- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
مصائب و مشکلات میں صبر و بردباری اختیار کرنے کی تلقین۔
باب:ما جاء فی اللو
باب:ما جاء فی اللو
اس باب میں انسان کو مصائب و مشکلات کے وقت صبر و بردباری اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور جو لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے آپ کو تقدیر کی گرفت سے آزاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی مذمت کی گئی ہے۔
قولہ تعالیٰ یَقُوْلُوْنَ لَوْ کَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰھُنَا (آل عمران:۱۵۴)۔
مصائب و مشکلات کے وقت جزع فزع کرنا شریعت اسلامیہ میں منع ہے اور اس پر سخت ترین وعید سنائی گئی ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ تقدیر الٰہی کے سامنے سرتسلیم خم کر کے اللہ تعالیٰ کی بندگی کا فریضہ انجام دے اس کی صورت صرف یہ ہے کہ انسان مصائب و مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے اور سخت ترین حالات میں صبر و استقامت کا مظاہرہ کرے۔ کیونکہ ایمان کے چھ اُصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کا تقدیر الٰہی پر کامل ایمان ہو۔یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم یہاں قتل ہی نہ کئے جاتے۔
جنگ اُحد میں خوف اور بزدلی اور ڈر سے منافقین نے یہ جملہ کہا تھا۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جنگ اُحد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھا اور دُشمن کا حملہ زبردست تھا کہ اچانک ہم پر نیند کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور ہم میں سے ہر مجاہد کی ٹھوڑی غلبہء نیند کی بنا پر سینے سے لگ گئی۔ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ حلفیہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کی قسم میں نے متعب بن قشیر منافق کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ’’اگر ہمارے بس کی بات ہوتی ہم یہاں قتل ہی نہ کئے جاتے‘‘۔ اس سے سن کر یہ الفاظ میں نے اچھی طرح یاد کر لئے۔ چنانچہ اسی پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی کہ ’’وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمارے بس کی بات ہوتی تو ہم یہاں قتل ہی نہ کئے جاتے‘‘۔ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے: کہہ دو کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو جن کی تقدیر میں مارا جانا لکھا تھا وہ اپنی اپنی قتل گاہوں کی طرف ضرور نکل آتے۔ مطلب یہ ہے کہ تقدیر الٰہی تھی جس سے کسی کو مفر نہیں اور یہ ایسا فیصلہ کن امر تھا جس کا بہر کیف پورا ہونا ضروری تھا۔
اَلَّذِیْنَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ وَ قَعَدُوْا لَوْ اَطَاعُوْنَا مَا قُتِلُوْا (آل عمران:۱۶۸)۔
ان کے جو بھائی بند جنگ لڑنے گئے اور مارے گئے ان کے متعلق انہوں نے کہہ دیا کہ اگر وہ ہماری بات مان لیتے تو نہ مارے جاتے۔
اس کے جواب میں اللہ کریم نے فرمایا:منافقین نے کہا کہ اگر یہ لوگ جنگ نہ کرنے کے بارے میں ہمارا مشورہ قبول کر لیتے اور اپنے گھروں سے نہ نکلتے تو یہ صورتِ حال پیدا نہ ہوتی۔
یعنی گھر بیٹھنے رہنے سے موت سے نجات مل سکتی ہے تو تمہیں بالکل نہیں مرنا چاہیئے اور یاد رکھو کہ موت بہرحال آنی ہے اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں جا کر پناہ لے لو۔ اگر تمہارے قول میں سچائی کی ذرا سی مقدار بھی باقی ہے تو موت سے بچ کر تو دکھلاؤ؟۔(ترجمہ) ’’ان سے کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو تو خود تمہاری موت جب آئے اُسے ٹال کر دکھا دینا‘‘۔
مجاہد رحمہ اللہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’زیر نظر آیت کریمہ مشہور منافق عبداللہ بن ابی اور اُس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی‘‘۔ یعنی یہ الفاظ عبداللہ بن ابی نے کہے تھے۔
امام بیہقی رحمہ اللہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے جنگ اُحد کا نقشہ یوں بیان فرمایا کہ:
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’جنگ اُحد کے میدان میں ہم دشمن کے مقابلہ پر صف آراء تھے کہ ہم پر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہو گئی یہاں تک کہ میری تلوار ہاتھ سے بار بار گرتی اور میں اُسے بار بار پکڑتا اور منافقین کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے بچاؤ کی تدابیر میں مصروف تھے ساری فوج میں زیادہ بزدل ڈرنے والے اور حق و انصاف کو پامال کرنے میں پیش پیش یہی لوگ تھے۔ (اللہ کریم کے بارے میں طرح طرح کی بدگمانیوں میں مبتلا تھے یہ خالص جاہلیت کی عادت ہے) منافقین کا یہ گروہ اللہ تعالیٰ کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہو کر رہ گیا۔
’’غزوہ اُحد کے موقع پر مشہور منافق عبداللہ بن اُبی مسلمانوں سے علیحدہ ہو کر اپنے دوسرے ساتھیوں سے کہنے لگا کہ: ’’دیکھئے نہ تو اپنی بات پر عمل کیا اور نہ میری بات کو تسلیم کیا، بلکہ بچوں کی رائے کو اوّلیت دی‘‘۔ اس منافق کی یاوہ گوئی سن کر بہت سے سادہ دِل مسلمان اس کے ساتھ ہو گئے جو اس سے قبل منافق نہ تھے بلکہ وہ مسلمان تھے اور ان کے دلوں میں ایمان تھا ایمان ایک ایسا نور ہے جس کی مثال قران کریم میں متعدد بار بیان کی گئی ہے۔ اگر یہ لوگ اس امتحان اور نفاق سے قبل فوت ہو جاتے تو ان کی موت اسلام پر متصور ہوتی البتہ ان کا ایمان اس مرتبہ کا نہ ہوتا جن کا امتحان ہوا اور وہ اس امتحان میں ثابت قدم رہے، اور نہ یہ ان منافقین کی طرح ہوتے جو آزمائش کے وقت مرتد ہو گئے تھے۔ آجکل اکثر مسلمانوں کا تقریباً یہی حال ہے کہ بوقت آزمائش اُن کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں جس سے ایمان میں کمزوری اور نقص پیدا ہو جاتا ہے اور ان میں کی اکثریت اپنے اُوپر نفاق کی چادر اوڑھ لیتی ہے اور بعض تو دشمن کا غلبہ اور طاقت سے مرغوب ہو کر ارتداد کا برسرعام اعلان کر دیتے ہیں یہ بات ہمارے اور دوسرے لوگوں کے ذاتی تجربہ میں بھی آ چکی ہے کہ اگر میدانِ جنگ میں مسلمانوںکا غلبہ ہو اور کسی بڑی تکلیف کا سامنا نہ ہو تو پھر ایسے کمزور مسلمان ہی رہتے ہیں۔ ظاہر اور باطن میں انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ایسا ایمان آزمائش کے وقت ثابت نہیں رہتا یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ فرائض کے تارک اور محارم کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ان سے کہا گیا کہ ’’تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ہم اسلام لائے اور تمہارے دلوںمیں ایمان داخل ہی نہیں ہوا‘‘۔ (الحجرات) ۔ اس آیت میں اس ایمان کا ذکر ہے جو سچے مومنین کا امتیازی نشان ہے۔ کتاب و سنت میں جب بھی ایمان کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے یہی ایمان مراد ہوتا ہے ایسے سچے مومنین آزمائش اور امتحان کے وقت شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہوتے، اس لئے کہ یہ چیز تو ایمان کو کمزور کر دیتی ہے‘‘۔
وفی الصحیح عن ابی ھریرۃ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِحْرِصْ عَلٰی مَا یَنْفَعُکَ وَ اسْتَعِنْ بِاﷲِ وَ لَا تَعْجَزَنَّ وَ اِنْ اَصَابَکَ شیْیئٌ فَلَا تَقُلْ لَوْ اَنِّیْ فَعَلْتُ کَذَا وَ کََذا لَکَانَ کَذَا وَ کَذَا وَ لٰکِنْ قُلْ قَدَّرَ اﷲُ وَ مَا شَآءَ فَعَلَ فَاِنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطٰنِشارح رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اس قسم کے کمزور ایمان والے لوگوں کا مشاہدہ ہم نے بھی کیا ہے کہ دشمن کی قوت و طاقت اور ان کا غلبہ دیکھ کر ان لوگوں نے مسلمانوں کے خلاف اُن کی مدد کی اور دین اسلام کے متعلق طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ مسلمانوں سے عداوت اور دشمنی کا علی الاعلان اظہار کیا اور پھر انہوں نے اسلام کے نور کو بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی ان کا سب سے بڑا نشانہ یہ ہوتا ہے کہ اہل اسلام میں سے اہم افراد کو ختم کیا جائے‘‘۔ واللہ المستعان۔
فیہ مسائلصحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: نفع بخش چیز کی حرص کر اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگ اور عاجز نہ بن اور کسی وقت اگر مصیبت میں گرفتار ہو جاؤ تو یہ نہ کہا کرو ’’اگر میں ایسا کرتا تو یوں ہوتا‘‘ بلکہ یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے مقدر کیا اور جو اُس نے چاہا وہی ہوا کیونکہ ’’اگر‘‘ شیطانی عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔
کسی ناگہانی مصیبت پر یہ کہنا سخت جرم اور گناہ ہے کہ ’’اگر میں یوں کرتا تو یہ مصیبت نہ آتی‘‘۔ ٭ لفظ ’’اگر‘‘ استعمال نہ کرنے کی وجہ بیان کی گئی ہے کہ اس سے شیطانی اعمال کا دروازہ کھلتا ہے۔ ٭ اچھی گفتگو کی ترغیب۔ ٭اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہوئے ایسے اعمال کا شوق دلایا گیا ہے جو نفع بخش ہیں۔ ٭ جو اس کے اُلٹ ہے، اُس یعنی عجز سے روکنا۔