اس سے پہلے بہرام صاحب سے کچھ گفتگو ہو رہی تھی ، جس میں ا ھجر کے لفظ اور اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعن کے حوالہ سے بات کی۔ اس سلسلے میں بہرام صاحب سے بات چلے گي ان شاء اللہصحیح بخاری
کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ
باب: احکام شرع میں جھگڑا کرنے کی کراہت کا بیان
حدیث نمبر : 7366
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام، عن معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال لما حضر النبي صلى الله عليه وسلم ـ قال وفي البيت رجال فيهم عمر بن الخطاب ـ قال " هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ". قال عمر إن النبي صلى الله عليه وسلم غلبه الوجع وعندكم القرآن، فحسبنا كتاب الله. واختلف أهل البيت واختصموا، فمنهم من يقول قربوا يكتب لكم رسول الله صلى الله عليه وسلم كتابا لن تضلوا بعده. ومنهم من يقول ما قال عمر، فلما أكثروا اللغط والاختلاف عند النبي صلى الله عليه وسلم قال " قوموا عني ". قال عبيد الله فكان ابن عباس يقول إن الرزية كل الرزية ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب لهم ذلك الكتاب من اختلافهم ولغطهم.
معذرت کے ساتھ۔۔۔۔ کیوکہ آپ کا موضوع بہت آگے جا چکا ہے اس لیے میری دخل اندازی مناسب تو نہیں ہے پر میں یہاں پر ایک بات عرض کرنا مناسب سمجھتا ہوں وہ یہ کہ:
موضوع ہے انکار حدیث، تو سوال یہ ہے کہ مذکورہ روایت انکار حدیث پر دلالت کرتی ہے کہ نہیں؟
جواب: جی ہاں مذکورہ روایت صد درصد انکار حدیث پر دلالت کررہی ہے اس کے لیے دلائل دیے جاچکے ہیں پریہان پر میں بھی دو دلیل
عرض کرنا چاہوں گا۔۔۔
مقدمہ: صحیح بخاری میں اس کتاب کا عنوان ہے (کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) خصوصی طور پر سنت کے اعتصام کا حکم ہے اور سنت کو پکڑنا باعث ھدایت اور اسکو چھوڑنا باعث ضلالت ہوگا۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده لھذا مسئلہ یہاں پر ھدایت اور گمراہی کا ہے۔
دلیل نمبر١: حضرت عمر رض کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده کے جواب میں کہنا کہ فحسبنا كتاب الله. آپ کا لکھا( سنت) لازم نہیں کیونکہ قرآن ہے بس وہی کافی ہے۔ یعنی حضرت عمر ایک چیز(قرآن) کا قائل ہے اور دوسری (سنت) کا منکر ہے جبکہ کتاب کا عنون دونوں چیزون سے تمسک کرنا ہے۔
دلیل٢: بہت ہی عمدہ اور مھم دلیل ہے انکار حدیث پر۔۔۔ حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گستاخی کی یا نہیں اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہنا چاہتا اور نا ہی میرا یہ مقصد ہے بلکہ میرا مقصد اس حدیث سے انکار حدیث کو ثابت کرنا ہے۔۔۔
مھم دلیل یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے واضح کرکے بتادیا کہ یہ انکار حدیث ہی ہے إن الرزية كل الرزية[/HL] ما حال بين رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين أن يكتب۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کو جھگڑے کی فکر نہیں تھی بلکہ اس بات کا غم تھا کہ حدیث کیوں
نہیں لکھنے دی گئی!
یاد رہے کہ
١- منکرِ حدیث فقط حضرت عمر نہیں بلکہ پورا ایک گروپ تھا۔۔۔(ومنهم من يقول ما قال عمر)
٢- حضرت عمر کا اپنے دور خلافت میں حدیث لکھنے اور بیان کرنے پر پابندی لگانا بھی ھمارے مدعی پر واضح ثبوت ہے۔
٣ـ يہ مخالفت پہلی مرتبہ نہیں ہوئی بلکہ اس سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔۔۔ جیسا کہ ( مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » أَوَّلُ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ) میں موجود ہے:
رقم الحديث: 18157
(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ(صدوق حسن الحديث) ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ(ثقة مكثر) ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ(صحابی) ، قَالَ : خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ ، قَالَ : فَأَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ ، قَالَ : " اجْعَلُوا حَجَّكُمْ عُمْرَةً " . قَالَ : فَقَالَ النَّاسُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَدْ أَحْرَمْنَا بِالْحَجِّ ، فَكَيْفَ نَجْعَلُهَا عُمْرَةً ؟ ! قَالَ : " انْظُرُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ فَافْعَلُوا " . فَرَدُّوا عَلَيْهِ الْقَوْلَ ، فَغَضِبَ ، ثُمَّ انْطَلَقَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عَائِشَةَ غَضْبَانَ ، فَرَأَتْ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ ، فَقَالَتْ : مَنْ أَغْضَبَكَ أَغْضَبَهُ اللَّهُ ؟ قَالَ : " وَمَا لِي لَا أَغْضَبُ وَأَنَا آمُرُ بِالْأَمْرِ فَلَا أُتَّبَعُ " .
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں کیسے غصہ نا کروں جبکہ میں کسی بات کا حکم کرتا ہوں مگر میری اتباع نہیں کی جاتی۔۔۔
اس میں تو کھلم کھلا حدیث کا انکار دکھائی دے رہا ہے۔۔۔
قال "هلم أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ".
فی الحال اعتصام صاحب نے موضوع سے متعلق کچھ نکات اٹھائے ہیں ، اہل علم جو مجلس میں موجود ہیں اس حوالہ سے کچھ عرض کریں گے لیکن میں اپنی تحقیق کے مطابق کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں اگر حق ہے تو اللہ تبارک و تعالی کی طرف سے ہے اور اگر کچھ غلطی پر ہوں تو اللہ تبارک و تعالی سے معافی کا طلبگار ہوں
اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللّهَ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ
یہ بات ناممکنات میں سے ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے حق بیان کرنے سے رک جائین ، کیوں کہ ارشاد ہو چکا ہے
يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه
اس لئیےخاکم بدہن اگر بالفرض نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے رک گئے تھے تو انہوں نبوت کا حق ادا نہیں کیا اور یہ بات نا ممکن ہے ویسے بھی اللہ تبارک و تعالی کہ چکا ہے
وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ
اس لئیے یہ بھی نا ممکن ہے کسی حق بات کو کسی کے بھی ڈر سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم حق بات بیان کرنے سے رہ جائیں کیوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت کا ذمہ اللہ تبارک و تعالی نے لیا ہے
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ و علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے کے بعد وہ مکتوب کیوں نہ لکھا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو باہر جانے کا کیوں نہ کہا اور قوموا عنی کیوں کہا
اس سے کچھ امور ثابت ہوتے ہیں
اول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منع کرنے سے کچھ لکھنے سے رک جانا اس بات کی علامت ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے متفق ہوچکے تھے ورنہ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه کہلائے گا اور یہ ناممکنات میں سے ہے۔
دوم اگر یہ انکار حدیث ہوتا تو کیسے ممکن ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی منکر امر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سکوت فرمائيں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی تنبیہ نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے یہاں کوئی انکار حدیث نہیں
سوم اگر یہ لکھنا کسی دینی امر میں سے ہوتا تو یہ آیت نہ اترتی
اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي
یہ کیسے ممکن ہے ایک تحریر لکھنے سے رہ گئی ہو پھر بھی دین کی تکمیل کا اعلان ہورہا ہے
جہاں تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو لکھنے سے منع کرنے کا تعلق ہے تو ایک اور حدیث ملاحظہ فرمائیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ ، ثَنَا أَبُو يَعْلَى ، ثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، ثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو كَثِيرٍ وَاسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ : كُنَّا قُعُودًا حَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ مَعَنَا أَبُو بَكْرٍ ، وَعُمَرُ فِي نَفَرٍ ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَيْنَ أَظْهُرِنَا فَأَبْطَأَ عَلَيْنَا ، وَخَشِينَا أَنْ يُقْتَطَعَ دُونَنَا ، وَفَزِعْنَا وَقُمْنَا ، وَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ ، فَخَرَجْتُ أَتْبَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَيْتُ حَائِطًا لِلأَنْصَارِ لِبَنِي النَّجَّارِ فَدُرْتُ بِهِ هَلْ أَجِدُ لَهُ بَابًا فَلَمْ أَجِدْ ، وَإِذَا رَبِيعٌ يَدْخُلُ فِي جَوْفِ الْحَائِطِ مِنْ بِئْرِ خَارِجَةَ وَالرَّبِيعُ الْجَدْوَلُ فَاحْتَرَفْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : " أَبُو هُرَيْرَةَ ؟ " ، قُلْتُ : نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، " مَا شَأْنُكَ ؟ " ، قُلْتُ : كُنْتَ بَيْنَ ظَهْرَيْنَا فَقُمْتَ فَأَبْطَأْتَ عَلَيْنَا فَخَشِينَا أَنْ تُقْتَطَعَ دُونَنَا فَفَزِعْنَا ، فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ فَزِعَ فَأَتَيْتُ هَذَا الْحَائِطَ فَاحْتَفَرْتُ كَمَا يَحْتَفِرُ الثَّعْلَبُ وَهَؤُلاءِ النَّاسُ وَرَائِي ، قَالَ : " يَا أَبَا هُرَيْرَةَ " ، وَأَعْطَانِي نَعْلَيْهِ ، وَقَالَ : " اذْهَبْ بِنَعْلَيَّ هَاتَيْنِ فَمَنْ لَقِيتَ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا مِنْ قَلْبِهِ فَبَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ " ، فَكَانَ أَوَّلَ مَنْ لَقِيتُ عُمَرَ ، فَقَالَ : مَا هَاتَانِ النَّعْلانِ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ ، فَقُلْتُ : هَاتَيْنِ نَعْلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي بِهِمَا فَمَنْ لَقِيتُ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْحَائِطِ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهِ قَلْبُهُ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةَ ، قَالَ : فَضَرَبَ عُمَرُ بِيَدِهِ بَيْنَ ثَدْيَيَّ فَخَرَرْتُ لاسْتِي ، وَقَالَ : ارْجَعْ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ، فَرَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَأَجْهَشْتُ بِالْبُكَاءِ ، وَرَكِبَنِي عُمَرُ ، وَإِذَا هُوَ عَلَى أَثَرِي ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا لَكَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ ؟ " ، فَقُلْتُ : لَقِيتُ عُمَرَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي بَعَثْتَنِي بِهِ فَضَرَبَ بَيْنَ ثَدْيَيَّ ضَرْبَةً خَرَرْتُ لاسْتِي ، فَقَالَ : ارْجَعْ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا فَعَلْتَ ؟ " ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي بَعَثْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ بِنَعْلَيْكَ مَنْ لَقِيَ يَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مُسْتَيْقِنًا بِهَا قَلْبُهُ تُبَشِّرُهُ بِالْجَنَّةِ ، قَالَ : " نَعَمْ " ، قَالَ : فَلا تَفْعَلْ ، فَأَنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّكِلَ النَّاسُ عَلَيْهَا فَخَلِّهِمْ يَعْمَلُونَ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " خَلِّهِمْ " ، رَوَاهُ مُسْلِمُ ، عَنْ أَبِي خَيْثَمَةَ .
یہاں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ کو بات بتائی لوگوں کوبتائیں جس کا مفہوم ہے کہ میری یہ جوتیاں لے کرجائو اور جو بھی اس باغ سے باہر تمہیں ملے اور وہ اللہ تبارک و تعالی کی وحدانیت کی گواہی دے اور اس کا دل سے بھی اس پر یقین ہو تو اس کو جنت کی بشارت دو لیکن حضرت عمر رضي اللہ عنہ نے بتانے سے منع کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات کو قبول کیا
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کام سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منع فرمایا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان رائے سے متفق ہو گئے ۔
تو جو حدیث زیر بحث ہے اس میں بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ سکتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کمرے سے نکال دو اور پھر وہ تحریر لکھوا لیتے۔ لیکن ایسا کچھ نہ ہوا تو مجھے تو یہ معلوم ہوتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر کی رائے سے یہاں بھی متفق ہوچکے تھے
و اللہ اعلم بالصواب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حسبنا کتاب اللہ کہنا کچھ غلط نہیں ۔ اصل میں منکریں حدیث کی طرف اس نعرے نے کچھ افراد کو اس حوالہ سے شک میں ڈال دیا ہے ورنہ یہ جملہ بالکل صحیح ہے جو قران کو مانے وہ حدیث کو ضرور مانے گا کیوں کہ حجیت حدیث قرآن سے ثابت ہے