• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کفر اور شرک کا مرتکب کافر اور مشرک نہیں ہوتا؟

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,013
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!

چونکہ یہ ایک انتہائی اہم، نازک اور خالص علمی تحریر پر مشتمل موضوع تھا اس لئے میں نے ناگزیر جانا کہ اسکی تصحیح اور نظر ثانی کسی اہل علم سے کروالی جائے۔ اس مقصد کے پیش نظر میں نے اس مضمون کو محترم رفیق طاہر حفظہ اللہ اور عبدالوکیل ناصر حفظہ اللہ کی خدمت میں پیش کیا۔ رفیق طاہر بھائی نے تو اپنی بے پناہ علمی مصروفیات کے باعث معذرت کر لی اور عبدالوکیل ناصر حفظہ اللہ نے حرف بہ حرف مضمون پڑھنے کے بعد لکھا: ایک علم دوست ساتھی کی حقیقت پر مبنی اچھوتی تحریر جو دلائل سے مزین ہے۔

محترم شیخ عبدالوکیل نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ نے مضمون میں جہاں جہاں دیوبندیوں اور بریلویوں کا نام لکھا ہے وہاں وہاں مختلف مکاتب فکر کے لوگ لکھ دیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں کے ناموں کی وجہ سے آپ کا مضمون فورم پر شائع کرنے سے روک دیا جائے۔

یہ مسئلہ کسی رسالے میں مضمون کی اشاعت کے موقع پر تو ضرور ہوسکتا ہے لیکن فورم پر چونکہ ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں اسلئے میں نے انکے مشورے پر عمل نہیں کیا اور دیوبندیوں اور بریلویوں کے ناموں کو ایسے ہی رہنے دیا ہے۔

 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم،
شاہد نزیر بھائی ہمارے انتہائی پیارے ساتھی ہیں، ان کے اس مضمون پر چند گزارشات ہیں، امید ہے کہ غور فرمائیں گے:
شاہد بھائی نے لکھا:
بمطابق حدیث تکفیر کی دو اقسام ہیں۔ایک جائز تکفیر اور دوسری ناجائز تکفیر۔افسوس کی بات ہے کہ علماء کی اس مسئلے میں خاموشی اور بے جا احتیاط نے معاملہ کو خلط ملط کردیا ہے جس میں راہ اعتدال کہیں گم ہوگئی ہے اور لوگ افراط و تفریط کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔
میرا نہیں خیال کہ علماء نے اس مسئلہ میں بے جا خاموشی اختیار کر رکھی ہے یا بے جا احتیاط کی ہے بلکہ یہ مسئلہ واقعتا ایسا ہے کہ اس میں احتیاط کی ضرورت ہے اور علماء نے اس کو تفصیل سے بیان بھی کر رکھا ہے۔ راہِ اعتدال بھی واضح ہے فرق صرف اس میں ہے کہ راہِ اعتدال کو کوئی تو افراط سمجھ لیتا ہے اور کوئی تفریط۔
جبکہ مسئلہ تکفیراس قدر نازک ہے کہ اس میں افراط و تفریط کی نہ صرف یہ کہ کوئی گنجائش نہیں بلکہ تکفیرمیں افراط و تفریط انتہائی خطرناک بھی ہیں کہ دونوں ہی مسلمان کو دائرہ اسلام سے باہر لا کھڑا کرتی ہیں۔
اگر تو اس بات سے مراد یہ ہے کہ مسئلہ تکفیر کا مطلقا انکار یا اقرار تو شاید کوئی یہ بات کسی حد تک صحیح ہو سکے لیکن اگر اس سے مراد کسی فرد خاص کی تکفیر ہے تو یہ قطعا ایسا نازک مسئلہ نہیں کہ کسی کو دائرہ اسلام میں داخل کرے یا باہر کر دے۔ مثال کے طور پر ابن عربی کو کافر قرار دینے والے اور کافر نہ قرار دینے والے دونوں موجود ہیں۔ ابن عربی کو جو کافر قرار دیتے ہیں وہ اسے کافر نہ قرار دینے والے تمام حضرات کو ہرگز کافر نہیں کہتے اور جو کافر نہیں قرار دیتے وہ اسے کافر کہنے والے تمام حضرات کی تکفیر کرنے کی جرات نہین کر سکتے۔
علمائے کرام نے جائز تکفیر کو شجر ممنوعہ بنا کر معاملات کو اتنا الجھا دیا ہے کہ ایک عام شخص نہ صرف یہ کہ کفر اور شرک میں مبتلا شخص کو کافر نہیں کہتا بلکہ انکے کفر اور شرک میں شک کرتے ہوئے انہیں مشرک و کافر بھی سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔
پہلے یہ تو ثابت کیا جائے کہ کسی خاص شخص کو کافر قرار دینا ایک عام شخص کی شرعی زمہ داری ہے۔ علماء اگر یہ کہتے ہیں کہ عام شخص کو تکفیر معین کی طرف پیش قدمی نہیں کرنی چاہئے تو بالکل درست ہے کیونکہ تکفیر معین محض اس بات سے نہیں کی جاتی کہ فلاں شخص کسی کفریہ یا شرکیہ کام میں مبتلا ہے بلکہ اس کے اصول و ضوابط اور موانع کا لحاظ بھی رکھا جاتا ہے جو ایک عام شخص سے ممکن ہی نہیں۔
جس طرح کسی کی ناجائز تکفیر کرنے والا خودکافرہو جاتاہے اسی طرح کافر کے کفر میں شک کرنے والا شخص بھی کافر ہوجاتاہے۔
خود شاہد بھائی نے آگے چل کر تفصیل بیان کی ہے کہ کسی کی ناجائز تکفیر کرنے والا بھی کفر دون کفر کا مرتکب ہے اور وہ بھی اس کفر کا مرتکب نہیں ہوتا جس سے انسان دائرہ اسلام سے نکل جائے۔ لہٰذا دوسری شق کو بھی اسی تناظر میں ہی سمجھنا چاہئے۔ مزید بطور وضاحت عرض ہے کہ یہ اصول کہ
کافر کے کفر میں شک کرنے والا شخص بھی کافر ہوجاتاہے
اس اصول میں جس کافر کے کفر میں شک کو بھی کافر ہونے کا مرتکب بتایا گیا ہے اس سے مراد کیا ہے؟ اگر تو اس سے مراد بطور نص موجود کسی کافر کی بات ہے تو ضرور صحیح ہے جیسا کہ بت پرست، یہود و نصاریٰ کا کفر کیونکہ ان کے کفر پر نص موجود ہے یا اجماع سے ثابت شدہ کافر جیسا کہ قادیانی ہیں تو ان کے کفر مین شک ضرور خود کفر میں مبتلا ہونا ہے۔ مگر کوئی اس اصول سے اگر یہ سمجھتا ہے کہ کسی اسلام کے دعویدار کی تکفیر ہونے پر اسے کافر نہ ماننا خود کفر مین مبتلا ہونا ہے تو وہ بڑی سخت غلطی پر ہے۔ پھر ابن عربی کی مثال دوں گا کہ ابن عربی کو کافر کہنے والوں میں سے بھی کون ہے جو اس کو کافر قرار نہ دینے والے تمام حضرات کی تکفیر کرے؟ حالانکہ ابن عربی کی کفریہ عبارات بالکل واضح ہیں۔ لہٰذا کسی فرد معین کی تکفیر سے اختلاف کرنے والا شخص چاہے لاعلمی میں ہو یا تاویل کے سہارے تکفیر نہ کر رہا ہو اسے اس اصول کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔
(جاری ہے)۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
میں نے شاہد بھائی کا پورا مضمون نہیں پڑھا ہے لیکن میں اتنا مشورہ ضرور دوں گا کہ تکفیر کا کام عوام تو دور کی بات عام اہل علم کا بھی نہیں ہے ،اس لئے تکفیر کے مسئلہ پر ہم سرے سے بات ہی نہ کریں تو بہتر ہے ۔
ہم صرف باطل افکارو عقائد کی تردید کریں اور اسی پر اکتفاء کریں ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
میں نے شاہد بھائی کا پورا مضمون نہیں پڑھا ہے لیکن میں اتنا مشورہ ضرور دوں گا کہ تکفیر کا کام عوام تو دور کی بات عام اہل علم کا بھی نہیں ہے ،اس لئے تکفیر کے مسئلہ پر ہم سرے سے بات ہی نہ کریں تو بہتر ہے ۔
ہم صرف باطل افکارو عقائد کی تردید کریں اور اسی پر اکتفاء کریں ۔
اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔میرے خیال میں اب اس بارے میں کسی کو کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے۔
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
شاہد نزیز بھائی نے لکھا:
بعض علماء نقصان اور فتنے کے خوف سے بھی کفریہ اور شرکیہ عقائد کے حاملین کے کافر ہونے کا فتویٰ نہیں دیتے۔اور گول مول بات کرتے ہیں۔
میرے بھائی یہی وہ نقصان اور فتنہ ہے جس کے پیش نظر علماء مسئلہ تکفیر کو عام لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں جانے دیتے۔ جب شاہد بھائی جیسے علم دوست ساتھی کا حال یہ ہے کہ وہ صرف ایک مسئلہ کو بذات خود نہ سمجھنے کی بنا پر علماء کے متعلق تک اس بدگمانی کا شکار ہو گئے ہیں تو کسی عام شخص کا کسی دوسرے عام شخص کے بارے میں رویہ کیا ہو گا سمجھنا مشکل نہیں؟
جناب محترم کفریہ و شرکیہ عقائد کے حاملین کے کافر نہ ہونے کا فتویٰ نہ دینا بھی دو صورتوں پر مبنی ہے:
١) یہ کہنا کہ جو بھی شخص فلاں فلاں کفریہ یا شرکیہ (کفر بواح اور شرک اکبر) عقیدہ و عمل کا حامل ہو کافر ہے تو میرا نہیں خیال کے کسی ایک مستند عالم دین نے بھی اس سے انکار کیا ہو بلکہ ہمارے زیادہ تر ساتھی ان کثیر عام اصول و فتاویٰ کی روشنی میں ہی تکفیر معین کے درپے ہیں، جس طرح خود شاہد نزیر بھائی نے کثیر علماء کی ایسی عمومی عبارات نقل کر کے پورے پورے گروہ کی تکفیر کی ہے۔
٢) یہ کہنا کہ فلاں آدمی چونکہ فلاں فلاں کفریہ یا شرکیہ (کفر بواح اور شرک اکبر) عقیدہ و عمل کا حامل ہو کافر ہے تو ضرور علماء اس میں احتیاط برتتے ہیں اور یہ کوئی گول مول بات نہیں بلکہ اس پر ان کے پاس شرعی نصوص و سلف صالحین کا منہج گواہ ہے۔ صرف اتنا تو غور کیجئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دور کے وہ لوگ جن کے بارے میں یہ آیات اتریں کہ "بہانے نہ بنائو تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے۔۔۔" کیا ان لوگوں کی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے الگ الگ تکفیر کی حالانکہ یہ آیت اتری ان خاص لوگوں کے بارے میں تھی۔ ممکن ہے کہ کچھ حضرات کہیں کہ تکفیر معین کی تھی تو عرض ہے کہ جب وہ ایمان لانے کے بعد کافر ہو گئے تو ان پر مرتدین کے احکامات کیوں جاری نہ کئے گئے؟ اگر کہا جائے کہ اس دور میں احتیاط کا تقاضا تھا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔تو یہی عرض ہے کہ پھر اس بات کو گول مول رویہ تو نہ کہیں۔ وہاں تو جن پر یہ آیات اتری تھیں متعین بھی تھے یہان تو ایسی ہی دوسری آیات کو آج کے کچھ لوگوں پر چسپاں کرنے کا مسئلہ ہے گویا تکفیر معین نہ کرنے کے دیگر موانع زیادہ ہیں اور پھر بھی علماء سے اتنی بد گمانی اچھی نہیں۔
اور بعض علماء تساہل کا عارضہ لاحق ہونے کی بنا پرہر کلمہ گو کو دائرہ اسلام کے اندر رکھنے پر سارا زور صرف کرتے نظر آتے ہیں چاہے بعض کلمہ گو شرک اور کفر کی انتہاء ہی کو کیوں نہ چھو لیں بعض کلمہ گو شرک اور کفر کی انتہاء ہی کو کیوں نہ چھو لیں۔علماء کے اس بدترین تساہل کی مثال انکا دیوبندی اور بریلوی عوام کے ساتھ انکے علماء کو بھی پکا اور سچا مسلمان قرار دینا ہے حالانکہ ان میں سے اکثریت کا شرک اکبر میں ملوث ہونااظہر من الشمس ہے۔
میرے بھائی اگر ایک عالم ایک کلمہ گو کو دائرہ اسلام کے اندر رکھنا چاہتا ہے تو اس میں غلط کیا ہے، آپ کیوں چاہتے ہیں کہ بجائے دائرہ اسلام میں داخل رکھنے کے آپ کلمہ گو حضرات کو اس سے باہر ہی نکالتے رہیں۔ رہی بات دیوبندیوں یا بریلویوں کی تو یہ علماء ہی ہیں جن کے سبب ہم ان لوگوں کے واضح کفر و شرک سے واقف ہوئے۔ یہ علماء ہی ہیں جن کے دئے گئے حوالوں سے میں اور آپ ان لوگوں کے کفریہ و شرکیہ عقائد و اعمال لوگوں کے سامنے لاتے ہیں اور الحمدللہ بے شمار سادے بریلوی و دیوبندی اہل حدیث ہو جاتے ہیں۔
اب اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی طرح بریلوی و دیوبندی کافر ہیں کا فتویٰ دیں یا جس جس میں کوئی کفریہ و شرکیہ معاملہ سامنے ہو اس کی تکفیر معین کریں ورنہ وہ متساہل ہیں تو اس میں خود آپ ناسمجھی کا شکار ہیں۔میں عرض کر چکا ہوں کہ تکفیر معین کے لئے بہت سی شروط و موانع ہیں جن پر ایک کتاب و سنت پر مبنی شرعی نظام نہ ہونے کی بنا پر نیز دیگر قدرت نہ رکھنے کی وجوہات سے علماء اس مسئلہ میں پیش قدمی نہیں کر سکتے اور یہ ہرگز تساہل نہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسے کئی لوگ موجود تھے جو واضح کفریہ باتوں میں ملوث تھے لیکن انہیں مسلمانوں والے ہی حقوق حاصل تھے۔ واضح مثال ان لوگوں کی ہے جن کے نام لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کا منافق ہونا بتا دیا تھا۔ یعنی خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی واقف تھے اور اس راز میں سیدنا خذیفہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے مگر اس راز کو نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں پر کھولا اور نہ سیدنا خذیفہ رضی اللہ عنہ نے۔ گویا یہ لوگ مسلمانوں کو ہی حاصل حقوق کے ساتھ باقی رہے۔ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا یہ تساہل تھا (نعوذ باللہ) کہ جو کلمہ گو کافر و منافق تھے حقیقت میں، ان کے بارے میں مسلمان ہی کہا جاتا رہا؟ یہ صرف ایک انداز کی مثال ہے ورنہ بریلوی و دیوبندی پورے گروہوں کی تکفیر معین نہ کرنے میں دیگر شرائط و موانع بھی حائل ہیں۔
ان متساہلین اور حق بات کہنے سے خوف زدہ علماء کی بلاوجہ کی احتیاط اور سکوت، انکا دو ٹوک بات نہ کرنا اور مبہم اور الجھی ہوئی باتوں سے سائلین کو مطمئن کرنے کی کوشش کرناہی عوام الناس کی گمراہی کا سبب بنتا ہے۔
میری اوپر دی گئی مثال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے اس قول پر غور فرمائیں کہ کس قدر جراءت کا مظاہرہ ہے۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ گمراہ فرقوں کے خلاف جو علمی و تحقیقی کام کرتے ہیں اسی کو جاری رکھیں اور ان معاملات میں دخل اندازی نہ کریں جو آپ کے بس کی نہیں۔ معین تکفیر و عدم تکفیر کسی بھی شخص کی چاہے وہ واضح کفریہ و شرکیہ کام میں ملوث ہو، ایک شرعی عدالت و قاضی یا مفتی کا کام ہے، میرا اور آپ کا نہیں۔
ملاعلی قاری وحدۃ الوجود کے بارے میں لکھتے ہیں: ہر آدمی کو چاہیے کہ ان کی فرقہ پرستی اور نفاق کو لوگوں کے سامنے بیان کردے کیونکہ علماء کا سکوت اور بعض راویوں کا اختلاف اس فتنے اور تمام مصیبتوں کاسبب بننا ہے۔(الرد علی القائلین بوحدۃ الوجود،صفحہ 156،بحوالہ تحقیقی،اصلاحی اور علمی مقالات، جلددوم، صفحہ468)
ملا علی قاری کی اس بات میں تکفیر معین کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں بلکہ یہ عبارت ان لوگوں کے لئے ہے جو گمراہ فرقوں کے کفریہ و شرکیہ عقائد و نظریات پر پردہ ڈالتے ہیں اور توحید و سنت کو ان کے کفریہ و شرکیہ معاملات کے ساتھ خلط ملط کرتے ہیں۔
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اہم شرعی مسائل میں علماء کا سکوت اور اختلاف ایک فتنے کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور عوام الناس ان فتنوں کا باآسانی شکار ہوجاتے ہیں اس لئے علماء کی ذمہ داری بہت بڑی اور بھاری ہے کیونکہ انکی گمراہی خلق کی گمراہی ہے۔انہیں چاہیے کہ تساہل ، خوف اور اختلاف کو بالائے طاق رکھ کردو ٹوک انداز میں شرعی مسائل( خصوصاً وہ مسائل جن کا تعلق انسانی عقیدے سے ہے) بیان کریں اور معاملات کو بلاوجہ الجھا کر فتنہ پید ا نہ کریں۔
میرے بھائی آپ جس بات کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں وہ سرے سے ہی غلط ہے۔ شرعی مسائل کی نشاندہی علماء نے کر رکھی ہے چاہے وہ عقائد کے ہوں یا عبادات و معاملات کے۔ اب اگر آپ تکفیر معین کو بھی عقیدہ سمجھتے ہیں تو معذرت کے آپ سخت غلطی پر ہیں۔ تکفیر معین قطعا عقیدے کا مسئلہ نہیں ہے ورنہ کہا جانا چاہئے کہ سید نذیر حسین دہلوی، نواب صدیق حسن خان وغیرہ کا موجودہ اہل حدیث علماء سے عقیدے کا اختلاف تھا کہ وہ ابن عربی کی تکفیر نہیں کرتے۔
میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی جو مثال دی ہے وہ بالکل واضح کرتی ہے کہ کچھ لوگوں کا واضح کفر و شرک میں ملوث ہونے پر بھی تکفیر معین نہ کرنا کوئی ایسا مسئلہ نہیں کہ جس کی بنا پر فتنہ و گمراہی پھیل جائے۔ لہٰذا یہ دیکھنا علماء کا کام ہے کہ لوگوں کی رہنمائی کس طرح کی جائے نہ کہ میرے اور آپ جیسے اٹھ کر علماء کی رہنمائی کریں۔
وقت کی قلت کی بنا پر میرے لئے ممکن نہیں کہ آپ کے تمام حوالہ جات اور مکمل بحث کا جائزہ لے سکوں۔ مگر اتنی نشاندہی کئے دیتا ہوں کہ آپ کی زیادہ تر عبارات عمومی کسی شرکیہ و کفریہ عقیدہ و عمل کا حکم بیان کرتی ہیں نہ کہ تکفیر معین۔ کوشش کروں گا اس ضمن میں اگر وقت ملا تو مزید کچھ لکھ سکوں۔ والسلام
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
السلام علیکم !

شاہد نذیر بھائی کے استدلال میں پیچیدگی کافی زیادہ پائی گئی ہے! یا حوالہ جات اتنے کثرت سے ہیں کہ خود قائل کا استدلال "ڈھونڈنا" پڑتا ہے۔۔۔ ورنہ علماء کی عبارات بہت کچھ کہتی نظر اتی ہیں ۔ بہرحال اس سے قطع نظر ان حوالوں کا ایک جگہ اکٹھا کردیا جانا اپنی جگہ مفید ہے۔

ایک اور چیز ہمارے ہاں یہ پائی جاتی ہے کہ کسی کے شرک کا فتوی دینا کوئی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا لیکن کفر پر اڑ پھس ہو جاتی ہے، حالانکہ دونوں ایک ہی طرح کے حساس معاملات ہیں۔ مثلا بریلویوں کے معاملے میں ایک عامی اہلحدیث کو بھی علم ہے کہ وہ مشرک ہیں کھلا شرک کرتے ہیں ، ہاں کافر ہونے کی بات انہیں بھی اکثر اچنبھا معلوم ہوتی ہے۔ شاید یہ یہاں کے مخصوس حالات کی بندشیں ہی یا کیا ہے ، بہرحال علماء کو یکساں معاملات میں مساوی طرز عمل ہی اختیار کرنا چاہیے ان میں بلاوجہ کی تفریق کا رویہ درست نہیں ہے۔

والسلام
 

طالب نور

رکن مجلس شوریٰ
شمولیت
اپریل 04، 2011
پیغامات
361
ری ایکشن اسکور
2,311
پوائنٹ
220
السلام علیکم !

شاہد نذیر بھائی کے استدلال میں پیچیدگی کافی زیادہ پائی گئی ہے! یا حوالہ جات اتنے کثرت سے ہیں کہ خود قائل کا استدلال "ڈھونڈنا" پڑتا ہے۔۔۔ ورنہ علماء کی عبارات بہت کچھ کہتی نظر اتی ہیں ۔ بہرحال اس سے قطع نظر ان حوالوں کا ایک جگہ اکٹھا کردیا جانا اپنی جگہ مفید ہے۔

ایک اور چیز ہمارے ہاں یہ پائی جاتی ہے کہ کسی کے شرک کا فتوی دینا کوئی مسئلہ نہیں سمجھا جاتا لیکن کفر پر اڑ پھس ہو جاتی ہے، حالانکہ دونوں ایک ہی طرح کے حساس معاملات ہیں۔ مثلا بریلویوں کے معاملے میں ایک عامی اہلحدیث کو بھی علم ہے کہ وہ مشرک ہیں کھلا شرک کرتے ہیں ، ہاں کافر ہونے کی بات انہیں بھی اکثر اچنبھا معلوم ہوتی ہے۔ شاید یہ یہاں کے مخصوس حالات کی بندشیں ہی یا کیا ہے ، بہرحال علماء کو یکساں معاملات میں مساوی طرز عمل ہی اختیار کرنا چاہیے ان میں بلاوجہ کی تفریق کا رویہ درست نہیں ہے۔

والسلام
میرا نہیں خیال کہ جو علماء فتویٰ تکفیر لگانے میں اھتیاط کرتے ہیں وہ معین کسی کو مشرک کہنے میں نہیں کرتے بلکہ ہمارے شاہد بھائی کا مضمون سارا لکھا ہی اس تناظر میں گیا ہے۔ کسی کو معین طور پر مشرک قرار دیا اس کی معین تکفیر کرنا ہی ہے۔ والسلام
 
شمولیت
جنوری 19، 2013
پیغامات
301
ری ایکشن اسکور
571
پوائنٹ
86
اگر کسی کے اندر عقل ہو تو جو باتیں طالب نور بھائی نے کہیں ہیں وہ ان کو مان لے گا اور مسلمان کو مسلمان ہی سمجھے گا ۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
طالب نور بھائی ! اپ کی بات بجا ہے ، میرا اشارہ مطلق اور معین تکفیر کے مابین احتیاط کی طرف نہیں بلکہ اس طرف تھا کہ مطلق طور پر مشرک کہنے اور مطلق طور پر کافر کہنے میں بھی فرق روا رکھا جاتا ہے۔ مشرک کہنا کوئی مسئلہ نہیں ہے فورا جواب مل جاتا ہے ، لیکن اسی گروہ کے مطلق کافر ہونے پر سوچ و بچار ہو جاتی ہے جو اکثر منتہائے مقصود تک نہیں پہنچتی! اسی حوالے سے بریلویوں والی بات کی گئی تھی۔

مثلا بریلویوں کے معاملے میں ایک عامی اہلحدیث کو بھی علم ہے کہ وہ مشرک ہیں کھلا شرک کرتے ہیں ، ہاں کافر ہونے کی بات انہیں بھی اکثر اچنبھا معلوم ہوتی ہے۔ شاید یہ یہاں کے مخصوس حالات کی بندشیں ہی یا کیا ہے ، بہرحال علماء کو یکساں معاملات میں مساوی طرز عمل ہی اختیار کرنا چاہیے ان میں بلاوجہ کی تفریق کا رویہ درست نہیں ہے۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
میرے خیال میں تکفیر مطلق اور تکفیر معین کا فرق نظر انداز ہو گیا ہے۔کفر اور شرک کا مرتکب یقینا کافر اور مشرک ہوتا ہے لیکن یہ ایک مطلق بات ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک معین یا مخصوص شخص کافر اورمشرک ہے یا نہیں؟علما نے واضح کیا ہے کہ ایک شخص کفر کا مرتکب ہوتا ہے لیکن اس پر کفر کا حکم نہیں لگتا کیوں کہ کوئی مانع موجود ہوتا ہے مثلا جہالت اکراہ تاویل وغیرہ۔امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
لكنَّ تكفير المطلق لا يستلزم تكفير المعين فإن بعض العلماء قد يتكلم في مسألة باجتهاده فيخطئ فيها فلا يُكفر وإن كان قد يُكفر من قال ذلك القول إذا قامت عليه الحجة المكفرة..."ا.هـ.(مجموع الفتاوى :35/99)
یعنی تکفیر مطلق سے تکفیر معین لازم نہیں آتی کہ بعض اوقات ایک عالم کسی مسئلہ میں اپنے اجتہاد کی بنا پر کوئی بات کہتا ہے اور اس میں غلطی کر جاتا ہے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اگرچہ اسی بات کے کہنے پر ایسے شخص کو کافر کہا جاسکتا ہے جس پر حجت قائم ہو چکی ہو
۔
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
فليس لأحدٍ أن يُكفر أحداً من المسلمين وإن أخطأ وغلِط حتى تقام عليه الحجة وتبين له المحجة ( مجموع الفتاوى:12/501)
کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو کافر قرار دے خواہ اس سے غلطی اور خطا ہی سرزد ہوئی ہو تا آں کہ اس پر قیام حجت ہو جائے اور مسئلہ واضح کر دیا جائے۔
ایک موقع پر باطنیوں کے کفریہ کلمات کا تذکرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
فهذه المقالات هي كُفر؛ لكن ثبوت التكفير في حقِّ الشخص المعيَّن، موقوفٌ على قيام الحجة التي يَكْفُر تاركها، وإن أطلق القول بتكفير مَن يقول ذلك، فهو مثل إطلاق القول بنُصُوص الوعيد، مع أنَّ ثُبُوت حكم الوعيد في حقِّ الشخص المعيَّن، موقوفٌ على ثبوت شروطه، وانتفاء موانعه؛ ولهذا أطلق الأئمة القول بالتَّكفير، مع أنهم لم يحكموا في عين كلِّ قائلٍ بِحُكم الكفار (بغية المرتاد في الرَّد على المتفلسفة والقرامطة والباطنية:ص۳۵۳۔۳۵۴)
یہ تمام باتیں کفر ہیں لیکن کسی معین شخص کے حق میں تکفیر کا ثبوت قیام حجت پر موقوف ہے جس کا تارک کافر گردانا جاتا ہے۔البتہ مطلق طور پر یہ کہنا کہ اس کا قائل کافر ہے تو یہ اسی طرح ہے جیسے مطلق وعید بیان کی جائے جب کہ کسی معین فرد کے بارے میں اس وعید کے حکم کا ثبوت اس کے شرائط کے ثبوت اور موانع کے عدم وجود پر موقوف ہے۔یہی وجہ ہے کہ ائمہ کرام نے مطلق تکفیر تو کی ہے لیکن ہر قائل کو معین طور پر کفار کے حکم میں شامل نہیں کیا۔
دیگر سلفی علما نے بھی اس نکتے کو اجاگر کیا ہے لیکن اس کی تفصیل ممکن نہیں۔ہاں یہ مسئلہ سلفی اہل علم کے مابین مختلف فیہ ہے کہ توحید اور عقیدہ کے جلی مسائل میں جہالت کا عذر دیا جائے گا یا نہیں؟ بہ طور خاص جب کوئی شخص نہ تو نومسلم ہو اور نہ ہی کسی صحرا یا جنگل میں سکونت پذیر ہو۔ بعض کہتے ہیں کہ اس پر اقامت حجت کی ضرورت نہیں کہ قران و حدیث اس کے پاس موجود ہیں اور علما تک بھی بہ آسانی رسائی حاصل ہے جن سے پوچھ کر اپنی جہالت دور کر سکتا ہے۔اس کے بر عکس دیگر کا کہنا ہے کہ فی زمانہ شبہات اور مغالطوں کی کثرت ہے اور جہالت اس قدر عام ہے کہ پہلے اسے سمجھایا جائے اور مسئلے کی وضاحت کے بعد ہی اس پر شرعی حکم لگایا جائے۔
اگر شاہد نذیر صاحب اس ضمن میں پہلے گروہ کے موقف سے اتفاق رکھتے ہوں تو یہ لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس تعلق محض توحید اور ضروریات دین یا قطعی و جلی قسم کے امور سے ہے ہر قسم کا کفر پھر بھی مراد نہیں جب کہ ان کا عنوان مطلق کفر اور شرک کا ہے۔
 
Top