دوم:
لفظ يا جملہ يا آيت كے معانى كا بيان جس كى امت محتاج اور ضرورتمند ہے، اور يہ اكثر طور پر مجمل يا عام يا مطلق آيات ميں ہے، تو حديث اس مجمل كى وضاحت، اور اس عام كى تخصيص اور مطلق كو مقيد كرتى ہے، تو يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے قول سے ہو گا جس طرح آپ كے فعل اور اقرار سے ہے.
اس كى مثال يہ فرمان بارى تعالى ہے:
{ چورى كرنے والے مرد اور چورى كرنے والى عورت كے ہاتھ كاٹ دو }المآئدۃ ( 38 ).
ہاتھ كى طرح يہاں چور بھى مطلق ہے، ان ميں سے پہلے كو قول سنت نے بيان كيا اور چور كو ايك چوتھائى دينار كى چورى سے درج ذيل فرمان نبوى ميں مقيد كيا ہے:
" ايك چوتھائى دينار يا اس سے زائد ميں ہاتھ كاٹا جائيگا اس سے كم ميں نہيں "
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.
اور اسى طرح دوسرے كا بيان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل يا صحابہ كرام كے فعل اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اقرار سے ثابت ہے كہ:
" وہ چور كا ہاتھ كلائى سے كاٹتے تھے، جيسا كہ كتب احاديث ميں معروف ہے، اور قولى سنت نے تيمم والى آيت ميں مذكور ہاتھ كى وضاحت بھى كى ہے فرمان بارى تعالى ہے:
{ تو تم اپنے چہروں اور ہاتھوں كا مسح كرو }النساء ( 43 ) اور المآئدۃ ( 6 ).
يہاں ہتھيلى مراد ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان ميں ہے:
" تيمم يہ ہے كہ چہرے اور ہتھيليوں كے ليے ايك بار ہاتھ زمين پر مارا جائے "
اسے احمد اور بخارى و مسلم وغيرہ نے عمار بن ياسر رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے.
ذيل ميں ہم چند دوسرى آيات پيش كرتے ہيں جن سے اللہ كى مراد صرف سنت نبويہ كے ذريعہ ہى سمجھى جا سكتى ہے:
1 - فرمان بارى تعالى ہے:
{ جو لوگ ايمان ركھتے ہيں اور اپنے ايمان كو ظلم كے ساتھ مخلوط نہيں كرتے ايسوں كے ليے امن ہے اور وہى راہ راست پر چل رہے ہيں }الانعام ( 82 ).
اس آيت ميں موجود لفظ ظلم سے صحابہ كرام رضى اللہ عنہم عمومى ظلم سمجھے چاہے وہ چھوٹا ظلم ہى ہو، اسى ليے ان كے ليے اس آيت ميں اشكال پيدا ہوا تو انہوں نے عرض كيا:
اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كون ہے جس كا ايمان ظلم كے ساتھ مخلوط نہ ہو گا ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس سے يہ مراد نہيں، بلكہ وہ تو شرك ہے؛ كيا تم نے لقمان كا قول نہيں سنا:
يقينا شرك ظلم عظيم ہے . لقمان ( 13 ) .
اسے بخارى اور مسلم وغيرہ نے روايت كيا ہے.
2 - فرمان بارى تعالى ہے:
اور جب تم سفر ميں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں كے قصر كرنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر تمہيں ڈر ہو كہ كافر تمہيں ستائينگے النساء ( 101 ).
اس آيت كا ظاہر يہ تقاضا كرتا ہے كہ سفر ميں نماز قصر كرنا خوف كے ساتھ مشروط ہے، اسى ليے بعض صحابہ كرام نے دريافت كرتے ہوئے عرض كيا تھا:
اب تو ہم امن ميں ہيں تو پھر كيوں نماز قصر كر رہے ہيں ؟
چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ صدقہ ہے جو اللہ تعالى نے تم پر صدقہ كيا ہے، اسے قبول كرو "
اسے مسلم نے روايت كيا ہے.
3 - اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
{ تم پر حرام كيا گيا مردار، اور خون اور خنزير كا گوشت اور جس پر اللہ كے سوا دوسرے كا نام پكارا گيا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور جو اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو، اور جسے درندوں نے پھاڑ كھايا ہو ليكن تم اسے ذبح كر ڈالو تو حرام نہيں، اور جو آستانوں پر ذبح كيا گيا ہو }المآئدۃ ( 3 ).
قولى سنت نے بيان كيا ہے مرى ہوئى ٹڈى ( ٹڈى دل ) اور مچھلى اور خون ميں سے جگر اور تلى حلال ہے، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہمارے ليے دو مرى ہوئى چيزيں اور دو خون حلال كيے گئے ہيں، ٹڈى اور مچھلى، يعنى سب قسم كى مچھلى ـ اور جگر اور تلى "
اسے بيہقى وغيرہ نے موفوع اور موقوف روايت كيا ہے، اور اس كى موقوف سند صحيح ہے جو كہ مرفوع كے حكم ميں ہے؛ كيونكہ يہ رائے كے ساتھ نہيں كہا جا سكتا.
4 - فرمان بارى تعالى ہے:
{ آپ كہہ ديجئے كہ جو احكام بذريعہ وحى ميرے پاس آئے ہيں ان ميں تو ميں كوئى حرام نہيں پاتا كسى كھانے والے كے ليے جو اس كو كھائے، مگر يہ كہ وہ مردار ہو يا كہ بہتا ہوا خون ہو يا خنزير كا گوشت ہو، كيونكہ وہ بالكل ناپاك ہے يا جو شرك كا ذريعہ ہو كہ غير اللہ كے ليے نامزد كر ديا گيا ہو، پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطيكہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ ہى حد سے تجاوز كرنے والا تو واقعى آپ كا رب غفور الرحيم ہے }الانعام ( 145 ).
پھر سنت نبويہ نے بھى كچھ اشياء حرام كى ہيں جو اس آيت ميں ذكر نہيں، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر كچلى والا وحشى جانور اور ہر ذى مخلب پرندہ حرام ہے "
اس موضوع ميں اس ممانعت كى اور بھى كئى احاديث ہيں مثلا خيبر والے روز نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يقينا اللہ تعالى اور اس كا رسول تمہيں گھريلو گدھوں سے روكتے ہيں؛ كيونكہ يہ پليد ہيں "
اسے بخارى اور مسلم نے روايت كيا ہے.
5 - فرمان بارى تعالى ہے:
{ آپ كہہ ديجئے كہ اللہ تعالى كے پيدا كئے ہوئے اسباب زينت كو جن كو اس نے اپنے كے واسطے بنايا ہے اور كھانے پينے كى حلال چيزوں كو كس شخص نے حرام كيا ہے ؟ }الاعراف ( 32 ).
تو سنت نے بھى بيان كيا ہے كہ زينت ميں كچھ ايسى اشياء بھى ہيں جو حرام ہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے كہ ايك روز آپ صحابہ كرام كے پاس نكلے آپ كے ايك ہاتھ ريشم اور دوسرے ہاتھ ميں سونا تھا اور آپ نے فرمايا:
" يہ دونوں ميرى امت كے مردوں پر حرام ہيں، اور ان كى عورتوں كے ليے حلال "
اسے حاكم نے روايت كيا اور اسے صحيح كہا ہے.
اس معنى كى بہت سارى احاديث معروف ہيں جو صحيحين وغيرہ ميں ہے، اس كے علاوہ اور بھى كئى ايك مثاليں ہيں جو حديث اور فقہ كا علم ركھنے والوں كے ہاں معروف ہيں.
اوپر جوكچھ بيان ہوا ہے ـ ميرے بھائيو ـ اس سے مصادر تشريع اسلامى ميں سنت نبويہ كى اہميت واضح ہوتى ہے، اور جب مذكورہ بالا مثالوں كى طرف دوبارہ نظر دوڑاتے ہيں ـ چہ جائيكہ ان مثالوں كو ديكھا جائے جنہيں ہم نے ذكر ہى نہيں كيا ـ تو ہميں يقين ہو جاتا ہے كہ سنت نبويہ كے بغير قرآن مجيد كو سمجھا ہى نہيں جا سكتا، بلكہ ہميں اس كے ساتھ احاديث نبويہ كو ملانا پڑےگا.
ديكھيں: منزلۃ السنۃ فى الاسلام صفحہ ( 4 - 12 ).
ہم نصيحت كرتے ہيں كہ اس كے متعلق آپ شيخ البانى رحمہ اللہ كےپمفلٹ كا مراجع ضرور كريں، كيونكہ وہ اس موضوع ميں ايك قيمتى رسالہ ہے.
اس سے يہ واضح ہوتا ہے كہ كسى كے ليے بھى حلال نہيں وہ احكام كے ثبوت اور اسے مكلف پر لازم كرنے كے ليے سنت نبويہ كو قرآن سے جدا كرتے ہوئے صرف قرآن كا سہارا لے، اور جو كوئى بھى ايسا كريگا تو سب سے بڑا اور عظيم مخالف قرآن ٹھرےگا، كيونكہ اس نے قرآن مجيد ميں موجود اطاعت نبى كے حكم پر عمل نہيں كيا، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ پر نہيں چلا.
اور يہ واضح ہوا كہ سنت نبويہ قرآن مجيد كى تائيد اور وضاحت اور مطلق كو مقيد اور عام كو خاص كرتى ہے، اور اسى طرح سنت نبويہ ميں مستقل احكام بھى آئے ہيں، ان سب كا مسلمان شخص كو التزام كرنا لازم ہے.
آخرى چيز يہ ہے:
يہ سمجھ ليں كہ ہم اسے اپنے اور ان افراد كے مابين تنازع شمار كرتے ہيں جو قرآن مجيد پر اكتفا كرنا كافى خيال كرتے ہيں تو ہم انہيں كہينگے:
قرآن مجيد ميں ہميں حكم ديا گيا ہے كہ تنازع كے وقت قرآن اور سنت كى طرف رجوع كريں! اللہ تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو اللہ تعالى كى اطاعت كرو اور رسول كى اطاعت كرو، اور اپنے حكمرانوں كى، اور اگر تمہيں كسى معاملہ ميں تنازع پيدا ہو جائے تو اسے اللہ اور اس كے رسول كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور آخرت كے دن پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر ہے، اور باعتبار انجام كے اچھا ہے }النساء ( 59 ).
تو ہمارا مد مقابل اس قرآنى دليل كا كيا كريگا؟ اگر وہ اسے قبول كرتا ہے تو پھر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع كرتا ہے اور اس كا قول باطل ہو جائيگا، اور اگر وہ سنت نبويہ كى طرف رجوع نہيں كرتا تو اس نے قرآن مجيد كى مخالفت كى جس كے بارہ ميں اس كا گمان تھا كہ وہ سنت سے كافى ہے.
اور سب تعريفات اللہ رب العالمين كى ہيں.
واللہ اعلم .
http://islamqa.info/ur/93111