اسلام علیکم !
اگرچہ اس ڈھاگہ پر کافی وقت گزر چکا ہے لیکن میں ایک بات آپ تمام حضرات کی خدمت میں عرض کرنا چاہو گا۔
میرا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ سبعانہ و تعالٰی اپنی تمام تر مخلو ق کے اوپر ہے ،اس سے جدا اور بلند ہے۔
اہل علم رفیق طاھر صاحب نے کہا ہے:
۔صحیح عقیدہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے بارہ میں جس جس جگہ کے بارہ میں فرمایا ہے کہ میں وہاں وہاں ہوتا ہوں ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ وہاں وہاں ہوتا ہے ۔
اللہ تعالٰی نے جب خود فرما دیا ہے کہ وہ عرش پر قائم ہے جیسا کہ اس کو لائق ہے تو پھر آپ کا یہ کہنا کہ
اللہ نے اپنے بارہ میں جس جس جگہ کے بارہ میں فرمایا ہے کہ میں وہاں وہاں ہوتا ہوں ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ وہاں وہاں ہوتا ہے ۔
کتنا صحیح ہو سکتا ہے؟
بےشک تمھارا رب الله ہی ہے جس نے سب آسمان اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش پر قائم ہوا چھپا دیتا ہے شب سے دن کو ایسے طور پر کہ وہ (شب) اس (دن) کو جلدی سے آلیتی ہے اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم کے تابع ہیں یاد رکھو الله ہی کے لیے خاص ہی خالق ہونا اور حاکم ہونابڑی خوبیوں کے بھرے ہوئے ہیں۔
(سورۃ الاعراف:54)
اس آیت میں خود اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ:
بےشک تمھارا رب الله ہی ہے جس نے سب آسمان اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا پھر عرش پر قائم ہوا
اور سورۃ الملک میں فرمایا کہ:
کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بےخوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے اور وہ اس وقت حرکت کرنے لگے۔کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے نڈر ہو کہ تم پر کنکر بھری ہوا چھوڑ دے۔ سو تم عنقریب جان لو گے کہ میرا ڈرانا کیسا ہے
(سورۃ الملک:15تا16)
اس آیت سے صاف پتا لگتا ہے کہ اللہ تعالٰی آسمان پر عرش پر قائم ہیں جیسے کہ اس کی ذات کو لائق ہے۔
اور جہاں تک معیت اللہ کی بات ہے تو اللہ سبعانہ وتعالٰی اپنے علم سے ہر چیز کو جانتے ہیں۔
قرآن کے مطالعہ سے معیت دو اقسام کی معلوم ہوتی ہے۔
عمومی معیت:
یہ ایسی معیت ہے جو ساری مخلوق کے لیے عمومی ہے ، جِس کا ذِکر اُن تمام آیات کریمات میں ہے جو بیان کی جاۓ گئیں۔
پہلی آیت
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد پاک ہے
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے ،(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ شرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں ، پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے
سُورت المُجادلہ(58)/آیت 7،
اِس مذکورہ بالا آیت کریمہ کے بارے میں اتنا ہی سمجھنا کافی ہے کہ اِس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اُس کے عِلم کے ذریعے ہے کہ ، وہ لوگوں کے بارے میں اُن کی ہر ایک بات اِس طرح جانتا ہے کہ گویا وہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے ،
اِس آیت کریمہ کا آغاز اُس کے عِلم کے ذِکر کے ساتھ فرمایا ہے اور اِختتام بھی اُس کے عِلم کے ذِکر پر فرمایا ہے ،
اللہ تعالٰی اپنے علم کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ
کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے اللہ اُس کے بارے میں سب عِلم رکھتا ہے
اور پھر اِس عِلم کی وسعت اور کیفیات میں سے ایک کیفیت کا بیان فرمایا ہے کہ
مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا
(حتیٰ کہ)اگر کوئی تین لوگ شرگوشی کرتے ہیں تو اللہ (گویا کہ )اُن میں چوتھا ہوتا ہے ، اور اگر (سرگوشی کرنےو الے )پانچ ہوں تو اللہ اُن میں چَھٹا ہوتا ہے ، اور اگر سرگوشی کرنےو الے اس (تعداد)سے کم ہوں یا زیادہ ہوں، تو بھی اللہ اُن کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں
اور پھر اپنے اُسی عِلم کے مطابق لوگوں کو اُن کے اعمال کی خبر دینے کا ذِکر فرمایا
ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
پھر قیامت والے دِن اللہ اُن لوگوں کو (اُن کی سرگوشیوں کے بارے میں)خبر کردے گا ، یقیناً اللہ ہر ایک چیز کا خوب عِلم رکھتا ہے۔
پس اِسی آیت مبارکہ میں سے ہی یہ واضح ہوتا ہے کہ اِس اللہ تبارک و تعالیٰ کا لوگوں کے ساتھ ہونا اللہ کے عِلم کے ذریعے ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی ذات پاک کے ساتھ ، اپنی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتا ، دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ اللہ کی ذات پاک اُس کی مخلوق کے ساتھ نہیں ہوتی ہے ۔
دوسری آیت
نماز میں قِبلہ کی سِمت (جہت)کے ذِکر کو اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کا موجود ہوناسمجھنا
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد گرامی ہے
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ
اور اللہ کے لیے ہی ہے مشرق اور مغرب ، لہذا تُم لوگ جِس طرف بھی اپنے چہرے پھیرو گے اُسی طرف کو اللہ کی طرف توجہ والا(قِبلہ) پاؤ گے ، یقیناً اللہ بہت وسعت والا (اور)بہت عِلم والا ہے
سُورت البقرہ(2)/آیت 115
یہ آیت مبارکہ دوران سفر ادا کی جانے والی نفلی نماز کے بارے میں نازل ہوئی تھی ، ایسی نفلی نماز جس میں کوشش کے باوجود قِبلہ کی طرف رخ نہ ہو سکے ،
اس آیت مبارکہ میں بھی ایسی کوئی بات نہیں جو یہ سمجھنے کی طرف مائل ہی کر سکے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پاک ہر جگہ موجود ہے ، اِس آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے عِلم کی وسعت کا ہی بیان فرمایا ہے ، اور اِسی بیان پر اِس آیت شریفہ کو اختتام پذیر فرما کر اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دِیا ہے کہ اِنسان مشرق یا مغرب یا کسی بھی اور طرف توجہ کرے ، ہر طرف ، ہر سمت میں وہ اللہ تعالیٰ کے عِلم کی وسعت میں محیط ہے ، اللہ تبارک و تعالیٰ کے عِلم سے کسی بھی جہت میں خارج نہیں ہو پاتا ، پس وہ جِس طرف بھی اپنا چہرہ پھیرے گا اللہ کے عِلم میں اسی طرح ہو گا جیسا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بالکل سامنے ہے ، اور اگر اُس کی جہت بالکل دُرُست طور پر قِبلہ کی طرف نہ بھی ہو سکی تو بھی اللہ تعالیٰ اُس کی توجہ کو اسی طرح قبول فرمائے گا کہ جیسے وہ قِبلہ کی بالکل دُرُست جہت اختیار کرتے ہوئے اللہ کی طرف متوجہ ہوا ہو ،
خیال رہے کہ یہ آیت کریمہ منسوخ فرمائی جا چکی ہے ، اِس کی تفصیل تقریباً تفسیر کی ہر ایک معتبر کتاب میں مذکور ہے ،
لہذا
فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ
لہذا تُم لوگ جِس طرف بھی اپنے چہرے پھیرو گے اُسی طرف کو اللہ کی طرف توجہ والا(قِبلہ) پاؤ گے
سُورت البقرہآیت 115، میں اِس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بذات ہر جگہ موجود ہے ۔
اور یہاں ایک دفعہ پھر آپ کی توجہ اس طرف مبذول کرواتا چلوں کہ اِس دوسری آیت کریمہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو یہ یاد دھانی کروائی ہے کہ وہ اُن کے تمام اعمال کا خوب عِلم رکھتا ہے ، توجہ فرمایے کہ پھر اللہ عزّ و جلّ اپنے عِلم کی وسعت کے ذِکر پر اپنی اِس بات شریف کو اختتام پذیر فرمایا ہے ۔
تیسری اور چوتھی آیات
اللہ کا اپنی مخلوق کے قریب ہونے کے ذِکر والی آیات مبارکہ
للہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ::: اور یقیناً ہم نے اِنسان کو تخلیق کیا ، اور جو کچھ اُس کا نفس اُسے وساوس ڈالتا ہے ہم اُس کا عِلم رکھتے ہیں اور ہم اُس کی شہ رگ سےبھی زیادہ اُس کے قریب ہیں
سُورت ق(50)/آیت 16،
اللہ جلّ جلالہ ُ نے اِرشاد فرمایا ہے
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ
اور ہم تُم لوگوں کی نسبت اُس (مرنے والے)کے زیادہ قریب ہوتے ہیں
سُورت الواقعہ(56)/آیت 85،
اِن دونوں مذکورہ بالا آیات شریفہ سے بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اِن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا اپنی ذات پاک کے ساتھ اِنسانوں کے پاس موجود ہونے کی خبر ہے ،
جب کہ یہ دونوں ہی آیات مبارکہ اِس قسم کی کوئی خبر مہیا نہیں کرتی ہیں۔
پہلی آیت شریفہ میں یہ بیان ہے کہ اللہ عزّ و جلّ نے اِس آیت کریمہ میں بھی اپنے عِلم کے بارے میں یہ خبر عطاء فرمائی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی بھی اِنسان کے اندر پائے جانے والے وسوسوں کو اُس اِنسان سے بھی زیادہ جانتا ہے کیونکہ اللہ کا عِلم اُس انسان کے اندر تک اُس اِنسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ داخل ہوتا ہے لہذا وہ اُس اِنسان کے نفس کے اعمال کا اُس اِنسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ عِلم رکھتا ہے ،
اللہ سُبحانہ ُ وتعالیٰ نے اپنے عِلم کا ذِکر اسی لیے فرمایا ہے کہ اُس کے بندے یہ جان لیں کہ اُن کا اکیلا حقیقی سچا معبود اللہ اُن کے نفوس کے اندر کی خبر اِس قدر باریک بینی اور تفصیل سے جانتا ہے کہ گویا وہ اُن کے اپنے اندرونی أعضاء سے بھی زیادہ اُن کی شخصیات کے قریب ہے ،
اور اس قُرب کے اسباب بھی اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ کے بعد والی دو آیات مبارکہ میں بتائے ہیں ، اِن کا ذِکر ابھی اِن شاء اللہ آگےکیا جاۓ گا۔
مذکورہ بالا دوسری آیت مبارکہ میں بھی اللہ جل ّ و علا نے یہی خبر فرمائی ہے کہ جِس انسان پر نزع کی حالت طاری ہوتی ہے اور اس کی روح سلب کی جا رہی ہوتی ہے تو ایسا نہیں ہوتا کہ اللہ اُس کے حال سے بے خبر ہو بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اُس کے حال کو اُن لوگوں سے زیادہ جانتا ہے جو لوگ اُس وقت اُس کے قریب ہوتے ہیں ،
یہ مذکورہ بالا تفسیر تو آیات مبارکہ کے ظاہری الفاظ کے ظاہری معانی کے مطابق سمجھ میں آتی ہیں ، لیکن اگر ہم دیگر آیات کریمہ کو بھی سامنے رکھیں تو ہمیں یہ سمجھ آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہونا ، اور کسی مرنے والے کے احوال کو اُس مرنے والے کے پاس موجود لوگوں سے بھی زیادہ جاننے کا سبب اللہ کا اُس کی ذات شریف کے ساتھ وہاں موجود ہونا نہیں ، بلکہ
اِس کا سبب ، اور اِس کا ذریعہ اللہ تعالٰیٰ کا سننا اور دیکھنا بھی ہے ، اور اللہ کے فرشتوں کے ذریعے لوگوں کے احوال کی خبر حاصل کرنا بھی ہے ، کیونکہ اِنسانوں اور مخلوقات کےظاہری اور باطنی احوال کی خبر محفوظ کرنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذمہ لگا رکھا ہے
إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ
جو مکاریاں تُم لوگ کرتے ہو ، یقیناً ہمارے رُسول (فرشتے) وہ سب کچھ لکھتے ہیں
سُورت یُونُس(10)/آیت 21،
أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ
کیا وہ لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہم اُن کی خفیہ باتیں اور شرگوشیاں نہیں سُنتے ، بلکہ ہمارے رُسول (فرشتے)اُن لوگوں کے پاس لکھ رہے ہوتے ہیں
سُورت الزُخرف(43)/آیت 80،
وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ oكِرَامًا كَاتِبِينَ oيَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ
اور یقیناً تُم لوگوں پر محافظ (مُقرر) ہیں o عِزت اوربزرگی والے لکھاری oجو کچھ تُم لوگ کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں
سُورت الانفطار(82)/آیات 10 تا 12 ،
سُورت ق کی جو آیت رقم 16 اوپر لکھی گئی ہے ، اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ خبر بھی دی ہے کہ
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌo مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ
جب کہ (اِنسان جو کچھ کہتا ہے یا کرتا ہے) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہوتے ہیں ، لکھ لیتے ہیںoوہ جو کوئی بات بھی زُبان پر لاتا ہے تو ایک چاک و چوبند نگران اُس کے پاس تیار ہوتا ہے
سُورت ق(50)/آیات 17، 18،
اور اسی طرح مرنے والے کے پاس مختلف فرشتوں کو حاضر ہو کر اُس کے احوال کی خبر جمع کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ رکھی ہے ، اور روح سلب کرنے کی ذمہ داری بھی ملک الموت اور فرشتوں کو دے رکھی ہے
إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلائِكَةُ
بے شک وہ لوگ جنہیں ہمارے فرشتے (روح قبض کر کے)موت دیتے ہیں
سُورت النِساء(4)/آیت 97،
حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لا يُفَرِّطُونَ
یہاں تک کہ جب تُم لوگوں میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ہمارے فرشتے(روح قبض کر کے) اُسے موت دیتے ہیں اور فرشتے (اپنے کام کی ادائیگی میں ) ذرا سی بھی کوتاہی نہیں کرتے
سُورت الانعام(5)/آیت61،
وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلائِكَةُ
اور اگر آپ دیکھیے کافروں کو اُس وقت دیکھیے جب ہمارے فرشتے(روح قبض کر کے) انہیں موت دیتے ہیں
سُورت الانفال(8)/آیت 50
قُلْ يَتَوَفَّاكُمْ مَلَكُ الْمَوْتِ الَّذِي وُكِّلَ بِكُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ
(اے محمد) فرمایے کہ تُم لوگوں کو وہ ملک الموت موت دیتا ہے جسے تمہاری طرف ذمہ داری دی گئی ہو ، پھر تُم لوگ اپنے رب کی طرف ہی پلٹائے جاؤ گے
سُورت السجدہ(32)/آیت 11،
اور اب یہ بھی دیکھیے کہ ان ہی کاموں کو اور کئی دیگر کاموں کو جو کہ اللہ کے فرشتے کرتے ہیں ، اور فرشتوں نے کیے ، اُن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات شریف سے بھی منسوب فرما کر ذِکر فرمایا ہے ،
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے درج ذیل فرامین مبارکہ پر غور فرمایے
وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ وَيَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّهَارِ ثُمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيهِ لِيُقْضَى أَجَلٌ مُسَمًّى ثُمَّ إِلَيْهِ مَرْجِعُكُمْ ثُمَّ يُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ
اور اللہ ہی تُم لوگوں کو رات میں موت دیتا ہے اور جو کچھ تم لوگ دِن بھر کرتے ہو اُس کا بھی عِلم رکھتا ہے ، پھر تُم لوگوں کو دِن کے وقت میں دوبارہ اِرسال کرتا ہے تا کہ(تم لوگوں کی موت کا)مقرر شدہ وقت پورا ہو جائے، پھر تُم لوگوں نے اللہ ہی کی طرف پلٹنا ہے پھر اللہ تم لوگوں کو اُس کی خبر کر دے گا جو کچھ تُم لوگ کیا کرتے تھے
سُورت الانعام (6)/آیت 60
اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت(پورے کا پورا) قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی (اسی طرح قبض کرتا ہے )جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک مقررہ وقت تک کے لیے واپس بھیج دیتا ہے بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں
سُورت الزُمر(39)/آیت 42
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ ثُمَّ يَتَوَفَّاكُمْ وَمِنْكُمْ مَنْ يُرَدُّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ لِكَيْ لَا يَعْلَمَ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
اور اللہ ہی ہے جِس نے تم لوگوں کو تخلیق کیا ، پھر وہ تُم لوگوں کو موت دیتا ہے ، اور تُم لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جسے ذلت والی عمر تک پہنچا دیا جاتا ہے تا کہ وہ علم پانے کے بعد پھر سے جاھل بن جائے ، بے شک اللہ سب سے زیادہ اور مکمل علم والا ، قدرت والا ہے۔
سُورت النحل (16)/آیت 70،
ان سب ہی آیات مبارکہ میں انسانوں کو موت دینے ، اُن کی جان نکالنے ، اُن کی ارواح قبض کرنے کے کام اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پاک سے منسوب فرما کر ذِکر کیے ہیں ،
جب کہ اِن سے پہلے ذِکر شدہ آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہی یہ بیان فرمایا ہے کہ اِنسانوں کی جان نکالنا ، اُن کی روحیں قبض کر کے انہیں موت دینا ، اللہ کے حکم کے مطابق اللہ کے فرشتے کرتے ہیں ۔
پس اللہ تعالیٰ کے اپنے فرامین مبارکہ سے ہی یہ ثابت ہوا کہ ایسے کئی کام ہیں جو کہ اللہ کے فرشتے کرتے ہیں ، اور فرشتوں نے کیے ، لیکن اُن کاموں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات شریف سے بھی منسوب فرما کر ذِکر فرمایا ہے ،
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرشتوں کے افعال کو اُس کی اپنی ذات مبارکہ سے منسوب کر کے ذِکر فرمانے کی مزید چند مثالیں ملاحظہ فرمایے
تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ
یہ اللہ کی آیات ہیں جو ہم بالکل ٹھیک ٹھیک آپ پر تلاوت کر رہے ہیں اور بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں
سُورت البقرہ(2)/آیت 252،
فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
اور جب ہم قران کی قرأت کریں تو(آپ اُس کو توجہ سے سنیے او رپھر) اُس قرأت کی پیروی (کرتے ہوئے اُس کے مطابق قرأت)کیجیے سُورت القیامہ(75)/آیت 18،
جب کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بذات خود ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو کچھ تلاوت کر کے نہیں سنایا ، اور نہ اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو قران قرأت کر کے سنایا ، یہ دونوں کام اللہ کے فرشتے جبرئیل علیہ السلام کیا کرتے تھے ، لیکن اللہ تعالیٰ نے جبرئیل علیہ السلام کو اپنی ذات سے منسوب فرما کر اپنے کام کے طور پر ذِکر فرمایا ہے ،
إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَى ٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ
بے شک ہم ہی مُردوں کو زندہ کریں گے،اور جو کچھ اُنہوں نے آگے بھیجا ہے اور جو کچھ پیچھے چھوڑا وہ ہم لکھتے ہیں، اور ہم نے ہر ایک چیز کو واضح کتاب میں محفوظ کر رکھا ہے
سُورت یٰس(36)/آیت 12،
هَذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
یہ ہماری کتاب ہے جو تُم لوگوں کے سامنے(تمہارے سب کاموں کے بارے میں ) سچ سچ بول دے گی ، جو کچھ تُم لوگ کرتے تھے ہم سب ہو بہو لکھ لیا کرتے تھے
سُورت الجاثیہ (45)/آیت 29،
اِن مذکورہ بالا آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے اقوال و اعمال لکھنے کا عمل اپنا عمل بیان فرمایا ہے جبکہ خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہی یہ بھی واضح فرما دِیا ہے کہ انسانوں کے افعال و اقوال کو اللہ تعالیٰ خود بذات نہیں لکھتا ، اور نہ ہی بذات اُن کے اعمال و اقوال کے نسخے تیار فرماتا ہے ، بلکہ ابھی ابھی اوپر جو آیات مبارکہ ذِکر کی گئی ہیں اُن میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دِیا ہے کہ انسانوں کے افعال و اقوال لکھنے کا کام اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذمہ لگا رکھا ہے۔
إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ
جو مکاریاں تُم لوگ کرتے ہو ، یقیناً ہمارے رُسول (فرشتے) وہ سب کچھ لکھتے ہیں
سُورت یُونُس(10)/آیت 21،
وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ oكِرَامًا كَاتِبِينَ oيَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ
اور یقیناً تُم لوگوں پر محافظ (مُقرر) ہیں o عِزت اوربزرگی والے لکھاری oجو کچھ تُم لوگ کرتے ہو وہ سب جانتے ہیں
سُورت الانفطار(82)/آیات 10 تا 12 ،
إِذْ يَتَلَقَّى الْمُتَلَقِّيَانِ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِيدٌo مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ
جب کہ (اِنسان جو کچھ کہتا ہے یا کرتا ہے) دو لکھنے والے جو دائیں بائیں بیٹھے ہوتے ہیں ، لکھ لیتے ہیںoوہ جو کوئی بات بھی زُبان پر لاتا ہے تو ایک چاک و چوبند نگران اُس کے پاس تیار ہوتا ہے
سُورت ق(50)/آیات 17، 18،
أَمْ يَحْسَبُونَ أَنَّا لا نَسْمَعُ سِرَّهُمْ وَنَجْوَاهُمْ بَلَى وَرُسُلُنَا لَدَيْهِمْ يَكْتُبُونَ
کیا وہ لوگ یہ سمجھتےہیں کہ ہم اُن کی خفیہ باتیں اور شرگوشیاں نہیں سُنتے ، بلکہ ہمارے رُسول (فرشتے)اُن لوگوں کے پاس لکھ رہے ہوتے ہیں
سُورت الزُخرف(43)/آیت 80،
یعنی اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کے رسول فرشتے لوگوں کے پاس ہوتے ہیں اور اس قدر پاس ہوتے ہیں کہ لوگوں کے راز اور سرگوشیاں تک جانتے ہیں اور لکھتے ہیں ،
پس فرشتوں کے کاموں کو اپنی ذات پاک کے کام کے طور پر ذِکر کرنے کی مثالوں میں سے یہ بھی ہے،
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
اور ہم اُس کی شہ رگ سےبھی زیادہ اُس کے قریب ہیں
سُورت ق(50)/آیت 16،
اور یہ بھی
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ وَلَكِنْ لَا تُبْصِرُونَ
اور ہم تُم لوگوں کی نسبت اُس (مرنے والے)کے زیادہ قریب ہوتے ہیں
سُورت الواقعہ(56)/آیت 85،
پس اللہ تعالیٰ کے فرامین مبارکہ کے ہی مطابق یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان
دو آخر الذکر آیات مبارکہ میں مذکور
قُرب عِلم پر
مبنی ہے اور
فرشتوں کے ذریعے ہے نہ کہ
بذات سُبحانہ ُ و تعالیٰ ہے ،
تو حاصل کلام یہ ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا کسی کے قریب ہونا ، کسی کے ساتھ ہونا اُس کی ذات شریف کے ذریعے نہیں ہوتا ، بلکہ اُس کی صِفات ، فرشتوں ، قوتوں ، قدرتوں ، حِکمتوں، کے ذریعے ہوتا ہے،
لغوی طور پر لفظ مع یعنی ساتھ کا اِستعمال
اللہ العلیُّ القدیر کے بہت سے فرامین کے مطابق یہ سمجھنا ٹھیک ثابت نہیں ہوتا کہ کسی دو یا چند شخصیات یا چیزوں کے بارے میں لفظ مع یعنی
ساتھ کے ذِکر سے اُن شخصیات یا چیزوں کا اپنے اپنے وجود کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ہونا ہے ،
اللہ جلّ وعلا کے کلام مبارک میں لفظ
مع یعن
ساتھ کا ہر جگہ یہ مفہوم نہیں لیا جا سکتا۔
اللہ جلّ جلالہ کے کچھ اور ایسے فرامین میں سے صرف تین فرامین مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں
مع یعنی
ساتھ اِستعمال فرمایا گیا ہے ، اِن شاء اللہ آپ کو سمجھ آ جائے گی کہ کسی دو یا چند شخصیات یا چیزوں کے بارے میں لفظ
مع یعنی
ساتھ کے ذِکر ہر گِز یہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ شخصیات یا چیزیں اپنے اپنے وجود کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ موجود تھیں ، یا ہیں ، یا ہوں گی ،
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں (ہمارے اِس )رسول ، نبی کی ، جو پڑھنا نہیں جانتا، (اور)جِس (کے ذِکر)کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں ، اور وہ (رسول)اُن لوگوں کو نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے ، اور اُن کے لیے پاک چیزیں حلال قرار دیتا ہے اور ناپاک چیزیں حرام قرار دیتا ہے ، اور اُن لوگوں پر جو کچھ بوجھ اور طوق تھے انہیں اتارتا ہے ، لہذا جو لوگ اُن (رسول) پر اِیمان لائے اور اُس کی عِزت کی اور اُس کی مدد کی ، اور اُس روشنی کی پیروی کی جو روشنی اُس رسول کے ساتھ اتاری گئی ، یہ ہی کامیابی پانے والے لوگ ہیں
سُورت الاعراف(7)/آیت 157،
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ کوئی روشنی نازل ہوئی تھی؟
قران کریم کے ناموں میں سے ایک نام
النور ہے ، اور اِس آیت مبارکہ میں
النور سے مراد قران کریم ہی ہے ، لیکن ، قران کریم بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایک لمبے عرصے میں تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف وحی کے ذریعے اِرسال فرمایا ، ایک کتاب کی صورت میں ، یک دم اُن صلی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے ساتھ اِس طرح نازل نہیں فرمایا جِس طرح لوگ لفظ
مع یعنی
ساتھ کا ایک ہی مفہوم لے کر اللہ تبارک وتعالی کی ذات پاک کو ہر جگہ موجود سمجھتے ہیں۔
اللہ پاک کا اِرشاد ہے
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
اور اُس(قیامت والے) دِن ظلم کرنے والا کہے گا کہ کاش میں نے رسول کے ساتھ(اللہ کی) راہ اپنائی ہوتی
سُورت الفُرقان(25)/آیت 27
کیا اِس آیت مبارکہ میں صِرف انہی لوگوں کا ذِکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ میں تھے اور انہوں نے اُن صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ اللہ کی راہ نہیں اپنائی ؟
جی نہیں ، اور ہر گِز نہیں ، اِس آیت مبارکہ میں قیامت والے دِن سب ہی ظالموں کے احوال میں سے ایک حال بیان فرمایا گیا ہے ، اِ س میں وہ لوگ خارج نہیں کیے جاسکتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھے ،بلکہ قیامت تک آنے والے ہراُس شخص کا یہ قول ہو گا جِس شخص تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا پیغام پہنچا اور اُس نے اُس پیغام کی اتباع نہیں کی۔
دیکھیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے سلیمان اور ملکہ ء سبا کے واقعے میں ملکہ سباء کے اِیمان لانے کا ذِکر اُسی کے الفاظ کے طور پر یوں بیان فرمایا ہے۔
قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَأَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَانَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
اُس نے کہا ، اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ، اور میں سلیمان کے ساتھ اللہ رب العالمین کی تابع فرمان ہوئی
سُورت النمل (27)/ آیت 44،
تو کیا ملکہ ء سبا نے سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اُسی وقت میں اسلام قبول کیا تھا ، جِس وقت سلیمان علیہ السلام نے کیا تھا؟
جی نہیں ، ملکہ سباء نے تو سلیمان علیہ السلام کے اسلام کے بعد اسلام قبول کیا۔
پس اللہ جلّ و علا کے اِن فرامین مبارکہ سے یہ پتہ چلا کہ کسی دو یا چند شخصیات یا چیزوں کے بارے میں لفظ
مع یعنی
ساتھ کے ذِکر ہر گِز یہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ شخصیات یا چیزیں اپنے اپنے وجود کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ موجود تھیں ، یا ہیں ، یا ہوں گی
کسی معتدد المفاہیم حرف کے مفہوم کا تعین صِرف اُس کے کسی ایک لغوی معنی کی بنا پر نہیں کیا جانا عموماً غلط ہوتا ہے ،
ضروری ہے کہ ایسے حرف کے مفہوم کا تعین اُس کے سیاق و سباق کے مطابق ، اور جِس موضوع اور مسئلے کے بارے میں وہ نص ہو جِس کا مطالعہ کیا جا رہا ہو، اُس موضوع اور مسئلے سے متعلق دیگر نصوص کو سامنے رکھتے ہوئے ، کیا جائے اور جب بات اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات و صِفات کی ہو تو پھر خُوب اچھی طرح سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی صِفات اُس کی ذات پاک کی شان کی مطابق ہیں ، کِسی بھی مخلوق کی صِفات کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صِفات کو سمجھنے کو کوشش سوائے گمراہی کے اور کچھ دینے والی نہیں ہوتی ۔
خصوصی معیت:
یہ ایسی معیت ہے جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں کچھ خاص صِفات رکھنے والے لوگوں کے لیے ذِکر کیا ہے
، مثلاً اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ نے فرمایا ہے
وَأَنَّ الله مَعَ الْمُؤْمِنِينَ
اور یقیناً اللہ اِیمان والوں کے ساتھ ہے
سُورت الانفال(8)/آیت 19،
أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
یقیناً اللہ تقویٰ والوں کے ساتھ ہے
سُورت البقرہ(2)/آیت 194،
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ
بے شک اللہ اُن کے ساتھ ہے جو (اللہ کی ناراضگی ا ور عذاب سے) بچتے ہیں ، اور جو احسان کرنے والے ہیں
سُورت النحل(16)/آیت 128،
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
بے شک اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے
سُورت البقرہ(2)/آیت 153،
قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَى
اللہ نے فرمایا ، تُم دونوں ڈرو نہیں ، بے شک میں تُم دونوں کے ساتھ ہوں ، (اس طرح کہ)سُنتا ہوں اور دیکھتا ہوں
سُورت طہٰ (20)/آیت 46،
مذکورہ بالا پانچ آیات شریفہ میں سے آخر الذِکر آیت مبارکہ اِس مسئلے کی ایک اور دلیل ہے ، اور بڑی واضح اور قاطع دلیل ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کے ساتھ اُس کی سماعت اور بصارت کے ذریعے سے ہوتا ہے ، نہ کہ اُس کی ذات مبارک کے ساتھ ، یعنی اپنے بندوں کے ساتھ اس طرح ہوتا ہے کہ اُن کی ہر بات ، ہر ظاہری اور باطنی قول اور فعل دیکھتا اور سنتا ہے ،
یعنی ، اپنے عِلم کے ذریعے اُن کا اس طرح احاطہ رکھتا ہے کہ اُن کا کوئی بھی ظاہری اور باطنی فعل اللہ کے عِلم سے خارج نہیں ہوتا ،
جِس کی ایک اور دلیل اللہ کا یہ فرمان ہے کہ
قَالَ كَلَّا فَاذْهَبَا بِآيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُمْ مُسْتَمِعُونَ
(اللہ نے ) فرمایا ہر گز نہیں ، لہذا تُم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ، ہم تمہارے ساتھ ہیں ، سُنتے ہوئے
سُورت الشُعراء (26)/آیت 15۔
اس بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ سبعانہ و تعالٰی عرس پر قائم ہے جیسے اس کی شان کو لائق ہے اور وہ ساری چیزوں کا اپنے علم سے احاطہ کیے ہوۓ ہیں۔اہل علم حضرات سے اپیل ہے کہ اگر وہ محسوس کریں کہ میری کوئی بات قرآن وحدیث سے انحراف کر گئ ہے تو براہ کرم آگاہ فرماۓ۔