• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ھِدایۃ المُستفید اُردُو ترجمہ فتح المجید شرح کتابُ التوحید

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دفع مصائب کے لئے چھلا پہننا یا گلے میں دھاگے ڈالنا شرک ہی کی قسم ہے
باب: من الشرک لبس الحلقۃ و الخیط

اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ رفع بلا اور دفع مصائب کے لئے چھلا پہننا، گلے میں دھاگے ڈالنا شرک ہی کی ایک قسم ہے۔

قُلْ اَفَرَاَیْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ اِنْ اَرَادَنِیَ اﷲُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِہٖ اَوْ اَرَادَنِیَ بِرَحْمَۃٍ ّ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحمَتِہٖ قُلْ حَسبِیَ اﷲُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ۔
ان سے کہو، جب حقیقت یہ ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اللہ مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کیا تمہاری یہ دیویاں جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو، مجھے اس کے پہنچائے ہوئے نقصان سے بچالیں گی؟ یا اللہ مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو کیا یہ اس کی رحمت کو روک سکیں گی؟ بس ان سے کہہ دو کہ میرے لئے اللہ ہی کافی ہے۔ بھروسہ کرنے والے اُسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔(الزمر:۳۸)
اس آیت کریمہ کے معنی کے متعلق مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان مشرکین سے سوال کیا تو سب خاموش ہوگئے، اس لئے کہ مشرکین یہ عقیدہ نہ رکھتے تھے کہ ہمارے یہ معبود کسی نفع یا نقصان پہنچانے کی طاقت رکھتے ہیں بلکہ اپنے معبودوں کے بارے میں وہ صرف یہ تصور رکھتے تھے کہ یہ ہمارے اور اللہ تعالیٰ کے مابین وسیلہ اور سفارشی ہیں۔ وہ ہرگز یہ نہ سمجھتے تھے کہ یہ ہمارے لئے مشکل کشا ہیں یا ہماری بے بسی اور بے کسی کی حالت کو بد ل سکتے ہیں۔ وہ یہ جانتے تھے کہ یہ کام صرف اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے جیسا کہ اس کا فرمان ہے کہ:
(ترجمہ) پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو۔ مگر جب اللہ اس وقت کو ٹال دیتا ہے تو یکایک تم میں سے ایک گروہ اپنے رب کیساتھ دوسروں کو (اس مہربانی کے شکریہ میں) شریک کرنے لگتا ہے۔ (النحل۔ ۵۳: ۵۴)
عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم رَاٰی رَجُلًا فِیْ یِدِہٖ حَلْقَۃٌ مِّنْ صُفْرً فَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم مَا ھٰذِہٖ قَالَ مِنَ الْوَاھِنَۃِ فَقَالَ اَنْزِعْھَا فَاِنَّھَا لَا تَزِیْدُکَ اِلَّا وَھْنًا فَاِنَّکَ لَوْمُتَّ وَ ھِیَ عَلَیْکَ مَآ اَفْلَحتَ اَبَدًا رَوَاہُ اَحْمَدُ بِسَنَدٍ لَا بَاْسَ بِہٖ
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کے ہاتھ میں پیتل کا چھلہ دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے؟ ا س شخص نے جواب دیا کہ یہ واہنہ (کمزوری) کی وجہ سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے اُتار دے، یہ تجھے کمزوری کے سوا کچھ فائدہ نہ دے گا‘‘۔ اگر اس چھلہ کو پہنے ہوئے تجھے موت آگئی تو تو کبھی نجات نہ پائے گا۔امام احمد رحمہ اللہ نے اس روایت کو ایسی سند سے بیان کیا ہے جس میں کوئی نقص نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے فرمایا کہ اس قسم کے چھلے وغیرہ پہننا شرک ہے، اور شرکیہ تعویذ گنڈوں سے فلا ح و کامیابی اور سعادت حاصل نہیں ہو سکتی۔
ْْْْْ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ شرک اصغر بھی اکبر الکبا ئر میں سے ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ لا علمی کی بناء پر بھی کسی شخص کو شرک کے معاملے میں معذور نہیں سمجھا جائے گا۔ جو شخص اس قسم کے افعال کا مرتکب ہوتا ہے اس پر بہت ہی سختی سے نکیر کی گئی ہے۔
عن عقبۃ بن عامر مرفوعا مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیْمَۃً فَلَآ اَتَمَّ اﷲُ لَہُ وَ مَنْ تَعَلَّقَ وَدْعَۃً فَلَا وَدَعَ اللّہُ لَہٗ وفی روایۃ مَنْ تَعَلَّقَ تَمِیْمَۃ فَقَدْ اَشْرَکَ
مسند احمد میں ہی سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے گلے میں تعویذ لٹکاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کو پورا نہ کرے۔ اور جو شخص سیپی وغیرہ لٹکائے اللہ اسے آرام نہ دے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جس شخص نے اپنے گلے میں تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔
تمیمہ اس چمڑے کے پرزے کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز لکھی گئی ہو۔ اہل عرب اس نیت سے لٹکاتے تھے کہ اس سے آفات سے بچائو ہو سکے۔ یہ سراسر جہالت اور ضلالت کی بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی تکلیف دُور کرسکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے۔ تمیمہ کو عرب لوگ اپنے بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے تاکہ وہ نظر بد سے محفوظ رہیں لیکن اسلام نے اس کو باطل قرار دیا۔
ولا بن ابی حاتم عن حذیفۃ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ رَاٰی رَجُلًا فِیْ یَدِہٖ خَیْطٌ مِنَ الْحُمّٰی فَقَطَعَہٗ
سیدنا ابن بی حاتم رضی اللہ عنہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں بخار کی وجہ سے دھاگہ دم کیا ہوا دیکھا تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے کاٹ دیا۔
سیدنا وکیع رضی اللہ عنہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل حدیث روایت کی ہے:
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک مریض کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے ۔ اس کے بازو کو چھوا تو معلوم ہوا کہ اس پر کوئی دھاگہ بندھا ہوا ہے۔ پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ مریض بولا کسی نے مجھے یہ دھاگا دم کرکے دیاہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اُسے کاٹ دیا اور فرمایا کہ اگر تو اسے پہنے ہوئے فوت ہو جاتا تو میں تیری نمازِ جنازہ نہ پڑھتا۔ اور پھر قرآن کریم کی یہ تلاوت فرمائی کہ: (ترجمہ) ’’ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے تو ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں‘‘۔ (یوسف:۱۰۶)۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اس قسم کے تعویذ گنڈے قطعاً ممنوع ہیں اگرچہ ان کا پہننے والا یہ خیال کرتا ہو کہ یہ صرف اسباب ہیں، حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی دافع البلیات ہے اور وہی مشکلات کو دور کرنے والا ہے۔ اسباب بھی وہی اختیار کرنے چاہئیں جن کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود ہو اور تعویذ دھاگے اور صدف وغیرہ تو جاہلیت کی رسمیں ہیں اور ان کا پہننا شرک ہے اگرچہ انسان ان کو نافع اور ضار نہ بھی خیال کرے۔ اس قسم کے اعمال کی برائی سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہئے اور اگر ہو سکے تو ہاتھ سے روک دے ورنہ زبان سے تو اس کے خلاف جہاد ضروری ہے۔ اس قسم کے شرکیہ تعویذات کو بزور بازو اتارپھینکنا چاہئے اگر چہ پہننے والا اس کی اجازت نہ دے۔
فیہ مسائل
٭تعویذ دھاگہ اور لوہے وغیرہ کے چھلے پہننے پر سخت وعید۔ ٭ اگر صحابی بھی اس قسم کے تعویذ گنڈے پہنے ہوئے فوت ہوجائے تو اس کی نجات مشکل ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ شرک ِ اصغر اکبر الکبائر ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے یہ وہ آثار ہیں جن سے ان کے علمی کمال اور توحید کے بارے میں ان کی تعلیم کا پتہ چلتا ہے۔ وہ توحید کے منافی اعمال و افعال سے قطعی طور پر بیزار رہتے تھے۔ ٭ اس کا جہالت کی بنا پر پہننا بھی قابل عذر نہیں۔ ٭ یہ تعویذ گنڈ ے بجا ئے نفع کے نقصان دہ ہیں کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ تجھے کمزوری کے سوا کچھ فائدہ نہ دے گا‘‘۔ ٭جو شخص ان کو پہنے اس کو سختی سے روکنا۔ ٭اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ جو شخص ان کو پہنے گا اس کو انہیں کے سپرد کر دیا جائے گا۔ ٭ بخار کی وجہ سے بھی تعویذ پہننا شرک ہے۔ ٭ اس کی بھی وضا حت ہے کہ جو شخص تعویذ پہنتا ہے وہ شرک کرتا ہے۔ ٭ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کا آیت قرآن کو تلاوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان آیات سے، جو شرک اکبر کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، شرک اصغر بھی مراد لیتے تھے جیسا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سورہ بقرہ کی آیت سے استدلال کیا ہے۔ ٭ نظر بد سے بچا ئو کی خاطر صدف وغیرہ پہننا بھی شرک ہے۔ ٭ جو شخص تعویذ اور صدف وغیرہ باندھتا ہے اس کے لیے بددعا کرنا کہ اللہ تعا لیٰ اس کا مطلب پورا نہ کرے
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دم، تعویذ اور گنڈوں وغیرہ کے بارے میں شرعی احکام
باب:ماجاء فی الرقٰی والتمائم

اس باب میں دم تعویذ اور گنڈوں وغیرہ کے بارے میں شرعی احکام بیان کئے گئے ہیں۔

فی الصحیح عن ابی بشیر الانصاری رضی اللہ عنہ اَنَہٗ کَا نَ مَعَ رَسُوْلِ اللّہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ بَعْضِ اَسْفَارِہٖ فَاَرْسَلَ رَسُوْ لًا اَنْ لَّا یَبْقَیَنَّ فِیْ رَقَبَۃِ بَعِیْرٍ قِلَادَۃٌ مِّنْ وَتَرٍ اَوْ قِلَادَۃٌ اِلَّا قُطِعَتْ
صحیح بخاری وصیح مسلم میں سیدنا ابو بشیر انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک قا صد کو بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں کوئی ایسی رسی باقی نہ رہنے دی جائے (جونظر بد وغیرہ کے سلسلے میں لوگ باندھ دیا کرتے تھے) اگر ہے تو اس کو کاٹ دیا جائے۔
زمانہ جہالت میں رسم تھی کہ جب یہ تانت پرانی ہو جاتی تو نئی تبدیل کر لیتے اور پرانی تانت کو چوپایوں کے گلے میں ڈال دیتے تھے۔ ان کا یہ عقیدہ تھا کہ اس سے جانور نظر بد سے محفوظ رہتا ہے۔
و عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِنَّ الرُّقٰی وَ التَّمَآئِمَ وَ التِّوَلَۃَ شِرْکٌ
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک، تعویذ اورحُبّ کے اعمال سب شرک ہیں۔
ابو داوٗد میں یہ واقعہ ان الفاظ میں منقول ہے کہ : (ترجمہ) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ا یک دفعہ میرے شوہر عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے میری گردن میں ایک دھاگا دیکھا اور پو چھنے لگے کہ یہ دھا گہ کیسا ہے؟ میں نے عرض کی کہ یہ دھاگہ مجھ کو دم کر کے دیا گیا ہے۔ یہ سنتے ہی انہوں نے یہ دھاگہ میرے گلے سے کاٹ پھینکا اور یہ فرمایا کہ تم عبداللہ رضی اللہ عنہ کا خاندان ہو، تم شرک سے بے نیاز ہو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک، تعویذ اور اعمالِ حُبّ شرک ہے۔ میں نے عرض کی کہ میری آنکھ میں چبھن محسوس ہوتی تھی چناچہ میں فلاں یہودی کے ہاں دم کرانے کے لیے جایا کرتی تھی، اس کے دم کرنے سے مجھے سکون سا ہو جاتا تھا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بولے کہ یہ شیطانی عمل ہے۔ وہی اپنے ہاتھ سے چبھن پیدا کرتا تھا اور جب دم کر دیا جاتا تو ہا تھ روک لیتا۔ لہٰذا تمہارے لیے اس طرح کہنا کافی تھا جس طر ح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فر ماتے تھے کہ: (ترجمہ) ’’اے کائنات کے پروردگار! تکلیف کو دور فر مادے اور تیری شفا ہی دراصل شفا ہے، شفا عطا فرما کیوں کہ تو ہی شفا بخشنے والا ہے ایسی شفا عطا کر کہ جس کے بعد کسی قسم کی تکلیف باقی نہ رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دَم کیا ہے اور آپ کو بھی دَم کیا گیا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت ہی نہیں دی بلکہ دَم کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ اگر دَم قرآنی آیات پر مشتمل ہو تو جائز ہے۔ البتہ ممانعت اس دم کی ہے جو عربی زبان میں نہ ہو کیوں کہ بسا اوقات غیر عربی الفاظ کفریہ ہوتے ہیں یا ایسے الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے جس میں شرکیہ کلمات پائے جاتے ہیں۔
علمائے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ وہ دم اور رُقیہ جس میں مندرجہ ذیل تین شرائط پائی جائیں، جائز ہے:

۱۔ وہ دَم جو کلام اللہ، اسماء اللہ یا اس کی صفات پر مبنی ہو۔
۲ ۔ وہ دم جو عربی زبان میں ہو، اس کے معنی بھی واضح اور مشہور ہوں اورمطابق شریعت اسلا می ہو۔
۳۔ یہ کہ دم کرنے والا اور کروانے والا یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ دم فی نفسہٖ کوئی بااثر چیز نہیں ہے بلکہ سارا معاملہ اللہ کی تقدیر سے وابستہ ہے اور اگر اللہ تعا لیٰ نے چاہا تو اثر ہو گا۔


وَالرُّقٰیْ ھِیَ الَّتِیْ تُسَمَّی الْعَزَآئِمَ وَ خَصَّ مِنْہُ الدَّلِیْلُ مَا خَلَا مِنَ الشِرکَ رَخَّصَ فِیْہِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ العَیْنِ وَ الحُمَۃِ وَ التِّوَلَۃُ شَئٌ یَصْنَعُوْنَہٗ یَزْعُمُوْنَ اَنَہٗ یُحَبِبُ المَرْاۃُ اِلٰی زَوْجِھَا و الرَّجُلَ اِلٰی اِمْرَاَتِہٖ
رُقٰی اور عزائم دونوںہم معنٰی ہیں۔ شرکیہ تعویذات کے علاوہ نظرِبد اور زہریلے کیڑے کے کاٹے کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصت دی ہے۔

تَوِلَہٗ وہ عمل ہے جسے اس خیال سے کیا کرتے تھے کہ اس سے مرد اور عورت میں باہم اُلفت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔
’’التولہ جادو کی ایک قسم ہے جس کے ذریعے عورتیں اپنے شوہروں کی نظر میں محبوب بننے کی سعی کرتی ہیں‘‘
وعن عبداﷲ بن حکیم مرفوعًا مَنْ تَعَلَّقَ شَیْئًا وُکِلَ اِلَیْہِ (رواہ الترمذی و احمد)۔
سیدنا عبداللہ بن حکیم رضی اللہ عنہ سے مرفوعًا روایت ہے، وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’جو شخص اپنے گلے یا بازو میں کوئی تعویذ یا دھاگا لٹکاتا ہے تو اس کی ذمہ داری اسی تعویذ دھاگے کے سپرد کردی جاتی ہے‘‘۔
حدیث میں جس ’’تعلق‘‘ کا ذکر ہے وہ دل سے بھی ہوتا ہے، عمل اور فعل سے بھی ہوتا ہے اور کبھی دل اور عمل دونوں سے ہوتا ہے، تینوں صُورتوں میں کوئی صورت بھی ہو، جس شے سے اس کا تعلق وابستہ ہوگا، اللہ تعالیٰ اس کی ذمہ داریوں کو اسی کے سپرد کر دیتاہے۔ سو جس شخص کے دل کا تعلق صرف اللہ کے ساتھ اُستوار ہو گیا اور اس نے اپنی تمام حاجات کی ذمہ داری اللہ پر ڈال دی، اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رجوع ہو اور اپنے تمام معاملات اللہ ہی کو سونپ دیئے تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام ضروریات کو خود پورا کرنے کا ذمہ لیتا ہے اور اس کی جملہ حاجات کا آپ کفیل بن جاتا ہے اور کامیابی کے بعید ترین امکانات کو قریب تر کردیتا ہے اور ہر مشکل کو آسان بنادیتا ہے۔
جس شخص نے اپنا تعلق غیراللہ سے جوڑ لیا، اپنی رائے اور عقل پر بھروسہ کرلیا اور مختلف تعویذ دھاگے اور جادو ٹونے سے وابستگی اختیار کر لی، ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ، انہی اشیاء کے سپرد کردیتا ہے، اسے ذلیل و رسوا بنادیتا ہے اور اپنی رحمت سے دور کردیتا ہے۔ یہ حقیقت نصوص و تجربات سے ثابت شدہ ہے۔
وروی احمدعن رویفع رضی اللہ عنہ قال قالَ لِیْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَا رُوَیْفِعُ لَعَلَّ الْحَیٰوۃَ سَتَطُوْلُ بِکَ فَاَخْبِرِ النَّاسَ اَنَّ مَنْ عَقَدَ لِحْیَتَہٗ اَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا اوِسْتَبحٰی بِرَجِیْعِ دَآبَۃٍ اَوْ عَظْمٍ فَاِنَّ مُحَمَّدًا بَرِیئٌ مِنْہُ
امام احمد رحمہ اللہ اپنی مسند میں سیدنا رویفع رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں، سیدنا رویفع رضی اللہ عنہ خود کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اے رویفع رضی اللہ عنہ ! ممکن ہے تم زیادہ عرصہ تک جیو، لہٰذا لوگوں کو بتادینا کہ جو شخص اپنی داڑھی کے بالوں کو بٹ کر یا سمیٹ کر باندھ لے یا تانت وغیرہ کا ہار گلے میں ڈال لے، یا کسی چارپائے کے گوبر یا ہڈی سے استنجا کرے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بیزار ہیں۔
وعن سعید بن جبیر قال مَنْ قَطَعَ تَمِیْمَۃً مِّنْ اِنْسَا ٍن کَانَ کَعَدْلِ رَقَبَۃٍ ولہ عن ابراھیم قال کَانُوْا یَکْرَھُوْنَ التَّمَآ ئِمَ کُلَّھَا مِنَ الْقُراٰنِ وَ غَیْرِ الْقُرْاٰنِ (ابن ابی شیبہ)
سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’جو شخص کسی کے گلے سے تعویذ وغیرہ کاٹ دے تو اس کو ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب ملے گا‘‘
۔ ابراہیم بن نخعی کوفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بہت سے علماء اور فقہاء تعویذات کو، وہ قرآنِ کریم کی آیات پر مشتمل ہوں یا غیر قرآن پر، مکروہ قرار دیتے ہیں۔

فیہ مسائل
٭ رقیہ اور تمیمہ کی تشریح۔ ٭تِوَلَہ کے مفہوم کی وضاحت ۔ ٭رقیہ ، تمیمہ اور تولہ بلا استثناء تینوں شرک ہیں۔ ٭وہ رقیہ جو صحیح الفاظ پر مشتمل ہو اور نظر بد اور بخار کی وجہ سے کیا جائے وہ شرک نہ ہو گا۔ ٭نظر بد سے بچائو کی خاطر چوپایوں کی گردنوں میں تانت ڈالنا شرک ہے۔ ٭جو شخص تانت وغیرہ کا ہار گلے میں ڈالے اس کیلئے سخت ترین وعید۔ ٭جو کسی دوسرے شخص کے گلے سے تعویذ اتار پھینکے، اس کیلئے اجرِ جزیل کا وعدہ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جو شخص کسی درخت، پتھر، یا قبر وغیرہ سے برکت حاصل کرے …
باب :من تبرک وشجر حجر ونحوھما

اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص، درخت، پتھر یا قبر وغیرہ سے برکت، حاصل کرتا ہے اس کے متعلق شریعت کا فیصلہ کیا ہے۔

قال اﷲ تعالیٰ اَفَرَئَیْتُمُ الْلّٰتَ وَ الْعُزّٰی وَ مَنٰو ۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی (النجم۔۱۹)
اب ذرا بتائو تم نے کبھی اس لات اور اس عزّٰی اور تیسری ایک اور دیوی منات کی حقیقت پر کچھ غور بھی کیا؟

’’اللات ایک سفید پتھر تھا جس پر خوب نقش و نگار کیا گیا تھا۔ اس کو ایک مکان میں سجا بنا کر رکھا گیا اور اس مکان کے ارد گرد بہت بڑی اور مضبوط چار دیواری بنائی گئی تھی جس کو خوبصورت پردوں سے سجایا گیا تھا اور اس کے باقاعدہ پجاری اور پروہت بھی تھے۔ یہ تھا اہل طائف یعنی بنو ثقیف کا بت۔ اس کی وجہ سے بنو ثقیف قریش کے علاوہ تمام عرب قبائل پر اپنے آپ کو قابل فخر گردانتے تھے‘‘۔ بروایت ابن ہشام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو اس کے گرانے کے لئے بھیجا تو سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ گئے، پہلے تو انہوں نے اس کو مسمار کیا اور پھر آگ لگاکر جلادیا۔
عزیٰ کے متعلق ابو سفیان نے جنگ احد کے موقع پر کہا تھا کہ
لَنَا الْعُزّٰی وَلَا عُزّٰی لَکُمْ (ہمارا معبود عزی ہے اور تمہارا معبود عزی نہیں ہے)۔

چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اس کو جواب دو کہ:
اَللّہُ مَوْلَانَا وَ لَا مَوْلیٰ لَکُمْ (اللہ ہمارا دستگیر اور مولا ہے تمہارا نہیں)۔
امام نسائی رحمہ اللہ اور ابن مردویہ ، ابو الطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ
: (ترجمہ) ’’رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکۃ المکرمہ کو فتح کر لیا تو سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو وادی نخلہ کی طرف بھیجا کہ جا کر عُزّٰی کو کاٹ دو۔ چنانچہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ جب وادی نخلہ میں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں تین درخت تھے اور تینوں کو کاٹ دیا اور مکان کو بالکل مسمار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری بات سے مطلع کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوبارہ جائو، تم کوئی کام نہیں کرکے آئے، چنانچہ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ دوبارہ نخلہ پہنچے تو عُزّٰی کے پجاریوں نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو دیکھتے ہی پہاڑ کی طرف پناہ لی اور ’’یا عُزّٰی! یاعُزّٰی!‘‘ کے نعرے بلند کرنے لگے۔ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ اس مقام کے قریب گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک عورت بالکل برہنہ حالت میں ہے، اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور مٹی سر پر ڈال رہی ہے، سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کردیا اور واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ سارا قصہ بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی عورت عُزّٰی تھی‘‘۔
یہی صورتِ حال یا اس سے بڑھ کر آج کل اولیاء کی قبروں اور مزاروں پر دکھائی دیتی ہے۔
مناۃ: یہ بت مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع تھا۔ ’’فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس کے گرانے کے لئے بھیجا چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کو منہدم کردیا‘‘۔
آیا ت کی باب سے مطابقت لات و مناۃ کے پجاری ان کی عزت و توقیر کرتے تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ان کے پاس آکر جانوروں کو ذبح کرنا باعث برکت ہے۔ ان کے پاس آکر دعائیں مانگتے اور ان سے امداد چاہتے تھے۔ اپنی حوائج کی تکمیل کے لئے ان پر اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے، ان سے سفارش اور برکت کی اُمیدیں رکھتے تھے۔ یہ تھا مشرکین عرب کا عقیدہ۔
پس صالحین کی قبروں پر جاکر تبرک حاصل کرنا جس طرح کہ لات کے پجاری کرتے تھے یا درختوں اور پتھروں سے برکت حاصل کرنا جیسے عُزّٰی اور مناۃ کے پرستاروں کا شیوہ تھا، یکساں نوعیت کا شرک ہے۔ لہٰذا جو شخص اس دور میں صلحاء کی قبروں سے اسی طرح کی توقعات رکھتا ہے یا کسی درخت اور پتھر کی توقیر کرتا ہے اور اس سے مدد کا طالب ہوتا ہے اس نے بھی گویا مشرکین عرب جیسا فعل کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس زمانے کے مسلمان اس سلسلے میں تو مشرکین عرب سے کہیں آگے بڑھ گئے ہیں۔
عَنْ اَبِیْ وَاقِد اللَّیْثی رضی اللہ عنہ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِلٰی حُنَیْنٍ وَنَحْنُ حُدَثَاءُ عَھْدٍ بِکُفْرٍ وَ لِلْمُشْرِکِیْنَ سِدْرَۃٌ یَّعْکُفُوْنَ عِنْدَھَا وَ یَنُوْطُوْنَ بِھَا اَسْلِحَتَھُمْ یُقَالُ لَھَا ذَاتُ اَنْوَاط فَمَرَرْنَا بِسِدْرَۃٍ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّہِ اِجْعَلْ لَنَا ذَاتَ اَنْوَاطٍ کَمَا لَھُمْ ذَاتَ اَنْوَاطٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّہِ صلی اللہ علیہ وسلم اللّہُ اَکْبَرُ اَنَّھَا السَّنَنُ قُلْتُمْ وَالَّذیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ لِمُوْسٰی اِجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھٰۃٌ قَالَ اِنَکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ لَتَرْ کَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَا نَ قَبْلَکُمْ
سیدنا ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام حنین کی طرف جارہے تھے۔ اور ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا۔ راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جس کوذات انواط کہا جاتا تھا۔مشرکین اس درخت کے پاس بیٹھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور اپنے ہتھیار بھی برکت کے لیے اس درخت پر لٹکایا کرتے تھے۔ سیدنا ابو واقد رضی اللہ عنہ کہتے ہیںچلتے چلتے ہم ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ جیسے ان مشرکین کے لیے ذاتِ انواط ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے بھی ایک ذاتِ انواط مقرر فر ما دیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَللّٰہُ اَکْبَر کہااورفرمایا : اللہ کی قسم! تم بالکل وہی بات کہہ رہے ہو جو بنی اسرائیل نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ ’’اے موسیٰ علیہ السلام ! ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود بنا دے جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں‘‘۔ موسی نے کہا ’’تم لوگ بڑی نا دانی کی باتیں کرتے ہو‘‘ ۔ (پھرفرمایا )تم بھی اگلی اُمتوں کے طریقوں پر چلو گے۔(رواہ الترمذی و صححہ)۔
مشرکین اُس درخت کی عظمت و جلالت کے پیشِ نظر اسکے پاس بیٹھنا باعث بر کت سمجھتے تھے۔ یعنی برکت حاصل کرنے کی نیّت سے اس درخت پر اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ اس لیے کہا کہ ان کے ذہن میں یہ بات پیدا ہوئی کہ یہ بھی عند اللہ پسندیدہ عمل ہے لہٰذا ہم بھی تبرّک حاصل کیا کریں۔ اگر ان کو یہ علم ہوتا کہ یہ شرک ہے تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی کیسے جرات کر سکتے تھے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِس بات کو بنی اِسرائیل کے قول سے مشابہ قرار دیا ہے کیونکہ دونوں نے الہٰ طلب کیا تھا جس کی وہ اللہ تعا لیٰ کے سوا عبادت کریں۔ دونوں کے مطالبہ کے الفاظ اگرچہ مختلف ہیں تاہم معنیٰ ایک ہی ہیں کیونکہ الفاظ کی تبدیلی سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہو جاتی۔
زیرِ بحث حدیث میں شِرک سے بچنے کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ بسا اوقات اِنسان کسِی کام کو بہتر سمجھ کر سرانجام دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اس سے اللہ تعا لیٰ کا قُرب حاصل ہو گا، لیکن در حقیقت وہ عمل انسان کو، اللہ تعالیٰ اور اُس کی رحمت سے دور اور اس کی ناراضگی اور غضب کو قریب کر رہا ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے علماء سو، عُبّاد ِقُبور، اس میں غلّوکرنے والوں اور ان کی عبادت کرنے والوں کو غور سے دیکھا ہو، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بہت بہتر اعمال سر انجام دے رہے ہیں حالا نکہ وہ ایسے گناہ میں مبتلا ہیں جس کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا۔ اس بحث سے یہ معلوم ہوا کہ:

۱۔جو شخص اولیائے کرام کی قبروں پر اعتکاف کرتا یا کسی شجر و حجر کے پاس جا کر اور وہاں جانور ذبح کرنے کو تبرک خیال کرتا ہے وہ شرک میں مبتلا ہے۔
۲۔ دوسرا مسئلہ یہ معلوم ہوا کہ احکامِ شرعیہ میں معانی کا اعتبار ہے، الفاظ کا نہیں۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے مطا لبے کو بنی اِسرائیل کے مطالبہ کے سا تھ مشابہ اور مماثل قرار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ اس کا نام انھوں نے ذاتِ انواط رکھا ہے کیونکہ شرک کا کوئی بھی نام رکھ لیا جائے وہ شرک ہی رہے گا، چاہے مردوں کو پکارنے، اُن کے نام کی نذرو نیاز دینے اور اس کے نام کا جانور ذبح کرنے کو کوئی محبت اورتعظیم کا نام دے لے، یہ بہر حال شرک ہی کہلا ئے گا۔ اِسی پر دوسرے اعمال کو قیاس کیاجا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مطلب واضح ہے کہ میری اُمت کے بعض افراد بھی یہود و نصاریٰ جیسے اعمال و افعال کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد بالکل صحیح ثابت ہورہا ہے اور اُمت کی کثیر تعداد اس میں مبتلا ہے۔

فیہ مسائل
٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو سوال کیا تھا اس کی صحیح توجیہہ و معرفت۔ ٭صحابہ کرامرضی اللہ عنہم نے جس چیز کے بارے میں سوال کیا تھا اس کو عملی جامہ نہیں پہنایا بلکہ معاملہ صرف سوال کی حد تک ہی رہا۔ ٭صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرنا تھا اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ کیونکہ ان کے ذہنوں میں یہ بات تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے پسند کرتا ہے۔ ٭ جب بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر شرک کی یہ نوعیت مخفی رہی تو ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے علم کی کیا وقعت باقی رہ جاتی ہے۔ ٭صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کے اعمال صالحہ کے بدلے مغفرت کا جو وعدہ دیا گیا ہے وہ دوسرے لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ ٭رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کو اس معاملے میں معذور نہیں سمجھا بلکہ ان کی تردید کی اور فرمایا کہ ’’ اللہ اکبر‘‘ یہی تو وہ راستے ہیں، تم بھی اپنے پہلوں کے راستے کی پیروی کرو گے۔ پس ان تین اُمور سے معاملہ کی سختی اور اہمیت واضح فرمائی۔ ٭سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فرمائش کو بنی اسرائیل کی فرمائش جیسی قرار دیا جبکہ انہوں نے سیدنا موسٰی علیہ السلام سے کہا تھا کہ ’’ہمارے لئے بھی کوئی معبود مقرر کر دیجئے‘‘۔ ٭اس قسم کے تبرک کا انکار بھی لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کے معنی میں داخل ہے جو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذہنوں سے بھی اپنی باریکی کی وجہ سے پوشیدہ رہا۔ ٭رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ ہرگز یہ نہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواہ مخواہ قسم کھائیں لیکن بایں ہمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص مصلحت و ضرورت کے موقع پر اور اہم کام میں قسم کھا لیا کرتے تھے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال کے جواب میں قسم کھائی ہے۔ ٭صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سوال پر چونکہ ان کو مرتد نہیں سمجھا گیا جس سے پتا چلا کہ شرک کی دو قسمیں ہیں: شرکِ اکبر ۔ اور شرکِ اصغر ۔ ٭صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ کہنا کہ ’’ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا‘‘ سے پتا چلا کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو سابقین اولین میں شمار ہوتے ہیں ان کو مسئلے کی نوعیت کا علم تھا۔ ٭بوقت تعجب اللہ اکبر کہنا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ اکبر کہنے سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو اس کو مکروہ خیال کرتے ہیں۔ ٭شرک و بدعت کے ذرائع بند کرنا۔ ٭اہل جاہلیت کے رسم و رواج اپنانے کی ممانعت۔ ٭دورانِ تعلیم اُستاد کا شاگرد پر ناراض ہونے کا ثبوت۔ ٭رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے کہ ’’اَنَّھَا السُنَنُ‘‘ ایک عمومی قاعدہ بیان کرنا مقصود ہے۔ ٭ علامات نبوت میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حرف بحرف اسی طرح ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جن اعمال و افعال پر یہود و نصاریٰ کی مذمت فرمائی ہے وہ حقیقت میں ہمارے لئے ایک تنبیہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کہیں ہم بھی اس میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ ٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ مانا ہوا اصول تھا کہ عبادت کی اساس اور بنیاد حکم اور امر ہے۔ ٭اہل کتاب کا مذہب اور طریقہ بھی اسی طرح نا قابل عمل اور مذموم ہے جس طرح مشرکین کا طریقہ اور مذہب۔ ٭جو شخص ابھی نیا نیا مسلمان ہوا ہو، اس کے دل میں کفرو شرک کے دور کی عادات و اطوار کا پایاجانا بعید از قیاس نہیں ہے جیسا کہ زیرِ بحث واقعہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس قول سے واضح ہے کہ نَحْنُ حُدَثَاءُ عَھْدٍ بِکُفْرٍ ہمارا زمانہ ِ کُفر ابھی نیا نیا گزرا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا، شریعت اسلامیہ میں اس کا حکم؟

غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا، شریعت اسلامیہ میں اس کا حکم؟
باب :ما جاء فِی الذَّبْح ْ لِغَیْرِ اﷲِ

اس باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو جانور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا جائے اس کے بارے میں شریعت اسلامی میں کیا حُکم ہے؟
قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَ مَمَا تِی لِلّہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (الانعام: ۱۶۲: ۱۶۳)
کہو! میری نماز ، میرے تمام مراسمِ عبودیت (یعنی قربانی)، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العٰلمین کیلئے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سرِ اطاعت جھکانے والا میں ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان مشرکین کو جو غیر اللہ کی عبادت کرتے اور غیراللہ کے نام پر جانور ذبح کرتے ہیں، خبردار کر دیں کہ میں نے اپنی نمازوں کی ادائیگی اور جانوروں کے ذبح کرنے کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرلیا ہے اور میں نے یہ محض اس لئے کیا ہے کہ مشرکین، بتوں کی پوجا کرتے اور ان کے نام سے جانور ذبح کرتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے عمل کی مخالفت اور ان کے کردار سے دامن بچا کر رکھنے کا حکم دیا ہے۔
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ
پس تم اپنے رب ہی کے لئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
زیرِ بحث آیات کا باب سے تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کہا ہے کہ جیسے وہ نماز، روزہ وغیرہ احکام پر عمل کرکے تقرب الی اللہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح وہ جانور وغیرہ کو بھی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ذبح کرکے تقرب حاصل کریں۔ مقصد یہ ہے کہ تمام قسم کی عبادات کو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کر لیں کیونکہ جب وہ غیر اللہ کے تقرب کے لئے جانور وغیرہ ذبح کریں گے تو اس کا مطلب صاف یہ ہو گا کہ انہوں نے اس عبادت میں اللہ کے ساتھ غیر اللہ کو شریک ٹھہرالیا ہے اور لفظ لا شریک لہٗ اس کی کھل کر تردید کررہا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ :
’’۱۔ بدنی اور جسمانی عبادات میں نماز کو اور ۲۔ مالی عبادات میں قربانی اور نحر کو اوّلیت حاصل ہے۔ اگر ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر غور کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں یہی دو عبادتیں نمایاں نظر آتی ہیں‘‘۔
وعن علی رضی اللہ عنہ قَالَ حَدَّثَنِیْ رَسُوْلُ اللّہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِاَرْبَعِ کَلِمَاتٍ لَعَنَ اﷲُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اﷲِ لَعَنَ اﷲُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَیْہِ لَعَنَ اﷲُ مَنْ اٰوٰی مُحْدِثًالَعَنَ اللّٰہُ مَنْ غَیَّرَ مَنَارَ الْاَرْضِ
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے چار باتیں ارشاد فرمائیں:
۱۔ جو شخص غیر اللہ کے لئے جانور ذبح کرے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت۔ ۲۔ جو شخص اپنے والدین پر لعنت کرے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت۔ ۳۔جو شخص مُحدث (یعنی بدعتی) کو پناہ دے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت۔ ۴۔جو شخص زمین کے نشانات کو مٹائے اس پر بھی اللہ تعالیٰ کی لعنت۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
’’اس آیت کریمہ کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ جو جانور غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جائے مثلاً کوئی شخص یہ کہے کہ یہ جانور فلاں ولی یا فلاں بزرگ کے لئے ہے۔ پس ذہن میں جب غیر اللہ سے کوئی مراد ہو تو خواہ نام لے یا نہ لے اسی کا نام تصور کیا جائے گا۔ وہ ذبیحہ جو عیسائی جناب مسیح علیہ السلام کے نام پر ذبح کرتے ہیں، خواہ کھانے کے لئے ہی کیوں نہ ہو، وہ اور اس مذکورہ ذبیحہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یا مثلاً کوئی شخص صرف کھانے کے لئے کسی جانور کو (غیر اللہ کے نام پر) ذبح کرے یا مسیح علیہ السلام اور زہرہ کے تقرب کے لئے کرے تو دونوں کی حرمت میں کوئی شک نہیں ہے اسی طرح جو شخص اسلام کا دعویٰ کرتا ہے اور پھر کسی ولی یا بزرگ کا تقرب حاصل کرنے کے لئے جانور ذبح کرتا ہے، یہ عبادت غیر اللہ سے استعانت سے بڑھ کر کفر ہے، جیسا کہ اُمت مسلمہ میں سے منافقین کا گروہ اس فعل کے ارتکاب میں پیش پیش ہے۔ جو کواکب وغیرہ کے تقرب کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ یہ لوگ مرتدین کے حکم میں ہیں اور ان کا ذبیحہ کھانا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے اس کی حرمت کی بڑی وجوہ دو ہیں: ۱۔ ایک یہ کہ یہ غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جاتا ہے۔ ۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ مرتد کا ذبیحہ ہے۔ مکۃالمکرمہ میں اہل جاہلیت اسی طرح جنات کے لئے ذبح کرتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کے لئے ذبح کئے گئے جانور کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے‘‘۔
صحیح بخاری میں ایک روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا کہ :
’’کبیرہ گناہوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنے ماں باپ کو گالی دے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو بھی گالی دے سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہاں! جب کوئی شخص کسی دوسرے کے ما ں باپ کو گالی دیتا ہے تو وہ بھی جواب میں اسکے ماں باپ کو گالی دیتا ہے (تو اصل میں پہلے شخص نے اپنے ہی ماں باپ کو گالی دی)۔
زمین کی حد بندی کے لیے جو نشان لگایا جاتا ہے اسکو منار کہتے ہیں۔ یعنی سڑک پر وہ علامات، جس سے مسافت معلوم ہوتی ہے۔ اور جو شخص دوسرے کی زمین ہتھیانے کے لیے نشانات کو مٹا دے وہ بھی اسی ذیل میں آتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :
’’جو شخص دوسرے بھائی کی ایک بالشت زمین ناحق لے لیتا ہے، قیامت کے دن سات زمینیں بصورتِ طوق اس کی گردن میں ڈال دی جائیں گی‘‘۔
و عن طارق ابن شھاب اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ دَ خَلَ الْجَنَّۃَ رَ جُلٌ فِیْ ذُبَابٍ وَ دَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِیْ ذُبَابٍ قَالُوْا وَ کَیْفَ ذٰلِکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَرَّ رَجُلَانِ عَلیٰ قَوْ مٍ لَّھُمْ صَنَمٌ لَا یُجَاوِزُہٗ اَحَدٌ حَتّٰی یُقَرِّب لَہٗ شَیْئًا فَقا لُوْا لِاَحَِدِھِمَا قَرِّبْ قَالَ لَیْسَ عِنْدِیْ شَیْئُ اُقَرِّبُ قَالُوْا لَہٗ قَرِّبْ وَ لَوْ ذُبَاباً فَقَرَّبَ ذُبَابًا فَخَلُّوْا سَبِیْلَہٗ فَدَخَلَ النَّارَ وَ قَالُوْا لِلْاَخَرِ قَرِّبْ فَقَالَ مَاکُنْتُ لِاُقَرِّبَ لِاَحَدٍ شَیْئًا دُوْنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَضَرَبُوْا عُنُقَہٗ فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ (رواہ احمد)۔
سیدنا طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ : ’’ایک شخص صرف ایک مکھی کی وجہ سے جنت میں جا پہنچا اور ایک جہنم میں چلا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )یہ کیسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو شخص چلتے چلتے ایک قبیلے کے پاس سے گزرے اور اس قبیلے کا ایک بہت بڑابت تھا۔ وہاں سے کوئی شخص بغیر چڑھاوا چڑھائے نہ گزر سکتا تھا چناچہ ان میں سے ایک کو کہا گیا کہ یہاں ہمارے بت پر چڑھاوا چڑھائو۔ اس نے معذرت کی کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں۔ انھوں نے کہا کہ تمہیں یہ عمل ضرور کرنا ہو گا اگرچہ ایک مکھی پکڑکر ہی چڑھا دو۔ اس مسافر نے مکھی پکڑ کر چڑھاوا ا س کی بھینٹ کر دیا اور انھوں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ شخص اس مکھی کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا۔ دوسرے شخص سے کہنے لگے کہ تم کسی چیز کا چڑھا وا چڑھا دو تو اس اللہ کے بندے نے جواب دیا کہ میں غیر اللہ کے نام پر کوئی چڑھا وا نہیں چڑھا سکتا۔ یہ جواب سنتے ہی انہوں نے اس مرد موحّدکو شہید کرد یا تو یہ سیدھا جنت میں پہنچا۔

فیہ مسائل
٭جو شخص غیراللہ کے لئے ذبح کرے اس کا پہلے ذکر اور اسے ملعون قراردینا۔ ٭ جو شخص اپنے والدین کو ملعون کہے وہ خود ملعون ہے اور اگر یہ کہ تم کسی کے والدین کو ملعون کہو گے تو لازمی طورپر وہ تمہارے والدین کو ملعون قراردیگا۔ اس طرح تم اپنے ہی والدین کو ملعون ٹھراتے ہو ۔ ٭جو شخص محدث (یعنی بدعتی) کو پناہ دے اس پر لعنت، یہ وہ شخص ہے جو کسی ظلم ارتکاب کرے اور پھر پناہ کا متلاشی ہوتا کہ اس سے اس ظلم کا بدلہ نہ لیا جا سکے۔ ٭جو شخص علاما ت زمین کو بدلتا ہے اس پر لعنت۔ ان نشانات کو آگے پیچھے کر کے اپنے پڑوسی کا حق مارنا مقصود ہے۔ ٭کسی خاص شخص کو اور بدکاروں کی جماعت پر عموماً لعنت میں فرق کی وضاحت۔ ٭ وہ قصّہ عظیم ہے جو قصّہ ذباب ہے ۔ ٭ ایک شخص مکھّی کی وجہ سے جہنّم میں چلاگیا حالانکہ اس کا مقصد اہل صنم کے شر نجات حاصل کرنا تھا نہ کہ شرک کرنا ۔ ٭ایک مومن کے دل میں شرک کتنا سنگین جرم ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے ایک ظاہری عمل کی مخالفت کر کے اپنی جان کی بازی لگادی لیکن وہ ادنیٰ شرک کرنے پر تیار نہ ہوا کیونکہ اہل صنم نے صرف ظاہری عمل کرنے کو کہا تھا۔ ٭ جو شرک کر کے جہنم کا سزاوار ٹھہرا وہ مسلمان تھا کیونکہ اگر وہ کافر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ ’’ایک مکھی کے عوض جہنم میں گیا‘‘۔ ٭زیرِ نظرحدیث ایک دوسری صحیح حدیث کے ہم معنیٰ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جنت اور دوزخ انسان کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب تر ہیں‘‘۔ ٭ دلی کیفیت کی معرفت حاصل کرنا ضرو ری ہے کیونکہ عنداللہ اسی کی مناسبت سے بدلہ ملے گا ا ور اس حقیقت کو جان لینا کہ بتوں کے پجاریوں کے ہاںبھی دل کی کیفیت ہی مقصودو مطلوب تھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غیراللہ کے نام کی نذر و نیاز کے احکام
باب:لا یذبح ِﷲِ بمکان یذبح فیہ لغیر اﷲ

اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس جگہ غیراللہ کے نام پر جانور ذبح کئے جاتے ہیں وہاں اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا نا جائز ہے۔

قَالَ اللّٰہ تَعْالیٰ لَا تَقُمْ فِیْہِ اَبَدًا لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْہِ
(پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) تم ہرگز اس عمارت میں نہ کھڑے ہونا۔جو مسجد روزاوّل سے تقوٰی پرقائم کی گئی تھی وہی اس کے لیے زیادہ موزوں ہے کہ تم اس میں(عبادت کے لیے )کھڑے ہو ۔
اس آیت کریمہ کے بارے میں مفسّرین کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومسجد ضرار میں نماز پڑھنے سے روک دیا تھا اور اس ممانعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ُامّت بھی شامل ہے۔
سیدنا ابی سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:’’قرآنِ کریم میں جس مسجد کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھے جانے کا ذکر ہے ،اس کے متعلق دو شخص مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں آپس میں ایک دوسرے سے مباحثہ کر رہے تھے۔ ایک کا کہنا یہ تھا کہ وہ مسجد قباء ہے۔ دوسرے شخص کا مو قف یہ تھا کہ اس مسجد سے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہے۔ اس پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ وہ میری یہ مسجد ہے‘‘۔(مسلم)۔
فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُطَّھِّرِیْنَ۔ (التوبہ :۱۰۸)
اس میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنا پسند کرتے ہیں اوراللہ کو پاکیزگی اختیا رکرنیوالے ہی پسند ہیں
وہ مقام، جہاں غیر اللہ کے لئے جانور ذبح کئے جاتے ہیں وہاں خالص اللہ تعالیٰ کے لیے جانور ذبح کرنے سے بچنا چاہیئے، بالکل اسی طرح، جس طرح کہ مسجد ضرار کی تعمیر اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی کی بنا پر کی گئی تھی، لہٰذا یہ مسجد اللہ تعالیٰ کے غضب کی جگہ ٹھہری، جس میں نماز جائز نہیں۔ اسی طرح جہاں غیراللہ کے نام پر جانور ذبح کئے جاتے ہوں وہاں اللہ تعالیٰ کے لئے جانور ذبح کر ناجائز نہیں ہے۔
عن ثابت بن الضحاکرضی اللہ عنہ قَالَ نَذَرَ رَ جُلٌ اَنْ یَّنْحَرَ اِبِلًا بِبُوَانَۃَ فَسَاَلَ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ ھَلْ کَانَ فِیْھَا وَثَنٌ مِّنْ اَوْثَانِ الْجَاھِلِیَّۃِ یُعْبَدُ قَالُوْا لَا قَالَ فَھَلْ کَانَ فِیْھَا عِیْدٌ مِّنْ اَعْیَادِھِمْ قَالُوْا لَافَقَالَ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اَوْفِ بِنَذرِکَ فَاِنَہٗ لَا وَفَآءَ لِنَذرٍ فِی مَعْصیَۃِ اللّہِ وَ لَا فِیْمَا لَا یَمْلِکُ ابْنُ اٰدَمَ
سیدنا ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ بوانہ نامی مقام پر جا کر چند اونٹ ذبح کرے گا اس نذر کے ماننے والے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا وہاں کوئی بت تھا جس کی مشرک پوجا کرتے تھے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا کہ کیا وہاں مشرکین کا میلہ لگا تھا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کرلو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں نذر کا پورا کرنا درست نہیں ہے۔ اور نہ وہ نذر پوری کرنا صحیح ہے جو انسان کی ملکیت میں نہ ہو۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’یہ حدیث اس بات کی بین دلیل ہے کہ جس مقام پر مشرکین کا میلہ لگتا ہو یا اس مقام پر ان کا کوئی بت وغیرہ نصب ہو، اگرچہ اس مقام پر اب نہ میلے کا اہتمام ہوتا ہو اور نہ بت پرستی ہو، تاہم ا س مقام پر اللہ تعالیٰ کے لئے کسی جانور کو ذبح کرنا ممنوع ہے اور معصیت کے دائرے میں داخل ہے کیونکہ مشرکین کا کسی جگہ پر میلہ لگانا یا کسی مقام پر ان کا غیر اللہ کی عبادت کرنا، خالص اللہ تعالیٰ کے لئے ذبح کرنے اور نذر پورا کرنے کے لئے مانع اور رکاوٹ ہے‘‘
۔ حدیث پاک کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ غلط مقام پر صحیح نذر کو پورا کرنا بھی معصیت ہے اور اس کاپورا کرنا بھی بالاجماع ممنوع ہے۔

فیہ مسائل
٭اللہ کی اطاعت اور اس کی نا فرمانی کا اثر زمین پر بھی ہوتا ہے۔ ٭مشکل مسئلہ کو پوری وضاحت سے سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ کوئی اشکال باقی نہ رہے۔ ٭اگر مفتی مناسب سمجھے تو متعلقہ مسئلہ کی تفصیلات دریافت کر سکتا ہے۔ ٭اگر کوئی شرعی رکاوٹ نہ ہو تو نذر کو پورا کرنے کے لئے کسی بھی جگہ کو مخصوص کیا جاسکتا ہے۔ ٭جس مقام پر دورِ جاہلیت کے اوثان میں سے کوئی وثن ہو، اگرچہ اس کو ختم ہی کردیا گیا ہو تاہم ایسی جگہ کو نذر پورا کرنے کیلئے منتخب نہیں کرنا چاہیئے۔ ٭مشرکین کی عید کی جگہوں پر نذر پوری کرنے سے باز رہنا چاہیئے اگرچہ مشرکین کے عید منانے کا سلسلہ ختم ہی ہو چکا ہو۔ ٭مذکورۃ الصدر ایسی جگہوں میں نذر مانی گئی ہو تو اس کو پورا نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ نذر معصیت کی نذر کہلائے گی۔ ٭مشرکین کی عید کے دن کی مشابہت سے بچنا چاہئے اگرچہ ان کے ساتھ عید منانا مقصود نہ بھی ہو۔ ٭اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سلسلے کی نذر باطل ہے۔ ٭ انسان جس کا خود مالک نہیں ہے اس کی نذر ماننا غلط ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز دینا شرک ہے

غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز دینا شرک ہے

باب: من الشرک النذر لغیر اللّہ

اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ غیر اللہ کے نام کی نذر و نیاز دینا شرک ہے​
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا (الدھر: ۷) وَ مَاَ اَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَۃٍ اَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَّذْرٍ فَاِنَّ اﷲَ یَعْلَمُہٗ
یہ وہ لوگ ہوں گے جو (دنیا میں) نذر پوری کرتے ہیں اور اُس دن سے ڈرتے ہیں جسکی آفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہوگی۔ (الدھر:۷) تم نے جو کچھ خرچ کیا ہو، اور جو نذر بھی مانی ہو اللہ کو ا سکا علم ہے
یہ آیت کریمہ نذر پوری کرنے کے وجوب پر دلالت کناں ہے کیونکہ نذر کا پورا کرنا عبادت کے قبیل سے ہے اور اس کے ساتھ اس بات کی بھی تصریح موجود ہے کہ غیر اللہ کی نذر ماننا شرک ہے اور یہ کہ جو شخص خالصۃً اللہ تعالیٰ کے لئے نذر مانتا ہے اور اسے پورا بھی کرتا ہے، وہ لائق تعریف ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد یہ امر واضح ہو گیا کہ وہ نذریں جو عبادِ قبور، اہل قبور سے تقرب حاصل کرنے کی غرض سے مانتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اصحاب ُ القبور اِن کی حاجات پوری کریں اور ان کے سفارشی بنیں، تو یہ سب بلارَیب و شک شرک فی العبادت ہے۔
جو شخص قبر وغیرہ کے لئے تیل کی نذر مانے تاکہ قبروں پر دیئے جلائے اور جیسا کہ بعض گمراہ لوگوں کا عقیدہ ہے، یہ عقیدہ رکھے کہ نذر قبول کی جاتی ہے ایسی نذر مسلمانوں کے نزدیک بالاتفاق معصیت ہے اور اسے پورا کرنا ناجائز ہے۔ یہی صور ت حال اس مال کی ہوگی جو صاحب قبر یا مجاورین کو خوش کرنے کے لئے بطورِ نذر مانا گیا ہو، کیونکہ یہ مجاورین ان لوگوں سے ملتے جلتے ہیں جو کہ لات، عُزّٰی اور مناۃ کے مجاور تھے۔ وہ بھی ناحق، لوگوں کا مال کھاتے تھے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے۔ آج کے مجاوروں کا بھی یہی حال ہے یہ بھی عوام الناس کا مال بے دریغ کھاتے ہیں اور سب سے بڑا ظلم یہ ہورہا ہے کہ یہ لوگ صراطِ مستقیم سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں
قبروں کے ان محافظوں اور مجاوروں کو نذر پیش کرنے کی حیثیت عیسائیوں کی صلیب کے محافظوں اور پہرے داروں کی سی ہے، یا پھر ہندوستان میں بُدھ (نامی شخص) کے مجسموں کے ان پجاریوں کی ہے جو اپنے بتوں کی حفاظت کی خاطر یہاں دھرنا دے کر بیٹھے رہتے ہیں۔
وفی الصحیح عن عائشۃ اَنَّ رَسُوْلَ اللّہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اﷲَ فَلْیُطِعْہُ وَ مَنْ نَذَرَ اَنْ یَّعَْصِیَ اﷲَ فَلَا یَعْصِہٖ
صحیح بخاری میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’جو شخص یہ نذر مانے کہ وہ کسی معاملہ میں اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے اپنی یہ نذر پوری کرنی چاہیئے۔ اور جو شخص ایسی نذر مانے جو اللہ کی نافرمانی پر منتج ہو تو اس کو پورا کرکے اللہ کا نافرمان نہ بنے‘‘۔
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جو نذر صر ف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے مانی گئی ہو، جیسے یہ کہے کہ اگر میرے مریض کو اللہ تعالیٰ نے صحت عطا فرمائی تو میں اتنا مال صدقہ کروں گا، تو ایسی نذر کو پورا کرنا واجب ہے۔ اگر اس نے کسی چیز کے حصول پر ایفائے نذر کو معلق رکھا تو اس کے حاصل ہونے کے بعد نذر پوری کرے۔

فیہ مسائل
٭ نذر کو پورا کرنا واجب ہے۔ ٭جب یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ نذر، اللہ کی ایک عبادت ہے تو اس عبادت کو غیر اللہ کے لئے انجام دینا شرک ہوا۔ ٭ جو نذر مبنی بر معصیت ہو اُسے پورا کرنا جائز نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غیر اللہ سے پناہ طلب کرنا شرک کے دائرہ میں داخل ہے۔

باب :مِنَ الشِّرکِ الاسْتِعَاذَۃ بِغَیر اﷲ
غیر اللہ سے پناہ طلب کرنا شرک کے دائرہ میں داخل ہے۔


اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ غیر اللہ کی پناہ طلب کرنا شرک کے دائرہ میں داخل ہے۔

ہر قسم کی موذی، مہلک اور شریر اشیاء سے بچائو کے لئے صرف اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا رُخ کرنے اور اسی کو اپنا ملجا و ماویٰ قرار دینے کو استعاذہ کہتے ہیں یہ استعاذہ کبھی تو کسی کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے ہوتا ہے اور کبھی کسی بھلائی کی طلب کے لئے۔
شارح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ وہ عبادات ہیں جن کو اخلاص کے ساتھ انجام دینے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے جیسے فرمایا: (ترجمہ) ’’کہو میں پناہ مانگتا ہوںصبح کے رب کی‘‘۔ (الفلق:۱) ’’کہو میں پناہ مانگتاہوں انسانوں کے رب کی‘‘۔ (الناس:۱)۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ
’’جنات نے یہ خیال کیا کہ ہم انسانوں سے افضل اور اعلیٰ مقام کے مالک ہیں کیونکہ انسان ہماری پناہ کی تلاش و جستجو میں رہتے ہیں۔ یعنی زمانہ جاہلیت میں لوگ جب کسی ایسی وادی میں مقیم ہوتے جہاں کوئی خطرہ ہو یا کسی جنگل میں ٹھہرتے جہاں وحشت کا سماں ہو تو اس جنگل اور وادی کے سب سے بڑے جن کی پناہ طلب کرتے کہ کہیں ہمیں کوئی چیز تکلیف نہ پہنچائے۔ جیسے اگر کوئی شخص کسی دشمن کے ملک میں جائے تو اس صورت میں کسی بہت بڑے آدمی کی پناہ حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ جب جنات نے محسوس کیا کہ انسان ڈر کر ہماری پناہ میں آتا ہے تو انہوں نے اپنا رعب، دبدبہ اور خوف و خطر کو ان پر اور زیادہ مسلط کردیا حتیٰ کہ اس زمانے میں انسان سب سے زیادہ خوف جنات ہی سے کھانے لگا‘‘۔
ابو العالیہ ، الربیع اور زید بن اسلم نے رَھَقًا کا ترجمہ خَوْفًا کیا ہے۔
قَالَ اللّٰہ تَعّالٰی وَّ اَنَّہٗ کَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْاِنْسِ یَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْھُمْ رَھَقًا(الجن :۶)
انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے بعض لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے اس طرح انہوں نے جنوں کا غرور اور زیادہ بڑھا دیا۔
جنات سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اپنی کوئی ضرورت پوری کرا لے یا اپنا کوئی حکم منوا لے، یا کسی نا معلوم اور مقام بعید کی خبر حاصل کر لے وغیرہ وغیرہ۔ اور جنات کے انسانوں سے فائدہ حاصل کرنے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان سے اپنی تعظیم کرا لے، یا اس کو استعاذہ پر مجبور کر دے یا اپنے سامنے اس کو کسی کام کے لیے مجبور کر دے وغیرہ۔
’’اس استعاذہ سے اگر کوئی دنیوی فائدہ حاصل ہو بھی جائے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہو تا کہ یہ شرک نہیں ہے بلکہ یہ شرک ہی رہے گا‘‘۔
وعن خولۃ بنت حکیم قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ مَنْ نَزَلَ مَنْزِلًافَقَالَ اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّآمَّا تِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ لَمْ یَضُرَّہٗ شَیْئٌ حَتّٰی یَرْحَلَ مِنْ مَّنْزِلِہٖ ذٰلِکَ (رواہ مسلم)۔
سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ جو شخص کسی جگہ میں ٹھہرے اور یہ کلمات کہہ لے کہ ’’میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اسکے مکمل اور بے عیب کلمات کیساتھ، تمام مخلوق کے شر سے‘‘ تو مذکو رہ دُعا پڑھنے سے اس مقام سے کوچ کرنے کے وقت تک اُسے کوئی چیز تکلیف نہ دے سکے گی
فیہ مسائل
٭ غیر اللہ سے استعاذہ کرنے کا شرک کرنا۔ ٭غیراللہ سے استعاذہ کے شرک ہونے پر حدیث سے استدلال، کیونکہ علمائے کرام اس حدیث سے یہ استد لال کرتے ہیںکہ اللہ کے کلمات مخلوق نہیں ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ مخلوق سے استعاذ ہ کرنا شرک ہے۔ اگر کلماتُ اللہ مخلوق ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے استعاذہ کی اجازت نہ دیتے۔ ٭اس دعا کے مختصر ہونے کے باوجود اس کی فضیلت۔ ٭کسی عمل سے اگر دنیاوی فائدہ حاصل ہو جائے، مثلاً کسی کی شرارت سے محفوظ رہنا یا کوئی نفع حاصل ہو جائے تو یہ فائدہ اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ یہ عمل شرک نہیں ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
غیر اللہ کو پکارنا یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اَور سے فریاد کناں ہونا شرک ہے

باب :مِنَ ا لشِّرْکَ الْاِسْتِغَاثَۃُ بِغَیْرِ اﷲ وَدُعَاء غَیْراﷲ
اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اَور سے فریاد کناں ہونا شرک ہے۔

بَابٌ مِّنَ ا لشِّرْکِ اَنْ یَّسْتَغِیْثَ بِغَیْرِ اللّٰہِ اَوْ یَدْعُوَ غَیْرہٗ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’کسی سے مدد طلب کرنے کو استغاثہ کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس سختی میں مبتلا ہو اس کا ازالہ ہو جانا۔ استغاثہ کے معنٰی بالکل اسی طرح امداد طلب کرنا ہیں جس طرح استنصارکا معنی نصرت طلب کرنااور استعانت کے معنی اِعانت طلب کرنا ہیں‘‘۔
بعض علماء نے استغاثہ اور دُعا میں فرق کیا ہے اور وہ یہ کہ استغاثہ میں شرط یہ ہے کہ مستغیث کسی مصیبت میں مبتلا ہو جبکہ دُعا عام ہے، کسی مصیبت میں مبتلا ہو یا نہ ہو، دُعا ہر وقت مانگی جا سکتی ہے۔
دعاء کی دو قسمیں ہیں۔ ۱۔ دعائے عبادت۔ ۲۔دعائے مسئلہ۔ قرآنِ کریم میں یہ دو نوں ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوئی ہیں اور بعض اوقات بیک وقت دونوں مقصود ہوتی ہیں۔ دعائے مسئلہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی تکلیف اور مشکل سے نجات کا طلبگار ہو یا کسی منافع کا خواہشمندہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سخت مذمت فرمائی ہے جو اللہ کے علاوہ ایسے افرادسے طالب ِدعا ہو جو کسی نفع یا نقصان کے قطعاً مجاز نہیں ہیں جیسا کہ فر مایا گیا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان، اگر تو ایسا کرے گا ظالموں میں سے ہو گا‘‘۔ (یونس۔۱۰۶)۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
’’ہر دعا عبادت ہے، جو مستلزم ہے دعائے سوال کو اور ہر دعا سوال ہے جو متضمِّن ہے دعائے عبادت کو،جیسا کہ دعائے سوال کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے: ’’اپنے ربّ کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (الاعراف:۵۵)۔ ’’ذرا غور کرکے بتائو اگر تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو بولو اگر تم سچے ہو تو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتاہے ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو (الانعام:۴۰،۴۱)
دعائے سوال کے بارے میں قرآنِ کریم میں بیشمار آیات موجود ہیں یہ چند آیات بطورِ نمونہ پیش کی گئی ہیں۔ یہ دعائے سوال کے بارے میں آیات، دعائے عبادت کو بھی متضمن ہیں کیونکہ سائل نے اپنا سوال فقط اللہ ہی کے سامنے پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعائے عبادت ایک ایسا عمل ہے جو تمام عبادات سے افضل واعلیٰ ہے۔یہی حالت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنے والے، کتاب اللہ کی تلاوت کرنے والے اور دوسری عبادات میں مشغول رہنے والے کی ہے کیونکہ وہ حقیقی اور معنوی طور پر اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتا ہے۔لہٰذا دعا کرنے والا بھی، عبادت گزار ہی ٹھہرا ‘‘۔
اللہ تعالیٰ اپنے خلیل علیہ السلام کی دعا کو نقل کرتے ہوئے فر ماتا ہے کہ :
(ترجمہ) ’’میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور ان ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لو گ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو ۔میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا۔ اُمید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارکے نامراد نہ رہوں گا‘‘۔
دعا کے بارے میں اللہ تعالیٰ بار بار تاکید فرماتا ہے کہ اے میرے بندو: ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اور اللہ ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے‘‘۔ (الاعراف:۵۵تا۵۶)
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں دعائے سوال ہے جو عبادت کو متضمن ہے۔ داعی (دعا کرنے والا) مدعو (جس سے دعا ء کی جائے) کے لئے راغب ہوتا اور اس کے سامنے نہایت عجزو انکساری اور تذلل و خضوع کا اظہار کرتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے الرسالہ السنیۃ میں لکھتے ہیں کہ :
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اسلام کی طرف انتساب رکھنے والے بعض افراد بڑی بڑی عبادات ادا کرنے کے باوجود دائرہ اسلام سے خارج ہوسکتے ہیں تو آج کا مسلمان بدرجہ اولیٰ دائرہ اسلام سے باہر نکل سکتا ہے اور اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ مشائخ کے بارے میں حد سے زیادہ تجاوز اور غلو کرجانا جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے متعلق بعض لوگ حد سے تجاوز کرگئے اور اسی طرح سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں عیسائیوں نے انتہائی غلو سے کام لیا۔ پس ہر وہ شخص جو کسی نبی، رسول یا کسی صالح انسان کے بارے میں غلو سے کام لیتا ہے اور اُلوہیت کا کوئی انداز اس میں تصور کرتا ہے، مثلاً یہ کہتا ہے کہ: ’’اے حضرت میری مدد کیجئے، یا میری فریاد رسی کیجئے یا مجھے رزق دیجئے یا میں تیری پناہ میں آتا ہوں‘‘۔اور اس قسم کے دوسرے اقوال؛ پس یہ سب شرک اور ضلالت ہے۔ اس قسم کے الفاظ کہنے والے سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا۔ اگر یہ توبہ کرلے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیا جائے اللہ تعالیٰ نے اسی لئے تو انبیائے کرام علیہ السلام کو مبعوث کیا اور کتابیں نازل فرمائیں کہ صرف اُسی ایک اللہ کی عبادت کی جائے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اس کے علاوہ کسی اور کو معبود نہ پکارا جائے‘‘۔
سو جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو معبود قرار دیتے تھے، مثلاً عیسیٰ علیہ السلام ، ملائکہ اور اصنام وغیرہ کو، تو ان کا یہ عقیدہ ہرگز نہ تھا کہ یہ کسی مخلوق کو پیدا کرتے ہیں یا بارش برساتے ہیں یا انگور وغیرہ اُگاتے ہیں، بلکہ وہ یا تو ان کی عبادت کرتے تھے یا ان کی قبروں کو پوجتے تھے یا ان کی تصویروں کے سامنے جھکتے تھے اور یہ کیوں کرتے تھے ؟ قرآن مجید اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے:
(ترجمہ) ’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ تک ہماری رسائی کرادیں‘‘۔ (الزمر۔۲)۔ ’’مشرک یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے صرف سفارشی ہیں‘‘۔ (یونس ۔۱۰)۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرما کر لوگوں کو اس بات سے روکا کہ وہ کسی دوسرے کو نہ پکارا کریں، نہ دعائے عبادت کی صورت میں اور نہ دعائے استغاثہ کے انداز میں‘‘۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور اپنے درمیان کسی بھی غیر اللہ کو وسیلہ بنائے، ان پر بھروسہ کرے، ان کو پکارے اور ان سے سوال کرے وہ شخص بالاجماع کافر ہے‘‘۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’شرک کی اقسام میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان اپنی ضروریات فوت شدہ اولیاء اللہ سے طلب کرے، ان کے نام سے استغاثہ کرے اور ان کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائے، حقیقت یہ ہے کہ یہی شرک کی جڑ ہے۔جوشخص فوت ہوچکا، اس کے اعمال منقطع ہو چکے۔ وہ تو اب خود اپنی ذات کے نفع و نقصان پر بھی قدرت نہیں رکھتا چہ جائیکہ دوسروں کی ضروریات میں کام آئے، ان کی فریاد سنے یا یہ کہے کہ وہ اللہ سے اسکی سفارش کرے گا۔یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ طالب و مطلوب اور شافع و مشفوع دونوں برابر ہیں‘‘۔
احناف کی مشہور کتا ب ’’فتاویٰ البزازیہ‘‘میں لکھا ہے کہ : ’’جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بزرگانِ دین اور مشائخ کی روحیں حاضر ہیں اور ہمارے بارے میں علم رکھتی ہیں، وہ کافر ہو جاتا ہے۔
شیخ صنع اللہ حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’الردّعلی من ادعی ان للاولیاء تصَرفات فِی الحیات و بعد الممات علی سبیلِ الکرامۃ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’دورِ حاضر میں مسلمانوں میں کچھ گروہ اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کو اپنی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی اس عالم میں قدرت، تصرف حاصل ہے اور شدائد و بلیات میں اُن سے استغاثہ اور استعانت کی جا سکتی ہے کیونکہ اُن کی سعی و ہمت سے مشکلات رفع ہوتی ہیں۔ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے ان کی قبروںپر آتے ہیں اور ان سے حاجات رفع کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ یہ اصحابِ کرامت تھے۔ وہ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اِن میں ابدال بھی تھے اور نقباء بھی، اوتاد بھی تھے اور نجباء بھی، ان کی تعداد ۷۷ اور ۴۴ تک پہنچتی ہے۔ قطب وہ ہے جو لوگوں کی فریادیں سنتے ہیں اور ان ہی پر اس نظام کا دارومدار ہے۔ ان کے نام کی نذر و نیاز بھی دیتے ہیں، جانور بھی ذبح کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولیاء ا ن کو مستحق اجر گردانتے ہیں‘‘۔
شیخ صنع اللہ رحمہ اللہ ، مزید فر ماتے ہیں کہ:
’’یہ وہ عقیدہ ہے جس میں نہ صرف افراط وتفریط ہی پائی جاتی ہے بلکہ اس میں ہلا کت ِ ابدی اور عذابِ سر مدی بھی ہے کیونکہ اس میں خالص شرک کی بو آتی ہے جو کتابُ اللہ کے صحیح اور واضح احکام کے صریح خلاف ہے،تمام ائمہ کرام کے عقائد سے متصادم ہے اور اجماعِ اُمت کے خلاف ہے قرآنِ کریم کہتا ہے کہ: (ترجمہ) ’’جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حالیکہ اِس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو تو اس کو ہم اسی طرح چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے‘‘۔ (النساء۔۱۱۵) ’’اور کون ہے جو خلق کی ابتداء کرتا اور پھر اسکا اعادہ کرتا ہے اور کون تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتاہے ؟کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جو ان کاموں میں حصہ دار ہے۔ لائو اپنی دلیل اگر تم سچے ہو؟ ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے‘‘(النمل۔۶۱۔۶۵)۔
یہ تمام آیاتِ قرآنی اس بات پر دلائل کناں ہیں کہ صرف اللہ تعا لیٰ ہی کو اپنی مخلوق کے لئے تدبیر، تصرف اور تقدیر کا اختیار حاصل ہے۔ اس میں کسی بھی غیر اللہ کو ذرہ برابر دخل نہیں ہے تمام کائنات اس کے قبضہ قدرت، اس کی تسخیر اور اس کے تصرف میں ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ زندگی، موت اور پیدائش اسی کے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ یہ تمام اُمور فقط اللہ تعا لیٰ کے اختیارو قدرت میں ہیں، اس لیے اس کی تعریف و ثناء میں بہت سی آیات موجود ہیں، مثلاً: (ترجمہ)
’’لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں، انھیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمھیں آسمان او رزمین سے رزق دیتا ہو، کوئی معبود اس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھو کا کھا رہے ہو؟ (فاطر:۳)۔ ’’اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ (کھجور کی گٹھلی کے چھلکے) کے مالک بھی نہیں ہیں، انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے روزوہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے، حقیقت ِ حال کی ایسی صحیح خبر ایک خبر دار کے سواکوئی نہیں دے سکتا‘‘۔
علّامہ صنع اللہ رحمہ اللہ موصوف نے یہاں بہت سی آیات نقل کی ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ:
’’تمام آیات میں لفظ ’’دُوْنِہٖ‘‘ سے ہر وہ غیر اللہ مراد ہے جسکے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ استمداد کے قابل ہے، چاہے کوئی ولی ہو یا کوئی شیطانی طاقت جو خود تو اپنی مدد نہیں کر سکتا، وہ بھلا دوسروں کی کیا مدد کرے گا؟‘‘
علامہ موصوف رحمہ اللہ مزید فر ماتے ہیں کہ:
’’یہ خیال کرنا کہ اولیاء اللہ کو مرنے کے بعد کسی قسم کے تَصّرف پر کوئی قدرت حاصل ہے،یہ ان کی زندگی میں تصرفات کا عقیدہ رکھنے سے بھی زیادہ شنیع اور بدعی عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ہے کہ : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی فوت ہونے والے ہیں‘‘۔ (الزمر:۳۰)۔ ’’وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت رُوحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے‘‘۔ (الزمر:۴۲)۔ ’’ہر جاندار چیز نے موت کا مزا چکھنا ہے‘‘۔ (۱۸۵) ۔ ’’ہر نفس اپنے کرتوت میں پھنسا ہوا ہے‘‘ (المدثر:۳۸)۔ ’’انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال مُنقطع ہو جاتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی)۔
یہ اور اس کے علاوہ دوسری آیات و احادیث اس حقیقت پر دلائل کرتی ہیں کہ موت کے بعد انسان کی حرکت وحِّس مُنقطع اور ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی ارواح اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہوتی ہیںاور ان کے اعمال میں کمی بیشی کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ میت کو تو اپنی ذات پر بھی کسی قسم کے تصرف کا کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ دوسروں کے معاملات میںکس طرح تصرف کریگی؟تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ ارواح قطعی طور پر میرے قبضے میں ہیں اور ملحد و اصحابِ بدعت یہ کہتے ہیں کہ ان کو علی الاطلاق تصرفات حاصل ہیں : ’’کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ‘‘؟۔ (البقرۃ:۱۴۰)۔
علّامہ موصوف رحمہ اللہ مزید فر ماتے ہیں کہ :
’’ان کا یہ عقیدہ کہ یہ تصّرفات ان ارواحِ اولیاء کی کرامت ہیں، تویہ ایک مغالطہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کرامت تو من جانب اللہ اولیائے کرام کے لیے ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے کسی ولی اللہ کے ذریعے ظہور پذیر ہو تا ہے، کسی شخص کو اس میں نہ کوئی دخل ہوتا ہے نہ علم ہوتا ہے اور نہ اس کے اظہار پر قدرت حاصل ہوتی ہے اس مقام پر بہت سی آیا ت نقل کرنے کے بعد علامہ رحمہ اللہ موصُوف فر ماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے یہ بات بار بار بیان فرمائی ہے کہ مصائب و مشکلات کو دُور کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور تنہا وہی مصیبت زدہ اور مضطر لوگوں کی التجاء ودعاء کو سنتا اور شرف قبولیت بخشتا ہے، اسی سے استغاثہ کیا جاتا ہے، وہی تمام کائنات کا فریاد رس ہے، وہی مصائب و بلیات کو دور کرنے پر قادر ہے۔ کسی کی خیر خواہی اس کو مقصود ہو تو وہی اصل خیر خواہ ہے، وہی خیر وبرکت کا مالک اور تقسیم کرنے والا ہے، وُہی اکیلا بلا شرکت غیرے سب کام انجام دیتا ہے‘‘۔ سوجب یہ بات ثابت ہو گئی کہ تمام اُمور فقط اسی ایک اللہ کے قبضہ وقدرت میں ہیں تو اس سے انبیاء و اولیاء اور ملائکہ سب کے متصرف اور فریاد رس ہونے کی نفی ہو گئی‘‘۔
علامہ صنع اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ظاہری اور روز مرہ کے عادی معاملات میں، جو اُمور حسیہ میں سے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہم ایک دوسرے سے تعاون طلب کرنا جائز اور مباح ہے، جیسے جنگ کے موقع پر یا دشمن کے حملے کے وقت یا کسی درندے سے بچائو کے لیے ایک دوسرے کی امداد اور نصرت حاصل کرنا اور ایسے مواقع پر یازید، یا مسلمین! کہہ کر پکارنا، یہ سب افعالِ ظاہریہ میں سے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ یہ سمجھنا کہ دوسرے انسان کی مدد اور اس کا تعاون معنوی لحاظ سے اثر انداز ہوتا ہے اور اپنے اندر کوئی خاص قوت و تاثیر رکھتا ہے جیسے شدائد ومشکلات کا دُور ہو جانا یا کسی مریض کا صحت یاب ہو جانا یا کسی کے خوف سے نجات پا جانا یا غرق ہونے سے محفوظ رہنا یا تنگی اور فقرو فاقہ سے نجات پا جانا یا طلب رزق وغیرہ کرنا۔ یہ سب اُمور، اللہ تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہیں، ان کے لیے کسی غیر اللہ کے آگے دست ِ طلب دراز نہیں کرنا چاہیئے‘‘۔
علامہ موصوف رحمہ اللہ اس سے آگے فرماتے ہیں کہ:
’’یہ عقیدہ رکھنا کہ غیر اللہ کو بلیات و شدائد کو رفع کرنے اور حاجات کے پورا ہونے میں کچھ اثر اور قدرت حاصل ہے، جیسا کہ دَور جاہلیت کے عرب کہتے تھے یا آج اس دَور کے جہال صوفیاء کا عقیدہ ہے اور وہ ان کو پکارتے بھی ہیں۔ یہ عقیدہ سراسر باطل اور منکرات میں سے ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ غیر اللہ میں سے اللہ کے کسی نبی یا ولی یا کسی روح کو کسی کرب ومصیبت کے دور کرنے یا حاجت روائی کرنے کی طاقت حاصل ہے یا وہ کسی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا اس باب میں ان کو کوئی اثر و نفوذ حاصل ہے تو ایسا شخص جہالت کی خطرناک وادی میں گامزن ہے اور دوزخ کے کنارے کھڑا ہے۔ ان کا یہ عقیدہ رکھنا کہ ’’یہ صرف کرامات ہیں‘‘ تو اللہ تعا لیٰ کی ذات بے نیاز ہے کہ اس کے اولیاء میں اس قسم کی کوئی طاقت موجود ہو۔ یہ تو اصنام و اوثان کے پچاریوں کاعقیدہ ہے، اس کی نشاندہی خود قرآن کریم نے کی ہے کہ وہ غیر اللہ کو صرف سفارشی اور صاحب کرامت سمجھتے تھے۔
قرآن کے الفاظ یہ ہے کہ: ھٰوءُ لآءِ شُفَعَآءُ نَا عِنْدَاللّٰہ یعنی ’’یہ صرف ہمارے سفارشی ہیں‘‘ (یونس :۱۸)۔ ’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں‘‘۔ (الزمر:۳)۔ کیا میں اسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنالوں؟ حالانکہ اگر اللہ رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں‘‘۔ ( یٰس۔۲۳)۔

اس بناء پر کسی نبی یا ولی کو نافع اور ضار خیال کرنا، جبکہ اس کے بس کی بات نہیں، اصلی اور حقیقی شرک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ذات میں مصیبت کو دُور کرنے کی قدرت و طاقت نہیں ہے اور نہ کسی میں نفع اور خیر پہنچانے کی قوت موثرہ موجود ہے، یہ سب طاقتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خاص ہیں۔ باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ یہ ابدال، نقباء، اوتاد اور نجباء وغیرہ، لوگوں کے فریاد رس ہیں جو بااعتبار تعداد کے ۷۷ اور ۴۴ تک پہنچتے ہیں، تو جیسا کہ صاحب ’’سراج المریدین‘‘ نے لکھا ہے، یہ ان کا اِفک اور کذب بیانی ہے۔
وَ لَاتَدْعُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَا لاَ یَنْفَعُکَ وَ لاَ یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ (یونس:۱۰۶)
اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہو گا۔
یہاں اگرچہ خطاب خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن عمومی طور پر پوری اُمت اس خطاب میں شامل ہے۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ اس آیت کی ذیل میں لکھتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے خالق، مالک اورمعبودِ حقیقی کے علاوہ کسی صنم اور الہٰ کو نہ پکارنا کیونکہ وہ دُنیا اور آخرت میں نہ آ پ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں اور نہ آپ کا کچھ بگاڑ سکیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے کسی نفع کی توقع رکھ کر یا کسی تکلیف سے ڈر کر ان کی عبادت نہ کرنا۔ ان کے اختیار میں نہ نفع ہے اور نہ ضرر۔ اگر آپ سے بھی ایسا فعل سرزد ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کو پکارا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ اس مشرک گروہ میں سے ہوجائیں گے جو اپنی ذات پر ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں‘‘۔
زیرِ بحث آیت کریمہ کی ہم معنیٰ اور ہم مطلب بہت سی آیات ہیں ۔ مثلاً:
’’پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جائو گے‘‘۔ (الشعراء: ۲۱۳)۔ ’’اور اللہ کو سوا کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو، اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں‘‘۔ (القصص:۸۸)۔
ان دو آیات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ جس کو پکارا جائے گا وہ الٰہ قرار دیا جائے گا۔ اور اُلوہیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ اس میں غیر اللہ کا قطعاً کوئی حصہ نہیں ہے۔ اِسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ۔
یہی وہ توحید ہے جس کو واضح کرنے کیلئے اور لوگوں کے ذہنوں میں مرتسم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا سلسلہ شروع فرمایا اور کتابیں نازل فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ:
’’اور ان کو اسکے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے۔ (البینہ۔۵)۔ اس آیت کریمہ سے اور اس قسم کی دوسری آیات سے یہ مسئلہ واضح ہوا کہ غیراللہ کو پکارنا کفر و شرک ہے۔
وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ھُوَ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّّحِیْمُ۔ (یونس:۱۰۷) ۔
اور اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتاہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ در گزر کرنے والا اور رحم فر مانے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ تنہا بادشاہ اور قہار ہے۔وہی بخشش اعلیٰ کا مالک اور وہی اس کو روک دینے والا ہے وہی نفع و نقصان پر قدرت رکھتا ہے اور جب یہ سب کچھ اس کے قبضہ و قدرت میں ہے تو اسی کو پکارنا چاہیئے اور اسی کی عبادت کرنا چاہیئے کیونکہ عبادت اسی کی ہو سکتی ہے جو مالک و قہار بھی ہو اور نفع ونقصان پہنچانے والا بھی ہو۔ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی میں نہیں پائی جاتیں۔ سو ثابت ہوا کہ وہی ایک اللہ ہے جو عبادت کا سزاوار ہے، وہ نہیں جو سرے سے نفع ونقصان ہی نہیں پہنچاسکتا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لاَ یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْہُ وَ اشْکُرُوْا لَہٗ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ (العنکبوت: ۷ا)۔
در حقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پر ستش کرتے ہو وہ تمھیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اللہ سے رزق مانگو اور اُسی کی بندگی کرو، اُسکا شکرادا کرو، اُسی کی طر ف تم پلٹائے جانے والے ہو۔
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَ ھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ
آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں۔ اور جب تمام انسان جمع کئے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور اُن کی عبادت کے منکر ہوں گے۔(الاحقاف:۵ تا ۶)۔
اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ:
’’اور وہی دن ہو گا جبکہ (تمہارا رب) ان لو گوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے ان معبودوں کو بھی بلا لے گا جنھیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پوج رہے ہیں۔ پھر وہ ان سے پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خودراہ راست سے بھٹک گئے تھے؟۔ وہ عرض کریں گے کہ ’’پاک ہے آپ کی ذات، ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولیٰ بنائیں مگر آپ نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامانِ زندگی دیا حتی کہ یہ سب بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے‘‘۔ (الفرقان۔۱۷،۱۸)۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابنِ جریر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’ِمنْ دُونِ اﷲ‘‘ سے انسان، فرشتے اور جن مراد ہیں جن کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں جیسے سیدنا عیسٰی علیہ السلام ، عزیر علیہ السلام اور فرشتے وغیرہ‘‘۔
قرآن کریم میں ہے کہ:
’’اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرِکاہ (یعنی کھجور کی گٹھلی کی جھلی) کے مالک بھی نہیں ہیں۔ انھیں پکارو تو وہ تمہار ی دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے۔ حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں اس خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا‘‘۔ (الفاطر۔۱۳۔۱۴)۔
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُوْٓءَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الْاَرْضِ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (النمل:۶۲)۔
کون ہے جو بے قرار کی دعاء سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے اور (کون ہے جو) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے پوچھو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم مصیبت کے وقت گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو۔ (الانعام۔۶۳) ۔
ایک جگہ پر اس کی یوں وضاحت کی کہ :
’’انسان کا یہ حال ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے۔ انسان کو جب کوئی آفت چھو جاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ انسان کبھی بھلائی کی دعاء مانگتے نہیں تھکتا۔ (فصلت۔۴۹)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دعاء عبادت کا مغز ہے‘‘۔ ایک دوسری صحیح روایت میں فرمایا گیا ہے کہ : ’’اللہ تعالیٰ کو یقینِ محکم سے پکارا کرو بایں معنیٰ کہ تمہاری دعا ء ضرور قبول ہو گی‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ : ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا اس پر وہ ناراض ہو جاتا ہے‘‘۔ ایک جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں دعاء سے زیادہ عزیز ترین کوئی چیز نہیں‘‘۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’دعا مومن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ہے۔ (الحاکم)۔ ایک خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو، یہاں تک کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو‘‘۔ (الحدیث)۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’افضل ترین عبادت دعا مانگنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مجھ سے مانگو، میں تم سب کی دعا قبول کروں گا‘‘۔
وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ
اورجب تمام انسان جمع کئے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’پوشیدہ طور سے دعا مانگنا، جہری طور پر دعا مانگنے سے ستر درجے زیادہ افضل ہے۔ دعا کے لئے مسلمان بہت کوشش کرتے تھے اور اس انداز سے دعا مانگتے تھے کہ آواز سنائی ہی نہ دیتی تھی۔ ان کی دعائیں ان کے اور ان کے رب کے درمیان رازو نیاز کی حیثیت رکھتی تھیں‘‘۔
وروی الطبرانی باسنادہٖ اَنَّہٗ کَانَ فِیْ زَمَنَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم مُنَافِقٌ یُوْذِی الْمُوْمِنِیْنَ فَقَال بَعْضُھُمْ قُوْمُوْا بِنَا نَسْتَغِیْثُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ ھٰذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِیُ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّہٗ لَا یُسْتَغَاثُ بِیْ وَ اِنَّمَا یُسْتَغَاثُ بِاللّٰہِ
طبرانی اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَورِ اقدس میں ایک منافق، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت تکلیف دیا کرتا تھا۔ چنانچہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم نے مشورہ کیا کہ چلو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس منافق سے گلو خلاصی کے لئے استغاثہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو! مجھ سے استغاثہ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے استغاثہ کرنا چاہئے۔یہ حدیث اس پر نص ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے علاوہ کسی سے بھی استغاثہ کرنا ممنوع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے اس لفظ کے استعمال کو ممنوع قرار دیاہے، اگر چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اس کی طاقت رکھتے تھے۔ اس کراہت کی وجہ توحید کی حمایت اور نصرت تھی۔ نیز یہ کہ ذرائع شرک کے دروازے بند ہو جائیں۔ اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ادب و تواضع کا یہی تقاضا ہے۔ اس کی ایک وجہ افعال و اقوال سے اُمت کوذرائع شرک سے ڈرانا اور محفوظ رکھنا بھی ہے۔
غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں قدرت اور طاقت کے باوجود اس سے انکار فرمادیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کیونکر صحیح قرار پاسکتا ہے؟ اور وہ اُمور جو صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت میں ہیں، کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کئے جاسکتے ہیں؟

اس قسم کے لوگ بھی اس عظیم و کریم سے استغاثہ کرنے سے اعراض کر گئے ہیں جو ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ تخلیق کائنات کا سارا سلسلہ جس کے ہاتھ میں ہے اور تمام عالم میں وہ اکیلا ہی صاحب امر اور صاحب تدبیر ہے اس کے سوا نہ کوئی الٰہ ہے، نہ رب۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے یہ کہلواتا ہے کہ:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہہ ’’میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے‘‘۔ (الاعراف: ۱۸۸)۔
سور ئہ جن میں ہے:
’’(پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) کہو کہ میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا‘‘۔
ان لوگوں نے قرآن کریم کی ان واضح اور محکم آیات کو چھوڑ کر اپنا الگ ایک عقیدہ بنالیا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی اور بھی بہت سی مخلوق ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو گئی ہے۔ انہوں نے شرک با للہ کو دین اور گمراہی کو ہدایت سمجھ لیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ کتنی بڑی مصیبت ہے اور اس کا نقصان کتنا عظیم ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ اہل توحید سے دشمنی رکھتے۔ (فاللہ المستعان)۔



فیہ مسائل
٭ غیر اللہ کو پکارناشرک اکبر ہے۔ ٭اگر صلاح و تقویٰ کی معراج پر فائز شخص بھی غیر اللہ کی رضا کیلئے اس کو پکارے گا تو وہ بھی ظالموں میں سے ہوگا۔ ٭اس کے کفر ہونے کے باوجود یہ لوگوں کو دنیا میں نفع نہیں پہنچائے گا۔ ٭اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے طالب رزق نہیں ہونا چاہیئے جیسا کہ اس کے سوا کسی سے طالب جنت نہیں ہونا چاہیئے۔ ٭جو شخص غیر اللہ کو پکارتا ہے اس سے زیادہ گمراہ کوئی نہیں۔ ٭اللہ تعالیٰ کے سوا جس کو بھی پکارا جارہا ہے وہ نہیں جانتا کہ اسے کو ن پکار رہا ہے۔ ٭غیر اللہ کو پکارنا گویا مدعو کے دل میں داعی کے خلاف بغض و عداوت پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ ٭غیر اللہ کو پکارنا حقیقت میں اس کی عبادت کرنا ہے۔ ٭خود غیر اللہ کا ان کی اس عبادت سے انکار کرنا۔ ٭غیر اللہ کو پکارنا ہی گمراہی کا سبب ہے۔ ٭سب سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ بتوں کے پجاری بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ مشکلات سے نجات دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اسی بناء پر وہ مصائب و مشکلات کے وقت خالص اللہ تعالیٰ کو ہی پکارتے ہیں۔ ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کے معنیٰ توحید کی پناہ گاہ میں داخل ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تاَدُّب کے اظہار کے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جو کوئی چیز پیدا نہ کر سکے اور خود پیدا کیا گیا ہو،نہ اپنی مددکر سکے اور نہ …

جو کوئی چیز پیدا نہ کر سکے اور خود پیدا کیا گیا ہو،نہ اپنی مددکر سکے اور نہ …
باب:قال اﷲ تعالٰی اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَھُمْ نَصْرًا وَّ لَا اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ (الاعراف:۱۹۱)

کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ اُن کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں، جو نہ اِن کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں۔
قال اﷲ تعالٰی اَیُشْرِکُوْنَ مَا لَا یَخْلُقُ شَیْئًا وَّ ھُمْ یُخْلَقُوْنَ وَ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ لَھُمْ نَصْرًا وَّ لَا اَنْفُسَھُمْ یَنْصُرُوْنَ (الاعراف:۱۹۱)
کیسے نادان ہیں یہ لوگ کہ اُن کو اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کئے جاتے ہیں، جو نہ اِن کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ آپ اپنی مدد ہی پر قادر ہیں۔
مفسرین کا کہنا ہے کہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو اس بات پر ڈانٹ پلائی ہے کہ وہ اُن کی عبادت کرتے ہیں جو کسی کو پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود مخلوق ہیں اور مخلوق اپنے خالق کی عبادت میں شریک نہیں گنا جا سکتا۔ غیر اللہ کی عبادت کے بطلان پر یہ آیت واضح دلیل اور برہانِ قاطع ہے۔ تمام مخلوق کی یہی حالت ہے، حتی کہ فرشتے، صالحین و اولیاء اور انبیائے کرام علیہم السلام سب اللہ کے محتاج ہیں اور تو اور اشرفُ المخلوقات جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مشرکین پر غلبہ اور فتح حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہی سے مدد طلب کرتے تھے۔
قرآن کریم میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
(ترجمہ) ’’اور (لوگوں نے) اللہ کے سوا اور معبود بنا لئے ہیں جو کوئی بھی چیز پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں اور نہ ہی اپنے نفع اور نقصان کا اختیار رکھتے ہیں۔ ان کے اختیار میں نہ موت ہے نہ حیات اور نہ قبر سے اٹھ کھڑے ہونا‘‘ (الفرقان:۳)۔ سورئہ الاعراف میں فرمایا: (ترجمہ) ’’(پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) فرما دیجئے کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے، اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں تو مومنوں کو ڈرانے اور خوشخبری سنانے والا ہوں۔ (الاعراف:۱۸۸)۔
سورئہ الجن میں فرمایا:
(ترجمہ) ’’(پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ بھی فرما دیجئے کہ میں تمہارے حق میں نقصان یا ہدایت کا کچھ اختیار نہیں رکھتا یہ بھی فرما دیجئے کہ اللہ کے عذاب سے مجھے کوئی پناہ نہیں دے سکتا اور میں اس کے سوا کہیں جائے پناہ نہیں پا سکتا۔ ہاں اللہ کی طرف سے، اس کے پیغامات کا پہنچا دینا (میرے ذمہ ہے)۔
غیر اللہ کوئی بھی ہو اس کو پکارنے کے بطلان پر مندرجہ بالا آیت ثبوت کے لئے کافی ہیں۔ اگر وہ نبی یا اللہ کا نیک بندہ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی ہی خالص عبادت کے شرف سے مشرف فرمایا ہے۔ اور اس کے قلب میں یہ بات راسخ کر دی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب اور معبود حقیقی مانے اور توحید کے اس مقام پر راضی رہے۔ پس جو شخص خود عابد و پرستار ہو وہ معبود کیسے بن سکتا ہے؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو شرک سے مجتنب و گریزاں رہنے کی تاکید فرمائی ہے۔
وَالَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مَا یَمْلِکُوْنَ مِنْ قِطْمِیْرٍ اِنْ تَدْعُوْھُمْ لَا یَسْمَعُوْا دُعَاؓءَ کُمْ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُوْنَ بِشِرْکِکُمْ وَلَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ (فاطر:۱۳۔۱۴)۔
اُسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ (کھجور کی گٹھلی کے چھلکے) کے بھی مالک بھی نہیں ہیں۔ انہیں پکارو تو وہ تمہاری دُعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے۔ اور قیامت کے روز وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے۔ حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں ایک خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء، ملائکہ اور اصنام وغیرہ کا، جن کی عبادت کی جاتی ہے، عجز اور ضعف بیان فرمایا اور بتایا کہ یہ کیوں عبادت و پرستش کے حقدار نہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ بیان فرمائی کہ یہ ان اسباب و صفات سے محروم ہیں جن کا ایک معبود میں پایا جانا ضرور ی ہے۔ ان اسباب میں سرفہرست مندرجہ ذیل تین اسباب ہیں:
۱۔ معبود کو مالک اور صاحب اختیار ہونا چاہیئے۔
۲۔ مدعو (معبود) کے لئے ضروری ہے کہ وہ دعاء اور آہ و بکا کرنے والے کی گریہ و زاری سنتا ہو۔ نیز؛
۳۔ دُعا سن کر اس کو قبول کرنے کی قدرت و طاقت بھی رکھتا ہو۔

ان تین شروط میں سے اگر ایک بھی کم ہو تو ان کی دعوت باطل ہو جاتی ہے۔ کجا یہ کہ تینوں ناپید ہوں۔ غیر اللہ کی عدم ملکیت مندرجہ ذیل آیات سے عیاں ہوتی ہے:
(ترجمہ) ’’یہ لوگ اللہ کریم کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جو اِن کو آسمانوں اور زمین میں روزی دینے کا ذرا بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ کسی دوسری چیز کی طاقت رکھتے ہیں‘‘۔ (النحل:۷۳)۔ (ترجمہ) ’’فرما دیجئے کہ جن کو تم اللہ کے سوا معبود خیال کرتے ہو اِ ن کو بلاؤ وہ آسمانوں اور زمین میں ذرہ بھر چیز کے بھی مالک نہیں ہیں اور نہ ان میں ان کی شرکت ہے اور نہ ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے‘‘۔ (سبا:۲۲)۔
جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ یہ لوگ پکارنے والے کی پکار کو نہیں سن پاتے، اس کی وضاحت اس آیت میں ہے: اِنْ تَدْعُوْا لَا یَسْمَعُوْا دُعَاءَ کُمْ یعنی اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعا نہیں سنیں گے، جو زندگی سے محروم ہیں، وہ یوں ان کی پکار سننے سے قاصر ہیں اور جو زندہ ہیں، جیسے فرشتے، وہ اپنے فرائض میں مصروف ہونے کی وجہ سے اِدھر ملتفت نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ اگر یہ ان کی پکار سن بھی لیں تو: مَا اسْتَجَابُوْا لَکُمْ ’’تو وہ تمہیں جواب بھی نہ دے سکیں گے‘‘۔ کیونکہ جواب دینا ان کے بس کی بات نہیں۔ اور پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے کسی کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ کسی کی پکار اور دعاء کا جواب دے نہ براہِ راست اور نہ کسی اور واسطے اور ذریعے سے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’اس شخص سے بڑھ کر اور کون گمراہ ہو سکتا ہے جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اُسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ان کے پکارنے ہی کی خبر نہ ہو اور جب لوگ جمع کئے جائیں گے تو وہ ان کے دشمن ہوں گے اور ان کی پرستش سے انکار کر دیں گے‘‘۔ (الاحقاف:۵تا۶)۔
و فی الصحیح عن انس رضی اللہ عنہ قال شُجَّ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَوْمَ اُحُدٍ کُسِرَتْ رَبَاعِیَّتُہٗ
صحیح بخاری میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنگ اُحد میں زخمی کر دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے دو دانت شہید کر دیئے گئے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی قوم کیسے کامیاب ہو گی جس نے اپنے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کر دیا ہے؟ اس پر آیت نازل ہوئی کہ ’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) فیصلہ کے اِختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں‘‘۔
عتبہ بن ابی وقاص الیمنی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت شہید کئے تھے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نچلا ہونٹ بھی زخمی ہو گیا تھا اور عبد اللہ بن شہاب الزہری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو زخمی کر دیا تھا۔ عبداللہ بن قمئہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار کو زخمی کیا تھا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خود کے دو حلقے رخسار مبارک میں دھنس گئے اور خون بہنے لگا۔ مالک بن سنان رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر خون کو چوس کر نگل لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ترجمہ) ’’اے مالک (رضی اللہ عنہ ) تجھے جہنم کی آگ ہرگز نہ چھو سکے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بالکل جڑ سے اکھڑ کر باہر گر پڑے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ دانت کا کچھ حصے ٹوٹ گیا تھا۔ اس واقعہ سے پتلا چلا کہ انبیاء علیہم السلام کو ابتلا و آزمائش کی کٹھن وادی سے گزرنا پڑا تاکہ وہ ان کے اجر میں اضافہ اور بلندئ درجات کا سبب بنیں۔ اس لئے بھی ان کو شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑا کہ ان کے ماننے والے ان کی زندگی سے سبق حاصل کریں۔ ان کی مشکلات کو سامنے رکھ کر اپنی مشکلات کا اندازہ لگائیں اور اپنے آپ کو مشکلات کا عادی بنائیں کہ اس کے بغیر منزل مقصود تک پہنچنا ممکن نہیں۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’انبیاء علیہم السلام کے لئے دنیا میں مصائب و مشکلات سے گزرنا اس لئے بھی ضروری تھا تاکہ لوگ یہ جان لیں کہ انبیاء علیہم السلام بھی عام انسانوں کی طرح ہی ہوتے ہیں اور ان کو بھی اچانک تکالیف سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس طرح کہ عام انسان کو، تاکہ لوگوںکو اس بات کا علم اور یقین ہو جائے کہ انبیاء مافوق الفطرت مخلوق نہیں ہوتے بلکہ بشر اور مخلوقِ رب ہی ہوتے ہیں، اور وہ مافوق الفطرت معجزات و واقعات جو ان سے ظہور پذیر ہوتے ہیں ان کی وجہ سے لوگ شیطانی وساوس کی گرفت میں نہ آئیں جیسا کہ ابلیس نے یہود و نصاری کو اس میں مبتلا کر دیا تھا‘‘۔
ابن عطیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے اور تکلیف محسوس ہونے لگی تو کفارِ قریش کی فلاح و کامرانی سے مایوس ہو گئے اور زبان مبارک سے یہ الفاظ نکل گئے کہ: ’’کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ …‘‘ اسی مایوسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، انجام کار میرے ہاتھ میں ہے نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضے میں۔ اس لئے جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے ہے اُسے ادا کرتے رہے اور دعا مانگتے رہیئے‘‘ ۔
و فیہ عن ابن عمررضی اللہ عنہ اَنَّہٗ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِذَا رَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ فِی الرَّکْعَۃِ الْاَخِیْرَۃِ مِنَ الْفَجْرِ اَللّٰھُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَّ فُلَانًا بَعْدَ مَا یَقُوْلُ سَمِعَ اﷲُلِمَنْ حَمِدَہٗ رَبَّنَا وَ لَکَ الْحَمْدُ فَاَنْزَلَ اﷲُ لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ الایۃ
صحیح بخاری ہی میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے کھڑے ہوئے اور سمع اللہ لمن حمدہ کہا) یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’اے اللہ! فلاں اور فلاں شخص پر لعنت فرما‘‘۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ’’(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) فیصلہ کے اختیارات میں تمہارا کوئی حصہ نہیں‘‘۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’جنگ اُحد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو گئے اور دانت مبارک شہید ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے لئے بد دعا کی: ’’اَللّٰھُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَّ فُلَانًا‘‘ (ترجمہ: اے اللہ فلاں اور فلاں پر لعنت فرما)۔
لعنت کا یہاں اصل مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! ان کو اپنی رحمتوں سے دُور رکھ۔ یہی لفظ جب انسان، انسان کے بارے میں استعمال کرتا ہے تو اس کا مطلب گالی دینا ہوتا ہے۔
قبروں کے پجاریوں کے عقائد کی تردید میں یہ واقعہ اپنے اندر زبردست حجت اور برہان رکھتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ انبیاء و صلحاء اور اولیاء اﷲ کو پکارنے والے اور ان کے نام سے اعانت حاصل کرنے والوں کو وہ نہ تو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ فائدہ دے سکتے ہیں۔
وفیہ عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قَالَ قَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم حِیْنَ اُنْزِلَ عَلَیْہِ وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ فَقَالَ یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ اَوْ کَلِمۃً نَحْوَھَا اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ لَا اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اﷲِ شَیْئًا یَا عَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَا اُغْنِیْ عَنْکَ مِنَ اﷲِ شَیْئًا یَا صَفِیَّۃَ عَمَّۃَ رَسُوْلِ اﷲِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اﷲِ شَیْئًا وَ یَا فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِیْنِیْ مِنْ مَّالِیْ مَا شِئْتِ لَا اُغْنِیْ عَنْکِ مِنَ اﷲِ شَیْئًا
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی کہ ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائیے‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر فرمایا: ’’اے قریش کی جماعت! اپنی جانوں کو بچاؤ، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں میں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا۔ اے چچا عباس بن عبدالمطلب! اے پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا ! اپنی جانوں کو بچا لو، میں اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارے کسی کام نہ آؤں گا۔ اے میری بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا ! میرے مال میں سے جو چاہے مانگ لے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں تیرے کام نہ آؤں گا‘‘۔
قولہ: اِشْتَرُوْا اَنْفُسَکُمْ: کا مطلب یہ ہے کہ:
توحید کا اقرار کرے، عبادت میں دولت خلوص سے مالا مال ہو کر، شرک سے اجتناب کر کے، اس کے حکموں کو مان کر اور اس کی منع کی ہوئی اشیاء سے رُک کر اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے بچا لو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات حاصل کرنے کا ذریعہ ان ہی احکام پر عمل پیرا ہونا ہے۔ حسب و نسب پر اعتماد کسی کام نہ آئے گا۔ اس کو اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی وقعت حاصل نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشادِ گرامی میں ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو انبیاء و صالحین کے فوت ہو جانے کے بعد اُن سے مصائب و مشکلات میں امداد کے متمنی ہوتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ ان کی سفارش کرتے ہیں، ان کو نفع پہنچاتے ہیں یا ان کی تکالیف کو دور کرتے ہیں۔ حقیقت میں یہی وہ شرک ہے جس کی وضاحت کی غرض سے اور جس کے انجام بد سے آگاہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری وضاحت سے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ صرف ایمان باﷲ اور عمل صالح ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی شے ذریعہ نجات نہیں بن سکتی۔
جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیاری بیٹی، اپنی لخت ِ جگر، اپنے مہربان چچا، اپنی پھوپھی اور اپنے عزیز ترین رشتہ داروں کو نفع نہیں پہنچا سکتے تو ان کے علاوہ دوسرے افرادِ اُمت کی کیا حیثیت اور وقعت باقی رہ جاتی ہے؟ خصوصاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے واقعہ میں تو اہل بصیرت اور عقلمندوں کے لئے بڑی عبرت اور نصیحت کا سامان پنہاں ہے۔
ان لوگوں پر سخت افسوس ہوتا ہے جو مردوں کے پاس اپنی حاجات اور مشکلات لے جاتے ہیں اور ان کے مشاہد و قبور پر اُمید و خوف کے ملے جلے جذبات سے کامل توجہ اور انکساری کے ساتھ حاضری دیتے ہیں حالانکہ وہ خود اتنے عاجز اور درماندہ ہیں کہ اپنی جان کے لئے بھی نفع مند ثابت نہیں ہو سکتے اور نہ اپنی تکالیف ہی کو ازخود دور کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں بھلا دوسروں کے کام کس طرح پورے کر سکتے ہیں؟


فیہ مسائل
٭ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قنوتِ نازلہ پڑھنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سادات الاولیاء یعنی صحابہ کا آمین کہنا۔ ٭ جن کے لئے بددعا کی گئی تھی وہ کافر تھے۔٭ اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ سلوک کیا جو دوسرے کفار نے نہیں کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل پر آمادہ اور کوشاں ہونا، مسلمان شہداء کا مثلہ کرنا۔ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی حالانکہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ دار تھے اور بعض تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی تھے۔ اِس قدر قریبی رشتے کی بھی اُنہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔ ٭ ان مظالم کے باوجود اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ ان کا انجامِ کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ و قدرت میں نہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’ان کی توبہ قبول کرلے یا اُن کو عذاب دے‘‘۔ چنانچہ اللہ کریم نے ان کی توبہ قبول کی اور وہ ایمان لے آئے۔ ٭نزول حوادث کے موقع پر دُعائے قنوت پڑھنا۔ ٭ جن کے لئے بد دعا کی جارہی ہو اُن کے اور اُن کے آباء و اجداد کے نام نماز میں لینا۔ ٭قنوت میں کسی خاص شخص کا نام لے کر لعنت کرنا۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی کہ ’’اپنے قریبی رشتہ داروں کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرائیے‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ایک کو پکار کر عذابِ الٰہی سے ڈرانے کا واقعہ۔ ٭ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ توحید سنائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجنون جیسے لقب سے پکارا جانا۔ آج بھی اگر کوئی شخص دعوتِ توحید دے تو اُس کو بھی ایسے ہی القاب سے پکارا جاتا ہے۔٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قریبی اور غیر قریبی سب کو علی الاعلان یہ فرمانا کہ میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بھی فرمایا کہ میں تم کو بھی عذاب الٰہی سے نہیں بچا سکوں گا۔ سید المرسلین کا سیدۃُ نساءِ العالمین فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس صراحت سے کہنا کہ میں تم کو اللہ کے عذاب سے محفوظ نہ رکھ سکوں گا، انسان کا یہ ایمان اور یقین کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سوائے حق کے دوسری بات نہیں نکلتی۔ مندرجہ بالا صراحت کی روشنی میں آج کے حالات پر بھی غور کیجئے کہ جس میں صرف عوام ہی نہیں بلکہ بعض خواص بھی مبتلا ہیں تو آپ کو صحیح توحید صاف طور پر معلوم ہو گی اور دین کی بے بسی بھی واضح ہو جائے گی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فرشتے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا حکم دیا؟

فرشتے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا حکم دیا؟ …
باب:قال اﷲ تعالیٰ حَتّٰی اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِھِمْ قَالُوْا مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ

جب گھبراہٹ اُن کے دلوں سے دور ہو جاتی ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا حکم دیا ہے؟ اس پر مقربین کہتے ہیں کہ جو حکم دینا چاہیئے تھا وہی دیا ہے۔ اور وہ عالی شان اور سب سے بڑا ہے۔
ابو حیان رحمہ اللہ اپنی مشہور تفسیر ’’البحر المحیط‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ‘
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اس بارے میں واضح ہیں کہ اس آیت کریمہ میں ’’مقربین‘‘ سے مراد فرشتے ہی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ جبرائیل علیہ السلام کی طرف وحی کرتے ہیں تو تمام فرشتے ایک آواز سنتے ہیں، جیسے کسی نے پتھر پر لوہے کو دے مارا ہو تو اس آواز کی دہشت، خوف اور ہیبت سے اُن پر غشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے‘‘۔
ہوش میں آنے کے بعد ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ پھر خود ہی ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ برحق ہے۔
قولہ: وَھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ: یہاں مراد بلندئ قدر و منزلت، بلندئ قہر و اِختیار اور بلندئ ذات ہے۔ غرض ہر قسم کی کامل ترین بلندیاں اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کے لئے خاص ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن المبارک رحمہ اللہ سے جب سوال کیا گیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت کیسے حاصل کریں؟ تو فرمایا: اِس طرح کہ اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات سے جدا (بائن) عرش پر استوا پذیر مانیں‘‘۔ اس عقیدہ کو قرآن کریم سے ماخوذ اور اللہ کی طرف سے تعلیم کردہ خیال کرے جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی (طہ:۵) ’’رحمن عرش پر استوا پذیر ہوا۔ اسی طرح فرمایا: ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ (الفرقان:۵۹)۔ ’’پھر وہ (اللہ) عرش پر استوا پذیر ہوا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا عرش پر استوا پذیر ہونا قرآن کریم میں تقریباً سات مقامات پر آتا ہے۔
قولہ: اَلْکَبِیْرُ: یعنی اللہ تعالیٰ سے نہ تو کوئی بڑا ہے اور نہ کوئی اعظم ہے۔ تبارک و تعالیٰ۔
فی الصحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَا قَضَی اﷲُ الْاَمْرَ فِی السَّمَاؓءِ ضَرَبَتِ الْمَلَاؓئِکَۃُ بِاَجْنِحَتِھَا إُضْعَانًا لِقَوْلِہٖ کَاَنَّہٗ سَلْسَلَۃٌ عَلٰی صَفْوَانٍ یَنْفَذُھُمْ ذٰلِکَ حتّٰی اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِھِمْ قَالَوْا مَا ذَا قَالَ رَبُّکُمْ قَالُوا الْحَقَّ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ فیَسمَعُھَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ وَ مُسْتَرِقُ السَّمْعِ ھٰکَذَا بَعْضُہٗ فَوْقَ بَعْضٍ وَ صَفَہٗ سُفْیَانُ بِکَفِّہٖ فَحَرَّفَھَا وَ بَدَّدَ بَیْنَ اَصَابِعِہٖ فَیَسْمَعُ الْکَلِمَۃَ فَیُلْقِیْھَا اِلٰی مَنْ تَحْتَہٗ ثُمَّ یُلْقِیْھَا الْاَخَرُ اِلٰی مَنْ تَحْتَہٗ حَتّٰی یُلْقِھَا عَلٰی لِسَانِ السَّاحِرِ اَوِ الْکَاھِنِ فَرُبَمَا اَدْرَکَہُ الشِّھَابُ قَبْلَ اَنْ یُّلْقِیَھَا وَ رُبَمَا اَلْقَاھَا قَبْلَ اَنْ یُّدْرِکَہٗ فَیَکْذِبُ مَعَھَا مِائَۃَ کَذْبَۃٍ فَیُقَالُ اَلَیْسَ قَدْ قَالَ لَنَا یَوْمَ کَذَا وَ کَذَا کَذَا وَ کَذَا فَیَصَدَّقُ بِتِلْکَ الْکَلِمَۃ الَّتِیْ سُمِعَتْ مِنَ السَّمَاؓءِ
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان میں کسی بات کا فیصلہ صادر فرماتا اور حکم دیتا ہے تو مارے ڈر اور خوف کے فرشتے اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی بنا پر اپنے پروں کو پھڑپھڑانے لگتے ہیں اور اللہ کے کلام کی آواز ایسی واضح اور زوردار ہوتی ہے جیسے صاف اور نرم پتھر سے لوہے کی زنجیر ٹکڑائے یہ آواز ان فرشتوں کے دلوں میں اُتر جاتی ہے۔ جب ان کو گھبراہٹ اور غشی سے افاقہ ہوتا ہے تو ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا؟ جواب دیتے ہیں جو کچھ فرمایا وہ حق ہی ہے اور وہ صاحب علو ہے۔ چنانچہ اس کلامِ ربانی کو شیطان چوری چھپے سننے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ صف بصف زمین سے آسمان تک اوپر تلے سننے پر آمادہ رہتے ہیں۔ (راوئ حدیث) سیدنا سفیان رحمہ اللہ نے شیاطین کے صف بصف اوپر تلے ہونے کی حالت کو اپنا ہاتھ ٹیڑھا کر کے اور اُنگلیوں میں فاصلہ دے کر بتایا کہ اس طرح کھڑے ہوتے ہیں۔ جب سب سے اُوپر والا شیطان کوئی بات سنتا ہے تو وہ اپنے سے نیچے والے کو بتاتا ہے اور وہ اپنے سے نیچے والے کو بتاتا ہے یہاں تک کہ وہ ساحر یا کاہن کو بتا دیتا ہے۔ پس کاہن کو بتانے سے پہلے ہی شہاب اُس کو جلا دیتا ہے اور کبھی بات بتانے کے بعد اس پر آ کر گرتا ہے۔ پس شیطان ایک بات کے ساتھ سو جھوٹ ملاتا ہے۔ اور کبھی سن کر کاہن اس میں سو جھوٹ ملا دیتا ہے۔ اگر کوئی بات ہو جائے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں روز فلاں کاہن نے یوں ہی نہ کہا تھا چنانچہ صرف ایک سچی بات جو آسمان سے سنی گئی تھی، کی وجہ سے کاہن کو سمجھا سچا جاتا ہے۔
مزید سمجھنے کے لئے امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو مرفوع روایت نقل کی ہے اس پر غور کیجئے تو بات صاف ہو جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(ترجمہ) ’’فرشتے بادلوں میں نازل ہوتے ہیں اور جو فیصلہ آسمان میں ہوتا ہے اُس کا تذکرہ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس آواز کو شیاطین چوری چھپے سن لیتے ہیں اور کاہنوں تک پہنچا دیتے ہیں‘‘۔
شہاب سے مراد وہ ٹوٹا ہوا ستارہ ہے جو شیاطین پر پھینکا جاتا ہے یعنی کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ یہ شہاب سننے والے شیطان کو جلا دیتا ہے۔ پتہ چلا کہ اگر کسی کی باتوں میں ایک آدھ بات سچی اور صحیح ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس کی سب کی سب باتیں سچی ہوں گی۔ کیونکہ گمراہ اور بدعتی لوگوں کا شیوہ ہی یہ ہوتا ہے کہ ایک بات صحیح اور اس کے ساتھ کئی جھوٹی، غلط اور بے بنیاد باتیں ملا کر عوام کو دھوکے اور فریب میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ صحیح بات صرف اس لئے کہتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان کی جھوٹی باتوں کے فریب میں پھنس جائیں۔
و عن النواس بن سمعان رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا اَرَادَ اﷲُ تَعَالٰی اَنْ یُّوْحِیَ بِالْاَمْرِ تَکَلَّمَ بِالْوَحْیِ اَخَذَتِ السَّمٰوٰتُ مِنْہُ رَجْفَۃً اَوْ قَالَ رَعْدَۃً خَوْفًا مِّنَ اﷲِ تَعَالٰی فَاِذَا سَمِعَ ذٰلِکَ اَھْلُ السَّمٰوٰت صُعِقُوْا وَ خَرُّوْا ِﷲِ سُجَّدًا فَیَکُوْنُ اَوَّلَ مَنْ یَّرْفَعُ رَاْسَہٗ جِبْرِیْلُ فَیُکَلِمُہُ اﷲُ مِنْ وَحْیِہٖ بِمَا اَرَادَ ثُمَّ یَمُرُّ جِبْرِیْلُ عَلَی الْمَلَاؓئِکَۃِ کُلَّمَا مَرَّ بِسَمَآئٍ سَاَلَہٗ مَلَاؓئِکَتُھَا مَا ذَا قَالَ رُبُّنَا یَا جِبْرِیْلُ فَیَقُوْلُ جِبْرِیْلُ قَالَ الْحَقَّ وَ ھُوَ الْعَلِیُّ الْکَبِیْرُ
سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب وحی کرنا چاہتا ہے تو اُس وحی کے ذریعہ سے کلام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی آواز سنتے ہی تمام آسمانوں پر اللہ کے خوف سے کپکپی اور دہشت طاری ہو جاتی ہے۔ پھر جب اسے آسمان والے سنتے ہیں تو بیہوش ہو کر سجدے میں گر پڑتے ہیں پس سب سے پہلے جبریل علیہ السلام سر اٹھاتے ہیں اور جن سے اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے گفتگو فرماتا ہے۔ جس آسمان سے جبریل علیہ السلام فرشتوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ دریافت کرتے ہیں کہ ہمارے رب تعالیٰ نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ جبریل علیہ السلام جواب دیتے ہیں کہ حق ہی فرمایا ہے اور وہی صاحب علو (بلندی و بڑائی) ہے۔
یہ حدیث منکرین کلام الٰہی (یعنی اللہ تعالیٰ کو کلام کرنے والا نہ ماننے والوں) پر اہل سنت کی طرف سے دلیل اور برہانِ قاطع ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: لَمْ یَزَلِ اﷲُ مُتَکَلِّمًا اِذَا شَآءَ ’’اللہ تعالیٰ ازل سے صفت ِ کلام سے متصف رہا ہے، اُس نے جب چاہا تکلم فرمایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ آسمان اللہ کے کلام کو سنتے ہیں، اس سلسلے میں ابن ابی حاتم نے سیدنا عکرمہ رضی اللہ عنہ سے جو روایت نقل کی ہے وہ منکرین کے عقائدِ باطلہ پر ایک ضرب کی حیثیت رکھتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(ترجمہ) ’’جب اللہ تعالیٰ کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو اس سے آسمانوں، زمینوں اور پہاڑوں پر ایک زلزلہ کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور تمام فرشتے سجدہ میں گر جاتے ہیں‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ گرامی سے یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں احساس اور معرفت کا ملکہ پیدا کر دیا ہے، تبھی تو وہ اللہ تعالیٰ سے خوف کھاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ یہ عظیم مخلوق بھی اس کی تسبیح و تہلیل کہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(ترجمہ) ’’ساتوں آسمان اور زمینیں اور اُن کے رہنے والے سب اسی کی تسبیح بیان کرتے ہیں، اور کوئی چیز نہیں مگر اُس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے لیکن تم اُن کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔ بیشک وہ بردبار (اور) غفار ہے‘‘۔ (سورئہ بنی اسرائیل:۴۴)۔
مسند امام احمد میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک صحیح روایت یوں منقول ہے: (ترجمہ) ’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل کو اُس کی اپنی صورت میں دیکھا کہ اُس کے پر چھ سو تھے اور ہر ایک پر آسمان کے کناروں تک پھیلا ہوا تھا (خوف اور ڈر کی وجہ سے) اُس کے پیروں سے موتی اور یاقوت گر رہے تھے جن کی تعداد کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔
اس حدیث پر غور کیجئے کہ جب اللہ تعالیٰ کی مخلوق اتنی بڑی ہو سکتی ہے تو اُس خالق کائنات کی عظمت، جلالت اور کبریائی کا اندازہ کون کر سکتا ہے؟
سب سے اہم مسئلہ جس پر غور و فکر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس خالق کائنات کے علاوہ کون ہے جس کی عبادت کی جائے، جس سے دُعا کی جائے، جس سے ڈرا اور خوف کھایا جائے اور کون ہے جس پر بھروسہ کیا جائے اور اُس سے اُمیدیں وابستہ کی جائیں اور ان عبادات کے علاوہ دوسری عبادات کا اللہ کے سوا کون مستحق ہے؟ فرشتوں کی حالت اور ان کے خوف و دہشت پر ایک نظر ڈالیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے کس قدر لرزہ براندام ہیں۔ ان کی حالت کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا ہے: (ترجمہ) ’’بلکہ وہ (فرشتے) اُس کے صاحب عزت بندے ہیں۔ اسکے آگے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور اسی کے حکم پر عمل پیرا رہتے ہیں جو کچھ ان سے پہلے ہو چکا اور جو کچھ اب ہو گا وہ سب سے آگاہ اور واقف ہے اور وہ کسی کی سفارش نہیں کر سکتے مگر اُس شخص کی جس سے اللہ خوش ہو اور وہ اُس کی ہیبت سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور جو بھی ان میں سے یہ کہے کہ اللہ کے بعد میں بھی معبود ہوں تو اسے ہم دوزخ کی سزا دیں گے اور ظالموں کو ہم ایسی ہی سزا دیا کرتے ہیں‘‘۔ (الانبیاء: ۲۶ تا ۲۹)
اس باب میں جن آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے، یہ اُس توحید کی وضاحت اور توضیح کرتی ہیں جس کا بیان کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ میں ہے کیونکہ وہ ملک عظیم جس کے کلام کو سن کر فرشتے خوف و دہشت سے غش کھا کر گر پڑتے ہیں اور تمام مخلوقات اس سے گھبراتی اور کانپتی ہیں اور وہ ذاتِ اقدس ہے جو اپنی صفات، اپنے علم، اپنی قدرت، اپنی بادشاہت، اپنی عظمت و شرف اور بے نیازی میں تمام مخلوقات سے کامل و اکمل ہے اور ساری کائنات اس کی محتاج ہے اور اس کے فیصلے، اس کا تصرف اور اس کی تقدیر مخلوقات میں نافذ اور جاری و ساری ہیں کیونکہ وہ علیم و حکیم ہے۔ پس ایسی باکمال ذاتِ کبریا کے ساتھ کسی کو اس کی عبادت میں شریک ٹھہرانا شرعاً یا عقلاً کسی لحاظ سے بھی درست نہیں۔ جو خود پرورش یافتہ ہو، اُسے پرورش کنندہ کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ اور جو خود عابد ہو، اُسے معبود کیونکر مانا جا سکتا ہے؟ ان کی عقلیں کہاں چلی گئی ہیں اور ان کی قوتِ فہم کیوں سلب ہو گئی ہے؟ تعجب ہے کہ یہ موٹی موٹی باتیں ان کی سمجھ میں نہیں آتیں؟ سُبْحَانَ اﷲِ عَمَّا یُشْرِکُوْن۔ اللہ تعالیٰ تو صاف اور کھلے الفاظ میں فرماتا ہے: (ترجمہ) تمام شخص جو زمین و آسمان میں ہیں، سب اللہ کے رُوبرو غلامانہ حیثیت سے آئیں گے اُس نے ان کو گھیر رکھا اور شمار کر رکھا ہے اور سب قیامت کے دِن ان کے سامنے اکیلے اکیلے حاضر ہوں گے۔ (مریم:۹۳تا۹۵)۔
پس بلا استثناء جب تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی غلام اور عبید ہے تو بغیر کسی دلیل و حجت کے ایک دوسرے کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ صرف اپنی رائے کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں اور اختراعات اور من گھڑت اُمور میں مبتلا ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اوّل سے آخر تک تمام انبیائے کرام علیہم السلام کو صرف اس لئے مبعوث فرمایا کہ وہ لوگوں کو شرک سے بچنے کی تلقین کریں اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں کی عبادت سے منع کریں، اور حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کی اطاعت میں ایسا ہی کیا۔

فیہ مسائل
٭ آیت ’’حتی اذا فزع‘‘ ابطالِ شرک پر دلیل ہے، خصوصاً اُس شرک پر جس کا تعلق صلحائے اُمت سے ہے، جو انسان کے دل سے شرکیہ عقائد کی جڑیں کاٹتی ہے۔ ٭ فرشتوں کے سوال کرنے کا سبب اور وجہ۔ ٭ فرشتوں کے سوال کے بعد جبریل علیہ السلام ان کو جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ یہ ارشادات فرمائے ہیں۔ ٭اس بات کی وضاحت کہ غشی کے بعد سب سے پہلے جبریل علیہ السلام اپنا سر اٹھاتے ہیں۔ ٭ چونکہ ہر آسمان کے فرشتے جبریل علیہ السلام سے سوال کرتے ہیںلہٰذا وہ سب کو جواب دیتے ہیں۔ ٭بیہوشی اور غشی تمام آسمانوں کے فرشتوں پر طاری ہو جاتی ہے۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے کلام سے آسمانوں کا لرزنا۔ ٭ وحی الٰہی کو صرف جبریل علیہ السلام جہاں اللہ تعالیٰ اس کو حکم دیتا ہے، منزلِ مقصود تک پہنچاتا ہے۔ ٭شیاطین کے چوری چھپے کلامِ الٰہی کو سننے کا ذکر۔ ٭شیاطین کے صف بہ صف ایک دوسرے کے اوپر تلے کھڑے ہونے کی صورت اور کیفیت۔ ٭ شیاطین پر شہاب کا گرنا۔ ٭ بعض اوقات شیاطین کے سننے سے پہلے ہی شہاب اُن کو خاکستر بنا دیتا ہے اور بعض اوقات وہ سننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اپنے گلے بندھوں کے کانوں میں جا کر ڈال دیتے ہیں۔ ٭بعض اوقات کاہن بھی ٹھیک ٹھیک بات بتا دیتا ہے۔ ٭کاہن اگر ایک بات صحیح بتاتا ہے تو اُس کے ساتھ سو جھوٹ بھی ملا دیتا ہے۔ ٭ کاہن کے جھوٹ کو لوگ صرف اس لئے تسلیم کر لیتے ہیں کہ اُس نے ایک سچی بات بھی تو کہی تھی اور وہ بھی آسمان سے سنی گئی تھی۔ ٭ نفوس انسانی باطل کو بہت جلد قبول کر لیتے ہیں۔ غور کیجئے کہ انسان کاہن کی صرف ایک سچی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اُسے سچا تسلیم کر لیتا ہے لیکن اس کے سو جھوٹ کی کیوں پرواہ نہیں کرتا؟۔ ٭ شیاطین ایک دوسرے سے سن کر اُسے یاد کر لیتے ہیں اور اس سے بعض دوسرے جھوٹوں کے صحیح ہونے پر استدلال کرتے ہیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ کی صفات کا اثبات، اشاعرہ و معطلہ (فرقے) اس کو نہیں مانتے۔ ٭یہ دہشت اور غشی اللہ تعالیٰ کے خوف سے طاری ہوتی ہے۔ ٭تمام فرشتے اللہ تعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر جاتے ہیں۔
 
Top