• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یزید بن معاویہ سنت کوبدلنے والے تھے (غیرمتعلق تبصرے)

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
یہ قیمتی تحقیق سہ ماہی رسالہ المکرم گوجرانوالا کے مارچ کے شمارہ میں شایع ہورہی ہے ۔جیسا کہ شیخ عظیم حاصل پوری اور شیخ رفیق طاہر حفظہما اللہ نے اطلاع دی
 

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
پورا یقین ہے کہ فضیلۃ الشیخ یا تو دلیل سے بات کرتے ہیں اور یا پھر اپنے مؤقف سے اعلانیہ برات کا اظہار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں حضرات کو جزائے خیر عطا فرمائیں۔
اپنے موقف سے برات یا رجوع کی دوقسمین ہوتی ہیں:

پہلی قسم یہ کہ آدمی اپنی تحقیق پر خود ہی نظر ثانی کرنے کے بعد خود ہی اپنی غلطی پکڑے اوراس سے رجوع کرے ، یہ کام بہت آسان ہے اور ہر عالم بڑی آسانی سے اس طرح کے رجوع کا پرچار کردیتا ہے ۔

لیکن رجوع کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی اور کے بتانے یا کسی اور کے تعاقب کے بعد آدمی اپنی غلطی سے رجوع کرلے ، اس طرح کا رجوع ہی اصل ہمت والا کام ہے ، اور اس طرح کی رجوع وہی شخص کرسکتا ہے جو بہت زیادہ اخلاص والا ہو، اہل علم میں اس طرح کے رجوع کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں عصر حاضر میں صرف اور صرف علامہ البانی رحمہ اللہ واحد شخص تھے جن کے یہاں پہلی قسم والا رجوع تو تھا ہی اس کے ساتھ ساتھ دوسری قسم والے رجوع کی بھی بہت مثالیں ملتی ہیں ، حتی کہ کسی عام طالب علم نے شیخ البانی کی غلطی بتائیں تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے فورا رجوع کرلیا بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے مخالفین ومعاندین نے بھی علامہ البانی رحمہ اللہ کی غلطی پکڑی توعلامہ البانی رحمہ اللہ نے رجوع کرلیا۔

شاکربھائی کہتے ہیں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ بھی اعلانیہ رجوع کرتے ہیں تو کیا شاکر بھائی یا کوئی اور صاحب شیخ زیبر حفظہ اللہ کے یہاں دوسری قسم والے رجوع کی مثال دے سکتے ہیں ؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اپنے موقف سے برات یا رجوع کی دوقسمین ہوتی ہیں:
پہلی قسم یہ کہ آدمی اپنی تحقیق پر خود ہی نظر ثانی کرنے کے بعد خود ہی اپنی غلطی پکڑے اوراس سے رجوع کرے ، یہ کام بہت آسان ہے اور ہر عالم بڑی آسانی سے اس طرح کے رجوع کا پرچار کردیتا ہے ۔
لیکن رجوع کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی اور کے بتانے یا کسی اور کے تعاقب کے بعد آدمی اپنی غلطی سے رجوع کرلے ، اس طرح کا رجوع ہی اصل ہمت والا کام ہے ، اور اس طرح کی رجوع وہی شخص کرسکتا ہے جو بہت زیادہ اخلاص والا ہو، اہل علم میں اس طرح کے رجوع کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں عصر حاضر میں صرف اور صرف علامہ البانی رحمہ اللہ واحد شخص تھے جن کے یہاں پہلی قسم والا رجوع تو تھا ہی اس کے ساتھ ساتھ دوسری قسم والے رجوع کی بھی بہت مثالیں ملتی ہیں ، حتی کہ کسی عام طالب علم نے شیخ البانی کی غلطی بتائیں تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے فورا رجوع کرلیا بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے مخالفین ومعاندین نے بھی علامہ البانی رحمہ اللہ کی غلطی پکڑی توعلامہ البانی رحمہ اللہ نے رجوع کرلیا۔
شاکربھائی کہتے ہیں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ بھی اعلانیہ رجوع کرتے ہیں تو کیا شاکر بھائی یا کوئی اور صاحب شیخ زیبر حفظہ اللہ کے یہاں دوسری قسم والے رجوع کی مثال دے سکتے ہیں ؟
یہاں کچھ ساتھی ہیں جن کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شیخ سے رابطے میں رہتے ہیں یا شیخ کی تحریریں باقاعدگی سے پڑھتے رہتے ہیں وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں ۔
جامعہ رحمانیہ گارڈن ٹاؤن میں ہمیں مولانا عبد الولی حقانی صاحب سے کسب فیض کا کچھ موقعہ ملا ہے ۔ وہ ماشاء اللہ خود بھی تحقیق قسم کے آدمی ہیں اور محققین پر ان کی نظر بھی ہے ۔ دار السلام میں بھی کام کرتے ہیں اسی سلسلے میں شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی کتب وغیرہ کی نظر ثانی بھی کی ہے انہوں نے ۔
انہوں نے اس سلسلے میں بتایا تھا ( آئندہ الفاظ میرے اپنے ہیں )کہ شیخ زئی حفظہ اللہ اپنے موقف پر بڑی سختی سے کاربند رہتے ہیں اور رجوع کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں ۔
واللہ اعلم ۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
یہاں کچھ ساتھی ہیں جن کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شیخ سے رابطے میں رہتے ہیں یا شیخ کی تحریریں باقاعدگی سے پڑھتے رہتے ہیں وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں ۔
جامعہ رحمانیہ گارڈن ٹاؤن میں ہمیں مولانا عبد الولی حقانی صاحب سے کسب فیض کا کچھ موقعہ ملا ہے ۔ وہ ماشاء اللہ خود بھی تحقیق قسم کے آدمی ہیں اور محققین پر ان کی نظر بھی ہے ۔ دار السلام میں بھی کام کرتے ہیں اسی سلسلے میں شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی کتب وغیرہ کی نظر ثانی بھی کی ہے انہوں نے ۔
انہوں نے اس سلسلے میں بتایا تھا ( آئندہ الفاظ میرے اپنے ہیں )کہ شیخ زئی حفظہ اللہ اپنے موقف پر بڑی سختی سے کاربند رہتے ہیں اور رجوع کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں ۔
واللہ اعلم ۔
ایسی بات نہیں ہے بلکہ شیخ صاحب بعض دفعہ رجوع کرتے ہیں اس کی مثالیں ماہنامہ الحدیث میں مل سکتی ہیں بلکہ پہلے لکھتے ہیں مجھے فلاں ساتھی نے توجہ دلائی اور مجھے وہ غلطی لگی تھی میں اس سے رجوع کرتا ہوں ۔مجھے بھی یاد ہے کہ میرے توجہ دلانے سے بھی شیخ محترم نے بعض باتوں سے رجوع کیا ۔
فرق صرف یہ ہے کہ جو شیخ محترم نے منھج اپنا لیا ہے اس منھج کی طرف اہل علم مسلسل توجہ دلا رہے ہیں لیکن اس سے رجوع شاید نہیں کیا اور نہ ہی ممکن نظر آتاہے ۔کیونکہ جس منھج پر چل کر ساری زندگی کام کیا ہے اگر اس منھج سے رجوع کرلیا جائے تو ان گنت تحقیقات سے رجوع لازم آئے گا مثلا زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ۔۔۔۔۔اور اسی کی طرف خضر حیات بھائی اور غاذی بھائی کا اشارہ ہے واللہ اعلم ۔۔۔۔۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
مذکورہ روایت پر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے تحقیقی اعتراضات کی توضیح کے لیے ہم نےشیخ زبیر حفظہ اللہ کو فون کیا اور ان سے کی گئی ٣-٤منٹ کی گفتگو میں جو اہم نکات سامنے آئے انہیں جواب کی شکل میں یہاں پیش کر دیا گیا۔سو اس جواب کو مکمل طور پر شیخ زبیر حفظہ اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا گو کہ ہماری ذکر کردہ اکثر باتوں سے شیخ صاحب کا اتفاق ہے ۔دونوں شیوخ کے نام ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ تھاکہ ہمارے پیش کردہ جواب کی بنیاد ان سے کی گئی گفتگو پر ہی تھی ۔اور یہ وضاحت ہماری پہلی پوسٹ میں بھی تھی۔ ملاحظہ ہوں الفاظ:
اسکے باوجودہمارے پیش کردہ الفاظ سےجو غلط تاثر ابھراہے تو اس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔

جی ان شاءاللہ شیخ کفایت اللہ کا جواب شیخ زبیر کو پوسٹ کردیا جائے گا۔باقی جواب دینا یا نہ دینا تو یہ شیخ صاحب پر منحصر ہے۔
علمی اختلاف احترم کے دائرے میں رہ کر کرنا درست ہے اور اسے ذاتی مسئلہ سمجھ کر اس پر کفر اسلام کی عمارت کھڑی کرنا درست نہیں ہے۔
بہترین بات ہے ۔تلامذہ کو بھی ذاتی تحقیقی جستجو رکھنی چاہئے اور اپنے ذہن کو اوپن رکھ کر تنقیدات کا مطالعہ کریں تاکہ تقلیدی ذہن ختم ہوسکے،اور تحقیقی افراد پیدا ہوں جو افراد تقلدی ذہن رکھتے ہیں ان کو مخالف کی ہر بات ہی غلط لگتی ہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے ۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
فون پر ساری تحقیق سنانے میں اور پھر اس کا جواب لینے میں وہ بات اور Context نہیں رہتا جو خود دیکھ کر ساری بات سے واقف ہو کر جواب دینے میں رہتا ہے۔ بہتر تو یہی ہو گا کہ شیخ صاحب کو مکمل جواب تحریری شکل میں پہنچایا جائے۔
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
اپنے موقف سے برات یا رجوع کی دوقسمین ہوتی ہیں:

پہلی قسم یہ کہ آدمی اپنی تحقیق پر خود ہی نظر ثانی کرنے کے بعد خود ہی اپنی غلطی پکڑے اوراس سے رجوع کرے ، یہ کام بہت آسان ہے اور ہر عالم بڑی آسانی سے اس طرح کے رجوع کا پرچار کردیتا ہے ۔

لیکن رجوع کی دوسری قسم یہ ہے کہ کسی اور کے بتانے یا کسی اور کے تعاقب کے بعد آدمی اپنی غلطی سے رجوع کرلے ، اس طرح کا رجوع ہی اصل ہمت والا کام ہے ، اور اس طرح کی رجوع وہی شخص کرسکتا ہے جو بہت زیادہ اخلاص والا ہو، اہل علم میں اس طرح کے رجوع کی مثالیں خال خال ہی نظر آتی ہیں عصر حاضر میں صرف اور صرف علامہ البانی رحمہ اللہ واحد شخص تھے جن کے یہاں پہلی قسم والا رجوع تو تھا ہی اس کے ساتھ ساتھ دوسری قسم والے رجوع کی بھی بہت مثالیں ملتی ہیں ، حتی کہ کسی عام طالب علم نے شیخ البانی کی غلطی بتائیں تو علامہ البانی رحمہ اللہ نے فورا رجوع کرلیا بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ کے مخالفین ومعاندین نے بھی علامہ البانی رحمہ اللہ کی غلطی پکڑی توعلامہ البانی رحمہ اللہ نے رجوع کرلیا۔

شاکربھائی کہتے ہیں کہ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ بھی اعلانیہ رجوع کرتے ہیں تو کیا شاکر بھائی یا کوئی اور صاحب شیخ زیبر حفظہ اللہ کے یہاں دوسری قسم والے رجوع کی مثال دے سکتے ہیں ؟
انہوں نے اس سلسلے میں بتایا تھا ( آئندہ الفاظ میرے اپنے ہیں )کہ شیخ زئی حفظہ اللہ اپنے موقف پر بڑی سختی سے کاربند رہتے ہیں اور رجوع کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں ۔
واللہ اعلم ۔
جس بھائی نے ماہنامہ اشاعۃ الحدیث کے تازہ شمارہ یعنی شمارہ نمبر ١٠٣ کا سرسری سا مطالعہ بھی کیا ہو گا اس کے علم میں مندرجہ ذیل بات ہوگی:
(ماہنامہ اشاعۃ الحدیث ١٠٣،ص ١٣)
اسی طرح کے بہت سے حوالے شیخ حفظہ اللہ کی کتب اور رسالے میں سے پیش کئے جا سکتے ہیں،مزید ایک حوالہ بطور مثال پیش خدمت ہے :
(فتاویٰ علمیہ المعروف توضیح الاحکام،ص ٤٧٧)
لہٰذا مندرجہ بالا حوالہ جات کے پیش کئے جانے کے بعد اس عبارت "رجوع کے امکانات کم ہی ہوتے ہیں" پر تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔
جو بھائی مزید تحقیق کرنا چاہتے ہوں،ان کے لیے ایسے ہی مزید تراجعات کی تلاش کے سلسلہ میں شیخ کی کتب (خاص طور سے انوار الصحیفۃ طبع جدید)اور رسالے کا مطالعہ مفید رہے گا۔ان شاءاللہ تعالیٰ۔
یہاں کچھ ساتھی ہیں جن کی گفتگو سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ شیخ سے رابطے میں رہتے ہیں یا شیخ کی تحریریں باقاعدگی سے پڑھتے رہتے ہیں وہ اس بات کی وضاحت کر سکتے ہیں ۔
جامعہ رحمانیہ گارڈن ٹاؤن میں ہمیں مولانا عبد الولی حقانی صاحب سے کسب فیض کا کچھ موقعہ ملا ہے ۔ وہ ماشاء اللہ خود بھی تحقیق قسم کے آدمی ہیں اور محققین پر ان کی نظر بھی ہے ۔ دار السلام میں بھی کام کرتے ہیں اسی سلسلے میں شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ کی کتب وغیرہ کی نظر ثانی بھی کی ہے انہوں نے ۔
واللہ اعلم ۔
محترم خضر حیات بھائی ! ان ہی کتب کے بارے میں میں پہلے ہی ایک دوسرے تھریڈ میں تفصیلا لکھ چکا ہوں کہ یہ وہی کتب ہیں جن کی شیخ زبیر حفظہ اللہ سے مراجعت ہی نہیں کروائی گئی اور شیخ ان کتب کی ذمہ داری سے برات کا اظہار کرچکے ہیں۔
ثانیا:یہ نظرثانی شیخ زبیر حفظہ اللہ نے نہیں کروائی بلکہ یہ مکتبہ دارالسلام کے صاحبان نے کروائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسی قسم کی وجوہات کی بنا پر شیخ کو دارالسلام کی طرف سے چھپی ہوئی سنن ابن ماجہ کو بھی چوں چوں کا مربہ کہنا پڑا !!
مزید تحقیق کے لئے آپ دارالسلام کی طرف سے چھپی ہوئی تفسیر احسن البیان(جدید ایڈیشن) کے عرض ناشر کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔۔۔۔جس کے پہلے ایڈیشن میں صفات باری تعالیٰ(مثلا تفسیر سورہ التین) کے حوالے سے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ سے کچھ سہو ہو گئے تھے۔۔۔۔اس طبع جدید میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کے تو کسی رجوع کا ذکر نہیں البتہ مفتی عبدالولی حفظہ اللہ سے اس کی نظرثانی کروا کر اس کو درست کروا دیا گیا ہے اور اس بارے میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ کے موقف کا کچھ پتا نہیں چل سکا کہ آیا وہ بھی اپنے سابقہ موقف سے رجوع کر چکے ہیں یا نہیں !!!
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
ایسی بات نہیں ہے بلکہ شیخ صاحب بعض دفعہ رجوع کرتے ہیں اس کی مثالیں ماہنامہ الحدیث میں مل سکتی ہیں بلکہ پہلے لکھتے ہیں مجھے فلاں ساتھی نے توجہ دلائی اور مجھے وہ غلطی لگی تھی میں اس سے رجوع کرتا ہوں ۔مجھے بھی یاد ہے کہ میرے توجہ دلانے سے بھی شیخ محترم نے بعض باتوں سے رجوع کیا ۔
فرق صرف یہ ہے کہ جو شیخ محترم نے منھج اپنا لیا ہے اس منھج کی طرف اہل علم مسلسل توجہ دلا رہے ہیں لیکن اس سے رجوع شاید نہیں کیا اور نہ ہی ممکن نظر آتاہے ۔کیونکہ جس منھج پر چل کر ساری زندگی کام کیا ہے اگر اس منھج سے رجوع کرلیا جائے تو ان گنت تحقیقات سے رجوع لازم آئے گا مثلا زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ۔۔۔۔۔اور اسی کی طرف خضر حیات بھائی اور غاذی بھائی کا اشارہ ہے واللہ اعلم ۔۔۔۔۔
جیسا کہ آپ خود ہی اس بات کے قائل ہیں کہ شیخ اپنی بات غلط ثابت ہونے پر رجوع کرتے ہیں اور آپ نے اس طرف اشارہ بھی کیا اور مزید حوالہ جات میں اپنی پچھلی پوسٹ میں دے چکا ہوں۔۔۔۔۔اب ان ساری باتوں کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ کہنا کہ "لیکن اس سے رجوع شاید نہیں کیا اور نہ ہی ممکن نظر آتاہے ۔کیونکہ جس منھج پر چل کر ساری زندگی کام کیا ہے اگر اس منھج سے رجوع کرلیا جائے تو ان گنت تحقیقات سے رجوع لازم آئے گا مثلا زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ" محل نظر ہے۔
یہ ایک ایسی بات ہے کہ اگر ثابت ہو جائے تو شیخ کے ساری زندگی کے کیے گیے رجوع بھی بے فائدہ ہیں اور پھر شیخ کے اس موقف کو موانع ہدایت میں سے سمجھا جائے گا !!!
لیکن اس بات کے صحیح نہ ہونے کے لیے مندرجہ ذیل اقتباس ہی کافی ہے :
(ماہنامہ الحدیث ٨٧،ص ٣٢)
مندرجہ بالا رجوع کسی ایک روایت کی تحقیق سے رجوع نہیں ۔۔۔بلکہ حمید الطویل کی تدلیس کے بارے میں ایک اصول سے رجوع ہے اور جس کی وجہ سے کوئی ایک حدیث نہیں بلکہ بہت سی احادیث کی صحت و ضعف پر فرق پڑتا ہے۔۔۔۔اور شیخ ساری زندگی جس منھج پر قائم رہے اس سے رجوع ثابت ہوتا ہے ۔والحمدللہ!
باقی جہاں تک تعلق ہے زیادۃ الثقۃ ،حسن لغیرہ ،مسئلہ تدلیس وغیرہ کے بارے میں اپنے موقف سے رجوع کرنے کا تو ایک بڑی ہی سادہ سی بات ہے رجوع تب کیا جاتا ہے جب کسی کے موقف کو دلائل کے ساتھ غلط ثابت کردیا جائے ۔۔۔۔نہ کہ صرف کسی کے موقف کے تعاقب میں مطلقا لکھ دینے سے !!
اور چونکہ شیخ زبیر حفظہ اللہ کے موقف کو دلائل کی روشنی میں ابھی تک غلط ثابت نہیں کیا جا سکا لہذا وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔اس کی ایک زبردست مثال شیخ کے اس موقف کے بارے میں بڑے بڑے شیوخ کا ان کے موقف سے اتفاق ہے، جیسا کہ ماہنامہ الحدیث شمارہ نمبر ١٠٣ میں مسئلہ تدلیس کے بارے میں شیخ کے موقف پر شیخ مبشر احمد ربانی اور شیخ داود ارشد حفظہما اللہ کی تقاریظ چھپ چکی ہیں۔
ایک بڑی ہی عجیب حقیقت ہے کہ شیخ ساری زندگی ایک ایسے منھج پر قائم رہے جو کہ راجح نہیں تھا(بعض حضرات کی رائے میں) لیکن پھر بھی نہ جانے کیوں مکتبہ دارلسلام جس کا دنیا میں ایک نام ہے،شیخ کی تحقیق و تخریج سے کتب کی ایک کثیر تعداد (سنن ابن ماجہ ،ابی داود،نسائی،منہاج المسلم،ریاض الصالحین،بلوغ المرام،صحیح نماز نبوی وغیرہ وغیرہ) دنیا کی مختلف زبانوںمیں چھاپتا رہا اور ابھی تک چھاپ رہا ہے(گو کہ شیخ اس سے متفق نہیں)۔اللہ اکبر !
 

Muhammad Waqas

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
356
ری ایکشن اسکور
1,596
پوائنٹ
139
ماشاء اللہ تبارک اللہ ۔
کفایت اللہ بھائی آپ واقعتا اسم با مسمی ہیں ۔
نہایت وضاحت کے ساتھ آپ اپنا موقف پیش کرتے ہیں ۔ اللہ آپ کو جزائے خیردے ۔
مضمون کی بعض جزئیات ہضم نہیں ہو سکیں شاید اس کی وجہ ہماری اس علم سے ناواقفیت ہے ۔ البتہ مجموعی طور پر یہی لگتا ہے کہ حدیث مذکور معلول (مُعل) یعنی ضعیف ہے ۔

اب جب تک زبیر علی زئی صاحب کے قلم سے اس کا رد نہیں آ جاتا ہم آ پکے موقف سے سو فیصد متفق ہونے کے لیے مجبور ہیں ۔
زبیر علی زئی صاحب کے معاونین یا تلامذہ وغیرہ کوشش کریں کہ اس سلسلے میں خود حافظ موصوف سے رد لکھوائیں اور یہاں پیش کریں ۔
کیونکہ اوپر اسد حبیب بھائی نے حافظ صاحب کی طرف سے جو باتیں پیش کی ہیں وہ لگتا ہے کہ حافظ صاحب کے تحقیقی مزاج کے خلاف ہیں ۔
واللہ أعلم ۔
خضر بھائی ! بہت اچھا تبصرہ کیا آپ نے ۔
جزاک اللہ خیرا
 
Top