• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہابیل اور قابیل کی گفتگو

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
[QUOTE]اللہ کی کتاب کی تمام آیات پر میرا ایمان ھے۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَـٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿١٢١-2﴾
جن لوگوں کو ہم نے کتاب عنایت کی ہے، وہ اس کو (ایسا) پڑھتے ہیں جیسا اس کے پڑھنے کا حق ہے۔ یہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں، اور جو اس کو نہیں مانتے، وہ خسارہ پانے والے ہیں (121)
مسلم بھائی!
ذرا دیکھیں تو قرآن کیا کہتا ہے۔۔۔


قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ 32؀


اُن سے کہو کہ : ''اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت قبول کرو'' ۔ پھر اگر وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہ کریں ، تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے ، جو اس کی اور اُس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔ (32)



وَاَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ١٣٢؁ۙ


اور اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرو توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔ (132)
سورت آل عمران



تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ ۭ وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْھَا ۭ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ 13؀



یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں ۔جو اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔(13)
سورت النساء



وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقًا 69؀ۭ



جو لوگ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین ۔کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔(69)
سورت النساء

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَاَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ 20۝ښ
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔(20)
سورت الانفال

وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 71؀
مومن مرد اور مومن عورتیں ، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے اور بُرائی سے روکتے ہیں ، نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کرتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی ، یقینا اللہ سب پر غالب اور حکیم ہو دانا ہے ۔ (71)
سورت توبہ
مزید بھی بہت دلائل ہیں جو "قرآن مجید" سے ہے۔۔۔
اور اللہ تعالی کے احکامات کے ساتھ حدیث اور سنت کو شامل رکھنا نعوذباللہ شرک نہیں ہے۔اللہ تعالی آپ کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔[/quote]






کیا اللہ اور اسکے رسول کی اطا عت قراٰن سے زیادہ بہتر کہیں بیان ہوئی ہو تو مجھے بتایئں، میں بھی
اتباع کرلوں گا۔
اگر نہیں بتا سکتیں اور آپ کبھی بھی نہیں بتا سکیں گی۔
اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت اللہ کی کتاب قراٰن مجید سے ہی ممکن ھے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
muslim میرے آپ سے کچھ سوال ہیں تفصیل سے جواب دیں -

1 - آپ نماز میں کیا پڑھتے ہیں ؟
2 - روزہ کون سی آیت پڑھ کر کھولتے ہیں ؟
3- بیوی سے ھمبستری کے وقت قرآن کی کون سی آیت پڑھتے ہیں ؟
4- حج میں کیا پڑھتے ہیں ؟
5- کیا آپ مچھلی کھاتے ہیں ؟
6- کیا آپ کتا کھاتے ہیں ؟

اس كے علاوہ میں نے ابتدا ميں اختصار كے ساتھ جو كہا تھا كہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں جس نماز كا حكم ديا ہے وہ اسے كس طرح ادا كريگا ؟ نمازوں كى تعداد كتنى ہے ؟ اور نماز كى شروط كيا ہيں ؟ اور نماز كن اشياء سے باطل ہو جاتى ہے ؟ اس كے اوقات كيا ہيں ؟

اور باقى عبادات مثلا نماز، حج اور روزہ اور باقى شعائر دين اور احكام آپ کس طرح کرتے ہيں ؟؟؟؟

اور آپ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان کے بارے میں کیا کہے گے -



چورى كا نصاب كيا ہے جس ميں ہاتھ كاٹا جائيگا ؟
اور ہاتھ كہاں سے كاٹا جائيگا ؟
اور كيا داياں كاٹا جائيگا، يا كہ باياں ہاتھ ؟
اور پھر مسروقہ چيز ميں كيا شروط ہونگى ؟

اسى طرح آپ باقى حدود مثلا زنا اور تہمت و قذف اور لعان وغيرہ ميں آپ کیا کہتے ہيں ؟

بھائی ذرا اس طرف بھی توجہ دے دیں میرے ان سوالوں پر
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
حديث قرآن مجيد كى شرح ہے جس كى علماء كرام نے كئى ايك وجوہات بيان كى ہيں جن ميں سے كئى ايك يہ ہيں:

سنت قرآن مجيد كى موافق ہوتى ہے، اور مطلق كو مقيد كرتى ہے، اور اس كے عام كو خاص كرتى ہے، اور مجمل كى تفسير كرتى ہے، اور اس كے حكم كے ليے ناسخ بھى ہوتى ہے، اور نيا حكم بھى لاتى ہے، بعض علماء كرام اسے تين مرتبوں ميں جمع كرتے ہيں.

ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مسلمان شخص كے ليے يہ اعتقاد ركھنا واجب ہے كہ نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم كى احاديث صحيحہ ميں كوئى ايك حديث بھى كتاب اللہ كے مخالف نہيں، بلكہ احاديث كے قرآن مجيد كے ساتھ تين مراتب ہيں:

پہلا مرتبہ:

نازل شدہ كتاب اللہ نے جس كى گواہى دى ہے حديث بھى اس كے موافق اور اس كى گواہى ديتى ہے.

دوسرا مرتبہ:

وہ احاديث جو كتاب اللہ كى تفسير بيان كرتى ہيں، اور اللہ تعالى كى مراد اور اس كے مطلق كو مقيد كرتى ہيں.

تيسرا مرتبہ:

وہ احاديث جن ميں وہ حكم بيان ہوا ہے جس سے كتاب اللہ ساكت ہے اسے واضح كرتى ہے.

ان تينوں اقسام ميں سے كسى ايك كو بھى رد كرنا جائز نہيں، كتاب اللہ كے ساتھ سنت نبويہ كو چوتھا مرتبہ نہيں ہے.

امام احمد رحمہ اللہ نے اس قول كے قائل كا انكار كيا ہے كہ سنت كتاب اللہ كو ختم كرتى ہے، امام احمد نے فرمايا: بلكہ سنت نبويہ كتاب اللہ كى تفسير و وضاحت كرتى ہے.

اللہ تعالى اور اس كے رسول بھى اس كى گواہى ديتے اور شاہد ہيں كہ كوئى ايك بھى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ايسى وارد نہيں جو كتاب اللہ سے تناقض ركھتى ہو اور مخالف ہو، يہ كيسے ہو سكتا ہے حالانكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو كتاب اللہ كى وضاحت كرنے والے ہيں اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم پر ہى كتاب اللہ نازل ہوئى ہے، اور اللہ نے ان كى اس طرف راہنمائى كى، اور وہ اس كى اتباع كے مامور ہيں اور پھر سارى مخلوق ميں سے وہ ہى اس كى تفسير كا زيادہ علم ركھنے والے ہيں ؟!

اگر احاديث رسول صلى اللہ عليہ وسلم كو رد كرنا جائز ہو تو آدمى كتاب اللہ كے ظاہر سے سمجھ نہ سكے تو اس طرح اكثر احاديث رد ہو جائينگى اور بالكل باطل ہو كر رہ جائينگى.

اور جس شخص كے سامنے بھى كوئى صحيح حديث پيش كى جائيگى جو اس كے مذہب اور ذہن كے خلاف ہو تو اس كے ليے عمومى يا مطلق آيات سے چمٹ جانا ممكن ہو گا، اور وہ يہ كہے گا: يہ حديث اس آيت كے عموم اور اطلاق كے مخالف ہے لہذا ہم قبول نہيں كرتے.

حتى كہ رافضى ( غالى قسم كے شيعہ ) اللہ انہيں تباہ كرے بعينہ وہ اس راہ پر چلتے ہوئے صحيح اور ثابت شدہ احاديث كو رد كرتے ہيں، وہ اس حديث كو بھى رد كرتے ہي:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارا وارث نہيں بنا جاتا ہم جو تركہ چھوڑتے ہيں وہ صدقہ ہے "

ان كا كہنا ہے يہ حديث كتاب اللہ كے مخالف ہے فرمان بارى تعالى ہے:

{ اللہ تعالى تمہارے ليے تمہارى اولاد ميں وصيت كرتا ہے لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر ہے }.

اور جھميوں نے اللہ كى صفات ميں ثابت شداہ احاديث كو رد كيا ہے اور دليل يہ دى ہے:

{ اس كى مثل كوئى چيز نہيں }.

اور خوارج نے شفاعت اور موحدين ميں سے اہل كبيرہ كو جہنم سے نكالنے والى احاديث كو ظاہر قرآن كى بنا پر رد كيا ہے.

اور جھميہ نے رؤيت والى احاديث كو ظاہر قرآن كى بنا پر رد كيا ہے، حالانكہ يہ احاديث بكثرت اور صحيح ہيں اور دليل يہ دى ہے:

{ اسے آنكھيں نہيں پا سكتيں }.

اور قدريہ نے ظاہرى قرآن سے انہيں جو سمجھ آئى ہے قدر والى احاديث رد كر ديں.

ہر فرقہ نے ظاہر قرآن سے انہيں جو سمجھ آئى اس كى بنا پر احاديث كو رد كر ديا.

يا تو ان سب احاديث كو رد كرنے كا دروازہ كھٹكھٹايا جائے يا پھر ان سب احاديث كو قبول كرنے كا دروازہ كھٹكھٹايا جائے، اور ظاہر قرآن سے سمجھ كى بنا پر اس ميں سے كوئى حديث بھى رد نہ كى جائے، ليكن كچھ احاديث كو رد كرنا اور كچھ احاديث قبول و تسليم كرنا ـ اور مقبول احاديث كو ظاہر قرآن كى طرف اسى طرح منسوب كرنا جس طرح مردود احاديث منسوب كرتے ہيں ـ اس ميں تناقض ظاہر ہے.

جس كسى نے بھى ظاہر قرآن كى سمجھ كى بنا پر احاديث كو رد كيا مگر اس كے مقابلے ميں اس سے زيادہ احاديث قبول كيں حالانكہ وہ بھى اسى طرح تھيں.

امام شافعى اور امام احمد نے ظاہر قرآن كى بنا پر ہر كچلى والے وحشى جانور كى حرمت والى احاديث رد كرنے والے پر انكار كيا جنہوں نے درج ذيل آيت كى بنا پر حديث رد كى:

{ كہہ ديجئے جو ميرى طرف وحى كى گئى ہے ميں اس ميں حرام نہيں پاتا ... }الآيۃ

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے شخص پر انكار كيا جس نے وہ سنت رد كى تھى جو قرآن ميں ذكر نہيں ليكن اس نے قرآن كے مخالف ہونے كا دعوى نہيں كيا تھا، تو پھر جو شخص يہ دعوى كرے كہ سنت اور حديث قرآن كے مخالف ہے تو آپ كا اس شخص كے بارہ ميں انكار كيسا ہو گا؟
ديكھيں: الطرق الحكميۃ ( 65 - 67 ).
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
علامہ البانى رحمہ اللہ كا " اسلام ميں حديث كا مقام و مرتبہ اور قرآن كے ساتھ اس سے مستغنى نہيں ہو ا جا سكتا " كے عنوان پر ايك پمفلٹ ہے جس ميں درج ہے:

" آپ سب جانتے ہيں كہ اللہ تبارك و تعالى نے محمد صلى اللہ عليہ وسلم كو نبوت و رسالت كے ليے چنا اور اختيار كيا اور ان پر قرآن كريم نازل فرمايا، اور اس ميں حكم ديا ـ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كو جو حكم ديا گيا ـ اس ميں يہ بھى شامل ہے كہ وہ اسے لوگوں كے ليے بيان كر ديں.

فرمان بارى تعالى ہے:

{ اور ہم نے آپ كى طرف يہ ذكر ( كتاب ) نازل كيا ہے تا كہ لوگوں كى جانب جو نازل كيا گيا ہے آپ اسے كھول كھول كر بيان كر ديں }النحل ( 44 ).

ميرے رائے ميں اس آيت ميں جو بيان مذكور ہے وہ دو قسم كے بيان پر مشتمل ہے:

اول:

لفظ اور نظم كا بيان، اور وہ قرآن كى تبليغ، اور عدم كتمان اور امت كى طرف اس كى ادائيگى ہے، بالكل اسى طرح جس طرح اللہ تعالى نے آپ كے دل پر نازل كيا ہے، اور درج ذيل آيت سے بھى يہى مراد ہے:
{ اے رسول ( صلى اللہ عليہ وسلم ) آپ كى طرف جو آپ كے رب كى جانب سے نازل كيا گيا ہے اسے پہنچا ديں } المآئدۃ ( 67 ).

سيدہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں:

" جس نے بھى آپ كو يہ كہا كہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى تبليغ سے كچھ چھپايا ہے تو اس نے اللہ تعالى پر بہت بڑا جھوٹ اور بہتان باندھا، اور پھر عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے مذكورہ بالا آيت كى تلاوت كى "
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور مسلم كى روايت ميں ہے:

" اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تبليغ كے معاملہ ميں كچھ چھپانا چاہتے تو اللہ تعالى كا يہ فرمان چھپاتے:

{ جب آپ اس شخص سے كہہ رہے تھے جس پر اللہ نے بھى كيا اور تو نے بھى كہ تو اپنى بيوى كو اپنے پاس ركھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل ميں وہ بات چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر كرنے والا تھا، اور تو لوگوں سے خوف كھاتا تھا، حالانكہ اللہ تعالى اس كا زيادہ حق دار تھا كہ تو اس سے ڈرے }الاحزاب ( 37 ).
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
دوم:

لفظ يا جملہ يا آيت كے معانى كا بيان جس كى امت محتاج اور ضرورتمند ہے، اور يہ اكثر طور پر مجمل يا عام يا مطلق آيات ميں ہے، تو حديث اس مجمل كى وضاحت، اور اس عام كى تخصيص اور مطلق كو مقيد كرتى ہے، تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول سے ہو گا جس طرح آپ كے فعل اور اقرار سے ہے.

اس كى مثال يہ فرمان بارى تعالى ہے:

{ چورى كرنے والے مرد اور چورى كرنے والى عورت كے ہاتھ كاٹ دو }المآئدۃ ( 38 ).

ہاتھ كى طرح يہاں چور بھى مطلق ہے، ان ميں سے پہلے كو قول سنت نے بيان كيا اور چور كو ايك چوتھائى دينار كى چورى سے درج ذيل فرمان نبوى ميں مقيد كيا ہے:

" ايك چوتھائى دينار يا اس سے زائد ميں ہاتھ كاٹا جائيگا اس سے كم ميں نہيں "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور اسى طرح دوسرے كا بيان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل يا صحابہ كرام كے فعل اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقرار سے ثابت ہے كہ:

" وہ چور كا ہاتھ كلائى سے كاٹتے تھے، جيسا كہ كتب احاديث ميں معروف ہے، اور قولى سنت نے تيمم والى آيت ميں مذكور ہاتھ كى وضاحت بھى كى ہے فرمان بارى تعالى ہے:

{ تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں كا مسح كرو }النساء ( 43 ) اور المآئدۃ ( 6 ).

يہاں ہتھيلى مراد ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان ميں ہے:

" تيمم يہ ہے كہ چہرے اور ہتھيليوں كے ليے ايك بار ہاتھ زمين پر مارا جائے "

اسے احمد اور بخارى و مسلم وغيرہ نے عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.

ذيل ميں ہم چند دوسرى آيات پيش كرتے ہيں جن سے اللہ كى مراد صرف سنت نبويہ كے ذريعہ ہى سمجھى جا سكتى ہے:

1 - فرمان بارى تعالى ہے:

{ جو لوگ ايمان ركھتے ہيں اور اپنے ايمان كو ظلم كے ساتھ مخلوط نہيں كرتے ايسوں كے ليے امن ہے اور وہى راہ راست پر چل رہے ہيں }الانعام ( 82 ).

اس آيت ميں موجود لفظ ظلم سے صحابہ كرام رضى اللہ عنہم عمومى ظلم سمجھے چاہے وہ چھوٹا ظلم ہى ہو، اسى ليے ان كے ليے اس آيت ميں اشكال پيدا ہوا تو انہوں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كون ہے جس كا ايمان ظلم كے ساتھ مخلوط نہ ہو گا ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس سے يہ مراد نہيں، بلكہ وہ تو شرك ہے؛ كيا تم نے لقمان كا قول نہيں سنا:

يقينا شرك ظلم عظيم ہے . لقمان ( 13 ) .

اسے بخارى اور مسلم وغيرہ نے روايت كيا ہے.

2 - فرمان بارى تعالى ہے:

اور جب تم سفر ميں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں كے قصر كرنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر تمہيں ڈر ہو كہ كافر تمہيں ستائينگے النساء ( 101 ).

اس آيت كا ظاہر يہ تقاضا كرتا ہے كہ سفر ميں نماز قصر كرنا خوف كے ساتھ مشروط ہے، اسى ليے بعض صحابہ كرام نے دريافت كرتے ہوئے عرض كيا تھا:

اب تو ہم امن ميں ہيں تو پھر كيوں نماز قصر كر رہے ہيں ؟

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ صدقہ ہے جو اللہ تعالى نے تم پر صدقہ كيا ہے، اسے قبول كرو "
اسے مسلم نے روايت كيا ہے.

3 - اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

{ تم پر حرام كيا گيا مردار، اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور جو اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو ليكن تم اسے ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں، اور جو آستانوں پر ذبح كيا گيا ہو }المآئدۃ ( 3 ).

قولى سنت نے بيان كيا ہے مرى ہوئى ٹڈى ( ٹڈى دل ) اور مچھلى اور خون ميں سے جگر اور تلى حلال ہے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے ليے دو مرى ہوئى چيزيں اور دو خون حلال كيے گئے ہيں، ٹڈى اور مچھلى، يعنى سب قسم كى مچھلى ـ اور جگر اور تلى "

اسے بيہقى وغيرہ نے موفوع اور موقوف روايت كيا ہے، اور اس كى موقوف سند صحيح ہے جو كہ مرفوع كے حكم ميں ہے؛ كيونكہ يہ رائے كے ساتھ نہيں كہا جا سكتا.

4 - فرمان بارى تعالى ہے:

{ آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے }الانعام ( 145 ).

پھر سنت نبويہ نے بھى كچھ اشياء حرام كى ہيں جو اس آيت ميں ذكر نہيں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر كچلى والا وحشى جانور اور ہر ذى مخلب پرندہ حرام ہے "

اس موضوع ميں اس ممانعت كى اور بھى كئى احاديث ہيں مثلا خيبر والے روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا اللہ تعالى اور اس كا رسول تمہيں گھريلو گدھوں سے روكتے ہيں؛ كيونكہ يہ پليد ہيں "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

5 - فرمان بارى تعالى ہے:

{ آپ كہہ ديجئے كہ اللہ تعالى كے پيدا كئے ہوئے اسباب زينت كو جن كو اس نے اپنے كے واسطے بنايا ہے اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے ؟ }الاعراف ( 32 ).

تو سنت نے بھى بيان كيا ہے كہ زينت ميں كچھ ايسى اشياء بھى ہيں جو حرام ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ ايك روز آپ صحابہ كرام كے پاس نكلے آپ كے ايك ہاتھ ريشم اور دوسرے ہاتھ ميں سونا تھا اور آپ نے فرمايا:

" يہ دونوں ميرى امت كے مردوں پر حرام ہيں، اور ان كى عورتوں كے ليے حلال "

اسے حاكم نے روايت كيا اور اسے صحيح كہا ہے.

اس معنى كى بہت سارى احاديث معروف ہيں جو صحيحين وغيرہ ميں ہے، اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك مثاليں ہيں جو حديث اور فقہ كا علم ركھنے والوں كے ہاں معروف ہيں.

اوپر جوكچھ بيان ہوا ہے ـ ميرے بھائيو ـ اس سے مصادر تشريع اسلامى ميں سنت نبويہ كى اہميت واضح ہوتى ہے، اور جب مذكورہ بالا مثالوں كى طرف دوبارہ نظر دوڑاتے ہيں ـ چہ جائيكہ ان مثالوں كو ديكھا جائے جنہيں ہم نے ذكر ہى نہيں كيا ـ تو ہميں يقين ہو جاتا ہے كہ سنت نبويہ كے بغير قرآن مجيد كو سمجھا ہى نہيں جا سكتا، بلكہ ہميں اس كے ساتھ احاديث نبويہ كو ملانا پڑےگا.
ديكھيں: منزلۃ السنۃ فى الاسلام صفحہ ( 4 - 12 ).

ہم نصيحت كرتے ہيں كہ اس كے متعلق آپ شيخ البانى رحمہ اللہ كےپمفلٹ كا مراجع ضرور كريں، كيونكہ وہ اس موضوع ميں ايك قيمتى رسالہ ہے.

اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ كسى كے ليے بھى حلال نہيں وہ احكام كے ثبوت اور اسے مكلف پر لازم كرنے كے ليے سنت نبويہ كو قرآن سے جدا كرتے ہوئے صرف قرآن كا سہارا لے، اور جو كوئى بھى ايسا كريگا تو سب سے بڑا اور عظيم مخالف قرآن ٹھرےگا، كيونكہ اس نے قرآن مجيد ميں موجود اطاعت نبى كے حكم پر عمل نہيں كيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر نہيں چلا.

اور يہ واضح ہوا كہ سنت نبويہ قرآن مجيد كى تائيد اور وضاحت اور مطلق كو مقيد اور عام كو خاص كرتى ہے، اور اسى طرح سنت نبويہ ميں مستقل احكام بھى آئے ہيں، ان سب كا مسلمان شخص كو التزام كرنا لازم ہے.

آخرى چيز يہ ہے:

يہ سمجھ ليں كہ ہم اسے اپنے اور ان افراد كے مابين تنازع شمار كرتے ہيں جو قرآن مجيد پر اكتفا كرنا كافى خيال كرتے ہيں تو ہم انہيں كہينگے:
قرآن مجيد ميں ہميں حكم ديا گيا ہے كہ تنازع كے وقت قرآن اور سنت كى طرف رجوع كريں! اللہ تعالى كا فرمان ہے:

{ اے ايمان والو اللہ تعالى كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو، اور اپنے حكمرانوں كى، اور اگر تمہيں كسى معاملہ ميں تنازع پيدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر ہے، اور باعتبار انجام كے اچھا ہے }النساء ( 59 ).

تو ہمارا مد مقابل اس قرآنى دليل كا كيا كريگا؟ اگر وہ اسے قبول كرتا ہے تو پھر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع كرتا ہے اور اس كا قول باطل ہو جائيگا، اور اگر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع نہيں كرتا تو اس نے قرآن مجيد كى مخالفت كى جس كے بارہ ميں اس كا گمان تھا كہ وہ سنت سے كافى ہے.

اور سب تعريفات اللہ رب العالمين كى ہيں.

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/93111



بھائی muslim آپ اس لنک کو اوپن کریں اور پورے سوال کا جواب تفصیل سے پڑھیں -

ھم سب اللہ تعالیٰ سے دیا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رہنمائی فرمائیں- آمین
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
دوم:

لفظ يا جملہ يا آيت كے معانى كا بيان جس كى امت محتاج اور ضرورتمند ہے، اور يہ اكثر طور پر مجمل يا عام يا مطلق آيات ميں ہے، تو حديث اس مجمل كى وضاحت، اور اس عام كى تخصيص اور مطلق كو مقيد كرتى ہے، تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول سے ہو گا جس طرح آپ كے فعل اور اقرار سے ہے.

اس كى مثال يہ فرمان بارى تعالى ہے:

{ چورى كرنے والے مرد اور چورى كرنے والى عورت كے ہاتھ كاٹ دو }المآئدۃ ( 38 ).

ہاتھ كى طرح يہاں چور بھى مطلق ہے، ان ميں سے پہلے كو قول سنت نے بيان كيا اور چور كو ايك چوتھائى دينار كى چورى سے درج ذيل فرمان نبوى ميں مقيد كيا ہے:

" ايك چوتھائى دينار يا اس سے زائد ميں ہاتھ كاٹا جائيگا اس سے كم ميں نہيں "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور اسى طرح دوسرے كا بيان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل يا صحابہ كرام كے فعل اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقرار سے ثابت ہے كہ:

" وہ چور كا ہاتھ كلائى سے كاٹتے تھے، جيسا كہ كتب احاديث ميں معروف ہے، اور قولى سنت نے تيمم والى آيت ميں مذكور ہاتھ كى وضاحت بھى كى ہے فرمان بارى تعالى ہے:

{ تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں كا مسح كرو }النساء ( 43 ) اور المآئدۃ ( 6 ).

يہاں ہتھيلى مراد ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان ميں ہے:

" تيمم يہ ہے كہ چہرے اور ہتھيليوں كے ليے ايك بار ہاتھ زمين پر مارا جائے "

اسے احمد اور بخارى و مسلم وغيرہ نے عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.

ذيل ميں ہم چند دوسرى آيات پيش كرتے ہيں جن سے اللہ كى مراد صرف سنت نبويہ كے ذريعہ ہى سمجھى جا سكتى ہے:

1 - فرمان بارى تعالى ہے:

{ جو لوگ ايمان ركھتے ہيں اور اپنے ايمان كو ظلم كے ساتھ مخلوط نہيں كرتے ايسوں كے ليے امن ہے اور وہى راہ راست پر چل رہے ہيں }الانعام ( 82 ).

اس آيت ميں موجود لفظ ظلم سے صحابہ كرام رضى اللہ عنہم عمومى ظلم سمجھے چاہے وہ چھوٹا ظلم ہى ہو، اسى ليے ان كے ليے اس آيت ميں اشكال پيدا ہوا تو انہوں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كون ہے جس كا ايمان ظلم كے ساتھ مخلوط نہ ہو گا ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس سے يہ مراد نہيں، بلكہ وہ تو شرك ہے؛ كيا تم نے لقمان كا قول نہيں سنا:

يقينا شرك ظلم عظيم ہے . لقمان ( 13 ) .

اسے بخارى اور مسلم وغيرہ نے روايت كيا ہے.

2 - فرمان بارى تعالى ہے:

اور جب تم سفر ميں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں كے قصر كرنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر تمہيں ڈر ہو كہ كافر تمہيں ستائينگے النساء ( 101 ).

اس آيت كا ظاہر يہ تقاضا كرتا ہے كہ سفر ميں نماز قصر كرنا خوف كے ساتھ مشروط ہے، اسى ليے بعض صحابہ كرام نے دريافت كرتے ہوئے عرض كيا تھا:

اب تو ہم امن ميں ہيں تو پھر كيوں نماز قصر كر رہے ہيں ؟

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ صدقہ ہے جو اللہ تعالى نے تم پر صدقہ كيا ہے، اسے قبول كرو "
اسے مسلم نے روايت كيا ہے.

3 - اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

{ تم پر حرام كيا گيا مردار، اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور جو اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو ليكن تم اسے ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں، اور جو آستانوں پر ذبح كيا گيا ہو }المآئدۃ ( 3 ).

قولى سنت نے بيان كيا ہے مرى ہوئى ٹڈى ( ٹڈى دل ) اور مچھلى اور خون ميں سے جگر اور تلى حلال ہے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے ليے دو مرى ہوئى چيزيں اور دو خون حلال كيے گئے ہيں، ٹڈى اور مچھلى، يعنى سب قسم كى مچھلى ـ اور جگر اور تلى "

اسے بيہقى وغيرہ نے موفوع اور موقوف روايت كيا ہے، اور اس كى موقوف سند صحيح ہے جو كہ مرفوع كے حكم ميں ہے؛ كيونكہ يہ رائے كے ساتھ نہيں كہا جا سكتا.

4 - فرمان بارى تعالى ہے:

{ آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے }الانعام ( 145 ).

پھر سنت نبويہ نے بھى كچھ اشياء حرام كى ہيں جو اس آيت ميں ذكر نہيں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر كچلى والا وحشى جانور اور ہر ذى مخلب پرندہ حرام ہے "

اس موضوع ميں اس ممانعت كى اور بھى كئى احاديث ہيں مثلا خيبر والے روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا اللہ تعالى اور اس كا رسول تمہيں گھريلو گدھوں سے روكتے ہيں؛ كيونكہ يہ پليد ہيں "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

5 - فرمان بارى تعالى ہے:

{ آپ كہہ ديجئے كہ اللہ تعالى كے پيدا كئے ہوئے اسباب زينت كو جن كو اس نے اپنے كے واسطے بنايا ہے اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے ؟ }الاعراف ( 32 ).

تو سنت نے بھى بيان كيا ہے كہ زينت ميں كچھ ايسى اشياء بھى ہيں جو حرام ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ ايك روز آپ صحابہ كرام كے پاس نكلے آپ كے ايك ہاتھ ريشم اور دوسرے ہاتھ ميں سونا تھا اور آپ نے فرمايا:

" يہ دونوں ميرى امت كے مردوں پر حرام ہيں، اور ان كى عورتوں كے ليے حلال "

اسے حاكم نے روايت كيا اور اسے صحيح كہا ہے.

اس معنى كى بہت سارى احاديث معروف ہيں جو صحيحين وغيرہ ميں ہے، اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك مثاليں ہيں جو حديث اور فقہ كا علم ركھنے والوں كے ہاں معروف ہيں.

اوپر جوكچھ بيان ہوا ہے ـ ميرے بھائيو ـ اس سے مصادر تشريع اسلامى ميں سنت نبويہ كى اہميت واضح ہوتى ہے، اور جب مذكورہ بالا مثالوں كى طرف دوبارہ نظر دوڑاتے ہيں ـ چہ جائيكہ ان مثالوں كو ديكھا جائے جنہيں ہم نے ذكر ہى نہيں كيا ـ تو ہميں يقين ہو جاتا ہے كہ سنت نبويہ كے بغير قرآن مجيد كو سمجھا ہى نہيں جا سكتا، بلكہ ہميں اس كے ساتھ احاديث نبويہ كو ملانا پڑےگا.
ديكھيں: منزلۃ السنۃ فى الاسلام صفحہ ( 4 - 12 ).

ہم نصيحت كرتے ہيں كہ اس كے متعلق آپ شيخ البانى رحمہ اللہ كےپمفلٹ كا مراجع ضرور كريں، كيونكہ وہ اس موضوع ميں ايك قيمتى رسالہ ہے.

اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ كسى كے ليے بھى حلال نہيں وہ احكام كے ثبوت اور اسے مكلف پر لازم كرنے كے ليے سنت نبويہ كو قرآن سے جدا كرتے ہوئے صرف قرآن كا سہارا لے، اور جو كوئى بھى ايسا كريگا تو سب سے بڑا اور عظيم مخالف قرآن ٹھرےگا، كيونكہ اس نے قرآن مجيد ميں موجود اطاعت نبى كے حكم پر عمل نہيں كيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر نہيں چلا.

اور يہ واضح ہوا كہ سنت نبويہ قرآن مجيد كى تائيد اور وضاحت اور مطلق كو مقيد اور عام كو خاص كرتى ہے، اور اسى طرح سنت نبويہ ميں مستقل احكام بھى آئے ہيں، ان سب كا مسلمان شخص كو التزام كرنا لازم ہے.

آخرى چيز يہ ہے:

يہ سمجھ ليں كہ ہم اسے اپنے اور ان افراد كے مابين تنازع شمار كرتے ہيں جو قرآن مجيد پر اكتفا كرنا كافى خيال كرتے ہيں تو ہم انہيں كہينگے:
قرآن مجيد ميں ہميں حكم ديا گيا ہے كہ تنازع كے وقت قرآن اور سنت كى طرف رجوع كريں! اللہ تعالى كا فرمان ہے:

{ اے ايمان والو اللہ تعالى كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو، اور اپنے حكمرانوں كى، اور اگر تمہيں كسى معاملہ ميں تنازع پيدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر ہے، اور باعتبار انجام كے اچھا ہے }النساء ( 59 ).

تو ہمارا مد مقابل اس قرآنى دليل كا كيا كريگا؟ اگر وہ اسے قبول كرتا ہے تو پھر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع كرتا ہے اور اس كا قول باطل ہو جائيگا، اور اگر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع نہيں كرتا تو اس نے قرآن مجيد كى مخالفت كى جس كے بارہ ميں اس كا گمان تھا كہ وہ سنت سے كافى ہے.

اور سب تعريفات اللہ رب العالمين كى ہيں.

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/93111

دوم:

لفظ يا جملہ يا آيت كے معانى كا بيان جس كى امت محتاج اور ضرورتمند ہے، اور يہ اكثر طور پر مجمل يا عام يا مطلق آيات ميں ہے، تو حديث اس مجمل كى وضاحت، اور اس عام كى تخصيص اور مطلق كو مقيد كرتى ہے، تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول سے ہو گا جس طرح آپ كے فعل اور اقرار سے ہے.

اس كى مثال يہ فرمان بارى تعالى ہے:

{ چورى كرنے والے مرد اور چورى كرنے والى عورت كے ہاتھ كاٹ دو }المآئدۃ ( 38 ).

ہاتھ كى طرح يہاں چور بھى مطلق ہے، ان ميں سے پہلے كو قول سنت نے بيان كيا اور چور كو ايك چوتھائى دينار كى چورى سے درج ذيل فرمان نبوى ميں مقيد كيا ہے:

" ايك چوتھائى دينار يا اس سے زائد ميں ہاتھ كاٹا جائيگا اس سے كم ميں نہيں "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

اور اسى طرح دوسرے كا بيان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل يا صحابہ كرام كے فعل اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقرار سے ثابت ہے كہ:

" وہ چور كا ہاتھ كلائى سے كاٹتے تھے، جيسا كہ كتب احاديث ميں معروف ہے، اور قولى سنت نے تيمم والى آيت ميں مذكور ہاتھ كى وضاحت بھى كى ہے فرمان بارى تعالى ہے:

{ تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں كا مسح كرو }النساء ( 43 ) اور المآئدۃ ( 6 ).

يہاں ہتھيلى مراد ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان ميں ہے:

" تيمم يہ ہے كہ چہرے اور ہتھيليوں كے ليے ايك بار ہاتھ زمين پر مارا جائے "

اسے احمد اور بخارى و مسلم وغيرہ نے عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.

ذيل ميں ہم چند دوسرى آيات پيش كرتے ہيں جن سے اللہ كى مراد صرف سنت نبويہ كے ذريعہ ہى سمجھى جا سكتى ہے:

1 - فرمان بارى تعالى ہے:

{ جو لوگ ايمان ركھتے ہيں اور اپنے ايمان كو ظلم كے ساتھ مخلوط نہيں كرتے ايسوں كے ليے امن ہے اور وہى راہ راست پر چل رہے ہيں }الانعام ( 82 ).

اس آيت ميں موجود لفظ ظلم سے صحابہ كرام رضى اللہ عنہم عمومى ظلم سمجھے چاہے وہ چھوٹا ظلم ہى ہو، اسى ليے ان كے ليے اس آيت ميں اشكال پيدا ہوا تو انہوں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كون ہے جس كا ايمان ظلم كے ساتھ مخلوط نہ ہو گا ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس سے يہ مراد نہيں، بلكہ وہ تو شرك ہے؛ كيا تم نے لقمان كا قول نہيں سنا:

يقينا شرك ظلم عظيم ہے . لقمان ( 13 ) .

اسے بخارى اور مسلم وغيرہ نے روايت كيا ہے.

2 - فرمان بارى تعالى ہے:

اور جب تم سفر ميں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں كے قصر كرنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر تمہيں ڈر ہو كہ كافر تمہيں ستائينگے النساء ( 101 ).

اس آيت كا ظاہر يہ تقاضا كرتا ہے كہ سفر ميں نماز قصر كرنا خوف كے ساتھ مشروط ہے، اسى ليے بعض صحابہ كرام نے دريافت كرتے ہوئے عرض كيا تھا:

اب تو ہم امن ميں ہيں تو پھر كيوں نماز قصر كر رہے ہيں ؟

چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يہ صدقہ ہے جو اللہ تعالى نے تم پر صدقہ كيا ہے، اسے قبول كرو "
اسے مسلم نے روايت كيا ہے.

3 - اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

{ تم پر حرام كيا گيا مردار، اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور جو اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو ليكن تم اسے ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں، اور جو آستانوں پر ذبح كيا گيا ہو }المآئدۃ ( 3 ).

قولى سنت نے بيان كيا ہے مرى ہوئى ٹڈى ( ٹڈى دل ) اور مچھلى اور خون ميں سے جگر اور تلى حلال ہے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہمارے ليے دو مرى ہوئى چيزيں اور دو خون حلال كيے گئے ہيں، ٹڈى اور مچھلى، يعنى سب قسم كى مچھلى ـ اور جگر اور تلى "

اسے بيہقى وغيرہ نے موفوع اور موقوف روايت كيا ہے، اور اس كى موقوف سند صحيح ہے جو كہ مرفوع كے حكم ميں ہے؛ كيونكہ يہ رائے كے ساتھ نہيں كہا جا سكتا.

4 - فرمان بارى تعالى ہے:

{ آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے }الانعام ( 145 ).

پھر سنت نبويہ نے بھى كچھ اشياء حرام كى ہيں جو اس آيت ميں ذكر نہيں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ہر كچلى والا وحشى جانور اور ہر ذى مخلب پرندہ حرام ہے "

اس موضوع ميں اس ممانعت كى اور بھى كئى احاديث ہيں مثلا خيبر والے روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا اللہ تعالى اور اس كا رسول تمہيں گھريلو گدھوں سے روكتے ہيں؛ كيونكہ يہ پليد ہيں "

اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.

5 - فرمان بارى تعالى ہے:

{ آپ كہہ ديجئے كہ اللہ تعالى كے پيدا كئے ہوئے اسباب زينت كو جن كو اس نے اپنے كے واسطے بنايا ہے اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے ؟ }الاعراف ( 32 ).

تو سنت نے بھى بيان كيا ہے كہ زينت ميں كچھ ايسى اشياء بھى ہيں جو حرام ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ ايك روز آپ صحابہ كرام كے پاس نكلے آپ كے ايك ہاتھ ريشم اور دوسرے ہاتھ ميں سونا تھا اور آپ نے فرمايا:

" يہ دونوں ميرى امت كے مردوں پر حرام ہيں، اور ان كى عورتوں كے ليے حلال "

اسے حاكم نے روايت كيا اور اسے صحيح كہا ہے.

اس معنى كى بہت سارى احاديث معروف ہيں جو صحيحين وغيرہ ميں ہے، اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك مثاليں ہيں جو حديث اور فقہ كا علم ركھنے والوں كے ہاں معروف ہيں.

اوپر جوكچھ بيان ہوا ہے ـ ميرے بھائيو ـ اس سے مصادر تشريع اسلامى ميں سنت نبويہ كى اہميت واضح ہوتى ہے، اور جب مذكورہ بالا مثالوں كى طرف دوبارہ نظر دوڑاتے ہيں ـ چہ جائيكہ ان مثالوں كو ديكھا جائے جنہيں ہم نے ذكر ہى نہيں كيا ـ تو ہميں يقين ہو جاتا ہے كہ سنت نبويہ كے بغير قرآن مجيد كو سمجھا ہى نہيں جا سكتا، بلكہ ہميں اس كے ساتھ احاديث نبويہ كو ملانا پڑےگا.
ديكھيں: منزلۃ السنۃ فى الاسلام صفحہ ( 4 - 12 ).

ہم نصيحت كرتے ہيں كہ اس كے متعلق آپ شيخ البانى رحمہ اللہ كےپمفلٹ كا مراجع ضرور كريں، كيونكہ وہ اس موضوع ميں ايك قيمتى رسالہ ہے.

اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ كسى كے ليے بھى حلال نہيں وہ احكام كے ثبوت اور اسے مكلف پر لازم كرنے كے ليے سنت نبويہ كو قرآن سے جدا كرتے ہوئے صرف قرآن كا سہارا لے، اور جو كوئى بھى ايسا كريگا تو سب سے بڑا اور عظيم مخالف قرآن ٹھرےگا، كيونكہ اس نے قرآن مجيد ميں موجود اطاعت نبى كے حكم پر عمل نہيں كيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر نہيں چلا.

اور يہ واضح ہوا كہ سنت نبويہ قرآن مجيد كى تائيد اور وضاحت اور مطلق كو مقيد اور عام كو خاص كرتى ہے، اور اسى طرح سنت نبويہ ميں مستقل احكام بھى آئے ہيں، ان سب كا مسلمان شخص كو التزام كرنا لازم ہے.

آخرى چيز يہ ہے:

يہ سمجھ ليں كہ ہم اسے اپنے اور ان افراد كے مابين تنازع شمار كرتے ہيں جو قرآن مجيد پر اكتفا كرنا كافى خيال كرتے ہيں تو ہم انہيں كہينگے:
قرآن مجيد ميں ہميں حكم ديا گيا ہے كہ تنازع كے وقت قرآن اور سنت كى طرف رجوع كريں! اللہ تعالى كا فرمان ہے:

{ اے ايمان والو اللہ تعالى كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو، اور اپنے حكمرانوں كى، اور اگر تمہيں كسى معاملہ ميں تنازع پيدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر ہے، اور باعتبار انجام كے اچھا ہے }النساء ( 59 ).

تو ہمارا مد مقابل اس قرآنى دليل كا كيا كريگا؟ اگر وہ اسے قبول كرتا ہے تو پھر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع كرتا ہے اور اس كا قول باطل ہو جائيگا، اور اگر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع نہيں كرتا تو اس نے قرآن مجيد كى مخالفت كى جس كے بارہ ميں اس كا گمان تھا كہ وہ سنت سے كافى ہے.

اور سب تعريفات اللہ رب العالمين كى ہيں.

واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/93111

السلام علیکم۔
میرے خیال سے آپ اس شدید غلطی پر ہیں کہ اسلام کی عمر چودہ سو سال یا اس سے کچھ زیادہ ھے۔

الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿١٩۔3﴾

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ہے (19)



اللہ کے دین اسلام سے پہلے اور کس کا دین ہو سکتا ھے؟
نماز، روزہ، حج، زکوۃ، صدقات، جہاد غرض ہر عبادت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ انبیاء کرام نے اپنی سنّت سے قائم کیا ھے، اور ان ہی انبیاء کی سنّت کو محمد خاتم النبّین صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری رکھا۔ اسکے لیئے کسی بخاری صاحب وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔ کیونکہ ان محدثین سے پہلے بھی اللہ کا دین اسلام قائم تھا اور اسکے ماننے والے مسلمان بھی موجود تھے۔


مَّا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ ﴿٤٣۔41﴾

اے نبیؐ، تم سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ہے


جاری ھے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام علیکم۔
میرے خیال سے آپ اس شدید غلطی پر ہیں کہ اسلام کی عمر چودہ سو سال یا اس سے کچھ زیادہ ھے۔

الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿١٩۔3﴾

اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ہے (19)



اللہ کے دین اسلام سے پہلے اور کس کا دین ہو سکتا ھے؟
نماز، روزہ، حج، زکوۃ، صدقات، جہاد غرض ہر عبادت اور اس کی ادائیگی کا طریقہ انبیاء کرام نے اپنی سنّت سے قائم کیا ھے، اور ان ہی انبیاء کی سنّت کو محمد خاتم النبّین صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری رکھا۔ اسکے لیئے کسی بخاری صاحب وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔ کیونکہ ان محدثین سے پہلے بھی اللہ کا دین اسلام قائم تھا اور اسکے ماننے والے مسلمان بھی موجود تھے۔


مَّا يُقَالُ لَكَ إِلَّا مَا قَدْ قِيلَ لِلرُّسُلِ مِن قَبْلِكَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو مَغْفِرَةٍ وَذُو عِقَابٍ أَلِيمٍ ﴿٤٣۔41﴾

اے نبیؐ، تم سے جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں سے نہ کہی جاچکی ہو بے شک تمہارا رب بڑا درگزر کرنے والا ہے، اور اس کے ساتھ بڑی دردناک سزا دینے والا بھی ہے


جاری ھے۔


اللہ کے دین اسلام پر تمام انبیاء نے عمل کیا اور ان ہی انبیاء کی سنّت کے مطابق محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر عمل کیا۔ دیکھیں سورۃ الانعام ، یہاں اللہ نی 18 انبیاء کا زکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ھے۔




أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّـهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ ﴿٩٠۔6﴾

اے محمدؐ! وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستہ پر تم چلو، اور کہہ دو کہ میں (اس تبلیغ و ہدایت کے) کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، یہ تو ایک عام نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لیے (90)


قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴿٩۔46﴾


اِن سے کہو، "میں کوئی نرالا رسول تو نہیں ہوں، میں نہیں جانتا کہ کل تمہارے ساتھ کیا ہونا ہے اور میرے ساتھ کیا، میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے پاس بھیجی جاتی ہے اور میں ایک صاف صاف خبردار کر دینے والے کے سوا اور کچھ نہیں ہوں" (9)



قُلْ صَدَقَ اللَّـهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٩٥۔3)



کہو، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے سچ فرمایا ہے، تم کو یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقہ کی پیروی کرنی چاہیے، اور ابراہیمؑ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھا (95۔3)


قُلْ إِنَّنِي هَدَانِي رَبِّي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ دِينًا قِيَمًا مِّلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۚ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿١٦١۔6﴾


اے محمدؐ! کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا (161)


محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی دین اور سنّت قائم کی جو انبیاء نے کی، اور وہ رائج ھے۔ اسکے لیئے کسی بخاری صاحب وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
muslim میرے آپ سے کچھ سوال ہیں تفصیل سے جواب دیں -

1 - آپ نماز میں کیا پڑھتے ہیں ؟
2 - روزہ کون سی آیت پڑھ کر کھولتے ہیں ؟
3- بیوی سے ھمبستری کے وقت قرآن کی کون سی آیت پڑھتے ہیں ؟
4- حج میں کیا پڑھتے ہیں ؟
5- کیا آپ مچھلی کھاتے ہیں ؟
6- کیا آپ کتا کھاتے ہیں ؟
اس كے علاوہ میں نے ابتدا ميں اختصار كے ساتھ جو كہا تھا كہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں جس نماز كا حكم ديا ہے وہ اسے كس طرح ادا كريگا ؟ نمازوں كى تعداد كتنى ہے ؟ اور نماز كى شروط كيا ہيں ؟ اور نماز كن اشياء سے باطل ہو جاتى ہے ؟ اس كے اوقات كيا ہيں ؟
اور باقى عبادات مثلا نماز، حج اور روزہ اور باقى شعائر دين اور احكام آپ کس طرح کرتے ہيں ؟؟؟؟
اور آپ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان کے بارے میں کیا کہے گے -
چورى كا نصاب كيا ہے جس ميں ہاتھ كاٹا جائيگا ؟
اور ہاتھ كہاں سے كاٹا جائيگا ؟
اور كيا داياں كاٹا جائيگا، يا كہ باياں ہاتھ ؟
اور پھر مسروقہ چيز ميں كيا شروط ہونگى ؟
اسى طرح آپ باقى حدود مثلا زنا اور تہمت و قذف اور لعان وغيرہ ميں آپ کیا کہتے ہيں ؟

میں کئی بار آپ سے ان سوالوں کا جواب مانگا ہے آپ اس کا جواب دے تا کہ آپ کے دین کی وضاحت ہو سکیں - آپ کے جواب کا انتظار رہے گا-
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
muslim میرے آپ سے کچھ سوال ہیں تفصیل سے جواب دیں -

1 - آپ نماز میں کیا پڑھتے ہیں ؟
2 - روزہ کون سی آیت پڑھ کر کھولتے ہیں ؟
3- بیوی سے ھمبستری کے وقت قرآن کی کون سی آیت پڑھتے ہیں ؟
4- حج میں کیا پڑھتے ہیں ؟
5- کیا آپ مچھلی کھاتے ہیں ؟
6- کیا آپ کتا کھاتے ہیں ؟
اس كے علاوہ میں نے ابتدا ميں اختصار كے ساتھ جو كہا تھا كہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں جس نماز كا حكم ديا ہے وہ اسے كس طرح ادا كريگا ؟ نمازوں كى تعداد كتنى ہے ؟ اور نماز كى شروط كيا ہيں ؟ اور نماز كن اشياء سے باطل ہو جاتى ہے ؟ اس كے اوقات كيا ہيں ؟
اور باقى عبادات مثلا نماز، حج اور روزہ اور باقى شعائر دين اور احكام آپ کس طرح کرتے ہيں ؟؟؟؟
اور آپ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان کے بارے میں کیا کہے گے -
چورى كا نصاب كيا ہے جس ميں ہاتھ كاٹا جائيگا ؟
اور ہاتھ كہاں سے كاٹا جائيگا ؟
اور كيا داياں كاٹا جائيگا، يا كہ باياں ہاتھ ؟
اور پھر مسروقہ چيز ميں كيا شروط ہونگى ؟
اسى طرح آپ باقى حدود مثلا زنا اور تہمت و قذف اور لعان وغيرہ ميں آپ کیا کہتے ہيں ؟

میں کئی بار آپ سے ان سوالوں کا جواب مانگا ہے آپ اس کا جواب دے تا کہ آپ کے دین کی وضاحت ہو سکیں - آپ کے جواب کا انتظار رہے گا-



بھائی لگتا ھے آپ میں عقل کا شدید فقدان ھے، ورنہ اوپر میری پوسٹ پڑھنے کے بعد یہ سوالات نہ کرتے۔

آپ کیا سمجھتے ہیں، آپ کے لکھے ہوئے سوالات پر آپ تو عمل کرسکتے ہیں (بخاری صاحب کی لکھی ھوئی کتاب کی وجہ سے جسے آپ نہ جانے کیوں رسول کی کتاب سمجھ رہے ہیں، حالانکہ نہ تو رسول نے یہ کتاب پڑھی اور نہ ہی اس کی تصدیق فرمائی)، مگر آدم علیہ سلام سے لے کر
بخاری لکھے جانے سے پہلے تک کے لوگ آپ کے باطل خیال کے مطابق دین، مذہب سے نابلد تھے؟


ما لکم کیف تحکمون۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بھائی لگتا ھے آپ میں عقل کا شدید فقدان ھے، ورنہ اوپر میری پوسٹ پڑھنے کے بعد یہ سوالات نہ کرتے۔

آپ کیا سمجھتے ہیں، آپ کے لکھے ہوئے سوالات پر آپ تو عمل کرسکتے ہیں (بخاری صاحب کی لکھی ھوئی کتاب کی وجہ سے جسے آپ نہ جانے کیوں رسول کی کتاب سمجھ رہے ہیں، حالانکہ نہ تو رسول نے یہ کتاب پڑھی اور نہ ہی اس کی تصدیق فرمائی)، مگر آدم علیہ سلام سے لے کر
بخاری لکھے جانے سے پہلے تک کے لوگ آپ کے باطل خیال کے مطابق دین، مذہب سے نابلد تھے؟


ما لکم کیف تحکمون۔


بھائی میرے عقل تو شیطان نے بھی چلائی تھی اور گمراہ ہو گیا تھا -

کیا آپ کے پاس میرے سوالوں کا جواب ہے جو یقینا نہیں ھو گا اگر ہے تو بتائیں -
 
Top