- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
اب ہمیں ان تضادات کی طرف واپس چلنا چاہیے جو حرکت اور رفتار پر بات کرتے ہوئے ہمیں درپیش رہیں، اور کس طرح ہم نے حرکت اور رفتار کے قوانین کا اطلاق کیا جیسا کہ ہم اپنی روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں (یعنی رفتاریں جمع یا منفی کرتے ہیں).. مگر اضافیت کی مساواتوں نے بتایا کہ یہ بالکل درست نہیں، اور ان میں ایسی غلطیاں ہیں جو شاید ہمیں اپنی زمینی عادتوں کی وجہ سے نظر نا آئیں، مگر غلطی اس وقت بہت خطرناک ہوگی جب ہمارا واسطہ تیز تر کائناتی رفتاروں سے پڑے گا.. یہاں ایک چھوٹی سی مثال کافی ہوگی.. پہلے پیش کردہ سابقہ یاداشتوں کو ہم تازہ کرتے ہیں.. اور فرض کرتے ہیں کہ فہیم کا خلائی جہاز خلاء میں خراب ہوکر رک گیا ہے، شبانہ اپنے خلائی جہاز کے ساتھ اس کے پیچھے 180 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آئی اور اس کے پاس سے گزر گئی، اگلے ہی لمحے فہیم کے سامنے شبانہ کا خلائی جہاز 180 ہزار میل طے کرگیا، فہیم شبانہ کو روشنی کے ذریعے سگنل بھیجتا ہے جو شبانہ کے جہاز کے پیچھے 186 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے نکل پڑتا ہے، اس وقت اگر شبانہ روشنی کے سگنل کے سامنے 180 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے اسے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھے تو اسے سگنل کی روشنی اپنے پیچھے چھ ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے آتی ہوئی نظر نہیں آئے گی، بلکہ وہ اپنی اصل رفتار یعنی 186 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے اسے اپنی طرف آتی ہوئی نظر آئے گی، حالانکہ وہ روشنی کے سامنے 180 ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کر رہی ہے.
جو اضافیت کو نہیں جانتے ان کے لیے یہاں رفتاروں کو منفی کرنا ایک منقطی اور معقول بات ہے، اور یہی تضاد کا راز ہے.. حالانکہ اصل میں کوئی تضاد نہیں ہے.. کیونکہ ہم نے شبانہ کی نسبت وقت کی سست روی کو اپنے حساب میں شامل ہی نہیں کیا جیسا کہ فہیم کو یا ہمیں زمین سے نظر آرہا ہے.. کیونکہ شبانہ کے وقت کا ایک سیکنڈ ہمارے زمینی سیکنڈ کے طول سے مختلف ہے.. اس کے ہاں زمان کے پھیلاؤ اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ روشنی اس کی طرف اپنی عمومی رفتار سے ہی بڑھ رہی ہے.. جتنا وہ اس کے سامنے تیزی سے دوڑے گی، اتنا ہی اس کا وقت سست ہوتا جائے گا، اور ہمیں اپنے حساب کتاب میں زمان کے پھیلاؤ (یا سمٹاؤ) کی کمی پوری کرنی ہوگی تب ہمیں کسی قسم کا کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا.
ہم سیکنڈ کو ایک معینہ زمانی دورانیہ سمجھتے ہیں، مگر ہم اسے مسافت یا اپنے جانے پہچانے ابعاد میں سے کوئی بعد بھی تو سمجھ سکتے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ 186 ہزار میل کی مسافت ایک نوری سیکنڈ کے مساوی ہے، یا چاند ہم سے 1.3 نوری سیکنڈ دور ہے، اور ہم سے سب سے نزدیک ستارہ (سورج کے بعد) 4.3 نوری سال دور ہے (تقریباً 26 ملین ملین میل).. جیسے یہاں زمان کائناتی ابعاد میں سے ہی ایک بعد ہو، جو پھیلتا اور سکڑتا بھی ہے، مگر ہم اسے سکڑتا نہیں دیکھ سکتے جیسے ہم چوہے کو بلی کے سامنے سکڑتا دیکھتے ہیں، یا جیسے کوئی نیا کپڑا دھلنے کے بعد سکڑ جاتا ہے.. اب اگر وہ ہمیں نظر نہیں آتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ موجود نہیں.. اور اس کے موجود ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ ہمیں اس طرح نظر آئے جس طرح ہم وقت کو اپنی گھڑیوں میں دیکھتے ہیں.. حالانکہ ہم نے معاملات کو سہل بنانے کے لیے ان کا (گھڑیوں کا) استعمال ضرور کیا ہے.
جو اضافیت کو نہیں جانتے ان کے لیے یہاں رفتاروں کو منفی کرنا ایک منقطی اور معقول بات ہے، اور یہی تضاد کا راز ہے.. حالانکہ اصل میں کوئی تضاد نہیں ہے.. کیونکہ ہم نے شبانہ کی نسبت وقت کی سست روی کو اپنے حساب میں شامل ہی نہیں کیا جیسا کہ فہیم کو یا ہمیں زمین سے نظر آرہا ہے.. کیونکہ شبانہ کے وقت کا ایک سیکنڈ ہمارے زمینی سیکنڈ کے طول سے مختلف ہے.. اس کے ہاں زمان کے پھیلاؤ اسے یہ احساس دلاتا ہے کہ روشنی اس کی طرف اپنی عمومی رفتار سے ہی بڑھ رہی ہے.. جتنا وہ اس کے سامنے تیزی سے دوڑے گی، اتنا ہی اس کا وقت سست ہوتا جائے گا، اور ہمیں اپنے حساب کتاب میں زمان کے پھیلاؤ (یا سمٹاؤ) کی کمی پوری کرنی ہوگی تب ہمیں کسی قسم کا کوئی تضاد نظر نہیں آئے گا.
ہم سیکنڈ کو ایک معینہ زمانی دورانیہ سمجھتے ہیں، مگر ہم اسے مسافت یا اپنے جانے پہچانے ابعاد میں سے کوئی بعد بھی تو سمجھ سکتے ہیں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ 186 ہزار میل کی مسافت ایک نوری سیکنڈ کے مساوی ہے، یا چاند ہم سے 1.3 نوری سیکنڈ دور ہے، اور ہم سے سب سے نزدیک ستارہ (سورج کے بعد) 4.3 نوری سال دور ہے (تقریباً 26 ملین ملین میل).. جیسے یہاں زمان کائناتی ابعاد میں سے ہی ایک بعد ہو، جو پھیلتا اور سکڑتا بھی ہے، مگر ہم اسے سکڑتا نہیں دیکھ سکتے جیسے ہم چوہے کو بلی کے سامنے سکڑتا دیکھتے ہیں، یا جیسے کوئی نیا کپڑا دھلنے کے بعد سکڑ جاتا ہے.. اب اگر وہ ہمیں نظر نہیں آتا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ موجود نہیں.. اور اس کے موجود ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ ہمیں اس طرح نظر آئے جس طرح ہم وقت کو اپنی گھڑیوں میں دیکھتے ہیں.. حالانکہ ہم نے معاملات کو سہل بنانے کے لیے ان کا (گھڑیوں کا) استعمال ضرور کیا ہے.