اسماء الحسنیٰ کی وساطت سے اللہ سے دعا کرنا۔
باب :قال اﷲ تعالیٰ وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ (سورئہ اعراف:۱۸۰)
اس باب میں اس حقیقت کو نکھار کر بیان کیا گیا ہے کہ اسمائے حسنی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، ان ہی کی وساطت سے اس کے سامنے دست دعا دراز کرو اور جو لوگ اُس کے ناموں میں شرک و الحاد سے کام لیتے ہیں ان کو نظر انداز کر دو۔
وَ ِﷲِ الْاَسْمَاء الْحُسنٰی فَادْعُوہ بِھَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یلحدون فی اَسْمَائِہ (سورئہ اعراف:۱۸۰)
اللہ تعالیٰ اچھے ناموں کا مستحق ہے اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اللہ کریم کے ننانوے نام ہیں، جو شخص ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں جائے گا، اللہ تعالیٰ ایک ہے اور طاق سے محبت کرتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام
ھُوَ اﷲُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ
الرّحْمٰنُ
الرَّحِیْمُ
الْمَلِکُ
الْقُدُّوْس
بڑا مہربان
نہایت رحم والا
بادشاہ
پاک و بے عیب
السَّلَامُ
الْمُؤْمِنُ
الْمُھَیْمِنُ
الْعَزِیْزُ
سلامتی دینے والا
امن میں رکھنے والا
محافظ
باعزت
الْجَبَّارُ
الْمُتَکَبِّرُ
الْخَالِقُ
الْبَارِءُ
زبردست
بڑائی والا
پیدا کرنے والا
عالم کا بنانیوالا
الْمُصَوِّرُ
الْغَفَّارُ
الْقَھَّارُ
الْوَھَّابُ
صورت بنانے والا
بخشنے والا
سب پر غالب
بکثرت دینے والا
الرَّزَاقُ
الْسَّتَّارُ
الْفَتَّاحُ
الْعَلِیْمُ
روزی دینے والا
عیب ڈھانکے والا
کھولنے والا
ہر چیز جاننے والا
الْقَابِضُ
الْبَاسِطُ
الْخَافِضُ
الرَّافِعُ
بند کرنے والا
کشادہ کرنے والا
پست کرنے والا
بلند کرنے والا
الْمُعِزُّ
الْمُذِلُّ
السَّمِیْعُ
الْبَصِیْرُ
عزت دینے والا
ذلیل کرنے والا
سننے والا
دیکھنے والا
الْحَکَمُ
الْعَدْلُ
اللَّطِیْفُ
الْخَبِیْرُ
فیصلہ کرنے والا
انصاف کرنے والا
باریک بین
ہر چیز سے باخبر
الْحَلِیْمُ
الْعَظِیْمُ
الْغَفُوْرُ
الشَّکُوْرُ
بردبار
بزرگ
بخشنے والا
قدردان
الْعَلِیُّ
الْکَبِیْرُ
الْحَفِیْظُ
الْمُقِیْتُ
سب سے بلند
سب سے بڑا
محافظ و نگہبان
محافظ
الْحَسِیْبُ
الْجَلِیْلُ
الْکَرِیْمُ
الرَّقِیْبُ
حساب لینے والا
بڑی شان والا
کرم والا
ہر شے کا نگہبان
الْمُجِیْبُ
الْوَاسِعُ
الْحَکِیْمُ
الْوَدُوْدُ
دعا قبول کرنیوالا
کشادہ رحمت والا
حاکم با حکمت
محبت کرنے والا
الْمَجِیْدُ
الْبَاعِثُ
الشَّھِیْدُ
الْحَقُّ
بزرگی والا
اٹھانے والا
حاضر
سچا
الْوَکِیْلُ
الْقَوِیُّ
الْمَتِیْنُ
الْوَلِیُّ
کارساز
زبردست
قوت والا
مددگار
الْحَمِیْدُ
الْمُحْصِیُ
الْمُبْدِءُ
الْمُعِیْدُ
قابل تعریف
ہر چیز گھیرنے والا
ایجاد کرنے والا
دوبارہ زندہ کرنیوالا
الْمُحْیِیْ
الْمُمِیْتُ
الْحَیُّ
الْقَیُّوْمُ
زندہ کرنے والا
مارنے والا
ہمیشہ زندہ رہنے والا
نگرانی کرنے والا
الْوَاجِدُ
الْمَاجِدُ
الْوَاحِدُ
الصَّمَدُ
غنی
بزرگی والا
اکیلا
بے نیاز
الْقَادِرُ
الْمُقْتَدِرُ
الْمُقَدِّمُ
الْمُؤَخِّرُ
قدرت والا
اقتدار والا
آگے کرنے والا
پیچھے کرنے والا
الْاَوَّلُ
الْاٰخِرُ
الظَّاھِرُ
الْبَاطِنُ
سب سے پہلا
سب سے بعد والا
حاضر
پوشیدہ
الْوالِیُ
الْمُتَعَالِیُّ
الْبَرُّ
التَّوَّابُ
مالک
بلند شان
بندوں پر مہربان
توبہ قبول کرنے والا
الْمُنْتَقِمُ
الْعَفُوُّ
الرَّئُ وْفُ
مَالِکُ الْمُلْکِ
سزا دینے والا
معاف کرنے والا
نہایت مہربان
جہانوں کا مالک
ذُوْالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ
الْمُقْسِطُ
الْجَامِعُ
جلال و تکریم والا
عادل
جمع کرنے والا
الْغَنِیُّ
الْمُغْنِیُّ
الْمَانِعُ
الضَّارُّ
سب سے بے نیاز
بے پرواہ کرنیوالا
روکنے والا
ضرر پہنچانے والا
النَّافِعُ
النُّوْرُ
الْھَادِیُ
الْبَدِیْعُ
نفع دینے والا
روشنی دینے والا
راہ بتانے والا
ایجاد کرنے والا
الْبَاقِیُّ
الْوَارِثُ
الرَّشِیْدُ
الصَّبُوْرُ
ہمیشہ باقی رہنے والا
فنائے عالم کے بعد باقی رہنے والا
راہ نما
یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اسمائے حسنیٰ صرف ننانوے کے عدد میں منحصر نہیں ہیں، کیونکہ مسند امام احمد میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’جس شخص کو کوئی غم و حزن یا کسی قسم کی تکلیف پہنچے اور وہ مندرجہ ذیل دعا پڑھے تو اُس کے غموں کے بادل چھٹ جائیں گے اور مصائب و مشکلات کی جگہ خوشی اور مسرت حاصل ہو گی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کی کہ یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم وہ دعاء سیکھ لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! اُسے ضرور یاد کر لو: (ترجمہ) ’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے اور تیری لونڈی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے قبضہ میں ہے۔ تیرا فیصلہ مجھ پر عدل و انصاف سے جاری ہے، اے اللہ! تیرے تمام اچھے نام جو تو نے اپنے لئے خود تجویز فرمائے ہیں یا تو نے اپنی کتاب میں نازل کئے ہیں، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھلائے یا تو نے اُن کو اپنے علم غیب میں منتخب کیا۔ ان کے ذریعہ سے میں یہ سوال کرتا ہوں کہ تو قرآن کریم کو میرے قلب کی بہار میرے سینے کا نور، میرے غم کی جلا اور میرے غم و اندوہ کو ختم کرنے کا ذریعہ اور سبب بنا دے۔ (اس روایت کو ابو حاتم بن حبان نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے)۔
و ذکر ابی حاتم عن ابن عباس رضی اللہ عنہ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اَسْمَآئِہٖ یُشْرِکُوْنَ وَ عَنْہُ سَمُّوْا اللَّاتَ مِنَ الْاِلٰہِ وَ الْعُزّٰی مِنَ الْعَزِیْزِ و عن الاعمش رحمہ اللہ یُدْخِلُوْنَ فِیْھَا مَا لَیْسَ مِنْھَا
ابن ابی حاتم نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ
’’یُلْحِدُوْنَ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شرک کرتے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول یہ بھی ہے کہ
الحاد یہ ہے کہ لفظ الجلالۃ (یعنی اللہ) کو اللات سے اور العزیز کو عزی سے مشتق کرتے تھے۔
الحاد کے متعلق اعمش رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ
وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں ایسے ناموں کا اضافہ کرتے ہیں جو حقیقت میں اللہ کے نام نہیں۔
قتادہ رحمہ اللہ نے ’’یُلْحِدُوْنَ‘‘ کا ترجمہ ’’یُشْرکُوْنَ‘‘ کیا ہے یعنی وہ شرک کرتے ہیں۔
علی بن ابی طلحہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے الحاد کا ترجمہ تکذیب بھی نقل کیا ہے۔ کلام عرب میں الحاد اپنے مقصد سے انحراف، کجی اور ظلم پر بولا جاتا ہے۔ چنانچہ قبر میں لحد کو بھی اسی لئے لحد کہتے ہیں کہ وہ ایک جانب ہوتی ہے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے۔ کیونکہ لحد اس گڑھے کو نہیں کہتے جو میت کے لئے کھودا جاتا ہے۔
الحاد کے متعلق علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الحاد کی حقیقت میں شرک کی طرف میلان، اور صفات کی تعطیل اور انکار بھی داخل ہے‘‘۔
اللہ کریم کے نام اور اُس کی تمام صفات ایسی ہیں جن سے انسان اللہ کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ ایسے نام ہیں جو اس کی جلالت، عظمت اور کبریائی پر دلالت کرتے ہیں۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’الحاد کی کئی صورتیں ممکن ہیں جیسے: ۱۔ اس کے اسماء و صفات سے بالکل انکار کر دیا جائے۔ یا ۲۔ان کے معانی و مفہوم کو ترک کر دیا جائے اور اِن کی تعطیل کو مانا جائے یا ۳۔ ان کے اصل مقصد میں تحریف کر کے کوئی دوسرا مفہوم پیش کر دیا جائے۔ یا ۴۔ صحت و صواب کو چھوڑ کر تاویلات کی طرف رجوع کر لیا جائے۔ یا یہی نام مخلوق کے رکھ دیئے جائیں جیسے اہل اتحاد ملحدین نے کیاتھا یعنی انہوں نے یہی نام کائنات کی اشیائے مذموم و محمود پر رکھ دیئے۔ حتی کہ ان کے نمائندہ نے کہہ دیا کہ ’’بعینہٖ یہی چیزیں ممدوح و مذموم عقلاً و شرعاً و عرفاً مسمی ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ اِنکی اِن باتوں سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
صاحب فتح المجید علامہ الشیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’متقدمین اور متأخرین تمام اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ کریم کی وہ صفات جو اس نے خود اپنے لئے بیان کی ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں وہ جیسے بھی اللہ کریم کی عظمت و جلالت کے لائق ہیں ان کو بلا تمثیل تشبیہ و تعطیل تسلیم کیا جائے جیسا کہ قرآن کریم میں کہا گیا ہے: (ترجمہ) ’’کائنات کی کوئی چیز (نہ ذات میں اور نہ صفات میں) اس کے مشابہ نہیں، وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (الشوریٰ:۱۱)۔
کیونکہ صفات میں گفتگو ذات کی گفتگو کی فرع ہے۔ لہٰذا دونوں میں سے کسی پر کلام کرنا دونوں پر کلام کرنے کے برابر سمجھا جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذاتِ حقیقی کا علم مخلوق سے کسی قسم کی تشبیہ و تمثیل دیئے بغیر ماننا ضروری ہے۔ اسی طرح اس کی حقیقی صفات کو مخلوق سے بلا تمثیل و تشبیہ جاننا ضروری ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات کے لئے بیان کردہ صفات، یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کی گئی صفات کا انکار کرے، یا ان کی غلط تاویل کرے وہ فرقہ جہمیہ سے ہو گا، کیونکہ انہوں نے مومنین کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے کو اپنا لیا ہے۔ ایسے ہی افراد کے بارے میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حال یہ کہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو تو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فائدہ جلیلہ کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں کہ : جو صفت یا خبر اللہ کریم کی ذات کے لئے بیان ہو، اس کی چند اقسام ہیں:
۱۔ جو براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق ہیں، جیسے موجود، اور ذات وغیرہ۔
۲۔ جو اللہ تعالیٰ کی صفت قرار پاتی ہیں جیسے علیم ، قدیر، سمیع، اور بصیر وغیرہ۔
۳۔ جو اللہ تعالیٰ کے افعال سے متعلق ہیں، جیسے خالق، رازق وغیرہ۔
۴۔ جو تنزیہ محض ہو وہ اس طرح کہ اسکے اندر کمال کا اثبات ہو نہ یہ کہ صرف نقائص کا انکار ہو جیسے القدوس السلام۔
۵۔ پانچویں صفت وہ ہے جس کا اکثر لوگوں نے ذکر نہیں کیا۔ یہ وہ اسم ہے جو بیشمار اوصاف پر دلالت کرتا ہے کسی خاص اور معین صفت کی وضاحت مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس سے مختلف معانی نکالے جا سکتے ہیں جیسے مجیدؔ، عظیم، صمد۔
مجیدؔ ایسی ذات کو کہا جاتا ہے جس میں بہت سی کامل صفتیں پائی جائیں۔ یہ لفظ وُسعت اور کثرت کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ: (ترجمہ) ’’عرش مجید والا‘‘۔ مجیدؔ: اللہ تعالیٰ کے عرش کی صفت ہے چونکہ اس میں وُسعت، عظمت، اور شرف ہے لہٰذا اسی بنا پر اس کو عرش مجید کہا گیا ہے۔ غور فرمائیے کہ درودِ شریف میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جب ہم اللہ کی بارگاہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر صلوۃ و سلام کا سوال کریں تو اس وقت یہی مجیدؔکا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ صلوۃ و سلام میں کثرت، وسعت اور دوام مطلوب و مقصود ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں یہی لفظ موزوں اور مناسب تھا۔ جیسا کہ دعا میں کہا جاتا ہے:
’’مجھے بخش اور معاف فرما کیونکہ تو ہی بخشنے والا اور رحیم ہے‘‘۔
اس دُعائیہ جملہ میں اللہ کریم کے اسماء و صفات کے ذریعہ سے کام لیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات سے وسیلہ حاصل کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اور پسندیدہ ہے۔ ترمذی میں ایک حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’یاذالجلال والاکرام کے الفاظ کے ساتھ اصرار سے مانگو‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں دعائیہ جملے یوں ارشاد فرمائے گئے ہیں:
’’اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس وسیلہ سے کہ تیرے ہی لئے تعریف ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو احسان کرنے والا ہے، زمینوں اور آسمانوں کا بنانے والا ہے۔ اے جلال اور بزرگی کے مالک‘‘۔
اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے اس کی حمدوں کے وسیلہ سے سوال کیا گیا ہے۔ اور جملہ
’’لا الٰہ الا انت المنان‘‘ میں اسماء اور صفات دونوں کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔ قبولیت دعا کا یہ سنہری موقع ہے یہی وہ باب ہے جس کو توحید کے سلسلے میں اہم مقام حاصل ہے۔
۶۔ چھٹی صفت وہ ہے جو دو ناموں یا دو وصفوں کے جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہے کہ ان دونوں ناموں یا وصفوں کو الگ الگ کر کے پڑھا جائے تو یہ تیسری صفت پیدا نہ ہو گی۔ جیسے الغنی الحمید، الغفور القدیر، الحمید المجید وغیرہ۔
اسی پر دوسرے ناموں اور صفتوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے جو قرآن کریم میں بار بار استعمال ہوئی ہیں۔ الغنی، اور الحمید الگ الگ کامل صفتیں ہیں۔ جب ان دونوں کو جمع کریں گے تو تیسری صفت پیدا ہو گی۔ جس نے اللہ کو غنی سمجھا اور اس کی حمد بیان کی وہ بھی ثناء کے قابل ہے۔ یہ ثنا دونوں کے اجتماع سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی پر الغفور القدیر، الحمید المجید وغیرہ کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ معرفت کا یہ بہت اونچا اور بلند مقام ہے۔
فیہ مسائل
٭ اللہ کریم کے اسماء کو ثابت کرنا۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں کا پاکیزہ ہونا۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ دعا مانگنے کا حکم۔ ٭ وہ ملحدین جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں معارضہ کرتے ہیں، اُن سے قطع تعلق کرنا۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں کس قسم کا الحاد ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت۔ ٭ جو شخص الحاد جیسے قبیح فعل کا مرتکب ہو، اس کے بارے میں وعید اور ڈانٹ۔