مقبول احمد سلفی
سینئر رکن
- شمولیت
- نومبر 30، 2013
- پیغامات
- 1,400
- ری ایکشن اسکور
- 461
- پوائنٹ
- 209
صحیح حدیث میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے قبیلہ عرینہ اور عکل کے کچھ لوگوں کو اونٹ کا پیشاب پینے کا حکم دیا تھا ۔
عن أنس أن ناسًا اجتَوَوا في المدينةِ، فأمَرهمُ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يَلحَقوا براعِيْه، يعني الإبلَ، فيَشرَبوا من ألبانِها وأبوالِها، فلَحِقوا براعِيْه، فشَرِبوا من ألبانِها وأبوالِها، حتى صلَحَتْ أبدانُهم.(صحیح بخاری: 5686 )
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہوا موافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ۔
اس حدیث کی وجہ سے بعض اہل علم نے ماکول اللحم جانور کا پیشاب پینا جائز قرار دیا ہے ۔ تائید کے لئے کچھ نصوص اور بھی پیش کئے جاتے ہیں۔
(1) لا بأسَ ببولِ ما أُكل لحمُه۔
ترجمہ : براء ابن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماکول اللحم جانور کے پیشاب میں حرج نہیں ہے ۔
٭ یہ قابل حجت نہیں ہے ، اسے شیخ البانی نے بہت ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة: 4850)
٭ اسے شیخ مبارکپوری نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ (تحفة الأحوذي 1/182)
(2) ما أُكِل لحمُه فلا بأسَ ببولِه۔
ترجمہ : جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماکول اللحم جانور کے پیشاب میں حرج نہیں ہے ۔
٭ اسے حافظ ابن حجر ؒ نے سخت ضعیف کہا ہے ۔ (التلخیص الحبیر1/64)
٭ اسے شیخ مبارکپوری نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ (تحفة الأحوذي 1/182)
ہندوستان میں گائے کو خدا کا درجہ دیا جاتا ہے،اس لئے جہاں اس کی پوجا کی جاتی ہے وہیں اس کے پیشاب کو متبرک سمجھ کر پیا بھی جاتا ہے ۔ ہندؤں کا خیال ہے کہ یہ متبرک ہونے کے ساتھ متعدد بیماریوں کا علاج بھی ہے ۔اس لئے ہندو اس کا خود بھی استعمال کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کے فوائد بتاکر پینے کی ترغیب دیتے ہیں ۔
بخاری شریف کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اونٹ کا پیشاب پینا علاج کے طور پہ جائز ہے ، اسی طرح علماء کی رائے کے حساب سے ماکول اللحم جانور مثلا گائے، بھینس، بکری وغیرہ کا پیشاب بھی علاج کے طور پہ پیاجاسکتا ہے بشرطیکہ ماہرمسلم اطباء سے اس علاج کی تائید ہوجائے۔ یونہی ہندؤں کی اڑائی باتوں پہ یقین نہیں کیا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
عن أنس أن ناسًا اجتَوَوا في المدينةِ، فأمَرهمُ النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم أن يَلحَقوا براعِيْه، يعني الإبلَ، فيَشرَبوا من ألبانِها وأبوالِها، فلَحِقوا براعِيْه، فشَرِبوا من ألبانِها وأبوالِها، حتى صلَحَتْ أبدانُهم.(صحیح بخاری: 5686 )
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہوا موافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ۔
اس حدیث کی وجہ سے بعض اہل علم نے ماکول اللحم جانور کا پیشاب پینا جائز قرار دیا ہے ۔ تائید کے لئے کچھ نصوص اور بھی پیش کئے جاتے ہیں۔
(1) لا بأسَ ببولِ ما أُكل لحمُه۔
ترجمہ : براء ابن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماکول اللحم جانور کے پیشاب میں حرج نہیں ہے ۔
٭ یہ قابل حجت نہیں ہے ، اسے شیخ البانی نے بہت ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلة الضعيفة: 4850)
٭ اسے شیخ مبارکپوری نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ (تحفة الأحوذي 1/182)
(2) ما أُكِل لحمُه فلا بأسَ ببولِه۔
ترجمہ : جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ماکول اللحم جانور کے پیشاب میں حرج نہیں ہے ۔
٭ اسے حافظ ابن حجر ؒ نے سخت ضعیف کہا ہے ۔ (التلخیص الحبیر1/64)
٭ اسے شیخ مبارکپوری نے بھی ضعیف کہا ہے ۔ (تحفة الأحوذي 1/182)
ہندوستان میں گائے کو خدا کا درجہ دیا جاتا ہے،اس لئے جہاں اس کی پوجا کی جاتی ہے وہیں اس کے پیشاب کو متبرک سمجھ کر پیا بھی جاتا ہے ۔ ہندؤں کا خیال ہے کہ یہ متبرک ہونے کے ساتھ متعدد بیماریوں کا علاج بھی ہے ۔اس لئے ہندو اس کا خود بھی استعمال کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کے فوائد بتاکر پینے کی ترغیب دیتے ہیں ۔
بخاری شریف کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اونٹ کا پیشاب پینا علاج کے طور پہ جائز ہے ، اسی طرح علماء کی رائے کے حساب سے ماکول اللحم جانور مثلا گائے، بھینس، بکری وغیرہ کا پیشاب بھی علاج کے طور پہ پیاجاسکتا ہے بشرطیکہ ماہرمسلم اطباء سے اس علاج کی تائید ہوجائے۔ یونہی ہندؤں کی اڑائی باتوں پہ یقین نہیں کیا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب