مزید میں نے متفقہ اماموں سے النکری کی توثیق دی تھی جس پر جناب پھر ادھر ادھر بھاگنے لگے تھے تو الزامی جواب میں نے اثری ، سنابلی اور البانی سے توثیق پیش کی تھی
محترم،
میں پہلے بھی لکھ چکا کہ البانی صاحب نے اس کی روایت کو متابعت میں قبول کرنے کا کہا ہے اور اس کی انفرادی روایت کو قبول نہیں کیا آپ نے سلسلہ احادیث الصحیحہ سے شیخ البانی کی توثیق کا حوالہ دیا ہے اور میں نے ارواء الغلیل کے حوالے سے بتایا تھا کہ شیخ البانی نے عمرو کی متفرد روایت کو قبول نہیں کیا ہے اورشیخ البانی نے ارواء الغلیل سلسلہ احادیث الصحیحہ کے بعد لکھی ہے اور انہوں نے ارواء الغلیل میں متعدد جگہ سلسلہ احادیث الصحیحہ کی طرف رجوع کا حوالہ دیا ہے اپ بھی با غور پڑھ لیں
وأخرجه غيره أيضا وقد تكلمت على إسناده وفصلت القول على طرق الذى قبله فى " الأحاديث الصحيحة " (رقم 38
اس میں شیخ البانی نے واضح طور پر سلسلہ احادیث الصحیحہ کا حوالہ دیا ہے کہ میں نے اس روایت پر مفصل بحث سلسلہ احادیث الصحیحہ میں کی ہے تو اس سے واضح ہے کہ شیخ البانی نے ارواء الغلیل سلسلہ احادیث الصحیحہ کے بعد رقم کی ہے تو اگر سلسلہ احادیث الصحیحہ میں اس کو ثقہ کہا بھی ہے تو اس کے بعد ارواء الغلیل میں اپنے پرانے موقف سے رجوع کرکے عمرو بن مالک النکری کی منفرد روایت پر جرح کی ہے اور یہ کہا ہے کہ اس کی منفرد روایت ضعیف اور ناقبل حجت ہے اب با غور پڑھ لیں
قلت: وهذا سند ضعيف , عمرو بن مالك هذا هو أبو مالك النكرى أورده ابن أبى حاتم (3/1/259) ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا , وأما ابن حبان , فذكره فى " الثقات " (2/212) ولكنه قال: " يعتبر بحديثه ".
قلت: والاعتبار والاستشهاد بمعنى واحد تقريبا , ففيه إشارة إلى أنه لا يحتج به إذا تفرد , وذلك لسوء حفظه
اور شیخ شعیب نے بھی اس کی منفرد روایت کو ضعیف ہی قرار دیا ہے چنانچہ مسند احمد کی تخریج میں لکھتے ہیں،
إسناده ضعيف ومتنه منكر، عمرو بن مالك النُّكري لا يؤثر توثيقه عن غير ابن حبان فقد ذكره فىِ "الثقات" وقال: يخطىء ويغرب، وقال الحافظ في "التقريب": صدوق له أوهام، وأخطأ الذهبي في "الميزان" و"الضعفاء" فوثق عمرو بن مالك النكري مع إنه ذكره في "الكاشف" ولم يوثقه، وإنما اقتصر على قوله: وُثِّق، وهو يُطلِق هذه اللفظة على من انفرد ابن حبان بتوثيقه"مسند احمد تحت رقم 2783"
اس میں شیخ شعیب نے امام ذہبی کی توثیق کا بھی رد کیا ہے کہ انہوں نے میزان میں اس کی توثیق کی ہے اور ضعفاء میں بھی نقل کیا ہے اور الکاشف میں وثق کہا ہے جو یہ اشارہ کرتا ہے کہ اس کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے چنانچہ اس کی توثیق صرف ابن حبان سے ہی منقول ہے اور امام ابن حبان بھی اس کی مطلق توثیق کے قائل نہیں ہے بلکہ انہوں نے اپنی ثقات میں یہ لکھا ہے کہ " يعتبر حديثه من غير رواية ابنه عنه ، يخطىء و يغرب" یعنی اس کے بیٹے سے اس کی روایت منکر ہوتی ہے مگر عمومی طور پر بھی اس کی روایت "یعتبر" یعنی متابعت اور شواہد میں قبول ہوں گی اور یہی شیخ البانی نے بھی ارواء الغلیل میں نقل کیا ہے چنانچہ عمرو بن مالک کی مطلق توثیق نہ ابن حبان نے کی ہے اور نہ امام ذہبی نے کی ہے امام ذہبی نے اس کو میزان میں ثقہ کہا ہے مگر الکاشف میں وثق کہا ہے جس کا ذکر شیخ شعیب نے بھی کیا ہے اور امام ذہبی نے تلخیص موضوعات ابن جوزی میں اس کی تلعین کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں
وَرَوَاهُ عَمْرو بن مَالك، عَن أبي الجوزاء، عَن ابْن عَبَّاس من قَوْله. وَعَمْرو لين (تلخیص الموضوعات ابن جوزی)
تو اگر امام ذہبی نے اس کی مطلق توثیق کی ہوتی تو اس میں کمزوری نہ بتاتے اور دوئم یہ کہ امام ذہبی نے الکاشف میں بھی اس کی تضیعف کی ہے تو امام ذہبی کے قول اس خود متضاد ہیں
اس کے علاوہ کسی نے بھی اس کی توثیق نہیں کی ہے بلکہ امام بخاری اور امام احمد بن حنبل نے اس کو ضعیف کہا ہے قول پیش ہیں
وقول البخاري في إسناده نظر ويختلفون فيه إنما قاله عقب حديث رواه له في التاريخ من رواية عمرو بن مالك البكري, والبكري "ضعيف عنده"تھذیب التھذیب 1/384
اور امام احمد بن حنبل نے بھی ضعیف کہا ہے
لم تثبت عندي صلاة التسبيح، وقد اختلفوا في إسناده، لم يثبت عندي، وكأنه ضعف عمراً بن مالك النكري "مسائل امام احمد روایۃ ابنہ ص 89
اور آخری بات میں نے ابو جوزاء اور اماں عائشہ کے درمیان جو انقطاع ہے اس پر یہ عرض کیا تھا کہ محدثین نے ان کے انقطاع پر جرح مفسر کی ہے جو تعدیل پر مقدم ہوتی ہے اس لئے بھی یہ روایت ضعیف ہے اور آپ مجھے یہ فرما رہے ہیں کہ عمرو بن مالک النکری کی توثیق مطلق ہے جناب میں انقطاع پر جرح مفسر کی بات کر رہا ہوں تو اس انقطاع پر میرے جرح مفسر کے قول کا رد پیش فرمائیں امید ہے آپ سمجھ گئے ہوں گے تو انطقاع اور عمرو بن مالک النکری کی منفرد روایت ہونے کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے