- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کی ہمہ گیریوں کی وضاحت۔
باب:ما جا فی قول اﷲ تعالیٰ وَمَا قَدَرُوا اﷲَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ السَّمَاوَاتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ (الزمر:۶۷)
باب:ما جا فی قول اﷲ تعالیٰ وَمَا قَدَرُوا اﷲَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ السَّمَاوَاتُ مَطْوِیّٰتٌ بِیَمِیْنِہٖ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ (الزمر:۶۷)
علامہ ابن کثیر اس آیت کریمہ کی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ:ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اُس کی قدر کرنے کا حق ہے۔ (اس کی قدرتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہو گی اور آسمان اُس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔ پاک اور بالاتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قَالَ جَآءَ حِبْرٌ مِّنَ الْاَحْبَارِ اِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ یَامُحَمَّدُ اِنَّا نَجِدُ اَنَّ اﷲَ یَجْعَلُ السَّمَاوَاتِ عَلٰی اِصْبَعٍ وَالْاَرْضِیْنَ عَلٰی اِصْبَعٍ والشَّجَرَ عَلٰی اِصْبَعٍ وَ الْمَآءَ عَلٰی اِصْبَعٍ وَ الثَّرٰی عَلٰی اِصْبَعٍ وَسَآئِرَ الْخَلْقِ عَلٰی اِصْبَعٍ فَیَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ فَضَحِکَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ تَصْدِیْقًا لِّقَوْلِ الْحِبْرِ ثُمَّ قَرَاَ وَمَا قَدَرُوا اﷲَ حَقَّ قَدْرِہٖ وَ الْاَرْضُ جَمِیْعًا قَبْضَتُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ’’اس میں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ مشرکین نے اللہ کی کما حقہ قدر نہیں کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کی عبادت کرنا بھی شروع کر دی۔ اللہ کریم اُس درجہ عظمت و بلندی والا ہے کہ دوسرا کوئی اس کو نہیں پہنچ سکتا۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے، وہ ہر چیز کا مالک ہے، ہر چیز اس کے تصرف میں ہے‘‘۔
و فِی روایۃ لمسلم والْجِبَالَ وَ الشَّجَرَ عَلٰی اِصْبَعٍ ثُمَّ یَھْزُّھُنَّ فَیَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَنَا اﷲُ و فی روایۃ للبخاری یَجْعَلُ السَّمٰوٰتِ عَلٰی اِصْبَعٍ وَ الْمَآءَ وَ الثَّرٰی عَلٰی اِصْبَعٍ وَ سَآئِرَ الْخَلْقِ عَلٰی اِصْبَعٍسیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک یہودی عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم اپنی کتاب میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمینوں کو ایک انگلی پر، درختوں کو ایک انگلی پر، پانی کو ایک انگلی پر، کیچڑ کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر رکھ کر فرمائے گا: میں ہی بادشاہ ہوں‘‘۔ یہودی عالم کی یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے اتنے مسکرائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھیں نمایاں طور سے نظر آنے لگیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی کہ ’’ان لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اُس کی قدر کرنے کا حق ہے (اُس کی قدتِ کاملہ کا حال تو یہ ہے کہ) قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہو گی۔
و لمسلم عن ابن عمر مرفوعا یَطْوِی اﷲُ السَّمَاوَاتِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ ثُمَّ یَاْخُذُھُنَّ بِیَدِہٖ الْیُمْنٰی ثُمَّ یَقُوْلُ اَنَا الْمَلِکُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ اَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَ ثُمَّ یَطْوِی الْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ ثُمَّ یَاْخُذُھُنَّ بِشِمَالِہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ اَیْنَ الْجَبَّارُوْنَ اَیْنَ الْمُتَکَبِّرُوْنَصحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ پہاڑوں اور درختوں کو ایک اُنگلی پر رکھ کر اور ان کو ہلا ہلا کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں، میں ہی اللہ ، معبودِبرحق ہوں۔ صحیح بخاری کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آسمانوں کو ایک انگلی پر، پانی اور کیچڑ کو ایک انگلی پر اور تمام مخلوق کو ایک انگلی پر رکھے گا۔
یہ احادیث اور اس مفہوم کی دوسری احادیث مخلوق پر اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی اور اس کی قدرت و رفعت کے بارے میں واضح طور سے دلالت کناں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کے بندوں پر اس کی معرفت کے دروازے اس کی صفات کی بنا پر ہی کھلتے ہیں اور یہ تمام مخلوق اس کے کمال عجائب کی واضح علامت ہے جیسا کہ نصوصِ کتاب و سنت، سلف امت اور ائمہ کرام سے ثابت ہے۔ وہ اثبات بلا تمثیل اور تنزیہ بلاتعطیل ہے اس کی عبادت، ربوبیت، اور الوہیت میں کوئی اس کا مثیل اور ساجھی نہیں۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو ایمان کی بنیاد ہے اور جس پر اسلام کی پوری عمارت قائم ہے۔صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دِن آسمانوں کو لپیٹ کر اپنے دست ِ راست میں لے گا، پھر فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں کہاں ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو سرکش اور متکبر سمجھا؟ پھر ساتوں زمینوں کو لپیٹ کر اپنے بائیں ہاتھ میں لے گا اور فرمائے گا کہ میں ہی بادشاہ ہوں کہاں ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو سرکش اورمتکبر سمجھا۔
مذکورہ بالا صحیح احادیث پر ہر شخص کو غور کرنا چاہیئے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ربِّ کریم کی کامل اور اس کی وہ عظمت و رفعت بیان کی ہے جو کہ اس کی ذاتِ کبریا کو زیبا ہے۔ اور بعض ان صفاتِ الٰہی کی تصدیق بھی فرمائی جن کا یہودی عالم نے ذکر کیا جو اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کے شایانِ شان ہے۔ اور اس بات پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ ان احادیث سے اللہ تعالیٰ کے عرشِ عظیم پر مستوی ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ (نعوذ باﷲ) ان اسماء و صفات سے ظاہری معنی مراد نہیں۔ اور یہ بھی کہیں نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ ہیں۔ اگر یہ باتیں درست اور صحیح ہوتیں تو اللہ تعالیٰ کے یہ امین ترین انسان اپنی اُمت کو ضرور بتاتے کیونکہ ربِّ کریم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دین اسلام کو مکمل فرمایا اور تمام نعمتوں سے نوازا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری وضاحت سے اس کو لوگوں تک پہنچا دیا۔ صلوات اﷲ و سلامہ علیہ وعلی آلہ و صحبہ و من تبعہم الی یوم الدین۔
اور دوسری طرف صحابہ کرام نے اپنے محسن اعظم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ تمام اوصاف کا علم حاصل کیا جو ربِّ کریم نے اپنی عظمت و جلات اور کمال کے سلسلے میں بیان کیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سب پر ایمان لائے اور ان کو انہوں نے تسلیم کیا وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب پر ایمان لائے اُن سب صفات پر بھی ایمان لائے جو کتاب اللہ میں مذکور ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود اِن کے ایمان لانے کی تصدیق کرتے ہوئے فرماتا ہے:
تابعین، تبع تابعین، ائمہ کرام، محدثین عظام اور تمام فقہاء بھی اسی طرح ایمان لائے اور اُنہوں نے بھی اسی طرح اللہ کریم کی صفات بیان کیں جس طرح کہ خود اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائیں۔ ان بزرگانِ دین نے اللہ کی کسی ایک صفت کا بھی انکار نہیں کیا اور نہ یہ کہا کہ اِن صفات کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں اور نہ یہ کہا کہ اِن صفات سے تشبیہ لازم آتی ہے بلکہ جن لوگوں نے تشبیہ دینے کی کوشش کی ان کا مقابلہ کیا اور بڑی بڑی کتابیں لکھ کر ان کے شبہات کی تردید کا حق ادا کر دیا۔ یہ کتب آج تک اہل سنت کے ہاں معروف اور متداول ہیں۔ فجزاھم اﷲ احسن الجزاء۔(ترجمہ) ’’جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارا اُن پر ایمان ہے یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہے‘‘۔ (آل عمران:۷)۔
علامہ ابن جریر رحمہ اللہ نے بطریق یونس روایت کی ہے جس میں ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد محترم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ساتوں آسمان کرسی کے مقابلہ میں اُن سات درہموں کے برابر ہیں جو کسی ڈھال میں ڈال دیئے گئے ہوں‘‘۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ کی کرسی، عرش کے مقابلے میں ایک لوہے کے چھلے کی طرح ہے جسے کسی چٹیل میدان میں پھینک دیا گیا ہو‘‘۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ پہلے اور اُس کے آگے والے آسمان کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ اور ہر آسمان کے درمیان پانچ پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ اور ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور کرسی اور پانی کے درمیان پانچ سو سال کا فاصلہ ہے۔ اور عرش پانی کے اوپر ہے اور اللہ کریم عرش کے اوپر ہے۔ تمہارے اعمال میں سے کوئی شے اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِن دونوں کے درمیان پانچ سو برس کا فاصلہ ہے۔ اور ہرآسمان سے دُوسرے آسمان تک پانچ سو سال کا فاصلہ ہے اور ہر آسمان کی موٹائی پانچ سو برس کی مسافت کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ ساتویں آسمان اور عرش کے درمیان ایک سمندر ہے، اُس کے نچلے اور اُوپر کے حصے کا فاصلہ وہی ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے اوپر ہے اور اعمالِ بنی آدم میں سے کوئی عمل اس سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’کتاب اللہ اِبتدا سے انتہا تک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین عظام اور تمام ائمہ کا کلام اس سے بھرا پڑا ہے کہ ربِّ کریم ہر چیز سے بلند ہے اور یہ کہ وہ آسمانوں اور زمینوں سے اوپر عرش پر ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات اس پر شاہد ہیں:
علامہ الذہبی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور تصنیف ’’کتاب العلو‘‘ میں صحیح اسناد سے اُم المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول ذکر کیا ہے؛ آپ ’’اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی‘‘ کے بارے میں فرماتی ہیں: ’’استواء کے معنی معلوم ہیں اس کی کیفیت سمجھ میں آنے والی نہیں ہے۔ اور اس کا اقرار کرنا ہی ایمان ہے اور اس کا انکار کرنا کفر ہے‘‘۔(ترجمہ) ’’اُس کے ہاں جو چیز اُوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے اور عمل صالح اس کو اُوپر چڑھاتا ہے‘‘ (الفاطر:۱۰)۔ ’’اے عیسیٰ! اب میں تجھے واپس لے لوں گا اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا‘‘۔ (آل عمران:۵۵)۔ ’’بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا‘‘۔ (النساء:۱۵۸)۔ ’’عروج کے زینوں کا مالک ہے، ملائکہ اور رُوح اُس کے حضور چڑھ کر جاتے ہیں‘‘۔ (السجدۃ:۵)۔ ’’اپنے رب سے جو اُن کے اوپر ہے ڈرتے ہیں‘‘۔ (النحل:۵۰)۔ ’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کی ساری چیزیں پیدا کیں۔ پھر اُوپر کی طرف توجہ فرمائی اور سات آسمان استوار کئے‘‘ (البقرۃ:۲۹)۔ ’’درحقیقت تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ پھر عرش پر بلند ہوا۔ جو رات کو دن پر ڈھانک دیتا ہے اور پھر دن رات کے پیچھے دوڑا چلا آتا ہے، جس نے سورج اور چاند اور تارے پیدا کئے، سب اُس کے فرمان کے تابع ہیں۔ خبردار ہو! اُسی کی خلق ہے اور اُسی کا امر ہے۔ اللہ بڑا بابرکت، سارے جہانوں کا مالک و رَبّ ہے‘‘ (الاعراف:۵۴)۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارا ربّ وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر بلند ہوا اور کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔ کوئی شفاعت (سفارش) کرنے والا نہیں ہے۔ اِلا یہ کہ اُس کی اجازت کے بعد شفاعت کرے‘‘ (یونس:۳)۔ اس آیت میں توحید الوہیت اور توحید ربوبیت دونوں کا بیان ہے۔ ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کو ایسے سہاروں کے بغیر قائم کیا جو تم کو نظر آتے ہوں پھر وہ عرش پر بلند ہوا‘‘ (الرعد:۲)۔ ’’نازل کیا گیا ہے اُس ذات کی طرف سے جس نے پید اکیا ہے زمین کو اور بلند آسمانوں کو۔ وہ رحمن عرش پر بلند ہے‘‘۔ (طہ:۴ تا ۵)۔ ’’اور (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ اُس ذات پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں۔ اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو۔ اپنے بندوں کے گناہوں سے بس اُسی کا باخبر ہونا کافی ہے، وہ جس نے چھ دنوں میں زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کا بنا کر رکھ دیا جو آسمان و زمین کے درمیان میں ہیں پھر آپ ہی عرش پر بلند ہوا۔ رحمن اس کی شان بس کسی جاننے والے سے پوچھو‘‘۔ (الفرقان:۵۸، ۵۹)۔ ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں چھ دنوں میںپیدا کیا اور اُس کے بعد عرش پر بلند ہوا۔ اُس کے سوا نہ تمہارا کوئی حامی و مددگار ہے اور نہ کوئی اُس کے آگے سفارش کرنے والا، پھر کیا تم ہوش میں نہ آؤ گے؟ وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے، اور اُس تدبیر کی رُوداد اُوپر اُس کے حضور جاتی ہے، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمارے سے ایک ہزار سال ہے‘‘۔ (السجدہ:۴،۵)۔ ’’وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میںپیدا کیا اور پھر عرش پر بلند ہوا۔ اس کے علم میں ہے جو کچھ زمین میں جاتا ہے اور جو کچھ اُس سے نکلتا ہے اور جو کچھ آسمان سے اُترتا ہے اور جو کچھ اُس میں چڑھتا ہے۔ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہو۔ جو کام بھی تم کرتے ہوے اُسے دیکھ رہا ہے‘‘۔ (حدید:۴)۔ ’’کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان پر ہے تمہیں زمین میں دھنسا دے اور یکایک زمین جھکولے کھانے لگے؟ کیا تم اِس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان پر ہے تم پر پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیج دے۔ پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری تنبیہ کیسی ہوتی ہے۔ (الملک)۔ ’’اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکیم ہے‘‘۔ (الجاثیہ:۲)۔ ’’فرعون نے کہا: اے ہامان! میرے لئے ایک بلند عمارت بنا تاکہ میں راستوں تک پہنچ سکوں، آسمانوں کے راستوں تک اور موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھوں۔ مجھے تو یہ موسیٰ جھوٹا ہی معلوم ہوتا ہے‘‘۔ (المؤمن:۳۶۔۳۷)۔
ابن المنذر اور لالکائی وغیرہ نے اپنی اپنی کتب میں صحیح اسناد سے ذکر کیا ہے کہ سفیان بن عینیہ کہتے ہیں کہ ربیعہ بن ابی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا: ’’استواء کی کیا کیفیت ہے؟ اُنہوں نے کہا استویٰ کا معنی معلوم ہے، اس کی کیفیت سمجھ میں آنے والی نہیں۔ اللہ تعالیٰ احکام نازل فرماتا ہے اور رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ذِمہ ان کی تبلیغ ہے اور ہمارا فرض ان کی تصدیق کرنا ہے‘‘۔
ابن وہب رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ہم امام مالک رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا: اے ابوعبداللہ: قرآن کریم میں یہ آیت ہے کہ ’’اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی‘‘ استوی کی کیفیت کیا ہے؟ اس کے متعلق ہمیں بتایا جائے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے یہ سوال سن کر سر جھکا لیا اور پسینہ پسینہ ہو گئے۔ پھر فرمایا ’’اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی‘‘ کو ہم اسی طرح مانتے ہیں جیسے اس نے اپنے لئے استعمال کیا ہے۔ اس کی کیفیت کے بارے میں ہرگز سوال نہ کیا جائے کیونکہ اللہ کے لئے کیفیت کا سوال ہی نہیں ہوتا البتہ تو بدعتی ہے (کیونکہ تو نے سوال ہی ایسا کیا ہے)۔ اسے میری مجلس سے نکال دو‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کے ثبوت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین، اور سلف ِ اُمت کے اقوال اور شواہد اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لئے ہم چند اقوال پر اکتفا کرتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کا وعدہ حق ہے اور دوزخ کافروںکا ٹھکانہ ہے۔ عرش پانی کے اوپر ہے اور عرش کے اوپر رب العالمین ہے۔ اس کو طاقتور فرشتوں نے اٹھا رکھا ہے اور یہ اللہ کے وہ فرشتے ہیں جو نشان دار ہیں۔
تمام اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ کریم اپنی ذات کے ساتھ عرش پر مستوی ہے اور اس کا عرش پر مستوی ہونا حقیقی ہے مجازی نہیں۔ البتہ اُس کا علم ہر جگہ میں ہے۔
اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا جس نے سب سے پہلے انکار کیا وہ جعد بن درہم تھا۔ اُس نے جہاں استوی علی العرش کا انکار کیا وہاں تمام صفات کا بھی انکار کیا ہے۔ اس بد عقیدہ شخص کو خالد بن عبداللہ القسری نے قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ بہت مشہور ہے۔ جعد بن درہم کے عقیدئہ بد کو جہم بن صفوان نے پروان چڑھایا جس کو فرقہء جہمیہ کا امام کہا جاتا تھا۔ اس نے اس عقیدہ کی خوب تشہیر کی۔ اور متشابہ آیات سے استدلال کر کے سادہ لوح عوام کو گمراہ کیا۔ جہم بن صفوان تابعین کے آخری دور میں ہوا ہے۔ اس کے اس بد عقیدہ کی تردید میں اِس دور کے جید علماء کرام اور ائمہ نے کی۔ امام اوزاعی، امام ابوحنیفہ، امام مالک، لیث بن سعد ثور، حماد بن زیر، حماد بن سلمہ، ابن المبارک رحمہم اللہ تعالیٰ۔ اور ان کے بعد کے آئمہ ہدیٰ نے اس فتنہ کو ختم کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کر دی تھیں۔
اس سلسلے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام شافعی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے جو زریں حروف سے لکھنے کے قابل ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اتنے ہیں کہ جن کی تردید ممکن نہیں ہے۔ دلائل معلوم ہو جانے کے بعد جو شخص انکار کرے اُسے کافر قررا دیا جائے گا البتہ دلائل معلوم ہونے سے پہلے ایسے شخص کو اُس کی جہالت کی وجہ سے معذور سمجھا جائے گا۔ ہم ان تمام صفات کو ثابت کرتے ہیں اور تشبیہ کی تردید کرتے ہیں جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے تشبیہ کی تردید فرمائی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
والحمد ﷲ رب العالمین و صلی اﷲ علی سیدنا محمد و علی الہ و اصحابہ اجمعین۔اس کی مثل کوئی نہیں۔ اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔
ابن ابراہیم و ابو علی
۵۲شعبان۶۲۴۱ھ ۲۹بمطابق ستمبر ۵۰۰۲ء
فیہ مسائل
٭ اس حدیث میں جن علوم کا ذکر کیا گیا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور کے یہودیوں میں موجود تھے، اسی لئے نہ تو اُنہوں نے اِن کی تاویل کی اور نہ انہیں جھٹلایا۔ ٭ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب یہودی عالم نے اللہ تعالیٰ کی بعض صفات بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق کی اور اس کی مزید تصدیق کے لئے قرآن کریم بھی نازل ہوا۔ ٭یہودی عالم کی طرف سے جب اِس عظیم علم کا اظہار ہوا تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسکرانا۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں کے ثبوت کی وضاحت اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے سیدھے ہاتھ میں آسمان اور دوسرے میں زمینیں ہوں گی۔ ٭ اللہ تعالیٰ کا اپنے ایک ہاتھ کو بایاں بتانے کی صراحت۔ ٭اُس وقت اللہ تعالیٰ کا بڑے بڑے سرکش اور متکبرین کو پکارنا۔ ٭ بنسبت آسمان کے کرسی کا بڑا ہونا۔ بنسبت کرسی کے عرش کا بڑا ہونا۔ ٭کرسی، پانی اور عرش تینوں کا الگ الگ ہونا۔ ٭دو آسمانوں کے درمیان کس قدر فاصلہ ہے؟ ( کی وضاحت)۔ ٭ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان کس قدر فاصلہ ہے؟ (کی کیفیت)۔ ٭اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر ہے۔ ٭ زمین و آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ (کی وضاحت)۔ ٭آسمان کی موٹائی بھی پانچ سو سال کی مسافت کے برابر ہے۔ ٭ ساتوں آسمانوں کے اوپر جو سمندر ہے اُس کے نیچے اور اوپر پانچ پانچ سو سال کی مسافت کا راستے ہے (واللہ اعلم)۔
یونی کوڈ فائل فراہم کرنے پر محمد آصف مغل بھائی کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔ اللہ تعالی موصوف کو جزائے خیر دے اور ان کی دین کے راستے میں کاوشوں کو قبول و منظور فرمائے۔ اللہ تعالی مجھے اور آصف بھائی کو ریا کاری سے محفوظ رکھے۔ آمین یا رب العالمین۔