- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
شفاعت کی دو قسمیں
اس باب میں بیان کیا گیا ہے کہ سفارِش کی دو قسمیں ہیں۔ ایک سفارش وہ ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے اور دوسری سفارِش وہ ہے جس کے قائل مشرک ہیں۔
قولہ وَ اَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْا اِلٰی رَبِّھِمْ لَیْسَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ (انعام:۵۱)۔
کہو شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے۔
علامہ بیضاوی رحمہ اللہ اپنی مشہور تفسیر میں فرماتے ہیں:
۱۔ جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دیدے کہ تم سفارش کر سکتے ہو۔
۲۔ جس کے لئے شفاعت کرنے پر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔
قولہ تعالٰی وَ کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اﷲُ لِمَنْ یَّشَاؓءُ وَ یَرْضٰی (النجم:۲۶)
۲۔ ملکیت حاصل نہ ہو تو شریک ملکیت ہو۔
۳۔ شرکت بھی میسر نہ ہو تو مالک کا معین و مددگار ہو۔ ۴۔ اگر مددگار بھی نہیں تو کم از کم مالک کے ہاں اس کی یہ حیثیت تو مُسَلَّم ہو کہ اس کی سفارش مانی جاتی ہے۔
۵۔ اُس کے پاس ایسی ہی سلطنت و ملکیت ہو۔
۶۔ طاقت و قوت میں اُس سے بڑھ کر ہو۔
پس ایک عقلمند، اور صاحب بصیرت شخص کے لئے اس آیت میں ہدایت اور دلائل کی دولت موجود ہے اور توحید الٰہی سمجھنے کے لئے شمع نور ہویدا ہے۔ شرک و بدعت کی جڑیں کاٹنے کے لئے یہ آیات تلوارِ بے نیام کی حیثت رکھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اس قسم کی آیات سے بھرا پڑا ہے لیکن افسوس ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے وہ یہ کہ لوگوں میں شعور کا مادہ ختم ہو چکا ہے اور شرک و بدعت میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ اُن کا واپس آنا مشکل نظر آتا ہے کہ مشرکین یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے آباؤ واجداد نے جو سوچ اور فکر ان کو دی ہے وہ اس کے واحد وارث ہیں جس کی حفاظت ان کا فرض ہے یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کا قلب فہم قرآن کی طرف مائل نہیں ہے۔
اللہ کی قسم! ان مشرکین کے آباؤ و اجداد، اپنے ہی جیسوں کو یا اپنے سے زیادہ شریروں کو وارث بنا گئے ہیں چنانچہ قرآن پاک ان کو اور انُ کو برابر رکھتا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ان آیات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
قال ابو العباس رحمہ اللہ نَفَی اﷲُ عَمَّا سِوَاہُ کُلَّ مَا یَتَعَلَّقُ بِہِ الْمُشْرِکُوْنَ فَنَفٰی اَنْ یَّکُوْنَ لِغَیْرِہٖ مِلْکٌ اَوْ قِسْطٌ مِّنْہُ اَوْ یَکُوْنَ عَوْنًا لِّلّٰہِ وَ لَمْ یَبْقَ اِلَّا الشَّفَاعَۃُ فَبَیَّنَ اَنَّھَا لَا تَنْفَعُ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّبُ کَمَا قَالَ وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لَمِنِ ارْتَضٰی فَھٰذِہِ الشَّفَاعَۃُ الَّتِیْ یَظُنُّھَا الْمُشْرِکُوْنَ ھِیَ مُنْتَفِیَۃٌ یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ کَمَا نَفَاھَا الْقُرْاٰنُ وَ اَخْبَرَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ یَاْتِیْ فَیَسْجُدُ لِرَبِّہٖ وَ یَحْمَدُہٗ لَا یَبْدَاُ بِالشَّفَاعَۃِ اَوَّلًا ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَ قُلْ یُسْمَعْ وَ سَلْ تُعْطَ وَ اشْفَعْ تُشَفَّعْ وَ قال ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ مَنْ اَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ خَالِصًا مِّنْ قَلْبِہٖ فَتِلْکَ الشَّفَاعَۃُ لِاَھْلِ الْاِخْلَاصِ بِاِذْنِ اﷲِ وَ لَا تَکُوْنُ لِمَنْ اَشْرَکَ بِاﷲِ وَ حَقِیْقَتُہٗ اَنَّ اﷲَ سُبْحَانَہٗ ھُوَ الَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلٰی اَھْلِ الْاَخْلَاصِ فَیَغْفِرُ لَھُمْ بِوَاسِطَۃِ دُعَاؓءِ مَنْ اَذِنَ لَہٗ اَنْ یَّشْفَعَ لِیُکْرِمَہٗ وَ یَنَالَ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ فَالشَّفَاعَۃُ الَّتِیْ نَفَاھَا الْقُرْاٰنُ مَا کَانَ فِیْھَا شِرْکٌ وَ لِھٰذا اَثْبَتَ الشَّفَاعَۃَ بِاِذْنِہٖ فِیْ مَوَاضِعَ وَ قَدْ بَیَّنَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّھَا لَا تَکُوْنُ اِلاَّ لِاَھْلِ التَّوْحِیْدِ وَ الْاِخْلَاصِ انتھی
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
یہ تینوں فصلیں اُس شخص کے دِل سے شرک کی جڑیں کاٹنے کے لئے کافی ہیں، جس میں عقل و خرد کا مادہ موجود ہے اور وہ غور و فکر کے لئے بھی تیار ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ سلسلہء کلام کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ شفاعت کی چھ قسمیں ہیں۔
۱۔ پہلی: شفاعت کبری ہے، جس سے اولوالعزم انبیاء علیہم السلام بھی گھبرا جائیں گے۔ حتی کہ معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک آ پہنچے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: ’’انا لھا‘‘ کہ یہ میرا ہی کام ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آئے گا جب کائنات کے تمام لوگ یکے بعد دیگرے تمام انبیاء کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کے لئے عرض کریں گے کہ اس مقام کے عذاب سے لوگوں کو نجات ملنی چاہیئے۔ اس شفاعت کے وہی لوگ مستحق ہوں گے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا۔
۲۔ دوسری شفاعت دخولِ جنت کی ہو گی۔ اس کا مفصل بیان سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں موجود ہے جو صحیحین میں مروی ہے ۔ اور گذشتہ سطروں میں گزر چکی ہے۔
۳۔ تیسری شفاعت ان لوگوں کی ہو گی جو اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہوتے ہوئے اپنے گناہوں کی پاداش میں دخولِ جہنم کے مستوجب قرار پا جائیں گے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ان کی شفاعت کریں گے تاکہ یہ لوگ دوزخ میں نہ جا سکیں۔
۴۔ چوتھی شفاعت ان اہل توحید کے لئے ہو گی جو اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم کی سزا بھگت رہے ہوں گے۔ احادیث متواترہ، اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم ، اور اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ اہل توحید اپنے گناہوں کی وجہ سے سزا بھگتیں گے۔جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان نفوس قدسیہ نے ان کو بدعتی قرار دیا ہے، ان کی نکیر کی ہے اور ان کو گمراہ ٹھہرایا ہے۔
۵۔ پانچویں شفاعت صرف اہل جنت کے لئے ہو گی تاکہ ان کے اجر میں اضافہ کیا جائے اور ان کے درجات بلند کئے جائیں۔ اس شفاعت میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔
مندرجہ بالا پانچوں شفاعتیں صرف ان مخلصین کے لئے ہیں جنہوں نے کسی غیر اللہ کو نہ اپنا ولی بنایا اور نہ شفاعت کنندہ سمجھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (ترجمہ) اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم اس (علم وحی) کے ذریعے سے ان لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کئے جائیں گے کہ اس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہو گا جو اِن کا حامی و مددگار ہو یا ان کی سفارش کرے (الانعام:۵۱)۔
۶۔ چھٹی شفاعت بعض اہل جہنم کفار کے لئے ہے تاکہ ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے اور یہ صرف ابوطالب کے لئے خاص ہے۔
فیہ مسائل
٭ ناقابل قبول شفاعت کی توضیح و تشریح۔ ٭ اس شفاعت کا تذکرہ جو مومنین کے لئے فائدہ مند ہو گی۔ ٭ شفاعت کبری کا ذکر جسے مقام محمود بھی کہتے ہیں۔ ٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کرنے کے طریقے کی وضاحت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی بات سنتے ہی شفاعت نہیں کریں گے بلکہ سب سے پہلے بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوں گے جب اجازتِ شفاعت ملے گی تو شفاعت کریں گے۔ ٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سوال کرنا کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون خوش نصیب اور سعید شخص ہے جو اِس شفاعت کا حقدار ہو گا؟ ٭یہ شفاعت اُس شخص کے لئے قطعاً نہ ہو گی جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا ہے۔ ٭ شرک کی حقیقت و ماہیت کا بیان
شفاعت کی دو قسمیں۔
باب الشفاعۃ
باب الشفاعۃ
اس باب میں بیان کیا گیا ہے کہ سفارِش کی دو قسمیں ہیں۔ ایک سفارش وہ ہے جو قرآن کریم سے ثابت ہے اور دوسری سفارِش وہ ہے جس کے قائل مشرک ہیں۔
قولہ وَ اَنْذِرْ بِہِ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْ یُّحْشَرُوْا اِلٰی رَبِّھِمْ لَیْسَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ وَلِیٌّ وَّ لَا شَفِیْعٌ لَّعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ (انعام:۵۱)۔
قولہ تعالیٰ قُلْ لِّلَّہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیْعًا (سورئہ زمر:۴۴)اور اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم اسِ (علم وحی) کے ذریعہ سے اُن لوگوں کو نصیحت کرو جو اِس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کئے جائیں گے کہ اُس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہو گا جو ان کا حامی اور مددگار ہو یا ان کی سفارش کرے شاید کہ (اس نصیحت سے متنبہ ہو کر) وہ خوفِ الٰہی کی روش اختیار کر لیں‘‘ـ۔
کہو شفاعت ساری کی ساری اللہ کے اختیار میں ہے۔
علامہ بیضاوی رحمہ اللہ اپنی مشہور تفسیر میں فرماتے ہیں:
مفسر قرآن علامہ ابن جریر الطبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’مشرکین جن لوگوں کو اپنا شفاعت کنندہ سمجھتے ہیں اُن کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ چونکہ یہ مقرب اور برگزیدہ ہیں اس لئے یہ ہماری شفاعت کریں گے۔ قرآن مجید نے یہ کہہ کر کہ سفارش کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے اس عقیدہ کی تردید کی ہے‘‘۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:’’مشرکین نے یہ کہا کہ ہم کسی وثن اور صنم کی قطعاً پوجا نہیں کرتے ہم تو ان اولیائے کرام کے نام کی نذرونیاز صرف اس لئے دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ ہم گنہگاروں کے لئے قربِ الٰہی کا ذریعہ اور وسیلہ بن جائیں۔
قولہ تعالیٰ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاِذْنِہٖ (البقرۃ:۲۵۵)(ترجمہ) ’’زمین و آسمان کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے اور پھر اسی کی طرف لوٹنا ہے‘‘۔ (سورئہ یٰسین:۸۳) یعنی سفارش بھی اُسی کی ہو گی جس کے قبضہ و قدرت کے دائرے آسمان و زمین تک وسعت پذیر ہیں‘‘۔
اس آیت کریمہ میں اُس شفاعت کا ذکر ہے جو میدانِ محشر میں اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اس کے حکم سے کی جائے گی۔ اس سلسلے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟
اس سے پتہ چلا کہ جب کسی شخص میں دو شرطیں پائی جائیں گی تو وہ سفارش کر سکے گا:(ترجمہ) اُس روز سفارش کچھ فائدہ مند نہ ہو گی مگر اُس شخص کی جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دے دے، اور اس کی بات کو پسند فرما لے‘‘۔
۱۔ جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دیدے کہ تم سفارش کر سکتے ہو۔
۲۔ جس کے لئے شفاعت کرنے پر اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے۔
قولہ تعالٰی وَ کَمْ مِّنْ مَّلَکٍ فِی السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُھُمْ شَیْئًا اِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ یَّاْذَنَ اﷲُ لِمَنْ یَّشَاؓءُ وَ یَرْضٰی (النجم:۲۶)
اس آیت کریمہ اور سابقہ دونوں آیات کا مطلب ایک ہی ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہآسمانوں میں کتنے ہی فرشتے موجود ہیں، ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آ سکتی جب تک کہ اللہ کسی ایسے شخص کے حق میں اِس کی اجازت نہ دے جس کے لئے وہ کوئی عرضداشت سننا چاہے اور اُس کو پسند کرے۔
قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اﷲِ (بنی اسرائیل:۵۶)’’جب مقرب اور برگزیدہ فرشتوں کا یہ علم ہے کہ وہ بھی بارگاہِ قدس میں دم نہیں مار سکتے تو یہ جاہل اور احمق لوگ غیر اللہ اور معبودانِ باطل سے کس طرح توقع اور اُمید لگائے بیٹھے ہیں؟ جن کی عبادت کا اللہ تعالیٰ نے نہ شریعت میں کوئی حکم فرمایا اور نہ اجازت دی۔ بلکہ اس کے برعکس تمام انبیائے کرام کے ذریعہ سے اس کی تردید اور ممانعت فرمائی، اور اپنی نازل کردہ کتب میں اس کی نفی کی‘‘ـ
امام ابن قیم رحمہ اللہ ان آیات پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! ان مشرکین سے) کہو کہ پکار دیکھو اُن اپنے معبودوں کو جنہیں تم اللہ کے سوا اپنا معبود سمجھ بیٹھے ہو۔
۱۔ اسے نفع اور فائدہ پہنچانے پر قدرت یا ملکیت اور اختیار ہو۔’’اللہ تعالیٰ نے ان تمام اسباب اور ذرائع کو کالعدم قرار دے دیا ہے جن کو کسی نہ کسی صورت میں مشرکین عقیدئہ سفارش کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے کہ مشرک غیر اللہ کو صرف اس لئے معبود بناتا ہے کہ اُسے اس سے کوئی فائدہ اور نفع حاصل ہو لیکن جب تک کسی شخص میں مندرجہ ذیل چھ صفات نہ پائی جائیں اس وقت تک اُس سے نفع کی توقع عبث ہے:
۲۔ ملکیت حاصل نہ ہو تو شریک ملکیت ہو۔
۳۔ شرکت بھی میسر نہ ہو تو مالک کا معین و مددگار ہو۔ ۴۔ اگر مددگار بھی نہیں تو کم از کم مالک کے ہاں اس کی یہ حیثیت تو مُسَلَّم ہو کہ اس کی سفارش مانی جاتی ہے۔
۵۔ اُس کے پاس ایسی ہی سلطنت و ملکیت ہو۔
۶۔ طاقت و قوت میں اُس سے بڑھ کر ہو۔
پس ایک عقلمند، اور صاحب بصیرت شخص کے لئے اس آیت میں ہدایت اور دلائل کی دولت موجود ہے اور توحید الٰہی سمجھنے کے لئے شمع نور ہویدا ہے۔ شرک و بدعت کی جڑیں کاٹنے کے لئے یہ آیات تلوارِ بے نیام کی حیثت رکھتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اس قسم کی آیات سے بھرا پڑا ہے لیکن افسوس ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے وہ یہ کہ لوگوں میں شعور کا مادہ ختم ہو چکا ہے اور شرک و بدعت میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ اُن کا واپس آنا مشکل نظر آتا ہے کہ مشرکین یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے آباؤ واجداد نے جو سوچ اور فکر ان کو دی ہے وہ اس کے واحد وارث ہیں جس کی حفاظت ان کا فرض ہے یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کا قلب فہم قرآن کی طرف مائل نہیں ہے۔
اللہ کی قسم! ان مشرکین کے آباؤ و اجداد، اپنے ہی جیسوں کو یا اپنے سے زیادہ شریروں کو وارث بنا گئے ہیں چنانچہ قرآن پاک ان کو اور انُ کو برابر رکھتا ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ ان آیات کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ان آیات پر جو سیر حاصل بحث کی ہے حقیقت میں انہوں نے دین اسلام کا بہترین نقشہ کھینچ کر سامنے رکھ دیا ہے۔’’٭مردوں سے اپنی حاجات طلب کرنا۔ اور ٭اُن سے استغاثہ اور فریاد کرنا۔ دنیا میں سب سے بڑا شرک ہے۔ اس لئے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع اور ختم ہو چکا ہے۔ اور جب وہ خود اپنی جان کے نفع و نقصان کا بھی مالک نہیں رہا تو وہ دوسرے کی فریاد سن کر کیا جواب دے گا؟ اب تو دوسروں کی شفاعت اس کے لئے ممکن ہی نہیں رہی۔ شفاعت طلب کرنے والا اور جس کو شفاعت کنندہ سمجھ لیا گیا دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں برابر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ قدس میں اس کی اجازت کے بغیر کسی کی شفاعت کرنا تو درکنار اونچی آواز سے بول بھی نہیں سکتا۔ اور سب سے غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غیر اللہ سے استغاثہ، فریاد رسی اور سوال کرنے کو اپنی رضا کا سبب اور ذریعہ بھی نہیں قرار دیا بلکہ اس کو عدم اجازت اور شرک سے تعبیر فرمایا ہے اور اپنے غضب اور قہر کا باعث ٹھہرایا ہے۔ اب ہر مشرک کی یہ کیفیت ہو چکی ہے کہ اس نے غیر اللہ سے فریاد کر کے حقیقت میں اپنی حاجت اور طلب کے درمیان اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو حائل کر لیا ہے۔ معبودِ حقیقی کے ساتھ شرک اُس کے دین خالص میں تغیر و تبدل، اہل توحید سے عداوت اور دشمنی یہ سب عیب مشرکین نے اپنے اندر جمع کر رکھے ہیں۔ ان کا شرک کرنا، خالق کائنات میں عیب اور نقص نکالنے کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں اور موحدین کی مذمت اور ان سے عداوت ہے۔
ان کا یہ کہنا غلط ہے کہ اہل توحید مردوں کی تنقیص کرتے ہیں حالانکہ خود ان کا عمل یہ ہے کہ شرک کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تنقیص کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی تنقیص کے مرتکب ہوتے ہیں جن کو یہ اللہ کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ ان معنوں میں کہ اللہ کے بارے میں ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ بزرگ ان کے اس شرک پر خوش ہیں اور یہ کہ خود انہوں نے ان کو شرک کی تلقین کی ہے اور یہ ان کی دوستی کا دم بھرتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ شرک کرنے والے انبیاء و رُسل کے ہر دور میں اور ہر جگہ دشمن تصور کئے گئے ہیں۔ خصوصاً جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرا لیا گیا ان میں تو بہت زیادہ نقص نکالنے کی اس وجہ سے کوشش کی گئی کہ وہ ہماری ان عبادتوںپر راضی ہیں اور یہ کہ ان کو اس قسم کی عبادات کا انہوں نے خود حکم دیا تھا اور اس عبادت سے وہ خوش ہوتے ہیں۔
اس طرح کا کردار ادا کرنے والے مشرکین ہمیشہ کثیر تعداد میں اس دنیا میں رہے ہیں اور انہوں نے ہمیشہ انبیاء کرام علیہم السلام کی مخالفت کی ہے۔ اس شرکِ اکبر سے وہی بچ سکتا ہے جو توحید صرف اللہ کے لئے خاص کرے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مشرکین سے دشمنی مول لے، انکے ظلم و ستم برداشت کر کے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرے، اور صرف ایک اللہ تعالیٰ کو اپنا دوست، الٰہ اور معبود سمجھے، تمام دنیا کی محبت کو دِل سے نکال کر صرف اللہ سے پیمانِ محبت باندھے۔ ساری کائنات کا ڈر قلب سے محو کر کے فقط اللہ تعالیٰ ہی سے ڈرے، اللہ ہی سے اپنی اُمیدیں وابستہ رکھے اور اپنی عجز و انکساری صرف اسی کے سامنے پیش کرے۔ توکل اور بھروسہ ہو تو اللہ پر، کسی وقت امداد کا طالب ہو تو اللہ سے، گڑگڑائے تو اُسی کے سامنے، استغاثہ دائر کرے تو اُسی کی بارگاہِ قدس میں، مقصود و منتہیٰ اسی کو قرار دے، غرض اپنے تمام اُمور اس کی مرضی اور حکم کے مطابق انجام دینے کی عادت ڈالے اور اسی کی رضا کا طالب رہے جب سوال کرے تو اُسی ایک اللہ سے۔ اعانت کا خواہاں ہو تو اُسی ایک اللہ سے۔ کوئی بھی عمل کرے تو اُسی وحدہ لا شریک لہ کے لئے۔ خود بھی اور اپنے تمام اُمور اور معاملات میں بھی صرف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو کر رہ جائے‘‘۔
قال ابو العباس رحمہ اللہ نَفَی اﷲُ عَمَّا سِوَاہُ کُلَّ مَا یَتَعَلَّقُ بِہِ الْمُشْرِکُوْنَ فَنَفٰی اَنْ یَّکُوْنَ لِغَیْرِہٖ مِلْکٌ اَوْ قِسْطٌ مِّنْہُ اَوْ یَکُوْنَ عَوْنًا لِّلّٰہِ وَ لَمْ یَبْقَ اِلَّا الشَّفَاعَۃُ فَبَیَّنَ اَنَّھَا لَا تَنْفَعُ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّبُ کَمَا قَالَ وَلَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لَمِنِ ارْتَضٰی فَھٰذِہِ الشَّفَاعَۃُ الَّتِیْ یَظُنُّھَا الْمُشْرِکُوْنَ ھِیَ مُنْتَفِیَۃٌ یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ کَمَا نَفَاھَا الْقُرْاٰنُ وَ اَخْبَرَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ یَاْتِیْ فَیَسْجُدُ لِرَبِّہٖ وَ یَحْمَدُہٗ لَا یَبْدَاُ بِالشَّفَاعَۃِ اَوَّلًا ثُمَّ یُقَالُ لَہٗ اِرْفَعْ رَاْسَکَ وَ قُلْ یُسْمَعْ وَ سَلْ تُعْطَ وَ اشْفَعْ تُشَفَّعْ وَ قال ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ مَنْ اَسْعَدُ النَّاسِ بِشَفَاعَتِکَ یَا رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ خَالِصًا مِّنْ قَلْبِہٖ فَتِلْکَ الشَّفَاعَۃُ لِاَھْلِ الْاِخْلَاصِ بِاِذْنِ اﷲِ وَ لَا تَکُوْنُ لِمَنْ اَشْرَکَ بِاﷲِ وَ حَقِیْقَتُہٗ اَنَّ اﷲَ سُبْحَانَہٗ ھُوَ الَّذِیْ یَتَفَضَّلُ عَلٰی اَھْلِ الْاَخْلَاصِ فَیَغْفِرُ لَھُمْ بِوَاسِطَۃِ دُعَاؓءِ مَنْ اَذِنَ لَہٗ اَنْ یَّشْفَعَ لِیُکْرِمَہٗ وَ یَنَالَ الْمَقَامَ الْمَحْمُوْدَ فَالشَّفَاعَۃُ الَّتِیْ نَفَاھَا الْقُرْاٰنُ مَا کَانَ فِیْھَا شِرْکٌ وَ لِھٰذا اَثْبَتَ الشَّفَاعَۃَ بِاِذْنِہٖ فِیْ مَوَاضِعَ وَ قَدْ بَیَّنَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّھَا لَا تَکُوْنُ اِلاَّ لِاَھْلِ التَّوْحِیْدِ وَ الْاِخْلَاصِ انتھی
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اخلاص کی جو بہترین تعریف کی ہے وہ ہےاللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے ان باتوں کی نفی کر دی جن سے مشرکین سند پکڑتے ہیں اور خصوصاً اس بات کی نفی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو آسمان و زمین میں کسی قسم کی قدرت ہو یا قدرت کا کچھ حصہ یا وہ اللہ کی کچھ مدد کرتے ہوں۔ باقی رہی سفارش، تو یہ بھی اُسے نفع دے گی جس کے بارے میں ربِّ کریم اجازت عطا فرمائے، جیسا کہ فرمایا: ’’وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش سننے پر اللہ راضی ہو‘‘۔ (الانبیاء:۲۸)۔ البتہ قیامت کے دن وہ شفاعت جس کے مشرکین قائل ہیں اُن کے حق میں نہ ہو سکے گی، کیونکہ قرآن کریم نے اس کی صراحت کے ساتھ غیر مبہم الفاظ میں تردید کی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ قیامت کے دن اپنے رب تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے اور فوراً شفاعت نہیں کریں گے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوں گے، اُس کی حمد و ثنا بیان کریں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہو گا کہ اپنا سر مبارک اٹھاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سنا جائے گا اور جو سوال کرو گے وہ دیا جائے گا اور سفارش کیجئے، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون خوش نصیب اور سعید شخص ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا مستحق ہو گا؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اپنے دل کی گہراہیوں سے کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا اقرار کرے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ شفاعت اُن کو حاصل ہو گی جو اپنے اعمال و افعال میں مخلص ہوں گے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی اجازت سے، لیکن مشرکین کی شفاعت ہرگز نہ ہو سکے گی۔ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو سفارش کرنے کی اجازت دے گا اُن کی دُعا کی وجہ سے اہل اخلاص پر اپنا خاص فضل و کرم کرتے ہوئے معاف فرما دے گا تاکہ اُن کی عزت و تکریم ہو اور وہ قابل تعریف مقام حاصل کر لیں۔ پس قرآن کریم نے جس شفاعت کی تردید کی ہے وہ ایسی شفاعت ہے جس میں شرک کی آمیزش ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر شفاعت کو اپنی اجازت سے ثابت اور مقید کر دیا ہے۔ اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف اور واضح طور پر فرمایا کہ یہ شفاعت صرف موحدین اور سچی توحید والوں کے لئے ہو گی۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کے مطلب کے بارے میں فرماتے ہیں:’’ایک اللہ کریم کی خاص محبت اور ہر کام میں اس کی رضا جوئی کا نام اخلاص ہے‘‘۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے پہلی فصل میں قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی ہے: (ترجمہ) کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ اور دوسری فصل میں یہ آیت ذکر کی ہے کہ: (ترجمہ) وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش کرنے پر اللہ راضی ہو‘‘۔ رہی تیسری فصل تو اس میں فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کسی کے قول و عمل پر اس وقت تک قطعاً اظہار رضامندی نہیں کرتا جب تک کہ وہ توحید خالص کا حامل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہ ہو‘‘۔’’اس حدیث پر غور کیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف توحید کو شفاعت کے حصول کا سبب قرار دیا ہے اور مشرکین کے اس عقیدہ کی تردید فرمائی ہے کہ وہ غیر اللہ سے محبت اور ان کی عبادت کی بنا پر اور ان کو سفارشی سمجھ کر شفاعت کے مستحق قرار پائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے اس زُعم باطل کے برعکس فرمایا کہ شفاعت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے توحید میں تجرید و اخلاص کا پایا جانا۔ جب اخلاص پیدا ہو جائے گا تو پھر اس کے لئے شفاعت کی اجازت مل جائے گی۔ مشرکین کی جہالت یہ ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جن کو انہوں نے اپنا ولی، دوست، اور سفارشی سمجھ رکھا ہے وہ اللہ کے ہاں ان کی سفارش کریں گے اور اس کی بارگاہ میں ان کے لئے نفع رساں ثابت ہوں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کہ بادشاہوں کے مقربین اپنے ساتھیوں کو فائدہ پہنچا دیتے ہیں مشرکین اس بات کو بالکل بھول گئے ہیں کہ اللہ کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی بھی سفارش کرنے کی جرات نہ کر سکے گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اُسی شخص کی سفارش ممکن ہے جس کے اعمال و افعال اور کردار پر اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔
یہ تینوں فصلیں اُس شخص کے دِل سے شرک کی جڑیں کاٹنے کے لئے کافی ہیں، جس میں عقل و خرد کا مادہ موجود ہے اور وہ غور و فکر کے لئے بھی تیار ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ سلسلہء کلام کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ شفاعت کی چھ قسمیں ہیں۔
۱۔ پہلی: شفاعت کبری ہے، جس سے اولوالعزم انبیاء علیہم السلام بھی گھبرا جائیں گے۔ حتی کہ معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک آ پہنچے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: ’’انا لھا‘‘ کہ یہ میرا ہی کام ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آئے گا جب کائنات کے تمام لوگ یکے بعد دیگرے تمام انبیاء کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کے لئے عرض کریں گے کہ اس مقام کے عذاب سے لوگوں کو نجات ملنی چاہیئے۔ اس شفاعت کے وہی لوگ مستحق ہوں گے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا۔
۲۔ دوسری شفاعت دخولِ جنت کی ہو گی۔ اس کا مفصل بیان سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں موجود ہے جو صحیحین میں مروی ہے ۔ اور گذشتہ سطروں میں گزر چکی ہے۔
۳۔ تیسری شفاعت ان لوگوں کی ہو گی جو اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہوتے ہوئے اپنے گناہوں کی پاداش میں دخولِ جہنم کے مستوجب قرار پا جائیں گے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ان کی شفاعت کریں گے تاکہ یہ لوگ دوزخ میں نہ جا سکیں۔
۴۔ چوتھی شفاعت ان اہل توحید کے لئے ہو گی جو اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم کی سزا بھگت رہے ہوں گے۔ احادیث متواترہ، اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم ، اور اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ اہل توحید اپنے گناہوں کی وجہ سے سزا بھگتیں گے۔جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان نفوس قدسیہ نے ان کو بدعتی قرار دیا ہے، ان کی نکیر کی ہے اور ان کو گمراہ ٹھہرایا ہے۔
۵۔ پانچویں شفاعت صرف اہل جنت کے لئے ہو گی تاکہ ان کے اجر میں اضافہ کیا جائے اور ان کے درجات بلند کئے جائیں۔ اس شفاعت میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔
مندرجہ بالا پانچوں شفاعتیں صرف ان مخلصین کے لئے ہیں جنہوں نے کسی غیر اللہ کو نہ اپنا ولی بنایا اور نہ شفاعت کنندہ سمجھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (ترجمہ) اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم اس (علم وحی) کے ذریعے سے ان لوگوں کو نصیحت کرو جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ اپنے رب کے سامنے کبھی اس حال میں پیش کئے جائیں گے کہ اس کے سوا وہاں کوئی (ایسا ذی اقتدار) نہ ہو گا جو اِن کا حامی و مددگار ہو یا ان کی سفارش کرے (الانعام:۵۱)۔
۶۔ چھٹی شفاعت بعض اہل جہنم کفار کے لئے ہے تاکہ ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے اور یہ صرف ابوطالب کے لئے خاص ہے۔
فیہ مسائل
٭ ناقابل قبول شفاعت کی توضیح و تشریح۔ ٭ اس شفاعت کا تذکرہ جو مومنین کے لئے فائدہ مند ہو گی۔ ٭ شفاعت کبری کا ذکر جسے مقام محمود بھی کہتے ہیں۔ ٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کرنے کے طریقے کی وضاحت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی بات سنتے ہی شفاعت نہیں کریں گے بلکہ سب سے پہلے بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوں گے جب اجازتِ شفاعت ملے گی تو شفاعت کریں گے۔ ٭ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا سوال کرنا کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کون خوش نصیب اور سعید شخص ہے جو اِس شفاعت کا حقدار ہو گا؟ ٭یہ شفاعت اُس شخص کے لئے قطعاً نہ ہو گی جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا ہے۔ ٭ شرک کی حقیقت و ماہیت کا بیان