• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

گرمی کا موسم اور بازاروں میں نمائش حسن

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
کیا نیٹ ورک مارکیٹنگ اس مسئلہ کا حل ہے؟
سرفراز بھائی،
یہ تو فقط رائے کی تشہیر کی بات ہے۔ مسئلہ کا حل بے شک نہ ہو۔ انفرادی سطح پر ایسی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرنے میں کام آ سکتی ہے اور آج کم و بیش ہر بڑا سپلائر خود ایسی سوشل سائٹس پر اپنا گروپ یا پیج بنا کر بیٹھا ہے۔ انہیں ایسے عوامی رجحان کا بھی علم ہوتا رہتا ہے۔
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
جزاک اللہ خیرا بھائی جان۔
میں ان سے آج صبح سے رابطہ کرنے کی کوشش میں ہوں۔ لیکن ان کی ویب سائٹ پر دیا گیا ٹیلی فون نمبر کام نہیں کر رہا۔
ای میل پر اطلاع بھیجی ہے۔ معلوم نہیں جواب آتا ہے کہ نہیں۔
شاکر بھائی میری معلومات کے مطابق ان کا سیٹ اپ ورکنگ ہے تاہم نمبرز کا مجھے بھی علم نہیں ای میل پر امید کامل ہے کہ رابطہ ہو جائے یا آن لائن فارم بھرنے پر بھی رابطہ ہو جائے۔
الیکٹرانک میڈیا مطلب ٹی وی ایف ایم ریڈیو یا کیبل وغیرہ پر چلنے والے فحش اشتہارات کے حوالے سے اس لنک پر شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔ باقی تلاش جاری ہے اور فحاشی کے خلاف پہلے سے سر گرم عمل کراچی کے کچھ احباب سے رابطہ کیا ہے کہ اس ضمن میں راہنمائی فراہم کریں چونکہ وہ پہلے سے اس میدان میں سر گرم عمل ہے اس لیے امید ہے کچھ نہ کچھ بہتر انداز میں سمجھانے کی پوزیشن میں ہوں گے۔
 
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97
یہ ماڈل خواتین کی بھی بات نہیں۔
اگر یہ لاکھوں خواتین ان ماڈلز کے پیچھے نہ بھاگیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
کنزیومر رائٹس کا پاکستان میں کوئی تصور ہی نہیں۔ حالانکہ ہم بحیثیت کنزیومر، کسی بھی سپلائر کو چاہے وہ لان بناتا ہو، میک اپ یا مرد و خواتین کے استعمال کی دیگر مصنوعات، بڑی آسانی سے سیدھا کر سکتے ہیں۔ اور یہ عملی حل ہے نا کہ فقط خیالی بات۔

مثلاً لیکس صابن بنانے والوں کے اشتہارات میں بھی اسی طرح بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ تو میں نے اپنی امی اور بیوی کو سختی سے کہہ دیا تھا کہ ایک تو یہ صابن نہ خریدیں۔ اور دوسرا جب بھی صابن کی خریداری کرنے جائیں تو دکاندار کو یہ ضرور کہیں کہ ہم لیکس صابن اس لئے نہیں لے رہے کہ انہوں نے اشتہارات کے ذریعے بے حیائی پھیلا رکھی ہے۔ اور آج کے بعد ہم یہ دوسرا صابن استعمال کریں گے۔ اور دکاندار کو کہیں کہ وہ یہ بات لیکس بیچنے والوں تک پہنچائے کہ خریدار یہ شکایت کر رہے رہیں۔

اگر لیکس والوں یا لان والوں تک ایسی کچھ خبریں روزانہ پہنچتی رہیں تو یہ سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ وہ خود اس بے حیائی کی تشہیر سے باز آ جائیں گے۔ یا اس کی شدت میں ہی کچھ کمی آئے گی۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسی بے حیائی کو ناپسند کرنے والی کثیر تعداد خریداروں کی موجود ہے۔

کوئی بھائی اگر لان، لیکس کے علاوہ دیگر سپلائرز جو بے حیائی پر مبنی اشتہار بازی کر رہے ہیں، کی لسٹ جمع کرنا شروع کر دے۔ تو کم سے کم ہم فورم کی حد تک تو ایک چھوٹی سی مہم شروع کر سکتے ہیں۔ کیا معلوم کون سا عمل اللہ تعالیٰ قبول فرما لیں۔
جزاک اللہ خیر بہت عمدہ بات کی ۔۔۔
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
شاکر بھائی السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ!
برادرمحترم آپ کی جانب سے دی جانے والی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے گذشتہ روز اسلام آباد سے پنجاب آ گیا ہوں اب پنجاب کے کچھ شہروں کا دورہ کروں گا اور اس بات کی تحقیق کروں گا کہ کون کون سی کمپنی خواتین کے بل بورڈز لگائے بیٹھی ہے۔
کچھ دوستوں کی جانب سے بھی ایک بے ترتیب سی فہرست موصول تو ہوئی ہے لیکن اس کی بذات خود تصدیق کرنے تک پیش کرنے سے قاصر ہوں کہ بلاوجہ کسی کے خلاف کارروائی کا آغاز بعد میں شرمندگی کا باعث نہ بن جائے۔ انشا اللہ پنجاب کے چند شہروں کی حد تک خود تصدیق کر کے آپکو جلد ہی مطلع کر دوں گا۔ باقی دیگر کچھ شہروں میں قابل اعتماد ساتھیوں کی ذمہ داری لگائی ہے اور شہرکراچی کی کچھ بہنوں کو بھی اس فہرست کے سلسلے فعال کیا ہوا ہے ان کی جانب سے بھی مثبت مصدقہ تفصیل ملنے کی قوی امید موجود ہے۔ بس اس ضمن میں آپ کی اور دیگر ساتھیوں کی خصوصی دعاء کی ضرورت ہے۔ جزاک اللہ خیرا
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 

حیدرآبادی

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2012
پیغامات
287
ری ایکشن اسکور
500
پوائنٹ
120
ہمارے خیال میں کچھ حصہ حکومتی انتظامیہ کا بھی ہوتا ہے۔ سعودی عرب میں بھی لکس صابن دستیاب ہے بلکہ اس کے ہر قسم کے برانڈز بھی اور خوب فروخت بھی ہوتا ہے۔ لیکن قانون یہاں یہ ہے کہ کوئی بےحیائی کا اشتہار نہیں لگے گا نہ اخبارات میں اور نہ ٹی۔وی پر ورنہ پراڈکٹ مارکٹ سے ختم! جب مملکت کا قانون ہی ایسا ہو تو کون اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا چاہے گا؟
قانون یا حکومتوں کی کمزوری یہی ہے کہ آج ہند و پاک میں اخباری اور الکٹرانک میڈیا کو جو شتر بےمہار آزادی دی گئی ہے اسی کی وجہ سے یہ سب ہڑبونگ مچا ہے۔
عوامی سطح پر پراڈکٹ کا بائیکاٹ اچھی بات سہی مگر دوسرا عمل بھی یہ ہونا چاہیے کہ اپنے اپنے علاقے کے سیاسی نمائیندے کو منتخب کرتے وقت اس سے اس ایشو پر وعدے بھی لیے جائیں۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

پاکستان کے حوالہ سے آپ سب بھائی جس بھی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کریں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر آپ کو اس پر علم ہونا ضروری ھے کہ آپکا بائیکاٹ کی اہمیت کیا ھے پھر آپکو کاروبار کے حوالہ سے کچھ بیسک انفارمیشن کا علم بھی ہونا چاہئے جیسے کوئی بھی پروڈکٹ کی سپلائی کہاں سے ہو رہی ھے۔

مثلاً صوفی صوف صابن کو لے لیں کپڑے دھونے کے کام آتا ھے اور ہر کم معاش والا اسے آسانی سے استعمال کر سکتا ھے اور جو بہت ہی کم حیثیت کے ہوں وہ اسے غسل کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس کی سپلائی پر مثال سے اس کا مینوفیکچر لاہور میں ھے اور وہاں اس فیکٹری میں ہر روز جتنا صابن تیار ہوتا ھے اس کی سپلائی شائد ہی لاہور میں پوری ہوتی ہو تو یہ دوسرے شہروں میں اس ڈیمانڈ کو کیسے پورا کر سکتا ھے اس پر پھر اس کے علاوہ دوسرے مینوفیکچر بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں جیسے ایک رجسٹرڈ ھے اور باقی بغیر رجسٹریشن کے اسی ٹریڈ مارک پر 2 نمبر آئیٹم بنا کر مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔

ایسے ایک مثال باٹا سے لیتے ہیں۔ یہ پورے پاکستان میں جوتے سپلائی کرتے ہیں اور جہاں بھی ان کی دکان ہو وہاں ان کی کے ملازم ہوتے ہیں جنہیں تنخواہ دی جاتی ھے، اب جوتوں کی بنوائی پر باہر پرائیویٹ کمپنیوں کو کنٹریکٹ دئے ہوئے ہیں جو کوالٹی کنٹرول کے مطابق مال تیار کرتے ہیں۔

لکس صابن کو لے لیں، یہ صوفی سوپ کی طرح نہیں ھے کہ آپ اس کی رپورٹ کرنے کے لئے کسی دکاندار یا ہول سیلر کے پاس جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے، لکس ایک انٹرنیشنل کمپنی ھے اور پاکستان میں اس کی ایجنسی "لیور برادر" کے نام سے ھے، اور گلف ممالک میں "ڈائیورسی لیور" کے نام سے۔

اگر آپ اپنی شکایت لیور برادر میں بھی بھیجیں گے تو اس پر کچھ نہیں ہو گا۔
پاکستان میں ایک عام رجسٹرڈ مینوفیکچر بھی ٹیکس دیتا ھے اس کے باوجود بھی اس شہر کا قانون بنانے والا بھی اس سے بیک ڈور جگا ٹیکس وصول کرتا ھے اور اس نے اسے ہر قسم کی پروٹیکشن پروائیڈ کرنا ہوتی ھے بیک ڈور۔ آپ اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تو جو انٹرنیشنل پروڈکٹس ہیں اس پر کیا کر پائیں گے۔

عام صابن بغیر لیبل کے ہوتے ہیں اور جن پر لیبل ہوتے ہیں ان کا استعمال لیبٹل اتار کے ہی کیا جاتا ھے، اگر لکس صابن پر بنی تصویر ناگوار ھے تو بازار میں ہی خرید کا اس کا لیبل اتار لیا کریں۔ سگریٹ کو لے لیں ہر ڈبیہ کے اوپر واننگ نوٹس لکھا ہوتا ھے، مگر استعمال کرنے والا اسے نہیں چھوڑتا۔

میری کہی ہوئی باتوں پر اختلاف کا حق سب کو حاصل ھے جسے آپ ایک اچھے طریقہ سے پیش کر سکتے ہیں۔

والسلام
 
شمولیت
مارچ 03، 2013
پیغامات
255
ری ایکشن اسکور
470
پوائنٹ
77
السلام علیکم

پاکستان کے حوالہ سے آپ سب بھائی جس بھی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کریں مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر آپ کو اس پر علم ہونا ضروری ھے کہ آپکا بائیکاٹ کی اہمیت کیا ھے پھر آپکو کاروبار کے حوالہ سے کچھ بیسک انفارمیشن کا علم بھی ہونا چاہئے جیسے کوئی بھی پروڈکٹ کی سپلائی کہاں سے ہو رہی ھے۔

مثلاً صوفی صوف صابن کو لے لیں کپڑے دھونے کے کام آتا ھے اور ہر کم معاش والا اسے آسانی سے استعمال کر سکتا ھے اور جو بہت ہی کم حیثیت کے ہوں وہ اسے غسل کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں۔
اس کی سپلائی پر مثال سے اس کا مینوفیکچر لاہور میں ھے اور وہاں اس فیکٹری میں ہر روز جتنا صابن تیار ہوتا ھے اس کی سپلائی شائد ہی لاہور میں پوری ہوتی ہو تو یہ دوسرے شہروں میں اس ڈیمانڈ کو کیسے پورا کر سکتا ھے اس پر پھر اس کے علاوہ دوسرے مینوفیکچر بھی فائدہ حاصل کرتے ہیں جیسے ایک رجسٹرڈ ھے اور باقی بغیر رجسٹریشن کے اسی ٹریڈ مارک پر 2 نمبر آئیٹم بنا کر مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔

ایسے ایک مثال باٹا سے لیتے ہیں۔ یہ پورے پاکستان میں جوتے سپلائی کرتے ہیں اور جہاں بھی ان کی دکان ہو وہاں ان کی کے ملازم ہوتے ہیں جنہیں تنخواہ دی جاتی ھے، اب جوتوں کی بنوائی پر باہر پرائیویٹ کمپنیوں کو کنٹریکٹ دئے ہوئے ہیں جو کوالٹی کنٹرول کے مطابق مال تیار کرتے ہیں۔

لکس صابن کو لے لیں، یہ صوفی سوپ کی طرح نہیں ھے کہ آپ اس کی رپورٹ کرنے کے لئے کسی دکاندار یا ہول سیلر کے پاس جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں گے، لکس ایک انٹرنیشنل کمپنی ھے اور پاکستان میں اس کی ایجنسی "لیور برادر" کے نام سے ھے، اور گلف ممالک میں "ڈائیورسی لیور" کے نام سے۔

اگر آپ اپنی شکایت لیور برادر میں بھی بھیجیں گے تو اس پر کچھ نہیں ہو گا۔
پاکستان میں ایک عام رجسٹرڈ مینوفیکچر بھی ٹیکس دیتا ھے اس کے باوجود بھی اس شہر کا قانون بنانے والا بھی اس سے بیک ڈور جگا ٹیکس وصول کرتا ھے اور اس نے اسے ہر قسم کی پروٹیکشن پروائیڈ کرنا ہوتی ھے بیک ڈور۔ آپ اس کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے تو جو انٹرنیشنل پروڈکٹس ہیں اس پر کیا کر پائیں گے۔

عام صابن بغیر لیبل کے ہوتے ہیں اور جن پر لیبل ہوتے ہیں ان کا استعمال لیبٹل اتار کے ہی کیا جاتا ھے، اگر لکس صابن پر بنی تصویر ناگوار ھے تو بازار میں ہی خرید کا اس کا لیبل اتار لیا کریں۔ سگریٹ کو لے لیں ہر ڈبیہ کے اوپر واننگ نوٹس لکھا ہوتا ھے، مگر استعمال کرنے والا اسے نہیں چھوڑتا۔

میری کہی ہوئی باتوں پر اختلاف کا حق سب کو حاصل ھے جسے آپ ایک اچھے طریقہ سے پیش کر سکتے ہیں۔

والسلام
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ!
ماشا اللہ تمام گفتگو ہی اتنی علمی ہے کہ اقتباس کی جگہ مکمل گفتگو ہی دوبارہ مندرجہ بالا پیسٹ کرنی پڑی کہ سند رہے اور بوقت مطالعہ کام آ سکے۔
اگر اس موضوع کے آغاز میں پوسٹ نمبر 2 کا جائزہ لیا جائے تو اس میں موجود محترمی برادر شاکر کے مندرجہ ذیل الفاظ۔۔۔۔


کوئی بھائی اگر لان، لیکس کے علاوہ دیگر سپلائرز جو بے حیائی پر مبنی اشتہار بازی کر رہے ہیں، کی لسٹ جمع کرنا شروع کر دے۔ تو کم سے کم ہم فورم کی حد تک تو ایک چھوٹی سی مہم شروع کر سکتے ہیں۔ کیا معلوم کون سا عمل اللہ تعالیٰ قبول فرما لیں۔



وضاحت کے ساتھ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ مہم فورم کی حد تک چلائی جائے گی جس کا دائرہ کار ابھی فی الحال فورم کے ممبران کی حد تک محدود ہوگا اور انہیں ان کمپنیز کے ناموں سے آگاہی حاصل ہو گی جو فحاشی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔

اس ہی پوسٹ پر شاکر بھائی نے بائیکاٹ کا طریقہ کار بیان کیا جس کی تائید بندہ ناچیز نے بھی کی کہ یہ عملی طور پر قابل عمل ہے اور اس کا تجربہ بھی حقیقی زندگی میں کیا جا چکا ہے۔

کاروبار کے بارے میں بنیادی معلومات بے شک کاروباری حلقے سے وابستہ تجربے کار ممبران مجھ سے ہزار گُنا بہتر جانتے ہیں لیکن صحافی ہونے کے ناطے کچھ نہ کچھ قانون سے واسطہ میرا بھی ہے اس لیے کاروباری بنیادوں پر مندرجہ بالا علمی معلومات سے اختلاف تو میرے لیے اپنی کم علمی کی بنا پر ممکن نہیں تاہم اگر آپ اتنی اہم پوسٹ پر کام کر چکے ہیں تو شاید قانونی طور پر مجھ سے بہتر آگاہی ہی ہوگی آپ کو۔

پاکستان میں کوئی بھی بین الاقوامی کمپنی جب اپنی چیزوں کی باقاعدہ فروخت کا لائسنس حاصل کرتی ہے تو اسے حکومت کی جانب سے نافذ قوانین بھی بتائے جاتے ہیں۔

پیمرا کی جانب سے جاری شدہ قوانین کی فہرست کا پہلا قانون اپنے سیکشن (بی) میں یہ بات بہت واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ
کوئی بھی ایسا پروگرام آن ایئر نہیں کیا جائے گا جس میں
کچھ فحش ہو یا اس سے عوامی اخلاقیات کے خراب ہونے یا نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔
سیکشن (ایچ) میں بھی عوامی اخلاقیات کو نقصان پہنچانے کا ذکر موجود ہے۔

اب آتے ہیں کنزیومر رائٹس کی جانب۔
پاکستان کنزیومرز رائٹس کے قانون کے مطابق کسی بھی کمپنی کو اپنی پراڈکٹ یا اشتہارات سے کنزیومرز کے جذبات سے کھیلنے یا انہیں مذہبی ،اخلاقی یا سماجی طور پر جذباتی نقصان پہنچانے کی آزادی حاصل نہیں ہے۔

اس بات پر کوئی شک و شبہ نہیں کہ پاکستان میں رشوت دے کر بہت سے قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے لیکن ان قوانین پر عملدرآمد کے لیے ادارے موجود ہیں اور وہ اس بات کے پابند ہیں کہ ان تک اگر موثر انداز میں اپنی شکایت پہنچائی جائے تو وہ اس پر فوری کارروائی کریں۔

اب سوال کہ اس کا طریقہ کار کیا ہو؟

دنیا بھر میں مہذب احتجاج کو موثر طریقہ مانا جاتا ہے۔

کسی بھی چیز کے خلاف احتجاج کا موثر طریقہ اس چیز کے بائیکاٹ سے ہی شروع کیا جا سکتا ہے۔

اگر احتجاج کے ساتھ ساتھ متعلقہ اداروں کو اپنی شکایات پہنچائی جائیں اور انہیں مجبور کیا جائے کہ ان شکایات پر کارروائی کے حالات سے ہمیں باخبر رکھا جائے تو وہ اس بارے میں قانون کے تحت عملدرآمد کے پابند ہیں۔

اگر ہم خود امر بالمعروف نہی عن المنکر پر عمل نہیں کریں گے تو باہر سے آ کر کوئی ہماری خاطر ایسا کرنے سے رہا۔

آخر میں التجا کہ میں نے پوسٹ کی طوالت والے آپ کے فارمولے کو نظر انداز کیا جس پر پیشگی معذرت قبول فرمائیں۔

باقی پوسٹ فارمیٹنگ ایسی ہی رکھنے کی کوشش کی ہے کہ پڑھنے میں دشواری نہ ہو۔

میں نے حتی الامکان اچھے طریقے سے اپنا ذاتی موقف بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اگر کہیں کمی بیشی ہو گئی ہو تو پڑھنے والے ساتھیوں اور خاص طور پر آپ سے درگذر کی درخواست ہے۔
 
Top