• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ھِدایۃ المُستفید اُردُو ترجمہ فتح المجید شرح کتابُ التوحید

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ تعالی کے اسماء و صفات کی تعظیم کی جائے۔
باب:احترام اسماء اﷲ تعالیٰ

اس باب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات کی تعظیم کی جائے اور اسی بنیاد پر مشرکانہ ناموں کو بدل ڈالنا ضروری ہے۔
عن ابی شریح رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ یُکَنّٰی اَبَا الْحَکَمِ فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ اﷲَ ھُوَ الْحَکَمُ وَ اِلَیْہِ الْحُکْمُ فَقَالَ اِنَّ قَوْمِیْ اِذَا اخْتَلَفُوْا فِیْ شَیئٍ اَتَوْنِیْ فَحَکَمْتُ بَیْنَھُمْ فَرَضِیَ کِلَا الْفَرِیْقَیْنِ فَقَالَ مَا اَحْسَنَ ھٰذَا
سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالحکم تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا صرف اللہ ہی حَکم ہے اور حُکم اُسی کا ہے۔ انہوں نے عرض کیا کہ میری قوم کے افراد جب کسی معاملے میں اِختلاف کرتے ہیں تو میرے پاس آجاتے ہیں، میں اُن کا فیصلہ کر دیتا ہوں جس پر دونوں فریق رضامند ہوجاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیسی اچھی بات ہے۔فرمایا تیری اولاد کیا ہے؟ عرض کیا شریح، مسلم اور عبداللہ۔ فرمایا ان میں سے بڑا کون ہے؟ میں نے کہا شریح! فرمایا: تو ٹھیک ہے تم ابوشریح ہو۔
دنیا اور آخرت میں صرف اللہ تعالیٰ ہی حاکم ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرما کر فیصلہ کرتا ہے جو اس نے اپنے تمام انبیاء و رُسل پر نازل فرمائی۔ ان فیصلوں کو سمجھنا اُمت محمدیہ کے اہل علم اور اصحابِ بصیرت پر اللہ تعالیٰ نے آسان فرمایا کیونکہ بحیثیت مجموع اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم گمراہی پر متفق نہیں ہو سکتی۔ بعض مسائل میں اگرچہ علمائے اُمت نے مختلف رجحانات رکھتے ہیں لیکن ان میں کسی ایک کا حق پر ہونا لازمی اور ضروری ہے، لہٰذا جس خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ نے قوت فہم اور صحیح بات کو سمجھنے اور پرکھنے کا ملکہ عطا فرمایا ہے اُس کے لئے حق بات کو پالینا کوئی مشکل کام نہیں۔ اور یہ صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اُس کی خاص توفیق سے ہی ممکن ہے اور یہ اللہ کریم کا خاص عطیہ اور اس کا فضل ہے۔ہم سب اللہ کریم سے اس عظیم عطیہ اور فضل کی بھیک مانگتے ہیں۔ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ ہی کا فیصلہ ہو گا، جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا کہ:
(ترجمہ) تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو، اس کا فیصلہ کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے‘‘ (الشوری:۱) ’’اور اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اُسے اللہ تعالیٰ اور رُسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے‘‘۔ (النساء:۵۹)۔
لہٰذا متنازعہ فیہ مسائل میں اللہ تعالیٰ ہی کو حکم ماننا چاہیئے۔ اس کی واحد صورت یہ ہے کہ کتاب اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔ اور یا پھر اپنے جھگڑے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنا چاہیئے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر فیصلہ کروایا جائے۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیا کرتے تھے۔ اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرموجودگی میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی سنت اور احادیث کو مشعل راہ بنایا جائے اور اس کے مطابق اپنے اختلافات کو ختم کیا جائے۔
آجکل احکامِ کتاب و سنت سے ناواقف لوگ جس افراط و تفریط میں گھرے ہوئے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ کتاب و سنت سے عدم واقفیت ہے وہ کتاب و سنت سے جاہل ہونے کے باوجود اجتہاد سے کام لیتے ہیں۔ افسوس صد افسوس۔ قیامت کے دن جب اللہ کریم اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے نزولِ اجلال فرمائے گا تو وہاں کسی کو دم مارنے کی جرات نہ ہو گی۔ وہاں صرف اللہ تعالیٰ ہی فیصلہ کرے گا
چنانچہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔ کیونکہ وہ اپنے بندوں کے ہر قسم کی اعمال سے آگاہ اور باخبر ہے وہاں انصاف ہی انصاف ہو گا۔ اللہ کریم فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایک نیکی کرے تو اللہ اُسے دوچند کرتا ہے اور اپنی طرف سے بڑا اجر عطا فرماتا ہے‘‘۔ (النسا:۴۰)۔
قیامت کے دن فیصلہ بھلائی اور برائی کے درمیان ہو گا۔ ظالم کے ظلم کے مطابق اُس کی نیکیاں لے کر مظلوم کے حوالے کر دی جائیں گی اور اگر ظالم کے اعمال میں نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کی برائیاں اٹھا کر ظالم پر ڈال دی جائیں گی اور اس فیصلہ میں فریقین پر ذرہ برابر زیادتی نہ ہو گی بلکہ عدل و انصاف سے فیصلہ ہو گا۔
ابوشریح رضی اللہ عنہ کی قوم نے جب دیکھا کہ ابوشریح عدل و انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں اور فریقین ان سے خوش ہوتے ہیں تو وہ اپنے اس وصف کی وجہ سے ہر شخص کے منظورِ نظر بن گئے۔ اسی کو صلح کہتے ہیں کیونکہ صلح کا دارومدار ہی رضا پر ہے نہ کہ دوسرے پر بوجھ ڈالنے اور یہود و نصاریٰ کی طرح کہانت پر اعتماد و انحصار کرنے پر۔
صلح کا دارومدار اس پر بھی نہیں کہ اہل جاہلیت کی طرح بڑوں کے اقوال کو مستند سمجھ لیا جائے۔ چنانچہ وہ کتاب و سنت کے خلاف اپنے اکابر اور اسلاف سے فیصلہ کراتے تھے جیسے آجکل اہل طاغوت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پس پشت ڈال کر اپنی خواہشات اور مرضی کے مطابق فیصلے کرتے ہیں آجکل اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثریت اسی مرض میں مبتلا ہے۔
بعض مقلدین کا بھی یہی حال ہے کہ وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوتے ہوئے جس کی تقلید کرتے ہیں اس کے قول پر اعتماد کرتے ہیں اور صحیح مسلک یعنی کتاب و سنت کو چھوڑے ہوئے ہیں۔ اناﷲِ و انا الیہ راجعون۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنی کنیت رکھنا چاہے تو بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے بڑے لڑکے کے نام سے کنیت رکھے۔ اس مسئلہ کی تائید میں محدثین کرام نے احادیث بھی نقل فرمائی ہیں

فیہ مسائل
٭ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور صفات کی عزت و تکریم کرنی چاہیئے اگرچہ استعمال کرتے وقت اس کا معنی مقصود نہ ہو
٭ رب کریم کے اسماء و صفات کی عزت و تکریم کی وجہ سے نام تبدیل کرلینا۔ ٭ اپنی کنیت رکھتے وقت بڑے بیٹے کے نام کو اختیار کرنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب: قرآن مجید، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایسی چیز کا مذاق اڑانا … کیسا ہے؟
باب:من ھزل بشی فیہ ذکر اﷲ او القرآن او الرسول

اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ قرآن کریم، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایسی چیز کا مذاق اُڑانا جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے ایک کافرانہ فعل ہے۔
قولہ تعالی وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا کُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُ قُلْ اَبِاﷲِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِءُ وْنَ (التوبہ:۶۵)
اگر ان سے پوچھو کہ تم کیا باتیں کر رہے تھے تو جھٹ کہہ دیں گے کہ ہم تو ہنسی مذاق اور دل لگی کر رہے تھے۔ ان سے کہو ’’کیا تمہاری ہنسی، دل لگی اللہ، اس کی آیات اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ تھی‘‘۔
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ
’’(غزوئہ تبوک کے سفر کے دوران) منافقین میں سے ایک شخص نے صحابہ کرام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ٭ہمارے یہ قراء پیٹ کے پجاری، ٭زبان کے جھوٹے، ٭اور میدان جنگ میں انتہائی بزدل ثابت ہوئے ہیں۔ چنانچہ اس منافق کی اس غلط بات کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایا گیا، یہ منافق بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس کی تیزرفتاری کے باعث زمین کے چھوٹے چھوٹے پتھر اس کے قدموں سے الجھ رہے تھے، ان کی پروا کئے بغیر وہ آپ کے پاس پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بیہودہ بات کے متعلق سوال کیا تو اس منافق نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو آپس میں استہزا کر رہے تھے اور مذاق بازی ہو رہی تھی تاکہ سفر کی تکلیف محسوس نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی تازہ نازل شدہ آیت تلاوت فرمائی‘ (ترجمہ) ’’اب عذر نہ تراشو ۔ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ہے۔ اگر ہم نے تم میں سے ایک گروہ کو معاف کر بھی دیا تو دوسرے گروہ کو تو ہم ضرور سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہے‘‘۔ (التوبہ:۶۵)۔
ابن اسحق کا بیان ہے کہ جنگ تبوک کے سفر کے دوران منافقین میں سے بنی اُمیہ سے ودیعہ بن ثابت، اور قبیلہ اشجع سے مخشی بن حمیر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف اشارہ کر کے ایک دوسرے سے کہنے لگے: ’’ان لوگوں نے بنو اصفر کے بہادروں کو جن کے ساتھ جنگ کے لئے ہم جا رہے ہیں یوں سمجھ لیا ہے جیسے کہ عرب آپس میں جنگ کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہم تمہارے ساتھ کل رسیوں میں جکڑے ہوئے ہوں گے۔ یہ جملہ ان منافقین نے مومنین کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کے لئے کہا تھا۔ مخشی بن حمیر بولا: ہم میں سے ہر شخص ایک ایک سو کوڑے کی سزا کا مستحق ہے کیونکہ مجھے یہ خطرہ ہے کہ ہماری اس ناروا بات پر قرآن نازل ہو چکا ہو گا۔ اُدھر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ جاؤ، ان منافقین نے بیہودہ باتیں کر کے اپنے آپ کو تباہ کر لیا ہے۔ ان سے پوچھو کہ تم نے اس قسم کی باتیں کی ہیں؟ اگر وہ انکار کریں تو ان سے کہہ دینا کہ تم نے یہ الفاظ کہے ہیں۔
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے جا کر ان منافقین سے جب یہ پوچھا تو وہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر معذرت کرنے لگے۔ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر کھڑے تھے۔ ودیعہ بن ثابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی پیٹی پکڑ کر کہنے لگا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ہم تو آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے‘‘۔ مخشی بن حمیر بولا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور میرے باپ کے نام نے مجھے تباہ و برباد کر دیا ہے۔ یہ سچے دل سے تائب ہو گئے تھے جس کی وجہ سے ان کا نام عبدالرحمن رکھا گیا۔ اس عبدالرحمن نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ مجھے شہادت نصیب ہو اور ایسی جگہ پر شہادت ہو کہ میری جگہ کا بھی کسی کو پتہ نہ چلے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاء کو شرفِ قبولیت بخشا اور یہ فرزند اسلام جنگ یمامہ میں شہید ہوا اور اسکی لاش کا بھی پتا نہ چل سکا کہ کہاں ہے

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ وہ ان کو یہ فیصلہ سنا دے کہ: ’’قَدْ کَفَرتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ‘‘ ان لوگوں کی بات درست نہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ لوگ زبانی ایمان لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے ہیں اگرچہ یہ لوگ دِل سے تو پہلے ہی کافر تھے کیونکہ زبان سے ایمان کا اظہار اور دِل سے کفر و اِنکار کرنا ظاہری کفر کے برابر ہے۔ لہٰذا یہ کہنا درست نہ ہو گا کہ وہ ایمان کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے ہیں کیونکہ وہ حقیقتاً پہلے ہی کافر تھے۔ اگر یہ مراد لیا جائے کہ ’’تم نے ایمان کے اظہار کے بعد کفر کا اظہار کیا ہے تو انہوں نے اس کا اظہار عام لوگوں کے سامنے نہیں کیا تھا بلکہ اپنے خاص آدمیوں میں کیا تھا اور وہ ہمیشہ اپنے خواص ہی کے ساتھ رہے۔ اور الفاظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ منافق ہی رہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
’’اگرچہ ان منافقین نے اعتقادًا نہیں بلکہ صرف زبان سے کفریہ کلمات کہے تھے کہ ہم نے مذاق اور استہزا کے طور پر یہ کہا تھا، اس کے باوجوداللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ ان لوگوں نے ایمان کے بعد کفر کا ارتکاب کیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی آیات بینات سے مذاق کرنا کفر ہے مگر یہ اس شخص کے لئے ہو گا جس نے اس بات کا آغاز کیا۔ اگر ان لوگوں کے دل میں ایمان موجود ہوتا تو وہ لوگ اس قسم کی گفتگو نہ کرتے۔ قرآن کریم کی یہ بات باربار واضح کرتی ہے کہ دل سے ایمان کا اقرارکرنا ظاہری عمل کو مستلزم ہے
جیسے ایک جگہ فرمایا ہے:
(ترجمہ) ’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ہم نے اطاعت قبول کی، مگر اس کے بعد ان میں سے ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑجاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں‘‘۔ (آیت ۵۱ تک)۔
ان آیات میں اس شخص کے ایمان کی نفی کی گئی ہے جو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراض کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایمان داروں کے بارے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب ان کو اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان متنازعہ فیہ مسائل میں فیصلہ کر دیں تو یہ پوری دلجمعی سے سنتے اور اطاعت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ اطاعت اور فرمانبرداری ایمان کا جزوِ لاینفک ہے‘‘۔
زیرنظر واقعہ میں اس بات کو پوری طرح واضح کیا گیا ہے کہ بعض اوقات انسان کو کسی جملے یا عمل کی وجہ سے کافر قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دِل کے ارادے انتہائی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ دل کی مثال اُس سمندر کی سی ہے جس کا ساحل نہ ہو۔ نفاقِ اکبر سے خوف بھی پیدا ہوتا ہے۔

فیہ مسائل
٭ سب سے اہم اور بڑا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ جو شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے مذاق کرے وہ کافر ہے۔ ٭جو بھی اس قسم کے گھناؤنے فعل کا مرتکب ہو گا تو اِسی آیت کی روشنی میں اُس پر حکم لگایا جائے گا۔ ٭ چغلی اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نصیحت کرنے میں فرق۔ ٭وہ عفو جسے اللہ کریم پسند کرتا ہے، اس میں اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے پیش آنے میں فرق۔ ٭ بعض ایسے بھی عذر ہیں جن کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
انسان جب رحمت کا مزہ چکھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں اسی کا مستحق ہوں …
باب:قال اﷲ تعالٰی وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِنْ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِیْ وَ مَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمۃً وَّ لَئِنْ رُّجِعْتُ اِلٰی رَبِّیْ اِنَّ لِیْ عِنْدَہٗ لَلْحُسْنٰی فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِمَا عَمِلُوْا وَ لَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنْ عَذَابٍ غَلِیْظٍ (فصلت:۵۰)

جونہی سخت وقت گزر جانے کے بعد ہم اُسے اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں، یہ کہتا ہے کہ ’’میں اسی کا مستحق ہوں اور میں نہیں سمجھتا کہ قیامت کبھی آئے گی لیکن اگر واقعی میں اپنے رب کی طرف پلٹایا گیا تو وہاں بھی مزے کروں گا‘‘ حالانکہ کفر کرنے والوں کو لازما ہم بتا کر رہیں گے کہ وہ کیا کر کے آئے ہیں۔ اور انہیں ہم بڑے گندے عذاب کا مزا چکھائیں گے۔
اس آیت کریمہ کے مفہوم کو واضح کرنے کے لئے شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے کتاب التوحید میں مفسرین کی عبارت کو نقل فرمایا ہے جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ۔ یہ عبارتیں اتنی واضح ہیں کہ ان کو پڑھ کر انسان کی بالکل تشفی ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ہم ان عبارتوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
قال مجاھد رحمہ اللہ ھٰذَا بِعَمَلِیْ وَ اَنَا مَحْقُوْقٌ بِہٖ و قال ابن عباسرضی اللہ عنہ یُرِیْدُ مِنْ عِنْدِیْ وقولہ قَالَ اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ
مجاہد رحمہ اللہ نے ’’ھٰذا لی‘‘ کا مفہوم یہ ادا کیا ہے کہ ’’میں اپنے اعمال کی وجہ سے ان انعامات کا حقدار تھا‘‘۔
سیدنا ابن عباسرضی اللہ عنہ نے ’’ھٰذا لی‘‘ کا مفہوم یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’یہ انعامات میری ہی کوشش کا ثمرہ اور نتیجہ ہیں‘‘۔
قتادہ رحمہ اللہ نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا فرمایا ہے ’’چونکہ میں مختلف علوم و فنون کا ماہر تھا اس لئے ان کی وجہ سے مجھے یہ سب کچھ ملا ہے‘‘۔
دوسرے علمائے کرام نے یہ فرمایا ہے کہ
’’چونکہ اللہ کو میرے بارے میں یہ علم تھا کہ میں اس کا اہل اور حقدار ہوں لہٰذا مجھے یہ سب کچھ دے دیا گیا ہے‘‘۔
مجاہد رحمہ اللہ نے جو معنی بیان کئے تھے وہ دوسرے علما کے مفہوم کے خلاف نہیں۔ جس قدر مفہوم بیان کئے گئے ہیں ان میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا بلکہ ایک ہی معنی واضح ہوتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
بنی اسرائیل میں تین قسم کے شخص تھے۔ ایک کوڑھی، ایک گنجا اور ایک اندھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمانا چاہا تو اُن کی طرف فرشتہ بھیجا۔ فرشتہ کوڑھی کے پاس آیا اور پوچھا تجھے سب سے زیادہ کیا پسند ہے؟ اُس نے جواب دیا اچھا رنگ اور اچھی چمڑی۔ اور یہ کہ یہ بیماری مجھ سے رفع ہو جائے جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے کراہت کرتے ہیں۔ فرشتے نے اُس پر ہاتھ پھیرا اور اس کی بیماری رفع ہو گئی۔ اب اُسے عمدہ رنگ بھی عطا کیا گیا اور بہترین چمڑی بھی عنایت فرمائی گئی۔ پھر سوال کہ اب تمہیں کون سا مال زیادہ محبوب ہے؟ جواب میں اُس نے اونٹ یا گائے (راوی اسحق کو شک ہے) چنانچہ اسے حاملہ اونٹنی دی گئی اور کہا اللہ تیرے لئے اس میں برکت پیدا کرے۔ پھر فرشتہ گنجے کے پاس گیا اور اُس سے کہا تجھے کیا چیز زیادہ پسند ہے؟ اُس نے کہا عمدہ بال اور یہ کہ یہ بیماری جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے کراہت محسوس کرتے ہیں، مجھ سے رفع ہو جائے۔ اب فرشتے نے اس کے بدن پر ہاتھ پھیرا اور وہ بیماری ختم ہو گئی اور ساتھ ہی اُسے بہترین بال بھی عطا کئے گئے۔ اس کے بعد فرشتے نے اس سے پوچھا تمہیں کون سا مال زیادہ پسند ہے؟ کہا گائے یا اونٹ۔ چنانچہ اس کو حاملہ گائے دی گئی اور کہا اللہ تیرے لئے اِس مال میں برکت عطا کرے۔ اب فرشتہ اندھے کے پاس آیا اور اس سے سوال کیا کہ تجھے کون سی چیز پسند ہے؟ اُس نے کہا یہ کہ اللہ میری بینائی واپس لوٹا دے جس سے میں لوگوں کو دیکھ سکوں۔ فرشتے نے اس کی آنکھوں پر ہاتھ پھیرا اور اللہ نے اس کی بینائی واپس لوٹا دی۔ اس کے بعد پوچھا تجھے کون سا مال زیادہ محبوب ہے؟ کہا بکری۔ چنانچہ اس کو حاملہ بکری عطا کی گئی۔ کچھ مدت بعد ان سب کے ہاں اتنی تعداد میںبچے بڑھے کہ اُس کا ایک میدان اونٹوں کا ہو گیا، اُس کا ایک میدان گائے کا اور اُس کا بکری کا۔پھر وہی فرشتہ کوڑھی کے پاس، اسی پہلی شکل و صورت میں آیا اور کہا کہ میںمسکین آدمی ہوں، میرے تمام اسباب منقطع ہو چکے ہیں اور معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ میں آج اپنے وطن میں اللہ کی مدد اور پھر تیری مدد کے بغیر نہیں پہنچ سکتا میں تجھ سے اُس ذاتِ پاک کے ذریعے سے، جس نے تجھے خوبصورت رنگ، بہتر چمڑی اور مال عطا کیا ہے، یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھے ایک اونٹ دے دے جس پر میں سفر کر کے اپنے وطن پہنچ سکوں۔ اُس نے کہا مجھے بہت سی ضرورتیں درپیش ہیں۔ فرشتے نے کہا غالباً میں تجھے پہچانتا ہوِ کیا تو کوڑھی نہ تھا؟ تجھ سے لوگ کراہت محسوس کرتے تھے، فقیر نہ تھا؟ تجھے اللہ عزوجل نے یہ مال عطا کیا۔ اس نے کہا یہ مال مجھے وراثت میں حاصل ہوا ہے میں نے اسے اپنے باپ دادا سے پایا ہے۔ اس نے کہا اگر تو کذب بیانی کرتا ہے تو اللہ پھر تجھے ایسا ہی کر دے جیسا تو پہلے تھا۔ بعد ازاں وہ فرشتہ گنجے کے پاس اُسی کی صورت میں آیا۔ اس سے بھی وہی بات کی جو کوڑھی سے کی تھی اور اس نے بھی وہی جواب دیا جو کوڑھی نے دیا تھا تو فرشتنے نے اس سے کہا اگر تو جھوٹا ہے تو اللہ تجھے پھر ویسا ہی کر دے جیسا کہ تو اُس سے پہلے تھا۔ پھر وہ فرشتہ اندھے کے پاس آیا، اِسی کی شکل و صورت میں۔ کہا میں ایک مسکین اور مسافر ہوں۔ میرا تمام سامانِ سفر اور زادِ راہ ختم ہو چکا ہے۔ آج مجھے اپنی پہنچ کے لئے اللہ کی مدد اور پھر تیری امداد کے سوا کوئی اور ذریعہ دکھائی نہیں دیتا میں تجھ سے اُس ذات کا واسطہ دے کر جس نے تجھے تیری بینائی لوٹائی، ایک بکری کا سوال کرتا ہوں۔ اس نے جواب دیا میں اندھا تھا، اللہ نے مجھے بینائی کی نعمت عطا فرمائی۔ تیرا جو جی چاہے لے لے اور جو جی چاہے چھوڑ دے۔ اللہ کی قسم آج تو جو کچھ بھی اللہ کے نام پر لے گا، میں اس میں تجھ سے کوئی جھگڑا نہ کروں گا۔ فرشتے نے کہا اپنا مال اپنے پاس رکھو۔ تم آزمائے جا چکے۔ اللہ تجھ پر خوش ہو گیا اور تیرے دونوں ساتھیوں سے ناراض ہو گیا۔(بخاری و مسلم)۔
پیش نظر حدیث بہت اہم ہے۔ اس میں بیشمار عبرتیں اور نصیحتیں مضمر ہیں غور فرمائیے کہ پہلے دو آدمیوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کیا اور نہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا اور نہ حقوق اللہ ادا کئے نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب کا شکار ہو گئے۔ البتہ نابینا شخص نے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو صرف اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا۔ حقوق اللہ کی ادائیگی کا فریضہ انجام دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ کیونکہ اُس نے شکر کے ان تینوں ارکان پر عمل کیا جن کے علاوہ شکر کا وجود ہی ممکن نہیں۔ شکر کے تین ارکان یہ ہیں: ۱۔اقرارِ نعمت۔ ۲۔ انعامات کو منعم حقیقی کی طرف منسوب کرنا۔ ۳۔ انعام کرنے والے کی رضا کے مطابق انعامات کو خرچ کرنا۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’حقیقت شکر یہ ہے کہ انسان انتہائی عجز و انکساری سے اللہ کریم کے انعامات کا دِل سے اعتراف کرے اور دل کی گہرائیوں سے منعم حقیقی سے محبت رکھے کیونکہ جو شخص اپنی کم عقلی اور جہالت کی وجہ سے انعامات کی حقیقت کو نہیں سمجھتا وہ انعامات کا شکر ادا کیسے کر سکتا ہے؟ اور جو شخص انعامات کو تو پہچان لیتا ہے لیکن منعم کو نہیں پہچانتا وہ بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔ اور جو شخص مندرجہ بالا تمام اُمور کو بطریق احسن انجام دیتا ہے وہی حقیقت میں شکر کا حق ادا کرتا ہے۔ شکر کے لئے دل میں علم ہونا، علم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان منعم کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اُس سے محبت کرتا ہے اور اُس کے سامنے عجز و انکساری سے پیش آتا ہے‘‘۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بندوں کے نام اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب نہیں ہونے چاہئیں …
باب :قال اﷲ تعالیٰ فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہُ شُرَکَآءَ فِیْمَا اٰتٰھُمَا فَتَعٰلَی اﷲُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ

اس باب میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ نام اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ یہ شرک فی الالوہیت اور شرک فی العبدیت ہے۔ عبدیت کی نسبت صرف اللہ کی طرف ہونی چاہیئے اور سب لوگ اللہ تعالیٰ ہی کے بندے ہیں۔
قال اﷲ تعالیٰ فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہُ شُرَکَآءَ فِیْمَا اٰتٰھُمَا فَتَعٰلَی اﷲُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ (سورئہ اعراف:۱۹۰)
جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک صحیح و سالم بچہ دے دیاتو وہ اس کی اِس بخشش و عنایت میں دُوسروں کو اُس کا شریک ٹھہرانے لگے۔ اللہ تعالیٰ بہت بلند و برتر ہے اُن مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس نام پر غیر اللہ کی عبادت ہوتی ہو، وہ نام رکھنا حرام ہے۔ جیسے عبد عمرو، عبدالکعبہ، {محمد بخش، پیراں دتہ، } وغیرہ۔ صرف عبدالمطلب اس سے مستثنیٰ ہے۔
ابن ابی حاتم میں روایت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سورئہ اعراف کی مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے کہا:
’’جب سیدنا آدم علیہ السلام اور مائی حوا آپس میں ملے تو یہ حاملہ ہوئیں۔ ابلیس ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میں وہی ہوں جس نے تمہیں جنت سے نکالا۔ میری بات مانو اور ہونے والے بچے کا نام عبدالحارث رکھنا ورنہ میں اس کے سر پر بارہ سنگا کے دو سینگ بنا دوں گا جس کی وجہ سے یہ بچہ تمہارا پیٹ چیر کر نکلے گا اور میں یہ کروں گا، وہ کروں گا۔ لیکن سیدنا آدم و حوا علیہما السلام نے اس کی ایک نہ مانی، چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو وہ مردہ تھا۔
حوا علیہا السلام پھر دوبارہ حاملہ ہوئیں تو شیطان نے آکر پھر وہی کہا لیکن سیدنا آدم اور حوا علیہما السلام نے اس کی بات نہ مانی اور پھر مردہ بچہ پیدا ہوا۔ پھر تیسری دفعہ حوا علیہا السلام حاملہ ہوئیں تو شیطان نے پھر آ کر بہکانے کی کوشش کی چنانچہ اُن کے دل میں بچے کی محبت پیدا ہو گئی اور انہوں نے بچہ پیدا ہونے کے بعد اُس کا نام ’’عبدالحارث‘‘ رکھ دیا۔ (لیکن اس حدیث کی سند ضعیف ہے)۔
علامہ ابن جریر رحمہ اللہ نے حسن بصری رحمہ اللہ کے دو اقوال نقل کئے ہیں:
۱۔ یہ واقعہ سابقہ اُمتوں میں سے ایک شخص کا ہے۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔
۲۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ یہود و نصاریٰ کی یہ خصلت تھی کہ جب ان کے ہاں اولاد پیدا ہوتی تو وہ اپنی اولاد کو یہودی اور عیسائی بنا لیتے تھے۔
یہ اور اس قسم کے تمام اقوال اہل کتاب سے اخذ کئے گئے ہیں، جن کا اپنا دین ہی محفوظ نہیں رہا۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب: ’’الملل والنحل‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ:
’’جن لوگوں نے اس واقعہ کو سیدنا آدم اور حوا علیہما السلام کی طرف منسوب کیا ہے کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے کا نام عبدالحارث رکھا تھا، ان لوگوں میں نہ تو دین کی سوجھ بوجھ ہے اور نہ شرم و حیاء کا جوہر کیونکہ ان کی تمام روایات خرافات کا پلندہ، موضوع، اور کذب و افتراء کا مجموعہ ہیں۔ اور ان کی سند قطعاًصحیح نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ آیت کریمہ مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی تھی‘‘۔
شارح کتاب الشیخ عبداللہ بن حسن آل شیخ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کا آیت کے آخر میں یہ فرمانا کہ ’’فَتَعَالَی اﷲُ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ‘‘ سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت کے اس حصہ کا تعلق سیدنا آدم اور حوا علیہما السلام سے نہیں ہے بلکہ اس سے مشرکین مراد ہیں‘‘۔
نیز قرآن کریم کا ظاہری سیاق بھی اسی پر دلالت کناں ہے۔ (واللہ اعلم)۔
علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے علمائے کرام کا اس پر اتفاق نقل کیا ہے کہ غیر اللہ کی طرف کسی کی عبدیت منسوب کرنا حرام ہے۔ کیونکہ یہ اُس کی اُلوہیت، اور ربوبیت میں شرک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی ملک ہے اور اس کی غلام اور تابع ہے۔ اور اس نے خاص اپنی ہی عبادت اور توحید ربوبیت اور اُلوہیت کے لئے ان کو اپنے بندے کہا ہے۔
پس ایسے لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کو ربوبیت اور اُلوہیت میں واحد و یکتا جانا۔ اور بعض ایسے افراد بھی ہوئے جنہوں نے اُلوہیت میں شرک کا ارتکاب کیا اور توحید ربوبیت اور توحید اسماء و صفات کا اقرار کیا۔ ایسے افراد پر وہ احکام الٰہیہ جن کا تعلق قضاء و قدر سے ہے، جاری رہے۔ اللہ تعالیٰ ان ہی کے بارے میں فرماتا ہے:
(ترجمہ) زمینوں اور آسمانوں کے رہنے والے سب کے سب اللہ کریم کے سامنے (دست بستہ) غلامانہ حاضر ہوں گے۔(مریم:۹۳)۔
اسی کو عبودیت عامہ کہتے ہیں۔ تو
’’کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں‘‘؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اسماء الحسنیٰ کی وساطت سے اللہ سے دعا کرنا۔
باب :قال اﷲ تعالیٰ وَ لِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَاص وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآئِہٖ (سورئہ اعراف:۱۸۰)

اس باب میں اس حقیقت کو نکھار کر بیان کیا گیا ہے کہ اسمائے حسنی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، ان ہی کی وساطت سے اس کے سامنے دست دعا دراز کرو اور جو لوگ اُس کے ناموں میں شرک و الحاد سے کام لیتے ہیں ان کو نظر انداز کر دو۔
وَ ِﷲِ الْاَسْمَاء الْحُسنٰی فَادْعُوہ بِھَا وَ ذَرُوا الَّذِیْنَ یلحدون فی اَسْمَائِہ (سورئہ اعراف:۱۸۰)
اللہ تعالیٰ اچھے ناموں کا مستحق ہے اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہو جاتے ہیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
’’اللہ کریم کے ننانوے نام ہیں، جو شخص ان کو یاد کرے گا وہ جنت میں جائے گا، اللہ تعالیٰ ایک ہے اور طاق سے محبت کرتا ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام
ھُوَ اﷲُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ
الرّحْمٰنُ
الرَّحِیْمُ
الْمَلِکُ
الْقُدُّوْس

بڑا مہربان
نہایت رحم والا
بادشاہ
پاک و بے عیب​
السَّلَامُ
الْمُؤْمِنُ
الْمُھَیْمِنُ
الْعَزِیْزُ

سلامتی دینے والا
امن میں رکھنے والا
محافظ
باعزت​
الْجَبَّارُ
الْمُتَکَبِّرُ
الْخَالِقُ
الْبَارِءُ

زبردست
بڑائی والا
پیدا کرنے والا
عالم کا بنانیوالا​
الْمُصَوِّرُ
الْغَفَّارُ
الْقَھَّارُ
الْوَھَّابُ

صورت بنانے والا
بخشنے والا
سب پر غالب
بکثرت دینے والا​
الرَّزَاقُ
الْسَّتَّارُ
الْفَتَّاحُ
الْعَلِیْمُ

روزی دینے والا
عیب ڈھانکے والا
کھولنے والا
ہر چیز جاننے والا​
الْقَابِضُ
الْبَاسِطُ
الْخَافِضُ
الرَّافِعُ

بند کرنے والا
کشادہ کرنے والا
پست کرنے والا
بلند کرنے والا​
الْمُعِزُّ
الْمُذِلُّ
السَّمِیْعُ
الْبَصِیْرُ

عزت دینے والا
ذلیل کرنے والا
سننے والا
دیکھنے والا​
الْحَکَمُ
الْعَدْلُ
اللَّطِیْفُ
الْخَبِیْرُ

فیصلہ کرنے والا
انصاف کرنے والا
باریک بین
ہر چیز سے باخبر​
الْحَلِیْمُ
الْعَظِیْمُ
الْغَفُوْرُ
الشَّکُوْرُ

بردبار
بزرگ
بخشنے والا
قدردان​
الْعَلِیُّ
الْکَبِیْرُ
الْحَفِیْظُ
الْمُقِیْتُ

سب سے بلند
سب سے بڑا
محافظ و نگہبان
محافظ​
الْحَسِیْبُ
الْجَلِیْلُ
الْکَرِیْمُ
الرَّقِیْبُ

حساب لینے والا
بڑی شان والا
کرم والا
ہر شے کا نگہبان​
الْمُجِیْبُ
الْوَاسِعُ
الْحَکِیْمُ
الْوَدُوْدُ

دعا قبول کرنیوالا
کشادہ رحمت والا
حاکم با حکمت
محبت کرنے والا​
الْمَجِیْدُ
الْبَاعِثُ
الشَّھِیْدُ
الْحَقُّ

بزرگی والا
اٹھانے والا
حاضر
سچا​
الْوَکِیْلُ
الْقَوِیُّ
الْمَتِیْنُ
الْوَلِیُّ

کارساز
زبردست
قوت والا
مددگار​
الْحَمِیْدُ
الْمُحْصِیُ
الْمُبْدِءُ
الْمُعِیْدُ

قابل تعریف
ہر چیز گھیرنے والا
ایجاد کرنے والا
دوبارہ زندہ کرنیوالا​
الْمُحْیِیْ
الْمُمِیْتُ
الْحَیُّ
الْقَیُّوْمُ

زندہ کرنے والا
مارنے والا
ہمیشہ زندہ رہنے والا
نگرانی کرنے والا​
الْوَاجِدُ
الْمَاجِدُ
الْوَاحِدُ
الصَّمَدُ

غنی
بزرگی والا
اکیلا
بے نیاز​
الْقَادِرُ
الْمُقْتَدِرُ
الْمُقَدِّمُ
الْمُؤَخِّرُ

قدرت والا
اقتدار والا
آگے کرنے والا
پیچھے کرنے والا​
الْاَوَّلُ
الْاٰخِرُ
الظَّاھِرُ
الْبَاطِنُ

سب سے پہلا
سب سے بعد والا
حاضر
پوشیدہ​
الْوالِیُ
الْمُتَعَالِیُّ
الْبَرُّ
التَّوَّابُ

مالک
بلند شان
بندوں پر مہربان
توبہ قبول کرنے والا​
الْمُنْتَقِمُ
الْعَفُوُّ
الرَّئُ وْفُ
مَالِکُ الْمُلْکِ

سزا دینے والا
معاف کرنے والا
نہایت مہربان
جہانوں کا مالک​
ذُوْالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ
الْمُقْسِطُ
الْجَامِعُ

جلال و تکریم والا
عادل
جمع کرنے والا​
الْغَنِیُّ
الْمُغْنِیُّ
الْمَانِعُ
الضَّارُّ

سب سے بے نیاز
بے پرواہ کرنیوالا
روکنے والا
ضرر پہنچانے والا​
النَّافِعُ
النُّوْرُ
الْھَادِیُ
الْبَدِیْعُ

نفع دینے والا
روشنی دینے والا
راہ بتانے والا
ایجاد کرنے والا​
الْبَاقِیُّ
الْوَارِثُ
الرَّشِیْدُ
الصَّبُوْرُ

ہمیشہ باقی رہنے والا
فنائے عالم کے بعد باقی رہنے والا
راہ نما​
صبر کرنے والا​

یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ اسمائے حسنیٰ صرف ننانوے کے عدد میں منحصر نہیں ہیں، کیونکہ مسند امام احمد میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’جس شخص کو کوئی غم و حزن یا کسی قسم کی تکلیف پہنچے اور وہ مندرجہ ذیل دعا پڑھے تو اُس کے غموں کے بادل چھٹ جائیں گے اور مصائب و مشکلات کی جگہ خوشی اور مسرت حاصل ہو گی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کی کہ یارسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ہم وہ دعاء سیکھ لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! اُسے ضرور یاد کر لو: (ترجمہ) ’’اے اللہ! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے اور تیری لونڈی کا بیٹا ہوں میری پیشانی تیرے قبضہ میں ہے۔ تیرا فیصلہ مجھ پر عدل و انصاف سے جاری ہے، اے اللہ! تیرے تمام اچھے نام جو تو نے اپنے لئے خود تجویز فرمائے ہیں یا تو نے اپنی کتاب میں نازل کئے ہیں، یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھلائے یا تو نے اُن کو اپنے علم غیب میں منتخب کیا۔ ان کے ذریعہ سے میں یہ سوال کرتا ہوں کہ تو قرآن کریم کو میرے قلب کی بہار میرے سینے کا نور، میرے غم کی جلا اور میرے غم و اندوہ کو ختم کرنے کا ذریعہ اور سبب بنا دے۔ (اس روایت کو ابو حاتم بن حبان نے بھی اپنی صحیح میں نقل کیا ہے)۔
و ذکر ابی حاتم عن ابن عباس رضی اللہ عنہ یُلْحِدُوْنَ فِیْ اَسْمَآئِہٖ یُشْرِکُوْنَ وَ عَنْہُ سَمُّوْا اللَّاتَ مِنَ الْاِلٰہِ وَ الْعُزّٰی مِنَ الْعَزِیْزِ و عن الاعمش رحمہ اللہ یُدْخِلُوْنَ فِیْھَا مَا لَیْسَ مِنْھَا
ابن ابی حاتم نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ
’’یُلْحِدُوْنَ‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شرک کرتے ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک قول یہ بھی ہے کہ
الحاد یہ ہے کہ لفظ الجلالۃ (یعنی اللہ) کو اللات سے اور العزیز کو عزی سے مشتق کرتے تھے۔
الحاد کے متعلق اعمش رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ
وہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں ایسے ناموں کا اضافہ کرتے ہیں جو حقیقت میں اللہ کے نام نہیں۔
قتادہ رحمہ اللہ نے ’’یُلْحِدُوْنَ‘‘ کا ترجمہ ’’یُشْرکُوْنَ‘‘ کیا ہے یعنی وہ شرک کرتے ہیں۔
علی بن ابی طلحہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے الحاد کا ترجمہ تکذیب بھی نقل کیا ہے۔ کلام عرب میں الحاد اپنے مقصد سے انحراف، کجی اور ظلم پر بولا جاتا ہے۔ چنانچہ قبر میں لحد کو بھی اسی لئے لحد کہتے ہیں کہ وہ ایک جانب ہوتی ہے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف ہوتا ہے۔ کیونکہ لحد اس گڑھے کو نہیں کہتے جو میت کے لئے کھودا جاتا ہے۔
الحاد کے متعلق علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الحاد کی حقیقت میں شرک کی طرف میلان، اور صفات کی تعطیل اور انکار بھی داخل ہے‘‘۔
اللہ کریم کے نام اور اُس کی تمام صفات ایسی ہیں جن سے انسان اللہ کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ ایسے نام ہیں جو اس کی جلالت، عظمت اور کبریائی پر دلالت کرتے ہیں۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
’’الحاد کی کئی صورتیں ممکن ہیں جیسے: ۱۔ اس کے اسماء و صفات سے بالکل انکار کر دیا جائے۔ یا ۲۔ان کے معانی و مفہوم کو ترک کر دیا جائے اور اِن کی تعطیل کو مانا جائے یا ۳۔ ان کے اصل مقصد میں تحریف کر کے کوئی دوسرا مفہوم پیش کر دیا جائے۔ یا ۴۔ صحت و صواب کو چھوڑ کر تاویلات کی طرف رجوع کر لیا جائے۔ یا یہی نام مخلوق کے رکھ دیئے جائیں جیسے اہل اتحاد ملحدین نے کیاتھا یعنی انہوں نے یہی نام کائنات کی اشیائے مذموم و محمود پر رکھ دیئے۔ حتی کہ ان کے نمائندہ نے کہہ دیا کہ ’’بعینہٖ یہی چیزیں ممدوح و مذموم عقلاً و شرعاً و عرفاً مسمی ہیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ اِنکی اِن باتوں سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
صاحب فتح المجید علامہ الشیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’متقدمین اور متأخرین تمام اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ کریم کی وہ صفات جو اس نے خود اپنے لئے بیان کی ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں وہ جیسے بھی اللہ کریم کی عظمت و جلالت کے لائق ہیں ان کو بلا تمثیل تشبیہ و تعطیل تسلیم کیا جائے جیسا کہ قرآن کریم میں کہا گیا ہے: (ترجمہ) ’’کائنات کی کوئی چیز (نہ ذات میں اور نہ صفات میں) اس کے مشابہ نہیں، وہ سب کچھ سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (الشوریٰ:۱۱)۔
کیونکہ صفات میں گفتگو ذات کی گفتگو کی فرع ہے۔ لہٰذا دونوں میں سے کسی پر کلام کرنا دونوں پر کلام کرنے کے برابر سمجھا جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذاتِ حقیقی کا علم مخلوق سے کسی قسم کی تشبیہ و تمثیل دیئے بغیر ماننا ضروری ہے۔ اسی طرح اس کی حقیقی صفات کو مخلوق سے بلا تمثیل و تشبیہ جاننا ضروری ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ کی اپنی ذات کے لئے بیان کردہ صفات، یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کی گئی صفات کا انکار کرے، یا ان کی غلط تاویل کرے وہ فرقہ جہمیہ سے ہو گا، کیونکہ انہوں نے مومنین کا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے کو اپنا لیا ہے۔ ایسے ہی افراد کے بارے میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے درآں حال یہ کہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو تو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فائدہ جلیلہ کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں کہ : جو صفت یا خبر اللہ کریم کی ذات کے لئے بیان ہو، اس کی چند اقسام ہیں:
۱۔ جو براہِ راست اللہ تعالیٰ کی ذات سے متعلق ہیں، جیسے موجود، اور ذات وغیرہ۔
۲۔ جو اللہ تعالیٰ کی صفت قرار پاتی ہیں جیسے علیم ، قدیر، سمیع، اور بصیر وغیرہ۔
۳۔ جو اللہ تعالیٰ کے افعال سے متعلق ہیں، جیسے خالق، رازق وغیرہ۔
۴۔ جو تنزیہ محض ہو وہ اس طرح کہ اسکے اندر کمال کا اثبات ہو نہ یہ کہ صرف نقائص کا انکار ہو جیسے القدوس السلام۔
۵۔ پانچویں صفت وہ ہے جس کا اکثر لوگوں نے ذکر نہیں کیا۔ یہ وہ اسم ہے جو بیشمار اوصاف پر دلالت کرتا ہے کسی خاص اور معین صفت کی وضاحت مقصود نہیں ہوتی بلکہ اس سے مختلف معانی نکالے جا سکتے ہیں جیسے مجیدؔ، عظیم، صمد۔

مجیدؔ ایسی ذات کو کہا جاتا ہے جس میں بہت سی کامل صفتیں پائی جائیں۔ یہ لفظ وُسعت اور کثرت کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ: (ترجمہ) ’’عرش مجید والا‘‘۔ مجیدؔ: اللہ تعالیٰ کے عرش کی صفت ہے چونکہ اس میں وُسعت، عظمت، اور شرف ہے لہٰذا اسی بنا پر اس کو عرش مجید کہا گیا ہے۔ غور فرمائیے کہ درودِ شریف میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے جب ہم اللہ کی بارگاہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر صلوۃ و سلام کا سوال کریں تو اس وقت یہی مجیدؔکا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ کیونکہ صلوۃ و سلام میں کثرت، وسعت اور دوام مطلوب و مقصود ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں یہی لفظ موزوں اور مناسب تھا۔ جیسا کہ دعا میں کہا جاتا ہے:
’’مجھے بخش اور معاف فرما کیونکہ تو ہی بخشنے والا اور رحیم ہے‘‘۔
اس دُعائیہ جملہ میں اللہ کریم کے اسماء و صفات کے ذریعہ سے کام لیا گیا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات سے وسیلہ حاصل کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب اور پسندیدہ ہے۔ ترمذی میں ایک حدیث ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’یاذالجلال والاکرام کے الفاظ کے ساتھ اصرار سے مانگو‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں دعائیہ جملے یوں ارشاد فرمائے گئے ہیں:
’’اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس وسیلہ سے کہ تیرے ہی لئے تعریف ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو احسان کرنے والا ہے، زمینوں اور آسمانوں کا بنانے والا ہے۔ اے جلال اور بزرگی کے مالک‘‘۔
اس دعا میں اللہ تعالیٰ سے اس کی حمدوں کے وسیلہ سے سوال کیا گیا ہے۔ اور جملہ ’’لا الٰہ الا انت المنان‘‘ میں اسماء اور صفات دونوں کو وسیلہ بنایا گیا ہے۔ قبولیت دعا کا یہ سنہری موقع ہے یہی وہ باب ہے جس کو توحید کے سلسلے میں اہم مقام حاصل ہے۔
۶۔ چھٹی صفت وہ ہے جو دو ناموں یا دو وصفوں کے جمع ہونے سے پیدا ہوتی ہے کہ ان دونوں ناموں یا وصفوں کو الگ الگ کر کے پڑھا جائے تو یہ تیسری صفت پیدا نہ ہو گی۔ جیسے الغنی الحمید، الغفور القدیر، الحمید المجید وغیرہ۔
اسی پر دوسرے ناموں اور صفتوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے جو قرآن کریم میں بار بار استعمال ہوئی ہیں۔ الغنی، اور الحمید الگ الگ کامل صفتیں ہیں۔ جب ان دونوں کو جمع کریں گے تو تیسری صفت پیدا ہو گی۔ جس نے اللہ کو غنی سمجھا اور اس کی حمد بیان کی وہ بھی ثناء کے قابل ہے۔ یہ ثنا دونوں کے اجتماع سے پیدا ہوتی ہے۔ اسی پر الغفور القدیر، الحمید المجید وغیرہ کو قیاس کیا جا سکتا ہے۔ معرفت کا یہ بہت اونچا اور بلند مقام ہے۔

فیہ مسائل
٭ اللہ کریم کے اسماء کو ثابت کرنا۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں کا پاکیزہ ہونا۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کے ساتھ دعا مانگنے کا حکم۔ ٭ وہ ملحدین جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات میں معارضہ کرتے ہیں، اُن سے قطع تعلق کرنا۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے اسماء میں کس قسم کا الحاد ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت۔ ٭ جو شخص الحاد جیسے قبیح فعل کا مرتکب ہو، اس کے بارے میں وعید اور ڈانٹ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ پر سلام ہو جیسے الفاظ زبان سے نکالنا درست نہیں۔
باب :لا یقالُ السلام علی اﷲ
اس باب میں اس امر کی وضاحت کی گئی ہے کہ ’’اللہ پر سلام ہو‘‘ کے الفاظ زبان سے نکالنا درست نہیں ہے۔ یہ الفاظ ذاتِ الٰہی کو زیبا نہیں۔
و فی الصحیح عن ابن مسعودرضی اللہ عنہ قال اِذَا کُنَّا مَعَ النَّبِیّ صلی اللہ علیہ وسلم فِی الصَّلٰوۃِ قُلْنَا اَلسَّلَامُ عَلَی اﷲِ مِنْ عِبَادِہٖ اَلسَّلَامُ عَلٰی فُلَانٍ وَّ فُلَانٍ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم لَا تَقُوْلُوْا اَلسَّلَامُ عَلَی اﷲِ فَاِنَّ اﷲَ ھُوَ السَّلَامُ
صحیح بخاری و صحیح مسلم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ: ہم جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز (میں تشہد) پڑھتے تو کہتے کہ ’’اللہ پر اُس کے بندوں کا سلام ہو اور فلاں فلاں شخص پر بھی سلام ہو‘‘۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’السلام علی اﷲ‘‘ نہ کہا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تو خود ہی سلام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ جب فرض نماز ختم کرتے تو تین بار استغفار پڑھتے اور یہ دعا بھی پڑھتے:
’’اے اللہ تو ہی سلام ہے اور سلامتی تیری ہی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ اے عظمت اور بزرگی والے تو ہی بابرکت ذاتِ کبریا ہے‘‘۔
ایک حدیث میں ارشاد فرمایا کہ
اہل جنت کا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یہی سلام ہو گا۔
قرآن کریم میں اس کی بھی تصریح موجود ہے کہ ربِّ کریم اہل جنت کو سلامتی کا پیغام دے گا۔
قرآن کریم کے الفاظ یہ ہیں: ’’سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ‘‘ رب رحیم کی طرف سے اُن کو سلامتی کا پیغام ہے۔ (یٰسین:۵۹)۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص اور تمثیل سے پاک اور بے نیاز ہے وہ ایسا ربِّ کریم ہے جس میں کمال کی تمام صفات موجود ہیں اور ہر عیب اور نقص سے منزہ و مبرہ ہے۔

فیہ مسائل
٭ لفظ السلام کی تفسیر۔ ٭ یہی لفظ اہل جنت کا سلام ہونا۔ ٭ یہ لفظ ذاتِ باری تعالیٰ کے لئے درست نہیں۔ ٭اس لفظ کے نہ کہنے کی وجہ۔ ٭ اُس تحیہ کی تعلیم جو اللہ تعالیٰ کے لئے زیبا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یوں کبھی دُعا نہ مانگو کہ ’’اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے معاف فرما‘‘ …
باب:اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ اِنْ شِئْتَ

اس باب میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ انسان کو دعا کرتے وقت پورے عزم اور وثوق سے اپنی حاجات رب ذوالجلال کے سامنے پیش کرنی چاہئیں، شک اور تذبذب کی کیفیت ہرگز اپنے اُوپر طاری نہ ہونے دے۔
فی الصحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا یَقُلْ اَحَدُکُمْ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ اِنْ شِئْتَ اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ اِنْ شِئْتَ لِیَعْزِمِ الْمَسْاَلَۃَ فَاِنَّ اﷲَ لَا مُکْرِہَ لَہٗ وَ لِمُسْلمٍ وَ لْیَعْزِمِ الرَّغْبَۃَ فَاِنَّ اﷲَ لَا یَتَعَاظَمُہٗ شیْیئٌ اَعْطَاہُ
صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کسی شخص کو یہ نہ کہنا چاہیئے کہ اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو میری مغفرت فرما۔ اے اللہ! اگر تو چاہتا ہے تو مجھ پر رحم فرما۔ بلکہ چاہیئے کہ اپنے سوال کو پورے عزم اور پختگی سے پیش کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کوئی دباؤ نہیں ڈال سکتا۔ صحیح مسلم میں یہ الفاظ ہیں: ’’اپنے رب تعالیٰ سے بڑے وثوق سے سوال کرے کیونکہ اُس کے سامنے کوئی چیز بڑی نہیں ہے‘‘۔
انسان کا معاملہ اللہ تعالیٰ سے کہیں مختلف ہے، کیونکہ بعض اوقات کوئی شخص سائل کا سوال اس لئے پورا کر دیتا ہے کہ اس کی اپنی ضرورت پوری ہونے کی توقع ہوتی ہے۔ یا سائل سے ڈر کر اس کا سوال پورا کرتا ہے حالانکہ اس کا دل مطمئن نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود دوسرے کی حاجت پوری کر دیتا ہے۔ مخلوق الٰہی سے سوال کرنے والے کو چاہیئے کہ وہ اپنی ضرورت کو مسئول کے ارادے اور اس کی خواہش پر چھوڑ دے اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کہ شائد وہ مجبور ہو کر میرا سوال پورا کرے۔ ہاں خالق کائنات اور رب العالمین سے سوال کرتے وقت ایسا انداز اختیار نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لائق نہیں ہے اور تمام مخلوق سے مستغنی اور بے نیاز ہے اُس کی سخاوت اور اُس کا کرم کامل ترین ہے۔ تمام مخلوق اس کی محتاج ہے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے لمحہ برابر بھی بے نیاز اور مستغنی نہیں ہو سکتا، وہ جب دینے آتا ہے تو صرف کلام ہی کرتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے: ’’رب کریم کے ہاتھ خزانوں سے پُر ہیں۔ وہ دن بھی خرچ کرتا رہے تو ان میں کوئی کمی نہیں آ سکتی۔ اللہ کے لئے غور تو کرو کہ اُس نے زمین و آسمان کی تخلیق سے لے کر آج تک کس قدر انعام و اکرام کئے ہیں؟ جو اس کے ہاتھوں میں ہے اس میں ذرہ برابر بھی کمی نہیں آئی۔ اللہ کریم کے دوسرے ہاتھ میں انصاف ہے، اس کے ذریعہ سے کسی کو بلند کرتا ہے اور کسی کو گراتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کسی پر انعام و اکرام کی بارش کرتا ہے تو اپنی حکمت سے، اور اگر کسی کو محروم رکھتا ہے تو اس میں بھی اُس کی حکمت کے راز پوشیدہ ہیں۔ وہ حکیم بھی ہے اور خبیر بھی۔ پس سائل کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مانگتے وقت پورے وثوق اور عزم سے مانگے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مجبور ہو کر نہیں دیتا اور نہ سوال کی بنا پر دیتا ہے۔


فیہ مسائل
٭ دعا میں ’’اگر تو چاہے‘‘ نہ کہنا چاہیئے۔ ٭ اس کے سبب کا بیان۔ ٭ سوال پورے وثوق سے کرنا چاہیئے ٭رغبت زیادہ ہونی چاہیئے۔ ٭ کثرتِ رغبت کے اسباب۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کوئی شخص اپنے غلام کو ’’میرا بندہ‘‘، میری ’’لونڈی‘‘ نہ کہے۔
باب:لَا یَقُوْلُ عَبْدِیْ وَ اُمَتِیْ

اس باب میں اس مسئلہ کی وضاحت کی گئی ہے کہ کوئی شخص اپنے غلام کو ’’میرا بندہ، میری لونڈی‘‘ نہ کہے۔
فی الصحیح عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا یَقُلْ اَحَدُکُمْ اَطْعِمْ رَبَّکَ وَ ضِّئْ رَبَّکَ وَ لْیَقُلْ سَیِّدِیْ وَ مَوْلَایَ وَ لَا یَقُلْ اَحَدُکُمْ عَبْدِیْ وَ امَتِیْ وَ لْیَقُلْ فَتَایَ وَ فَتَاتِیْ وَ غُلَامِیْ
صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: تم میں سے کوئی یوں نہ کہے کہ ’’اپنے رب کو کھانا کھلا۔ اپنے رب کو وضو کروا‘‘ البتہ یوں کہیں کہ میرا سردار، میرا آقا۔ اور کوئی شخص اپنے غلام کو بندہ اور میری لونڈی نہ کہے بلکہ یہ کہے کہ میرا غلام، میرا خادم، میری خادمہ۔
زیر نظر حدیث میں جن الفاظ کے استعمال سے روکا گیا ہے اگرچہ وہ لغوی اعتبار سے مستعمل ہوتے ہیں پھر بھی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید میں پختگی پیدا کرنے اور شرک کے سدباب کے لئے ان کو استعمال کرنے سے روک دیا ہے کیونکہ ان کے استعمال سے اللہ تعالیٰ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ لفظاً مشابہت پائی جاتی ہے اس سے روکنے کی وجہ محض یہ ہے کہ رب کریم ہی اپنے تمام بندوں کا رب ہے اور یہ لفظ جب کسی دوسرے کے لئے بولا جائے گا تو اس میں اسمی مشارکت اور مشابہت پائی جائے گی اس معمولی مشابہت کو بھی ختم کرنے کے لئے ان الفاظ کو استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ الفاظ استعمال کرتے وقت متکلم کا مقصد شرک فی الربوبیت نہیں ہوتا جو خالص اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ متکلم کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ یہ فلاں شخص کی ملکیت ہے اسی مقصد کو سامنے رکھ کر یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔
پس خالق اور مخلوق کے درمیان شرکت کے معمولی سے شائبہ کو بھی ختم کرنے کے لئے اور توحید کی کامل حفاظت اور شرک کے موذی مرض سے دُور رہنے کے لئے اگرچہ لفظاً ہی کیوں نہ ہو، ان الفاظ کو استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے شریعت اسلامیہ کا مدعائے احس یہ ہے کہ ایسے الفاظ استعمال کرنے سے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کی بزرگی کا اظہار ہوتا ہے اور مخلوق سے مشابہت کا پہلو دُور ہو جاتاہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کے قائم مقام الفاظ بھی فرما دیئے ہیں جیسے سیدی و مولای وغیرہ۔ اسی طرح ’’عَبَدِیْ اور اَمَتِیْ‘‘ وغیرہ کے الفاظ سے بھی روک دیا ہے کیونکہ تمام مرد عورتیں اللہ کے غلام ہیں۔ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’زمین اور آسمان کے اندر جو بھی ہیں سب اُس کے حضور بندوں کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں‘‘۔ (مریم:۹۳)۔
ان دونوں جملوں کو غیر اللہ کے لئے استعمال کرنے سے شرکت لفظی پائی جاتی ہے لہٰذا اللہ کریم کی عظمت و جلالت، اس کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور شرک سے بعد و اجتناب کی خاطر اور توحید میں پختگی کے پیش نظر ان الفاظ کو استعمال کرنے سے منع فرما دیا گیا ہے۔ اور فرمایا کہ: ان الفاظ کی بجائے: فَتَایَ فَتَاتِیْ اور غُلَامِیْ جیسے الفاظ استعمال کر لیا کرو۔ یہ سب کچھ اس لئے بیان کیا گیا ہے تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے اہم مضمون کو انتہائی مضبوط اور مستحکم دلائل سے واضح فرمایا ہے۔ پس رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر وہ بات صاف الفاظ میں بیان فرمائی جس میں اُمت کی خیرخواہی اور بھلائی مضمر تھی اور ہر اُس عمل سے منع فرمایا جس سے ایک مسلمان کے دین میں نقص پڑ جانے کا خطرہ ہے۔ پس ہر بھلائی کی طرف راہنمائی فرمائی خصوصاً توحید کی طرف نیز ہر شر سے آگاہ فرمایا خصوصاً اس سے جو لفظی طور سے شرک کے قریب لے جائے۔ اگرچہ اس کا دِلی مقصد شرک کرنا نہ بھی ہو۔

فیہ مسائل
٭سب سے اہم بات جو اس باب میں بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ توحید میں پختگی اور نکھار انتہائی لازمی ہے اگرچہ اس کا تعلق صرف الفاظ سے ہی ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
جو شخص اللہ کا نام لے کر سوال کرے اُس کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹایا جائے۔
باب:لا یرد من سال باﷲ

اس باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا نام لے کر سوال کرتا ہے۔ اس کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹایا جائے
عن ابن عمررضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ مَنْ سَاَلَ بِاﷲِ فَاَعْطُوْہُ وَ مَنِ اسْتَعَاذَ بِاﷲِ فَاعِیْذُوْہُ وَ مَنْ دَعَاکُمْ فَاَجِیْبُوْہُ فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا مَا تُکَافِئُوْنَہٗ فَادْعُوْا لَہٗ حَتّٰی تُرَوْا اَنَّکُمْ قَدْ کَافَاْتُمُوْہُ (رواہ ابوداؤد، والنسائی بسند صحیح)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا نام لے کر مانگے اُسے دو۔ اور جو اللہ تعالیٰ کے نام سے پناہ طلب کرے اُسے پناہ دو۔ اور جو شخص دعوت دے اُسے قبول کرو اور جو تمہارے ساتھ نیکی کرے اس کا بدلہ دو ۔ اگر بدلہ نہ دے سکو تو اس کے لئے اس قدر دعا کرو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ اس کا بدلہ چکا دیا گیا ہے۔
زِیر نظر حدیث کے ظاہری الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جب کوئی سائل اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر سوال کرے تو اس کو خالی ہاتھ واپس کرنا منع ہے۔ یہ سوال کتاب و سنت کی روشنی کا محتاج ہے جیسا کہ کوئی سائل سوال کرے کہ میرا بیت المال میں حق ہے اور میں ضرورتمند ہوں لہٰذا میری ضرورت کو پورا کیا جائے۔ پس اس کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی اعانت کرنا واجب ہے یا کوئی سائل کسی شخص کے زائد مال میں سے اپنی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کہے تو صاحب مال کو سائل کی ضرورت کے مطابق اس کی حاجت روائی کرنا احسن ہے۔ البتہ وہ مسئول جس کے پاس زائد مال نہیں ہے تو سائل کی ضرورت کو اس انداز سے پورا کرے کہ نہ تو وہ خود تکلیف میں پڑے اور نہ اس کے اہل و عیال کو کوئی تکلیف محسوس ہو۔ اور اگر سائل کسی اضطراری حالت میں گرفتار ہے تو اس کی اس تکلیف کو رفع کرنا واجب ہے۔ اپنے مال کو خرچ کرنا شریعت اسلامی کے اعلیٰ اور ارفع مقامات میں سے ایک بلند ترین مقام ہے۔ اس سلسلے میں جود و سخا کے لحاظ سے لوگوں کے مختلف درجات ہیں۔ جود و سخا کے مقابلے میں بخل اور کنجوسی کا درجہ ہے۔ جود و سخا کتاب و سنت کی روشنی میں لائق تحسن اور عمل محمود ہے اور بخل و کنجوسی کو اسلام انتہائی بری نظر سے دیکھتا ہے اور اس کی واشگاف الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔
اللہ کریم اپنے بندوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اپنے مال کو خرچ کریں، کیونکہ اس کا نفع بہت ہی زیادہ ہے اور اس کے اجر و ثواب میں اس سے بے پناہ اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ کریم اپنے بندوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(ترجمہ) ’’اے ایمان لانے والو! جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لئے نکالا ہے اس میں سے بہتر حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ اُس کی راہ میں دینے کے لئے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو۔ حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ۔ تمہیں جان لینا چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے اور بہترین صفات سے متصف ہے۔ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے، اللہ تعالیٰ بڑا فراخ دست اور دانا ہے‘‘۔ (بقرہ:۲۶۷ تا ۲۶۸)۔
ایک دوسرے مقام پر یوں ترغیب دی:
(ترجمہ) ’’اور خرچ کرو ان چیزوں میں سے جن پر اس نے تم کو خلیفہ بنایا ہے‘‘۔ (الحدید:۷) اور یہ انفاق فی سبیل اللہ نیک خصال میں سے ہے جن کا آیت ذیل میں ذکر ہے۔ اللہ کریم فرماتا ہے: (ترجمہ) ’’نیکی یہ نہیں کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لو یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنا دِل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے‘‘۔ (البقرۃ:۱۷۷)۔
اللہ تعالیٰ نے اس مقام پر اصولِ ایمان اور نماز کے درمیان انفاق فی سبیل اللہ کا ذکر اس لئے فرمایا کہ اس عمل کا اجر و ثواب اور اس کا نفع کئی گنا بڑھتا رہتا ہے یہ وہ اعمال ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ہے:
(ترجمہ) ’’بالیقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں اللہ نے ان کے لئے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے (الاحزاب:۳۵)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حتی کہ اپنی مستورات کو بھی صدقہ و خیرات کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے کیونکہ اس میں اُمت کی خیرخواہی پنہاں ہے اور ان کے دینی اور دنیوی دونوں فائدے موجود ہیں۔ انصارِ مدینہ کی اسی خوبی اور عادتِ حسنہ پر الٰہ کریم نے ان کی تعریف فرمائی ہے؛ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(ترجمہ) ’’اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے دل کی تنگی سے بچا لئے گئے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔ (الحشر:۹)۔
مومن شخص کی عمدہ تر اور بہترین عادات میں سے ایثار افضل ترین اور اعلی عادت ہے جیسا کہ آیت مذکورہ سے واضح ہے۔ ایثار ہی کے متعلق اللہ کریم اپنے بندوں کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے
(ترجمہ) ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور ان سے کہتے ہیں کہ) ہم تمہیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں ہم تم سے نہ کوئی بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ‘‘۔ (الدہر:۸ تا ۹)۔
فضیلت صدقہ سے متعلق بیشمار آیاتِ قرآنی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ آخرت میں اللہ تعالیٰ کے دربار میں کامیاب ہو تو اسے اس عمل صالح میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیئے۔

فیہ مسائل
٭ جو شخص اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے کر پناہ طلب کرے اس کو پناہ دینا۔ ٭ جو شخص اللہ کریم کا نام لے کر سوال کرے اس کی ضرورت کو پورا کرنا۔ ٭ اپنے مسلمان بھائی کی دعوت قبول کرنا۔ ٭ کسی کے احسان اور بھلائی کا بدلہ دینا۔ ٭ جو شخص احسان کا بدلہ نہ دے سکے، اس کے لئے دعا کرنا بھی احسان کا نعم البدل بن جائے گا۔ ٭ یعنی اتنی کثرت سے دعا کرو کہ خود تمہیں یقین ہو جائے کہ احسان کا بدلہ اتر چکا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب:لَا یُسْالُ بِوَجْہِ اﷲِ اِلَّا الْجَنَّۃُ

اس باب میں اس مسئلے کی وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ کا واسطہ دے کر جنت کے سوا اور کوئی سوال نہ کیا جائے۔
عن جابر رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَا یُسْاَلُ بِوَجْہِ اﷲِ اِلَّا الْجَنَّۃُ (رواہ ابوداؤد)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نام سے صرف جنت ہی مانگنی چاہیئے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ دین کے لئے طائف تشریف لے گئے اور اہل طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو بجائے قبول کرنے کے ٹھکرا دیا اور انتہائی بدسلوکی سے پیش آئے۔ طائف سے واپسی کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے ایسی دعائیں کیں جن سے جنت کا ذکر نہیں ہے جیسے:
’’اے اللہ! میں اپنی طاقت کی کمزوری، تدبیر کی درماندگی اور لوگوں کے سامنے اپنی ناتوانی کا شکوہ تیری ہی بارگاہِ قدس میں پیش کرتا ہوں۔ تو ہی کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا رب ہے۔ تو مجھے کس کے سپرد کرے گا؟ کسی دُوری کی طرف جو مجھ کو مایوس کردے یا کسی دشمن کی طرف تو میرا معاملہ سپرد کرے گا؟ اگر مجھ پر تیری ناراضی نہ ہو تو مجھے کسی قسم کی کوئی پروا نہیں ہے ہاں مجھ پر تیری عافیت کا سایہ میرے لئے بہت زیادہ وسیع ہے‘‘۔ اس دعا کے آخری الفاظ یہ ہیں: ’’میں تیرے اُس چہرے کے نور کی پناہ لیتا ہوں جس سے سب اندھیرے روشن ہو جائیں اور دنیا اور آخرت کے کام سنور جائیں، میں تیری پناہ لیتا ہوں کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا تیری ناراضی مجھ پر اُترے تیری ہی چوکھٹ ہے تو مجھ سے راضی ہو جا اور اللہ کی توفیق کے سوا گناہ سے بچنا ہے اور نہ نیکی کی طاقت ہے‘‘۔
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اذکار میں مندرجہ ذیل دعا بھی موجود ہے: ’’اے اللہ تو سب سے زیادہ ذکر کئے جانے اور سب سے زیادہ عبادت کئے جانے کا مستحق ہے‘‘۔ اس دعا کے آخری الفاظ یہ ہیں: ’’میں تیرے چہرے کے نور کی پناہ لیتا ہوں جس سے سب آسمان اور زمین روشن ہیں‘‘۔ یہ دُعا ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے: ’’میں اللہ کریم کے چہرے اور اللہ عظیم کے نام اور اس کے پورے کلمات کی پناہ لیتا ہوں موت اور ڈسنے والی چیزوں کی برائی سے اور اے رب ہر اس چیز کی برائی سے جو تو نے پیدا کی اور اس دن کی برائی سے اور اس کے بعد کی برائی سے اور دنیا اور آخرت کی برائی سے۔ احادیث مرفوعہ میں صحیح اور حسن اسناد سے ان ادعیہ کے علاوہ بھی دعائیں مذکور ہیں جن میں جنت کی طلب کا ذکر نہیں ہے ان کا جواب کیا ہو سکتا ہے؟
جواب: ان ادعیہ ماثورہ میں اگرچہ بظاہر جنت کا سوال نہیں لیکن ایسے اعمال و افعال کا ذکر موجود ہے جو جنت کے قرب کا ذریعہ اور وسیلہ بنتے ہیں اور ایسے اعمال سے اجتناب کا سوال بھی موجود ہے جو دخولِ جنت کے لئے رکاوٹ ثابت ہوں۔ پس اِن ادعیہ میں اللہ تعالیٰ کے چہرے اور اُس کے نور کے واسطہ سے اُن ہی اعمال کے انجام دینے کی توفیق مانگی گئی ہے جو جنت کے قرب کا ذریعہ ہیں۔ جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں یہ دعا مذکور ہے: ’’اے اللہ میں تجھ سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور اُن اقوال و اعمال کا جو مجھے جنت کے قریب کر دیں اور میں تیری پناہ لیتا ہوں آگ سے اور اُن اقوال و اعمال سے جو آگ کے قریب کریں‘‘۔
یہ دُعائیں ان لوگوں کی دعاؤں سے بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہیں جو صرف دنیا کا مال و متاع رزق میں وسعت اور دنیاوی زیب و زینت کی دعائیں کرتے ہیں۔ بلا شبہ دنیا کا مال و متاع اگر نجات اُخروی کے لئے استعمال کیا جائے تو بہت ہی مستحسن عمل ہے، جس کا ان ادعیہ میں ذکر آگیا ہے۔ پس اس میں شک نہیں کہ اللہ کریم کے نام سے صرف دنیاوی حوائج طلب کرنے کے بارے میں یہ حدیث ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ زیرنظر حدیث اور ان مذکورہ ادعیہ میں کوئی تعارض، تناقض اور اختلاف نہیں ہے۔ واللہ اعلم۔
زیر بحث حدیث اُن احادیثِ متواترہ میں سے ایک ہے جن میں اللہ تعالیٰ کے چہرے کا اثبات پایا جاتا ہے یہ صفت کمال ہے اور اس کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی ناقص چیز سے اللہ کریم کو تشبیہ دی جائے جیسا کہ بعض فرق باطلہ نے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا انکار کیا یا بعض صفات سے منکر ہو گئے۔ لہٰذا جس گناہ سے وہ بچنا چاہتے تھے اُس سے بڑے اور سنگین جرم میں مبتلا ہو گئے۔
اہل سنت کا سلفاً و خلفاً یہ دستور رہا ہے کہ وہ صفات جن کا ذکر رب کریم نے خود اپنی کتاب میں کیا ہے یا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صفات رب کریم کی بیان فرمائی ہیں اُن پر مکمل ایمان لایا جائے اور ان صفات کو تمثیل اور تشبیہ سے بالکل پاک اور صاف رکھا جائے۔ اہل سنت اُن تمام صفات کو تسلیم کرتے ہیں جو خود اللہ تعالیٰ نے یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ اور مخلوق کی مشابہت سے مبرہ سمجھتے ہیں جیسے اللہ کریم کی ذات کو بلا تمثیل و تشبیہ مانتے ہیں اسی طرح اس کی صفات کو بھی بلا تمثیل و تشبیہ تسلیم کرتے ہیں۔ پس جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کیا یوں سمجھئے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے کمال کا انکار کیا۔


فیہ مسائل
٭ اللہ کریم کے نام سے انتہائی اہم اور بڑے بڑے سوال ہی کرنے چاہئیں۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے لئے ’’چہرے‘‘ کا ثبوت۔
 
Top