السلام علیکم
پاکستان کے حوالہ سے آپ سب بھائی جس بھی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کریں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر آپ کو اس پر علم ہونا ضروری ھے کہ آپکا بائیکاٹ کی اہمیت کیا ھے پھر آپکو کاروبار کے حوالہ سے کچھ بیسک انفارمیشن کا علم بھی ہونا چاہئے جیسے کوئی بھی پروڈکٹ کی سپلائی کہاں سے ہو رہی ھے۔
مثلاً صوفی صوف صابن کو لے لیں کپڑے دھونے کے کام آتا ھے اور ہر کم معاش والا اسے آسانی سے استعمال کر سکتا ھے اور جو بہت ہی کم حیثیت کے ہوں وہ اسے غسل کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس کی سپلائی پر مثال سے اس کا مینوفیکچر لاہور میں ھے اور وہاں اس فیکٹری میں ہر روز جتنا صابن تیار ہوتا ھے اس کی سپلائی شائد ہی لاہور میں پوری ہوتی ہو تو یہ دوسرے شہروں میں اس ڈیمانڈ کو کیسے پورا کر سکتا ھے اس پر پھر اس کے علاوہ دوسرے مینوفیکچر بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں جیسے ایک رجسٹرڈ ھے اور باقی بغیر رجسٹریشن کے اسی ٹریڈ مارک پر 2 نمبر آئیٹم بنا کر مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔
ایسے ایک مثال باٹا سے لیتے ہیں۔ یہ پورے پاکستان میں جوتے سپلائی کرتے ہیں اور جہاں بھی ان کی دکان ہو وہاں ان کی کے ملازم ہوتے ہیں جنہیں تنخواہ دی جاتی ھے، اب جوتوں کی بنوائی پر باہر پرائیویٹ کمپنیوں کو کنٹریکٹ دئے ہوئے ہیں جو کوالٹی کنٹرول کے مطابق مال تیار کرتے ہیں۔
لکس صابن کو لے لیں، یہ صوفی سوپ کی طرح نہیں ھے کہ آپ اس کی رپورٹ کرنے کے لئے کسی دکاندار یا ہول سیلر کے پاس جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے، لکس ایک انٹرنیشنل کمپنی ھے اور پاکستان میں اس کی ایجنسی "لیور برادر" کے نام سے ھے، اور گلف ممالک میں "ڈائیورسی لیور" کے نام سے۔
اگر آپ اپنی شکایت لیور برادر میں بھی بھیجیں گے تو اس پر کچھ نہیں ہو گا۔
پاکستان میں ایک عام رجسٹرڈ مینوفیکچر بھی ٹیکس دیتا ھے اس کے باوجود بھی اس شہر کا قانون بنانے والا بھی اس سے بیک ڈور جگا ٹیکس وصول کرتا ھے اور اس نے اسے ہر قسم کی پروٹیکشن پروائیڈ کرنا ہوتی ھے بیک ڈور۔ آپ اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تو جو انٹرنیشنل پروڈکٹس ہیں اس پر کیا کر پائیں گے۔
عام صابن بغیر لیبل کے ہوتے ہیں اور جن پر لیبل ہوتے ہیں ان کا استعمال لیبٹل اتار کے ہی کیا جاتا ھے، اگر لکس صابن پر بنی تصویر ناگوار ھے تو بازار میں ہی خرید کا اس کا لیبل اتار لیا کریں۔ سگریٹ کو لے لیں ہر ڈبیہ کے اوپر واننگ نوٹس لکھا ہوتا ھے، مگر استعمال کرنے والا اسے نہیں چھوڑتا۔
میری کہی ہوئی باتوں پر اختلاف کا حق سب کو حاصل ھے جسے آپ ایک اچھے طریقہ سے پیش کر سکتے ہیں۔
والسلام
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ!
ماشا اللہ تمام گفتگو ہی اتنی علمی ہے کہ اقتباس کی جگہ مکمل گفتگو ہی دوبارہ مندرجہ بالا پیسٹ کرنی پڑی کہ سند رہے اور بوقت مطالعہ کام آ سکے۔
اگر اس موضوع کے آغاز میں پوسٹ نمبر 2 کا جائزہ لیا جائے تو اس میں موجود محترمی برادر شاکر کے مندرجہ ذیل الفاظ۔۔۔۔
کوئی بھائی اگر لان، لیکس کے علاوہ دیگر سپلائرز جو بے حیائی پر مبنی اشتہار بازی کر رہے ہیں، کی لسٹ جمع کرنا شروع کر دے۔ تو کم سے کم ہم فورم کی حد تک تو ایک چھوٹی سی مہم شروع کر سکتے ہیں۔ کیا معلوم کون سا عمل اللہ تعالیٰ قبول فرما لیں۔
وضاحت کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ مہم فورم کی حد تک چلائی جائے گی جس کا دائرہ کار ابھی فی الحال فورم کے ممبران کی حد تک محدود ہوگا اور انہیں ان کمپنیز کے ناموں سے آگاہی حاصل ہو گی جو فحاشی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔
اس ہی پوسٹ پر شاکر بھائی نے بائیکاٹ کا طریقہ کار بیان کیا جس کی تائید بندہ ناچیز نے بھی کی کہ یہ عملی طور پر قابل عمل ہے اور اس کا تجربہ بھی حقیقی زندگی میں کیا جا چکا ہے۔
کاروبار کے بارے میں بنیادی معلومات بے شک کاروباری حلقے سے وابستہ تجربے کار ممبران مجھ سے ہزار گُنا بہتر جانتے ہیں لیکن صحافی ہونے کے ناطے کچھ نہ کچھ قانون سے واسطہ میرا بھی ہے اس لیے کاروباری بنیادوں پر مندرجہ بالا علمی معلومات سے اختلاف تو میرے لیے اپنی کم علمی کی بنا پر ممکن نہیں تاہم اگر آپ اتنی اہم پوسٹ پر کام کر چکے ہیں تو شاید قانونی طور پر مجھ سے بہتر آگاہی ہی ہوگی آپ کو۔
پاکستان میں کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی جب اپنی چیزوں کی باقاعدہ فروخت کا لائسنس حاصل کرتی ہے تو اسے حکومت کی جانب سے نافذ قوانین بھی بتائے جاتے ہیں۔
پیمرا کی جانب سے جاری شدہ قوانین کی فہرست کا پہلا قانون اپنے سیکشن (بی) میں یہ بات بہت واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ
کوئی بھی ایسا
پروگرام آن ایئر نہیں کیا جائے گا جس میں
کچھ فحش ہو یا اس سے عوامی اخلاقیات کے خراب ہونے یا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔
سیکشن (ایچ) میں بھی عوامی اخلاقیات کو نقصان پہنچانے کا ذکر موجود ہے۔
اب آتے ہیں کنزیومر رائٹس کی جانب۔
پاکستان کنزیومرز رائٹس کے قانون کے مطابق کسی بھی کمپنی کو اپنی پراڈکٹ یا اشتہارات سے کنزیومرز کے جذبات سے کھیلنے یا انہیں مذہبی ،اخلاقی یا سماجی طور پر جذباتی نقصان پہنچانے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔
اس بات پر کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان میں رشوت دے کر بہت سے قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے لیکن ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے ادارے موجود ہیں اور وہ اس بات کے پابند ہیں کہ ان تک اگر موثر انداز میں اپنی شکایت پہنچائی جائے تو وہ اس پر فوری کارروائی کریں۔
اب سوال کہ اس کا طریقہ کار کیا ہو؟
دنیا بھر میں مہذب احتجاج کو موثر طریقہ مانا جاتا ہے۔
کسی بھی چیز کے خلاف احتجاج کا موثر طریقہ اس چیز کے بائیکاٹ سے ہی شروع کیا جا سکتا ہے۔
اگر احتجاج کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کو اپنی شکایات پہنچائی جائیں اور انہیں مجبور کیا جائے کہ ان شکایات پر کارروائی کے حالات سے ہمیں باخبر رکھا جائے تو وہ اس بارے میں قانون کے تحت عملدرآمد کے پابند ہیں۔
اگر ہم خود امر بالمعروف نہی عن المنکر پر عمل نہیں کریں گے تو باہر سے آ کر کوئی ہماری خاطر ایسا کرنے سے رہا۔
آخر میں التجا کہ میں نے پوسٹ کی طوالت والے آپ کے فارمولے کو نظر انداز کیا جس پر پیشگی معذرت قبول فرمائیں۔
باقی پوسٹ فارمیٹنگ ایسی ہی رکھنے کی کوشش کی ہے کہ پڑھنے میں دشواری نہ ہو۔
میں نے حتی الامکان اچھے طریقے سے اپنا ذاتی موقف بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اگر کہیں کمی بیشی ہو گئی ہو تو پڑھنے والے ساتھیوں اور خاص طور پر آپ سے درگذر کی درخواست ہے۔