’اگر جنید جمشید دل آزاری پر معافی مانگتے ہیں تو اُنہیں میں یا کوئی اور شخص اِس طرح معاف نہیں کر سکتا۔ اُس کی ایک سزا ہے اور اُسے بھگتنے کے بعد شرعی احکامات لاگو ہوتے ہیں
@کفایت اللہ بھائی آپ ضرور اس مسلے میں ھم سب کی رہنمائی فرمائیں
جو لوگ ” مسلمان “کو لعنت کرنے کو اپنے”دینی فرائض“میں سے سمجھتے ہوں وہ بھلا ایک ”غیر مسلم “ کےساتھ کیا کچھ نہیں کر سکتے۔ میں نے جو بات ”ہائی لائٹ“کی ہے وہی ان کی اصل ” تصویر“ہے۔ دوسرے کسی ”معاملے“ میں کوئی ”نیک“بنے نہ بنے مگر اس ”کارِ خیر“کےلیے سب ”تیار“رہتے ہیں۔سورۃ العصر میں اللہ تبارک تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: قسم ہے زمانے کی! انسان خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، نیک اعمال کئے، حق کی تلقین کی اور صبر کیا۔
کتاب الانبیاء، صحیح بخاری کی ایک حدیث کا مفہوم ہے: میرا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ، اگرچہ ایک آیت ہی سہی۔
قرآن اور حدیث کی رو سے ”دین کی تبلیغ“ ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس کام کے لئے عالم دین ہونا شرط نہیں ہے۔
اوپر کا کمنٹس محض ”بغض جنید جمشید یا بغض تبلیغی جماعت“ کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک غلطی کی بات ہے تو بڑے سے بڑا عالم دین بھی غلطی کرجاتا ہے۔ جنید جمشید کو اس بات کی داد دینی چاہئے کہ وہ شوبز کی حرام دنیا کو ترک کر کے دعوت و تبلیغ کی طرف آیا ہے۔ وہ فتوے نہیں دیتا بلکہ قرآن و حدیث کا درس دیتا ہے، وہ بھی تبلیغی جماعت کے اندر رہتے ہوئے۔ واضح رہے کہ تبلیغی جماعت والے عموماً درس قرآن یا درس حدیث نہیں دیا کرتے بلکہ وہ اپنے اجتماعات میں ”درس فضائل اعمال“ دیا کرتے ہیں۔
ویسے وہ انجینئرنگ گریجویٹ ہے، دنیا گھوم چکا ہے اور ایک بڑا اور کامیاب کاروباری فرد ہے۔ گویا اس کا ویژن اللہ کے فضل و کرم سے بہت اچھا ہے۔ وہ اسی ویژن کو استعمال کرتے ہوئے قرآن و حدیث کے دروس دیا کرتا ہے۔ اس کی رائے سے تو اختلاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اس کے اخلاص اور دین پسندی سے انکار نہین کیا جاسکتا۔ جب وہ گانے گایا کرتا تھا، تب کتنے ”دین پسند“ اس کی مخالفت کیا کرتے تھے۔ آج جب وہ اپنی استطاعت کے مطابق دین کی طرف راغب ہوا ہے تو ہم اس کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے ہیں۔ جبکہ اس نے اپنی نادانستہ غلطی پر بلاکسی تاخیر کے سرا عام معافی بھی مانگ لی۔
اصل میں ہم لوگ اپنے اپنے ”فرقہ اور مسلک“ سے باہر والوں کی کسی غلطی کو معاف کرنے کے قائل ہی نہیں ہیں اور اپنے اپنے مسلک اور فرقہ سے وابستہ لوگوں کو غلطیوں سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ہمارا یہی منفی رویہ ہمیں رسوا کرتا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
الفاظ کے ذرا سے رد و بدل کے ساتھ تقریبا یہی بات مجھے واٹس اپ کے ذریعے اپنے سینکڑوں واقفکاروں کو بتانی پڑی تھی۔اصل میں ہم لوگ اپنے اپنے ”فرقہ اور مسلک“ سے باہر والوں کی کسی غلطی کو معاف کرنے کے قائل ہی نہیں ہیں اور اپنے اپنے مسلک اور فرقہ سے وابستہ لوگوں کو غلطیوں سے مبرا سمجھتے ہیں۔ ہمارا یہی منفی رویہ ہمیں رسوا کرتا ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کرام کی توہین کرنا یا ان کے حق میں گستاخی کرنا ، بہت بڑا گناہ ہے ۔ لیکن اگر ایسا کرنے والا صدق دل سے توبہ کرتا ہے ، اور اپنی غلطی کا اعلانیہ اعتراف کرتا ،اور اپنے کیے پر شرمندہ اور نادم ہوتا ہے تو اس کی بات کا اعتماد کیا جائے گا ۔@انس’اگر جنید جمشید دل آزاری پر معافی مانگتے ہیں تو اُنہیں میں یا کوئی اور شخص اِس طرح معاف نہیں کر سکتا۔ اُس کی ایک سزا ہے اور اُسے بھگتنے کے بعد شرعی احکامات لاگو ہوتے ہیں
@خضر حیات
@سرفراز فیضی
میں نے ویڈیو دیکھی ہے اس نے کوئی اتنی غلط بات تو نہیں کہی شہد والا واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کے اندر جو ایک عورت ھوتی ہے نہیں بدل سکتیجنید جمشید نے اعلانیہ توبہ کرلی اللہ رب العزت اس کی توبہ قبول فرمائے آمین
اور اس کو حق کی طرف ہدایت دے آمین یارب