• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے !!!

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ!
بھائی جان! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے والے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ایک حدیث ہی کافی ہے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھٹی صاحب! سو باتوں کی ایک بات! فقہ حنفیہ کو رد کئے بغیر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر عمل نہیں کیا جاسکتا! مگر معاملہ یہ ہے کہ لوگوں میں فقہ حنفیہ اور فقہاء احناف کی عقیدت دل میں اتنی گہری ہو گئی ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسے ثابت صحیح احادیث کو تو رد کر دیتے ہیں ، مگر اپنی فقہ اور فقہاء کو رد نہیں کرتے! دیکھیں کس واشگاف الفاظ میں اس بات کا اظہار حنفیوں نے کیا ہے:
فقہ حنفیہ میں تو امام اور منفرد پر بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا لازم نہیں، اور بڑے دھٹرلے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیے حکم کا انکار کرتے ہیں، ایک بار پھر پیش پیش کرتا ہوں:
محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي نے بڑی صراحت کے ساتھ واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ حنفیہ نے احادیث صحیحہ کو رد کردیا ہے:
وقد رد الحنفية بذلك أخبار صحيحة لما اقتضت زيادة علی القرآن والزيادة نسخ ولا يجوز نسخ القرآن بخبر الواحد فردوا أحاديث تعيين الفاتحة في الصلاة وما ررد في الشاهد واليمين وما ورد في اشتراط النية في الوضوء
اور حنفیہ نے اس وجہ سےان احادیث صحیحہ کو رد کر دیا ہے جو قرآن پر زیادہ تھی (یعنی قرآن کے حکم پر اضافہ تھیں) اور یہ زیادتی نسخ ہے، اور خبر واحد سے نسخ جائز نہیں، لہٰذا نماز میں سورۃ فارتحہ کے تعین کی حدیث، اور ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے کی حدیث، اور وضو میں نیت کے شرط ہونے کی حدیث کو رد کر دیا۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 137 تسهيل الوصول إلى علم الأصول - محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي - مطبعة مصطفي البابي الحلبي و اولاده بمصر
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
بھائی جان! اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے والے کے لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ایک حدیث ہی کافی ہے!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ
ٹھیک ہے ٹھیک ہے مگر میرے بھائی اور احادیث لکھنے میں کوئی حرج ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف اسی ایک حدیث کو مانتے ہو باقی سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
سو باتوں کی ایک بات! فقہ حنفیہ کو رد کئے بغیر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر عمل نہیں کیا جاسکتا!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وربرکاتہ
محترم لگتا ہے کہ آپ فقرہ غلط لکھ گئے ہیں تصحیح فرمالیں؛
سو باتوں کی ایک بات! فقہ حنفیہ کو رد کئے بغیر حدیثِ نفس پر عمل نہیں ہو سکتا (اہلِ حدیث )
اہلِ قرآن نے دیکھا کہ احادیث کے ہوتے ہوئے ان کی ایک نہ چلے گی تو انہوں نے مہم شروع کر دی احادیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی۔ اہلِ حدیث نے جب دیکھا کہ فقہ حنفی کے ہوتے ہوئے ’’فقہ نفسی‘‘ پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا تو انہوں نے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا۔ آپ یقین کریں یہ کیچڑ ان کے اپنے منہ پر پڑ رہا ہے فلا شک۔
محترم یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایک مجتہد تھے نبی نہیں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مجتہد سے اگر غلطی بھی ہو جائے تو اسے اجر ہی ملتا ہے اس کی پکڑ نہیں ہوتی۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ واقعی مجتہد ہو نام نہاد نہ ہو۔
کتب میں پڑھا ہے (اصل کتاب نہیں دیکھ سکا ) کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ زکوٰۃ کے مصارف میں کہتے تھے کہ جب تک قرآن میں درج تمام مصارف میں زکوٰۃ نہ دی جائے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ عرصہ دراز تک ان کے اس فتویٰ پر عمل ہوتا رہا۔ ایک وقت آیا کہ ایک مصرف (غلام آزاد کرنا) معدوم ہو گیا۔ فقہ شافعی کے متبعین نے رجوع کر لیا کہ اس میں مجتہد کی خطا روزِ روشن کی طرح نظر آگئی۔ اسی طرح اگر کسی مجتہد کی خطا غیر مبہم اور بالکل واٖح ہوجائے اس پر کوئی دوسرا احتمال نہ رہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اب اگر وہ اس کے ساتھ چمٹا رہتا ہے تو وہ اللہ جل شانہٗ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف ہوگا اور راندہ درگاہ ہوگا۔
والسلام
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
فقہ شافعی کے متبعین نے رجوع کر لیا کہ اس میں مجتہد کی خطا روزِ روشن کی طرح نظر آگئی۔ اسی طرح اگر کسی مجتہد کی خطا غیر مبہم اور بالکل واٖح ہوجائے اس پر کوئی دوسرا احتمال نہ رہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔
آپ کے اس کلام نے تقلید کی ٹانگیں ہی نہیں ،کندھے ، بازو ۔۔سب کچھ توڑ دیا ہے
قطع نظر اس کے کہ امام شافعی کا ایسا کوئی قول ’’ عالم وجود ‘‘ میں پایا جاتا ہے یا نہیں۔
آپ فرماتے ہیں :
اگر کسی مجتہد کی خطا غیر مبہم اور بالکل واٖح ہوجائے اس پر کوئی دوسرا احتمال نہ رہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔
یہی بات اہل حدیث کہیں تو گردن زدنی کے۔۔تقلیدی فتوے ۔۔صادر ہونا شروع ہوجاتے ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
تعجیل سے ۔ممانعت جو اس حدیث میں ہے اس کا حکم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا صاحبین کسی سے ثابت نہیں۔
باقی رہا عوام کا مسئلہ تو کسی کی غلط روش سے علماء پر اعتراض صحیح نہیں۔ دیکھیں اگر کوئی اہلِ حدیث چوری کرتا ہؤا پکڑا جائے تو یہ نہیں کہیں گے کہ اہلِ حدیث قرآن مجید کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں۔
والسلام
ہمارے مقلد بھائی !
آپ نے شاید امام ابو حنیفہ کی فقہ شریف کا مطالعہ نہیں کیا ۔۔۔بس سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ’’ اوکاڑے والی بس ‘‘ پر آنکھیں بند کر کے سوار ہوگئے۔
چلیں ہم آپ کو ۔۔تعدیل ارکان ۔۔کے متعلق فقہ حنفی کا اصل موقف بتاتے ہیں
حنفی مذہب کی مشہور و مسند کتاب ’’ ھدایہ ‘‘ اور اسکی شرح ’’ العناية شرح الهداية ‘‘
جس کے مصنف و مؤلف : أكمل الدين الرومي البابرتي (المتوفى: 786هـ) ہیں

اعلم أن تعديل الأركان وهو الاستواء قائما بعد الركوع ويسمى قومة (والجلسة بين السجدتين والطمأنينة في الركوع والسجود) أي القرار فيهما ليس بفرض (عند أبي حنيفة ومحمد. وقال أبو يوسف يفترض ذلك كله) ومقدار الطمأنينة بمقدار تسبيحة (وهو قول الشافعي - رحمه الله -) وفائدة الاختلاف تظهر في حق جواز الصلاة بدونه. فعندهما يجوز وعند أبي يوسف لا يجوز، ولم يذكر هذا الاختلاف في ظاهر الرواية، وإنما ذكره المعلى في نوادره واستدل أبو يوسف بحديث «الأعرابي، وهو قوله: - صلى الله عليه وسلم - حين رآه نقر نقر الديك: قم فصل فإنك لم تصل» نفى كونه صلاة بترك التعديل فكان ركنا؛ لأن انتفاء غيره لا ينفيها.
ولهما قوله تعالى {اركعوا واسجدوا} [الحج: 77] والركوع هو الانحناء، يقال ركعت النخلة إذا مالت، والسجود هو الانخفاض وذلك يحصل بدون الطمأنينة فتتعلق الركنية بالأدنى فيهما، ولا تجوز الزيادة بخبر الواحد بطريق الفرضية؛ لأنه نسخ وموضعه أصول الفقه،

’’ صاحب ھدایہ نے لکھا کہ : وأما الاستواء قائما فليس بفرض(رکوع کے بعد ) سیدھا کھڑا ہونا فرض نہیں‘‘
اسکی شرح میں علامہ بابرتی صاحب فرماتے ہیں :کہ تعدیل ارکان سے یعنی رکوع کے بعد سیدھے کھڑا ہونا ، جس کو ’’ قومہ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اور اسی طرح دو سجدوں کے درمیان بیٹھنا ، اور رکوع و سجدہ اطمینان و قرار سے ادا کرنا ابو حنیفہ اور انکے شاگرد محمد کے ہاں فرض نہیں ہے۔
اور ابو یوسف ان سب امور کو فرض قرار دیتے ہیں ؛
اور طمانینت یعنی مطلوبہ اطمینان کی مقدار ’’ ایک بار سبحان اللہ ‘‘کہنا ہے،
اور اس اختلاف سے یہ فائدہ شریفہ حاصل ہوا کہ نماز کے ارکان میں تعدیل و اطمینان فرض نہیں ۔۔نماز اس کے بغیر بھی ہو جاتی ہے ۔
اور ابو یوسف نے (شاید اہل مدینہ کی صحبت سے )اطمینان و تعدیل کی فرضیت پر اعرابی کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں اس کو رسول کریم ﷺ نے سجدہ ،رکوع میں مرغ کی طرح ٹھونگیں لگاتے دیکھا تو فرمایا :
’’ نماز دوبارہ پڑھ ، تو نے نماز نہیں پڑھی ‘‘
تو پیغمبر اکرم ﷺ کا اس کی تعدیل ارکان کے بغیر نماز کی ’’ نفی کرنا ‘‘اس بات کی دلیل ہے کہ اطمینان و تعدیل ارکان فرض ہے جس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔

جبکہ ابو حنیفہ اور محمد جو اطمینان و تعدیل کو فرض نہیں مانتے ۔۔تو انکی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا :
{اركعوا واسجدوا} [الحج: 77]یعنی اس آیت میں مطلقاً رکوع و سجدہ کا حکم دیا ،اور رکوع لغت میں محض۔۔ جھکنے۔۔ کو کہا جاتا ہے ،جیسا کہتے ہیں:
رکعت النخلۃ۔یعنی ٹہنی یا درخت جھک گیا،اور اسی طرح ’’ سجدہ ‘‘ بھی محض نیچے جانے ، کو کہا جاتا ہے،
اور یہ عمل بغیر اطمینان بھی ہوسکتا ہے لہذا تعدیل کوئی ضروری نہیں ۔
حاصل یہ کہ ان ارکان کی رکنیت (جو نص قطعی سے ثابت ہے )۔ادنی ترین صورت میں بھی ثابت ہو جاتی، اور خبر واحد سے اس پر زیادتی ، اضافہ کرنا جائز نہیں (یعنی یہ کہانا جائز نہیں کہ سجدہ ، رکوع میں اطمینان بھی فرض ہے )کیونکہ یہ نسخ ہے اورنسخ خبر واحد سے جائز نہیں )جیسا کہ اصول کی کتب میں درج ہے ‘‘ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو ثابت ہوا کہ بھٹی صاحب نے ۔۔اطمینان سے نماز پڑھنے ۔۔کی جو حدیث نقل فرمائی ،
وہ انکے مذہب میں قرآن پر اضافہ ہونے کی وجہ سے ائمہ احناف کیلئے ناقابل قبول ہے۔
لہذا بھٹی صاحب اوکاڑے کی بس میں بیٹھے جو یہ فرما رہے ہیں کہ :
تعجیل سے ۔ممانعت جو اس حدیث میں ہے اس کا حکم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ یا صاحبین کسی سے ثابت نہیں۔
تو یہ انکی جہالت و بے خبری ہے ،
کیونکہ ان کے امام تو ۔۔عجلت سے پڑھی گئی نماز ۔۔کو قرآن سے ثابت فرماتے ہیں!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
محترم لگتا ہے کہ آپ فقرہ غلط لکھ گئے ہیں تصحیح فرمالیں؛
سو باتوں کی ایک بات! فقہ حنفیہ کو رد کئے بغیر حدیثِ نفس پر عمل نہیں ہو سکتا (اہلِ حدیث )
بھٹی صاحب! میں نے بلکل درست فقرہ لکھا تھا:
بھٹی صاحب! سو باتوں کی ایک بات! فقہ حنفیہ کو رد کئے بغیر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر عمل نہیں کیا جاسکتا! مگر معاملہ یہ ہے کہ لوگوں میں فقہ حنفیہ اور فقہاء احناف کی عقیدت دل میں اتنی گہری ہو گئی ہے کہ وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسے ثابت صحیح احادیث کو تو رد کر دیتے ہیں ، مگر اپنی فقہ اور فقہاء کو رد نہیں کرتے! دیکھیں کس واشگاف الفاظ میں اس بات کا اظہار حنفیوں نے کیا ہے:
اور اس کا ثبوت بھی دیا تھا؛
آپ کی نظروں کو بہت تکلیف دہ ہو گا، اس لئے اسے نظر انداز کر رہے ہو:
فقہ حنفیہ میں تو امام اور منفرد پر بھی سورۂ فاتحہ کا پڑھنا لازم نہیں، اور بڑے دھٹرلے سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا انکار کرتے ہیں، ایک بار پھر پیش پیش کرتا ہوں:
محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي نے بڑی صراحت کے ساتھ واشگاف الفاظ میں لکھا ہے کہ حنفیہ نے احادیث صحیحہ کو رد کردیا ہے:
وقد رد الحنفية بذلك أخبار صحيحة لما اقتضت زيادة علی القرآن والزيادة نسخ ولا يجوز نسخ القرآن بخبر الواحد فردوا أحاديث تعيين الفاتحة في الصلاة وما ررد في الشاهد واليمين وما ورد في اشتراط النية في الوضوء
اور حنفیہ نے اس وجہ سےان احادیث صحیحہ کو رد کر دیا ہے جو قرآن پر زیادہ تھی (یعنی قرآن کے حکم پر اضافہ تھیں) اور یہ زیادتی نسخ ہے، اور خبر واحد سے نسخ جائز نہیں، لہٰذا نماز میں سورۃ فارتحہ کے تعین کی حدیث، اور ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کرنے کی حدیث، اور وضو میں نیت کے شرط ہونے کی حدیث کو رد کر دیا۔
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 137 تسهيل الوصول إلى علم الأصول - محمد عبد الرحمن عيد المحلاوي الحنفي - مطبعة مصطفي البابي الحلبي و اولاده بمصر
اہلِ قرآن نے دیکھا کہ احادیث کے ہوتے ہوئے ان کی ایک نہ چلے گی تو انہوں نے مہم شروع کر دی احادیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی۔ اہلِ حدیث نے جب دیکھا کہ فقہ حنفی کے ہوتے ہوئے ’’فقہ نفسی‘‘ پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا تو انہوں نے ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیا۔ آپ یقین کریں یہ کیچڑ ان کے اپنے منہ پر پڑ رہا ہے فلا شک۔
بھٹی صاحب! ان نام نہاد ''اہل قرآن'' یعنی کہ منکرین حدیث و منکرین وحی، ان کے احادیث پر اعتراض کی بنیادیں فقہاء احناف نے ہی فقہ حنفی میں رکھیں ہیں!
دوم کہ امام ابو حنیفہ کے متعلق میں نے ایک جگہ آپ کو ایک عبارت پیش کی تھی اسے بھی ذہن نشین رکھیں:
حدثنا محمد بن علي بن مخلد الوراق- لفظا- قال في كتابي عن أبي بكر محمد بن عبد الله بن صالح الأسدي الفقيه المالكي قال: سمعت أبا بكر بن أبي داود السجستاني يوما وهو يقول لأصحابه: ما تقولون في مسألة اتفق عليها مالك وأصحابه، والشافعي وأصحابه، والأوزاعي وأصحابه، والحسن بن صالح وأصحابه، وسفيان الثوري وأصحابه، وأحمد بن حنبل وأصحابه؟ فقالوا له: يا أبا بكر لا تكون مسألة أصح من هذه. فقال: هؤلاء كلهم اتفقوا على تضليل أبي حنيفة۔
ابو بکر بن أبی داود السجستانی رحمہ اللہ نے ايک دن اپنے شاگردوں کو کہا کہ تمہارا اس مسئلہ کے بارہ ميں کيا خيال ہے جس پر مالک اور اسکے اصحاب، شافعی اوراسکے اصحاب، اوزاعی اور ا سکے اصحاب، حسن بن صالح اور اسکے اصحاب، سفيان ثوری اور اسکے اصحاب، احمد بن حنبل اور اسکے اصحاب سب متفق ہوں ؟؟ تو وہ کہنے لگے اس سے زيادہ صحيح مسئلہ اور کوئی نہيں ہو سکتا
تو انہوں نے فرمايا: يہ سب ابو حنیفہ کو گمراہ قرار دينے پر متفق تھے
ملاحظہ فرمائیں:صفحه 527 جلد 15 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي، دار الغرب الإسلامي – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 383 - 384 جلد 13 - تاريخ بغداد (تاريخ مدينة السلام) - أبو بكر الخطيب البغدادي - دار الكتب العلمية، بيروت
محترم یہاں ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ایک مجتہد تھے نبی نہیں تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مجتہد سے اگر غلطی بھی ہو جائے تو اسے اجر ہی ملتا ہے اس کی پکڑ نہیں ہوتی۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ واقعی مجتہد ہو نام نہاد نہ ہو۔
اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی مغفرت کرے اور ان پر اپنی رحمہت نازل کرے! ان کو تو اجتہاد کا اجر ملنا ہو گا سو مل جائے گا!
مگر مقلدین ابو حنیفہ کو حدیث کر رد کر کے امام ابو حنیفہ کے گمراہ فتاوی کی پیروری کرنے پر کوئی اجر نہیں، ان پر اس کا گناہ ہی ہے!
کتب میں پڑھا ہے (اصل کتاب نہیں دیکھ سکا ) کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ زکوٰۃ کے مصارف میں کہتے تھے کہ جب تک قرآن میں درج تمام مصارف میں زکوٰۃ نہ دی جائے زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ عرصہ دراز تک ان کے اس فتویٰ پر عمل ہوتا رہا۔ ایک وقت آیا کہ ایک مصرف (غلام آزاد کرنا) معدوم ہو گیا۔ فقہ شافعی کے متبعین نے رجوع کر لیا کہ اس میں مجتہد کی خطا روزِ روشن کی طرح نظر آگئی۔ اسی طرح اگر کسی مجتہد کی خطا غیر مبہم اور بالکل واٖح ہوجائے اس پر کوئی دوسرا احتمال نہ رہے تو اس کو چھوڑ دیا جائے گا۔ اب اگر وہ اس کے ساتھ چمٹا رہتا ہے تو وہ اللہ جل شانہٗ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف ہوگا اور راندہ درگاہ ہوگا۔
کسی حنفی کی مقلد کی کتاب میں دیکھا ہے تو قابل اعتماد نہیں!
حنفیوں نے امام الشافعی رحمہ اللہ کیا، انہوں نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بہت باتیں جھوٹی منسوب کی ہیں! فتدبر!
باقی تفصیل اسحاق سلفی بھائی نے بیان کر دی ہے!
 
Last edited:

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
293
پوائنٹ
165
آپ نے شاید امام ابو حنیفہ کی فقہ شریف کا مطالعہ نہیں کیا ۔۔۔بس سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہوئے ’’ اوکاڑے والی بس ‘‘ پر آنکھیں بند کر کے سوار ہوگئے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم کیا کروں بندہ ناچیزنےدلائل کو اصل کتب میں دیکھنا شروع کر دیا یہ ساری ’قباحت‘ اسی سبب سے ہے۔اوکاڑہ جانے والے کو ’ڈھوک نواباں‘ کی بس پر بیٹھنا چاہئے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
محترم موضوع ’’ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے‘‘ کا ہے اور بحث فقہ حنفی کی کر رہے ہو!!!! کیا موضوع سے اکتا گئے ہو؟
والسلام
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم کیا کروں بندہ ناچیزنےدلائل کو اصل کتب میں دیکھنا شروع کر دیا یہ ساری ’قباحت‘ اسی سبب سے ہے۔اوکاڑہ جانے والے کو ’ڈھوک نواباں‘ کی بس پر بیٹھنا چاہئے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
محترم موضوع ’’ہر نماز میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے‘‘ کا ہے اور بحث فقہ حنفی کی کر رہے ہو!!!! کیا موضوع سے اکتا گئے ہو؟
والسلام
فقہ حنفی میں نماز نہیں ہوتی کیا۔
یا فقہاء احناف کافر و یہودی و نصاری و ہنود ہیں کہ ان کا ذکر نہیں ہو گا؟
مقلدین حنفیہ نماز نہیں پڑھتے کیا؟
کیا مقلدین حنفیہ کا نماز سے کوئی تعلق نہیں؟ کہ ان کا ذکر نہ ہو گا!

جی جناب! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو پڑھنا مقلدین حنفیہ پر بہت گراں گزرتا ہے، وہ تو تو دران نماز میں فقہ حنفیہ پر غور تدبر کو جائز بتلاتے ہیں!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
محترم کیا کروں بندہ ناچیزنےدلائل کو اصل کتب میں دیکھنا شروع کر دیا یہ ساری ’قباحت‘ اسی سبب سے ہے۔اوکاڑہ جانے والے کو ’ڈھوک نواباں‘ کی بس پر بیٹھنا چاہئے!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
یہی تو آپ کی سب بڑی ’’ بے راہ روی ‘‘ ہے :کہ آپ نے اپنی ’’ منزل ‘‘ اوکاڑہ کے راستے کوفہ سمجھ لیا ہے
جب کہ ’’ محدثین ،اہل حدیث پکار پکار آپ کوبلا رہے ہیں کہ سب کو مدینے جانا چاہیئے ،اور مدینے جانے والی سڑک اور گاڑی پہچان کر پکڑنی چاہیئے ۔
لیکن آپ ہیں کہ : پورا زور لگا کر دھینگا مشتی کر کے اوکاڑے والی پینچر ٹائر بسوں کے پیچھے بھاگے جا رہے ہیں ؛

اصل کتابوں میں مدینہ والا رستہ اور اس رستے کے کارواں کی پہچان وضاحت کے ساتھ موجود ہے
 
Top