تعجیل سے ۔ممانعت جو اس حدیث میں ہے اس کا حکم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا صاحبین کسی سے ثابت نہیں۔
باقی رہا عوام کا مسئلہ تو کسی کی غلط روش سے علماء پر اعتراض صحیح نہیں۔ دیکھیں اگر کوئی اہلِ حدیث چوری کرتا ہؤا پکڑا جائے تو یہ نہیں کہیں گے کہ اہلِ حدیث قرآن مجید کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں۔
والسلام
ہمارے مقلد بھائی !
آپ نے شاید امام ابو حنیفہ کی فقہ شریف کا مطالعہ نہیں کیا ۔۔۔بس سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ’’ اوکاڑے والی بس ‘‘ پر آنکھیں بند کر کے سوار ہوگئے۔
چلیں ہم آپ کو ۔۔تعدیل ارکان ۔۔کے متعلق فقہ حنفی کا اصل موقف بتاتے ہیں
حنفی مذہب کی مشہور و مسند کتاب ’’ ھدایہ ‘‘ اور اسکی شرح
’’ العناية شرح الهداية ‘‘
جس کے مصنف و مؤلف : أكمل الدين الرومي البابرتي (المتوفى: 786هـ) ہیں
اعلم أن تعديل الأركان وهو الاستواء قائما بعد الركوع ويسمى قومة (والجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود) أي القرار فيهما ليس بفرض (عند أبي حنيفة ومحمد. وقال أبو يوسف يفترض ذلك كله) ومقدار الطمأنينة بمقدار تسبيحة (وهو قول الشافعي - رحمه الله -) وفائدة الاختلاف تظهر في حق جواز الصلاة بدونه. فعندهما يجوز وعند أبي يوسف لا يجوز، ولم يذكر هذا الاختلاف في ظاهر الرواية، وإنما ذكره المعلى في نوادره واستدل أبو يوسف بحديث «الأعرابي، وهو قوله: - صلى الله عليه وسلم - حين رآه نقر نقر الديك: قم فصل فإنك لم تصل» نفى كونه صلاة بترك التعديل فكان ركنا؛ لأن انتفاء غيره لا ينفيها.
ولهما قوله تعالى {اركعوا واسجدوا} [الحج: 77] والركوع هو الانحناء، يقال ركعت النخلة إذا مالت، والسجود هو الانخفاض وذلك يحصل بدون الطمأنينة فتتعلق الركنية بالأدنى فيهما، ولا تجوز الزيادة بخبر الواحد بطريق الفرضية؛ لأنه نسخ وموضعه أصول الفقه،
’’ صاحب ھدایہ نے لکھا کہ :
وأما الاستواء قائما فليس بفرض(رکوع کے بعد ) سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں‘‘
اسکی شرح میں علامہ بابرتی صاحب فرماتے ہیں :کہ تعدیل ارکان سے یعنی رکوع کے بعد سیدھے کھڑا ہونا ، جس کو ’’ قومہ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اور اسی طرح دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا ، اور رکوع و سجدہ اطمینان و قرار سے ادا کرنا ابو حنیفہ اور انکے شاگرد محمد کے ہاں فرض نہیں ہے۔
اور ابو یوسف ان سب امور کو فرض قرار دیتے ہیں ؛
اور طمانینت یعنی مطلوبہ اطمینان کی مقدار ’’ ایک بار سبحان اللہ ‘‘کہنا ہے،
اور اس اختلاف سے یہ فائدہ شریفہ حاصل ہوا کہ نماز کے ارکان میں تعدیل و اطمینان فرض نہیں ۔۔نماز اس کے بغیر بھی ہو جاتی ہے ۔
اور ابو یوسف نے
(شاید اہل مدینہ کی صحبت سے )اطمینان و تعدیل کی فرضیت پر اعرابی کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں اس کو رسول کریم ﷺ نے سجدہ ،رکوع میں مرغ کی طرح ٹھونگیں لگاتے دیکھا تو فرمایا :
’’ نماز دوبارہ پڑھ ، تو نے نماز نہیں پڑھی ‘‘
تو پیغمبر اکرم ﷺ کا اس کی تعدیل ارکان کے بغیر نماز کی ’’ نفی کرنا ‘‘اس بات کی دلیل ہے کہ اطمینان و تعدیل ارکان فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
جبکہ ابو حنیفہ اور محمد جو اطمینان و تعدیل کو فرض نہیں مانتے ۔۔تو انکی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :
{اركعوا واسجدوا} [الحج: 77]یعنی اس آیت میں مطلقاً رکوع و سجدہ کا حکم دیا ،اور رکوع لغت میں محض۔۔ جھکنے۔۔ کو کہا جاتا ہے ،جیسا کہتے ہیں:
رکعت النخلۃ۔یعنی ٹہنی یا درخت جھک گیا،اور اسی طرح ’’ سجدہ ‘‘ بھی محض نیچے جانے ، کو کہا جاتا ہے،
اور یہ عمل بغیر اطمینان بھی ہوسکتا ہے لہذا تعدیل کوئی ضروری نہیں ۔
حاصل یہ کہ ان ارکان کی رکنیت (جو نص قطعی سے ثابت ہے )۔ادنی ترین صورت میں بھی ثابت ہو جاتی، اور خبر واحد سے اس پر زیادتی ، اضافہ کرنا جائز نہیں (یعنی یہ کہانا جائز نہیں کہ سجدہ ، رکوع میں اطمینان بھی فرض ہے )کیونکہ یہ نسخ ہے اورنسخ خبر واحد سے جائز نہیں )جیسا کہ اصول کی کتب میں درج ہے ‘‘ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ثابت ہوا کہ بھٹی صاحب نے ۔۔اطمینان سے نماز پڑھنے ۔۔کی جو حدیث نقل فرمائی ،
وہ انکے مذہب میں قرآن پر اضافہ ہونے کی وجہ سے ائمہ احناف کیلئے ناقابل قبول ہے۔
لہذا بھٹی صاحب اوکاڑے کی بس میں بیٹھے جو یہ فرما رہے ہیں کہ :
تعجیل سے ۔ممانعت جو اس حدیث میں ہے اس کا حکم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا صاحبین کسی سے ثابت نہیں۔
تو یہ انکی جہالت و بے خبری ہے ،
کیونکہ ان کے امام تو ۔۔عجلت سے پڑھی گئی نماز ۔۔کو قرآن سے ثابت فرماتے ہیں!