• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیپٹن مسعود الدین عثمانی کے عقائد کے متعلق سوالات:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات: مسائل قبور۔۔۔۔۔۔۔۔۔فتویٰ نمبر : 11364


برزخی قبر
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 26 April 2014 02:56 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احا دیث میں عذاب قبر کا ذکر آیا ہے ہما رے ہاں چند حضرات کا کہنا ہے کہ قبر سے مرا دزمینی گڑھا نہیں بلکہ یہ ایک برزخی قبر ہے جہاں عذا ب و ثو اب ملتا ہے اور کچھ لو گ اس کے خلا ف عقیدہ رکھتے ہیں کہ عذاب و آرام اسی معہود قبر میں ہو تا ہے جسے ہم اپنے ہا تھو ں سے بنا تے ہیں قرآن و حدیث کی روسے وضا حت فر ما ئیں کہ قبر سے مرا د کونسی قبر ہے ؟ (عبد الطیف جہانیا ں منڈی )
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہما ر ے ہا ں آج کل بت شما ر فتنے رونما ہو رہے ہیں اس سلسلہ میں کرا چی کی زمین بڑی زرخیز واقع ہو ئی ہے وہا ں مسعود الدین عثما نی نے یہ فتنہ کھڑ ا کیا تھا کہ اس سے مرا د زمینی قبر نہیں بلکہ ایک برزخی قبر ہے جس میں عذاب وثو اب ملتا ہے چو نکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے اور اسے یقین ہو چکا ہو گا کہ کس قسم کی قبر میں عذاب ہو تا ہے جب ہم قرآن و حدیث کا مطا لعہ کر تے ہیں تو ہمیں شریعت میں برز خی قبر کا وجود نظر نہیں آتا برز خی قبر کی دریا فت اس قسم کے فتنہ پر وروں کی ہے جو علم شریعت سے نا بلد ہو ئے ہیں اس میں کو ئی شک نہیں ہےکہ جرم پیشہ حضرات کو عا لم بر ز خ میں ہی عذاب سے دور چا ر ہو نا پڑتا ہے لیکن اس عذا ب کا محل یہ قبر ہے یا اور کو ئی جگہ محدثین عظا م نے اس سلسلہ میں جو را ہنما ئی فر ما ئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جن لو گو ں کو یہ زمینی قبر ملتی ہے انہیں تو اسی قبر میں عذاب سے دو چا ر کیا جا تا ہے اور جن کو یہ قبر نہیں ملتی ان کے اجز ائے جسم جہا ں پڑے ہیں ان کے لیے وہی قبر کا در جہ رکھتے ہیں اس مو قف کے متعدد دلائل ہیں ہم صرف دو دلائل کا ذکر کر تے ہیں ۔
(1)اللہ تعا لیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منا فقین کے لیے ان کی قبر پر کھٹرے ہو کر دعا کر نے سے منع فر ما یا ہے ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے آپ ان میں سے کسی کی نماز جناز ہ نہ پڑھیں اور نہ ہی ان کی قبر پر کھٹرے ہوں ۔(9/التو بہ:84)
اب سوال پیدا ہو تا ہے کہ وہ کو نسی قبر ہے جس پر کھٹر ے ہو کر دعا کر نے سے آپ کو منع کیا گیا ہے ظا ہر ہے کہ اسی زمینی قبر کے کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے ۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں جا تے ہو ئے اپنے صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین سے دریا فت کیا تھا کہ دونئی قبریں کن لو گو ں کی ہیں کیو ں کہ انہیں عذاب دیا جا رہا ہے لو گو ں نے نشا ند ہی کی تو آپ نے کھجور کی ایک چھڑی لے کر اس کے دو حصے کیے اور دو نو ں قبرو ں پر ایک ایک حصہ گا ڑ دیا نیز فر ما یا :"کہ امید ہے کہ ان کے خشک ہو نے تک ان کے عذاب میں کمی کر دی جا ئے ۔(صحیح بخا ری :الجنا ز 1361)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان زمینی قبروں پر کھجو ر کی چھڑیو ں کو گا ڑنا اس بات کی بین دلیل ہے کہ انہیں اسی قبر میں عذا ب دیا جا تا تھا بر ز خی قبر کی در یا فت ایجا د بند ہ ہے جس کا ثبو ت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث۔۔ج1ص178۔۔۔محدث فتویٰ
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ماہنامہ ’‘ محدث ’‘
شمارہ:309 اپریل 2007۔۔۔ربیع الاول۔1428۔۔۔جلد:39
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قبر کا عذاب و ثواب احادیث ِنبویہؐ کی روشنی میں
محمد ارشد کمال
یہاں آپ محمد ارشد کمال صاحب کی کسی تحریر کا حوالہ دے رہے ہیں - میں بھی آپ کو محمد ارشد کمال صاحب کی ایک کتاب کا حوالہ دیتا ہوں - اب اس کی وضاحت آپ کے ذمہ ہے


arshad kamal ansani jism.jpg


المسند فی عذاب القبر --- محمد ارشد کمال ---

قبر میں اژدھا مردہ کا گوشت کھاتا ہے پھر دوبارہ اس مردہ پر گوشت چڑھا دیا جاتا ہے

ارشد کمال صاحب اپنی کتاب المسند فی عذاب القبر میں البیہقی کے حوالے سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ:

ترجمہ : سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں یقیناً کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھا مسلط کر دیا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک اس کا گوشت کھاتا رہتا ہے - پھر اس پر دوبارہ گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جسے وہ دوبارہ پاؤں سے سر تک کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک) جاری رہے گا -

(صفحہ ١٨٩)

ایک طرف تو ارشد کمال صاحب کی البیہقی کے حوالے سے بیان کردہ مذکورہ بالا روایت ہے تو دوسری طرف امام بخاری رحمتہ الله علیہ اپنی صحیح میں حدیث لائے ہیں کہ:

بَاب : يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا زُمَرًا

باب : اس دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم فوج در فوج چلے آؤ گے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ قَالَ ثُمَّ يُنْزِلُ اللہُ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُونَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان (کی مدت) چالیس ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ساتھیوں نے پوچھا کیا اس سے چالیس دن مراد ہیں؟ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا ، لوگوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہے؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر پوچھا کیا چالیس سال؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر کہا کہ اللہ آسمان سے بارش برسائے گا تو اس سے مردے جی اٹھیں گے جس طرح سبزہ (بارش) سے اگتا ہے ، انسانی جسم کے تمام حصے سڑجاتے ہیں مگر عجب الذنب کی ہڈی (باقی رہتی ہے) اور اسی سے قیامت کے دن اس (انسان) کی ترکیب ہوگی -

(بخاری ، کتاب التفسیر ، باب : سورۃ عم یتسالون(نبأ) کی تفسیر کا بیان)

مذکورہ بالا حدیث سے تو واضح ہوا کہ انسانی گوشت تو سڑ کر مٹی مٹی ہو جاتا ہےتو اب وہ گوشت کہاں سے آئے گا جس کو کوئی کھائے؟ الله قرآن میں بھی یہی حکم فرماتا ہے کہ:

قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْ‌ضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ


زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے -


(سورة ق:٤)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
یہاں آپ محمد ارشد کمال صاحب کی کسی تحریر کا حوالہ دے رہے ہیں - میں بھی آپ کو محمد ارشد کمال صاحب کی ایک کتاب کا حوالہ دیتا ہوں - اب اس کی وضاحت آپ کے ذمہ ہے




المسند فی عذاب القبر --- محمد ارشد کمال ---

قبر میں اژدھا مردہ کا گوشت کھاتا ہے پھر دوبارہ اس مردہ پر گوشت چڑھا دیا جاتا ہے

ارشد کمال صاحب اپنی کتاب المسند فی عذاب القبر میں البیہقی کے حوالے سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ:

ترجمہ : سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں یقیناً کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھا مسلط کر دیا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک اس کا گوشت کھاتا رہتا ہے - پھر اس پر دوبارہ گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جسے وہ دوبارہ پاؤں سے سر تک کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک) جاری رہے گا -

(صفحہ ١٨٩)

ایک طرف تو ارشد کمال صاحب کی البیہقی کے حوالے سے بیان کردہ مذکورہ بالا روایت ہے تو دوسری طرف امام بخاری رحمتہ الله علیہ اپنی صحیح میں حدیث لائے ہیں کہ:

بَاب : يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا زُمَرًا

باب : اس دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم فوج در فوج چلے آؤ گے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ قَالَ ثُمَّ يُنْزِلُ اللہُ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُونَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان (کی مدت) چالیس ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ساتھیوں نے پوچھا کیا اس سے چالیس دن مراد ہیں؟ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا ، لوگوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہے؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر پوچھا کیا چالیس سال؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر کہا کہ اللہ آسمان سے بارش برسائے گا تو اس سے مردے جی اٹھیں گے جس طرح سبزہ (بارش) سے اگتا ہے ، انسانی جسم کے تمام حصے سڑجاتے ہیں مگر عجب الذنب کی ہڈی (باقی رہتی ہے) اور اسی سے قیامت کے دن اس (انسان) کی ترکیب ہوگی -

(بخاری ، کتاب التفسیر ، باب : سورۃ عم یتسالون(نبأ) کی تفسیر کا بیان)

مذکورہ بالا حدیث سے تو واضح ہوا کہ انسانی گوشت تو سڑ کر مٹی مٹی ہو جاتا ہےتو اب وہ گوشت کہاں سے آئے گا جس کو کوئی کھائے؟ الله قرآن میں بھی یہی حکم فرماتا ہے کہ:

قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْ‌ضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ


زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے -


(سورة ق:٤)

میرے بھائی ٹائم نکال کر ایک دفع پوری تقریر سن لے کیوں کہ یہ عقیدہ کا مسلہ ہے

عقیدہ عذاب قبر شبہات اور جوابات :



شیخ ابو ذید ضمیر حفظہ اللہ


لنک


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
@lovelyalltime خالی شکریہ نہیں ایک دفع ویڈیو پوری دیکھ بھی لے

ان شاءاللہ ضرور آپ پر حق واضح ہو گا

اللہ سبحان و تعالیٰ آپ کو سمجنھے کی توفیق دیں - آمین
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
فتاویٰ جات: مسائل قبور۔۔۔۔۔۔۔۔۔فتویٰ نمبر : 11364


برزخی قبر
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 26 April 2014 02:56 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احا دیث میں عذاب قبر کا ذکر آیا ہے ہما رے ہاں چند حضرات کا کہنا ہے کہ قبر سے مرا دزمینی گڑھا نہیں بلکہ یہ ایک برزخی قبر ہے جہاں عذا ب و ثو اب ملتا ہے اور کچھ لو گ اس کے خلا ف عقیدہ رکھتے ہیں کہ عذاب و آرام اسی معہود قبر میں ہو تا ہے جسے ہم اپنے ہا تھو ں سے بنا تے ہیں قرآن و حدیث کی روسے وضا حت فر ما ئیں کہ قبر سے مرا د کونسی قبر ہے ؟ (عبد الطیف جہانیا ں منڈی )
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہما ر ے ہا ں آج کل بت شما ر فتنے رونما ہو رہے ہیں اس سلسلہ میں کرا چی کی زمین بڑی زرخیز واقع ہو ئی ہے وہا ں مسعود الدین عثما نی نے یہ فتنہ کھڑ ا کیا تھا کہ اس سے مرا د زمینی قبر نہیں بلکہ ایک برزخی قبر ہے جس میں عذاب وثو اب ملتا ہے چو نکہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے اور اسے یقین ہو چکا ہو گا کہ کس قسم کی قبر میں عذاب ہو تا ہے جب ہم قرآن و حدیث کا مطا لعہ کر تے ہیں تو ہمیں شریعت میں برز خی قبر کا وجود نظر نہیں آتا برز خی قبر کی دریا فت اس قسم کے فتنہ پر وروں کی ہے جو علم شریعت سے نا بلد ہو ئے ہیں اس میں کو ئی شک نہیں ہےکہ جرم پیشہ حضرات کو عا لم بر ز خ میں ہی عذاب سے دور چا ر ہو نا پڑتا ہے لیکن اس عذا ب کا محل یہ قبر ہے یا اور کو ئی جگہ محدثین عظا م نے اس سلسلہ میں جو را ہنما ئی فر ما ئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جن لو گو ں کو یہ زمینی قبر ملتی ہے انہیں تو اسی قبر میں عذاب سے دو چا ر کیا جا تا ہے اور جن کو یہ قبر نہیں ملتی ان کے اجز ائے جسم جہا ں پڑے ہیں ان کے لیے وہی قبر کا در جہ رکھتے ہیں اس مو قف کے متعدد دلائل ہیں ہم صرف دو دلائل کا ذکر کر تے ہیں ۔
(1)اللہ تعا لیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منا فقین کے لیے ان کی قبر پر کھٹرے ہو کر دعا کر نے سے منع فر ما یا ہے ارشا د با ر ی تعالیٰ ہے آپ ان میں سے کسی کی نماز جناز ہ نہ پڑھیں اور نہ ہی ان کی قبر پر کھٹرے ہوں ۔(9/التو بہ:84)
اب سوال پیدا ہو تا ہے کہ وہ کو نسی قبر ہے جس پر کھٹر ے ہو کر دعا کر نے سے آپ کو منع کیا گیا ہے ظا ہر ہے کہ اسی زمینی قبر کے کے متعلق یہ حکم دیا گیا ہے ۔
(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں جا تے ہو ئے اپنے صحا بہ کرا م رضوان اللہ عنہم اجمعین سے دریا فت کیا تھا کہ دونئی قبریں کن لو گو ں کی ہیں کیو ں کہ انہیں عذاب دیا جا رہا ہے لو گو ں نے نشا ند ہی کی تو آپ نے کھجور کی ایک چھڑی لے کر اس کے دو حصے کیے اور دو نو ں قبرو ں پر ایک ایک حصہ گا ڑ دیا نیز فر ما یا :"کہ امید ہے کہ ان کے خشک ہو نے تک ان کے عذاب میں کمی کر دی جا ئے ۔(صحیح بخا ری :الجنا ز 1361)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان زمینی قبروں پر کھجو ر کی چھڑیو ں کو گا ڑنا اس بات کی بین دلیل ہے کہ انہیں اسی قبر میں عذا ب دیا جا تا تھا بر ز خی قبر کی در یا فت ایجا د بند ہ ہے جس کا ثبو ت قرآن و حدیث سے نہیں ملتا ۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث۔۔ج1ص178۔۔۔محدث فتویٰ
السلام علیکم و رحمت الله -

محترم - ذرا اس حدیث نبوی کو بھی پڑھ لیں -

بَابٌ : كَلاَمُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِقَتْلَى بَدْرٍ بَعْدَ مَوْتِهِمْ
جنگ بدر کے مردار کافروں سے ان کے مرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے متعلق

(1160) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلاَثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ ،يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا فَسَمِعَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَوْلَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! كَيْفَ يَسْمَعُوا وَ أَنَّى يُجِيبُوا وَ قَدْ جَيَّفُوا قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَ لَكِنَّهُمْ لاَ يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا:’’ اے ابوجہل بن ہشام، اے امیہ ابن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔‘‘سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سنا، تو عرض کی کہ یا رسول اللہ ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ (یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ مردود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن رہے تھے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔

جب صحابہ کرام نے یہ پوچھا یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے- تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اس کی نفی نہیں فرمائی - بلکہ اتنا فرمایا کہ یہ میری بات سن رہے ہیں (کیوں کہ یہ ایک معجزہ نبوی تھا)-

یعنی عام طور پر مردہ اپنی زمینی قبر میں گل سڑ ہی جاتا ہے - الّہ یہ کہ الله رب العزت اس کے جسم کو معجزاتی طور پر محفوظ رکھے-

اور یہ میرا اور آپ کا یا عثمانیوں کا عقیدہ نہیں بلکہ سلف و صالحین کا عقیدہ تھا - کہ مردہ زمین میں گل سڑ جاتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا بھی یہی موقف تھا - اور اسی بنا پر انہوں نے نبی کریم سے یہ سوال کیا تھا -( یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے)-

اس طرح کی سوره الانعام الله کا ارشاد ہے کہ :

کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔

اخراج نفس صرف اک دفعہ ہی ہوتا ہے جسے ابو بکررضی الله عنہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی وفات پر عمر رضی الله تعالیٰ کے دعوے کہ الله کے نبی زندہ ہو جائیں گے کے رد میں کہا

(بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں )

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يُذِيقُكَ اللَّهُ المَوْتَتَيْنِ أَبَدًا
اورقسم ہے اس کی جس کے باتھ میں میری جان ہے الله آپ کو دو موتیں نہ چکھاۓ گا

روح نکل جائے تو اس میں احساس ختم ہو جاتا ہے – ایک روایت میں آتا ہے کہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اسما رضی الله تعالیٰ عنہا سے کہا جب وہ مسجد الحرام کے صحن میں تھیں اور ابن زبیر رضی الله تعالیٰ عنہ کی لاش سولی پر تھی

إن هذه الجثث ليست بشيء وإنما الأرواح عند الله فاتقي الله وعليك بالصبر

بے شک یہ لاشہ کوئی شے نہیں اور بے شک ارواح الله کے پاس ہیں پس الله سے ڈریں اور اس پر صبر کریں-

ام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور

اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا-
 

مون لائیٹ آفریدی

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 30، 2011
پیغامات
640
ری ایکشن اسکور
409
پوائنٹ
127
روح کی آنتیں نہیں ہوتیں یہ جسم کی علامت ہے
روح کو دودھ کی حاجت نہیں یہ بھی جسم کی علامت ہے
جب صحیح ثابت شدہ حدیث سے جو بات واضح ہو ، اس میں ہم اپنے عقل کے گھوڑے کیوں دوڑائے ؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
یہاں آپ محمد ارشد کمال صاحب کی کسی تحریر کا حوالہ دے رہے ہیں - میں بھی آپ کو محمد ارشد کمال صاحب کی ایک کتاب کا حوالہ دیتا ہوں - اب اس کی وضاحت آپ کے ذمہ ہے




المسند فی عذاب القبر --- محمد ارشد کمال ---

قبر میں اژدھا مردہ کا گوشت کھاتا ہے پھر دوبارہ اس مردہ پر گوشت چڑھا دیا جاتا ہے

ارشد کمال صاحب اپنی کتاب المسند فی عذاب القبر میں البیہقی کے حوالے سے حدیث نقل کرتے ہیں کہ:

ترجمہ : سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں یقیناً کافر پر قبر میں ایک خطرناک اژدھا مسلط کر دیا جاتا ہے جو سر سے پاؤں تک اس کا گوشت کھاتا رہتا ہے - پھر اس پر دوبارہ گوشت چڑھا دیا جاتا ہے جسے وہ دوبارہ پاؤں سے سر تک کھاتا چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح (قیامت تک) جاری رہے گا - (صفحہ ١٨٩)
ایک طرف تو ارشد کمال صاحب کی البیہقی کے حوالے سے بیان کردہ مذکورہ بالا روایت ہے تو دوسری طرف امام بخاری رحمتہ الله علیہ اپنی صحیح میں حدیث لائے ہیں کہ:

بَاب : يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ فَتَأْتُونَ أَفْوَاجًا زُمَرًا.۔۔باب : اس دن جب صور پھونکا جائے گا تو تم فوج در فوج چلے آؤ گے

حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللہُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ النَّفْخَتَيْنِ أَرْبَعُونَ قَالَ أَرْبَعُونَ يَوْمًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ شَهْرًا قَالَ أَبَيْتُ قَالَ أَرْبَعُونَ سَنَةً قَالَ أَبَيْتُ قَالَ ثُمَّ يُنْزِلُ اللہُ مِنْ السَّمَاءِ مَاءً فَيَنْبُتُونَ کَمَا يَنْبُتُ الْبَقْلُ لَيْسَ مِنْ الْإِنْسَانِ شَيْئٌ إِلَّا يَبْلَی إِلَّا عَظْمًا وَاحِدًا وَهُوَ عَجْبُ الذَّنَبِ وَمِنْهُ يُرَکَّبُ الْخَلْقُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ


ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صور پھونکے جانے کے درمیان (کی مدت) چالیس ہے ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ساتھیوں نے پوچھا کیا اس سے چالیس دن مراد ہیں؟ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا ، لوگوں نے پوچھا کیا چالیس مہینے مراد ہے؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر پوچھا کیا چالیس سال؟ انہوں نے انکار کیا ، پھر کہا کہ اللہ آسمان سے بارش برسائے گا تو اس سے مردے جی اٹھیں گے جس طرح سبزہ (بارش) سے اگتا ہے ، انسانی جسم کے تمام حصے سڑجاتے ہیں مگر عجب الذنب کی ہڈی (باقی رہتی ہے) اور اسی سے قیامت کے دن اس (انسان) کی ترکیب ہوگی -
(بخاری ، کتاب التفسیر ، باب : سورۃ عم یتسالون(نبأ) کی تفسیر کا بیان)

مذکورہ بالا حدیث سے تو واضح ہوا کہ انسانی گوشت تو سڑ کر مٹی مٹی ہو جاتا ہےتو اب وہ گوشت کہاں سے آئے گا جس کو کوئی کھائے؟ الله قرآن میں بھی یہی حکم فرماتا ہے کہ:

قَدْ عَلِمْنَا مَا تَنقُصُ الْأَرْ‌ضُ مِنْهُمْ ۖ وَعِندَنَا كِتَابٌ حَفِيظٌ

زمین ان کے جسم میں سے جو کچھ کھاتی ہے وہ سب ہمارے علم میں ہے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جس میں سب کچھ محفوظ ہے -

(سورة ق:٤)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی بات تو یہ ارشد کمال کا حوالہ صرف ’‘ محدث ’‘ کی وجہ سے دیا تھا ،
دوسری بات یہ کہ آپ نے واضح نہیں کیا کہ :
ارشد کمال کی نقل کردہ بیہقی والی روایت اور آپ کی پیش کی گئی بخاری کی روایت میں کیا تضاد یا تخالف ہے،
ہاں البتہ ہمیں الحمد للہ ’‘ محدثین سے محبت کے سبب اتنا علم ہے ’‘ کہ ارشد کمال صاحب کی نقل کردہ بیہقی کی موقوف رویت سنداً صحیح ہے ،،

ارشد کمال صاحب نے تو یہ روایت بیہقی ؒ سے نقل کی ہے ،
جبکہ ہمارے پاس بیہقی سے ڈیڑھ صدی قبل کے مستند محدث جناب عبد اللہ بن امام احمد ؒ کی کتاب ’‘ السنہ ’‘موجود ہے ،
(اور صرف برقی کتاب electronic book ہی نہیں ،بلکہ اصل کتاب مطبوعہ مکتبہ ابن قیم ۔الدمام ، بھی موجود ہے )
اس میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بسند صحیح موجود ہے ،، آپ بھی کتاب کا ذیل کا سکین دیکھ کر آنکھیں ٹھنڈی کریں

شجاع 7.jpg
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم و رحمت الله -

محترم - ذرا اس حدیث نبوی کو بھی پڑھ لیں -

بَابٌ : كَلاَمُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِقَتْلَى بَدْرٍ بَعْدَ مَوْتِهِمْ
جنگ بدر کے مردار کافروں سے ان کے مرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے متعلق

(1160) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم تَرَكَ قَتْلَى بَدْرٍ ثَلاَثًا ثُمَّ أَتَاهُمْ فَقَامَ عَلَيْهِمْ فَنَادَاهُمْ فَقَالَ يَا أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ ،يَا أُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ ، يَا عُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ ، يَا شَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ أَلَيْسَ قَدْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا ؟ فَإِنِّي قَدْ وَجَدْتُ مَا وَعَدَنِي رَبِّي حَقًّا فَسَمِعَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَوْلَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ! كَيْفَ يَسْمَعُوا وَ أَنَّى يُجِيبُوا وَ قَدْ جَيَّفُوا قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ وَ لَكِنَّهُمْ لاَ يَقْدِرُونَ أَنْ يُجِيبُوا ثُمَّ أَمَرَ بِهِمْ فَسُحِبُوا فَأُلْقُوا فِي قَلِيبِ بَدْرٍ

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا:’’ اے ابوجہل بن ہشام، اے امیہ ابن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔‘‘سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سنا، تو عرض کی کہ یا رسول اللہ ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔‘‘ (یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ وہ مردود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن رہے تھے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا۔

جب صحابہ کرام نے یہ پوچھا یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے- تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اس کی نفی نہیں فرمائی - بلکہ اتنا فرمایا کہ یہ میری بات سن رہے ہیں (کیوں کہ یہ ایک معجزہ نبوی تھا)-

یعنی عام طور پر مردہ اپنی زمینی قبر میں گل سڑ ہی جاتا ہے - الّہ یہ کہ الله رب العزت اس کے جسم کو معجزاتی طور پر محفوظ رکھے-

اور یہ میرا اور آپ کا یا عثمانیوں کا عقیدہ نہیں بلکہ سلف و صالحین کا عقیدہ تھا - کہ مردہ زمین میں گل سڑ جاتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا بھی یہی موقف تھا - اور اسی بنا پر انہوں نے نبی کریم سے یہ سوال کیا تھا -( یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے)-

اس طرح کی سوره الانعام الله کا ارشاد ہے کہ :

کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔

اخراج نفس صرف اک دفعہ ہی ہوتا ہے جسے ابو بکررضی الله عنہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی وفات پر عمر رضی الله تعالیٰ کے دعوے کہ الله کے نبی زندہ ہو جائیں گے کے رد میں کہا

(بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں )

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يُذِيقُكَ اللَّهُ المَوْتَتَيْنِ أَبَدًا
اورقسم ہے اس کی جس کے باتھ میں میری جان ہے الله آپ کو دو موتیں نہ چکھاۓ گا

روح نکل جائے تو اس میں احساس ختم ہو جاتا ہے – ایک روایت میں آتا ہے کہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اسما رضی الله تعالیٰ عنہا سے کہا جب وہ مسجد الحرام کے صحن میں تھیں اور ابن زبیر رضی الله تعالیٰ عنہ کی لاش سولی پر تھی

إن هذه الجثث ليست بشيء وإنما الأرواح عند الله فاتقي الله وعليك بالصبر

بے شک یہ لاشہ کوئی شے نہیں اور بے شک ارواح الله کے پاس ہیں پس الله سے ڈریں اور اس پر صبر کریں-

ام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور

اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا-

اس حدیث میں کون سی قبر ہے آپ وضاحت کر دے

ایک ہی صحیح حدیث کافی ہے ایمان والوں کے لئے

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم دو قبروں كے پاس سے گزرے اور فرمانے لگے:

" ان دونوں قبر والوں كو عذاب ہو رہا ہے، اور يہ عذاب انہيں كسى بڑى چيز كى بنا پر نہيں.
پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: كيوں نہيں، ان ميں سے ايك تو غيبت اور چغلى كرتا تھا، اور دوسرا پيشاب كى چھينٹوں سے نہيں بچتا تھا "
راوى بيان كرتے ہيں كہ: پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك تازہ شاخ لى اور اسے دو حصے كر كے ہر ايك قبر پر گاڑھ ديا، اور پھر فرمايا:
" اميد ہے كہ جب تك يہ خشك نہيں ہونگى ان سے تخفيف اور كمى كى جائيگى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1378 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 292 ).
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمت الله -

محترم - ذرا اس حدیث نبوی کو بھی پڑھ لیں -

بَابٌ : كَلاَمُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم لِقَتْلَى بَدْرٍ بَعْدَ مَوْتِهِمْ
جنگ بدر کے مردار کافروں سے ان کے مرنے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے متعلق

جب صحابہ کرام نے یہ پوچھا یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے- تو نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم نے اس کی نفی نہیں فرمائی - بلکہ اتنا فرمایا کہ یہ میری بات سن رہے ہیں (کیوں کہ یہ ایک معجزہ نبوی تھا)-

یعنی عام طور پر مردہ اپنی زمینی قبر میں گل سڑ ہی جاتا ہے - الّہ یہ کہ الله رب العزت اس کے جسم کو معجزاتی طور پر محفوظ رکھے-

اور یہ میرا اور آپ کا یا عثمانیوں کا عقیدہ نہیں بلکہ سلف و صالحین کا عقیدہ تھا - کہ مردہ زمین میں گل سڑ جاتا ہے جیسا کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا بھی یہی موقف تھا - اور اسی بنا پر انہوں نے نبی کریم سے یہ سوال کیا تھا -( یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر گل سڑ گئے)-

اس طرح کی سوره الانعام الله کا ارشاد ہے کہ :

کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔

اخراج نفس صرف اک دفعہ ہی ہوتا ہے جسے ابو بکررضی الله عنہ نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی وفات پر عمر رضی الله تعالیٰ کے دعوے کہ الله کے نبی زندہ ہو جائیں گے کے رد میں کہا
(بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں )
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يُذِيقُكَ اللَّهُ المَوْتَتَيْنِ أَبَدًا
اورقسم ہے اس کی جس کے باتھ میں میری جان ہے الله آپ کو دو موتیں نہ چکھاۓ گا

روح نکل جائے تو اس میں احساس ختم ہو جاتا ہے – ایک روایت میں آتا ہے کہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اسما رضی الله تعالیٰ عنہا سے کہا جب وہ مسجد الحرام کے صحن میں تھیں اور ابن زبیر رضی الله تعالیٰ عنہ کی لاش سولی پر تھی

إن هذه الجثث ليست بشيء وإنما الأرواح عند الله فاتقي الله وعليك بالصبر

بے شک یہ لاشہ کوئی شے نہیں اور بے شک ارواح الله کے پاس ہیں پس الله سے ڈریں اور اس پر صبر کریں-

ام الأشعري (المتوفى: 324هـ) اپنی کتاب مقالات الإسلاميين واختلاف المصلين میں مسلمانوں کے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

واختلفوا في عذاب القبر: فمنهم من نفاه وهم المعتزلة والخوارج، ومنهم من أثبته وهم أكثر أهل الإسلام، ومنهم من زعم أن الله ينعم الأرواح ويؤلمها فأما الأجساد التي في قبورهم فلا يصل ذلك إليها وهي في القبور

اور عذاب القبر میں انہوں نے اختلاف کیا : پس ان میں سے بعض نے نفی کی اور یہ المعتزلة اور الخوارج ہیں – اور ان میں سے کچھ نے اثبات کیا ہے اور یہ اکثر اہل اسلام ہیں اور ان میں سے بعض نے دعوی کیا ہے کہ یہ صرف روح کو ہوتا ہے اور جسموں کو جو قبروں میں ہیں ان تک نہیں پہنچتا-
کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔
اس آیت سے تو ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے زندہ لوگوں کی موجودگی میں فرشتے مرنے والے کو مارتے ہیں ،،لیکن فرشتوں کی مار کا اثر وہاں موجود زندہ لوگ دیکھ یا محسوس نہیں کرتے،،
،گویا آپ نے خود ثابت کردیا کہ خود اللہ ذوالجلال قرآن میں کہتا ہے عذاب قبر سے پہلے بھی سب کی موجودگی میں جسم وروح کو ہوتا توہے لیکن منکرین ومثبتین کو نظر نہیں آتا؛

تو اے بندہ خدا یہی تو ہم کتنے دنوں سے جناب کو سمجھا رہے ہیں ،قبر میں عذاب وثواب تو یقیناً ہوتا ہے ،یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمیں نظر نہیں آتا ۔
اور حق فرمایا ذوالجلال والاکرام نے ۔۔۔۔كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ (5) لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ (6)۔۔۔لیکن آپ نہیں سمجھ سکتے
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں: لاؤ نکالو اپنی جانیں آج تمہیں ذلت کے عذاب کا صلہ دیا جائے گا اس لیے کہ تم اللہ کے ذمہ ناحق باتیں کہتے تھے اور اس کی آیات سے تکبر کیا کرتے تھے۔
دیکھئے اس آیہ میں باتیں ہیں،
(۱) موت کے وقت کئی ایک فرشتوں کا موجود ہونا {وَالْمَلائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ}
(۲)فرشتوں کا میت کو مارنا اور اس سے کلام کرنا ۔[بَاسِطُو اأَيْدِيهِمْ۔۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ ]
اب غورسے سنئے :
(۱) آج تک کسی نے مرنے والے کے پاس فرشتوں کو نہیں دیکھا ۔
تو کیا فرشتے ظالم کی جان برزخ میں نکالتے ہیں ؟؟
(۲) ہمارے سامنے روزانہ لاکھوں کفار مرتے ہیں ،، اور ان کی جان بڑے سکون سے نکلتی ہے کئی تو حالت نیند میں مردار ہوجاتے ہیں
ہماری نظر میں تو انہیں کانٹا چبھنے جتنی تکلیف بھی نہیں ہوتی ،،،جبکہ قرآن کا بیان ہے کہ فرشتے انہیں مارتے ہیں ،تو کیا یہ مار بھی کسی دوسری عالم کے برزخ میں دی جاتی ہے؟؟؟
جواب ضرور دیجئے گا ،لیکن صرف قرآن سے ۔۔۔۔۔کیونکہ بقول آپ کے حدیثیں تو قرآن کے خلاف بھی ہوتی ہیں ،
 
Top