• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ بھی انکار حدیث ہے؟؟؟؟

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
صحیح بخاری
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ

باب: احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان
حدیث نمبر : 7366
حدثنا إبراهيم بن موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أخبرنا هشام،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن معمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الزهري،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عبيد الله بن عبد الله،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن ابن عباس،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ قال لما حضر النبي صلى الله عليه وسلم ـ قال وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب ـ قال ‏"‏ هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏.‏ قال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندكم القرآن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فحسبنا كتاب الله‏.‏ واختلف أهل البيت واختصموا،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده‏.‏ ومنهم من يقول ما قال عمر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما أكثروا اللغط والاختلاف عند النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قوموا عني ‏"‏‏.‏ قال عبيد الله فكان ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم‏.‏



معذرت کے ساتھ۔۔۔۔ کیوکہ آپ کا موضوع بہت آگے جا چکا ہے اس لیے میری دخل اندازی مناسب تو نہیں ہے پر میں یہاں پر ایک بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں وہ یہ کہ:

موضوع ہے انکار حدیث، تو سوال یہ ہے کہ مذکورہ روایت انکار حدیث پر دلالت کرتی ہے کہ نہیں؟
جواب: جی ہاں مذکورہ روایت صد درصد انکار حدیث پر دلالت کررہی ہے اس کے لیے دلائل دیے جاچکے ہیں پریہان پر میں بھی دو دلیل
عرض کرنا چاہوں گا۔۔۔

مقدمہ: صحیح بخاری میں اس کتاب کا عنوان ہے (کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) خصوصی طور پر سنت کے اعتصام کا حکم ہے اور سنت کو پکڑنا باعث ھدایت اور اسکو چھوڑنا باعث ضلالت ہوگا۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده لھذا مسئلہ یہاں پر ھدایت اور گمراہی کا ہے۔

دلیل نمبر١: حضرت عمر رض کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده کے جواب میں کہنا کہ فحسبنا كتاب الله‏.‏ آپ کا لکھا( سنت) لازم نہیں کیونکہ قرآن ہے بس وہی کافی ہے۔ یعنی حضرت عمر ایک چیز(قرآن) کا قائل ہے اور دوسری (سنت) کا منکر ہے جبکہ کتاب کا عنون دونوں چیزون سے تمسک کرنا ہے۔

دلیل٢: بہت ہی عمدہ اور مھم دلیل ہے انکار حدیث پر۔۔۔ حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کی یا نہیں اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہنا چاہتا اور نا ہی میرا یہ مقصد ہے بلکہ میرا مقصد اس حدیث سے انکار حدیث کو ثابت کرنا ہے۔۔۔
مھم دلیل یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے واضح کرکے بتادیا کہ یہ انکار حدیث ہی ہے إن الرزية كل الرزية[/HL] ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو جھگڑے کی فکر نہیں تھی بلکہ اس بات کا غم تھا کہ حدیث کیوں
نہیں لکھنے دی گئی!

یاد رہے کہ
١- منکرِ حدیث فقط حضرت عمر نہیں بلکہ پورا ایک گروپ تھا۔۔۔(ومنهم من يقول ما قال عمر)
٢- حضرت عمر کا اپنے دور خلافت میں حدیث لکھنے اور بیان کرنے پر پابندی لگانا بھی ھمارے مدعی پر واضح ثبوت ہے۔
٣ـ يہ مخالفت پہلی مرتبہ نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔۔۔ جیسا کہ ( مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ) میں موجود ہے:
رقم الحديث: 18157
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ(صدوق حسن الحديث) ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ(ثقة مكثر) ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ(صحابی) ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ ، قَالَ : فَأَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ ، قَالَ : " اجْعَلُوا حَجَّكُمْ عُمْرَةً " . قَالَ : فَقَالَ النَّاسُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَدْ أَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ ، فَكَيْفَ نَجْعَلُهَا عُمْرَةً ؟ ! قَالَ : " انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا " . فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ ، فَغَضِبَ ، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ ، فَرَأَتْ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ ، فَقَالَتْ : مَنْ أَغْضَبَكَ أَغْضَبَهُ اللَّهُ ؟ قَالَ : " وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ وَأَنَا آمُرُ بِالْأَمْرِ فَلَا أُتَّبَعُ " .

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں کیسے غصہ نا کروں جبکہ میں کسی بات کا حکم کرتا ہوں مگر میری اتباع نہیں کی جاتی۔۔۔

اس میں تو کھلم کھلا حدیث کا انکار دکھائی دے رہا ہے۔۔۔


قال ‏"‏هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ‏"‏‏.‏
اس سے پہلے بہرام صاحب سے کچھ گفتگو ہو رہی تھی ، جس میں ا ھجر کے لفظ اور اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعن کے حوالہ سے بات کی۔ اس سلسلے میں بہرام صاحب سے بات چلے گي ان شاء اللہ

فی الحال اعتصام صاحب نے موضوع سے متعلق کچھ نکات اٹھائے ہیں ، اہل علم جو مجلس میں موجود ہیں اس حوالہ سے کچھ عرض کریں گے لیکن میں اپنی تحقیق کے مطابق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں اگر حق ہے تو اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے ہے اور اگر کچھ غلطی پر ہوں تو اللہ تبارک و تعالی سے معافی کا طلبگار ہوں

اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے حق بیان کرنے سے رک جائین ، کیوں کہ ارشاد ہو چکا ہے

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه

اس لئیےخاکم بدہن اگر بالفرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے رک گئے تھے تو انہوں نبوت کا حق ادا نہیں کیا اور یہ بات نا ممکن ہے ویسے بھی اللہ تبارک و تعالی کہ چکا ہے

وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اس لئیے یہ بھی نا ممکن ہے کسی حق بات کو کسی کے بھی ڈر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حق بات بیان کرنے سے رہ جائیں کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک و تعالی نے لیا ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے بعد وہ مکتوب کیوں نہ لکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باہر جانے کا کیوں نہ کہا اور قوموا عنی کیوں کہا
اس سے کچھ امور ثابت ہوتے ہیں
اول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے کچھ لکھنے سے رک جانا اس بات کی علامت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوچکے تھے ورنہ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه کہلائے گا اور یہ ناممکنات میں سے ہے۔
دوم اگر یہ انکار حدیث ہوتا تو کیسے ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی منکر امر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرمائيں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے یہاں کوئی انکار حدیث نہیں
سوم اگر یہ لکھنا کسی دینی امر میں سے ہوتا تو یہ آیت نہ اترتی
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
یہ کیسے ممکن ہے ایک تحریر لکھنے سے رہ گئی ہو پھر بھی دین کی تکمیل کا اعلان ہورہا ہے


جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ ، ثَنَا أَبُو يَعْلَى ، ثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، ثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ وَاسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا وَقُمْنَا ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَتْبَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ ، وَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ مِنْ بِئْرِ خَارِجَةَ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَرَفْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ " ، قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " مَا شَأْنُكَ ؟ " ، قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَرْتُ كَمَا يَحْتَفِرُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، قَالَ : " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ " ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، وَقَالَ : " اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا مِنْ قَلْبِهِ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ " ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ ، فَقُلْتُ : هَاتَيْنِ نَعْلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا فَمَنْ لَقِيتُ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهِ قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةَ ، قَالَ : فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لاسْتِي ، وَقَالَ : ارْجَعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بِالْبُكَاءِ ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، وَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ " ، فَقُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجَعْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ " ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي بَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ تُبَشِّرُهُ بِالْجَنَّةِ ، قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَلا تَفْعَلْ ، فَأَنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَلِّهِمْ " ، رَوَاهُ مُسْلِمُ ، عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ .
یہاں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو بات بتائی لوگوں کوبتائیں جس کا مفہوم ہے کہ میری یہ جوتیاں لے کرجائو اور جو بھی اس باغ سے باہر تمہیں ملے اور وہ اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کی گواہی دے اور اس کا دل سے بھی اس پر یقین ہو تو اس کو جنت کی بشارت دو لیکن حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے بتانے سے منع کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات کو قبول کیا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کام سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منع فرمایا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان رائے سے متفق ہو گئے ۔
تو جو حدیث زیر بحث ہے اس میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ سکتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کمرے سے نکال دو اور پھر وہ تحریر لکھوا لیتے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا تو مجھے تو یہ معلوم ہوتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے یہاں بھی متفق ہوچکے تھے
و اللہ اعلم بالصواب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ کہنا کچھ غلط نہیں ۔ اصل میں منکریں حدیث کی طرف اس نعرے نے کچھ افراد کو اس حوالہ سے شک میں ڈال دیا ہے ورنہ یہ جملہ بالکل صحیح ہے جو قران کو مانے وہ حدیث کو ضرور مانے گا کیوں کہ حجیت حدیث قرآن سے ثابت ہے
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
کسی عالم کا کوئی قول حجت نہیں ہوتا اور ویسے بھی یہ مسلک اہل حدیث کے عالم ہیں اور میرا تعلق حنفی دیوبندی مسلک سے ہے
موضوع سے متعلق میرے سوالات کے جوابات دے دیں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب
حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے جس شخصیت سے قتال کی انہی ہستی سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کی ۔
جنگ صفین 37 ہجری میں ہوئی اور اس جنگ کے چار سال بعد حضرت حسن رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرلی تھی۔
میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ چار سال میں وہ کیا امور واقع ہوئے کہ چار سال پہلے تو ان سے لڑنا اولی بالحق ہوا اور چار سال بعد ان ہی سے صلح کرنا اولی بالحق ہوگيا
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ میں یا ان کی حکومت میں کیا تبدیلیاں آئیں تھیں
حضرت امیر معاویہ رضي اللہ عنہ ہمارے نذدیک ایک جلیل القدر صحابی ہیں ، آپ شاید اس سے اتفاق نہ کریں اور نہ یہ ہمارا موضوع ہے میں صرف وہ تبدیلیاں جاننا چاہتا ہوں جن کی بنا پر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کے بجائے صلح کرنا اولی بالحق بن گيا
یعنی آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ اگر مولا علی علیہ السلام معاویہ سے قتال کرنے پراولی بالحق ہیں تو پھر حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام معاویہ سےصلح کرنے پر اولی بالحق نہیں ؟؟؟
جبکہ کہ اس بات کی دلیل میں صحیح احادیث سے پیش کر چکا کہ جب مولا علی علیہ السلام نے قتال کیا اس وقت مولا علی علیہ السلام اولی بالحق تھے اور جب حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے صلح کی اس وقت حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام اولی بالحق تھے

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ
صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب ذکر الخوارج وصفاتہم ح ۱۰۶۵

ترجمہ از وحید الزماں
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک فرقہ جو جدا ہوجائے گا جب مسلمانوں میں پھوٹ ہوگی اور اس کو قتل کرے گا وہ گروہ جو قریب ہوگا ان دونوں گرہوں میں حق سے

حدثنا صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ابن عيينة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الحسن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمع أبا بكرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن إلى جنبه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ينظر إلى الناس مرة وإليه مرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ويقول ‏"‏ ابني هذا سيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين ‏"‏‏.
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 3746
ترجمہ : داؤد راز
ہم سے صدقہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیا ، ان سے حسن نے ، انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دوجماعتوں میں صلح کرائے گا۔

کسی عالم کا کوئی قول حجت نہیں ہوتا اور ویسے بھی یہ مسلک اہل حدیث کے عالم ہیں اور میرا تعلق حنفی دیوبندی مسلک سے ہے
موضوع سے متعلق میرے سوالات کے جوابات دے دیں
معاف کرنا مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ صحیح احادیث بھی آپ کے لئے حجت نہیں!!!!!!
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بہرام صاحب
آپ نے جو دوسری بار ترجمہ کیا اس میں "کیا یہ تم سمجھتے ہو کہ" کہ الفاظ بڑھادیے
یہ الفاظ ترجمے میں تو نہیں آسکتے لیکن ہمزہ الاستفہام الانکاری کی وجہ سے گرائمر کی رو سے تشریح میں آسکتے ہیں اور ان کے بغیر بھی تشریح ہو سکتی ہے
اوریہ بھی مراد لی جاسکتی ہے کہ جب تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی جانتے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے معنی کلام نہیں فرماتے یہ ان کی شان اقدس سے بعید ہے پھر ایسی بات کیوں کرتے ہو اورانھیں لکھنے کا سامان کیوں نہیں پیش کرتے
یعنی یہ ترجمہ تفسیری ہے چلیں اس نکتے پر ہمارا اتفاق ہوگیا کہ یہ ترجمہ تشریح کی رو سے صحیح ہے

بہرام صاحب
جب گرائمر یا قاموس میں دو سے زائد ترجمہ کا امکان ہو تو محترم شخصیت کے حوالہ سے وہ معنی یا تشریح لی جاتی ہے جو ادب کے قریب ہو
قرآن سے مثال
وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
یہاں جب مکر کا ترجمہ اللہ تبارک و تعالی کی نسبت سے کیا جائے گا تو قاموس دیکھ کر کوئی بھی ترجمہ نہیں کیا جائے بلکہ وہ الفاظ لئیے جائیں گے جو الفاظ ادب کے زیادہ قریب ہوں
اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متلق بات ہو گي اور گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جب ادب سے زیادہ قریب ہو گي
اسی ادب کی بنیاد پر میں نے آپ کے یہ الفاظ رد کیے "کیا یہ تم سمجھتے ہو کہ"
اس نقطہ کو سامنے رکھتے ہوئے دونوں ترجمے و تشریح دوبارہ پڑہیں ۔ بات ان شاء اللہ واضح ہوجائےگي
ویمکرون ویمکراللہ واللہ خیرالمٰاکرین
ترجمہ ::اور وہ بھی فریب کرتے تھے اور اللہ بھی فریب کرتا تھا اور اللہ کا فریب سب سے بہتر ہے ۔ ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اور مکر کرتے تھے وہ اور مکر کرتا تھا اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی نیک مکر کرنے والوں کا ہے ۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : وایشاں بد سگالی می کردند و خدا بد سگالی می کرد ( یعنی بایشاں ) وخدا بہترین بد سگالی کنندگان است۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : اور وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا تھا اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے ۔( محمود الحسن دیوبندی )
ترجمہ : اور حال یہ کہ کافر اپنا داؤ کر رہے تھے اور اللہ اپنا داؤ کررہا تھا اور اللہ سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد )
ترجمہ : اور وہ تو اپنی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ میاں اپنی تدبیر کر رہے تھے اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔( تھانوی دیوبندی)

اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ان تراجم قرآن میں آپ کی اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ "گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جب ادب سے زیادہ قریب ہو گي"

یقینا نہیں رکھا گیا جب اللہ تعالیٰ کی شان اقدس سے بعید ترجمہ آپ کے مولوی کرتے آئے ہیں اور آپ ہمیں یہ سبق پڑھا رہیں ہیں کہ "اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متلق بات ہو گي اور گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جب ادب سے زیادہ قریب ہو گي"
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بلاعنوان

صحیح بخاری
کتاب التفسیر
باب: آیت ((اذ یبایعونک تحت الشجرۃ)) کی تفسیر
حدیث نمبر : 4844
حدثنا أحمد بن إسحاق السلمي،‏‏‏‏ حدثنا يعلى،‏‏‏‏ حدثنا عبد العزيز بن سياه،‏‏‏‏ عن حبيب بن أبي ثابت،‏‏‏‏ قال أتيت أبا وائل أسأله فقال كنا بصفين فقال رجل ألم تر إلى الذين يدعون إلى كتاب الله‏.‏ فقال علي نعم‏.‏ فقال سهل بن حنيف اتهموا أنفسكم فلقد رأيتنا يوم الحديبية ـ يعني الصلح الذي كان بين النبي صلى الله عليه وسلم والمشركين ـ ولو نرى قتالا لقاتلنا،‏‏‏‏ فجاء عمر فقال ألسنا على الحق وهم على الباطل أليس قتلانا في الجنة وقتلاهم في النار قال ‏"‏ بلى ‏"‏‏.‏ قال ففيم أعطي الدنية في ديننا،‏‏‏‏ ونرجع ولما يحكم الله بيننا‏.‏ فقال ‏"‏ يا ابن الخطاب إني رسول الله ولن يضيعني الله أبدا ‏"‏‏.‏ فرجع متغيظا،‏‏‏‏ فلم يصبر حتى جاء أبا بكر فقال يا أبا بكر ألسنا على الحق وهم على الباطل قال يا ابن الخطاب إنه رسول الله صلى الله عليه وسلم ولن يضيعه الله أبدا‏.‏ فنزلت سورة الفتح‏.‏
ہم سے احمد بن اسحاق سلمی نے بیان کیا ، کہا ہم سے یعلیٰ نے ، کہا ہم سے عبدالعزیز بن سیاہ نے ، ان سے حبیب بن ثابت نے ، کہمیں ابووائل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لئے (خوارج کے متعلق) گیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے (جہاں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی جنگ ہوئی تھی) ایک شخص نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص کتاب اللہ کی طرف صلح کے لئے بلائے؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ لیکن خوارج نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف علی کے ساتھ تھے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس پر سہل بن حنیف نے فرمایا تم پہلے اپنا جائزہ لو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے آپ کی مراد اس صلح سے تھی جو مقام حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اور جنگ کا موقع آتا تو ہم اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ (لیکن صلح کی بات چلی تو ہم نے اس میں بھی صبر وثبات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا) اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا، صبر نہیں آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکرنے بھی وہی جواب دیا کہ اے ابن خطاب! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ پھر سورۃ ”الفتح“ نازل ہوئی۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
بہرام صاحب،
اصل مدعا پر گفتگو کیوں نہیں کرتے۔ سمجھنے سمجھانے کے لئے دیگر مثالیں فقط اصل مقصد تک پہنچنے کے لئے دی جاتی ہیں، نا کہ اس لئے کہ اسی پر بحث شروع کر دی جائے۔
آپ پر بخوبی واضح کر دیا گیا ہے کہ:
1۔ حدیث ہی کے الفاظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف سے بچانے کے لئے ، ان کے آرام کی خاطر ان کی بات نہیں مانی گئی، جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر ادب کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانی تھی۔
2۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ کتاب اللہ کافی ہے، انکار حدیث کو مستلزم نہیں۔ کیونکہ کتاب اللہ خود حجیت حدیث کا ثبوت مہیا کرتی ہے۔ اور اس پر تلمیذ صاحب کے درج ذیل سوالات آپ کے منتظر جواب ہیں:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے بعد وہ مکتوب کیوں نہ لکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باہر جانے کا کیوں نہ کہا اور قوموا عنی کیوں کہا
اس سے کچھ امور ثابت ہوتے ہیں
اول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے کچھ لکھنے سے رک جانا اس بات کی علامت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوچکے تھے ورنہ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه کہلائے گا اور یہ ناممکنات میں سے ہے۔
دوم اگر یہ انکار حدیث ہوتا تو کیسے ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی منکر امر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرمائيں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے یہاں کوئی انکار حدیث نہیں
سوم اگر یہ لکھنا کسی دینی امر میں سے ہوتا تو یہ آیت نہ اترتی
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
یہ کیسے ممکن ہے ایک تحریر لکھنے سے رہ گئی ہو پھر بھی دین کی تکمیل کا اعلان ہورہا ہے
3۔ بے معنی کلام والی بات استفہامیہ انکاریہ جملہ ہی ہے اور وہ حضرت عمر کے بجائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہی کہا گیا تھا اور اس کا ثبوت اس استفہامیہ جملے کے بعد کے یہ الفاظ ہیں :
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے سلیما ن احول نے، ان سے سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جمعرات کے دن کا ذکر کیا اور فرمایامعلوم بھی ہے جمعرات کے دن کیا ہوا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض میں تیزی پیدا ہوئی تھی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے وصیت نامہ لکھ دوںکہ تم اس پر چلو گے تو اس کے بعد پھر تم کبھی صحیح راستے کو نہ چھوڑوگے لیکن یہ سن کر وہاں اختلاف پیدا ہو گیا، حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نزاع نہ ہونا چاہئیے۔ بعض لوگو ں نے کہا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شدت مرض کی وجہ سے بے معنی کلام فرما رہے ہیں؟ (جو آپ کی شان اقدس سے بعید ہے) پھر آپ سے بات سمجھنے کی کو شش کرو۔ پس آپ سے صحابہ پوچھنے لگے۔ آپ نے فرمایا جاؤ (یہاں شوروغل نہ کرو) میں جس کام میں مشغول ہوں، وہ اس سے بہتر ہے جس کے لیے تم کہہ رہے ہو۔ اس کے بعد آپ نے صحابہ کو تین چیزوں کی وصیت کی، فرمایا کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ ایلچی (جو قبائل کے تمہارے پاس آئیں) ان کی اس طرح خاطر کیا کرناجس طرح میں کرتا آیا ہوں اور تیسری بات ابن عباس نے یا سعیدنے بیان نہیں کی یا سعید بن جبیر نے یا سلیمان نے کہا میں تیسری بات بھول گیا۔
غور کیجئے یہاں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب ہو کر نہیں کہا گیا کہ کیا آپ بے معنی کلام فرما رہے ہیں۔ بلکہ یہ خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے بارے میں ہے۔ اس استفہامیہ انکاریہ جملے کے بعد یہ الفاظ ملاحظہ کریں:
پھر آپ سے بات سمجھنے کی کوشش کرو۔ پس آپ سے صحابہ پوچھنے لگے۔

کیا اس کے بعد کوئی شبہ رہ جاتا ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کےبارے میں ہی تھا نہ کہ حضرت عمر کے کلام کے بارے میں۔

آخری لمحات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اہلبیت کا ہونا ناگزیر تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر اہل بیت میں سے کسی کا ان سے مناقشہ نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ:
+ یا تو اہل تشیع اور منکرین حدیث کا اس پورے واقعہ سے استدلال ہی باطل ہے، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فعل ادب و احترام، خلوص و محبت ہی کی علامت تھا۔
+ یا پھر اہل بیت معاذاللہ، اس قدر بزدل تھے کہ ایک شخص ان کے سامنے نبی کی توہین کر رہا تھا اور وہ سب چپکے بیٹھے رہے۔ ثم معاذاللہ۔
ہم پہلی بات لیتے ہیں۔ اور اہل بیت اور صحابہ کرام دونوں کی عزت ہی کرتے ہیں۔ اور اہل تشیع و منکرین حدیث دوسری بات لیتے ہیں اور اہل بیت اور صحابہ کرام دونوں ہی کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پسند اپنی اپنی۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے بعد وہ مکتوب کیوں نہ لکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باہر جانے کا کیوں نہ کہا اور قوموا عنی کیوں کہا
اس سے کچھ امور ثابت ہوتے ہیں
اول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے کچھ لکھنے سے رک جانا اس بات کی علامت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوچکے تھے ورنہ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه کہلائے گا اور یہ ناممکنات میں سے ہے۔
دوم اگر یہ انکار حدیث ہوتا تو کیسے ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی منکر امر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرمائيں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے یہاں کوئی انکار حدیث نہیں
سوم اگر یہ لکھنا کسی دینی امر میں سے ہوتا تو یہ آیت نہ اترتی
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
یہ کیسے ممکن ہے ایک تحریر لکھنے سے رہ گئی ہو پھر بھی دین کی تکمیل کا اعلان ہورہا ہے
جواب اول: یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ " آؤ میں تمہارے لیے ایک ایسا مکتوب لکھ دوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو۔" اس قول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسی سے اس کی رائے تو نہیں پوچھی کہ کیا میں مکتوب لکھ دوں عمر کیا رائے ہے پھر حضرت عمر کا اپنی رائے دینا کیا معنی رکھتا ہے اس سے آپکا یہ قیاس باطل ہوجاتا ہے

دوم جواب :انکار حدیث کرنا حضرت عمر کی بہت پرانی عادت تھی اس کا ثبوت صحیح بخاری میں ہی موجود ہے اور یہ حدیث میں بلاعنوان کہ تحت پیش کرچکا ہوں اگر پڑھ کر سمجھ لیتے تو یہ سوال دھرا یا نہیں جاتا چلیں ایک بار پھر اس حدیث کا وہ حصہ جو آپ کے سوال سے تعلق رکھتا ہے ایسے پڑھ کر اس پر غور کرتے ہیں
صلح حدیبیہ

سن ٦ ھجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مشرکین مکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کو صلح حدیبیہ کہا جاتا ہے اس معاہدے کی اکثر شرائط بظاہرمسلمانوں کے خلاف تھیں لیکن اس کے باوجود اللہ کے نبی حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس معاہدے پر دستخط فرماکر مشرکین مکہ سے معاہدہ فرمالیا ، اس پر حضرت عمر کو بہت غصہ آیا اور اسی حالات میں حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور اس معاہدے پر بحث تکرار کرنے لگے حدیث کے الفاظ کا ترجمہ از داؤد راز

عمر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا، صبر نہیں آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکرنے بھی وہی جواب دیا کہ اے ابن خطاب! حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا
حضرت عمر کا یہ غصہ سورۃ الفتح نازل ہونے کے بعد ختم ہوا یعنی اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فہم رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرغصہ کرتے رہے ہیں یعنی انکار حدیث کرتے رہے ہیں جب تک کہ اللہ نے قرآن کی سورۃ الفتح نازل نہ کردی

جواب سوم : اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
یہ بات فرما کرکہ اس آیت کے نزول کے بعد دین مکمل ہوگیا آپ ان تمام احادیث کا انکار فرمارہے ہیں جو احادیث رسول اس آیت کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمائی
اور دوسری بات یہ کہ جب اس آیت کے بعد قرآن اور دین مکمل ہوگیااب اس آیت کے نزول کے بعد والی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ارشادات کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں تو پھر قرآن میں اپنے ہاتھ سے آیت رجم بڑھانے کی خوا ہش کیا معنی رکھتی ہے یہ اس لیے تو نہیں کہ آیت رجم بکری کھا گئی تھی
لقد نزلت آيةُ الرَّجمِ ، ورضاعةُ الْكبيرِ عشرًا ، ولقد كانَ في صحيفةٍ تحتَ سريري ، فلمَّا ماتَ رسولُ اللهِ صلَّى الله عليْهِ وسلَّمَ وتشاغلنا بموتِهِ ، دخلَ داجنٌ فأَكلَها.

الراوي: عائشة المحدث: الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 1593
خلاصة حكم المحدث: حسن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عن عائشة أم المؤمنين قالت : لقد نزلت آية الرجم والرضاعة فكانتا في صحيفة تحت سرير فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم تشاغلنا بموته فدخل داجن فأكلها

الراوي: القاسم بن محمد و عمرة المحدث: ابن حزم - المصدر: المحلى - الصفحة أو الرقم: 11/235
خلاصة حكم المحدث: صحيح

الدرر السنية - الموسوعة الحديثية
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

الصفحة الرئيسية » الحديث » سنن ابن ماجه » كتاب النكاح » باب رضاع الكبير

1944 حدثنا أبو سلمة يحيى بن خلف حدثنا عبد الأعلى عن محمد بن إسحق عن عبد الله بن أبي بكر عن عمرة - ص 626 - عن عائشة وعن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة قالت لقد نزلت آية الرجم ورضاعة الكبير عشرا ولقد كان في صحيفة تحت سريري فلما مات رسول الله صلى الله عليه وسلم وتشاغلنا بموته دخل داجن فأكلها

عرض صفحة الكتاب - الحديث - موقع الإسلام
 

تلمیذ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 12، 2011
پیغامات
765
ری ایکشن اسکور
1,506
پوائنٹ
191
یعنی آپ یہ کہنا چاھتے ہیں کہ اگر مولا علی علیہ السلام معاویہ سے قتال کرنے پراولی بالحق ہیں تو پھر حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام معاویہ سےصلح کرنے پر اولی بالحق نہیں ؟؟؟
جبکہ کہ اس بات کی دلیل میں صحیح احادیث سے پیش کر چکا کہ جب مولا علی علیہ السلام نے قتال کیا اس وقت مولا علی علیہ السلام اولی بالحق تھے اور جب حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے صلح کی اس وقت حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام اولی بالحق تھے

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَمْرُقُ مَارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنْ الْمُسْلِمِينَ يَقْتُلُهَا أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ
صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب ذکر الخوارج وصفاتہم ح ۱۰۶۵

ترجمہ از وحید الزماں
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک فرقہ جو جدا ہوجائے گا جب مسلمانوں میں پھوٹ ہوگی اور اس کو قتل کرے گا وہ گروہ جو قریب ہوگا ان دونوں گرہوں میں حق سے

حدثنا صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا ابن عيينة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا أبو موسى،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن الحسن،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمع أبا بكرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر والحسن إلى جنبه،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ينظر إلى الناس مرة وإليه مرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ويقول ‏"‏ ابني هذا سيد،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين ‏"‏‏.
صحیح بخاری : حدیث نمبر : 3746
ترجمہ : داؤد راز
ہم سے صدقہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا ، کہا ہم سے ابوموسیٰ نے بیان کیا ، ان سے حسن نے ، انہوں نے حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے، اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور پھر حسن رضی اللہ عنہ کی طرف اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دوجماعتوں میں صلح کرائے گا۔
مين ہر دفعہ آپ سے حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہا ہوں کہ آپ کے نذدیک ان میں سے حق کے قریب کون تھے آپ پہلے حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تقابل کر کے حضرت علی کرم اللہ وجھہ کو اقرب الی الحق بتاتے ہیں اور پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضي اللہ غنہ کے درمیان تقابل کرکے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اقرب الی الحق بتاتےہیں نہ میں نے یہ پوچھا اور اس پر کوئی بات کی میں تو آپ سے حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہا ہوں کہ آپ کے نذدیک ان میں سے حق کے قریب کون تھے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے جن ہستی سے قتال کی انہی سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کی
ایک مثال سے بات بتاتا ہوں
فیصل ، اکرم اور عمران نے بالترتیب 80 ، 85 ، 90 مارکس حاسل کیے ۔ فیصل کے حاصل کردہ نمبر عمران سے ذیادہ ہیں اور اکرم کے بھی حاصل کردہ عمران سے ذیادہ ہیں ، آپ بار بار مجھے یہی بتارہے ہیں اور میں پوچھ رہا ہوں کہ فیصل اور اکرم میں سے کس کے حاصل کردہ نمبر زیادہ ہیں
ایک بات کی دوبارہ وضاحت کردوں میرے نذدیک ہم کو اپنے اسلاف کے اختلافات میں میں فیصلے کرنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئیے لیکن یہ شوق آپ کو ہوا تھا اس لئیے میں آپ سے سوال پوچھ رہا ہوں


معاف کرنا مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ صحیح احادیث بھی آپ کے لئے حجت نہیں!!!!!!
آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی جلیل القدر ہستی کے مطابق شدید غلط فہمی ہے اور اگر میرے بارے میں کچھ غلط فہمی ہوگئی ہے تو کیا کہ سکتا ہوں ۔۔۔

یعنی یہ ترجمہ تفسیری ہے چلیں اس نکتے پر ہمارا اتفاق ہوگیا کہ یہ ترجمہ تشریح کی رو سے صحیح ہے


ویمکرون ویمکراللہ واللہ خیرالمٰاکرین
ترجمہ ::اور وہ بھی فریب کرتے تھے اور اللہ بھی فریب کرتا تھا اور اللہ کا فریب سب سے بہتر ہے ۔ ( شاہ عبدالقادر )
ترجمہ : اور مکر کرتے تھے وہ اور مکر کرتا تھا اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی نیک مکر کرنے والوں کا ہے ۔ ( شاہ رفیع الدین )
ترجمہ : وایشاں بد سگالی می کردند و خدا بد سگالی می کرد ( یعنی بایشاں ) وخدا بہترین بد سگالی کنندگان است۔ ( شاہ ولی اللہ )
ترجمہ : اور وہ بھی داؤ کرتے تھے اور اللہ بھی داؤ کرتا تھا اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے ۔( محمود الحسن دیوبندی )
ترجمہ : اور حال یہ کہ کافر اپنا داؤ کر رہے تھے اور اللہ اپنا داؤ کررہا تھا اور اللہ سب داؤ کرنے والوں سے بہتر داؤ کرنے والا ہے ۔ ( ڈپٹی نذیر احمد )
ترجمہ : اور وہ تو اپنی تدبیر کر رہے تھے اور اللہ میاں اپنی تدبیر کر رہے تھے اور سب سے زیادہ مستحکم تدبیر والا اللہ ہے۔( تھانوی دیوبندی)

اب میں آپ سے سوال کرتا ہوں کہ کیا ان تراجم قرآن میں آپ کی اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ "گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جب ادب سے زیادہ قریب ہو گي"

یقینا نہیں رکھا گیا جب اللہ تعالیٰ کی شان اقدس سے بعید ترجمہ آپ کے مولوی کرتے آئے ہیں اور آپ ہمیں یہ سبق پڑھا رہیں ہیں کہ "اسی طرح جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے متلق بات ہو گي اور گرائمر یا قاموس کے لے لحاظ سے ایک سے ذیادہ تشریح ممکن ہو تو وہ ترجمہ اور تشریح لی جائے گي جب ادب سے زیادہ قریب ہو گي"
جہاں تک حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا مکر کا تدبیر سے محمودالحسن صاحب کا مکر کا داؤ سے ترجمہ کرنا خلاف ادب نہیں کیوں کہ مکر کے جو معنی آتے ہیں ان میں یہ دو الفاظ اقرب الی الادب معلوم ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
میں کچھ مذید لکھنا چاہ رہا تھا لیکن خیال آیا کہ آپ کی تحریر سے یہ تآثر ابھر رہا ہے کہ آپ کے نذدیک محترم ہستیوں کے بارے میں ترجمے کرتے ہوئے ادب نام کی کی کوئ چیز ملحوظ خاطر نہیں رکھنا چانئیے ؟ کیا یہ صحیح ہے ؟ مختصرا اپنا موقف بتائیے گا ۔ پھر ہی کچھ مذید عرض کرسکوں گا ۔
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
مين ہر دفعہ آپ سے حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہا ہوں کہ آپ کے نذدیک ان میں سے حق کے قریب کون تھے آپ پہلے حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تقابل کر کے حضرت علی کرم اللہ وجھہ کو اقرب الی الحق بتاتے ہیں اور پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضي اللہ غنہ کے درمیان تقابل کرکے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اقرب الی الحق بتاتےہیں نہ میں نے یہ پوچھا اور اس پر کوئی بات کی میں تو آپ سے حضرت علی کرم اللہ وجھہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھ رہا ہوں کہ آپ کے نذدیک ان میں سے حق کے قریب کون تھے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے جن ہستی سے قتال کی انہی سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کی
ایک مثال سے بات بتاتا ہوں
فیصل ، اکرم اور عمران نے بالترتیب 80 ، 85 ، 90 مارکس حاسل کیے ۔ فیصل کے حاصل کردہ نمبر عمران سے ذیادہ ہیں اور اکرم کے بھی حاصل کردہ عمران سے ذیادہ ہیں ، آپ بار بار مجھے یہی بتارہے ہیں اور میں پوچھ رہا ہوں کہ فیصل اور اکرم میں سے کس کے حاصل کردہ نمبر زیادہ ہیں
ایک بات کی دوبارہ وضاحت کردوں میرے نذدیک ہم کو اپنے اسلاف کے اختلافات میں میں فیصلے کرنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئیے لیکن یہ شوق آپ کو ہوا تھا اس لئیے میں آپ سے سوال پوچھ رہا ہوں
آپ کو سوال اس طرح نہیں بلکہ اس طرح پوچھنا چاھئے
سوال: سال 37 ہجری کے امتحان میں فیصل ، اکرم اور عمران نے بالترتیب 80 ، 85 ، 90 مارکس حاصل کیے سال 37 ہجری کے امتحان میں ان تینوں میں سے کس نے سب سے ذیادہ نمبر حاصل کئے ؟

جواب: سال 37 ہجری کے امتحان میں فیصل ، اکرم اور عمران نے حصہ لیا اور ان تینوں میں عمران نے سب سے ذیادہ نمبرحاصل کئے

سوال : سال 41 ہجری کے امتحان میں فیصل ، اکرم , عمران اور حسن نے بالترتیب 80 ، 85 ، 90 اور100 مارکس حاصل کیے سال 41 ہجری کے امتحان میں ان چاروں میں سے کس نے سب سے ذیادہ نمبر حاصل کئے ؟

جواب سال 41 ہجری کے امتحان میں فیصل ، اکرم , عمران اور حسن حصہ لیا اور اس امتحان میں حسن نے ان چاروں میں سب سے ذیادہ نمبر حاصل کئے

یہ تو ہوئے سوال اور جواب جہاں تک اسلاف کے اختلافات میں فیصلے کی بات تو ہمیں خود یہ فیصلہ نہیں کرنا چاھئے اوراس کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سپرد کردینا چاھئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو فیصلہ کردیں اس کوبلا چوں وچرا قبول کرنا چاھئے آپ کے سوال کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماچکے ہیں ۔۔غور کریں
 

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
آپ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسی جلیل القدر ہستی کے مطابق شدید غلط فہمی ہے اور اگر میرے بارے میں کچھ غلط فہمی ہوگئی ہے تو کیا کہ سکتا ہوں ۔۔۔
مہربانی فرماکر آپ یہ غلط فہمی دور کردیں اور اس دھاگہ کو شروع کرنے کا مقصد بھی یہی ہے اسی لیئے اس دھاگے کو سوالیہ انداز میں شروع کیا گیا ہے "" کیا یہ بھی انکار حدیث ہے؟؟؟؟ ""

مگرمعاف کیجیئے گا اب تک کوئی دلیل ایسی نہیں آئی جس سے یہ غلط فہمی دور ہو
ہا ں یہ ضرور ہوا کہ حضرت عمر کے مقابلے پر اہل بیت اطہار کو لاکھڑا کیا مثلا یہ بات حضرت عمر نے نہیں کہی بلکہ اہل بیت نے کہی وغیرہ وغیرہ
 
Top