- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 1,118
- ری ایکشن اسکور
- 4,480
- پوائنٹ
- 376
یہ قیمتی تحقیق سہ ماہی رسالہ المکرم گوجرانوالا کے مارچ کے شمارہ میں شایع ہورہی ہے ۔جیسا کہ شیخ عظیم حاصل پوری اور شیخ رفیق طاہر حفظہما اللہ نے اطلاع دی
اپنے موقف سے برات یا رجوع کی دوقسمین ہوتی ہیں:پورا یقین ہے کہ فضیلۃ الشیخ یا تو دلیل سے بات کرتے ہیں اور یا پھر اپنے مؤقف سے اعلانیہ برات کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔
یہاں کچھ ساتھی ہیں جن کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شیخ سے رابطے میں رہتے ہیں یا شیخ کی تحریریں باقاعدگی سے پڑھتے رہتے ہیں وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں ۔اپنے موقف سے برات یا رجوع کی دوقسمین ہوتی ہیں:
پہلی قسم یہ کہ آدمی اپنی تحقیق پر خود ہی نظر ثانی کرنے کے بعد خود ہی اپنی غلطی پکڑے اوراس سے رجوع کرے ، یہ کام بہت آسان ہے اور ہر عالم بڑی آسانی سے اس طرح کے رجوع کا پرچار کردیتا ہے ۔
لیکن رجوع کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی اور کے بتانے یا کسی اور کے تعاقب کے بعد آدمی اپنی غلطی سے رجوع کرلے ، اس طرح کا رجوع ہی اصل ہمت والا کام ہے ، اور اس طرح کی رجوع وہی شخص کرسکتا ہے جو بہت زیادہ اخلاص والا ہو، اہل علم میں اس طرح کے رجوع کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں عصر حاضر میں صرف اور صرف علامہ البانی رحمہ اللہ واحد شخص تھے جن کے یہاں پہلی قسم والا رجوع تو تھا ہی اس کے ساتھ ساتھ دوسری قسم والے رجوع کی بھی بہت مثالیں ملتی ہیں ، حتی کہ کسی عام طالب علم نے شیخ البانی کی غلطی بتائیں تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے فورا رجوع کرلیا بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے مخالفین ومعاندین نے بھی علامہ البانی رحمہ اللہ کی غلطی پکڑی توعلامہ البانی رحمہ اللہ نے رجوع کرلیا۔
شاکربھائی کہتے ہیں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ بھی اعلانیہ رجوع کرتے ہیں تو کیا شاکر بھائی یا کوئی اور صاحب شیخ زیبر حفظہ اللہ کے یہاں دوسری قسم والے رجوع کی مثال دے سکتے ہیں ؟
ایسی بات نہیں ہے بلکہ شیخ صاحب بعض دفعہ رجوع کرتے ہیں اس کی مثالیں ماہنامہ الحدیث میں مل سکتی ہیں بلکہ پہلے لکھتے ہیں مجھے فلاں ساتھی نے توجہ دلائی اور مجھے وہ غلطی لگی تھی میں اس سے رجوع کرتا ہوں ۔مجھے بھی یاد ہے کہ میرے توجہ دلانے سے بھی شیخ محترم نے بعض باتوں سے رجوع کیا ۔یہاں کچھ ساتھی ہیں جن کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شیخ سے رابطے میں رہتے ہیں یا شیخ کی تحریریں باقاعدگی سے پڑھتے رہتے ہیں وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں ۔
جامعہ رحمانیہ گارڈن ٹاؤن میں ہمیں مولانا عبد الولی حقانی صاحب سے کسب فیض کا کچھ موقعہ ملا ہے ۔ وہ ماشاء اللہ خود بھی تحقیق قسم کے آدمی ہیں اور محققین پر ان کی نظر بھی ہے ۔ دار السلام میں بھی کام کرتے ہیں اسی سلسلے میں شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی کتب وغیرہ کی نظر ثانی بھی کی ہے انہوں نے ۔
انہوں نے اس سلسلے میں بتایا تھا ( آئندہ الفاظ میرے اپنے ہیں )کہ شیخ زئی حفظہ اللہ اپنے موقف پر بڑی سختی سے کاربند رہتے ہیں اور رجوع کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں ۔
واللہ اعلم ۔
علمی اختلاف احترم کے دائرے میں رہ کر کرنا درست ہے اور اسے ذاتی مسئلہ سمجھ کر اس پر کفر اسلام کی عمارت کھڑی کرنا درست نہیں ہے۔مذکورہ روایت پر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے تحقیقی اعتراضات کی توضیح کے لیے ہم نےشیخ زبیر حفظہ اللہ کو فون کیا اور ان سے کی گئی ٣-٤منٹ کی گفتگو میں جو اہم نکات سامنے آئے انہیں جواب کی شکل میں یہاں پیش کر دیا گیا۔سو اس جواب کو مکمل طور پر شیخ زبیر حفظہ اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا گو کہ ہماری ذکر کردہ اکثر باتوں سے شیخ صاحب کا اتفاق ہے ۔دونوں شیوخ کے نام ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ تھاکہ ہمارے پیش کردہ جواب کی بنیاد ان سے کی گئی گفتگو پر ہی تھی ۔اور یہ وضاحت ہماری پہلی پوسٹ میں بھی تھی۔ ملاحظہ ہوں الفاظ:
اسکے باوجودہمارے پیش کردہ الفاظ سےجو غلط تاثر ابھراہے تو اس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔
جی ان شاءاللہ شیخ کفایت اللہ کا جواب شیخ زبیر کو پوسٹ کردیا جائے گا۔باقی جواب دینا یا نہ دینا تو یہ شیخ صاحب پر منحصر ہے۔
اپنے موقف سے برات یا رجوع کی دوقسمین ہوتی ہیں:
پہلی قسم یہ کہ آدمی اپنی تحقیق پر خود ہی نظر ثانی کرنے کے بعد خود ہی اپنی غلطی پکڑے اوراس سے رجوع کرے ، یہ کام بہت آسان ہے اور ہر عالم بڑی آسانی سے اس طرح کے رجوع کا پرچار کردیتا ہے ۔
لیکن رجوع کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی اور کے بتانے یا کسی اور کے تعاقب کے بعد آدمی اپنی غلطی سے رجوع کرلے ، اس طرح کا رجوع ہی اصل ہمت والا کام ہے ، اور اس طرح کی رجوع وہی شخص کرسکتا ہے جو بہت زیادہ اخلاص والا ہو، اہل علم میں اس طرح کے رجوع کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں عصر حاضر میں صرف اور صرف علامہ البانی رحمہ اللہ واحد شخص تھے جن کے یہاں پہلی قسم والا رجوع تو تھا ہی اس کے ساتھ ساتھ دوسری قسم والے رجوع کی بھی بہت مثالیں ملتی ہیں ، حتی کہ کسی عام طالب علم نے شیخ البانی کی غلطی بتائیں تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے فورا رجوع کرلیا بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے مخالفین ومعاندین نے بھی علامہ البانی رحمہ اللہ کی غلطی پکڑی توعلامہ البانی رحمہ اللہ نے رجوع کرلیا۔
شاکربھائی کہتے ہیں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ بھی اعلانیہ رجوع کرتے ہیں تو کیا شاکر بھائی یا کوئی اور صاحب شیخ زیبر حفظہ اللہ کے یہاں دوسری قسم والے رجوع کی مثال دے سکتے ہیں ؟
جس بھائی نے ماہنامہ اشاعۃ الحدیث کے تازہ شمارہ یعنی شمارہ نمبر ١٠٣ کا سرسری سا مطالعہ بھی کیا ہو گا اس کے علم میں مندرجہ ذیل بات ہوگی:انہوں نے اس سلسلے میں بتایا تھا ( آئندہ الفاظ میرے اپنے ہیں )کہ شیخ زئی حفظہ اللہ اپنے موقف پر بڑی سختی سے کاربند رہتے ہیں اور رجوع کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں ۔
واللہ اعلم ۔
محترم خضر حیات بھائی ! ان ہی کتب کے بارے میں میں پہلے ہی ایک دوسرے تھریڈ میں تفصیلا لکھ چکا ہوں کہ یہ وہی کتب ہیں جن کی شیخ زبیر حفظہ اللہ سے مراجعت ہی نہیں کروائی گئی اور شیخ ان کتب کی ذمہ داری سے برات کا اظہار کرچکے ہیں۔یہاں کچھ ساتھی ہیں جن کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شیخ سے رابطے میں رہتے ہیں یا شیخ کی تحریریں باقاعدگی سے پڑھتے رہتے ہیں وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں ۔
جامعہ رحمانیہ گارڈن ٹاؤن میں ہمیں مولانا عبد الولی حقانی صاحب سے کسب فیض کا کچھ موقعہ ملا ہے ۔ وہ ماشاء اللہ خود بھی تحقیق قسم کے آدمی ہیں اور محققین پر ان کی نظر بھی ہے ۔ دار السلام میں بھی کام کرتے ہیں اسی سلسلے میں شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی کتب وغیرہ کی نظر ثانی بھی کی ہے انہوں نے ۔
واللہ اعلم ۔
جیسا کہ آپ خود ہی اس بات کے قائل ہیں کہ شیخ اپنی بات غلط ثابت ہونے پر رجوع کرتے ہیں اور آپ نے اس طرف اشارہ بھی کیا اور مزید حوالہ جات میں اپنی پچھلی پوسٹ میں دے چکا ہوں۔۔۔۔۔اب ان ساری باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ کہنا کہ "لیکن اس سے رجوع شاید نہیں کیا اور نہ ہی ممکن نظر آتاہے ۔کیونکہ جس منھج پر چل کر ساری زندگی کام کیا ہے اگر اس منھج سے رجوع کرلیا جائے تو ان گنت تحقیقات سے رجوع لازم آئے گا مثلا زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ" محل نظر ہے۔ایسی بات نہیں ہے بلکہ شیخ صاحب بعض دفعہ رجوع کرتے ہیں اس کی مثالیں ماہنامہ الحدیث میں مل سکتی ہیں بلکہ پہلے لکھتے ہیں مجھے فلاں ساتھی نے توجہ دلائی اور مجھے وہ غلطی لگی تھی میں اس سے رجوع کرتا ہوں ۔مجھے بھی یاد ہے کہ میرے توجہ دلانے سے بھی شیخ محترم نے بعض باتوں سے رجوع کیا ۔
فرق صرف یہ ہے کہ جو شیخ محترم نے منھج اپنا لیا ہے اس منھج کی طرف اہل علم مسلسل توجہ دلا رہے ہیں لیکن اس سے رجوع شاید نہیں کیا اور نہ ہی ممکن نظر آتاہے ۔کیونکہ جس منھج پر چل کر ساری زندگی کام کیا ہے اگر اس منھج سے رجوع کرلیا جائے تو ان گنت تحقیقات سے رجوع لازم آئے گا مثلا زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ۔۔۔۔۔اور اسی کی طرف خضر حیات بھائی اور غاذی بھائی کا اشارہ ہے واللہ اعلم ۔۔۔۔۔
خضر بھائی ! بہت اچھا تبصرہ کیا آپ نے ۔ماشاء اللہ تبارک اللہ ۔
کفایت اللہ بھائی آپ واقعتا اسم با مسمی ہیں ۔
نہایت وضاحت کے ساتھ آپ اپنا موقف پیش کرتے ہیں ۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے ۔
مضمون کی بعض جزئیات ہضم نہیں ہو سکیں شاید اس کی وجہ ہماری اس علم سے ناواقفیت ہے ۔ البتہ مجموعی طور پر یہی لگتا ہے کہ حدیث مذکور معلول (مُعل) یعنی ضعیف ہے ۔
اب جب تک زبیر علی زئی صاحب کے قلم سے اس کا رد نہیں آ جاتا ہم آ پکے موقف سے سو فیصد متفق ہونے کے لیے مجبور ہیں ۔
زبیر علی زئی صاحب کے معاونین یا تلامذہ وغیرہ کوشش کریں کہ اس سلسلے میں خود حافظ موصوف سے رد لکھوائیں اور یہاں پیش کریں ۔
کیونکہ اوپر اسد حبیب بھائی نے حافظ صاحب کی طرف سے جو باتیں پیش کی ہیں وہ لگتا ہے کہ حافظ صاحب کے تحقیقی مزاج کے خلاف ہیں ۔
واللہ أعلم ۔