں کیا کہو گے کہ جن کا غیر مقلد ہونا خود تمہارے بڑوں نے تسلیم کیا ہے؟
اشرف علی تھانوی صاحب فرماتی ہیں:
" امام ابو حنیفہ کا غیر مقلد ہونا یقینی ہے" (مجالس حکیم الامت:ص345)
نوٹ: امام ابو حنیفہ کا غیر مقلد ہونا صراحت سے درج ذیل کتابوں میں بھی لکھا ہوا ہے۔
حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار،ج1،ص51، معین الفقہ، ص88
 
شمولیت
جنوری 16، 2012
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
163
پوائنٹ
49
اہلحدیث کون ہے جو کسی مسلک کا پیروکار نہیں کسی کی رائے پر نہیں تمام فرقوں کی ضد اہلحدیث اب آپ لوگ یہ مان ہی گئے کہ ہم تک کلمہ جن صحابہ نے پہنچایا وہ چاروں کسی بھی امام کے مقلد نہیں تھے تو پھر مقلد کا اُلٹ کیا ہوا غیر مقلد جب ایک بندہ مقلد نہیں تھا تو کیا وہ غیر مقلد ہوا نہ اور یہ موضوع کہ صحابہ اہلحدیث تھے الگ سے فارم پر بے شمار جگہ پر موجود ہوگا۔صحابہ کرام نبی کی حدیثوں کو بیان کرتے تھے کچھ صحابہ تو حدیثین لکھتے بھی تھے مجھے حوالہ دینے کی ضرورت نہیں اس فارم پر اس حوالے سے ٹاپک موجود ہوگاکسی امام کی رائے کو بیان نہیں کرتے تھے نہ کسی امام کی آرا کو لکھتے بھی تھے کچھ صحابہ نے خود کو اہلحدیث بھی کہا ہے۔اہلحدیث کی تعریف میں یہ صفت بھی شامل ہے کہ اہلحدیث کسی کی آرا پر نہیں چلتے اہل رائے نہیں ہیں۔ حدیث پر چلتے ہیں۔صحابہ بھی اہلحدیث کی تعریف میں آگئے کیونکہ وہ بھی حدیث لکھنے والے اور بیان کرنے والے تھے نہ کہ اہل رائے میں سے تھے جو کہ کوئی کسی کی رائے کوئی کسی کی رائے کو صحیح سمجھتا ہے۔
شروع کے دور سے آج تک جو لوگ اہل رائے نہیں ہوتے اُنہیں غیرمقلد اہلحدیث ہی کہا گیا ہے۔
جب چار مسلکوں کا نیا دور شروع ہوا تب بھی کوئی کسی کی رائے کے پیچھے بھاگ رہا ہے کوئی کسی کی اُس وقت بھی محدیثین کی جماعت کو اہلحدیث کہا ہے گیا کیونکہ وہ آرا کو چھوڑ کر حدیثین لکھتے اور بیان کرتے تھے آج بھی کسی بھی مقلد کو اس بات پر اختلاف نہیں ہے کہ اہلحدیث آرا کو چھوڑ کراور بیان کرتے ہیں۔اور اپنی من پسند شخصیت کی رائے کو بیان کرتے اور لکھتے نہیں ہیں۔
القصہ مختصر جو بھی اہل رائے نہیں تھے وہ غیر مقلد اہلحدیث ہی کہلائے صحابہ کرام کی عظیم جماعت بھی اہل رائے نہیں تھی اہل حدیث تھی حدیثین لکھتے اور بیان کرتے تھے۔
ہم سب تک کلمہ کسی امام کے مقلد نے نہیں پہنچایا اور نہ ہی کسی اہل رائے نے ہم تک اہلحدیث اور غیر مقلد صحابہ نے پہنچایا۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ائمہ اربعہ کے مذاہب سے قبل کے لوگوں کو اہل حدیث قراردینا اس غلط فہمی پر مبنی ہے کہ جب ائمہ اربعہ کا مذہب نہیں تھا تو سب لوگ اہل حدیث ہی ہوں گے ،حالانکہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ اگرکسی مکان کا رنگ ہرانہیں ہے توپیلاضرورہوگا؟
لہذا جب تک ہمیں کسی معاصر کا یابعد کے معتبر مورخین کا کسی کے بارے میں قول نہ ملے کہ فلاں اہل حدیث تھا،فلاں شافعی تھافلاں مالکی تھاتوہم مذہب یہ کہہ جب مذاہب اربعہ نہیں تھے تواہلحدیث ہوں گے، کہہ کر کسی کو اہل حدیث قرارنہیں دے سکتے۔
جی محترم بھائی واقعی اس وقت کوئی ایک سوچ والے لوگ نہیں تھے لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ یہ جو کچھ اہل حدیث کہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ سے پہلے حنفی نہیں تھے بلکہ ہل حدیث تھے تو اس بات میں وزن موجود ہے
پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ دعوی یہ نہیں کیا جا رہا کہ ائمہ اربعہ سے پہلے صرف اہل حدیث ہی تھے بلکہ یہ ہے کہ ائمہ اربعہ سے پہلے آج والے حنفی تو بالکل نہیں تھے البتہ اہل حدیث موجود تھے
اب اس دعوی کو سامنے رکھتے ہوئے آپ سوچیں تو پتا چلے گا کہ ہاں یہ بات درست تھی

دعوی کے دو پہلو ہیں
1۔ائمہ ربعہ سے پہلے موجودہ دور کی طرح احناف کی طرح نظریہ رکھنے والوں کا نہ ہونا
2۔ائمہ اربعہ کے دور سے پہلے موجودہ دور کے اہل حدیث کی طرح نظریہ رکھنے والوں کا ہونا

اب آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ موجودہ دور کے احناف کا نظریہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی لازمی واجب شخصی تقلید ہے جس کی مثال اللہ کے نبی ﷺ کے دور میں نہیں ملتی جبکہ موجودہ دور کے اہل حدیث کا نظریہ یہ ہے کہ جب صحیح حدیث آ جائے تو اسکی پیروی کرنی ہے اس پہ تو بہت سی مثالیں احادیث اور صحابہ تابعین وغیرہ کے اقوال موجود ہیں واللہ اعلم
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
دعوی کے دو پہلو ہیں
1۔ائمہ ربعہ سے پہلے موجودہ دور کی طرح احناف کی طرح نظریہ رکھنے والوں کا نہ ہونا
2۔ائمہ اربعہ کے دور سے پہلے موجودہ دور کے اہل حدیث کی طرح نظریہ رکھنے والوں کا ہونا
محترم عبدہ بھائی
کیا آپ اس حوالہ سے کچھ مثالیں پیش کر سکتے ہیں
یعنی وہ نظریات جو اہل حدیث کے ہیں لیکن ائمہ اربعہ کے پیروکاروں کے وہ نظریات نہیں ، ان نظریات کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثبوت پیش کردیں ، صرف کچھ مثالیں پیش کردیں تاکہ آپ کا دعوی ثابت ہو سکے
 
Top