• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گرمی کا موسم اور بازاروں میں نمائش حسن

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
گرمی کیا آئی کہ لان بنانے والوں نے کارپٹ بمباری carpet bombing کی مانند اپنی مصنوعات کی تشہیری مہم کا آغاز کرتے ہوئے اشتہارات کی بھرمار کر دی ہے ۔ ٹی وی اور اخبارات پر ہی بس نہیں ، بلکہ ساتھ ساتھ پورے شہر میں جہازی سائز کے سائن بورڈز بھی آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ جن پر اس قسم کے جملے دیکھے جا سکتے ہیں۔

اور پھر جس طرح جیسے گھڑ دوڑ یا کار ریلی میں فائر کے ہوتے ہی گھوڑے بگٹٹ دوڑتے ہیں اور گاڑیاں زووووں کرتی آگے بڑھتی ہیں، اسی طرح خواتین مقررہ تاریخ پر شاپنگ سینٹرز ، کپڑے کی دوکانوں اور فیکٹری آؤٹ لیٹس outlets کی جانب دوڑتی نظر آتی ہیں ۔ ایک دوست جو ابھی حال ہی میں لاہور سے ہو کر آئے ہیں، وہاں کے بازار کا حال بتانے لگے کہ “ایک اوسط درجہ کی کپڑے کی دوکان پر بھی تقریباً سارے ہی معروف برانڈز کی لان کا نیا اسٹاک دستیاب تھا جن کے حصول کے لئے خواتین باؤلی ہوئی جا رہی تھیں ۔ دوکان میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔ اور چار چار پانچ پانچ ہزار کے سوٹ دھڑا دھڑ بک رہے تھے ۔ “

صرف لاہور ہی کا کیا ذکر ، ہمارا شہر کون سا پیچھے ہے ۔ بتائیے !چار پانچ ہزار روپے کا سوٹ ، وہ بھی لان کا ؟ اور ابھی پانچ سات سو روپے سلائی بھی جائے گی۔ کیا ہو گیا ہے ان خواتین کی عقلوں کو؟ اس سے کم میں یا اتنے میں تو پیور شیفون کے کڑھائی والے سوٹ یا بنارسی جوڑے مل جاتے ہیں جو کہ اچھے خاصے زرق برق ، دیدہ زیب اور پارٹی ویئر ٹائپ ہوتے ہیں۔ مانا کہ تقریبات کے ملبوسات کی نوعیت مختلف ہوا کرتی ہے لیکن کیا اب casual wearing پر بھی اس قدر پیسہ صرف کیا جائے گا ؟ ایک تھری پیس لیڈیز سوٹ میں ساڑھے سات گز کپڑے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب چار پانچ ہزار کو ساڑھے سات سے تقسیم کر کے ذرا حساب تو لگائیے کہ کیا بھاؤ پڑ گیا ایک گز کپڑا ؟

آجکل تو ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے پاکستان میں زندگی کا مقصد یا تو لان بنانا ہو گیا ہے یا لان پہننا ، باقی لوگ تو ملک میں فالتو ہیں۔ یہ سب کمال ہے اس مارکیٹنگ مہم کا ، جس کا اخلاقیات سے عاری نصب العین ہے ….. “جو دِکھتا ہے ، وہ بکتا ہے ” ۔ سو اس مہم کے شاہکار آپ کو ہر چھوٹی بڑی شاہراہ ، اخبارات اور رسائل ، الیکٹرانک میڈیا ، فیشن میگزین ، دوکانوں، بازاروں ….. غرض یہ کہ ہر گلی ہر نکڑ ہر قدم پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص شارع فیصل تو ہورڈنگز کی بھرمار سے اس وقت “شارع فیشن ” کا منظر پیش کر رہی ہے ۔

لیکن جناب ! یہ بھی حقیقت ہے کہ تالی تو دونوں ہاتھ سے بجتی ہے ۔ تو ذرا ان خواتین کا طرز عمل بھی ملاحظہ ہو… جو تشہیری مہم کا حصہ ہیں۔ جی ہاں ! ہم ماڈل گرلز ہی کی بات کر رہے ہیں ۔ اوہ سوری! برانڈ ایمبیسیڈرز brand ambassadors … ماڈل گرل تو گھٹیا ، فرسودہ اور بازاری قسم کا لفظ ہے ۔ ایک جانب جولاہوں … سوری … ٹیکسٹائل مل والوں کی کوشش ہے کہ لان کی فروخت کے ریکارڈ قائم کر لئے جائیں ، تو دوسری طرف بڑی بڑی ہورڈنگز پر حوا کی یہ بیٹیاں … المعروف بہ برانڈ ایمبیسیڈرز … بے حیائی کے ریکارڈ قائم کرتی نظر آ رہی ہیں۔کپڑا بنانے اور پہننے کا مقصد ہے ستر پوشی … لیکن یہاں ماڈلنگ کے نام پر ستر فروشی کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ واہ صاحب واہ ! ساڑھے سات گز کپڑے کا سوٹ زیب تن کرنے کے باوجود ماڈل خاتون برہنہ نظر آ رہی ہے۔

حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ ان ماڈل خواتین کو کسی مجبوری کے تحت پیسہ کمانے کے لئے گھر سے نکلنا پڑا ہو گا تو پھر پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ انسان پیسہ کماتا کیوں ہے؟ انسان کو پیٹ بھرنے کے لئے روٹی ، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا ، سر چھپانے کے لئے مکان ، سفر کے لئے سواری اور بیماری میں دوا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے انسان کو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، جسے کمانے کے لئے وہ کوئی نہ کوئی پیشہ یا شعبہ اختیار کرتا ہے ۔ کونسا پیشہ ؟ یہ فرد کی اپنی صوابدید پر ہے ۔

بہت سی با حیا خواتین ، باوجود شدید مجبوری کے بھی ، گھر سے باہر نکلنے کے بجائے گھر ہی میں رہتے ہوئے سلائی کڑھائی کے ذریعے اپنی گزر اوقات کا انتظام کر لیتی ہیں … بہت سی خواتین گھر سے باہر نکلتی بھی ہیں تو وقار کے ساتھ ، حدود کا پاس رکھتے ہوئے … تاہم فی زمانہ ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں ، جو ماڈلنگ کا پیشہ اپنا کر شمع محفل اور زینت بازار بننے کا انتخاب کرتی ہیں ۔ کتنا عجیب ہے ناں ان ماڈل خواتین کا یہ فلسفہ …. ستر پوشی کے لئے ستر فروشی ۔ اللہ بچائے عقل کے خبط ہونے سے ۔

یہ معاملہ صرف لان کے اشتہارات تک ہی محدود نہیں ہے ، بلکہ کریموں اور زنانہ انڈر گارمنٹس جیسی اشیاء کی بھی دیو ہیکل سائن بورڈز پر (نیز اخبارات و رسائل میں بھی )برملا اور بھرپور تشہیر کی جا رہی ہے ۔ ایک ٹیم ورک کے ساتھ پورے شہر کو بے حیائی کے مناظر سے سجا دیا گیا ہے ۔ اس ٹیم کے تمام کھلاڑی بشمول مصنوعات بنانے والے ، مارکیٹنگ کرنے والے ، بے حیائی کے پوز دیتی ماڈل گرلز اور ان کی منظر کشی کرنے والے فوٹو گرافرز ، پینافلیکس پرنٹرز ، ان پینافلیکس کو ہورڈنگز پر نصب کرنے والے مزدور قرآن پاک کی یہ وارننگ یاد رکھیں ۔۔۔

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ

یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کےلئے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہے ۔ (سورۃ النور ۔ ۱۹)

آخر میں ہم ماڈل خواتین کی توجہ اس امر کی جانب دلاتے چلیں کہ ذرا سوچئے ! مصنوعات کی آڑ میں کہیں آپ کی نسوانیت کو تو نہیں بیچا جا رہا ؟ ساتھ ہی ان ماڈل خواتین کے گھر کے مردوں …. اور ان کو زینت بازار بنانے والے مردوں سے یہ گزارش ہے کہ اللہ کے بندو! اشتہار کو اپنی مصنوعات کی شہرت تک ہی محدود رکھو، کم از کم شہوت کا ذریعہ تو نہ بناؤ ۔تم لوگ جس طرح بے حیائی کے مناظر کو ہورڈنگز پر سجا کر ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار کو پامال کرنے ، معاشرے کو ایک خاص سمت میں ہانکنے یعنی ممنوعات کو ممکنات میں تبدیل کرنے کی ابلیسی کوشش میں ایک دوسر ے کی معاونت کر رہے ہو، تو اس قوم کے با حیا افراد اس کھلی فحاشی سے تنگ آکر وہی سوال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے بے حیا مردوں سے کیا تھا۔…

کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں ہے؟…

اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُل‘’ رَّشِیْد‘’؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (سورۃ ھود۔ 78)




بشکریہ فاطمہ
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
یہ ماڈل خواتین کی بھی بات نہیں۔
اگر یہ لاکھوں خواتین ان ماڈلز کے پیچھے نہ بھاگیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
کنزیومر رائٹس کا پاکستان میں کوئی تصور ہی نہیں۔ حالانکہ ہم بحیثیت کنزیومر، کسی بھی سپلائر کو چاہے وہ لان بناتا ہو، میک اپ یا مرد و خواتین کے استعمال کی دیگر مصنوعات، بڑی آسانی سے سیدھا کر سکتے ہیں۔ اور یہ عملی حل ہے نا کہ فقط خیالی بات۔

مثلاً لیکس صابن بنانے والوں کے اشتہارات میں بھی اسی طرح بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ تو میں نے اپنی امی اور بیوی کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ ایک تو یہ صابن نہ خریدیں۔ اور دوسرا جب بھی صابن کی خریداری کرنے جائیں تو دکاندار کو یہ ضرور کہیں کہ ہم لیکس صابن اس لئے نہیں لے رہے کہ انہوں نے اشتہارات کے ذریعے بے حیائی پھیلا رکھی ہے۔ اور آج کے بعد ہم یہ دوسرا صابن استعمال کریں گے۔ اور دکاندار کو کہیں کہ وہ یہ بات لیکس بیچنے والوں تک پہنچائے کہ خریدار یہ شکایت کر رہے رہیں۔

اگر لیکس والوں یا لان والوں تک ایسی کچھ خبریں روزانہ پہنچتی رہیں تو یہ سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ وہ خود اس بے حیائی کی تشہیر سے باز آ جائیں گے۔ یا اس کی شدت میں ہی کچھ کمی آئے گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی بے حیائی کو ناپسند کرنے والی کثیر تعداد خریداروں کی موجود ہے۔

کوئی بھائی اگر لان، لیکس کے علاوہ دیگر سپلائرز جو بے حیائی پر مبنی اشتہار بازی کر رہے ہیں، کی لسٹ جمع کرنا شروع کر دے۔ تو کم سے کم ہم فورم کی حد تک تو ایک چھوٹی سی مہم شروع کر سکتے ہیں۔ کیا معلوم کون سا عمل اللہ تعالیٰ قبول فرما لیں۔
 

حسن شبیر

مشہور رکن
شمولیت
مئی 18، 2013
پیغامات
802
ری ایکشن اسکور
1,834
پوائنٹ
196
ماشاءاللہ بہت ہی اچھی سوچ ہے۔اللہ کرے سب کی سوچ ایسی ہو جائے تو پھر ان کمپنیوں کا منہ بند کرنا بالکل آسان ہو جائے گا۔ بات ہے بس عمل کی، اگر آج ہم مل کر عملی طورپر کوئی اقدامات کریں تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ورنہ یہ بےحیائی کی تشہیر ایسے ہی جاری رہے گی۔
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
شاکر بھائی جزاک اللہ آپ نے اس نیک کام میں مجھے ٹیگ کر کے شمولیت کا موقع فراہم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس نیک ارادے کی تکمیل کا موقع فراہم کرے اور اس کا اجر عظیم عطاء فرمائے۔ مجھے تھوڑا سا وقت درکار ہے میں اس ضمن میں دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے آپ کو اپنی حد تک جتنی بھی مستند معلومات فراہم کر سکا انشا اللہ ضرور فراہم کروں گا۔
 

ideal_man

رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
258
ری ایکشن اسکور
498
پوائنٹ
79
ماشاءاللہ بہت ہی اچھی سوچ ہے۔اللہ کرے سب کی سوچ ایسی ہو جائے تو پھر ان کمپنیوں کا منہ بند کرنا بالکل آسان ہو جائے گا۔ بات ہے بس عمل کی، اگر آج ہم مل کر عملی طورپر کوئی اقدامات کریں تو سب کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ ورنہ یہ بےحیائی کی تشہیر ایسے ہی جاری رہے گی۔
یقینا سوچ سب کی ایسی ممکن ہے، لیکن یہ خود سے نہیں ہوگا اس لے لئے محنت شرط ہے۔
زمین کی نگہداشت ہو تو وہ کاشت کے لئے تیار رہتی ہے ، اگر توجہ ہٹا دی جائے تو بنجر بنانے کے لئے محنت کی ضرورت نہیں پرتی۔
یہ یاد رکھیں بے حیائے کو ہر کوئی برا اور گناہ سمجھتا ہے جو بے حیائی اور فحاشی پھیلاتا ہے وہ بھی گناہ سمجھتا ہے لیکن ان بنیادوں کے پیچھے مفادات وابستہ ہوتے ہیں، اور وہ اپنے مفادات کے ہاتھوں یر غمال ہوتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالی نے صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے علم ، کمال اور فن سے معاشرے کی ان برائیوں کے خلاف علم جہاد بلند کرے ، آج ان کی تمام صلاحتیں مسلک پرستی، فرقہ پرستی، مذہب پرستی ، قوم پرستی کے بحث ومباحثوں اور مناظروں میں دم توڑ رہی ہے۔
کیا معاشرے میں پھیلے بگاڑ اور گند کو یہ عام لوگ صاف کریں گے یا اہل علم و اہل دانش ؟؟؟؟
اہل علم اور اہل دانش کو اپنے مذہب اور فرقہ پرستی سے نکلنے کی فرصت ہی نہیں۔
باقی ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا؟؟؟
 
شمولیت
اپریل 23، 2011
پیغامات
79
ری ایکشن اسکور
329
پوائنٹ
79
شاکر بھائی کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ اگر کوئی صاحب شاکر بھائی کی تجویز کو باقاعدہ پوسٹ کی شکل دے دے تو فیس بک پر زیادہ مؤثر انداز میں یہ پیغام پہنچایا جا سکتا ہے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
گرمی کا موسم اور گرم گوشت


اف اس گرمی کے موسم میں یہ گرم کاروبار حسن اور پیسے کی گرمی معلوم نہیں کیا کیا گل کھلائے گی ۔یہ حسن اور دولت کی گرمی ہی ہے جو جہنم کی آگ کو بھڑکا رہی ہے ۔ان دونوں کی گرمی کی وجہ سے ہی اللہ کی تمام مخلوق پریشان ہے اس وجہ سے کہ جب جب زمین پر گناہوں کی کثرت ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کا غضب بھی بڑھتا ہے جو کہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے جس کو اہل بصیرت سمجھ جاتے ہیں ۔یہ طوفانوں کا آنا زلزلوں کا آنا،بارش کا عذاب پانی کا عذاب نازل ہونا برفانی سزائیں،اور یہ گرمی کی شدت یہ سب انسانی گناہوں اور کالے کرتوتوں کا ثمرہ ہے۔جس کی سزا حیونات کو بھی برداشت کرنی پڑتی ہے۔اللہ کے غضب کو بڑھانے والے اسبابوں میں سے بڑا سبب یہ فیشن پرستی عریانیت فحاشیت اور اس گرم گوشت کی نمائش ہے ۔یہ گرم گوشت کی حدت ہی ہے جو مسلمانوں کے ایمان کو پگھلارہی ہے اور جذبہ ایمانی کو سرد کررہی ہے۔
یہ گھناؤنا فعل یا کاروبار اور یہ طوفان بد تمیزی اب معیوب نہیں رہے بلکہ اس کو اب ثقافت اور فن وآرٹ کا نام دیدیا گیا ہےجس کو بہت منظم طریقہ پر چلایا جارہاہے۔اشتہارات ٹی وی چینلز،اسٹیج پروگرام،پرنٹ میڈیا،کے توسط سے گھر گھر اس عریانیت اور فحاشیت کو مختلف طریقوں بہانوں سے پہنچایا جارہا ہے جس کو ہم نے مجبوری کا نام دیدیا ہے
مغرب زدہ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ،فیشن شوز،اور رنگا رنگ ثقافتی پروگراموں کے نام پر عریانیت اور فحاشیت کی قباحت کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو ’’ترقی یافتہ تہذیب‘‘ یا ’’مہذب تہذیب‘‘اور ’’روشن خیالی‘‘کا نام دیدیا گیا ہے۔عریانیت اور گرم گوشت کی یہ آگ دھیرے دھیرے مہذب(اسلامی) گھرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی جارہی ہے۔اس عریانیت اور فحاشیت نے حیوانیت اور زمانہ جاہلیت کو بھی شرمندہ کردیا ہے۔ادب تہذیب یہ سب قصہ پارینہ ہوکر رہ گئے ہیں۔اب یہ بد تہذیبی اور عریانیت سماج کا حصہ بن چکی ہے بلکہ اس کو قانونی سارٹیفکیٹ بھی حاصل ہوگیا ہے اور حکومتوں کی سر پرستی حاصل ہوگئی ہے بڑی بڑی کمپنیوں نے حکومتوں اور سرکاروں کوخرید لیا ہے یہی وجہ ہے کہ انسانی گوشت گرم ہوتا جارہاہے اور ایمان سرد ہوتا جارہا ہے۔
بات یہیں پر ختم ہوجاتی اگر ان سب لغویات کا تعلق غیراسلامی ممالک یا صرف کفریہ معاشرہ سے ہوتا اور نہ ہی اس پر کوئی تعجب ہوتا بلکہ افسوس اور تعجب اورفکر کی بات یہ ہے کہ یہ تمام لغویات خرافات اسلامی تہذیب اور معاشرہ کو چیلنج اور متاءثر کررہی ہیں،بلکہ کرچکی ہیں،یہ ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔سانپ بل میں گھس چکا ہے لاٹھی پیٹے جاؤ اس کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔لاٹھی پیٹنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا بلکہ اس کے لیے کچھ اقدام کرنے ہوں گےہمیں ہر قیمت پر اس سانپ کو تلاش کرنا ہوگا اس کے مسکن کو تلاش کرنا ہوگا جہاں سے یہ سانپ چلا اس وجہ سے کہ وہاں اور بھی سانپ ہونگے انہیں بھی ختم کرنا ہوگا اور اس جگہ کو بھی تلاش کرنا ہوگا جہاں جا کر وہ چھپا ہے کیوں کہ وہاں وہ دوسرے سانپ پیدا کرے گا۔
اس کا مسکن :ٹی وی چینلز،اخبارات، اشتہارات،فیشن پروگرام، اور مفروضہ ثقافتی پروگرام،
اور اس کی خفیہ پناہ گاہ:انٹرنیٹ،فیس بک،موبائل فون،کیبل نیٹ ورک،اور چھوٹے چھوٹے اشتہارات،جو گھریلو استعمال کی اشیاء ادویا ء ودیگر پیکٹس پر عریاں یا نیم عریاں یا عورتوں کی تصاویر سے مزین ہوتے ہیں۔جو نوجوانوں کے گوشت میں گرمی پیدا کرتے ہیں ۔اس کا واحد علاج ان سب پروڈکٹس کا بائیکاٹ اور ان کی ویب سائیڈوں پر اپنا احتجاج درج کرانا ہے دوکانداروں سے کہنے سے زیادہ فائدہ نہ ہوگا۔اللہ ہماری مدد فرمائے

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا​
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا​

 
شمولیت
مئی 23، 2013
پیغامات
213
ری ایکشن اسکور
381
پوائنٹ
90
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
آپشن یہ ہیں-
1)رنگ
2) زنگ
3) جنگ

آپشن آپ کے سامنے ہیں اور فیصلہ بھی آپ نے کرنا ہے-

بس یہی کہوں گا کہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
شاکر بھائی کی بات بالکل ٹھیک ہے۔ اگر کوئی صاحب شاکر بھائی کی تجویز کو باقاعدہ پوسٹ کی شکل دے دے تو فیس بک پر زیادہ مؤثر انداز میں یہ پیغام پہنچایا جا سکتا ہے۔
بالکل ضرور ہونا چاہیے ۔۔
 
Top