غیر اللہ کو پکارنا یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اَور سے فریاد کناں ہونا شرک ہے
باب :مِنَ ا لشِّرْکَ الْاِسْتِغَاثَۃُ بِغَیْرِ اﷲ وَدُعَاء غَیْراﷲ
اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ غیر اللہ کو پکارنا یا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اَور سے فریاد کناں ہونا شرک ہے۔
بَابٌ مِّنَ ا لشِّرْکِ اَنْ یَّسْتَغِیْثَ بِغَیْرِ اللّٰہِ اَوْ یَدْعُوَ غَیْرہٗ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’کسی سے مدد طلب کرنے کو استغاثہ کہتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس سختی میں مبتلا ہو اس کا ازالہ ہو جانا۔ استغاثہ کے معنٰی بالکل اسی طرح امداد طلب کرنا ہیں جس طرح استنصارکا معنی نصرت طلب کرنااور استعانت کے معنی اِعانت طلب کرنا ہیں‘‘۔
بعض علماء نے استغاثہ اور دُعا میں فرق کیا ہے اور وہ یہ کہ استغاثہ میں شرط یہ ہے کہ مستغیث کسی مصیبت میں مبتلا ہو جبکہ دُعا عام ہے، کسی مصیبت میں مبتلا ہو یا نہ ہو، دُعا ہر وقت مانگی جا سکتی ہے۔
دعاء کی دو قسمیں ہیں۔ ۱۔ دعائے عبادت۔ ۲۔دعائے مسئلہ۔ قرآنِ کریم میں یہ دو نوں ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوئی ہیں اور بعض اوقات بیک وقت دونوں مقصود ہوتی ہیں۔ دعائے مسئلہ یہ ہے کہ کوئی شخص کسی تکلیف اور مشکل سے نجات کا طلبگار ہو یا کسی منافع کا خواہشمندہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سخت مذمت فرمائی ہے جو اللہ کے علاوہ ایسے افرادسے طالب ِدعا ہو جو کسی نفع یا نقصان کے قطعاً مجاز نہیں ہیں جیسا کہ فر مایا گیا ہے کہ:
(ترجمہ) ’’اور اللہ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان، اگر تو ایسا کرے گا ظالموں میں سے ہو گا‘‘۔ (یونس۔۱۰۶)۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
’’ہر دعا عبادت ہے، جو مستلزم ہے دعائے سوال کو اور ہر دعا سوال ہے جو متضمِّن ہے دعائے عبادت کو،جیسا کہ دعائے سوال کے بارے میں قرآن کریم کہتا ہے: ’’اپنے ربّ کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ (الاعراف:۵۵)۔ ’’ذرا غور کرکے بتائو اگر تم پر اللہ کی طرف سے کوئی بڑی مصیبت آجاتی ہے یا آخری گھڑی آپہنچتی ہے تو کیا تم اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتے ہو بولو اگر تم سچے ہو تو۔ اس وقت تم اللہ ہی کو پکارتے ہو پھر اگر وہ چاہتا ہے تو اس مصیبت کو تم پر سے ٹال دیتاہے ایسے موقعوں پر تم اپنے ٹھہرائے ہوئے شریکوں کو بھول جاتے ہو (الانعام:۴۰،۴۱)
دعائے سوال کے بارے میں قرآنِ کریم میں بیشمار آیات موجود ہیں یہ چند آیات بطورِ نمونہ پیش کی گئی ہیں۔ یہ دعائے سوال کے بارے میں آیات، دعائے عبادت کو بھی متضمن ہیں کیونکہ سائل نے اپنا سوال فقط اللہ ہی کے سامنے پیش کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعائے عبادت ایک ایسا عمل ہے جو تمام عبادات سے افضل واعلیٰ ہے۔یہی حالت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنے والے، کتاب اللہ کی تلاوت کرنے والے اور دوسری عبادات میں مشغول رہنے والے کی ہے کیونکہ وہ حقیقی اور معنوی طور پر اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتا ہے۔لہٰذا دعا کرنے والا بھی، عبادت گزار ہی ٹھہرا ‘‘۔
اللہ تعالیٰ اپنے خلیل علیہ السلام کی دعا کو نقل کرتے ہوئے فر ماتا ہے کہ :
(ترجمہ) ’’میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور ان ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لو گ اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو ۔میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا۔ اُمید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارکے نامراد نہ رہوں گا‘‘۔
دعا کے بارے میں اللہ تعالیٰ بار بار تاکید فرماتا ہے کہ اے میرے بندو: ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ زمین میں فساد برپا نہ کرو جبکہ اس کی اصلاح ہو چکی ہے، اور اللہ ہی کو پکارو خوف کے ساتھ اور طمع کے ساتھ یقینا اللہ کی رحمت نیک کردار لوگوں سے قریب ہے‘‘۔ (الاعراف:۵۵تا۵۶)
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں دعائے سوال ہے جو عبادت کو متضمن ہے۔ داعی (دعا کرنے والا) مدعو (جس سے دعا ء کی جائے) کے لئے راغب ہوتا اور اس کے سامنے نہایت عجزو انکساری اور تذلل و خضوع کا اظہار کرتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے الرسالہ السنیۃ میں لکھتے ہیں کہ :
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اسلام کی طرف انتساب رکھنے والے بعض افراد بڑی بڑی عبادات ادا کرنے کے باوجود دائرہ اسلام سے خارج ہوسکتے ہیں تو آج کا مسلمان بدرجہ اولیٰ دائرہ اسلام سے باہر نکل سکتا ہے اور اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ مشائخ کے بارے میں حد سے زیادہ تجاوز اور غلو کرجانا جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے متعلق بعض لوگ حد سے تجاوز کرگئے اور اسی طرح سیدنا مسیح علیہ السلام کے بارے میں عیسائیوں نے انتہائی غلو سے کام لیا۔ پس ہر وہ شخص جو کسی نبی، رسول یا کسی صالح انسان کے بارے میں غلو سے کام لیتا ہے اور اُلوہیت کا کوئی انداز اس میں تصور کرتا ہے، مثلاً یہ کہتا ہے کہ: ’’اے حضرت میری مدد کیجئے، یا میری فریاد رسی کیجئے یا مجھے رزق دیجئے یا میں تیری پناہ میں آتا ہوں‘‘۔اور اس قسم کے دوسرے اقوال؛ پس یہ سب شرک اور ضلالت ہے۔ اس قسم کے الفاظ کہنے والے سے توبہ کرنے کو کہا جائے گا۔ اگر یہ توبہ کرلے تو فبہا، ورنہ اسے قتل کردیا جائے اللہ تعالیٰ نے اسی لئے تو انبیائے کرام علیہ السلام کو مبعوث کیا اور کتابیں نازل فرمائیں کہ صرف اُسی ایک اللہ کی عبادت کی جائے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، اس کے علاوہ کسی اور کو معبود نہ پکارا جائے‘‘۔
سو جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کو معبود قرار دیتے تھے، مثلاً عیسیٰ علیہ السلام ، ملائکہ اور اصنام وغیرہ کو، تو ان کا یہ عقیدہ ہرگز نہ تھا کہ یہ کسی مخلوق کو پیدا کرتے ہیں یا بارش برساتے ہیں یا انگور وغیرہ اُگاتے ہیں، بلکہ وہ یا تو ان کی عبادت کرتے تھے یا ان کی قبروں کو پوجتے تھے یا ان کی تصویروں کے سامنے جھکتے تھے اور یہ کیوں کرتے تھے ؟ قرآن مجید اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتا ہے:
(ترجمہ) ’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ تک ہماری رسائی کرادیں‘‘۔ (الزمر۔۲)۔ ’’مشرک یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہمارے صرف سفارشی ہیں‘‘۔ (یونس ۔۱۰)۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو مبعوث فرما کر لوگوں کو اس بات سے روکا کہ وہ کسی دوسرے کو نہ پکارا کریں، نہ دعائے عبادت کی صورت میں اور نہ دعائے استغاثہ کے انداز میں‘‘۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور اپنے درمیان کسی بھی غیر اللہ کو وسیلہ بنائے، ان پر بھروسہ کرے، ان کو پکارے اور ان سے سوال کرے وہ شخص بالاجماع کافر ہے‘‘۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے شاگرد ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
’’شرک کی اقسام میں سے ایک قسم یہ بھی ہے کہ انسان اپنی ضروریات فوت شدہ اولیاء اللہ سے طلب کرے، ان کے نام سے استغاثہ کرے اور ان کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جائے، حقیقت یہ ہے کہ یہی شرک کی جڑ ہے۔جوشخص فوت ہوچکا، اس کے اعمال منقطع ہو چکے۔ وہ تو اب خود اپنی ذات کے نفع و نقصان پر بھی قدرت نہیں رکھتا چہ جائیکہ دوسروں کی ضروریات میں کام آئے، ان کی فریاد سنے یا یہ کہے کہ وہ اللہ سے اسکی سفارش کرے گا۔یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ طالب و مطلوب اور شافع و مشفوع دونوں برابر ہیں‘‘۔
احناف کی مشہور کتا ب ’’فتاویٰ البزازیہ‘‘میں لکھا ہے کہ : ’’جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بزرگانِ دین اور مشائخ کی روحیں حاضر ہیں اور ہمارے بارے میں علم رکھتی ہیں، وہ کافر ہو جاتا ہے۔
شیخ صنع اللہ حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب
’’الردّعلی من ادعی ان للاولیاء تصَرفات فِی الحیات و بعد الممات علی سبیلِ الکرامۃ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’دورِ حاضر میں مسلمانوں میں کچھ گروہ اس قسم کے پیدا ہو گئے ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اولیاء اللہ کو اپنی زندگی میں بھی اور بعد از وفات بھی اس عالم میں قدرت، تصرف حاصل ہے اور شدائد و بلیات میں اُن سے استغاثہ اور استعانت کی جا سکتی ہے کیونکہ اُن کی سعی و ہمت سے مشکلات رفع ہوتی ہیں۔ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہوئے ان کی قبروںپر آتے ہیں اور ان سے حاجات رفع کرنے کی درخواست کرتے ہیں کہ یہ اصحابِ کرامت تھے۔ وہ ان کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ اِن میں ابدال بھی تھے اور نقباء بھی، اوتاد بھی تھے اور نجباء بھی، ان کی تعداد ۷۷ اور ۴۴ تک پہنچتی ہے۔ قطب وہ ہے جو لوگوں کی فریادیں سنتے ہیں اور ان ہی پر اس نظام کا دارومدار ہے۔ ان کے نام کی نذر و نیاز بھی دیتے ہیں، جانور بھی ذبح کرتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ اس سے وہ اولیاء ا ن کو مستحق اجر گردانتے ہیں‘‘۔
شیخ صنع اللہ رحمہ اللہ ، مزید فر ماتے ہیں کہ:
’’یہ وہ عقیدہ ہے جس میں نہ صرف افراط وتفریط ہی پائی جاتی ہے بلکہ اس میں ہلا کت ِ ابدی اور عذابِ سر مدی بھی ہے کیونکہ اس میں خالص شرک کی بو آتی ہے جو کتابُ اللہ کے صحیح اور واضح احکام کے صریح خلاف ہے،تمام ائمہ کرام کے عقائد سے متصادم ہے اور اجماعِ اُمت کے خلاف ہے قرآنِ کریم کہتا ہے کہ: (ترجمہ) ’’جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حالیکہ اِس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو تو اس کو ہم اسی طرح چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے‘‘۔ (النساء۔۱۱۵) ’’اور کون ہے جو خلق کی ابتداء کرتا اور پھر اسکا اعادہ کرتا ہے اور کون تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتاہے ؟کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے جو ان کاموں میں حصہ دار ہے۔ لائو اپنی دلیل اگر تم سچے ہو؟ ان سے کہو، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ نہیں جانتے کہ کب وہ اٹھائے جائیں گے‘‘(النمل۔۶۱۔۶۵)۔
یہ تمام آیاتِ قرآنی اس بات پر دلائل کناں ہیں کہ صرف اللہ تعا لیٰ ہی کو اپنی مخلوق کے لئے تدبیر، تصرف اور تقدیر کا اختیار حاصل ہے۔ اس میں کسی بھی غیر اللہ کو ذرہ برابر دخل نہیں ہے تمام کائنات اس کے قبضہ قدرت، اس کی تسخیر اور اس کے تصرف میں ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ زندگی، موت اور پیدائش اسی کے ہاتھ میں ہے۔ چونکہ یہ تمام اُمور فقط اللہ تعا لیٰ کے اختیارو قدرت میں ہیں، اس لیے اس کی تعریف و ثناء میں بہت سی آیات موجود ہیں، مثلاً: (ترجمہ)
’’لوگو، تم پر اللہ کے جو احسانات ہیں، انھیں یاد رکھو۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق بھی ہے جو تمھیں آسمان او رزمین سے رزق دیتا ہو، کوئی معبود اس کے سوا نہیں، آخر تم کہاں سے دھو کا کھا رہے ہو؟ (فاطر:۳)۔ ’’اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرکاہ (کھجور کی گٹھلی کے چھلکے) کے مالک بھی نہیں ہیں، انہیں پکارو تو وہ تمہاری دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے روزوہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے، حقیقت ِ حال کی ایسی صحیح خبر ایک خبر دار کے سواکوئی نہیں دے سکتا‘‘۔
علّامہ صنع اللہ رحمہ اللہ موصوف نے یہاں بہت سی آیات نقل کی ہے اور پھر فرماتے ہیں کہ:
’’تمام آیات میں لفظ ’’دُوْنِہٖ‘‘ سے ہر وہ غیر اللہ مراد ہے جسکے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ وہ استمداد کے قابل ہے، چاہے کوئی ولی ہو یا کوئی شیطانی طاقت جو خود تو اپنی مدد نہیں کر سکتا، وہ بھلا دوسروں کی کیا مدد کرے گا؟‘‘
علامہ موصوف رحمہ اللہ مزید فر ماتے ہیں کہ:
’’یہ خیال کرنا کہ اولیاء اللہ کو مرنے کے بعد کسی قسم کے تَصّرف پر کوئی قدرت حاصل ہے،یہ ان کی زندگی میں تصرفات کا عقیدہ رکھنے سے بھی زیادہ شنیع اور بدعی عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا ہے کہ : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہونے والے ہیں اور یہ لوگ بھی فوت ہونے والے ہیں‘‘۔ (الزمر:۳۰)۔ ’’وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت رُوحیں قبض کرتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا ہے اس کی روح نیند میں قبض کر لیتا ہے‘‘۔ (الزمر:۴۲)۔ ’’ہر جاندار چیز نے موت کا مزا چکھنا ہے‘‘۔ (۱۸۵) ۔ ’’ہر نفس اپنے کرتوت میں پھنسا ہوا ہے‘‘ (المدثر:۳۸)۔ ’’انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تمام اعمال مُنقطع ہو جاتے ہیں‘‘۔ (صحیح مسلم، ابوداؤد، ترمذی، نسائی)۔
یہ اور اس کے علاوہ دوسری آیات و احادیث اس حقیقت پر دلائل کرتی ہیں کہ موت کے بعد انسان کی حرکت وحِّس مُنقطع اور ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی ارواح اللہ تعالیٰ کے قبضے میں ہوتی ہیںاور ان کے اعمال میں کمی بیشی کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔ جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ میت کو تو اپنی ذات پر بھی کسی قسم کے تصرف کا کوئی اختیار نہیں ہوتا وہ دوسروں کے معاملات میںکس طرح تصرف کریگی؟تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ ارواح قطعی طور پر میرے قبضے میں ہیں اور ملحد و اصحابِ بدعت یہ کہتے ہیں کہ ان کو علی الاطلاق تصرفات حاصل ہیں : ’’کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ‘‘؟۔ (البقرۃ:۱۴۰)۔
علّامہ موصوف رحمہ اللہ مزید فر ماتے ہیں کہ :
’’ان کا یہ عقیدہ کہ یہ تصّرفات ان ارواحِ اولیاء کی کرامت ہیں، تویہ ایک مغالطہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ کرامت تو من جانب اللہ اولیائے کرام کے لیے ایک ایسا اعزاز ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے کسی ولی اللہ کے ذریعے ظہور پذیر ہو تا ہے، کسی شخص کو اس میں نہ کوئی دخل ہوتا ہے نہ علم ہوتا ہے اور نہ اس کے اظہار پر قدرت حاصل ہوتی ہے اس مقام پر بہت سی آیا ت نقل کرنے کے بعد علامہ رحمہ اللہ موصُوف فر ماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے یہ بات بار بار بیان فرمائی ہے کہ مصائب و مشکلات کو دُور کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور تنہا وہی مصیبت زدہ اور مضطر لوگوں کی التجاء ودعاء کو سنتا اور شرف قبولیت بخشتا ہے، اسی سے استغاثہ کیا جاتا ہے، وہی تمام کائنات کا فریاد رس ہے، وہی مصائب و بلیات کو دور کرنے پر قادر ہے۔ کسی کی خیر خواہی اس کو مقصود ہو تو وہی اصل خیر خواہ ہے، وہی خیر وبرکت کا مالک اور تقسیم کرنے والا ہے، وُہی اکیلا بلا شرکت غیرے سب کام انجام دیتا ہے‘‘۔ سوجب یہ بات ثابت ہو گئی کہ تمام اُمور فقط اسی ایک اللہ کے قبضہ وقدرت میں ہیں تو اس سے انبیاء و اولیاء اور ملائکہ سب کے متصرف اور فریاد رس ہونے کی نفی ہو گئی‘‘۔
علامہ صنع اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’ظاہری اور روز مرہ کے عادی معاملات میں، جو اُمور حسیہ میں سے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرنا اور باہم ایک دوسرے سے تعاون طلب کرنا جائز اور مباح ہے، جیسے جنگ کے موقع پر یا دشمن کے حملے کے وقت یا کسی درندے سے بچائو کے لیے ایک دوسرے کی امداد اور نصرت حاصل کرنا اور ایسے مواقع پر یازید، یا مسلمین! کہہ کر پکارنا، یہ سب افعالِ ظاہریہ میں سے ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ یہ سمجھنا کہ دوسرے انسان کی مدد اور اس کا تعاون معنوی لحاظ سے اثر انداز ہوتا ہے اور اپنے اندر کوئی خاص قوت و تاثیر رکھتا ہے جیسے شدائد ومشکلات کا دُور ہو جانا یا کسی مریض کا صحت یاب ہو جانا یا کسی کے خوف سے نجات پا جانا یا غرق ہونے سے محفوظ رہنا یا تنگی اور فقرو فاقہ سے نجات پا جانا یا طلب رزق وغیرہ کرنا۔ یہ سب اُمور، اللہ تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہیں، ان کے لیے کسی غیر اللہ کے آگے دست ِ طلب دراز نہیں کرنا چاہیئے‘‘۔
علامہ موصوف رحمہ اللہ اس سے آگے فرماتے ہیں کہ:
’’یہ عقیدہ رکھنا کہ غیر اللہ کو بلیات و شدائد کو رفع کرنے اور حاجات کے پورا ہونے میں کچھ اثر اور قدرت حاصل ہے، جیسا کہ دَور جاہلیت کے عرب کہتے تھے یا آج اس دَور کے جہال صوفیاء کا عقیدہ ہے اور وہ ان کو پکارتے بھی ہیں۔ یہ عقیدہ سراسر باطل اور منکرات میں سے ہے اور جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ غیر اللہ میں سے اللہ کے کسی نبی یا ولی یا کسی روح کو کسی کرب ومصیبت کے دور کرنے یا حاجت روائی کرنے کی طاقت حاصل ہے یا وہ کسی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں یا اس باب میں ان کو کوئی اثر و نفوذ حاصل ہے تو ایسا شخص جہالت کی خطرناک وادی میں گامزن ہے اور دوزخ کے کنارے کھڑا ہے۔ ان کا یہ عقیدہ رکھنا کہ ’’یہ صرف کرامات ہیں‘‘ تو اللہ تعا لیٰ کی ذات بے نیاز ہے کہ اس کے اولیاء میں اس قسم کی کوئی طاقت موجود ہو۔ یہ تو اصنام و اوثان کے پچاریوں کاعقیدہ ہے، اس کی نشاندہی خود قرآن کریم نے کی ہے کہ وہ غیر اللہ کو صرف سفارشی اور صاحب کرامت سمجھتے تھے۔
قرآن کے الفاظ یہ ہے کہ:
ھٰوءُ لآءِ شُفَعَآءُ نَا عِنْدَاللّٰہ یعنی ’’یہ صرف ہمارے سفارشی ہیں‘‘ (یونس :۱۸)۔ ’’ہم تو ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تک ہماری رسائی کرادیں‘‘۔ (الزمر:۳)۔ کیا میں اسے چھوڑ کر دوسرے معبود بنالوں؟ حالانکہ اگر اللہ رحمن مجھے کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نہ ان کی شفاعت میرے کسی کام آسکتی ہے اور نہ وہ مجھے چھڑا ہی سکتے ہیں‘‘۔ ( یٰس۔۲۳)۔
اس بناء پر کسی نبی یا ولی کو نافع اور ضار خیال کرنا، جبکہ اس کے بس کی بات نہیں، اصلی اور حقیقی شرک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی ذات میں مصیبت کو دُور کرنے کی قدرت و طاقت نہیں ہے اور نہ کسی میں نفع اور خیر پہنچانے کی قوت موثرہ موجود ہے، یہ سب طاقتیں اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خاص ہیں۔ باقی رہا ان کا یہ کہنا کہ یہ ابدال، نقباء، اوتاد اور نجباء وغیرہ، لوگوں کے فریاد رس ہیں جو بااعتبار تعداد کے ۷۷ اور ۴۴ تک پہنچتے ہیں، تو جیسا کہ صاحب ’’سراج المریدین‘‘ نے لکھا ہے، یہ ان کا اِفک اور کذب بیانی ہے۔
وَ لَاتَدْعُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَا لاَ یَنْفَعُکَ وَ لاَ یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ (یونس:۱۰۶)
اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچا سکتی ہے اور نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہو گا۔
یہاں اگرچہ خطاب خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن عمومی طور پر پوری اُمت اس خطاب میں شامل ہے۔ علامہ ابن جریر رحمہ اللہ اس آیت کی ذیل میں لکھتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالیٰ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !اپنے خالق، مالک اورمعبودِ حقیقی کے علاوہ کسی صنم اور الہٰ کو نہ پکارنا کیونکہ وہ دُنیا اور آخرت میں نہ آ پ کو کوئی فائدہ پہنچا سکیں اور نہ آپ کا کچھ بگاڑ سکیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے کسی نفع کی توقع رکھ کر یا کسی تکلیف سے ڈر کر ان کی عبادت نہ کرنا۔ ان کے اختیار میں نہ نفع ہے اور نہ ضرر۔ اگر آپ سے بھی ایسا فعل سرزد ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر اللہ کو پکارا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آپ اس مشرک گروہ میں سے ہوجائیں گے جو اپنی ذات پر ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں‘‘۔
زیرِ بحث آیت کریمہ کی ہم معنیٰ اور ہم مطلب بہت سی آیات ہیں ۔ مثلاً:
’’پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو ورنہ تم بھی سزا پانے والوں میں شامل ہو جائو گے‘‘۔ (الشعراء: ۲۱۳)۔ ’’اور اللہ کو سوا کسی دوسرے معبود کو نہ پکارو، اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں‘‘۔ (القصص:۸۸)۔
ان دو آیات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ جس کو پکارا جائے گا وہ الٰہ قرار دیا جائے گا۔ اور اُلوہیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے۔ اس میں غیر اللہ کا قطعاً کوئی حصہ نہیں ہے۔ اِسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ۔
یہی وہ توحید ہے جس کو واضح کرنے کیلئے اور لوگوں کے ذہنوں میں مرتسم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کا سلسلہ شروع فرمایا اور کتابیں نازل فرمائیں۔
اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ:
’’اور ان کو اسکے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے۔ (البینہ۔۵)۔ اس آیت کریمہ سے اور اس قسم کی دوسری آیات سے یہ مسئلہ واضح ہوا کہ غیراللہ کو پکارنا کفر و شرک ہے۔
وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَکَاشِفَ لَہٗ اِلاَّ ھُوَ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہٖ یُصِیْبُ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّّحِیْمُ۔ (یونس:۱۰۷) ۔
اور اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتاہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور وہ در گزر کرنے والا اور رحم فر مانے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ تنہا بادشاہ اور قہار ہے۔وہی بخشش اعلیٰ کا مالک اور وہی اس کو روک دینے والا ہے وہی نفع و نقصان پر قدرت رکھتا ہے اور جب یہ سب کچھ اس کے قبضہ و قدرت میں ہے تو اسی کو پکارنا چاہیئے اور اسی کی عبادت کرنا چاہیئے کیونکہ عبادت اسی کی ہو سکتی ہے جو مالک و قہار بھی ہو اور نفع ونقصان پہنچانے والا بھی ہو۔ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی میں نہیں پائی جاتیں۔ سو ثابت ہوا کہ وہی ایک اللہ ہے جو عبادت کا سزاوار ہے، وہ نہیں جو سرے سے نفع ونقصان ہی نہیں پہنچاسکتا۔
اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لاَ یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْہُ وَ اشْکُرُوْا لَہٗ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ (العنکبوت: ۷ا)۔
در حقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پر ستش کرتے ہو وہ تمھیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اللہ سے رزق مانگو اور اُسی کی بندگی کرو، اُسکا شکرادا کرو، اُسی کی طر ف تم پلٹائے جانے والے ہو۔
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ یَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اﷲِ مَنْ لَّا یَسْتَجِیْبُ لَہٗ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ وَ ھُمْ عَنْ دُعَآئِھِمْ غٰفِلُوْنَ وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ
آخر اس شخص سے زیادہ بہکا ہوا انسان اور کون ہو گا جو اللہ کو چھوڑ کر ان کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہیں دے سکتے بلکہ اس سے بھی بے خبر ہیں کہ پکارنے والے ان کو پکار رہے ہیں۔ اور جب تمام انسان جمع کئے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور اُن کی عبادت کے منکر ہوں گے۔(الاحقاف:۵ تا ۶)۔
اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ:
’’اور وہی دن ہو گا جبکہ (تمہارا رب) ان لو گوں کو بھی گھیر لائے گا اور ان کے ان معبودوں کو بھی بلا لے گا جنھیں آج یہ اللہ کو چھوڑ کر پوج رہے ہیں۔ پھر وہ ان سے پوچھے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خودراہ راست سے بھٹک گئے تھے؟۔ وہ عرض کریں گے کہ ’’پاک ہے آپ کی ذات، ہماری تو یہ بھی مجال نہ تھی کہ آپ کے سوا کسی کو اپنا مولیٰ بنائیں مگر آپ نے ان کو اور ان کے باپ دادا کو خوب سامانِ زندگی دیا حتی کہ یہ سب بھول گئے اور شامت زدہ ہو کر رہے‘‘۔ (الفرقان۔۱۷،۱۸)۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابنِ جریر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ :
’’ِمنْ دُونِ اﷲ‘‘ سے انسان، فرشتے اور جن مراد ہیں جن کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں جیسے سیدنا عیسٰی علیہ السلام ، عزیر علیہ السلام اور فرشتے وغیرہ‘‘۔
قرآن کریم میں ہے کہ:
’’اسے چھوڑ کر جن دوسروں کو تم پکارتے ہو وہ ایک پرِکاہ (یعنی کھجور کی گٹھلی کی جھلی) کے مالک بھی نہیں ہیں۔ انھیں پکارو تو وہ تمہار ی دعائیں سن نہیں سکتے اور سن لیں تو ان کا تمہیں کوئی جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے دن وہ تمہارے شرک کا انکار کر دیں گے۔ حقیقت حال کی ایسی صحیح خبر تمہیں اس خبردار کے سوا کوئی نہیں دے سکتا‘‘۔ (الفاطر۔۱۳۔۱۴)۔
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُوْٓءَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الْاَرْضِ ءَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (النمل:۶۲)۔
کون ہے جو بے قرار کی دعاء سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے اور (کون ہے جو) تمھیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی (یہ کام کرنے والا) ہے؟ تم لوگ کم ہی سوچتے ہو۔
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے پوچھو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں کون تمہیں خطرات سے بچاتا ہے؟ کون ہے جس سے تم مصیبت کے وقت گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے دعائیں مانگتے ہو۔ (الانعام۔۶۳) ۔
ایک جگہ پر اس کی یوں وضاحت کی کہ :
’’انسان کا یہ حال ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے۔ انسان کو جب کوئی آفت چھو جاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ انسان کبھی بھلائی کی دعاء مانگتے نہیں تھکتا۔ (فصلت۔۴۹)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’دعاء عبادت کا مغز ہے‘‘۔ ایک دوسری صحیح روایت میں فرمایا گیا ہے کہ : ’’اللہ تعالیٰ کو یقینِ محکم سے پکارا کرو بایں معنیٰ کہ تمہاری دعا ء ضرور قبول ہو گی‘‘۔ ایک روایت میں ہے کہ : ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا اس پر وہ ناراض ہو جاتا ہے‘‘۔ ایک جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں دعاء سے زیادہ عزیز ترین کوئی چیز نہیں‘‘۔ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’دعا مومن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ہے۔ (الحاکم)۔ ایک خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ہر چیز اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو، یہاں تک کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگا کرو‘‘۔ (الحدیث)۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
’’افضل ترین عبادت دعا مانگنا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’مجھ سے مانگو، میں تم سب کی دعا قبول کروں گا‘‘۔
وَاِذَا حُشِرَ النَّاسُ کَانُوْا لَھُمْ اَعْدَآئً وَّ کَانُوْا بِعِبَادَتِھِمْ کٰفِرِیْنَ
اورجب تمام انسان جمع کئے جائیں گے، اس وقت وہ اپنے پکارنے والوں کے دشمن اور ان کی عبادت کے منکر ہوں گے۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’پوشیدہ طور سے دعا مانگنا، جہری طور پر دعا مانگنے سے ستر درجے زیادہ افضل ہے۔ دعا کے لئے مسلمان بہت کوشش کرتے تھے اور اس انداز سے دعا مانگتے تھے کہ آواز سنائی ہی نہ دیتی تھی۔ ان کی دعائیں ان کے اور ان کے رب کے درمیان رازو نیاز کی حیثیت رکھتی تھیں‘‘۔
وروی الطبرانی باسنادہٖ اَنَّہٗ کَانَ فِیْ زَمَنَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم مُنَافِقٌ یُوْذِی الْمُوْمِنِیْنَ فَقَال بَعْضُھُمْ قُوْمُوْا بِنَا نَسْتَغِیْثُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ ھٰذَا الْمُنَافِقِ فَقَالَ النَّبِیُ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّہٗ لَا یُسْتَغَاثُ بِیْ وَ اِنَّمَا یُسْتَغَاثُ بِاللّٰہِ
طبرانی اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَورِ اقدس میں ایک منافق، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بہت تکلیف دیا کرتا تھا۔ چنانچہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم نے مشورہ کیا کہ چلو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس منافق سے گلو خلاصی کے لئے استغاثہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو! مجھ سے استغاثہ نہیں کیا جاسکتا، بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے استغاثہ کرنا چاہئے۔یہ حدیث اس پر نص ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے علاوہ کسی سے بھی استغاثہ کرنا ممنوع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے اس لفظ کے استعمال کو ممنوع قرار دیاہے، اگر چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اس کی طاقت رکھتے تھے۔ اس کراہت کی وجہ توحید کی حمایت اور نصرت تھی۔ نیز یہ کہ ذرائع شرک کے دروازے بند ہو جائیں۔ اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ادب و تواضع کا یہی تقاضا ہے۔ اس کی ایک وجہ افعال و اقوال سے اُمت کوذرائع شرک سے ڈرانا اور محفوظ رکھنا بھی ہے۔
غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں قدرت اور طاقت کے باوجود اس سے انکار فرمادیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کیونکر صحیح قرار پاسکتا ہے؟ اور وہ اُمور جو صرف اللہ تعالیٰ کے قبضہ و قدرت میں ہیں، کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے طلب کئے جاسکتے ہیں؟
اس قسم کے لوگ بھی اس عظیم و کریم سے استغاثہ کرنے سے اعراض کر گئے ہیں جو ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ تخلیق کائنات کا سارا سلسلہ جس کے ہاتھ میں ہے اور تمام عالم میں وہ اکیلا ہی صاحب امر اور صاحب تدبیر ہے اس کے سوا نہ کوئی الٰہ ہے، نہ رب۔ اللہ تعالیٰ اپنے رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اقدس سے یہ کہلواتا ہے کہ:
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ان سے کہہ ’’میں اپنی ذات کے لئے کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا۔ اللہ ہی جو کچھ چاہتا ہے وہ ہوتا ہے‘‘۔ (الاعراف: ۱۸۸)۔
سور ئہ جن میں ہے:
’’(پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) کہو کہ میں تم لوگوں کے لئے نہ کسی نقصان کا اختیار رکھتا ہوں اور نہ کسی بھلائی کا‘‘۔
ان لوگوں نے قرآن کریم کی ان واضح اور محکم آیات کو چھوڑ کر اپنا الگ ایک عقیدہ بنالیا ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی اور بھی بہت سی مخلوق ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو گئی ہے۔ انہوں نے شرک با للہ کو دین اور گمراہی کو ہدایت سمجھ لیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ کتنی بڑی مصیبت ہے اور اس کا نقصان کتنا عظیم ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ اہل توحید سے دشمنی رکھتے۔ (فاللہ المستعان)۔
فیہ مسائل
٭ غیر اللہ کو پکارناشرک اکبر ہے۔ ٭اگر صلاح و تقویٰ کی معراج پر فائز شخص بھی غیر اللہ کی رضا کیلئے اس کو پکارے گا تو وہ بھی ظالموں میں سے ہوگا۔ ٭اس کے کفر ہونے کے باوجود یہ لوگوں کو دنیا میں نفع نہیں پہنچائے گا۔ ٭اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور سے طالب رزق نہیں ہونا چاہیئے جیسا کہ اس کے سوا کسی سے طالب جنت نہیں ہونا چاہیئے۔ ٭جو شخص غیر اللہ کو پکارتا ہے اس سے زیادہ گمراہ کوئی نہیں۔ ٭اللہ تعالیٰ کے سوا جس کو بھی پکارا جارہا ہے وہ نہیں جانتا کہ اسے کو ن پکار رہا ہے۔ ٭غیر اللہ کو پکارنا گویا مدعو کے دل میں داعی کے خلاف بغض و عداوت پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ ٭غیر اللہ کو پکارنا حقیقت میں اس کی عبادت کرنا ہے۔ ٭خود غیر اللہ کا ان کی اس عبادت سے انکار کرنا۔ ٭غیر اللہ کو پکارنا ہی گمراہی کا سبب ہے۔ ٭سب سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ بتوں کے پجاری بھی اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ مشکلات سے نجات دینے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے اور اسی بناء پر وہ مصائب و مشکلات کے وقت خالص اللہ تعالیٰ کو ہی پکارتے ہیں۔ ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کے معنیٰ توحید کی پناہ گاہ میں داخل ہونے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تاَدُّب کے اظہار کے ہیں۔