کِتَابُ التَّوْحِیْدِ
توحید کی کتاب
توحید کی دو قسمیں ہیں ۔
1-توحید در معرفت و اثبات۔ یہ توحید ربوبیت و اسماء اور صفات ہے۔
2۔ توحید در طلب و قصد۔ یہ توحید الوہیت و عبادت سے موسوم ہے۔
پہلی یہ کہ: اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات، اس کے افعال اور اس کے اسماء کی حقیقت کا اثبات، اپنی کتب کے ذریعہ اس کا تکلم، اپنے بندوں میں سے جس سے چاہے اس کی تکلیم ، اس کی قضا و قدر اور حکمت کا اثباتِ عمومی۔ قرآن کریم نے توحید کی اس نوع کو نہایت وضاحت سے بیان فرمایا۔
توحید کی دوسری قسم یعنی توحید الوہیت و توحید عبادت کا حکم قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید کی اکثر سورتیں بلکہ قرآن کریم کی ہر سورت توحید کی دونوں قسموں کو متضمن ہے اور ان کی شاہد اور ان کی داعی ہے۔
وہ توحید جو انبیائے کرام علیہم السلام لے کر دنیا میں تشریف لائے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اثباتِ اُلوہیت کو متضمن ہے اور وہ ہے
’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ کی شہادت دینا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ: صرف اُسی کی عبادت کی جائے، اُسی پر توکل کیا جائے، اُسی کی رضا کے لئے دوستی کی جائے، اُسی کے لئے دشمنی کے پیمانے مقرر کئے جائیں، اُسی کی طرف رجوع کیا جائے صرف اسی کی وجہ سے عمل کی دیواریں اُستوار کی جائیں۔ یہ سب صرف اس لئے ہے کہ اُسی سے ان اسماء و صفات کا اثبات ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے ثابت کئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
تمہارا معبود ایک اللہ ہی ہے اس رحمن و رحیم کے سواء کوئی معبود نہیں ہے۔
توحید یہ نہیں ہے جیسا کہ فلسفیوں اور اہل تصوف کا نظریہ ہے کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ بات دلیل سے ثابت کر دی تو غایت توحید کا اثبات کر دیا۔ جب انہوں نے اس کی شہادت دی تو غایت توحید میں فنا ہو گئے۔ پس جب انسان ان صفات کا اقرار کر لیتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ مستحق ہے اور اس کی تنزیہہ ثابت کرتا ہے اور
اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ وہی اکیلا ہر شے کا خالق ہے تو اس سے وہ موحد نہیں ہو جاتا جب تک کہ
’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ کی شہادت نہ دے اور ساتھ ہی اس بات کا اقرار نہ کرے کہ وہی اِلٰہ ہے جو عبادت کا مستحق ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کی وحدانیت اور عام شراکت غیر کا التزام نہ کرے۔
یاد رکھئے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اس حقیقی توحید کو نہیں پہچانا جس کی تبلیغ کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ یہ تو مشرکین عرب بھی کہتے تھے اور اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا خالق ہے مگر اس کے باوجود وہ مشرک تھے، جیسا کہ قرآن کریم کہتا ہے: ترجمہ: ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں‘‘ (یوسف:۱۰۶) ۔
ضروری نہیں کہ جو شخص یہ اقرار کرے کہ: اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق اور رب ہے، وہ شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتا ہو، اس کے سوا کسی کی طرف دعوت نہ دیتا ہو، اس کے سوا کسی سے ڈرتا نہ ہو اور نہ کسی دوسرے پر بھروسہ کرتا ہو، اُسی کے لئے دوستی اور دشمنی رکھتا ہو، اس کے پیغمبروں کی اتباع کرتا ہو، جس چیز کا اللہ حکم دے اس کی تبلیغ کرتا ہو، جس چیز سے اللہ نے روکا ہے اس سے دوسروں کو روکتا ہو، کیونکہ اکثر مشرکین کا یہ عقیدہ ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا خالق ہے مگر وہ اپنے شرکاء کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی مانتے ہیں اس طرح وہ ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہیں۔ انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ: کیا اس اللہ کو چھوڑ کر ان لوگوں نے دوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے؟ ۔ (الزمر)۔ ترجمہ: یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو اُن کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
ان مشرکانہ اعمال کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ یہ شرک نہیں ہے، یہ اس صورت میں شرک سمجھا جائے گا جب ہم ان کو مدبر امر خیال کریں۔ اگر ہم ان کو صرف ذریعہ اور وسیلہ سمجھیں گے تو یہ شرک نہیں ہو سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی رُو سے یہ شرک ہی ہے۔
لقول اللّٰہ تعالٰی: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّٰریٰت : ۵۶)
میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
عبادت ایک ایسا جامع اسم ہے جس سے وہ تمام ظاہر اور باطنی اقوال و اعمال مراد ہیں جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہیں اور جن پر وہ راضی ہوتا ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جن اُمور کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے، ان پر عمل پیرا ہونا اور جن سے روکا گیا ہے اُن کو ترک کر دینے کا نام عبادت ہے۔
لقول اللّٰہ تعالٰی: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کردیا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔(النحل : ۳۶)۔
طاغوت: طغیان سے مشتق ہے، اس کے معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’طاغوت کا اطلاق شیطان پر ہوتا ہے‘‘۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: طاغوت ہر اس شے کا نام ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہو۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے طاغوت کی ایک ایسی تعریف کی ہے جو بڑی جامع و مانع ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان حد سے تجاوز کر جائے، خواہ عبادت میں، یا تابعداری میں، یا اطاعت میں۔ ہر قوم کا طاغوت وہی ہے جس کی طرف وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے فیصلہ کے لئے رجوع کرتے ہیں، یا اللہ کے سوا اس کی پرستش کرتے ہیں، یا بلا دلیل اس کی اتباع کرتے ہیں، یا اس کی اطاعت بغیر اس علم کے کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر جس کسی کے پاس بھی اپنا فیصلہ لے جایا جائے یا اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت کی جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ترک کر کے کسی دوسری شخصیت کی اطاعت کی جائے، اُسے اس قوم کا طاغوت سمجھا جائے گا‘‘
۔ ارشادِ الٰہی ہے:
(ترجمہ)’’ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ (النحل:۳۶)۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے: ترجمہ:اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں (البقرۃ:۲۵۶)۔ حقیقت میں کلمہ
’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ کا مطلب یہی ہے۔ کیونکہ
’’مضبوط سہارا‘‘ ’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ ہی ہے۔
قال اللّٰہ تعالٰی: وَقَضٰی رَبُّکَ أَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اِیّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَآ أَوْ کِلٰھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ أُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْماً وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا
تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُسی کی۔ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکررہیںتو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالاتھا‘‘۔(بنی اسرائیل:۲۳، ۲۴)۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’محض نفی یا اثبات بلا نفی توحید نہیں ہے، بلکہ حقیقی توحید یہ ہے کہ وہ نفی اور اثبات دونوں کو متضمن ہو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح بلا شرکت غیرے تنہا اپنی عبادت کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح یہ فیصلہ بھی کر دیا ہے کہ تم اپنے والدین کے ساتھ احسان کیا کرو۔ لفظ اُفّ کا مفہوم یہ ہے کہ جب کبھی ماں باپ کی طرف سے کوئی ایسا عمل ظہور پذیر ہو جائے جو اولاد کو ناپسند ہو تو اولاد میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ ’’آپ کو یہ کام نہیں کرنا چاہیئے تھا‘‘۔ اور نہ ان کے سامنے ہاتھ اٹھاؤ۔ بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور انسانیت کے دائرہ میں رہ کر بات کیا کرو۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خطبہ جمعہ میں فرمایا: … اس شخص کا منہ خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ کو یا اُن میں سے ایک کو زندہ پایا لیکن پھر بھی (ان کی خدمت کر کے) جنت میں نہیں جا سکا۔ (بخاری و مسلم)۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کی رضا ماں باپ کی رضامندی میں مضمر ہے اور اس کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں مضمر ہے۔(رواہ الترمذی)۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا:کیا میرے ماں باپ کے فوت ہو جانے کے بعد بھی ان کے ساتھ نیکی کرنے کی کوئی صورت باقی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ہے! اُن کے لئے دعا کرتے رہنا اور ان کے لئے مغفرت کی التجا کرنا اور ان کے وعدوں کو اُن کی وفات کے بعد بھی پورا کرنا، محض اُن کے تعلقات کی بنا پر صلہ رحمی کرنا اور اُن کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)۔
وَاعْبُدُوا اﷲَ وَلَآ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا (النساء:۳۶)۔
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَ لَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اﷲُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اﷲِ اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (الانعام:۱۵۱، ۱۵۲، ۱۵۳)۔
اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان سے کہوکہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پرکیا پابندیاں عائد کی ہیں۔ ۱۔یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ ۲۔ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ ۳۔اوراپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دینگے۔ ۴۔ اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ہوئی۔ ۵۔ اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو، مگر حق کے ساتھ۔ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔۶۔ اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو، یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رُشد کو پہنچ جائے۔ ۷اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پرذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے اِمکان میں ہو۔ ۸۔ اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتے دارہی کا کیوںنہ ہو۔۹۔ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔ ۱۰۔ نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹاکر تمہیں پراگندہ کردیں گے، یہ وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیںکی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو۔
مشرکین مکہ سے جب پوچھا جاتا کہ ’’یہ نیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم کو کیا کیا باتیں بتاتا ہے جو تم اس کی اتنی زبردست مخالفت کر رہے ہو؟ تو وہ یہ جواب دیتے کہ ہمیں بتاتا ہے: ترجمہ: تم صرف اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور اپنے آباء و اجداد کی رسموں کو چھوڑ دو۔ یہ وہی بات ہے جو ابوسفیان نے ہرقل کے دربار میں، اس کے ایک سوال کے جواب میں کہی تھی اور ابوسفیان اور ان کے ہمنواؤں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ
قُوْلُوْا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ تُفْلِحُوْا سے یہی سمجھا تھا کہ جب تک ہم اپنے باپ دادا کے رسم و رواج کو نہیں چھوڑیں گے، اس وقت تک
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا اقرار فائدہ مند ثابت نہ ہو گا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون ساہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ترجمہ: تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنائے حالانکہ اُس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ اس کے بعد کونسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے بچے کو فقر و فاقہ اور تنگیء رزق کے خوف سے قتل کرے۔
سیدنا عبدللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع حدیث ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ترجمہ: ہر اُس مسلمان کا جو کلمہ
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کا اقرار کرتا ہے، خون حلال نہیں ہے۔ ہاں تین اُمور کی پاداش میں اس کا خون حلال ہو سکتا ہے: ۱۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو، ۲۔ بلاوجہ کسی مسلمان کو قتل کرنے کے بدلہ میں یا دین اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہو جائے اور جماعۃ المسلمین سے الگ ہو جائے۔
یتیم بچے کے مال میں ہر قسم کے تصرف کی نفی کی گئی ہے۔ معمولی قسم کے ذرائع تصرف کو بھی مسدود کر دیا گیا ہے تاکہ یتیم کا مال محفوظ رہے۔ مگر یہ کہ اگر کوئی شخص یتیم کے مال کو بڑھانے اور اس میں اضافہ کی خاطر اس میں تصرف کرے تو یہ جائز ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے جو تم کو وصیت کی ہے ُاسے پورا کرو اور اُسے پورا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو تمہیں حکم دیا جاتا ہے اس پر عمل کرو اور جس بات سے تم کو روکا جاتا ہے اس سے رُک جاؤ۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں زندگی بسر کرو بس یہی ہے اللہ کے عہد کو پورا کرنے کا مطلب۔
’’صراط‘‘ سے دین اسلام کا سیدھا راستہ مقصود ہے جو مستقیم ہے۔ یعنی دین اسلام ایک ایسا راستہ ہے جس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے اسی سیدھے راستے کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جس کی حدود اس کے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کر دی ہیں اور جس کی آخری منزل جنت ہے۔ اس صراطِ مستقیم سے کئی راستے نکلتے ہیں، جو شخص جادئہ مستقیم کو اختیار کرے گا وہ جنت میں جائے گا، جو غلط راستوں پر قدم زن ہو گا وہ لامحالہ جہنم میں جا گرے گا۔
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ سے بدعت اور شہوات انسانی مراد ہیں کہ انسان نیک اعمال و افعال کو چھوڑ کر بدعات پر عمل کرنا شروع کرے اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں زندگی برباد کر ڈالے۔
وعن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ قَالَ کُنْتُ رَدِیْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی حِمَارٍ فَقَالَ لِیْ یَا مَعَاذُ! اَتَدْرِیْ مَا حَقُّ اﷲِ عَلَی الْعِبَادِ وَ مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اﷲ قُلْتُ اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ قَالَ حَقُّ اﷲِ عَلَی الْعِبَادِ اَنْ یَّعْبُدُوْہُ وَ لَا یُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَ حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اﷲِ اَنْ لَّا یُعَذِّبَ مَنْ لَّا یُشْرِکُ بِہٖٖ شَیْئًا قُلْتُ یَارَسُوْلَ اﷲَ صلی اللہ علیہ وسلم اَفَلَا اُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرْھُمْ فَیَتَّکِلُوْا اَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیْحَیْنِ
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچرپرسوارتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ
اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پرکیا ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہترجانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ اگروہ مشرک نہ ہوں تو ان کو عذابِ جہنم سے بچالے۔سیدنا معاذرضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں لوگوں کو اس کی خوشخبری سنادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا ہر گز نہ کرنا۔ کیونکہ پھر وہ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہیں گے۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے موقعہ پر اس حدیث کو بیان کر دیا تھا مبادا کتمان حق کے گناہ میں مبتلا ہو جائیں۔
آج کل لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ اللہ اپنا حق معاف کر دے گا مگر حقوق العباد معاف نہیں کرے گا۔ حقوق العباد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر اللہ کا حق پہلے ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے اگر اس حق میں کوتاہی ہوئی تو اللہ تعالیٰ ہرگز معاف نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (ترجمہ) ’’بیشک اللہ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرے گا‘‘۔
عبادت کے معنی ہی توحید ہیں۔ مشرکین سے اسی مسئلہ میں اختلاف تھا حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے لیکن توحید کے قائل نہ تھے۔ جیسا کہ ایک حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ:
’’میں اور جن و انس ایک عجیب معاملے میں ہیں، پیدا میں کرتا ہوں لیکن عبادت کسی دوسرے کی ہو رہی ہے۔ رزق میں دیتا ہوں لیکن اظہارِ شکر دوسروں کا ہوتا ہے، میں اپنے بندوں پر احسان ہی کرتا ہوں لیکن ان کی طرف سے بغاوت و نافرمانی کے سوا کچھ نہیں ہو پاتا۔ میں اپنے بندوں پر احسان کر کے محبت کا اظہار کرتا ہوں لیکن وہ میری نافرمانی کر کے مجھے غصہ دلاتے ہیں‘‘۔
حَقُّ اﷲِ عَلَی الْعِبَادِ وہ افعال اور اعمل ہیں جن کے کرنے کا انسان کو مکلف قرار دیا گیا ہے۔
حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اﷲِ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لازماً اپنے وعدے پورے کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن بندوں سے جو اس کی توحید پر قائم رہیں گے پکا وعدہ فرمایا ہے کہ ان کو احسن جزا دی جائے گی۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ایک مطیع اور فرمانبردار کا مستحق اجر ہونا یہ ہے کہ اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے۔ یہاں وہ استحقاق مقصود نہیں ہے جو ایک انسان دوسرے انسان پر کسی خاص معاملے میں کرتا ہے بلکہ اس سے اہل سنت کے نزدیک وہ استحقاق مراد ہے جس کا ذکر ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے کیا ہے کہ: ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے از خود رحمت اور حق کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ اس میں بندے کے اعمال و کردار کو کوئی دخل نہیں ہے۔ کتاب و سنت سے اسی مفہوم کی تائید و حمایت ہوتی ہے۔ یہ رحمت اللہ تعالیٰ نے از خود خاص کی ہے، مخلوق (کے اعمال) نے نہیں۔ معتزلہ اس مسئلے میں اہل سنت سے اختلاف کرتے ہیں، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ: ’’انسان کی اطاعت و فرمانبرداری کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ذمہ یہ لازم ہے کہ وہ انسان کی مدد و نصرت کرے کیونکہ انسان اطاعت ہی کی بنا پر جزا کا مستحق ٹھہرتا ہے‘‘۔ معتزلہ کا یہ مسلک غلط ہے۔
فیہ مسائل
٭ جن و انس کی پیدائش میں حکمت ِ الٰہی کا بیان۔ ٭عبادت ہی در اصل توحید ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین میں باعث نزاع مسئلہ یہی تھا۔ ٭جو شخص توحید کا اقرار نہیں کرتا گویا اس نے اللہ کی عبادت ہی نہیں کی۔ آیت
وَلَآ أَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَآ أَعْبُدُ کا مطلب بھی یہی ہے۔ ٭انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت میں جو حکمتیں پنہاں ہیں ان کا ذکر۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام امتوں کے لئے عام ہے۔ ٭(سیدنا نوع علیہ السلام سے لے کر امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک) تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا۔ ٭سب سے بڑا مسئلہ اس میں یہ ہے کہ جب تک طاغوت کا انکار نہ کیاجائے تب تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کا تصور ممکن نہیں۔ آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ ’’جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ تعالیٰ کومانا اس نے عروۃ الوثقٰی کو مضبوطی سے پکڑلیا‘‘۔ ٭طاغوت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے۔ ٭سلف صالحین کے نزدیک سورہ الانعام کی مذکورہ تین آیات بڑی محکم اور پُرعظمت ہیں۔ ان میںدس مسائل کا تذکرہ ہے۔ ان دس مسائل میں پہلا مسئلہ نھی عَنِ الشِّرک ہے۔ ٭سُورۂ الاسراء کی محکم آیات میں اٹھارہ مسائل بیان کیے گئے ہیں، جن میں سب سے پہلامسئلہ یہ بیان ہواکہ: ’’تواللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا ورنہ ملامت زدہ اور بے یارومددگار بیٹھارہ جائے گا‘‘۔اور سب سے آخری مسئلہ یہ ہے کہ: ’’دیکھ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھنا ورنہ تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا، ملامت زدہ اورہربھلائی سے محروم ہوکر‘‘۔ حقیقت میں یہی مسائل سب سے اہم ہیں جن کی خصوصی طورپراللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کووصیت فرمائی۔ ٭سورۂ نساء کی آیت جس کا نام ہی
اٰیَۃُ الْحَقُوْقِ الْعَشَرَۃِ رکھاگیاہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے یہی مسئلہ بیان فرمایا کہ: دیکھو! صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت جو وصیت فرمائی تھی، اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے۔ ٭ اللہ کو پہچاننا اور ان پر کاربند ہونا۔ ٭جب لوگ حقوق اللہ کی ادائیگی پوری طرح کر لیں گے تو پھر انہیں ان حقوق کا علم ہو گا جو ان کے اللہ تعالیٰ پر عائد ہوتے ہیں۔ ٭کسی خاص مصلحت کی بنا پر اگر کوئی مسئلہ کسی وقت نہ بتایا جائے تو یہ جائز ہے۔ ٭کسی مسلمان کو کوئی اچھی اور خوش کن خبر ملے تو اس کا اپنے ساتھیوںکو بتانا مستحب ہے۔ ٭ بلاعمل، صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کرنے سے انسان کو ڈرنا اور بچنا چاہیے۔ ٭ جس چیز کا علم نہ ہو اس کے متعلق
’’اللّٰہُ و رسولُہٗ اعلمُ ‘‘ کہنا۔ ٭بعض لوگوںکو علم سکھا دینا اور بعض کو نہ سکھانا جائز ہے۔ ٭ اس بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع کا پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سوا رہیں اور دوسرے شخص کو بھی پیچھے بٹھائے ہوئے ہیں۔ ٭سواری پر دوسرے شخص کو پیچھے بٹھانے کا جواز۔ ٭ سیدنا معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ کے شرف و فضیلت کی وسعتیں۔ ٭مسئلہ توحید کی عظمتِ شان۔