اس سے پہلے بہرام صاحب سے کچھ گفتگو ہو رہی تھی ، جس میں ا ھجر کے لفظ اور اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعن کے حوالہ سے بات کی۔ اس سلسلے میں بہرام صاحب سے بات چلے گي ان شاء اللہ
فی الحال اعتصام صاحب نے موضوع سے متعلق کچھ نکات اٹھائے ہیں ، اہل علم جو مجلس میں موجود ہیں اس حوالہ سے کچھ عرض کریں گے لیکن میں اپنی تحقیق کے مطابق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں اگر حق ہے تو اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے ہے اور اگر کچھ غلطی پر ہوں تو اللہ تبارک و تعالی سے معافی کا طلبگار ہوں
اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے حق بیان کرنے سے رک جائین ، کیوں کہ ارشاد ہو چکا ہے
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه
اس لئیےخاکم بدہن اگر بالفرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے رک گئے تھے تو انہوں نبوت کا حق ادا نہیں کیا اور یہ بات نا ممکن ہے ویسے بھی اللہ تبارک و تعالی کہ چکا ہے (
وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اس لئیے یہ بھی نا ممکن ہے کسی حق بات کو کسی کے بھی ڈر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حق بات بیان کرنے سے رہ جائیں کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک و تعالی نے لیا ہے(1)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے بعد وہ مکتوب کیوں نہ لکھا(2) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باہر جانے کا کیوں نہ کہا اور قوموا عنی کیوں کہا(3)
اس سے کچھ امور ثابت ہوتے ہیں
اول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے کچھ لکھنے سے رک جانا اس بات کی علامت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوچکے تھے (4) ورنہ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه کہلائے گا (5)اور یہ ناممکنات میں سے ہے۔
دوم اگر یہ انکار حدیث ہوتا تو کیسے ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی منکر امر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرمائيں ۔(6) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے یہاں کوئی انکار حدیث نہیں(7)
سوم اگر یہ لکھنا کسی دینی امر میں سے ہوتا تو یہ آیت نہ اترتی(8)
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
یہ کیسے ممکن ہے ایک تحریر لکھنے سے رہ گئی ہو پھر بھی دین کی تکمیل کا اعلان ہورہا ہے
جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ ، ثَنَا أَبُو يَعْلَى ، ثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، ثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ وَاسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا وَقُمْنَا ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَتْبَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ ، وَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ مِنْ بِئْرِ خَارِجَةَ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَرَفْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ " ، قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " مَا شَأْنُكَ ؟ " ، قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَرْتُ كَمَا يَحْتَفِرُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، قَالَ : " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ " ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، وَقَالَ : " اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا مِنْ قَلْبِهِ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ " ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ ، فَقُلْتُ : هَاتَيْنِ نَعْلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا فَمَنْ لَقِيتُ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهِ قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةَ ، قَالَ : فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لاسْتِي (9)، وَقَالَ : ارْجَعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بِالْبُكَاءِ ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، وَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ " ، فَقُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجَعْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لعمر): " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ " ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي بَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ تُبَشِّرُهُ بِالْجَنَّةِ ، قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَلا تَفْعَلْ ، فَأَنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَلِّهِمْ " ، رَوَاهُ مُسْلِمُ ، عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ .
یہاں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو بات بتائی لوگوں کوبتائیں جس کا مفہوم ہے کہ میری یہ جوتیاں لے کرجائو اور جو بھی اس باغ سے باہر تمہیں ملے اور وہ اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کی گواہی دے اور اس کا دل سے بھی اس پر یقین ہو تو اس کو جنت کی بشارت دو لیکن حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے بتانے سے منع کیااور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات کو قبول کیا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کام سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منع فرمایا (10)تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان رائے سے متفق ہو گئے ۔
تو جو حدیث زیر بحث ہے اس میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ سکتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کمرے سے نکال دو ور پھر وہ تحریر لکھوا لیتے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا تو مجھے تو یہ معلوم ہوتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے یہاں بھی متفق ہوچکے تھے
و اللہ اعلم بالصواب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ کہنا کچھ غلط نہیں ۔ اصل میں منکریں حدیث کی طرف اس نعرے نے کچھ افراد کو اس حوالہ سے شک میں ڈال دیا ہے ورنہ یہ جملہ بالکل صحیح ہے جو قران کو مانے وہ حدیث کو ضرور مانے گا کیوں کہ حجیت حدیث قرآن سے ثابت ہے(11)
سب سے پہلے عرض یہ ہے کہ آپ نے میری سرخ کردہ عبارات غور سے نہیں پڑھی۔۔۔
دوسری بات یہ کہ آپ بھر بھی اپنی ہی عبارتیں جن کو میں نے سرخ کیا ہے غور پڑہیں پہر میرے جوابات پڑہیں۔۔۔۔
جوابات:
(1) 1ـ یہ آیت کسی عام حکم کے لیے نہیں بلکہ خاص حکم کے لیے ہی ہو سکتی ہے (
إِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه
اور وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اسی بات کی طرف ہی اشارہ ہے۔۔۔۔
2ـ تو پھر آپ کی بات تب درست ہوتی جب حدیث میں یہ الفاظ نا ہوتے(لن تضلوا بعده) (ن الرزية
كل الرزية ما ح
ال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب۔)
3ـ کتاب کے باب کا عنوان ہے(
احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی
کراہت کا بیان) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث احکام کے لیے لکھی جا رہی تھی۔۔۔
تو اب آپکا اعتراض بخاری یا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ پر ہوتا ہر ہم پر نہیں۔۔۔
(2)
1ـاس لیے کہ ھذیان کی فتوی آ چکی تھی تو بہانہ جو لوگ بعد میں ھر حدیث کے لیے یہی کہہ دیتے کہ یہ حدیث معاذاللہ ھذیان کے وقت کی ہے!!!!
2ـ ہمارا مدعی انکار حدیث ہے تو وہ سرزد ہوا ہے عمر سے۔۔۔۔ اگر ضروری نہیں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ لن تضلوا بعده؟
3ـ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اولا مکے کے لیے آئے تھے پر پھر ھجرت پر مجبور کیوں ہوئے؟ کیا مکہ والوں کو تبلیغ کرنا ضروری نہیں تھی؟ فافھم جیدا
(3)
کیونکہ حضرت عمر ایک نہیں بلکہ ایک گروپ تھا۔۔۔کہتے ہیں مان بیٹی کو مار کر بہو کو سمجھاتی ہے بر حال یہ بھی اعتراض بخاری پر ہی ہے۔۔۔
(4)
1ـ یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لن تضلوا فرما چکے ہیں تو کیا اتنی بڑی بات ایسے ہی کہہ ڈالی ؟!!! پھر اسکے بعد حضرت عمر سے متفق ہونا ایک سید الانبیاء نبی کے لیے بہت ہی عجیب ہے۔۔۔
2ـ کیا
احکام شرع میں بھی آپ غلط بیانی کردیتے تھے پھر ھضرت عمر نے جو کہہ دیا اسی پر چل پڑے؟! نبی ایسے ہوتے ہیں؟!
(5)
اس کا جواب لن تضلوا ہے۔۔۔۔
(6)
1ـ یہی تو تقیہ ہے۔
2ـیہ نئی بات نہیں ایسا پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔۔۔۔( انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا " . فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ ، فَ
غَضِبَ ،
ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ ، فَرَأَتْ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ ، فَقَالَتْ : مَنْ أَغْضَبَكَ أَغْضَبَهُ اللَّهُ ؟ قَالَ : " وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ وَ
أَنَا آمُرُ بِالْأَمْرِ فَلَا أُتَّبَعُ " .)
(7)
لشدۃ عمر
(8)
1ـ آپ تو خود بخاری کو جھٹلا رہیں ہیں جس نے باب کا عنوان ہی
احکام شرع رکھا ہے۔۔۔!
2ـ
وفات سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم وصیت
اپنی وفات سے پانج دن قبل:
سَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ وَهُوَ يَقُولُ « 0000
أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّى أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ . مسلم:532 المساجد، الطبراني الكبير:1686، بروايت جندب بن عبدالله البجلي.
حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰
بیماری کے بالکل آخری ایام اور آخری لحظات میں:
لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا. ص
حيح البخاري :435 الصلاة، صحيح مسلم: 531 المساجد، مسند احمد1/218و6/275، سنن النسائي 2/40.
حضرت عاٗشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرض موت کی کیفیت طاری تھی تو۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کو تو آیہ اکمال کے ذریعے جھٹلاو۔۔۔!
(9) اس روایت میں سرخ عبارت کا بھ ترجمہ کریں ذرا۔۔۔۔۔۔۔البتہ مسلم بن کر ترجمہ کرنا ہے۔۔۔
جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ ، ثَنَا أَبُو يَعْلَى ، ثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، ثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ وَاسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا وَقُمْنَا ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَتْبَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ ، وَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ مِنْ بِئْرِ خَارِجَةَ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَرَفْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ " ، قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " مَا شَأْنُكَ ؟ " ، قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَرْتُ كَمَا يَحْتَفِرُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، قَالَ : " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ " ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، وَقَالَ : " اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا مِنْ قَلْبِهِ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ " ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ ، فَقُلْتُ : هَاتَيْنِ نَعْلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا فَمَنْ لَقِيتُ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهِ قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةَ ، قَالَ : فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لاسْتِي ، وَقَالَ : ارْجَعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بِالْبُكَاءِ ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، وَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ " ، فَقُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجَعْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لعمر): " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ " ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي بَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ تُبَشِّرُهُ بِالْجَنَّةِ ، قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَلا تَفْعَلْ ، فَأَنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَلِّهِمْ " ، رَوَاهُ مُسْلِمُ ، عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ .
1ـاس میں ابوہریرہ کا قصور کیا تھا؟ کیا حضرت عمر کے پاس کوئی دلیل شرعی تھی ابوہریرہ کو مارنے پر؟!!!
2ـ کم از کم عمر کلمہ تو پڑھ لیتا!!!
3ـ یہ آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلہ وسَلَّمَ کے سامنے
فَلا تَفْعَلْ کا معنی کیا ہے؟
بس کس کس بات پر روئے ہم؟!!!
(10) یہ آپ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلہ وسَلَّمَ کے لیے حضرت عمر کا
فرمانا فرمانا فرمانا اس سے آپ کے عقیدہ کو پرکھیں یا آپ صلعم کی توہیں سمجھیں؟
(11) یہ استدلال کہاں سے کیا؟ جبکہ حضرت عمر نے ہی آپ کے استدلال کو رد کردیا کہ حسبنا کتاب اللہ اور پھر اھل حدیث کے بجائے اھل کتاب کہلوایا کریں نا۔۔۔
یاد رہے کہ کہ بخاری خود نے ہی کتاب اور سنۃ کر نام سے اس کتاب کو موسوم کیا ہے۔۔۔۔ فقط کتاب اکاعتصام بالکتاب ہی کہہ دیتے۔۔۔۔
جو نماز پڑہے گا وہ روزے بھی رکھے گا لھذا آپ کے مطابق روزے کا حکم عبث ہے و قس علی ھذا۔۔۔۔