• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا یہ کہنا درست ہے کہ "میں اللہ کو حاضر ناضر جان کر قسم اٹھاتا ہوں" ؟

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
یہاں پر بھی رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے ان اللہ معنا کہنے سے معیت حقیقی ہی مراد تھی !
یہ تو صرف آپ کا دعوى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے معیت کو اپنے اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص کیا تھا !!!
کیونکہ یہاں پر حصر وقصر کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔
پہلے اس کلام میں معیت الہی کو ان دونوں کے ساتھ خاص ہونے کی دلیل پیش فرمائیں اور باقیوں سے معیت کی نفی کی دلیل بھی دیں تاکہ کلام میں حصر ثابت ہو اور وہ بنیاد جس پر آپکا سوال استوار ہے صحیح ثابت ہو۔
جب بناء ہی غلط ہے تو سوال ہی غلط !!!
جزاک اللہ خیرا ۔
خصوصیت کیسے ثابت ہوتی ہے اس کے لئے اچھا اصول پیش کیا ہے آپ نے، یہ بات یاد رکھ لیتا ہوں شاید کبھی کام آئے۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ خیرا ۔
خصوصیت کیسے ثابت ہوتی ہے اس کے لئے اچھا اصول پیش کیا ہے آپ نے، یہ بات یاد رکھ لیتا ہوں شاید کبھی کام آئے۔
بھائی سمجھ نہیں سکا۔ طنزیہ کہا ہے یا واقعی آپ اتفاق کر رہے ہیں؟
مجھے تو عامی ہونے کے باوجود (یا اسی وجہ سے) ان اللہ معنا کے الفاظ میں حصر نظر آتا ہے۔ ورنہ اگر اللہ کی یہی معیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کے ساتھ بھی تھی، تو ان الفاظ کو تسلی کے طور پر کہنے کا جواز نہیں بنتا۔ پھر اسی طرح کی مثال ان اللہ مع الصابرین بھی دی گئی ہے۔ اگر یہاں بھی معیت کا حصر صابرین نہیں اور اس خاص معیت کو صابر و غیر صابر ہر ایک کے لئے مان لیا جائے تو نعوذ باللہ یہ الفاظ بھی لایعنی ٹھہرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔!
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
بھائی سمجھ نہیں سکا۔ طنزیہ کہا ہے یا واقعی آپ اتفاق کر رہے ہیں؟
محترم بھائی میں نے طنزنہیں کیا ہے اورنہ ہی اس عبارت سے اختلاف یا اتفاق مقصود ہے، چونکہ شیخ صاحب کے نزدیک ایک مسلم اصول معلوم ہوا اس لئے محفوظ کرلیا تاکہ کبھی شیخ محترم سے گفتگوکرتے ہوئے اس تحریر کا حوالہ دیا جا سکے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بھائی سمجھ نہیں سکا۔ طنزیہ کہا ہے یا واقعی آپ اتفاق کر رہے ہیں؟
مجھے تو عامی ہونے کے باوجود (یا اسی وجہ سے) ان اللہ معنا کے الفاظ میں حصر نظر آتا ہے۔ ورنہ اگر اللہ کی یہی معیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دشمنوں کے ساتھ بھی تھی، تو ان الفاظ کو تسلی کے طور پر کہنے کا جواز نہیں بنتا۔ پھر اسی طرح کی مثال ان اللہ مع الصابرین بھی دی گئی ہے۔ اگر یہاں بھی معیت کا حصر صابرین نہیں اور اس خاص معیت کو صابر و غیر صابر ہر ایک کے لئے مان لیا جائے تو نعوذ باللہ یہ الفاظ بھی لایعنی ٹھہرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔!
یہاں معیت سے مراد خاص معیت یعنی معیت نصرت وتائید ہے، اور تمام سلف صالحین﷭ نے بھی یہاں معیت خاص ہی مراد لی ہے، اور اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اسی طرح کا معاملہ جب سیدنا موسیٰ﷤ کے ساتھ پیش آیا کہ اللہ کے حکم پر قوم کو لے کر نکل پڑے: ﴿ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِي إِنَّكُم مُّتَّبَعُونَ ﴾، فرعون اور اس کی آل ان کے پیچھے لگ گئی: ﴿ فَأَتْبَعُوهُم مُّشْرِقِينَ ﴾اب صورتحال یہ تھی کہ آگے سمندر تھا اور میرے فرعون کا لشکر تو بعض لوگوں نے کہا کہ ہم تو پکڑے گئے: ﴿ فَلَمَّا تَرَاءَى الْجَمْعَانِ قَالَ أَصْحَابُ مُوسَىٰ إِنَّا لَمُدْرَكُونَ ﴾تو اس وقت سیدنا موسیٰ﷤ نے رہتی دُنیا کیلئے یادگار جملہ ارشاد فرمایا:
﴿ كَلَّا ۖ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ ﴾ کہ ’’ہرگز نہیں! میرا رب میرے ساتھ ہے وہ مجھے راہ دکھائے گا۔‘‘​
کیا یہ معیت عام تھی؟!! ہرگز نہیں! بلکہ یہ سیدنا موسیٰ﷤ کے ساتھ خاص تھی، اور پھر اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ﷤ کے توکّل کے عین مطابق عصا سمندر پر مارنے کی وحی فرمائی، جس سے وہاں راستہ بن گیا:﴿ فَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنِ اضْرِب بِّعَصَاكَ الْبَحْرَ ۖ فَانفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ ﴾
سیدنا موسیٰ﷤ اور ان کے ساتھی اس راستے سے نکل گئے اور باقی سب غرق ہوگئے: ﴿ وَأَنجَيْنَا مُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ أَجْمَعِينَ ﴿٦٥﴾ ثُمَّ أَغْرَقْنَا الْآخَرِينَ ﴾ (کیا اللہ تعالیٰ نے غرق ہونے والوں کو راہ دکھلائی؟!!)
واللہ اعلم!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
اللہ کی ’معیت علمی‘ کیا ایسے علم کی معیت ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہے یا ذات سے علیحدہ علم کی معیت ہے؟۔
1۔راقم نے یہ سوال اس بحث میں بار بار دہرایا ہے لیکن جو اصحاب ’معیت علمی‘ کے قائل ہیں وہ انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا۔ میرے خیال میں دونوں طرف کا اختلاف لفظی ہے اور ہر کوئی اپنی تعبیر پر جازم ہے۔ بعض لوگ معیت کو ’معیت علمی‘ سے تعبیر کرنے پر جازم ہیں جبکہ بعض حضرات ’معیت‘ سے مراد ’معیت ذاتیہ فوقیہ ‘ لے رہے ہیں۔
2۔جو حضرات معیت سے مراد ’معیت علمی‘لیتے ہیں تو ’معیت علمیہ‘ معیت ذاتیہ کو مستلزم ہے ۔ اگر کوئی صاحب علم اس بات کا انکار کرتے ہیں تو اوپر کے سوال کا جواب دے دیں ، شایدمیری کوئی غلط فہمی دور ہو جائے۔شاید اس جملہ سے میرے سوال کی حقیقت واضح ہو جائے۔میرے سوال کی حقیقت بھی یہی ہے اور ’معیت علمیہ‘ کے قائل اصحاب علم وفضل جب اس سوال پر غور کریں گے اور اس کا جواب دیں گے تو انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ آ جائے گی۔
3۔ میں نے یہ سوال بار بار اس بحث میں دہرایا ہے ۔ شاید یا تو میں یہ سوال سمجھا نہیں پایا ہوں۔ اگر ایسا معاملہ ہے تو اس میں میری کمزوری ہے۔
4۔ معیت علمی مراد لینے والے میرے بھائی کم ازکم اس سوال کا جواب دے کر اتنا تو واضح کر دیں کہ ہم حقیقی اختلاف پر بحث کر رہے ہیں یا لفظی اختلاف میں ہم سب الجھ رہے ہیں۔
5۔ اب میری ’معیت علمی‘مراد لینے والے تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہ اس سوال کا جواب دینے کے بعد کوئی مزید علمی نقطہ یا حوالہ جات بیان کریں۔
6۔ یعنی ہم حوالوں پر حوالے تو نقل کیے چلے جا رہے ہیں لیکن جس ایک چھوٹے سے سوال سے اختلاف حل ہو سکتا ہے ہم اس سوال کی طرف آنے کو یا سوچنے کو تیار نہیں ہیں۔ تو کیا ہم اس بحث کے ذریعے مسئلہ کا حل چاہتے ہیں یا اپنی تعبیر کا اثبات ؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اللہ کی ’معیت علمی‘ کیا ایسے علم کی معیت ہے جو ذات کے ساتھ قائم ہے یا ذات سے علیحدہ علم کی معیت ہے؟۔
راقم نے یہ سوال اس بحث میں بار بار دہرایا ہے لیکن جو اصحاب ’معیت علمی‘ کے قائل ہیں وہ انہوں نے اس کا جواب نہیں دیا۔ میرے خیال میں دونوں طرف کا اختلاف لفظی ہے اور ہر کوئی اپنی تعبیر پر جازم ہے۔ بعض لوگ معیت کو ’معیت علمی‘ سے تعبیر کرنے پر جازم ہیں جبکہ بعض حضرات ’معیت‘ سے مراد ’معیت ذاتیہ فوقیہ ‘ لے رہے ہیں۔
میں اپنی رائے نظر ثانی کے بعد یہاں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔
ایک جملہ میں دوبارہ کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی معیت علمی یا تائیدی ہمارے ساتھ حقیقی ہے ان کی شان کے مطابق، ذاتی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر اپنی مخلوق سے الگ، عرش پر مستوی ہیں، كما ينبغي لجلال وجهه
واللہ تعالیٰ اعلم!
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
1۔یعنی اس جواب کا مطلب یہ بنتا ہے جیسا کہ میں سمجھ پایا ہوں کہ ہمارے ساتھ اللہ کا علم ہے اور اللہ کا جوعلم ہمارے ساتھ ہے وہ اس کی ذات سے جدا ہے۔کیا یہی آپ کا موقف ہے؟ اگر تو ایسا ہی ہے تو میرے خیال میں یہ اختلاف حقیقی ہے۔
2۔یعنی آپ کا موقف کیا یہ ہے کہ اللہ کی ذات تو عرش پر ہے لیکن اس کا علم اس کی ذات سے جدا ہوتے ہوئے ہمارے ساتھ ہے؟؟؟کیا میں صحیح سمجھا۔یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات تو عرش پر ہے اور اس کا علم ہمارے ساتھ ہے لیکن جو علم ہمارے ساتھ ہے یہ اللہ کی ذات کے ساتھ قائم نہیں ہے؟اگر اللہ کی ذات کے ساتھ یہ علم قائم نہیں ہے تو اللہ کا علم کیسے قرار پایا؟؟؟
3۔ اور اگر تو اللہ کا جو علم ہمارے ساتھ ہے یہ اللہ کی ذات کے ساتھ قائم بھی ہے تو پھر اختلاف لفظی ہے اور اللہ کی معیت’ علمی‘ ہونے کے ساتھ ساتھ ذاتی بھی بنتی ہے یعنی اس صورت میں علمی معیت ’ذاتی معیت‘ کو مستلزم ہے۔کیا میں صحیح سمجھ پایا؟؟؟۔ اگر نہیں تو کیا نقطہ اختلاف ہے؟
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,981
پوائنٹ
323
جزاک اللہ خیرا ۔
خصوصیت کیسے ثابت ہوتی ہے اس کے لئے اچھا اصول پیش کیا ہے آپ نے، یہ بات یاد رکھ لیتا ہوں شاید کبھی کام آئے۔
یہ اصول حصر کا ہے خصوصیت کا نہیں !!!
شاید آپ اگر لفظ "اختصاص" کے بجائے لفظ " حصر" بولتے تو بہت عرصہ قبل ہی ہم مبہوت ہوجاتے ( ابتسامۃ محب)
 

رفیق طاھر

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 04، 2011
پیغامات
790
ری ایکشن اسکور
3,981
پوائنٹ
323
میں اپنی رائے نظر ثانی کے بعد یہاں تفصیل سے بیان کر چکا ہوں۔
ایک جملہ میں دوبارہ کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی معیت علمی یا تائیدی ہمارے ساتھ حقیقی ہے ان کی شان کے مطابق، ذاتی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر اپنی مخلوق سے الگ، عرش پر مستوی ہیں، كما ينبغي لجلال وجهه
واللہ تعالیٰ اعلم!
یعنی آپکے ہاں خالق ارض وسماء کا بیک وقت متعدد مکانات پر ہونا محال ہے ؟؟؟!!!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اس بارے میں اپنی کوئی تعبیر کرنے کی بجائے عقیدہ واسطیہ سے امام ابن تیمیہ﷫ کی تعبیر نقل کر دیتا ہوں:
فصل: وَقَدْ دَخَلَ فِيمَا ذَكَرْنَاهُ مِنَ الإِيمَانِ بِاللهِ الإِيمَانُ بِمَا أَخْبَرَ اللهُ بِهِ فِي كِتَابِهِ، وَتَوَاتَرَ عَن رَّسُولِهِ، وَأَجْمَعَ عَلَيْهِ سَلَفُ الأُمَّةِ؛ مِنْ أَنَّهُ سُبْحَانَهُ فَوْقَ سَمَاوَاتِهِ، عَلَى عَرْشِهِ، عَلِيٌّ عَلَى خَلْقِهِ، وَهُوَ سُبْحَانَهُ مَعَهُمْ أَيْنَمَا كَانُوا، يَعْلَمُ مَا هُمْ عَامِلُونَ؛ كَمَا جَمَعَ بَيْنَ ذَلِكَ في َقَوْلِهِ: ﴿ هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ السَّمَاء وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ﴾ ،
وَلَيْسَ مَعْنَى قَوْلِهِ: ﴿ وَهُوَ مَعَكُمْ ﴾ أَنَّهُ مُخْتَلِطٌ بِالْخَلْقِ؛ فَإِنَّ هَذَا لاَ تُوجِبُهُ، اللُّغَةُ، بَلِ الْقَمَرُ آيَةٌ مِنْ آيَاتِ اللهِ مِنْ أَصْغَرِ مَخْلُوقَاتِهِ، وَهُوَ مَوْضُوعٌ فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ مَعَ الْمُسَافِرِ وَغَيْرُ الْمُسَافِرِ أَيْنَمَا كَانَ. وَهُوَ سُبْحَانَهُ فَوْقَ عَرْشِهِ، رَقِيبٌ عَلَى خَلْقِهِ، مُهَيْمِنٌ عَلَيْهِمْ، مُطَّلِعٌ عَلَيْهِم إِلَى غَيْرِ ذَلِكَ مِن مَّعَانِي رُبُوبِِيَّتِهِ. وَكُلُّ هَذَا الْكَلامِ الَّذِي ذَكَرَهُ اللهُ - مِنْ أَنَّهُ فَوْقَ الْعَرْشِ وَأَنَّهُ مَعَنَا - حَقٌّ عَلَى حَقِيقَتِهِ، لاَ يَحْتَاجُ إَلَى تَحْرِيفٍ، وَلَكِنْ يُصَانُ عَنِ الظُّنُونِ الْكَاذِبَةِ؛ مِثْلِ أَنْ يُظَنَّ أَنَّ ظَاهِرَ قَوْلِهِ: ﴿ فِي السَّمَاء ﴾ ، أَنَّ السَّمَاءَ تُظِلُّهُ أَوْ تُقِلُّهُ، وَهَذَا بَاطِلٌ بِإِجْمَاعِ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالإِيمَانِ؛ فَإنَّ اللهَ قَدْ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ، وَهُوَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ أَنْ تَزُولاَ، وَيُمْسِكُ السَّمَاءَ أَنْ تَقَعَ عَلَى الأَرْضِ؛ إلاَّ بِإِذْنِهِ، وَمَنْ آيَاتِهِ أَنْ تَقُومَ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ بِأَمْرِهِ.
فصل: وَقَد دَّخَلَ فِي ذَلِكَ الإِيمَانُ بِأَنَّهُ قَرِيبٌ مُجِيبٌ؛ كَمَا جَمَعَ بينَ ذَلِكَ في قَوْلِهِ: ﴿ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ... ﴾ الآيَة، وَقَوْلِهِ صلى الله عليه وسلم : «إِنَّ الَّذِي تَدْعُونَهُ أَقْرَبُ إِلَى أَحَدِكُم مِّن عُنقِ رَاحِلَتِهِ ». وَمَا ذُكِرَ فِي الْكِتِابِ وَالسُّنَّةِ مِنْ قُرْبِهِ وَمَعِيَّتِهِ لاَ يُنَافِي مَا ذُكِرَ مِنْ عُلُوِّهِ وَفَوْقِيَّتِهِ؛ فَإِنَّهُ سُبْحَانَهُ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ فِي جَمِيعِ نُعُوتِهِ، وَهُوَ عَلِيٌّ فِي دُنُوِّه، قَرِيبٌ فِي عُلُوِّهِ.
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ:
قرآن کریم، متواتر احادیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے کہ
  1. اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر - اپنی تمام مخلوق سے بلند - اپنے عرشِ عظیم پر مستوی ہیں۔
  2. اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ ہیں، ان کے تمام اعمال کو جانتے ہیں،
    گویا وہ اپنے عرش کریم پر ہوتے ہوئے اپنی مخلوق پر رقیب ونگہبان ہیں، ان کے تمام احوال سے واقف ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کی دلیل سورۂ حدید کی آیت مبارکہ ہے۔
  3. مخلوق کے ساتھ ہونے سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ وہ ان کے ساتھ مختلط ہیں جیسے کہ چاند آسمان پر ہوتے ہوئے مسافر وغیر مسافر - خواہ وہ جہاں بھی ہوں - سب کے ساتھ ہے لیکن مختلط نہیں۔
  4. یہ دونوں باتیں جو اللہ نے فرمائیں کہ وہ عرش پر ہیں اور ہمارے ساتھ بھی، اپنی حقیقت پر ہیں جس کی تحریف نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اس میں ’غلط عقائد‘ سے بچنا ہوگا!
  5. اسی میں یہ بھی شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ ’قریب مجیب‘ بھی ہیں۔
  6. اللہ تعالیٰ کی صفت معیت وقرب کا صفت علو وفوقیت سے کوئی ٹکراؤ نہیں، کیونکہ اللہ کی تمام صفات میں اللہ کے مثل کوئی نہیں، وہ ہمارے ساتھ ہوئے بلند بھی ہیں، عرش پر ہوتے ہوئے ہمارے قریب بھی ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم!
 
Top