• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ!
جزاک اللہ ! بھٹی صاحب! اختصار کے ساتھ اسحاق سلفی بھائی نے عرض کیا ہے، لیکن آپ کو شاید یہ سمجھ نہ آیا ہوگا!
گھر لوٹ کر آج شام میں مفصل جواب تحریر کرتا ہوں، ان شاء اللہ ! وہ ان وساوس شیطانی کا کافی و شافی تریاک ثابت ہو گا! آپ بھی اللہ سے دعا کریں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے قبل گزشتہ مراسلے میں کی گئی ایک بات کا حوالہ پیش کرتے ہیں کہ فقہ حنفی میں نماز فارسی میں بھی ادا کی جا سکتی:
﴿وهو أسم المظم والمعنی جميعاً﴾ تمهيد لتقسيمه بعد بيان تعريفه، يعني أن القرآن أسم للنظم ولامعني جميعاً، لا أنه أسم للنظم فقط كما ينبئ عنه تعفيفه بالإنزال والكتابة والنقل، ولا أسم للمعني فقط يتوهم من تجويز أبي حنيفة رحمه الله للقراءة الفارسية في الصلاة مع القدرة علی النظم العربي، وذلك لأن الأوصاف المذكورة جارية في المعني تقديراً أو جواز الصلاة بالفارسية إنما هو لعذر حكمي، وهو أن حالة الصلاة حالة المناجاة مع الله تعالیٰ والنظم العربي معجز بليغ فلوله لا يقدر عليه، أو لأنه إن أشتغل بالعربي ينتقل الذهن منه إلی حس البلاغة والبراعة، ويلتذ بالأسجاع والفواصل، ولم يخلص الحضور مع الله تعالیٰ، بل يكون هذا النظم حجاباً بينه وبين الله تعالیٰ، وكان أبو حنيفة رحمه الله تعالیٰ مستغرقاً في بحر التوحيد والمشاهدة لا يلتف إلا إلی الذات، فلا طعن عليه في أنه كيف يجوّز القراءة بالفارسي مع القدرة علی العربي المنزل؟ وأما فيما سوی الصلاة فهو يراعي جانبها جمياً
اور قرآن نظم اور معنی کے مجموعہ کا نام ہے (یہ) قرآن کی تعریف کے بیان کے بعد اس تقسیم کی تمہید ہے، یعنی قرآن نظم اور معنی کا نام ہے نہ تو فقط نظم کا نام ہے جیسا کہ انزال، کتابت اور نقل کے ذریعہ اس کی تعریف کرنا اس کی خبر دیتا ہے اور نہ صرف معنی کا نام ہے جیسا کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے نظم عربی پر قدرت کے باوجود نماز میں فارسی زبان میں قراءت کرنے کو جائز قرار دینے سے وہم ہوتا ہے اور یہ اس لئے کہ اوصاف مذکورہ تقدیراًمعنی میں بھی جاری ہیں۔ اور فارسی زبان میں قراءت کے ساتھ نماز کا جائز ہونا ایک حکمی عذر کی وجہ سے ہے اور وہ عذر یہ ہے کہ نماز کی حالت اللہ تعالیٰ کے ساتھ راز و نیاز کی حالت ہے اور ''عربی عبارت'' انتہائی معجز اور بلیغ ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے کہ ایک فارسی آدمی اس پر قادر نہ ہو سکے، یا اس لئے کہ اگر نمازی عربی الفاظ کے ساتھ مشغول ہو گیا تو اس کا ذہن اس سے عمدہ بلاغت اور براعت کی طرف منتقل ہو جائے گا، اور وہ مسبح اور مقفیٰ عبارتوں کے ساتھ لطف اندوز ہونے لگے گا، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا حضور خالص نہ رہ سکے گا۔ بلکہ یہ عربی عبارت اُس نمازی اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب بن کر ظاہر ہوگی۔ اور امام اعظم ؒ چونکہ توحید اور مشاہدہ کے سمندر میں غرق تھے۔ اس لئے بجز ذاتِ باری کے اور کسی طرف التفات نہیں فرماتے تھے۔ پس ان پر یہ طعن نہیں ہو سکتا کہ وہ عربی زبان جو منزل من اللہ ہے اس پر قدرت رکھنے کے باوجود فارسی زبان میں قراءت قرآن کس طرح جائز دیتے ہیں، اور نماز کے علاوہ دوسری حالتوں میں امام صاحب نظم اور معنی دونوں کی رعایت کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 19 – 21 جلد 01 كشف الأسرار شرح المصنف على المنار مع شرح نور الأنوار على المنار - حافظ الدين النسفي- ملاجيون - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 61 – 62 جلد 01 قُوت الاخیار اردو شرح نور الانوار – جمیل احمد سکروڈوی – قدیمی کتب خانہ، کراچی

امام ابو حنیفہ کی فقہ کی معراج دیکھیں! اور امام صاحب نے عربی میں نماز ادا کرنے کو تو اللہ اور بندے کے درمیان ممکنہ حجاب قرار دے دیا! واہ کیا بات ہے امام ابو حنیفہ کی!

صحيح مسلم: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَإِنَّهُ إِذَا لَمْ يُحْسِنْ الْفَاتِحَةَ وَلَا أَمْكَنَهُ تَعَلُّمَهَا قَرَأَ مَا تَيَسَّرَ لَهُ مِنْ غَيْرِهَا:
عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ
و حَدَّثَنَاه إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَزَادَ فَصَاعِدًا

عبادہ ابنِ صامت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص کی نماز نہ ہوگی جس نے سورت فاتحہ نہ پڑھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور معمر نے زہری سے اسی اسناد کے ساتھ یہی حدیث بیان کی اور اس میں ہے کہ اس کی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ اور ’زیادہ نہ پڑھا‘ (قوسین میں لکھے گئے اضافہ کے ساتھ)۔
سنن أبي داود: كِتَاب الصَّلَاةِ: بَاب مَنْ تَرَكَ الْقِرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ:
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَابْنُ السَّرْحِ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا

عبادہ بن صامت (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس شخص کی نماز نہ ہوگی جس نے سورت فاتحہ اور مزید کچھ نہ پڑھا۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے معر کے راویت کردہ الفاظ ﴿ فَصَاعِدًا﴾ بیان ہی اسی لئے کئے ہیں کہ ان کا شاذ ہونا بتلایا جائے! اور معلوم ہونا چاہئے کہ شاذ ہونا ضعیف ہونا ہوتا ہے!
﴿ فَصَاعِدًا﴾ یہ الفاظ شاذ ہیں، اس کی صراحت، امام بخاری رحمہ اللہ، ابن حبان رحمہ اور ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے بھی کی ہے؛
امام ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير میں فرماتے ہیں:
حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: "لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ" مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَفِي رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ وَأَبِي دَاوُد وَابْنِ حِبَّانَ بِزِيَادَةِ: "فَصَاعِدًا" قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: تَفَرَّدَ بِهَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ وَأَعَلَّهَا الْبُخَارِيُّ فِي جُزْءِ الْقِرَاءَةِ
عبادہ بن الصامت کی : ﴿لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ﴾''جونماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں (ہوتی)''متفق علیہ ہے یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں ہے، مسلم کی ایک روایت میں ، اور ابو دواد اور ابن حبان کی روایت میں ﴿ فَصَاعِدًا﴾ کے الفاظ زیادہ ہیں،
ابن حبان نے کہا : ان اضافہ شدہ الفاظ کی روایت میں معمر کا الزہری سے تفرد ہے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے جز القراءۃ میں اسے معلول قرار دیا ہے۔
ملاحضہ فرمائیں:صفحه 416 - 417 جلد 01 - التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - مؤسسة قرطبة، مصر
ملاحضہ فرمائیں: صفحه 653 جلد 02 - التمييز في تلخيص تخريج أحاديث شرح الوجيز المشهور بـ التلخيص الحبير - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - دار أضواء السلف
ملاحضہ فرمائیں: صفحه 87 جلد 01 -التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - مطبعة الأنصاري دهلي الهند سنة 1304هـ -1886م

اسی بات کو امام ابن حجر العسقلانی نے اپنی کتاب موافقة الخبر الخبر في تخريج أحاديث المختصر میں بھی بیان کیا ہے:
وقرأت علی العماز أبي بكر بن قدامة أن عبد الله بن الحسين أخبرهم أخبرنا عثمان بن علي السلفي أخبرنا أبو الحسن الكرجي أخبرنا أبو بكر الحرشي أخبرنا أبو علي المعقلي حدثنا محمد بن يحيی الذهلي قالا: أخبرنا عبد الرزاق أخبرنا معمر عن الزهري عن محمود عن عبادة قال: قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: ﴿ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا ﴾.
وقد أخرجه مسلم عن محمد بن رافع، فوافقناه بعلو. وأخرجه ابن خزيمة عن الذهلي، فوافقناه أيضا.
قال البخاري في كتاب القراءة خلف الإمام: لم يتابع أحد من الثقات معمرا علی هذه الزيادة، قال: ويقال إن عبد الرحمن بن إسحاق رواه عن الزهري كذلك، وجزم ابن حبان بأن معمرا تفرد بها والله أعلم.

ملاحضہ فرمائیں: صفحه 418 – 419 جلد 01 موافقة الخبر الخبر في تخريج أحاديث المختصر - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - مكتبة الرشد، الرياض

امام بخاری رحمہ اللہ کا کلام ملاحظہ فرمائیں:
أَنْبَأَنَا الْمُلَاحِمِيُّ، قَالَ: أنا الْهَيْثَمُ بْنُ كُلَيْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ الَّذِي مَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ مِنْ بِئْرٍ لَهُمْ أَخْبَرَهُ أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنَ»
قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَقَالَ مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ: لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا وَعَامَّةُ الثِّقَاتِ لَمْ يُتَابِعْ مَعْمَرًا فِي قَوْلِهِ: فَصَاعِدًا مَعَ أَنَّهُ قَدْ أَثْبَتَ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَقَوْلُهُ: فَصَاعِدًا غَيْرُ مَعْرُوفٍ مَا أَرَدْتُهُ حَرْفًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ؟ إِلَّا أَنْ يَكُونَ كَقَوْلِهِ: لَا تُقْطَعُ الْيَدُ إِلَّا فِي رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا فَقَدْ تُقْطَعُ الْيَدُ فِي دِينَارٍ وَفِي أَكْثَرَ مِنْ دِينَارٍ، قَالَ الْبُخَارِيُّ: وَيُقَالُ أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ إِسْحَاقَ تَابَعَ مَعْمَرًا، وَأَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ رُبَّمَا رَوَى عَنِ الزُّهْرِيِّ، ثُمَّ أَدْخَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الزُّهْرِيِّ غَيْرَهُ وَلَا تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا مِنْ صَحِيحِ حَدِيثِهِ أَمْ لَا

(ابو نصر محمد بن احمد بن موسیٰ البخاری) الملاحمی نے ہمیں خبر دی، کہا: بے شک ہیثم بن کلیب نے کہا: ہمیں عباس بن محمد الدوری نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں یعقوب (بن ابراہیم بن سعد) نے حدیث بیان کی، کہا: میرے ابا (ابراہیم بن سعد بن ابراہیم) نے ہمیں ھدیث بیان کی، وہ صالح (بن کیسان) سے وہ ابن شہاب ( الزہری) سے، انہیں (سیدنا) محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے خبر سنائی جن کے چہرے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کنویں سے (پانی پی کر پیار سے) کلی کی تھی۔ انہیں (سیدنا) عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ نے خبر دی، بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں (ہوتی)''
بخاری نے کہا اور معمر (بن راشد) نے زہری سے نقل کیا کہ '' اس کی نماز نہیں (ہوتی) جو سورۂ فاتحہ نہ پڑھے، پس جو زیادہ کرے'' عام ثقہ راویوں نے ''پس جو زیادہ کرے'' (کے الفاظ ) میں معمر کی متابعت نہیں کی۔باوجود یہ کہ انہوں نے سورۂ فاتحہ کا اثبات بیان کیا ہے اور ان کا قول فصاداً (پس جو زیادہ کرے) نعروف ( محفوظ و مشہور) نہیں ہے۔
اس سے میری مراد یہ نہیں کہ کوئی (بھی فاتحہ سے زیادہ) ایک حرف یا اس سے زائد نہیں پڑھ سکتا۔ اس کی مثال اس حدیث کی طرح ہے کہ ہاتھ نا کاٹا جائے مگر چاتھائی دینار (کی چوری) میں، پس زیادہ، پس ہاتھ یقیناً دینار اور دینار سے زیادہ (چوری) پر کاٹا جاتا ہے۔
بخاری نے کہا: کہا جاتا ہے کہ عبد الرحمٰن بن اسحاق (القرشی المدنی) نے معمر بن راشد کی متابعت کی ہے اور (بات یہ ہے کہ) بے شک عبد الرحمٰن (مذکور) زہری سے بعض اوقات روایت بیان کرتا ہے، پھر اپنے اور زہری کے درمیان دوسروں کو (سلسلۂ سند میں ) داخل کر دیتا ہے اور ہم نہیں جانتے کہ یہ اس کی صحیح حدیث میں سے ہے ہا نہیں۔
ملاحضہ فرمائیں: صفحه 02 - 03 جلد 01 جزء القراءة خلف الإمام - أبو عبد الله محمد بن إسماعيل البخاري - المكتبة السلفية - باكستان
ملاحضہ فرمائیں: صفحه 46 - 51 جلد 01 تحفة الانام فى تخريج جزء القراءة خلف الامام - محمد اسرائيل محمد ابراهيم السلفى الندوي - مكتبة المنار للنشر والتوضيع، دهلي
ملاحضہ فرمائیں: صفحہ 46 – 47 نصر الباری فی تحقیق جزء القراءۃ للبخاری – مترجم و محقق حافظ زبیر علی زئی – مکتبہ اسلامیہ، لاہور

امام ابن حبان رحمہ اللہ کا کلام ملاحظہ فرمائیں:
أَخْبَرَنَا ابْنُ قُتَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي السَّرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَصَاعِدًا».
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قَوْلُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَبَرِ مَكْحُولٍ: «فَلَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْكِتَابِ»، لَفْظَةُ زَجَرَ مُرَادٌ بِهَا ابْتِدَاءُ أَمْرٍ مُسْتَأْنَفٍ، وَقَوْلُهُ: «فَصَاعِدًا»، تَفَرَّدَ بِهِ مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، دُونَ أَصْحَابِهِ.

ملاحضہ فرمائیں: صفحه 87 جلد 05 - صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان - محمد بن حبان، ابن حبان الدارمي، البُستي - مؤسسة الرسالة، بيروت
ملاحضہ فرمائیں: صفحه 559 جلد 01 - صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان - محمد بن حبان، ابن حبان الدارمي، البُستي - دار المعرفة، بيروت
ملاحضہ فرمائیں: صفحه 87 جلد 01 - صحيح ابن حبان بترتيب ابن بلبان - محمد بن حبان، ابن حبان الدارمي، البُستي - بيت الأفكار الدولية

ان تمام احادیث میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی اور دیگر سورہ پڑھے بغیر نماز نہ ہونے کا حکم آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے صادر فرمایا ہے۔ اب اگر اہلِ حدیث کے دلائل کی مانند ’’لا‘‘ سے نماز کا نہ ہونا اور ’’لمن‘‘ میں ہر کسی کو (منفرد، امام اور مقتدی) شامل کر لیا جائے تو امام کی اقتداء میں کسی کی نماز نہیں ہو سکتی کما لا یخفیٰ۔
جی جناب! کچھ بھی مخفی نہیں ہے، اگر یہ حدیث اتنی ہی صحیح ہے کہ آپ اس اسے ہم پر حجت قائم کرنا چاہتے ہیں ، تو حنفیوں نے اس حدیث پر عمل کیوں نہیں کیا؟
فقہ حنفیہ اور فقہائے احناف تو اس حدیث کی مکمل مخالفت کرتے ہیں! اگر یہ حدیث آپ کے نزدیک صحیح ہے تو آپ اس پر عمل کریں!
کہ حنفی منفرد ہو، امام ہو یا مقتدی، وہ سورۂ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ اور لازماً پڑھے! یہ بھی آپ کے ترجمہ کے پیش نظر کہہ رہا ہوں، وگرنہ یہاں ﴿ فَصَاعِدًا﴾ میں ''ف'' ہے اور یہ ایک نفیس نکتہ ہے عربی زبان کا، لیکن اس کی بحث سے قطع نظر!
چلو ! آپ مقتدی کی تخصیص کرتے ہو، یہ بھی اگر مان لیا جائے، پھر بھی حنفی امام اور حنفی منفرد کو سورۂ فاتحہ اور اس کے ساتھ کچھ اور پڑھنا لازم آتا ہے!
لیکن فقہ حنفیہ اور فقہائے احناف یہ بھی نہیں مانتے! فقہ حنفی میں نہ منفرد پر اور نہ امام پر کسی پر بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا لازم نہیں!
حنفیہ کا اس حدیث پر بھی عمل نہیں!
اپنے استدلال میں وہ حدیث پیش کرو کہ کم از کم حنفیہ کا اپنا تو اس پر عمل تو ہو!

یہ تمام احادیث عبادہ ابنِ صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہی مروی ہیں۔ آپ لوگ ان کی صرف ایک حدیث جو کہ مضطرب ہے علمائے تحقیق نے اس کے ’متن‘ پر جرح کی ہے۔
عبادہ بن صامت کی یہ حدیث﴿لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ﴾''جونماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں (ہوتی)''متفق علیہ ہے یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں ہے، اور یہ حدیث کی صحت میں بہت اعلی ٰ مقام رکھتا ہے! اس کے متن پر کسی محقق عالم کی جرح تو نہیں! ہاں مقلدین حنفیہ کی ہفوات ضرور ہیں، لیکن علمائے تحقیق کی نظر میں ان مقلدین حنفیہ اور ان کی ہفوات کی کوئی وقعت نہیں!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
لہٰذا لازم آئے گا کہ اس سے مقتدی کو استثنا دیا جائے اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ ارشاد فرما کر مقتدی کو استثنا دے دیا؛
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ عَنْ جَابِرٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ (احمد)
جابر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا کہ جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے۔
اول تو ذرا دیکھ لیں مذکورہ سند کے ساتھ یہ حدیث مسند احمد میں مجھے نہیں ملی! اس کا مکمل حوالہ دیں تو دیکھیں؛
مجھے یہ حدیث اس سند کے ساتھ مسند احمد میں ملی ہے:
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، أَخْبَرَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ، فَقِرَاءَتُهُ لَهُ قِرَاءَةٌ "
مسند الإمام أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْمُكْثِرِينَ مِنَ الصَّحَابَةِ » مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ

اس سند میں حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ کا أَبِي الزُّبَيْرِ سے سماع نہیں ہے، لہٰذا یہ سند تو منقطع ہے۔
دوم کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ ان کے درمیان ''جَابِرٍ'' کا واسطہ ہے، اور یہ جابر،جابر بن يزيد الجعفي ہے، اور کے بارے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے جابر الجعفی سے بڑا جھوٹا نہیں دیکھا!
روي عن أبي حنيفة أنه قال : ما رأيت أكذب من جابر الجعفي
ملاحظہ فرمائیں : نصب الراية في تخريج أحاديث الهداية - جمال الدين عبد الله بن يوسف الزيلعي الحنفي

جابر الجعفی کا ضعیف و کذاب ہونا تو بہت معروف ہے!
سنن ابن ماجہ میں مذکورہ حدیث موجود ہے، جس میں حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ اور أَبِي الزُّبَيْرِ کے درمیان جابر الجعفي کا واسطہ موجود ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ كَانَ لَهُ إِمَامٌ ، فإِنَّ َقِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ "
سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب إِذَا قَرَأَ الْإِمَامُ فَأَنْصِتُوا

احناف کی اس دلیل کی حیثیت بھی دیکھ لیں؛
اس حدیث کے متعلق امام ابن حجر العسقلانی صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں فرماتے ہیں:
وَاسْتَدَلَّ مَنْ أَسْقَطَهَا عَنِ الْمَأْمُومِ مُطْلَقًا كَالْحَنَفِيَّةِ بِحَدِيثِ مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ لَكِنَّهُ حَدِيثٌ ضَعِيفٌ عِنْدَ الْحُفَّاظِ وَقَدِ اسْتَوْعَبَ طُرُقَهُ وَعَلَّلَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَغَيْرُهُ
اور جنہوں نے سورۂ فاتحہ کی قراءت کے کو مقتدی کے لئے مطلقاً ساقط قرار دیا ہے، جیسے کہ حنفیہ نے ، انہوں نے اس حدیث ﴿مَنْ صَلَّى خَلْفَ إِمَامٍ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ﴾ ''جو امام کی اقتداء میں نماز پڑھے ، تو امام کی قراءت اس کے لئے قراءت ہے'' سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث، حفاظ الحدیث کے نزدیک ضعیف ہے، امام دارقطنی نے اس کے طرق اکھٹے کئے ہیں، اور ان کے کی معلول(ضعیف) قرار دیا ہے،
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 242 جلد 02 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - المكتب السلفية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 283 جلد 02 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - دار الريان للتراث، القاهرة
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 283 جلد 02 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - مكتبة الملك فهد الوطنية
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 661 جلد 02 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - دار طيبة، رياض
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 614 جلد 01 - فتح الباري شرح صحيح البخاري - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - بيت الأفكار الدولية

اسی حدیث کےمتعلق امام ابن حجر العسقلانی اپنی دوسری کتاب التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير فرماتے ہیں:
حَدِيثُ: «مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» مَشْهُورٌ مِنْ حَدِيث جَابِرٍ، وَلَهُ طُرُقٌ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ، وَكُلُّهَا مَعْلُولَةٌ.
حَدِيثُ: «مَنْ كَانَ لَهُ إمَامٌ فَقِرَاءَةُ الْإِمَامِ لَهُ قِرَاءَةٌ» ''جس کسی کا امام ہو پس امام کی قراءت مقتدی کی قراءت ہے''جابر رضی اللہ عنہ سے مشہور ہے، اس کی حدیث کے طرق صحابہ کی ایک جماعت سے ہیں اور سب کہ سب معلول(ضعیف) ہیں!
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 420 جلد 01 - التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - مؤسسة قرطبة، مصر
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 658 جلد 02 - التمييز في تلخيص تخريج أحاديث شرح الوجيز المشهور بـ التلخيص الحبير - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - دار أضواء السلف
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 87 جلد 01 -التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير - أبو الفضل أحمد بن علي ابن حجر العسقلاني - مطبعة الأنصاري دلهي الهند سنة 1304هـ -1886م

اب ان ضعیف احادیث سے استدلال کر کے ضعیف و مردود فقہ ہی اخذ ہوگی!
 
Last edited:

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
صحيح البخاري: كِتَاب الِاسْتِئْذَانِ: بَاب مَنْ رَدَّ فَقَالَ عَلَيْكَ السَّلَامُ وَقَالَتْ عَائِشَةُ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ الْمَلَائِكَةُ عَلَى آدَمَ السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ: حدیث نمبر 5782
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِي اللَّه عَنْه أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْكَ السَّلامُ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَرَجَعَ فَصَلَّى ثُمَّ جَاءَ فَسَلَّمَ فَقَالَ وَعَلَيْكَ السَّلامُ فَارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ فَقَالَ فِي الثَّانِيَةِ أَوْ فِي الَّتِي بَعْدَهَا عَلِّمْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَى الصَّلاةِ فَأَسْبِغِ الْوُضُوءَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ فَكَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ بِمَا تَيَسَّرَ مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْكَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِكَ فِي صَلَاتِكَ كُلِّهَا وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ فِي الأَخِيرِ حَتَّى تَسْتَوِيَ قَائِمًا
حَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ قَالَ حَدَّثَنِي يَحْيَى عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ حَدَّثَنِي سَعِيدٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا
ابوہریرۃ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہؤا اور نماز پڑھی اور آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گیا اور جا کر نماز پڑھی اور پھر آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور پھر فرمایا کہ جاکر نماز پڑھ تو نے نماز نہیں پڑھی ۔ تیسری دفعہ یا تیسری دفعہ کے بعد اس شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممجھے نماز سکھلائیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو اچھی طرح وضو کر۔ پھر قبلہ رو کھڑا ہو۔ پھر اللہ اکبر کہہ۔ پھر قرآن سے پڑھ جو تجھے یاد ہو پھر رکوع کر یہاں تک کہ سکون سے رکوع کرنے والا ہو پھر کھڑا ہو یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجائے۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سکون سے تشہد کی حالت میں بیٹھ جا۔ پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔ پھر سجدہ سے اٹھ کر سکون سے تشہد میں بیٹھ جا (ایک روایت میں ہے کہ پھر سیدھا کھڑا ہو جا)۔ اسی طرح کر اپنی تمام نماز میں"۔ (عربی میں خط کشیدہ متن کا ترجمہ ملا کر لکھا ہے)
اس حدیث پر بھی حنفیوں کا عمل نہیں! فقہ حنفیہ ، اور فقہائے احناف نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو ماننے سے صاف انکار کردیا ہے!
میں نبی صلی علیہ وسلم کے اس حدیث میں احکامات کا وہی ترجمہ نقل کرتا ہوں، جو بھٹی صاحب نے کیا ہے، انہیں زہن نشین کر لیں!
پھر رکوع کر یہاں تک کہ سکون سے رکوع کرنے والا ہو
پھر کھڑا ہو یہاں تک کہ سیدھا کھڑا ہوجائے۔
پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو۔
پھر سجدہ سے اٹھ کر سکون سے تشہد کی حالت میں بیٹھ جا۔
پھر سجدہ کر یہاں تک کہ سکون سے سجدہ کرنے والا ہو
پھر سجدہ سے اٹھ کر سکون سے تشہد میں بیٹھ جا


بھٹی صاحب خود فرماتے ہیں کہ:
نوٹ: درج بالا حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابی کو نماز بتاکید سکھلائی ہے ـ اس میں وہ تمام عوامل ( یعنی فرائض و واجبات نماز) مذکور ہیں جن کے بغیر نماز صحیح نہیں ہوتی ـ
لیکن فقہ حنفیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات نہین مانتی! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طمانیت و اطمنان کو لازم قرار دیا کہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، مگر فقہ حنفیہ و فقہائے احناف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہو جاتی ہے، اور یہ طمانیت و اطمنان فرائض و واجبات و شرط نماز نہیں!
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونے کے لئے رکوع، قومہ ، سجدہ اور جلسہ بین السجدتین میں طمانیت و اطمنان کو شرط قرار دیتے ہیں، کہ اس طمانیت و اطمنان کے بغیر نماز نہیں ہوتی! اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کو تین بار نماز دہرانے کا کہا! کہ پھر نماز پڑھو کہ تو نے نماز پڑھی ہی نہیں! یعنی کہ تیری نماز نہیں ہوئی!
مگر فقہ حنفیہ و فقہائے احناف اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف رکوع، قومہ، سجدہ اور جلسہ بین السجدتین میں طمانیت و اطمنان کو شرط نہیں مانتے، اور صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے برخلاف کہتے ہیں کہ رکوع، قومہ سجدہ اور جلسہ بین السجدتین میں طمانیت و اطمنان کے بغیر بھی نماز درست اور صحیح ہے، اور یہ طمانیت و اطمنان نماز کے درست و صحیح ہونے کے لئے شرط نہیں!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم اور اس طرح دیگر احکامات کو رد کرنے کے لئے فقہائے احناف نے باقاعدہ اصول گڑھے ہیں، آپ کی خدمت میں فقہ حنفی کا یہ اصول پیش کرتے ہیں کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ سے اس حکم کو صحیح ثابت مان کر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا کس طرح انکار کرتے ہیں:

الْفَصْل الثَّانِي فصل فِي الْمُطلق والمقيد
بحث الْمُطلق إِذا أمكن الْعَمَل بِهِ لَا يجوز الزِّيَادَة عَلَيْهِ
ذهب أَصْحَابنَا إِلَى أَن الْمُطلق من كتاب الله تَعَالَى إِذا أمكن الْعَمَل بِإِطْلَاقِهِ فَالزِّيَادَة عَلَيْهِ بِخَبَر الْوَاحِد وَالْقِيَاس لَا يجوز مِثَاله فِي قَوْله تَعَالَى {فَاغْسِلُوا وُجُوهكُم} فالمأمور بِهِ هُوَ الْغسْل على الْإِطْلَاق فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شَرط النِّيَّة وَالتَّرْتِيب والموالاة وَالتَّسْمِيَة بالْخبر وَلَكِن يعْمل بالْخبر على وَجه لَا يتَغَيَّر بِهِ حكم الْكتاب فَيُقَال الْغسْل الْمُطلق فرض بِحكم الْكتاب وَالنِّيَّة سنة بِحكم الْخَبَر
وَكَذَلِكَ قُلْنَا فِي قَوْله تَعَالَى {الزَّانِيَة وَالزَّانِي فاجلدوا كل وَاحِد مِنْهُمَا مائَة جلدَة} إِن الْكتاب جعل جلد الْمِائَة حدا للزِّنَا فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ التَّغْرِيب حدا لقَوْله عَلَيْهِ السَّلَام
(الْبكر بالبكر جلد مائَة وتغريب عَام)
بل يعْمل بالْخبر على وَجه لَا يتَغَيَّر بِهِ حكم الْكتاب فَيكون الْجلد حدا شَرْعِيًّا بِحكم الْكتاب والتغريب مَشْرُوعا سياسة بِحكم الْخَبَر
وَكَذَلِكَ قَوْله تَعَالَى {وليطوفوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيق} مُطلق فِي مُسَمّى الطّواف بِالْبَيْتِ فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شَرط الْوضُوء بالْخبر بل يعْمل بِهِ على وَجه لَا يتَغَيَّر بِهِ حكم الْكتاب بِأَن يكون مُطلق الطّواف فرضا بِحكم الْكتاب وَالْوُضُوء وَاجِبا بِحكم الْخَبَر فَيجْبر النُّقْصَان اللَّازِم بترك الْوضُوء الْوَاجِب بِالدَّمِ وَكَذَلِكَ قَوْله تَعَالَى {واركعوا مَعَ الراكعين}
بحث جَوَاز التوضي بِمَاء الزَّعْفَرَان وَأَمْثَاله
مُطلق فِي مُسَمّى الرُّكُوع فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شَرط التَّعْدِيل بِحكم الْخَبَر وَلَكِن يعْمل بالْخبر على وَجه لَا يتَغَيَّر بِهِ حكم الْكتاب فَيكون مُطلق الرُّكُوع فرضا بِحكم الْكتاب وَالتَّعْدِيل وَاجِبا بِحكم الْخَبَر
وعَلى هَذَا قُلْنَا يجوز التوضي بِمَاء الزَّعْفَرَان وَبِكُل مَاء خالطه شَيْء طَاهِر فَغير أحد أَوْصَافه لِأَن شَرط الْمصير إِلَى التَّيَمُّم عدم مُطلق المَاء وَهَذَا قد بَقِي مَاء مُطلقًا فَإِن قيد الْإِضَافَة مَا أَزَال عَنهُ اسْم المَاء بل قَرَّرَهُ فَيدْخل تَحت حكم مُطلق المَاء وَكَانَ شَرط بَقَائِهِ على صفة الْمنزل من السَّمَاء قيدا لهَذَا الْمُطلق وَبِه يخرج حكم مَاء الزَّعْفَرَان والصابون والأشنان وَأَمْثَاله وَخرج عَن هَذِه الْقَضِيَّة المَاء النَّجس بقوله تَعَالَى {وَلَكِن يُرِيد ليطهركم} وَالنَّجس لَا يُفِيد الطَّهَارَة وبهذه الْإِشَارَة علم أَن الْحَدث شَرط لوُجُوب الْوضُوء فَإِن تَحْصِيل الطَّهَارَة بِدُونِ وجود الْحَدث محَال
قَالَ أَبُو حنيفَة رَضِي الله عَنهُ الْمظَاهر إِذا جَامع امْرَأَته فِي خلال الْإِطْعَام لَا يسْتَأْنف الْإِطْعَام لِأَن الْكتاب مُطلق فِي حق الْإِطْعَام فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شَرط عدم الْمَسِيس بِالْقِيَاسِ على الصَّوْم بل الْمُطلق يجْرِي على إِطْلَاقه والمقيد على تَقْيِيده
وَكَذَلِكَ قُلْنَا الرَّقَبَة فِي كَفَّارَة الظِّهَار وَالْيَمِين مُطلقَة فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شلاط الْإِيمَان بِالْقِيَاسِ على كَفَّارَة الْقَتْل

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 22 – 26 جلد 01 أصول الشاشي وبهامشه عمدة الحواشي - دار الكتب العلمية بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 20 – 26 جلد 01 أصول الشاشي وبهامشه أحسن الحواشي – مكتبة البشری كراتشي
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 28 – 33 جلد 01 أصول الشاشي تحقيق محمد أكرم ندوي – دار الغرب الإسلامي بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 09 – 12 جلد 01 أصول الشاشي وبهامشه أحسن الحواشي – قديمي كتب خانة كراتشي

(یہ) فصل مطلق اور مقید (کے بیان) میں ہے، ہمارے علماء احناف کا مذہب یہ ہے کہ مطلق کتاب اللہ جب اس کے اطلاق پر عمل ممکن ہو تو اس پر خبر واحد اور قیاس کے ذریعے زیادتی کرنا جائز نہیں ہوگا، اس کی مثال باری تعالیٰ کے قول "فاغسلوا وجوهكم" میں ہے پس مامور بہ مطلق غسل ہے لہٰذا اس پر خبر کے ذریعہ نيت، ترتیب، موالات تسمیہ کے شرط ہونے کے زیادتی نہیں کی جائے گی لیکن خبر پر اس طور عمل کیا جائے گا کہ اس سے حکم کتاب اللہ متغیر نہ ہو چنانچہ کہا جائے گا کہ مطلق غسل حکم کتاب کی وجہ سے فرض ہے اور نیت حکم خبر کی وجہ سے سنت ہے۔
اور اسی طرح ہم نے کہا باری تعالیٰ کے قول "الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلدة" میں کتاب اللہ نے سو کوڑوں کو زنا کی حد قرار دیا ہے پس اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول " البكر بالبكر جلد مائة وتغريب عام" کی وجہ سے ایک سال کی جلا وطنی کو حد بنا کر زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ خبر پر اس طور عمل کیا جائے گا کہ اس سے حکم کتاب متغیر نہ ہو سکے، پس کوڑے مارنا حکم کتاب کی وجہ سے حد شرعی ہو گا اور حکم خبر کی وجہ سے ایک سال کے لئے جلا وطن کرنا انتظامی مصلحت کی وجہ سے مشروع ہو گا۔
اور اسی طرح باری تعالیٰ کا قول " وليطوفوا بالبيت العتيق" بيت اللہ کے طواف کے حکم میں مطلق ہے لہٰذا اس پر خبر کے ذریعہ وضو کے شرط ہونے کو زیادہ نہیں یا جائے گا بلکہ خبر پر ایسے طریقے سے عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب کا حکم متغیر نہ ہو اس طور پر کہ حکم کتاب کی وجہ سے مطلق طواف فرض ہو اور حکم خبر کی وجہ سے وضو واجب ہو پس وہ نقصان جو وضو واجب کے ترک سے لازم آیا ہے اس کی تلافی دم سے کی جائے گی۔
اور اسی طرح باری تعالیٰ کا قول "وارکعو مع الراکعين" رکوع کے مفہوم میں مطلق ہے لہٰذا اس پر حکم خبر کی وجہ سے تعدیل کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا لیکن خبر پر اس طور پر عمل کیا جائے گا کہ اس سے حکم کتاب متغیر نہ ہو چنانچہ حکم کتاب کی وجہ سے مطلق رکوع فرض ہو گا اور حکم خبر کی وجہ سے تعدیل واجب ہو گی
اور اسی بناء پر ہم نے کہا کہ وضو جائز ہے زعفران کے پانی سے اور ہر اس پانی سے جس میں کوئی پاک چیز ملی ہو پھر اس کے اوصاف میں کسی ایک وصف کو بدل دیا ہو اس لئے کہ تیمّم کی طرف رجوع کرنے کی شرط مطلق ماء کا معدوم ہونا ہے اور زعفران وغیرہ کا پانی ماء مطلق ہو کر باقی ہے کیونکہ قید اضافت نے ماء زعفران سے ماء کا نام زائل نہیں کیا ہے بلکہ اس کو ثابت کیا ہے پس زعفران وغیرہ کا پانی مطلق ماء کے تحت داخل ہو جائے گا اور اس کے اس صفت پر باقی رہنے کی شرط جس پر وہ آسمان سے اترا ہے اس مطلق جے لئے قید ہے اور اسی سے زعفران، صابن اور اشنان وغیرہ کے پانی کے حکم کی تخریج کی جائے گی اور حکم سے باری تعالیٰ کے قول ولكن يريد ليطهركم کی وجہ سے نا پاک پانی نکل گیا ہے کیونکہ ناپاک پاکی کا فائدہ نہیں دیتا اور ليطهركم کے اشارہ سے معلوم ہو گیا کہ وضو واجب ہونے کے لئے حدث (بے وضو ہونا) شرط ہے کیونکہ بغیر وجود حدث کے طہارت حاصل کرنا محال ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ظہار کرنے والا جب کھانا کھلانے کے درمیان اپنی بیوی سے جماع کرلے تو کھانا کھلانے کا اعداہ نہیں کیا جائے گا اس کہ کتاب اطعام کے حق میں مطلق ہے لہٰذا اس پر عدم جماع کی شرط کو روزے پر قیاس کے زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہو گا اور مقید اپنی تقیس پر۔
اسی طرح ہم نے کہا کہ کفارۂ ظہار اور کفارۂ یمین میں رقبہ مطلق ہے لہٰذا کفارۂ قتل پر قیاس کرکے اس پر شرط ایمان کو زیادہ نہیں کیا جائے گا۔
ملاحضہ فرمائیں: صفحہ 47 – 60 جلد 01 اجمل الحواشی علی اُصُولُ الشاشی – جميل احمد سكروڈهوی – مکتبہ رحمانیہ
صفحہ 51 – 53 جلد 01 اجمل الحواشی علی اُصُولُ الشاشی – جميل احمد سكروڈهوی – دار الاشاعت کراچی
فصل ہے مطلق اور مقید کے بیان میں ہمارے علماء احناف اس طرف گئے ہیں کہ قرآن کے لفظ مطلق کے اطلاق کے ساتھ جب عمل ممکن ہو تو خبر واحد اور قیاس کے ذریعہ اس پر زیادتی کرنا جائز نہیں ہوگا اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے قول میں "فاغسلوا وجوهكم" ہے پس مامور بہ مطلق غسل ہے لہٰذا اس پر حدیث کے ذریعہ نیت ترتیب، موالات اور تسمیہ کی شرط ہونے کی زیادتی نہیں کی جائے گی لیکن حدیث پر اس طریقہ سے عمل کیا جائے گا اس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو پس کہا جائے گا کہ مطلق وضو کے اعضاء کا دھونا فرض ہے کتاب اللہ کا حکم ہونے کی وجہ سے اور نیت سنت ہے حدیث کا حکم ہونے کی وجہ سے،
اور اسی طرح ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے قول " الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلده" میں کتاب اللہ نے سو کوڑے مارنے کو حد زنا قرار دیا ہے پس اس پر ایک سال کی جلا وطنی کو حد بنا کر زیادتی نہیں کی جائے گی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے "البكر بالبكر جلد مائة وتغريب عام" بلکہ حدیث پر اس طرح عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو پس کوڑے مارنا شرعی حد ہو گی کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور ایک سال کیلئے جلا وطن کر دینا سیاستاً مشروع ہو گا حدیث کے حکم کی وجہ سے۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قول " وليطوفوا بالبيت العتيق" مطلق ہے بیت اللہ کے طواف کے حکم میں، لہٰذا اس پر حدیث کے ذریعہ وضو کی شرط ہونے کو زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ حدیث پر ایسے طریقہ سے عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب اللہ کے حکم مين کوئی تغیر پیدا نہ ہو، اس طور پر کہ مطلق طواف فرض ہو گا کتاب اللہ کی وجہ سے ، اور وضو واجب ہو گا حدیث کے حکم کی وجہ سے ، پس جو وضو واجب کے ترک کی وجہ سے نقصان لازم آئے اس کی تلافی دم سے کی جائے گی،
اور اسی طرح اللہ تعالی کا قول "واركعوا مع الركعين" رکوع کے مفہوم میں مطلق ہے پس اس پر حدیث کے حکم کی وجہ سے تعدیل ارکان کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا لیکن حدیث کے ساتھ اس طریقہ سے عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو پس مطلق رکوع فرض ہو گا کتاب اللہ کی وجہ سے، اور تعدیل ارکان واجب ہوگا حدیث کے حکم کی وجہ سے،
اور اسی بنا پر (مطلق کے ساتھ قطعاً عمل واجب ہونے کی بنا پر ) ہم نے کہا کہ وضو جائز ہے زعفران کے پانی کے ساتھ اور ہر اس پانی سے کہ جس میں کوئی پاک چیز ملی ہو پھر اس کے اوصاف مین کسی کو بدل دیا ہو اس کئے کہ تیمّم کی طرف رجوع کرنے کی شرط مطلق پانی کا نہ ملنا ہے اور زعفران و وغیرہ کا پانی ماء مطلق پر باقی ہے کیونکہ اضافت کی قید نے پانی کے نام کو اس سے زائل نہیں کیا بلکہ اس کو ثابت کیا ہے پس ماء زعفران وغیرہ مطلق ماء کے حکم تحت داخل ہو جائے گا،
اور اس صفت پر باقی رہنے کی شرط جس صفت پر آسمان سے اترا تھا قید ہو گئ اس مطلق کیلئے، اور اسی سے زعفران، صابن اور اشنان وغیرہ کے پانی کے حکم کی تخریج کی جائے گی اور اس حکم سے اللہ تعالیٰ کے قول " ولكن يريد ليطهركم" کی وجہ سے ناپاک پانی نکل جائے گا کیونکہ نجس طہارت کا فائدہ نہیں دیتا،
اور" ليطهركم " کے اشارہ سے معلوم ہوا کہ بے وضو ہونا شرط ہے وضو کے واجب ہونے کیلئے کیونکہ بغیر وجوس حدث کے طہارت حاصل کرنا محال ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ظہار کرنے والا جب کھانا کھلانے درمیان اپنی بیوی سے جماع کرلے تو کھانا کھلانے کا اعادہ نہیں کریگا اس لئے قرآن پاک کھانا کھلانے کے حق میں مطلق ہے پس اس عدم جماع کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا رسزے پر قیاس کرکے، بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری رہے گا اور مقید پر، اور اسی طرح ہم نے کہا کہ کفارۂ ظہار اور کفارۂ یمین میں رقبہ مطلق ہے پس اس پر مؤمن ہونے کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا کفارۂ قتل پر قیاس کرکے،
صفحہ 62 – 72 جلد 01 اجودُ الحواشی اردو شرح اُصُولُ الشاشی – محمد اصغر علی – مكتبہ اسلامیہ عربیہ مدنی ٹاون فيصل آباد
یہ فصل مطلق اور مقید کے بیان میں ہے ہمارے اصحاب (احناف) اس جانب گئے ہیں (یعنی ان کا مسلک ہے) کہ کتاب اللہ کا مبلق جب اس کے اطلاق پر عمل ممکن ہو تو اس پر (کتاب اللہ کے مطلق پر) خبر واحد اور قیاس کے ذریعہ زیادتی جائز نہ ہوگی، اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے قول فاغسلوا وجوهكم میں ہے پس مامور بہ مطلق غسل ہے (یعنی بلا لحاظ قیودات نیت ترتیب وغیرہ) لہٰذا اس پر خبر واحد کے ذریعہ نیت اور ترتیب اور موالات اور تسمیہ کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا لیکن خبر واحد کے ساتھ اس طور پر عمل کیا جائے گا جس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو چنانچہ کہا جائے گا کہ مطلق غسل کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے فرض ہے اور نیت حدیث کے حکم کی وجہ سے سنت ہے۔
اور اسی طرح (یعنی ما قبل کی آیت میں غسل کو مطلق باقی رکھنے کی مثال کی طرح یہ مثال بھی ہے) اللہ تعالیٰ کے قول الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما الخ میں ہم نے کہا کہ کتاب اللہ (کی اس آیت) نے سو کوڑوے مارنے کو زنا کی حد قرار دیا ہے لہٰذا اس پر بطور ضد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول البكر بالبكر جلد مائة وتغريب عام کی وجہ سے تغریب یعنی ایک سال کے لئے شہر بدر کرنے کی زیادتی نہیں کی جائے گی، بلکہ خبر مذکور پر اس طور سے عمل کیا جائے گا کہ جس کتاب کا حکم متغیر نہ ہو پس سو کوڑے مارنا کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے حدّ شرعی ہوگا اور ایک سال کی جلا وطنی (شہر بدر کرنا) حدیث کی وجہ سے سیاسۃً ومصلحۃً مشروع ہو گی۔
اور اسی طرح (یعنی ماقبل میں بیان کردہ آیت قرآنی الزانية والزاني الخ میں مأة جلدة کے مطلق ہونے کی طرح) اللہ تعالیٰ کا قول وليطوفوا بالبيت العتيق طواف کعبہ کے مسمیٰ ومفہوم میں مطلق ہے لہٰذا اس پر حدیث کی وجہ سے وضو کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ خبر پر اس طور عمل کیا جائے گا جس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو، بایں طور کہ کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے مطلق طواف فرض ہوگا اور حدیث کے حکم کہ وجہ سے وضو واجب ہوگا چنانچہ واجب وضو کے ترک سے لازم آنے والے نقصان کی تلافی دم دیکر کی جائے گی۔
اور اسی طرح (یعنی اللہ کے قول وليطوفوا الخ میں مطلق طواف کے حکم کی طرح) اللہ تعالیٰ کا قول واركعوا مع الراكعين رکوع کے مسمیٰ اور مفہوم میں مطلق ہے لہٰذا حدیث کی وجہ سے اس پر تعدیل ارکان کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا لیکن ھدیث پر اس طور سے عمل کیا جائے گا جس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو چنانچہ مطلق رکوع کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے فرض ہوگا اور تعدیل ارکان حدیث کے حکم کی وجہ سے واجب ہو گی۔
اور اسی اصل (کہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری رہتا ہے) کی بناء پر ہم احناف نے کہا کہ وضو جائز ہے زعفران کے پانی سے اور ہر اس پانی سے جس میں کوئی پاک چیز مل گئی ہو اور اس (شئ طاہر) نے پانی کے اوصاف (ثلثہ) میں سے کسی ایک وصف کو بھی بدل دیا ہو، اس لئے کہ تیمّم کی طرف لوٹنے کی شرط مطلق پانی کا نہ ہونا ہے اور یہ یعنی ماء زعفران اور پاک چیز ملا ہوا پانی ماء مطلق رہ کر ہی باقی ہیں (یعنی زعفران اور پاک چیز ملا ہوا پانی ماء مطلق ہیں) کیونکہ اضافت کی قید نے ماء الزعفران وغیرہ سے پانی کے نام کو ختم نہیں کیا بلکہ اس کو واضح اور چابت کردیا ہے پس وہ (ماء الزعفران وغیرہ) ماء مطلق ہی کے حکم کے تحت داخل رہے گا، اور پانی کے منزل من السماء کی صفت پر باقی رہنے کی شرط اس مطلق کے لئے قید ہے اور اسی (تقریر مذکور) سے زعفران اور صابون اور اُشنان اور اس جیسے دیگر پانیوں کے حکم کی تخریج کی جائے گی وخرج عن الخ اور اس حکم سے یعنی ماء زعفران وغیرہ میں اضافت کے باوجود "ماء" کے مقید نہ ہونے بلکہ مطلق رہنے کے حکم سے اللہ تعالیٰ کے قول ولكن يريد ليطهركم کی وجہ سے ناپاک پانی نکل گیا (کیونکہ وضو کا مقصد تحصیل طہارت ہے) اور نجس پانی پاکی کا فائدہ نہیں دیتا اور اس اشارہ سے یعنی ولكن يريد ليطهركم میں غور وفکر کرنے سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ وضو واجب ہونے کے لئے (پہلے سے) حدث (یعنی بے وضو ہونا) شرط ہے کیونکہ بغیر وجود حدث کے پاکی حاصل کرنا محال ہے (اور اگر وضو ہوتے ہوئے پھر وضو کیا تو وہ تحصیل طہارت کے لئے نہ ہوگا بلکہ تحصیل فضیلت کے لئے ہو گا)
حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ظہار کرنے والا جب کھانا کھلانے کے دوران اپنی بیوی سے جماع کرلے تو وہ از سر نو (یعنی پھر سے تمام مساکین کو) کھانا نہیں کھلائے گا ( بلکہ جماع کت بعد ساٹھ کی مقدار کو پورا ہونے میں جتنے مساکین باقی رہے ہیں ان کو کھلائے گا) کیونکہ کھانا کھلانے کے بارے میں (نہ کہ کفارہ بالصوم کے بارے میں) کتاب اللہ (فاطعام ستين مسكيناً) مطلق ہے (یہ قید نہیں کہ تمام مساکین کو کھانا کھلائے بغیر جماع کیا جاسکتا) لہٰذا اس پر (یعنی إطعام طعام پر) روزہ کے اوپر قیاس کرکے جماع نہ کرنے کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری رہے گا اور مقید اپنی تقیید پر، اسی طرح (ما قبل والے مسئلہ میں إطعام طعام کے مطلق ہونے کی طرح) ہم نے کہا کہ ظہار اور یمین کے کفارہ میں رقبۃ (گلام آزاد کرنا) مطلق ہے،لہٰذا اس پر ایمان کی شرط کو (یعنی غلام کے ساتھ مومن ہونے کی شرط کو) کفارۂ قتل پر قیاس کرکے زیادہ نہیں کیا جائے گا۔
صفحہ 66 – 80 جلد 01 نُجُومُ الحواشی اردو شرح اُصُولُ الشاشی – حسين احمدہردواری – مكتبہ رحمانیہ لاہور
یہ فصل مطلق اور مقید کے بیان میں ہے۔ ہمارے علمائے حنفیہ اس اصل کی طرف گئے ہیں کہ کتاب اللہ کا جو مطلق ہے اس کے اطلاق پر عمل کرنا ممکن ہو تو اس مطلق پر زیادتی کرنا خبر واحد یا قیاس کے ساتھ جائز نہیں ہو گا، اس کی مثال باری تعالیٰ کے فرمان "داغسلوا وجوهكم" میں ہے پس جس چیز کا حکم دیا گیا ہے وہ دھونا ہے مطلق طور پر۔ پس اس دھونے پر زیادہ نہیں کیا جائے گا نیت، ترتیب، موالات اور تسمیہ کی شرط کو خبر واحد کی وجہ سے۔ لیکن خبر واحد پر اس طریقے سے عمل کیا جائے گا کہ اس طریقے سے کتاب اللہ کا حکم تبدیل نہ ہوتا ہو۔ پس کہا جائے گا کہ مطلق دھونا فرض ہے کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور نیت شرط ہے خبر واحد کے حکم کی وجہ سے۔
اور اسی طرح ہم احناف نے کہا باری تعالیٰ کے فرمان الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلدة (کہ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کو سو درّے مارو) میں کہ بے شک کتاب اللہ نے سو درّوں کو زنا کی حد قرار دیا ہے تو اس پر شہر بدری کو بطور حد کے نہیں بڑھایا جائے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ کنوارے مرد کا کنواری عورت کے ساتھ زنا کرنے کی سزا سو درّرے اور ایک سال کی شہر بدری ہے۔ بلکہ عمل کیا جائے گا اس خبر واحد پر ایسے طریقے سے کہ اس طریقے سے کہ اس طریقے سے کتاب اللہ کا حکم تبدیل نہ ہوتا ہو، پس سو درّے مارنا شرعی حد ہو گا کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور شہر سے نکالنا مشروع ہو گا حکومت کی انتظامی مصلحت کے طور پر خبر واحد کے حکم کی وجہ سے۔

اور اسی طرح ہے باری تعالیٰ کا فرمان "وليطوفوا بالبيت العتيق" ( چاہئے کہ وہ طواف کریں پرانے کھر کا یا ماموں گھر کا یا مامون کھر گا) یہ فرمان مطلق ہے بیت اللہ کے طواف کے معنی میں، تو اس مطلق فرمان پر وضو کی شرط کو بڑھایا نہیں جائے گا خبر واحد کیوجہ سے، بلکہ خبر واحد پر اس طریقے سے عمل کیا جائے گا کہ اس طریقے سے کتاب اللہ کا حکم تبدیل نہ ہوتا ہو اس طرح کہ مطلق طواف فرض ہوگا کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور وضو واجب ہوگا خبر واحد کے حکم کی وجہ سے۔ پس واجب وضو کے چھوڑنے سے لازم آنے والے نقصان کو پورا کیا جائے گا قربانی کے ساتھ۔
اور سابقہ مثالوں کی طرح ہے باری تعالیٰ کا فرمان واركعو مع الراكعين (کہ تم رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ) یہ فرمان مطلق ہے رکوع کے معنی میں تو اس پر تعدیل ارکان کی شرط کو بڑھایا نہیں جائے گا خبر واحد کے حکم کی وجہ سے، لیکن خبر واحد پر طریقے سے عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب اللہ کا حکم تبدیل نہ ہوتا ہو، پس مطلق رکوع فرض ہو گا کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور تعدیل ارکان واجب ہوگا خبر واحد کے حکم کی وجہ سے۔
اور مطلق کے اسی اصول کی بنا پر ہم احناف نے کہا کہ جائز ہے وضو کرنا زعفران کے پانی کے ساتھ اور ہر اس پانی کے ساتھ جس کے ساتھ پاک چیز ملی ہو اور پانی کے کسی ایک وصف کو تبدیل کردیا ہو، اس لئے کہ تیمّم کی طرف رجوع کرنے کی شرط مطلق پانی کا نہ ہونا ہے اور زعفران وغیرہ کا یہ پانی مطلق پانی ہو کر باقی رہ گیا ہے اس لئے کہ اضافت کی قید نے اس پانی سے پانی کا نام دور نہیں کیا بلکہ پانی کے نام کو پکا کر دیا ہے، پس زعفران وغیرہ کا یہ پانی داخل ہوگا مطلق پانی کے حکم کے نیچے اور پانی کے منزل من السماء کی صفت پر باقی رہنے کی شرط لگانا اس مطلق پانی کو مقید کرنا ہے۔ اور اس اصول کے ساتھ زعفران، صابون، اشنان اور اس جیسے پانی کا حکم نکالا کائے گا۔
اور نکل گیا اس حکم سے ناپاک پانی باری تعالیٰ کے فرمان "ولكن یريد ليطهركم" (لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں پاک کرنا چاہتے ہیں) کی وجہ سے اور ناپاک پانی پاک کرنے کا فائدہ نہیں دیتا۔ اور آیت کریمہ کے اس اشارے سے معلوم ہوگئی یہ بات کہ وضو ہونا شرط ہے وضو کے واجب ہونے کے لئے اس لئے کہ طہارت کا حاصل کرنا بغیر حدث کے پائے جانے کے محال ہے۔
کہا ابو حنفیہ نے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جائے کہ ظہار کرنے والے آدمی نے جب صحبت کی اپنی بیوی سے مسکینوں کو کھانا کھلانے کے درمیان تو وہ دوبارہ اتنے مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاےت گا، اس لئے کہ کتاب اللہ مطلق ہے مسکینوں کو کھانا کھلانے کے حق میں، تو اس مطلق پر عدم جماع کی شرط کو نہیں بڑھایا جائے گا روزوں پر قیاس کرنے کی وجہ سے، بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری رہے گا اور مقید اپنی قید پر چلتا رہے گا۔
اور اسی طرح ہم احناف نے کہا کہ رقبہ ظہار اور یمین کے کفارے میں مطلق ہے تو اس پر ایمان کی شرط زیادہ نہیں کی جائے گی قتل کے کفارے پر قیاس کرنے کی وجہ سے۔
صفحہ 61 - 74 جلد 01صفوۃ الحواشی شرح اُصُولُ الشاشی – عبد الغفار – مکتبہ جامعہ فریدیہ اسلام آباد
ہمارے اصحاب یعنی علماء حنفیہ کے نزدیک جب کتاب اللہ میں مطلق پایا جائے گا اور اس پر عمل ممکن ہو گا تو اس کو خبر واحد یا قیاس سے مقید کرنا جائز نہیں ہوگا۔
مثلاً خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فاغسلو وجوهكم﴾ یعنی وضو میں اپنے چہروں کو دھو۔ یہاں مامور بہ مطلق غسل ہے۔ پس اس مطلق کو نیت اور ترتیب اور موالات (پے در پے ہونا) اور بسم اللہ پڑھنے سے بوجہ آحاد کے مقید نہیں کریں گے۔ مقید کرنے میں زیادۃ علیٰ کتاب اللہ خبر واحد لازم آتی ہے۔ ہاں حدیث پر عمل کیا جائے گا اس طرح کہ کتاب اللہ کا حکم نہ بدلے۔ پس کہا جائے متعلق غسل بحکم کتاب اللہ فرض ہے اور نیت حدیث کے حکم کے سبب مسنون ہے۔
دوسری مثال۔ فرمایا اللہ کریم نے ﴿ الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منها مائة جلده﴾ " زانیہ عورت اور زانی مرد کو سو درّہ لگاؤ" اس آیت میں حد زنا غیر محصن کے واسطے سو درّہ ہیں۔ پس اس بوجہ حدیث آحاد کے سزا یعنی ایک سال تک جلا وطن کرنے کی سزا بڑھائیں گے۔ وہ حدیث آحاد یہ ہے: البكر بالبكر جلد مائة وتغريب عام جس مرد کا نکاح نہ ہوا ہو وہ عورت باکرہ سے زنا کرے تو دونوں کو سو درّہ اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے۔
بلکہ اس حدیث آحاد پر اس طرح عمل کریں گے کہ کتاب اللہ کا حکم نہ بدلے۔ سو درّہ مطابق حکم کتاب اللہ حد شرعی ہوں گے اور ایک سال کا جلا وطن کردینا موافق حکم حدیث سیاست حاکم شرع کے متعلق ہو گا۔ اگر قاضی شرع مصلحت وقت دیکھے تو سیاسۃ یہ سزا بھی دے۔
تیسری مثال فرمایا اللہ کریم نے ﴿وليطوفوا بالبيت العتيق﴾ چاہیے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کریں۔ یہ آیت مسمی طواف بیت اللہ میں مطلق ہے، لہٰذا بوجہ خبر آحاد کے اس پر وضو کی شرط نہیں بڑھائیں گے بلکہ حدیث پر بھی اس طرح عمل ہو گا کہ کتاب اللہ کا حکم نہ بدلے یعنی مطلق طواف موافق حکم کتاب اللہ فرض ہوگا اور طواف میں وضو کرنا مطابق حدیث آحاد واجب ٹھہرے گا۔ اگر اس واجب یعنی وضو کو بحالت طواف ترک کرے گا تو ایک جانور کے ذبح کرنے سے جبر نقصان ہو جائے گا۔
چوتھی مثال ﴿واركعوا مع الراكعين﴾ رکوع کرو، رکوع کرنے والے کے ہمراہ مسمی رکوع یعنی انحناء صلب میں یہ آیت مطلق ہے لہٰذا اس مطلق کتاب پر بوجہ حدیث آحاد کے نعدیل کی شرط نہیں بڑھائی جائے گی۔ ہاں حدیث پر اس طرح عمل کیا جائے گا کہ کتاب اللہ کے حکم میں تغیر نہ آئے پس مطلق رکوع مطابق حکم کتاب اللہ فرض ہو گا اور تعدیل اطمنان سے جھکنا حسب حکم حدیث واجب ٹھہرے گا چونکہ مطلق کتاب ہمارے نزدیک واجب العمل ہے۔ اسی واسطے ہمارے علماء حنفیہ کے نزدیک زعفران کے پانی اور ہر ایک اس پانی کے ساتھ وضو درست ہے جس میں پاک چیز مل گئی ہو اور اس کے اوصاف میں سے ایک کو بدل دیا ہو کیونکہ تیمّم اس وقت درست ہے کہ مطلق پانی موجود نہ ہو، چنانچہ فرمایا: فان لم تجدوا ماء فتيمموا یعنی اگر مطلق پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمّم کرو اور جو اضافۃ ماء زعفران يا ماء صابن وغیرہ میں پائی جاتی ہے اس سے پانی کا نام اس سے دور نہیں ہوا بلکہ اس اضافۃ سے زیادہ ثبوت اطلاق اسم ماء کا ہوگا۔ ہاں بعض اضافۃ ایسی بھی ہے کہ اس سے اطلاق ماء کا نہیں رہتا جیسے کہتے ہیں ماءُ الورد، گلاب کا پانی۔ یہاں پانی مقید ہو گیا۔ اگر یہ شرط لگائی جائے کہ پانی اسی حالت اور اطلاق پر باقی رہے جیسا کہ آسمان سے اترا تھا، اس شرط لگانے سے مطلق میں قید زیادہ ہوگی جس سے زیادۃ علی کتاب اللہ لازم آئے گی۔ اس قاعدہ مذکورہ کے موافق ماء زعفران، ماء صابن، ماء اشنان کی نسبت حکم دیا گیا گیا کہ ان سے وضو اور غسل درست ہے۔
اگر یہ شبہ پیدا ہو کہ نجس ماء یعنی ناپاک پانی اس تقریر سے مطلق ماء کے ماتحت داخل ہوتا ہے، چاہیے کہ اس سے بھی وضو درست ہو۔ جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ ناپاک پانی آیت کے دوسرے اس جملہ سے خارج ہے: ﴿الكن يريد ليطهركم﴾ لیکن خدا ارادہ کرتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور پاک پانی سے تطہیر یعنی پاکی حاصل نہیں ہوتی لہٰذا اس سے وضو اور غسل درست نہیں ہو گا۔
اس اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وضو کے واجب ہونے کے واسطے وضو کا ٹوٹنا شرط ہے کیونکہ بغیر ٹوٹنے وضو کے طہارت کا حاصل کرنا ناممکن ہے۔
اگر یہ شبہ ہو کہ الوضو علی الوضوء، نور علی نور آیا ہے یعنی وضو ہوتے پھر وضو کرنا موجب زیادہ ثواب و نورانیت ہے پس حدث کا ہونا وضو کے واسطے شرط نہ ہوا۔
وضو ہوتے وضو کرنا واسطے حصول طہارۃ کے نہیں بلکہ واسطے حصول زیادہ فضیلت کے ہے۔
مطلق کے اطلاق پر عمل کرنے کے متعلق امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر مظاہر نے ( یعنی جس شخص نے اپنی زوجہ سے ظہار کیا، یہ کہا کہ تو مجھ پر میری ماں کی پشت یا پیٹ کے برابر ہے) کھانا مساکین کو کھلائنے میں بغیر ساٹھ مسکینوں کے کے پورا ہونے کے، اپنی زوجہ سے جس سے ظہار کیا تھا، جمع کر لیا تو وہ از سر نو سب مسکینوں کو کھانا کھلائے بلکہ جو باقی رہ گئے ان کو کھلائے کیونکہ کتاب اللہ میں کفارۂ ظہار میں جہاں ساٹھ مسکینوں کو کھلانے کا ذکر ہے۔ مطلق ہے اس قید کے ساتھ مقید نہیں کہ زوجہ کو کفارہ پورا ہونے تک ہاتھ نہ لھائے۔ وہ آیت یہ ہے: ﴿فان لم يتطع فابعام ستين مسكينا﴾ اگر روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ ہاں! روزوں کا کفارہ ظہار اس قید کے ساتھ مقید ہے، جیسا کہ فرمایا: فمن لم يجد فصيام شهرين متتابعين من قبل ان يتماسا یعنی جس شخص کو غلام کا آزاد کرنا کفارۂ ظہار میں مشکل ہو وہ اس زوجہ کے پاس جانے سے پہلے پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے۔ سو جو شخص کفارۂ ظہار ساٹھ روزے رکھ کر ادا کنا چاہے وہ تمام رسوزے پورے کرنے سے پہلے اپنی زوجہ کے پاس نہیں جا سکتا۔ اگر جائے گا تو پھر اس سر نو تمام روزے رکنے پڑیں گے تو امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک کفارۂ سوم پر مقید ہے قیاس کرکے کفارۂ اطعام مساکين کو مقید نہیں کریں گے مطلق ، مطلق رہے گا اور مقید مقید۔
اسی طرح کفارۂ قتل میں غلام مسلمان کا آزاد کرنا آیا ہے اور کفارۂ ظہار و كفارۂ يمين میں مطلق آیا ہے خواہ غلام مسلمان ہو یا کافر۔ تو جہاں مطلق ہے وہاں مطلق پر عمل کیا جائے گا اور جہاں مقید ہے وہاں مقید رہے گا مطلق کو مقید پر قیاس نہیں کریں گے۔
صفحہ21 – 25 جلد 01 اُصُول الشاشی کا مستند اردو ترجمہ – محمد مشتاق انبیھٹوی – مکتبۃُ العلم لاہور

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو رد کرنے کے لئے گڑھے گئے فقہ حنفی کے اس اصول کو الحسامي في الاصول الفقه میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

﴿ الزيادة علی النص ﴾
والزيادة علی النص نسخ عندنا خلافاً للشافعي رحمه الله؛ لأن بالزيادة يصير أصل المشروع بعض الحق، وما للبعض حكم الوجود فيما يجب حقاً الله؛ لأنه لا يقبل الوصف بالتجزّي، حتی أن المظاهر إذا مرض بعد ما صام شهراً فأنطعم ثلاثين مسكيناً لم يجزه، فكانت الزيادة نسخاً من حيث المعنی، ولهذا لم يجعل علماؤنا رحمه الله قراءة الفاتحة ركناً في الصلاة بخبر الواحد؛ لأنه زيادة علی النص، وأبو زيادة النفي حداً في زنا البكر، وزيادة الطهارة شرطاً في طواف الزيارة، وزيادة صفة الإيمان في رقبة الكفارة بخبر الواحد والقياس.

اور نص پر زیادتی ہمارے نزدیک نسخ ہے اختلاف ہے شافعی رحمہ اللہ کا اس لئے کہ زیادتی کی وجہ سے اصل مشروع (مزید علیہ) حق کا بعض ہوگا اور بعض کو وجود کا حکم نہیں ہے اس حکم میں جو واجب ہو اللہ تعالیٰ کا حق بنکر اس لئے کہ اللہ کا حق تجزی کے وصف کو قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ مظاہر جب بیمار ہوگیا تیس روزوں کے بعد پس اس نے تیس مسکینوں کو کھانا کھلادیا تو یہ اس کو کفایت نہیں کرے گا تو یہ ہوگی زیادتی نسخ معنی کے اعتبار سے۔ اور اسی وجہ سے ہمارے علماء نے فاتحہ کی قراءت جو نماز میں رکن قرار دیا نہیں دیا خبر واحد سے اس لئے کہ یہ نص پر زیادتی ہے۔ اور انکار کیا ہے (ہمارے علماء نے) جلا وطنی کی زیادتی کا حد بنا کر بکر کی زنا میں اور طہارت کی زیادتی کا طواف زیارت میں شرط بنا کر اور صفت ایمان کی زیادتی کا کفارہ کے غلام میں خبر واحد یا قیاس سے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 90 – 91 الحسامي في اصول الفقه - طبعه المطبع الحنفي سنه 1851
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 174 – 176 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مكتبة البشری كراتشي
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 185 – 187 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مير محمد كتب خانه كراتشي
ملاحظہ فرمائیں:صفحہ 150 – 152 درس حسامی شرح اردو منتخب الحسامی – محمد يوسف تاؤلی – ایچ ایم سعید کمپنی کراچی

محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي نے بڑی صراحت کے ساتھ واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ حنفیہ نے احادیث صحیحہ کو رد کردیا ہے:
وقد رد الحنفية بذلك أخبار صحيحة لما اقتضت زيادة علی القرآن والزيادة نسخ ولا يجوز نسخ القرآن بخبر الواحد فردوا أحاديث تعيين الفاتحة في الصلاة وما ررد في الشاهد واليمين وما ورد في اشتراط النية في الوضوء
اور حنفیہ نے اس وجہ سے ان احادیث صحیحہ کو رد کر دیا ہے جو قرآن پر زیادہ تھی (یعنی قرآن کے حکم پر اضافہ تھیں) اور یہ زیادتی نسخ ہے، اور خبر واحد سے نسخ جائز نہیں، لہٰذا نماز میں سورۃ فارتحہ کے تعین کی حدیث، اور ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے کی حدیث، اور وضو میں نیت کے شرط ہونے کی حدیث کو رد کر دیا۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 137 تسهيل الوصول إلى علم الأصول - محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي - مطبعة مصطفي البابي الحلبي و اولاده بمصر

اس میں مطلق قرآن سے قراءت کا آقا علیہ الصلوۃ والتسلیم نے ذکر فرمایا سورۃ فاتحہ کو لازم قرار نہیں دیا اور یہی فرمانِ باری تعلیٰ جل شانہ ہے جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ـ
جو اعمال آپ نے اس حدیث سے تسلیم کئے ہیں کہ جنہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لازم قرار دیا، اسے آپ نے کن اپنے لئے لازم سمجھا؟ ابھی پوری تفصیل گزری ہے!
ایک بات ذہن میں رکھیں! یہاں فاتحہ کے وجوب کا ذکر نہیں، اور عدم ذکر سے عدم وجود لازم نہیں آتا! فاتحہ کے وجوب کی دلیل
﴿لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ﴾''جونماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں (ہوتی)'' اور اس کے علاوہ دیگر مفصل صحیح ثابت احادیث ہیں جن میں سے ایک یہ بھی پیش کی تھی:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِيهَا الْقِرَاءَةُ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ ، فَقَالَ : " إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ " , قَالَ : قُلْنَا : أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا " .
عبادہ بن ثامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی اقتداء میں صبح کی نماز یعنی نماز فجر میں تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بھاری ہو گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ ہماری جانب کیا اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو جبکہ وہ (امام) جہراً قراءت کرتا ہے، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہاں ! اللہ کی قسم ہم ایسا کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو (یعنی امام کے پیچھے قراءت نہ کیا کرو) سوائے ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے، کیونکہ نہیں ہے اس کی نماز جو نماز میں اسے (سورہ فاتحہ ) نہیں قراءت نہیں کرتا۔
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ

حنفیوں کی ایک اور کج بحثی دیکھئے! کہ یہ حدیث منفرد کے لئے ہے، اور یہاں سے استدلال کرتے ہوئے بھٹی صاحب بھی امام ، مقتدی ، اور منفرد پر فاتحہ کے فرض و واجب و لازم نہ ہونے پر فرما رہے ہیں! اور جب یہ حدیث پیش کی جاتی ہے:
﴿لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ﴾''جونماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں (ہوتی)''

تو حنفی حضرات ہیں کہ یہ مقتدی کے لئے نہیں، اور مقتدی کے لئے استثناء ثابت کرنے کی لا حاصل سعی کرتے ہیں، جیسا کہ بھٹی صاحب نے بھی یہی کام کی، بھٹی صاحب کا کلام دیکھیں:
لہٰذا لازم آئے گا کہ اس سے مقتدی کو استثنا دیا جائے اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ ارشاد فرما کر مقتدی کو استثنا دے دیا؛
یہ امام اور منفرد کے لئے ہے، اور مقتدی کے لئے ایک ضعیف روایت پیش کرتے ہیں، جس کی تفصیل اوپر گزری!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس حدیث میں جو عمل اور حکم موجود نہیں، وہ نماز کاحصہ نہیں
صحیح بات یہ ہے کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی توہین کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کی فہم و فراست سلب کر لی ہے۔
محترم یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ مذکورہ امور کے بغیر نماز نہیں ہوگی یہ نہیں کہ بقیہ امور جن کا ذکر نہیں وہ کرنے منع ہوگئے۔

ساری نماز کیلئے یہی ایک حدیث ہے
آپ لوگ تو ایک حدیث جس میں کوئی لفظ آپ لوگوں کے مطلب کا ہو وہ لکھ دیتے ہیں اور بقیہ سے چشم پوشی کر لیتے ہو جن میں اسی لفظ کی تشریع و تفصیل ہوتی ہے۔

اس حدیث میں ایک حکم ایسا بھی موجود ہے جس سے مقلدین زمانہ کو سخت ’’ چڑ ‘‘ ہے اور وہ اس کا مذاق اڑایا کرتے ہیں
محترم کسی عامی کا عمل مذہب نہیں بن جایا کرتا۔ مثلاً اگر کوئی اہلِ حدیث اللہ نہ کرے چوری کر لے تو دوسرے مسالک والے اہلِ حدیث پر یہ کہہ کر پھبتیاں کسنا شروع ہوجائیں کہ دیکھو اہلِ حدیث کس اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیا اہلِ حدیث کے کسی عالم نے یہ کہا کہ اہلِ حدیث چوری کرسکتا ہے؟ اسی طرح کسی حنفی عالم نے نہیں کہا کہ نماز میں تعجیل کرو۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
اس حدیث میں جو عمل اور حکم موجود نہیں، وہ نماز کاحصہ نہیں
صحیح بات یہ ہے کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی توہین کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کی فہم و فراست سلب کر لی ہے۔
محترم یہ حدیث ثابت کرتی ہے کہ مذکورہ امور کے بغیر نماز نہیں ہوگی یہ نہیں کہ بقیہ امور جن کا ذکر نہیں وہ کرنے منع ہوگئے۔

ساری نماز کیلئے یہی ایک حدیث ہے
آپ لوگ تو ایک حدیث جس میں کوئی لفظ آپ لوگوں کے مطلب کا ہو وہ لکھ دیتے ہیں اور بقیہ سے چشم پوشی کر لیتے ہو جن میں اسی لفظ کی تشریع و تفصیل ہوتی ہے۔

اس حدیث میں ایک حکم ایسا بھی موجود ہے جس سے مقلدین زمانہ کو سخت ’’ چڑ ‘‘ ہے اور وہ اس کا مذاق اڑایا کرتے ہیں
تعجیل سے ۔ممانعت جو اس حدیث میں ہے اس کا حکم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا صاحبین کسی سے ثابت نہیں۔
باقی رہا عوام کا مسئلہ تو کسی کی غلط روش سے علماء پر اعتراض صحیح نہیں۔ دیکھیں اگر کوئی اہلِ حدیث چوری کرتا ہؤا پکڑا جائے تو یہ نہیں کہیں گے کہ اہلِ حدیث قرآن مجید کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اسحاق سلفی بھائی کی بات آپ کو واقعی سمجھ نہیں آئی! جیسا کہ ہم نے پہلے پی عرض کیا تھا:
اختصار کے ساتھ اسحاق سلفی بھائی نے عرض کیا ہے، لیکن آپ کو شاید یہ سمجھ نہ آیا ہوگا!
گھر لوٹ کر آج شام میں مفصل جواب تحریر کرتا ہوں، ان شاء اللہ ! وہ ان وساوس شیطانی کا کافی و شافی تریاک ثابت ہو گا! آپ بھی اللہ سے دعا کریں!
اور جو ہم نے اسحاق سلفی بھائی کی بات کو مفصل بیان کیا ہے، اسے بغور پڑھیں!
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
عبادہ بن صامت کی یہ حدیث﴿لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ﴾''جونماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں (ہوتی)''متفق علیہ ہے یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں ہے، اور یہ حدیث کی صحت میں بہت اعلی ٰ مقام رکھتا ہے! اس کے متن پر کسی محقق عالم کی جرح تو نہیں! ہاں مقلدین حنفیہ کی ہفوات ضرور ہیں، لیکن علمائے تحقیق کی نظر میں ان مقلدین حنفیہ اور ان کی ہفوات کی کوئی وقعت نہیں!
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ علیہ
محترم میں نے عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث کا ذکر نہیں کیا تھا۔ آپ اشارۃ بات کو نہیں سمجھ پاتے خیر کوئی بات نہیں۔
حدیث﴿لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ﴾ سے مقتدی کے سورہ فاتحہ پڑھنے کی دلیل کیوں کر لیتے ہو ذرا وضاحت فرما دیں؟ اور جنابِ عالی سے مؤدبانہ التماس ہے کہ جواب مختصر اور ٹو دی پوائنٹ لکھیں۔ صفحات کے صفحات لکھ دینے سے جھوٹی بات سچی نہیں ہوجایا کرتی۔
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
صفحات کے صفحات لکھ دینے سے جھوٹی بات سچی نہیں ہوجایا کرتی۔
﴿وهو أسم المظم والمعنی جميعاً﴾ تمهيد لتقسيمه بعد بيان تعريفه، يعني أن القرآن أسم للنظم ولامعني جميعاً، لا أنه أسم للنظم فقط كما ينبئ عنه تعفيفه بالإنزال والكتابة والنقل، ولا أسم للمعني فقط يتوهم من تجويز أبي حنيفة رحمه الله للقراءة الفارسية في الصلاة مع القدرة علی النظم العربي، وذلك لأن الأوصاف المذكورة جارية في المعني تقديراً أو جواز الصلاة بالفارسية إنما هو لعذر حكمي، وهو أن حالة الصلاة حالة المناجاة مع الله تعالیٰ والنظم العربي معجز بليغ فلوله لا يقدر عليه، أو لأنه إن أشتغل بالعربي ينتقل الذهن منه إلی حس البلاغة والبراعة، ويلتذ بالأسجاع والفواصل، ولم يخلص الحضور مع الله تعالیٰ، بل يكون هذا النظم حجاباً بينه وبين الله تعالیٰ، وكان أبو حنيفة رحمه الله تعالیٰ مستغرقاً في بحر التوحيد والمشاهدة لا يلتف إلا إلی الذات، فلا طعن عليه في أنه كيف يجوّز القراءة بالفارسي مع القدرة علی العربي المنزل؟ وأما فيما سوی الصلاة فهو يراعي جانبها جمياً
اور قرآن نظم اور معنی کے مجموعہ کا نام ہے (یہ) قرآن کی تعریف کے بیان کے بعد اس تقسیم کی تمہید ہے، یعنی قرآن نظم اور معنی کا نام ہے نہ تو فقط نظم کا نام ہے جیسا کہ انزال، کتابت اور نقل کے ذریعہ اس کی تعریف کرنا اس کی خبر دیتا ہے اور نہ صرف معنی کا نام ہے جیسا کہ حضرت امام ابو حنیفہ ؒ کے نظم عربی پر قدرت کے باوجود نماز میں فارسی زبان میں قراءت کرنے کو جائز قرار دینے سے وہم ہوتا ہے اور یہ اس لئے کہ اوصاف مذکورہ تقدیراًمعنی میں بھی جاری ہیں۔ اور فارسی زبان میں قراءت کے ساتھ نماز کا جائز ہونا ایک حکمی عذر کی وجہ سے ہے اور وہ عذر یہ ہے کہ نماز کی حالت اللہ تعالیٰ کے ساتھ راز و نیاز کی حالت ہے اور ''عربی عبارت'' انتہائی معجز اور بلیغ ہوتی ہے اس لئے ممکن ہے کہ ایک فارسی آدمی اس پر قادر نہ ہو سکے، یا اس لئے کہ اگر نمازی عربی الفاظ کے ساتھ مشغول ہو گیا تو اس کا ذہن اس سے عمدہ بلاغت اور براعت کی طرف منتقل ہو جائے گا، اور وہ مسبح اور مقفیٰ عبارتوں کے ساتھ لطف اندوز ہونے لگے گا، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کا حضور خالص نہ رہ سکے گا۔ بلکہ یہ عربی عبارت اُس نمازی اور اللہ تعالیٰ کے درمیان حجاب بن کر ظاہر ہوگی۔ اور امام اعظم ؒ چونکہ توحید اور مشاہدہ کے سمندر میں غرق تھے۔ اس لئے بجز ذاتِ باری کے اور کسی طرف التفات نہیں فرماتے تھے۔ پس ان پر یہ طعن نہیں ہو سکتا کہ وہ عربی زبان جو منزل من اللہ ہے اس پر قدرت رکھنے کے باوجود فارسی زبان میں قراءت قرآن کس طرح جائز دیتے ہیں، اور نماز کے علاوہ دوسری حالتوں میں امام صاحب نظم اور معنی دونوں کی رعایت کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 19 – 21 جلد 01 كشف الأسرار شرح المصنف على المنار مع شرح نور الأنوار على المنار - حافظ الدين النسفي- ملاجيون - دار الكتب العلمية
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 61 – 62 جلد 01 قُوت الاخیار اردو شرح نور الانوار – جمیل احمد سکروڈوی – قدیمی کتب خانہ، کراچی

الْفَصْل الثَّانِي فصل فِي الْمُطلق والمقيد
بحث الْمُطلق إِذا أمكن الْعَمَل بِهِ لَا يجوز الزِّيَادَة عَلَيْهِ
ذهب أَصْحَابنَا إِلَى أَن الْمُطلق من كتاب الله تَعَالَى إِذا أمكن الْعَمَل بِإِطْلَاقِهِ فَالزِّيَادَة عَلَيْهِ بِخَبَر الْوَاحِد وَالْقِيَاس لَا يجوز مِثَاله فِي قَوْله تَعَالَى {فَاغْسِلُوا وُجُوهكُم} فالمأمور بِهِ هُوَ الْغسْل على الْإِطْلَاق فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شَرط النِّيَّة وَالتَّرْتِيب والموالاة وَالتَّسْمِيَة بالْخبر وَلَكِن يعْمل بالْخبر على وَجه لَا يتَغَيَّر بِهِ حكم الْكتاب فَيُقَال الْغسْل الْمُطلق فرض بِحكم الْكتاب وَالنِّيَّة سنة بِحكم الْخَبَر
وَكَذَلِكَ قُلْنَا فِي قَوْله تَعَالَى {الزَّانِيَة وَالزَّانِي فاجلدوا كل وَاحِد مِنْهُمَا مائَة جلدَة} إِن الْكتاب جعل جلد الْمِائَة حدا للزِّنَا فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ التَّغْرِيب حدا لقَوْله عَلَيْهِ السَّلَام
(الْبكر بالبكر جلد مائَة وتغريب عَام)
بل يعْمل بالْخبر على وَجه لَا يتَغَيَّر بِهِ حكم الْكتاب فَيكون الْجلد حدا شَرْعِيًّا بِحكم الْكتاب والتغريب مَشْرُوعا سياسة بِحكم الْخَبَر
وَكَذَلِكَ قَوْله تَعَالَى {وليطوفوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيق} مُطلق فِي مُسَمّى الطّواف بِالْبَيْتِ فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شَرط الْوضُوء بالْخبر بل يعْمل بِهِ على وَجه لَا يتَغَيَّر بِهِ حكم الْكتاب بِأَن يكون مُطلق الطّواف فرضا بِحكم الْكتاب وَالْوُضُوء وَاجِبا بِحكم الْخَبَر فَيجْبر النُّقْصَان اللَّازِم بترك الْوضُوء الْوَاجِب بِالدَّمِ وَكَذَلِكَ قَوْله تَعَالَى {واركعوا مَعَ الراكعين}
بحث جَوَاز التوضي بِمَاء الزَّعْفَرَان وَأَمْثَاله
مُطلق فِي مُسَمّى الرُّكُوع فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شَرط التَّعْدِيل بِحكم الْخَبَر وَلَكِن يعْمل بالْخبر على وَجه لَا يتَغَيَّر بِهِ حكم الْكتاب فَيكون مُطلق الرُّكُوع فرضا بِحكم الْكتاب وَالتَّعْدِيل وَاجِبا بِحكم الْخَبَر
وعَلى هَذَا قُلْنَا يجوز التوضي بِمَاء الزَّعْفَرَان وَبِكُل مَاء خالطه شَيْء طَاهِر فَغير أحد أَوْصَافه لِأَن شَرط الْمصير إِلَى التَّيَمُّم عدم مُطلق المَاء وَهَذَا قد بَقِي مَاء مُطلقًا فَإِن قيد الْإِضَافَة مَا أَزَال عَنهُ اسْم المَاء بل قَرَّرَهُ فَيدْخل تَحت حكم مُطلق المَاء وَكَانَ شَرط بَقَائِهِ على صفة الْمنزل من السَّمَاء قيدا لهَذَا الْمُطلق وَبِه يخرج حكم مَاء الزَّعْفَرَان والصابون والأشنان وَأَمْثَاله وَخرج عَن هَذِه الْقَضِيَّة المَاء النَّجس بقوله تَعَالَى {وَلَكِن يُرِيد ليطهركم} وَالنَّجس لَا يُفِيد الطَّهَارَة وبهذه الْإِشَارَة علم أَن الْحَدث شَرط لوُجُوب الْوضُوء فَإِن تَحْصِيل الطَّهَارَة بِدُونِ وجود الْحَدث محَال
قَالَ أَبُو حنيفَة رَضِي الله عَنهُ الْمظَاهر إِذا جَامع امْرَأَته فِي خلال الْإِطْعَام لَا يسْتَأْنف الْإِطْعَام لِأَن الْكتاب مُطلق فِي حق الْإِطْعَام فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شَرط عدم الْمَسِيس بِالْقِيَاسِ على الصَّوْم بل الْمُطلق يجْرِي على إِطْلَاقه والمقيد على تَقْيِيده
وَكَذَلِكَ قُلْنَا الرَّقَبَة فِي كَفَّارَة الظِّهَار وَالْيَمِين مُطلقَة فَلَا يُزَاد عَلَيْهِ شلاط الْإِيمَان بِالْقِيَاسِ على كَفَّارَة الْقَتْل

ملاحظہ فرمائیں:صفحه 22 – 26 جلد 01 أصول الشاشي وبهامشه عمدة الحواشي - دار الكتب العلمية بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 20 – 26 جلد 01 أصول الشاشي وبهامشه أحسن الحواشي – مكتبة البشری كراتشي
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 28 – 33 جلد 01 أصول الشاشي تحقيق محمد أكرم ندوي – دار الغرب الإسلامي بيروت
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 09 – 12 جلد 01 أصول الشاشي وبهامشه أحسن الحواشي – قديمي كتب خانة كراتشي

(یہ) فصل مطلق اور مقید (کے بیان) میں ہے، ہمارے علماء احناف کا مذہب یہ ہے کہ مطلق کتاب اللہ جب اس کے اطلاق پر عمل ممکن ہو تو اس پر خبر واحد اور قیاس کے ذریعے زیادتی کرنا جائز نہیں ہوگا، اس کی مثال باری تعالیٰ کے قول "فاغسلوا وجوهكم" میں ہے پس مامور بہ مطلق غسل ہے لہٰذا اس پر خبر کے ذریعہ نيت، ترتیب، موالات تسمیہ کے شرط ہونے کے زیادتی نہیں کی جائے گی لیکن خبر پر اس طور عمل کیا جائے گا کہ اس سے حکم کتاب اللہ متغیر نہ ہو چنانچہ کہا جائے گا کہ مطلق غسل حکم کتاب کی وجہ سے فرض ہے اور نیت حکم خبر کی وجہ سے سنت ہے۔
اور اسی طرح ہم نے کہا باری تعالیٰ کے قول "الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلدة" میں کتاب اللہ نے سو کوڑوں کو زنا کی حد قرار دیا ہے پس اس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول " البكر بالبكر جلد مائة وتغريب عام" کی وجہ سے ایک سال کی جلا وطنی کو حد بنا کر زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ خبر پر اس طور عمل کیا جائے گا کہ اس سے حکم کتاب متغیر نہ ہو سکے، پس کوڑے مارنا حکم کتاب کی وجہ سے حد شرعی ہو گا اور حکم خبر کی وجہ سے ایک سال کے لئے جلا وطن کرنا انتظامی مصلحت کی وجہ سے مشروع ہو گا۔
اور اسی طرح باری تعالیٰ کا قول " وليطوفوا بالبيت العتيق" بيت اللہ کے طواف کے حکم میں مطلق ہے لہٰذا اس پر خبر کے ذریعہ وضو کے شرط ہونے کو زیادہ نہیں یا جائے گا بلکہ خبر پر ایسے طریقے سے عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب کا حکم متغیر نہ ہو اس طور پر کہ حکم کتاب کی وجہ سے مطلق طواف فرض ہو اور حکم خبر کی وجہ سے وضو واجب ہو پس وہ نقصان جو وضو واجب کے ترک سے لازم آیا ہے اس کی تلافی دم سے کی جائے گی۔
اور اسی طرح باری تعالیٰ کا قول "وارکعو مع الراکعين" رکوع کے مفہوم میں مطلق ہے لہٰذا اس پر حکم خبر کی وجہ سے تعدیل کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا لیکن خبر پر اس طور پر عمل کیا جائے گا کہ اس سے حکم کتاب متغیر نہ ہو چنانچہ حکم کتاب کی وجہ سے مطلق رکوع فرض ہو گا اور حکم خبر کی وجہ سے تعدیل واجب ہو گی
اور اسی بناء پر ہم نے کہا کہ وضو جائز ہے زعفران کے پانی سے اور ہر اس پانی سے جس میں کوئی پاک چیز ملی ہو پھر اس کے اوصاف میں کسی ایک وصف کو بدل دیا ہو اس لئے کہ تیمّم کی طرف رجوع کرنے کی شرط مطلق ماء کا معدوم ہونا ہے اور زعفران وغیرہ کا پانی ماء مطلق ہو کر باقی ہے کیونکہ قید اضافت نے ماء زعفران سے ماء کا نام زائل نہیں کیا ہے بلکہ اس کو ثابت کیا ہے پس زعفران وغیرہ کا پانی مطلق ماء کے تحت داخل ہو جائے گا اور اس کے اس صفت پر باقی رہنے کی شرط جس پر وہ آسمان سے اترا ہے اس مطلق جے لئے قید ہے اور اسی سے زعفران، صابن اور اشنان وغیرہ کے پانی کے حکم کی تخریج کی جائے گی اور حکم سے باری تعالیٰ کے قول ولكن يريد ليطهركم کی وجہ سے نا پاک پانی نکل گیا ہے کیونکہ ناپاک پاکی کا فائدہ نہیں دیتا اور ليطهركم کے اشارہ سے معلوم ہو گیا کہ وضو واجب ہونے کے لئے حدث (بے وضو ہونا) شرط ہے کیونکہ بغیر وجود حدث کے طہارت حاصل کرنا محال ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ظہار کرنے والا جب کھانا کھلانے کے درمیان اپنی بیوی سے جماع کرلے تو کھانا کھلانے کا اعداہ نہیں کیا جائے گا اس کہ کتاب اطعام کے حق میں مطلق ہے لہٰذا اس پر عدم جماع کی شرط کو روزے پر قیاس کے زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہو گا اور مقید اپنی تقیس پر۔
اسی طرح ہم نے کہا کہ کفارۂ ظہار اور کفارۂ یمین میں رقبہ مطلق ہے لہٰذا کفارۂ قتل پر قیاس کرکے اس پر شرط ایمان کو زیادہ نہیں کیا جائے گا۔
ملاحضہ فرمائیں: صفحہ 47 – 60 جلد 01 اجمل الحواشی علی اُصُولُ الشاشی – جميل احمد سكروڈهوی – مکتبہ رحمانیہ
صفحہ 51 – 53 جلد 01 اجمل الحواشی علی اُصُولُ الشاشی – جميل احمد سكروڈهوی – دار الاشاعت کراچی
فصل ہے مطلق اور مقید کے بیان میں ہمارے علماء احناف اس طرف گئے ہیں کہ قرآن کے لفظ مطلق کے اطلاق کے ساتھ جب عمل ممکن ہو تو خبر واحد اور قیاس کے ذریعہ اس پر زیادتی کرنا جائز نہیں ہوگا اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے قول میں "فاغسلوا وجوهكم" ہے پس مامور بہ مطلق غسل ہے لہٰذا اس پر حدیث کے ذریعہ نیت ترتیب، موالات اور تسمیہ کی شرط ہونے کی زیادتی نہیں کی جائے گی لیکن حدیث پر اس طریقہ سے عمل کیا جائے گا اس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو پس کہا جائے گا کہ مطلق وضو کے اعضاء کا دھونا فرض ہے کتاب اللہ کا حکم ہونے کی وجہ سے اور نیت سنت ہے حدیث کا حکم ہونے کی وجہ سے،
اور اسی طرح ہم نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے قول " الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلده" میں کتاب اللہ نے سو کوڑے مارنے کو حد زنا قرار دیا ہے پس اس پر ایک سال کی جلا وطنی کو حد بنا کر زیادتی نہیں کی جائے گی حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے "البكر بالبكر جلد مائة وتغريب عام" بلکہ حدیث پر اس طرح عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو پس کوڑے مارنا شرعی حد ہو گی کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور ایک سال کیلئے جلا وطن کر دینا سیاستاً مشروع ہو گا حدیث کے حکم کی وجہ سے۔
اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے قول " وليطوفوا بالبيت العتيق" مطلق ہے بیت اللہ کے طواف کے حکم میں، لہٰذا اس پر حدیث کے ذریعہ وضو کی شرط ہونے کو زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ حدیث پر ایسے طریقہ سے عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب اللہ کے حکم مين کوئی تغیر پیدا نہ ہو، اس طور پر کہ مطلق طواف فرض ہو گا کتاب اللہ کی وجہ سے ، اور وضو واجب ہو گا حدیث کے حکم کی وجہ سے ، پس جو وضو واجب کے ترک کی وجہ سے نقصان لازم آئے اس کی تلافی دم سے کی جائے گی،
اور اسی طرح اللہ تعالی کا قول "واركعوا مع الركعين" رکوع کے مفہوم میں مطلق ہے پس اس پر حدیث کے حکم کی وجہ سے تعدیل ارکان کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا لیکن حدیث کے ساتھ اس طریقہ سے عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو پس مطلق رکوع فرض ہو گا کتاب اللہ کی وجہ سے، اور تعدیل ارکان واجب ہوگا حدیث کے حکم کی وجہ سے،
اور اسی بنا پر (مطلق کے ساتھ قطعاً عمل واجب ہونے کی بنا پر ) ہم نے کہا کہ وضو جائز ہے زعفران کے پانی کے ساتھ اور ہر اس پانی سے کہ جس میں کوئی پاک چیز ملی ہو پھر اس کے اوصاف مین کسی کو بدل دیا ہو اس کئے کہ تیمّم کی طرف رجوع کرنے کی شرط مطلق پانی کا نہ ملنا ہے اور زعفران و وغیرہ کا پانی ماء مطلق پر باقی ہے کیونکہ اضافت کی قید نے پانی کے نام کو اس سے زائل نہیں کیا بلکہ اس کو ثابت کیا ہے پس ماء زعفران وغیرہ مطلق ماء کے حکم تحت داخل ہو جائے گا،
اور اس صفت پر باقی رہنے کی شرط جس صفت پر آسمان سے اترا تھا قید ہو گئ اس مطلق کیلئے، اور اسی سے زعفران، صابن اور اشنان وغیرہ کے پانی کے حکم کی تخریج کی جائے گی اور اس حکم سے اللہ تعالیٰ کے قول " ولكن يريد ليطهركم" کی وجہ سے ناپاک پانی نکل جائے گا کیونکہ نجس طہارت کا فائدہ نہیں دیتا،
اور" ليطهركم " کے اشارہ سے معلوم ہوا کہ بے وضو ہونا شرط ہے وضو کے واجب ہونے کیلئے کیونکہ بغیر وجوس حدث کے طہارت حاصل کرنا محال ہے۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ظہار کرنے والا جب کھانا کھلانے درمیان اپنی بیوی سے جماع کرلے تو کھانا کھلانے کا اعادہ نہیں کریگا اس لئے قرآن پاک کھانا کھلانے کے حق میں مطلق ہے پس اس عدم جماع کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا رسزے پر قیاس کرکے، بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری رہے گا اور مقید پر، اور اسی طرح ہم نے کہا کہ کفارۂ ظہار اور کفارۂ یمین میں رقبہ مطلق ہے پس اس پر مؤمن ہونے کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا کفارۂ قتل پر قیاس کرکے،
صفحہ 62 – 72 جلد 01 اجودُ الحواشی اردو شرح اُصُولُ الشاشی – محمد اصغر علی – مكتبہ اسلامیہ عربیہ مدنی ٹاون فيصل آباد
یہ فصل مطلق اور مقید کے بیان میں ہے ہمارے اصحاب (احناف) اس جانب گئے ہیں (یعنی ان کا مسلک ہے) کہ کتاب اللہ کا مبلق جب اس کے اطلاق پر عمل ممکن ہو تو اس پر (کتاب اللہ کے مطلق پر) خبر واحد اور قیاس کے ذریعہ زیادتی جائز نہ ہوگی، اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے قول فاغسلوا وجوهكم میں ہے پس مامور بہ مطلق غسل ہے (یعنی بلا لحاظ قیودات نیت ترتیب وغیرہ) لہٰذا اس پر خبر واحد کے ذریعہ نیت اور ترتیب اور موالات اور تسمیہ کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا لیکن خبر واحد کے ساتھ اس طور پر عمل کیا جائے گا جس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو چنانچہ کہا جائے گا کہ مطلق غسل کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے فرض ہے اور نیت حدیث کے حکم کی وجہ سے سنت ہے۔
اور اسی طرح (یعنی ما قبل کی آیت میں غسل کو مطلق باقی رکھنے کی مثال کی طرح یہ مثال بھی ہے) اللہ تعالیٰ کے قول الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما الخ میں ہم نے کہا کہ کتاب اللہ (کی اس آیت) نے سو کوڑوے مارنے کو زنا کی حد قرار دیا ہے لہٰذا اس پر بطور ضد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول البكر بالبكر جلد مائة وتغريب عام کی وجہ سے تغریب یعنی ایک سال کے لئے شہر بدر کرنے کی زیادتی نہیں کی جائے گی، بلکہ خبر مذکور پر اس طور سے عمل کیا جائے گا کہ جس کتاب کا حکم متغیر نہ ہو پس سو کوڑے مارنا کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے حدّ شرعی ہوگا اور ایک سال کی جلا وطنی (شہر بدر کرنا) حدیث کی وجہ سے سیاسۃً ومصلحۃً مشروع ہو گی۔
اور اسی طرح (یعنی ماقبل میں بیان کردہ آیت قرآنی الزانية والزاني الخ میں مأة جلدة کے مطلق ہونے کی طرح) اللہ تعالیٰ کا قول وليطوفوا بالبيت العتيق طواف کعبہ کے مسمیٰ ومفہوم میں مطلق ہے لہٰذا اس پر حدیث کی وجہ سے وضو کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ خبر پر اس طور عمل کیا جائے گا جس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو، بایں طور کہ کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے مطلق طواف فرض ہوگا اور حدیث کے حکم کہ وجہ سے وضو واجب ہوگا چنانچہ واجب وضو کے ترک سے لازم آنے والے نقصان کی تلافی دم دیکر کی جائے گی۔
اور اسی طرح (یعنی اللہ کے قول وليطوفوا الخ میں مطلق طواف کے حکم کی طرح) اللہ تعالیٰ کا قول واركعوا مع الراكعين رکوع کے مسمیٰ اور مفہوم میں مطلق ہے لہٰذا حدیث کی وجہ سے اس پر تعدیل ارکان کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا لیکن ھدیث پر اس طور سے عمل کیا جائے گا جس سے کتاب اللہ کا حکم متغیر نہ ہو چنانچہ مطلق رکوع کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے فرض ہوگا اور تعدیل ارکان حدیث کے حکم کی وجہ سے واجب ہو گی۔
اور اسی اصل (کہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری رہتا ہے) کی بناء پر ہم احناف نے کہا کہ وضو جائز ہے زعفران کے پانی سے اور ہر اس پانی سے جس میں کوئی پاک چیز مل گئی ہو اور اس (شئ طاہر) نے پانی کے اوصاف (ثلثہ) میں سے کسی ایک وصف کو بھی بدل دیا ہو، اس لئے کہ تیمّم کی طرف لوٹنے کی شرط مطلق پانی کا نہ ہونا ہے اور یہ یعنی ماء زعفران اور پاک چیز ملا ہوا پانی ماء مطلق رہ کر ہی باقی ہیں (یعنی زعفران اور پاک چیز ملا ہوا پانی ماء مطلق ہیں) کیونکہ اضافت کی قید نے ماء الزعفران وغیرہ سے پانی کے نام کو ختم نہیں کیا بلکہ اس کو واضح اور چابت کردیا ہے پس وہ (ماء الزعفران وغیرہ) ماء مطلق ہی کے حکم کے تحت داخل رہے گا، اور پانی کے منزل من السماء کی صفت پر باقی رہنے کی شرط اس مطلق کے لئے قید ہے اور اسی (تقریر مذکور) سے زعفران اور صابون اور اُشنان اور اس جیسے دیگر پانیوں کے حکم کی تخریج کی جائے گی وخرج عن الخ اور اس حکم سے یعنی ماء زعفران وغیرہ میں اضافت کے باوجود "ماء" کے مقید نہ ہونے بلکہ مطلق رہنے کے حکم سے اللہ تعالیٰ کے قول ولكن يريد ليطهركم کی وجہ سے ناپاک پانی نکل گیا (کیونکہ وضو کا مقصد تحصیل طہارت ہے) اور نجس پانی پاکی کا فائدہ نہیں دیتا اور اس اشارہ سے یعنی ولكن يريد ليطهركم میں غور وفکر کرنے سے یہ بات معلوم ہو گئی کہ وضو واجب ہونے کے لئے (پہلے سے) حدث (یعنی بے وضو ہونا) شرط ہے کیونکہ بغیر وجود حدث کے پاکی حاصل کرنا محال ہے (اور اگر وضو ہوتے ہوئے پھر وضو کیا تو وہ تحصیل طہارت کے لئے نہ ہوگا بلکہ تحصیل فضیلت کے لئے ہو گا)
حضرت ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ظہار کرنے والا جب کھانا کھلانے کے دوران اپنی بیوی سے جماع کرلے تو وہ از سر نو (یعنی پھر سے تمام مساکین کو) کھانا نہیں کھلائے گا ( بلکہ جماع کت بعد ساٹھ کی مقدار کو پورا ہونے میں جتنے مساکین باقی رہے ہیں ان کو کھلائے گا) کیونکہ کھانا کھلانے کے بارے میں (نہ کہ کفارہ بالصوم کے بارے میں) کتاب اللہ (فاطعام ستين مسكيناً) مطلق ہے (یہ قید نہیں کہ تمام مساکین کو کھانا کھلائے بغیر جماع کیا جاسکتا) لہٰذا اس پر (یعنی إطعام طعام پر) روزہ کے اوپر قیاس کرکے جماع نہ کرنے کی شرط کو زیادہ نہیں کیا جائے گا بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری رہے گا اور مقید اپنی تقیید پر، اسی طرح (ما قبل والے مسئلہ میں إطعام طعام کے مطلق ہونے کی طرح) ہم نے کہا کہ ظہار اور یمین کے کفارہ میں رقبۃ (گلام آزاد کرنا) مطلق ہے،لہٰذا اس پر ایمان کی شرط کو (یعنی غلام کے ساتھ مومن ہونے کی شرط کو) کفارۂ قتل پر قیاس کرکے زیادہ نہیں کیا جائے گا۔
صفحہ 66 – 80 جلد 01 نُجُومُ الحواشی اردو شرح اُصُولُ الشاشی – حسين احمدہردواری – مكتبہ رحمانیہ لاہور
یہ فصل مطلق اور مقید کے بیان میں ہے۔ ہمارے علمائے حنفیہ اس اصل کی طرف گئے ہیں کہ کتاب اللہ کا جو مطلق ہے اس کے اطلاق پر عمل کرنا ممکن ہو تو اس مطلق پر زیادتی کرنا خبر واحد یا قیاس کے ساتھ جائز نہیں ہو گا، اس کی مثال باری تعالیٰ کے فرمان "داغسلوا وجوهكم" میں ہے پس جس چیز کا حکم دیا گیا ہے وہ دھونا ہے مطلق طور پر۔ پس اس دھونے پر زیادہ نہیں کیا جائے گا نیت، ترتیب، موالات اور تسمیہ کی شرط کو خبر واحد کی وجہ سے۔ لیکن خبر واحد پر اس طریقے سے عمل کیا جائے گا کہ اس طریقے سے کتاب اللہ کا حکم تبدیل نہ ہوتا ہو۔ پس کہا جائے گا کہ مطلق دھونا فرض ہے کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور نیت شرط ہے خبر واحد کے حکم کی وجہ سے۔
اور اسی طرح ہم احناف نے کہا باری تعالیٰ کے فرمان الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منهما مائة جلدة (کہ زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد کو سو درّے مارو) میں کہ بے شک کتاب اللہ نے سو درّوں کو زنا کی حد قرار دیا ہے تو اس پر شہر بدری کو بطور حد کے نہیں بڑھایا جائے گا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے کہ کنوارے مرد کا کنواری عورت کے ساتھ زنا کرنے کی سزا سو درّرے اور ایک سال کی شہر بدری ہے۔ بلکہ عمل کیا جائے گا اس خبر واحد پر ایسے طریقے سے کہ اس طریقے سے کہ اس طریقے سے کتاب اللہ کا حکم تبدیل نہ ہوتا ہو، پس سو درّے مارنا شرعی حد ہو گا کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور شہر سے نکالنا مشروع ہو گا حکومت کی انتظامی مصلحت کے طور پر خبر واحد کے حکم کی وجہ سے۔

اور اسی طرح ہے باری تعالیٰ کا فرمان "وليطوفوا بالبيت العتيق" ( چاہئے کہ وہ طواف کریں پرانے کھر کا یا ماموں گھر کا یا مامون کھر گا) یہ فرمان مطلق ہے بیت اللہ کے طواف کے معنی میں، تو اس مطلق فرمان پر وضو کی شرط کو بڑھایا نہیں جائے گا خبر واحد کیوجہ سے، بلکہ خبر واحد پر اس طریقے سے عمل کیا جائے گا کہ اس طریقے سے کتاب اللہ کا حکم تبدیل نہ ہوتا ہو اس طرح کہ مطلق طواف فرض ہوگا کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور وضو واجب ہوگا خبر واحد کے حکم کی وجہ سے۔ پس واجب وضو کے چھوڑنے سے لازم آنے والے نقصان کو پورا کیا جائے گا قربانی کے ساتھ۔
اور سابقہ مثالوں کی طرح ہے باری تعالیٰ کا فرمان واركعو مع الراكعين (کہ تم رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ) یہ فرمان مطلق ہے رکوع کے معنی میں تو اس پر تعدیل ارکان کی شرط کو بڑھایا نہیں جائے گا خبر واحد کے حکم کی وجہ سے، لیکن خبر واحد پر طریقے سے عمل کیا جائے گا کہ اس سے کتاب اللہ کا حکم تبدیل نہ ہوتا ہو، پس مطلق رکوع فرض ہو گا کتاب اللہ کے حکم کی وجہ سے اور تعدیل ارکان واجب ہوگا خبر واحد کے حکم کی وجہ سے۔
اور مطلق کے اسی اصول کی بنا پر ہم احناف نے کہا کہ جائز ہے وضو کرنا زعفران کے پانی کے ساتھ اور ہر اس پانی کے ساتھ جس کے ساتھ پاک چیز ملی ہو اور پانی کے کسی ایک وصف کو تبدیل کردیا ہو، اس لئے کہ تیمّم کی طرف رجوع کرنے کی شرط مطلق پانی کا نہ ہونا ہے اور زعفران وغیرہ کا یہ پانی مطلق پانی ہو کر باقی رہ گیا ہے اس لئے کہ اضافت کی قید نے اس پانی سے پانی کا نام دور نہیں کیا بلکہ پانی کے نام کو پکا کر دیا ہے، پس زعفران وغیرہ کا یہ پانی داخل ہوگا مطلق پانی کے حکم کے نیچے اور پانی کے منزل من السماء کی صفت پر باقی رہنے کی شرط لگانا اس مطلق پانی کو مقید کرنا ہے۔ اور اس اصول کے ساتھ زعفران، صابون، اشنان اور اس جیسے پانی کا حکم نکالا کائے گا۔
اور نکل گیا اس حکم سے ناپاک پانی باری تعالیٰ کے فرمان "ولكن یريد ليطهركم" (لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں پاک کرنا چاہتے ہیں) کی وجہ سے اور ناپاک پانی پاک کرنے کا فائدہ نہیں دیتا۔ اور آیت کریمہ کے اس اشارے سے معلوم ہوگئی یہ بات کہ وضو ہونا شرط ہے وضو کے واجب ہونے کے لئے اس لئے کہ طہارت کا حاصل کرنا بغیر حدث کے پائے جانے کے محال ہے۔
کہا ابو حنفیہ نے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو جائے کہ ظہار کرنے والے آدمی نے جب صحبت کی اپنی بیوی سے مسکینوں کو کھانا کھلانے کے درمیان تو وہ دوبارہ اتنے مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاےت گا، اس لئے کہ کتاب اللہ مطلق ہے مسکینوں کو کھانا کھلانے کے حق میں، تو اس مطلق پر عدم جماع کی شرط کو نہیں بڑھایا جائے گا روزوں پر قیاس کرنے کی وجہ سے، بلکہ مطلق اپنے اطلاق پر جاری رہے گا اور مقید اپنی قید پر چلتا رہے گا۔
اور اسی طرح ہم احناف نے کہا کہ رقبہ ظہار اور یمین کے کفارے میں مطلق ہے تو اس پر ایمان کی شرط زیادہ نہیں کی جائے گی قتل کے کفارے پر قیاس کرنے کی وجہ سے۔
صفحہ 61 - 74 جلد 01صفوۃ الحواشی شرح اُصُولُ الشاشی – عبد الغفار – مکتبہ جامعہ فریدیہ اسلام آباد
ہمارے اصحاب یعنی علماء حنفیہ کے نزدیک جب کتاب اللہ میں مطلق پایا جائے گا اور اس پر عمل ممکن ہو گا تو اس کو خبر واحد یا قیاس سے مقید کرنا جائز نہیں ہوگا۔
مثلاً خدا تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿فاغسلو وجوهكم﴾ یعنی وضو میں اپنے چہروں کو دھو۔ یہاں مامور بہ مطلق غسل ہے۔ پس اس مطلق کو نیت اور ترتیب اور موالات (پے در پے ہونا) اور بسم اللہ پڑھنے سے بوجہ آحاد کے مقید نہیں کریں گے۔ مقید کرنے میں زیادۃ علیٰ کتاب اللہ خبر واحد لازم آتی ہے۔ ہاں حدیث پر عمل کیا جائے گا اس طرح کہ کتاب اللہ کا حکم نہ بدلے۔ پس کہا جائے متعلق غسل بحکم کتاب اللہ فرض ہے اور نیت حدیث کے حکم کے سبب مسنون ہے۔
دوسری مثال۔ فرمایا اللہ کریم نے ﴿ الزانية والزاني فاجلدوا كل واحد منها مائة جلده﴾ " زانیہ عورت اور زانی مرد کو سو درّہ لگاؤ" اس آیت میں حد زنا غیر محصن کے واسطے سو درّہ ہیں۔ پس اس بوجہ حدیث آحاد کے سزا یعنی ایک سال تک جلا وطن کرنے کی سزا بڑھائیں گے۔ وہ حدیث آحاد یہ ہے: البكر بالبكر جلد مائة وتغريب عام جس مرد کا نکاح نہ ہوا ہو وہ عورت باکرہ سے زنا کرے تو دونوں کو سو درّہ اور ایک سال جلا وطنی کی سزا ہے۔
بلکہ اس حدیث آحاد پر اس طرح عمل کریں گے کہ کتاب اللہ کا حکم نہ بدلے۔ سو درّہ مطابق حکم کتاب اللہ حد شرعی ہوں گے اور ایک سال کا جلا وطن کردینا موافق حکم حدیث سیاست حاکم شرع کے متعلق ہو گا۔ اگر قاضی شرع مصلحت وقت دیکھے تو سیاسۃ یہ سزا بھی دے۔
تیسری مثال فرمایا اللہ کریم نے ﴿وليطوفوا بالبيت العتيق﴾ چاہیے کہ وہ بیت اللہ کا طواف کریں۔ یہ آیت مسمی طواف بیت اللہ میں مطلق ہے، لہٰذا بوجہ خبر آحاد کے اس پر وضو کی شرط نہیں بڑھائیں گے بلکہ حدیث پر بھی اس طرح عمل ہو گا کہ کتاب اللہ کا حکم نہ بدلے یعنی مطلق طواف موافق حکم کتاب اللہ فرض ہوگا اور طواف میں وضو کرنا مطابق حدیث آحاد واجب ٹھہرے گا۔ اگر اس واجب یعنی وضو کو بحالت طواف ترک کرے گا تو ایک جانور کے ذبح کرنے سے جبر نقصان ہو جائے گا۔
چوتھی مثال ﴿واركعوا مع الراكعين﴾ رکوع کرو، رکوع کرنے والے کے ہمراہ مسمی رکوع یعنی انحناء صلب میں یہ آیت مطلق ہے لہٰذا اس مطلق کتاب پر بوجہ حدیث آحاد کے نعدیل کی شرط نہیں بڑھائی جائے گی۔ ہاں حدیث پر اس طرح عمل کیا جائے گا کہ کتاب اللہ کے حکم میں تغیر نہ آئے پس مطلق رکوع مطابق حکم کتاب اللہ فرض ہو گا اور تعدیل اطمنان سے جھکنا حسب حکم حدیث واجب ٹھہرے گا چونکہ مطلق کتاب ہمارے نزدیک واجب العمل ہے۔ اسی واسطے ہمارے علماء حنفیہ کے نزدیک زعفران کے پانی اور ہر ایک اس پانی کے ساتھ وضو درست ہے جس میں پاک چیز مل گئی ہو اور اس کے اوصاف میں سے ایک کو بدل دیا ہو کیونکہ تیمّم اس وقت درست ہے کہ مطلق پانی موجود نہ ہو، چنانچہ فرمایا: فان لم تجدوا ماء فتيمموا یعنی اگر مطلق پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمّم کرو اور جو اضافۃ ماء زعفران يا ماء صابن وغیرہ میں پائی جاتی ہے اس سے پانی کا نام اس سے دور نہیں ہوا بلکہ اس اضافۃ سے زیادہ ثبوت اطلاق اسم ماء کا ہوگا۔ ہاں بعض اضافۃ ایسی بھی ہے کہ اس سے اطلاق ماء کا نہیں رہتا جیسے کہتے ہیں ماءُ الورد، گلاب کا پانی۔ یہاں پانی مقید ہو گیا۔ اگر یہ شرط لگائی جائے کہ پانی اسی حالت اور اطلاق پر باقی رہے جیسا کہ آسمان سے اترا تھا، اس شرط لگانے سے مطلق میں قید زیادہ ہوگی جس سے زیادۃ علی کتاب اللہ لازم آئے گی۔ اس قاعدہ مذکورہ کے موافق ماء زعفران، ماء صابن، ماء اشنان کی نسبت حکم دیا گیا گیا کہ ان سے وضو اور غسل درست ہے۔
اگر یہ شبہ پیدا ہو کہ نجس ماء یعنی ناپاک پانی اس تقریر سے مطلق ماء کے ماتحت داخل ہوتا ہے، چاہیے کہ اس سے بھی وضو درست ہو۔ جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ ناپاک پانی آیت کے دوسرے اس جملہ سے خارج ہے: ﴿الكن يريد ليطهركم﴾ لیکن خدا ارادہ کرتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور پاک پانی سے تطہیر یعنی پاکی حاصل نہیں ہوتی لہٰذا اس سے وضو اور غسل درست نہیں ہو گا۔
اس اشارہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وضو کے واجب ہونے کے واسطے وضو کا ٹوٹنا شرط ہے کیونکہ بغیر ٹوٹنے وضو کے طہارت کا حاصل کرنا ناممکن ہے۔
اگر یہ شبہ ہو کہ الوضو علی الوضوء، نور علی نور آیا ہے یعنی وضو ہوتے پھر وضو کرنا موجب زیادہ ثواب و نورانیت ہے پس حدث کا ہونا وضو کے واسطے شرط نہ ہوا۔
وضو ہوتے وضو کرنا واسطے حصول طہارۃ کے نہیں بلکہ واسطے حصول زیادہ فضیلت کے ہے۔
مطلق کے اطلاق پر عمل کرنے کے متعلق امام اعظم رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اگر مظاہر نے ( یعنی جس شخص نے اپنی زوجہ سے ظہار کیا، یہ کہا کہ تو مجھ پر میری ماں کی پشت یا پیٹ کے برابر ہے) کھانا مساکین کو کھلائنے میں بغیر ساٹھ مسکینوں کے کے پورا ہونے کے، اپنی زوجہ سے جس سے ظہار کیا تھا، جمع کر لیا تو وہ از سر نو سب مسکینوں کو کھانا کھلائے بلکہ جو باقی رہ گئے ان کو کھلائے کیونکہ کتاب اللہ میں کفارۂ ظہار میں جہاں ساٹھ مسکینوں کو کھلانے کا ذکر ہے۔ مطلق ہے اس قید کے ساتھ مقید نہیں کہ زوجہ کو کفارہ پورا ہونے تک ہاتھ نہ لھائے۔ وہ آیت یہ ہے: ﴿فان لم يتطع فابعام ستين مسكينا﴾ اگر روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھے تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔ ہاں! روزوں کا کفارہ ظہار اس قید کے ساتھ مقید ہے، جیسا کہ فرمایا: فمن لم يجد فصيام شهرين متتابعين من قبل ان يتماسا یعنی جس شخص کو غلام کا آزاد کرنا کفارۂ ظہار میں مشکل ہو وہ اس زوجہ کے پاس جانے سے پہلے پے در پے دو مہینے کے روزے رکھے۔ سو جو شخص کفارۂ ظہار ساٹھ روزے رکھ کر ادا کنا چاہے وہ تمام رسوزے پورے کرنے سے پہلے اپنی زوجہ کے پاس نہیں جا سکتا۔ اگر جائے گا تو پھر اس سر نو تمام روزے رکنے پڑیں گے تو امام اعظم رحمہ اللہ کے نزدیک کفارۂ سوم پر مقید ہے قیاس کرکے کفارۂ اطعام مساکين کو مقید نہیں کریں گے مطلق ، مطلق رہے گا اور مقید مقید۔
اسی طرح کفارۂ قتل میں غلام مسلمان کا آزاد کرنا آیا ہے اور کفارۂ ظہار و كفارۂ يمين میں مطلق آیا ہے خواہ غلام مسلمان ہو یا کافر۔ تو جہاں مطلق ہے وہاں مطلق پر عمل کیا جائے گا اور جہاں مقید ہے وہاں مقید رہے گا مطلق کو مقید پر قیاس نہیں کریں گے۔
صفحہ21 – 25 جلد 01 اُصُول الشاشی کا مستند اردو ترجمہ – محمد مشتاق انبیھٹوی – مکتبۃُ العلم لاہور

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو رد کرنے کے لئے گڑھے گئے فقہ حنفی کے اس اصول کو الحسامي في الاصول الفقه میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:

﴿ الزيادة علی النص ﴾
والزيادة علی النص نسخ عندنا خلافاً للشافعي رحمه الله؛ لأن بالزيادة يصير أصل المشروع بعض الحق، وما للبعض حكم الوجود فيما يجب حقاً الله؛ لأنه لا يقبل الوصف بالتجزّي، حتی أن المظاهر إذا مرض بعد ما صام شهراً فأنطعم ثلاثين مسكيناً لم يجزه، فكانت الزيادة نسخاً من حيث المعنی، ولهذا لم يجعل علماؤنا رحمه الله قراءة الفاتحة ركناً في الصلاة بخبر الواحد؛ لأنه زيادة علی النص، وأبو زيادة النفي حداً في زنا البكر، وزيادة الطهارة شرطاً في طواف الزيارة، وزيادة صفة الإيمان في رقبة الكفارة بخبر الواحد والقياس.

اور نص پر زیادتی ہمارے نزدیک نسخ ہے اختلاف ہے شافعی رحمہ اللہ کا اس لئے کہ زیادتی کی وجہ سے اصل مشروع (مزید علیہ) حق کا بعض ہوگا اور بعض کو وجود کا حکم نہیں ہے اس حکم میں جو واجب ہو اللہ تعالیٰ کا حق بنکر اس لئے کہ اللہ کا حق تجزی کے وصف کو قبول نہیں کرتا یہاں تک کہ مظاہر جب بیمار ہوگیا تیس روزوں کے بعد پس اس نے تیس مسکینوں کو کھانا کھلادیا تو یہ اس کو کفایت نہیں کرے گا تو یہ ہوگی زیادتی نسخ معنی کے اعتبار سے۔ اور اسی وجہ سے ہمارے علماء نے فاتحہ کی قراءت جو نماز میں رکن قرار دیا نہیں دیا خبر واحد سے اس لئے کہ یہ نص پر زیادتی ہے۔ اور انکار کیا ہے (ہمارے علماء نے) جلا وطنی کی زیادتی کا حد بنا کر بکر کی زنا میں اور طہارت کی زیادتی کا طواف زیارت میں شرط بنا کر اور صفت ایمان کی زیادتی کا کفارہ کے غلام میں خبر واحد یا قیاس سے۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 90 – 91 الحسامي في اصول الفقه - طبعه المطبع الحنفي سنه 1851
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 174 – 176 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مكتبة البشری كراتشي
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 185 – 187 الحسامي – مع شرح الحسامي العجب المسمي بالنامي - مير محمد كتب خانه كراتشي
ملاحظہ فرمائیں:صفحہ 150 – 152 درس حسامی شرح اردو منتخب الحسامی – محمد يوسف تاؤلی – ایچ ایم سعید کمپنی کراچی

محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي نے بڑی صراحت کے ساتھ واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ حنفیہ نے احادیث صحیحہ کو رد کردیا ہے:
وقد رد الحنفية بذلك أخبار صحيحة لما اقتضت زيادة علی القرآن والزيادة نسخ ولا يجوز نسخ القرآن بخبر الواحد فردوا أحاديث تعيين الفاتحة في الصلاة وما ررد في الشاهد واليمين وما ورد في اشتراط النية في الوضوء
اور حنفیہ نے اس وجہ سے ان احادیث صحیحہ کو رد کر دیا ہے جو قرآن پر زیادہ تھی (یعنی قرآن کے حکم پر اضافہ تھیں) اور یہ زیادتی نسخ ہے، اور خبر واحد سے نسخ جائز نہیں، لہٰذا نماز میں سورۃ فارتحہ کے تعین کی حدیث، اور ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے کی حدیث، اور وضو میں نیت کے شرط ہونے کی حدیث کو رد کر دیا۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 137 تسهيل الوصول إلى علم الأصول - محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي - مطبعة مصطفي البابي الحلبي و اولاده بمصر

یہ جھوٹ فقہ حنفیہ و فقہاء احناف کا ہے!

حدیث﴿لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ﴾ سے مقتدی کے سورہ فاتحہ پڑھنے کی دلیل کیوں کر لیتے ہو ذرا وضاحت فرما دیں؟
دوسری حدیث نقل کرتے کیا پریشانی تھی؟ بھٹی صاحب!
فاتحہ کے وجوب کی دلیل
﴿لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ﴾''جونماز میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں (ہوتی)'' اور اس کے علاوہ دیگر مفصل صحیح ثابت احادیث ہیں جن میں سے ایک یہ بھی پیش کی تھی:
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي مَكْحُولٌ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ رَبِيعٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ : صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ ، فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ فِيهَا الْقِرَاءَةُ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ ، أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ ، فَقَالَ : " إِنِّي لَأَرَاكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ إِذَا جَهَرَ " , قَالَ : قُلْنَا : أَجَلْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا " .
عبادہ بن ثامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی اقتداء میں صبح کی نماز یعنی نماز فجر میں تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قراءت بھاری ہو گئی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ ہماری جانب کیا اور فرمایا: میں دیکھتا ہوں کہ تم اپنے امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو جبکہ وہ (امام) جہراً قراءت کرتا ہے، ہم نے کہا اے اللہ کے رسول ! ہاں ! اللہ کی قسم ہم ایسا کرتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو (یعنی امام کے پیچھے قراءت نہ کیا کرو) سوائے ام القرآن یعنی سورہ فاتحہ کے، کیونکہ نہیں ہے اس کی نماز جو نماز میں اسے (سورہ فاتحہ ) نہیں قراءت نہیں کرتا۔
مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ » حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ

اور آپ مقتدی کی بات کیاکرتے ہو؟ فقہ حنفیہ میں تو امام اور منفرد پر بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا لازم نہیں، اور بڑے دھٹرلے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیے حکم کا انکار کرتے ہیں، ایک بار پھر پیش پیش کرتا ہوں:
محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي نے بڑی صراحت کے ساتھ واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ حنفیہ نے احادیث صحیحہ کو رد کردیا ہے:
وقد رد الحنفية بذلك أخبار صحيحة لما اقتضت زيادة علی القرآن والزيادة نسخ ولا يجوز نسخ القرآن بخبر الواحد فردوا أحاديث تعيين الفاتحة في الصلاة وما ررد في الشاهد واليمين وما ورد في اشتراط النية في الوضوء
اور حنفیہ نے اس وجہ سےان احادیث صحیحہ کو رد کر دیا ہے جو قرآن پر زیادہ تھی (یعنی قرآن کے حکم پر اضافہ تھیں) اور یہ زیادتی نسخ ہے، اور خبر واحد سے نسخ جائز نہیں، لہٰذا نماز میں سورۃ فارتحہ کے تعین کی حدیث، اور ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے کی حدیث، اور وضو میں نیت کے شرط ہونے کی حدیث کو رد کر دیا۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 137 تسهيل الوصول إلى علم الأصول - محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي - مطبعة مصطفي البابي الحلبي و اولاده بمصر
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
" لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا " .
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ علیہ
محترم اس عبادہ ابن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث کے علاوہ بھی کوئی حدیث ہے تو وہ بھی سامنے لے آئیں تاکہ سمجھنے اور سمجھانے میں آسانی ہو۔
والسلام
 
Top