بھائی آپ مان لیں کہ آپکو غلطی لگی ہے ابن حبان کے تسامع سے آپ نے انکے منھج کو الٹنے کی کوشش کی ہے ۔۔۔
اورا مالک النکری پر تو جناب نے بات ہی ن ہیں کی سارا زور اس پر لگایا دیا ابو الجوزا کے انقطاع والے مسلے پر ۔۔۔۔۔ جس میں آپکو ناکامی ہوئی مجھے اب امید ہے کہ آپ ابوالجوزا والا مسلہ نہیں چھیڑینگے کیونکہ آپ نے میرے دیے کئے تمام دلائل کا کوئی جواب نہیں دیا س
محترم،
اس لئے میں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ موصوف کی آنکھیں کمزور ہیں پچھلے کئی کمنٹس سے میں نے اپ سے عمرو بن النکری کی توثیق مانگی تھی مگر نظر کی کمزوری دور ہو تو کچھ نظر آئے۔
میں نے اپ سے اسحاق بن یحیحی کے ابن حبان کے ضیعف کہہ کر اس سے صحیح ابن حبان میں روایت کرنی کی وجہ پوچھی تھی اور اپ تسامع کا رونا لے کر آ گئے اس کو کہتے ہیں
سوال گندم جواب چنا
تو سیدھا سیدھا یہ بتائیں کہ اسحاق بن یحیحی سے روایت کرکے اس کو ضیعف کیوں فرما رہے ہیں تو ابن حبان کی اپنی صحیح میں ثقات کا اہتمام کہاں گیا،
دوسری بات میں نے اپ سے جواب مانگا تھا کہ جب جرح اور التعدیل دونوں اقوال موجود ہوں تو جرح مفسر مقدم ہو گی موصوف نے اس کا جواب بھی نہیں دیا کیوںکہ آں جناب جانتے ہیں کہ یہ اصول اپ کی اس روایت کی ہوا اکھاڑ دے گا اس لئے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی
اب ذرا اپ کے عمرو بن مالک النکری کی بات کر لیں سوال یہ نہیں کہ وہ ثقہ یا صدوق ہے سوال یہ ہے کہ اس کی بعض روایات منکر اور غریب ہوتی ہے تو منکر روایت کیسے قبول کی جائے گی تو عمرو بن مالک النکری کی توثیق کے بجائے اس روایت میں اس کی نکارت کی دوری کو ثابت کریں جبکہ جن امام ذہبی کا اپ حوالہ دے رہے ہیں انہوں نے الکاشف میں اس کو "وثق" کہا ہے اور یہ امام ذہبی کی خاص اصطاح ہے جس سے وہ راوی کی تضیف کی جانب اشارہ کرتے ہیں
عمرو بن مالك النكري عن أبي الجوزاء وغيره وعنه ابنه يحيى وعباد بن عباد وجماعة وثق ترجمہ 4223
اور شیخ البانی نے بھی اس کی منفرد روایات کو قبول نہیں کیا ہے جب یہ اپنی روایت میں منفرد ہوگا تو وہ ضعیف ہوگی پڑھ لیں
قلت: وفيما قالاه نظر، فإن عمرا هذا لم يوثقه غير ابن حبان (7 / 228، 8 /487) ، وهو متساهل في التوثيق حتى أنه ليوثق المجهولين عند الأئمة النقاد كما سبق التنبيه على ذلك مرارا، فالقلب لا يطمئن لما تفرد بتوثيقه، ولا سيما أنه قد قال هو نفسه في مالك هذا: يعتبر حديثه من غير رواية ابنه يحيى عنه، يخطيء ويغرب، فإذا كان من شأنه أن يخطيء ويأتي بالغرائب، فالأحرى به أن لا يحتج بحديثه إلا إذا توبع عليه لكي نأمن خطأه، فأما إذا تفرد بالحديث كما هنا - فاللائق به الضعف.سلسلہ الاحادیث الضعیفہ رقم 94
اور امام المناوی کے حوالے سے امام ذہبی کا قول نقل کیا ہے کہ جب یہ اپنی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت قبول نہیں ہے
قلت: وفيه عندي نظر لأنه من رواية عمرو بن مالك النكري ولم يذكروا توثيقه إلا عن ابن حبان ومع ذلك فقد وصفه ابن حبان بقوله:
"يخطئ ويغرب" وقال أيضا:
"يعتبر حديثه من غير رواية ابنه عنه".
وكل هذا يفيد أنه لا يحتج بما انفرد به ومنه تعلم قول الذهبي فيما نقله المناوي عن كتابه "الكبائر":
تو اس کی منفرد روایت قبول نہیں ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی یہی نقل کیا ہے کہ یہ اپنی روایات میں خطا کرنے والا تھا اور غریب روایات بیان کرنے والا بتایا ہے
يخطىء ويغرب
اور اسی طرح ابن عدی نے اس کی منفرد ہونے پر سخت جرح کی ہے
منكر الْحَدِيث عَن الثقات، وَيَسْرِقُ الحديث.
سمعت أبا يَعْلَى يَقُولُ عَمْرو بْن مالك النكري كَانَ ضعيفا.
ابن جوزی نے بھی اپنی الضعفاء والمتروکین میں اس کو نقل کرکے اس پر جرح کی ہے
عَمْرو بن مَالك النكري الْبَصْرِيّ قَالَ ابْن عدي مُنكر الحَدِيث عَن الثِّقَات وَيسْرق الحَدِيث ضعفه أَبُو يعلى الْموصِلِي
اب اس کے بعد اس کی روایت چند کتب میں اگر آئی ہے اور اس پر ثقہ یا صدوق کہا ہے تو وہ اس کی ان روایات متابعت کے وجہ سے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ اس کی منفرد روایت منکر ہوتی ہے اور یہ اس کی منفرد روایت ہے اور دوئم اس میں ابوالجوزاء اور اماں عائشہ رضی اللہ عنھا کا انقطاع بھی باقی ہے جو جرح مفسر کے اصول پر اپ کی پیش کی ہوئی ضمنی توثیق پر حاوی ہے یہ روایت ضعیف ہی ہے اور رہے کی اپ کے کہنے سے اس کی توثیق نہیں ہو گی