گرمی کیا آئی کہ لان بنانے والوں نے کارپٹ بمباری carpet bombing کی مانند اپنی مصنوعات کی تشہیری مہم کا آغاز کرتے ہوئے اشتہارات کی بھرمار کر دی ہے ۔ ٹی وی اور اخبارات پر ہی بس نہیں ، بلکہ ساتھ ساتھ پورے شہر میں جہازی سائز کے سائن بورڈز بھی آویزاں کر دیئے گئے ہیں۔ جن پر اس قسم کے جملے دیکھے جا سکتے ہیں۔
اور پھر جس طرح جیسے گھڑ دوڑ یا کار ریلی میں فائر کے ہوتے ہی گھوڑے بگٹٹ دوڑتے ہیں اور گاڑیاں زووووں کرتی آگے بڑھتی ہیں، اسی طرح خواتین مقررہ تاریخ پر شاپنگ سینٹرز ، کپڑے کی دوکانوں اور فیکٹری آؤٹ لیٹس outlets کی جانب دوڑتی نظر آتی ہیں ۔ ایک دوست جو ابھی حال ہی میں لاہور سے ہو کر آئے ہیں، وہاں کے بازار کا حال بتانے لگے کہ “ایک اوسط درجہ کی کپڑے کی دوکان پر بھی تقریباً سارے ہی معروف برانڈز کی لان کا نیا اسٹاک دستیاب تھا جن کے حصول کے لئے خواتین باؤلی ہوئی جا رہی تھیں ۔ دوکان میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ۔ اور چار چار پانچ پانچ ہزار کے سوٹ دھڑا دھڑ بک رہے تھے ۔ “
صرف لاہور ہی کا کیا ذکر ، ہمارا شہر کون سا پیچھے ہے ۔ بتائیے !چار پانچ ہزار روپے کا سوٹ ، وہ بھی لان کا ؟ اور ابھی پانچ سات سو روپے سلائی بھی جائے گی۔ کیا ہو گیا ہے ان خواتین کی عقلوں کو؟ اس سے کم میں یا اتنے میں تو پیور شیفون کے کڑھائی والے سوٹ یا بنارسی جوڑے مل جاتے ہیں جو کہ اچھے خاصے زرق برق ، دیدہ زیب اور پارٹی ویئر ٹائپ ہوتے ہیں۔ مانا کہ تقریبات کے ملبوسات کی نوعیت مختلف ہوا کرتی ہے لیکن کیا اب casual wearing پر بھی اس قدر پیسہ صرف کیا جائے گا ؟ ایک تھری پیس لیڈیز سوٹ میں ساڑھے سات گز کپڑے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب چار پانچ ہزار کو ساڑھے سات سے تقسیم کر کے ذرا حساب تو لگائیے کہ کیا بھاؤ پڑ گیا ایک گز کپڑا ؟
آجکل تو ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے پاکستان میں زندگی کا مقصد یا تو لان بنانا ہو گیا ہے یا لان پہننا ، باقی لوگ تو ملک میں فالتو ہیں۔ یہ سب کمال ہے اس مارکیٹنگ مہم کا ، جس کا اخلاقیات سے عاری نصب العین ہے ….. “جو دِکھتا ہے ، وہ بکتا ہے ” ۔ سو اس مہم کے شاہکار آپ کو ہر چھوٹی بڑی شاہراہ ، اخبارات اور رسائل ، الیکٹرانک میڈیا ، فیشن میگزین ، دوکانوں، بازاروں ….. غرض یہ کہ ہر گلی ہر نکڑ ہر قدم پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ بالخصوص شارع فیصل تو ہورڈنگز کی بھرمار سے اس وقت “شارع فیشن ” کا منظر پیش کر رہی ہے ۔
لیکن جناب ! یہ بھی حقیقت ہے کہ تالی تو دونوں ہاتھ سے بجتی ہے ۔ تو ذرا ان خواتین کا طرز عمل بھی ملاحظہ ہو… جو تشہیری مہم کا حصہ ہیں۔ جی ہاں ! ہم ماڈل گرلز ہی کی بات کر رہے ہیں ۔ اوہ سوری! برانڈ ایمبیسیڈرز brand ambassadors … ماڈل گرل تو گھٹیا ، فرسودہ اور بازاری قسم کا لفظ ہے ۔ ایک جانب جولاہوں … سوری … ٹیکسٹائل مل والوں کی کوشش ہے کہ لان کی فروخت کے ریکارڈ قائم کر لئے جائیں ، تو دوسری طرف بڑی بڑی ہورڈنگز پر حوا کی یہ بیٹیاں … المعروف بہ برانڈ ایمبیسیڈرز … بے حیائی کے ریکارڈ قائم کرتی نظر آ رہی ہیں۔کپڑا بنانے اور پہننے کا مقصد ہے ستر پوشی … لیکن یہاں ماڈلنگ کے نام پر ستر فروشی کی دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ واہ صاحب واہ ! ساڑھے سات گز کپڑے کا سوٹ زیب تن کرنے کے باوجود ماڈل خاتون برہنہ نظر آ رہی ہے۔
حسن ظن سے کام لیتے ہوئے اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ ان ماڈل خواتین کو کسی مجبوری کے تحت پیسہ کمانے کے لئے گھر سے نکلنا پڑا ہو گا تو پھر پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ انسان پیسہ کماتا کیوں ہے؟ انسان کو پیٹ بھرنے کے لئے روٹی ، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا ، سر چھپانے کے لئے مکان ، سفر کے لئے سواری اور بیماری میں دوا کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے انسان کو پیسے کی ضرورت ہوتی ہے، جسے کمانے کے لئے وہ کوئی نہ کوئی پیشہ یا شعبہ اختیار کرتا ہے ۔ کونسا پیشہ ؟ یہ فرد کی اپنی صوابدید پر ہے ۔
بہت سی با حیا خواتین ، باوجود شدید مجبوری کے بھی ، گھر سے باہر نکلنے کے بجائے گھر ہی میں رہتے ہوئے سلائی کڑھائی کے ذریعے اپنی گزر اوقات کا انتظام کر لیتی ہیں … بہت سی خواتین گھر سے باہر نکلتی بھی ہیں تو وقار کے ساتھ ، حدود کا پاس رکھتے ہوئے … تاہم فی زمانہ ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں ، جو ماڈلنگ کا پیشہ اپنا کر شمع محفل اور زینت بازار بننے کا انتخاب کرتی ہیں ۔ کتنا عجیب ہے ناں ان ماڈل خواتین کا یہ فلسفہ …. ستر پوشی کے لئے ستر فروشی ۔ اللہ بچائے عقل کے خبط ہونے سے ۔
یہ معاملہ صرف لان کے اشتہارات تک ہی محدود نہیں ہے ، بلکہ کریموں اور زنانہ انڈر گارمنٹس جیسی اشیاء کی بھی دیو ہیکل سائن بورڈز پر (نیز اخبارات و رسائل میں بھی )برملا اور بھرپور تشہیر کی جا رہی ہے ۔ ایک ٹیم ورک کے ساتھ پورے شہر کو بے حیائی کے مناظر سے سجا دیا گیا ہے ۔ اس ٹیم کے تمام کھلاڑی بشمول مصنوعات بنانے والے ، مارکیٹنگ کرنے والے ، بے حیائی کے پوز دیتی ماڈل گرلز اور ان کی منظر کشی کرنے والے فوٹو گرافرز ، پینافلیکس پرنٹرز ، ان پینافلیکس کو ہورڈنگز پر نصب کرنے والے مزدور قرآن پاک کی یہ وارننگ یاد رکھیں ۔۔۔
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ
یاد رکھو کہ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان والوں میں بے حیائی پھیلے، ان کےلئے دنیا اورآخرت میں دردناک عذاب ہے ۔ (سورۃ النور ۔ ۱۹)
آخر میں ہم ماڈل خواتین کی توجہ اس امر کی جانب دلاتے چلیں کہ ذرا سوچئے ! مصنوعات کی آڑ میں کہیں آپ کی نسوانیت کو تو نہیں بیچا جا رہا ؟ ساتھ ہی ان ماڈل خواتین کے گھر کے مردوں …. اور ان کو زینت بازار بنانے والے مردوں سے یہ گزارش ہے کہ اللہ کے بندو! اشتہار کو اپنی مصنوعات کی شہرت تک ہی محدود رکھو، کم از کم شہوت کا ذریعہ تو نہ بناؤ ۔تم لوگ جس طرح بے حیائی کے مناظر کو ہورڈنگز پر سجا کر ہماری مذہبی و معاشرتی اقدار کو پامال کرنے ، معاشرے کو ایک خاص سمت میں ہانکنے یعنی ممنوعات کو ممکنات میں تبدیل کرنے کی ابلیسی کوشش میں ایک دوسر ے کی معاونت کر رہے ہو، تو اس قوم کے با حیا افراد اس کھلی فحاشی سے تنگ آکر وہی سوال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں جو حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے بے حیا مردوں سے کیا تھا۔…
کیا تم میں کوئی بھی شائستہ آدمی نہیں ہے؟…
اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُل‘’ رَّشِیْد‘’؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (سورۃ ھود۔ 78)
بشکریہ فاطمہ
غیرت قابل ممدوح صفت ہے۔ دنیا میں ہمیشہ غیرت مند اقوام کو اچھی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ غیرت کا تعلق حیا سے ہے۔ جب تک قومیں حیا کے دامن کو تھامیں رکھتی ہیں ۔ اس وقت تک وہ غیرت مند کہلاتی ہیں ۔ غیرت مند اقوام کو ہی دنیا میں حکمرانیاں ملا کرتی ہیں۔
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سرداراں
لیکن جن قوموں کے افراد حیا کی چادر کو تارتار کردیں ۔ بے حیائی کو دل میں سمالیں ۔ نظریں جھکانے کے بجائے اٹھالیں ۔ شرافت سے جان چھڑا کر بے غیرتی کی زندگی کو ترجیح دینے لگیں ۔ تو ایسی اقوام دنیا سے جلدہی مٹ جایا کرتی ہیں ۔ ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہتا۔ قوم لوط کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ جب وہ اعلانیہ بے حیائی کے کاموں میں مگن ہوگئے ۔ تو اللہ کے غضب نے انہیں برباد کردیا۔ غیرت انسانی کو خاک میں ملانے میں دو چیزیں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ وہ بے حیائی اور فحاشی ہے۔ اسلام نے بے حیائی و فحاشی کو ناپسند قرار دیا ہے۔ قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : " (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) فرما دیجئے یقینا میرے رب نے بے حیائی کو وہ ظاہر ہو یا باطن حرام قرار دیا ہے ۔" (الاعراف:33 )
میں آپ کے سامنے کسی سینما کی مثال پیش نہیں کرتا اور نہ ہی کسی فحاشی کے اڈے کی بات کررہا ہوں ۔ میں تو یہ بتانے لگا ہوں کہ آج کراچی کے بازاروں میں جہاں بھی جائیں ۔ ہر طرف فحاشی ، عریانی و بے حیائی سے بھرپور تصاویر عام ہیں ۔ کسی بھی کمپنی نے اپنی مصنوعات کی تشہیر کرانی ہو تو جب تک کسی خاتون کی عریاں تصویر سائن بورڈ پر شایع نہ کی جائیں تو اس وقت تک اس سائن بورڈ کو نامکمل سمجھا جاتا ہے ۔ آج ایسی عریاں تصاویر آپ کو کراچی کی تمام شاہراہوں اور چوراہوں پر سائن بورڈ کی صورت میں دیکھنے کو ملیں گی۔ یہیں تک بس نہیں بلکہ کچھ کمپنیاں تو حد کر دیتی ہے ۔ ناصرف تصاویر بلکہ حیا سے عاری جملے بھی پڑھنے کو ملیں گے ۔ یہ صرف بڑی مصنوعات کی تشہیر کے لئے نہیں بلکہ چھوٹی سے چھوٹی چیزیں جن میں سرفہرست صابن، شیمپو، کریم، ٹوتھ پیسٹ ، ٹافی ، بسکٹ ، پانی، سری لیک، ہاشمی سرمہ، غرض اس جیسی بہت سے مصنوعات کے اشتہارات آپ کو نظر آئیں گے۔ کسی بھی چیز کی تشہیر کے لیے عورت کی تصویر کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف سائن بورڈ تک محدود نہیںہے بلکہ عام اشتہارات یا اخباری اشتہارات میںبھی یہ چیزیں دیکھنے کوملیں گی۔
غرض آج نظر کی حفاظت کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی تصویر کے بغیر مصنوعات کی تشہیر ممکن نہیں ؟ اس فحاشی و بے حیائی کی تصاویر کے ذریعے نوجوان نسل کے اذہان کو منتشر کیا جا رہا ہے۔ جب نوجوان نسل ہر طرف فحاشی و عریانی کی نمائندہ تصاویر کو دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن خود بخود ہی اس کی طرف مائل ہوکر اگلہ قدم اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ نتیجاََ پھر پارک غیر شادی شدہ جوڑوں سے بھرے نکل آتے ہیں۔ غرض نوجوان نسل کو تباہ کرنے کی بہت بڑی سازش اس میں نمایاں ہے۔ لیکن سماجی و صحافتی حلقے اس کو عیب سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ بلکہ یہ کام تسلسل سے جاری ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے۔ جب قوموں کے نوجوانوں کے اندر سے غیرت اور حیا کا مادہ نکال دیا جائے تو ایسی اقوام کا مقدر ہمیشہ مٹ جانا ہی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جب تیرے اندر حیا نہ رہے تو پھر جو بھی جی میں آئے تو کرتا رہ۔ " جب قومیں حیا سے تہی دامن ہوجاتی ہیں تو وہ تباہی کے دھانے پر پہنچ جاتی ہیں۔
ہاں ہاں ! آج ہم یورپ کی طرف نظر دوڑائیں وہاں بے حیائی اس حد تک عام ہو چکی ہے کہ ہم جنس جوڑوں کے آپس میں تعلقات قائم کرنے کو قانونی حیثیت مل چکی ہے۔ اور اس کے علاوہ روزانہ بے شمار معصوم کلیوں کو مسل دیا جاتا ہے۔ وہاں کی نوجوان نسل کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جنہیں اپنے باپ کا علم نہیں ۔ غرض اس بے حیائی سے تنگ آنے کا ہی نتیجہ ہے کہ یورپ میں کثیر تعداد میں اسلام قبول کرنے والوں میں عورتیں شامل ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ ان ملک میں وحشی درندے ان کی حیا کے پردے تار تار کرتے ہیں۔ پھر جب وہ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتی ہیں تو دین امن کو وہ اپنے دل میں سما لیتی ہیں کیونکہ اس میں حیا کا درس ملتاہے۔
آہ افسوس! وہ پاکستان جو کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا۔ آج یہاں کے کلمہ گو اپنی اصلاح کے بجائے اپنے کلمہ کو بدلنے پر مصر ہیں۔ اسلام تو کہتا ہے کہ جس گھر میں جاندار کی تصاویرہوں وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول نہیں ہوتا۔ تو بھلا جس شہر کو بے حیائی کی تصاویر سے مزین کردیا گیا ہو۔ اس میں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوگا؟ نہیں نہیں .... وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول تو درکنار بلکہ سابقہ نعمتوں کو بھی ایک ایک کرکے چھین لیا جاتا ہے۔ پھر وہاں اللہ کا غضب برستا ہے۔ آج ہماری سوچ ہے کہ وطن عزیز کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس بربادی گلشن کا آغاز ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چند سال پہلے جس کراچی میں امن و امان تھا اب وہاں موت عام ہے۔ خوف عام ہے۔ بے سکونی نے جڑیں مضبوط کرلی ہیں۔ لہٰذا کمپنی مالکان سے گزارش ہے کہ خدارا ہوش کے ناخن لو۔موجودہ حالات میں بے حیائی پر قابو پانا آپ کا فرض بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عقل جیسی عظیم نعمت سے انسان کو نوازا ہے۔ تصاویر کے بجائے کسی اور طریقے سے بھی مصنوعات کی تشہیر ممکن ہے۔ آپ بے حیائی کو فروغ مت دیں۔ اسی طرح میڈیا سے عرض ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں صرف مال کو اپنا مقصد مت بنائیں بلکہ قومی غیرت کا بھی لحاظ رکھیں۔ حیا کے دامن تھامے رکھیں۔ اسی میں خیر ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " حیا سارے کا سارا خیر ہے"۔ (مسلم)
اگر آپ نے اس خیر کو ناپسند کیا اور بے حیائی کی ترویج میں مگن رہے۔ تو پھر قرآن کا فیصلہ بھی سن لیں: " یقینا جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی (فحاشی) عام ہو تو ان کے لئے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دردناک عذاب ہے اور اس بات کو اللہ تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ (النور19)
بے حیا سائن بورڈ بشکریہ حبیب اللہ
http://www.karachiupdates.com/v3/column-features/63-2009-07-31-13-36-49/19385-habibullah.html