• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم اضافیت اور کائنات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
زمان ومکان سے حرکت کے تعلق کی آسان مثال سفر کے ذرائع یعنی ٹرانسپورٹیشن ہے.. اگر ہم فرض کریں کہ اسی 80 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرنے والی ایک ٹرین جو بغیر رکے منظم رفتار سے کراچی سے ملتان کا سفر کرے، تو آپ وقت پر بھروسہ کر کے اس کے مکان (مقام) کا تعین کر سکتے ہیں، یا مکان پر بھروسہ کر کے وقت کا تعین کر سکتے ہیں.. مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ ڈیڑھ گھنٹے بعد ٹرین حیدر آباد سٹیشن سے گزرے گی، اور تین گھنٹے بعد روہڑی سے.. وغیرہ وغیرہ.

زمین کی اپنے گرد اور پھر سورج کے گرد گردش ہی ہمیں وقت کے گزرنے کا احساس دلاتی ہے، اگر یہ حرکت نا ہوتی، تو ہم وقت نامی کسی چڑیا کو نہ جانتے ہوتے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
وقت کا ناپ در حقیقت فضاء میں معینہ مقامات ہیں.. فجر، دوپہر یا غروب ما سوائے ہمارے اور سورج کے درمیان معینہ زاویوں کے اور کچھ نہیں.. یعنی زمین مکان میں حرکت کرتی ہے جس سے زمان ہوتا ہے.

آئن سٹائن سے پہلے سائنسدان وقت کو مطلق گردانتے تھے.. ایک ساکن چیز جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی، اس کے علاوہ وہ اپنی ذات میں مستقل تھا اور ایک منظم بہاؤ رکھتا تھا، اور کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وقت سست یا تیز ہوتا ہے یا رک بھی سکتا ہے.

یہاں فہیم ایک بار پھر کود کر کہہ سکتا ہے کہ: مگر میں کبھی کبھی پریشانی کے عالم میں محسوس کرتا ہوں کہ وقت میرے لیے بہت سست ہوگیا ہے، اور خوشی کے لمحات میں تیزی سے گزرتا ہے.. کبھی ایک منٹ ایک گھنٹہ لگتا ہے، اور کبھی ایک گھنٹہ ایک منٹ کے برابر گزرتا ہے.. یعنی وقت ایک منظم طریقے سے نہیں گزرتا.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
جیسے فہیم صاحب کائناتی زمان کو اپنے شعور اور احساس سے مربوط کرنا چاہتے ہوں، چنانچہ ان کی خوشی اور غمی کے لیے وہ تیز یا سست ہوتا ہو، دراصل ان کے یہ احساسات ایک نفسی چیز ہیں جو صرف انہی سے ہی مربوط ہیں، ان کا اس وقت سے کوئی تعلق نہیں جس کی ہم بات کر رہے ہیں.

آئن سٹائن نے جب زمان پر غور وخوض کیا تو زمان یا وقت کے متعلق ایک عجیب نتیجے پر پہنچا.. اس نے کہا کہ وقت ایک نسبتی چیز ہے، کائنات میں رفتار اور حرکت کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے ہم جن تضادات میں پڑے تھے اس کی وجہ ہمارا انجانے میں ایک غلطی میں پڑنا تھا.. ہم نے وقت کو ایک ساکن اور ناقابلِ تبدیلی چیز سمجھ کر غلطی کی.. مگر درحقیقت یہ متغیر اور نسبتی ہے، اور یہ حرکت پر بھروسہ کرتا ہے، اور حرکت کے مطابق تبدیل ہوتا ہے.. یعنی کائنات میں ہر کسی کو چاہیے کہ وہ اپنے وقت کا حساب اپنی حرکت کے ماحول کے حساب سے کرے، تاکہ بہت سارے تضادات سے بچا جاسکے، ورنہ وہ کائناتی قوانین پر عدم توازن کا الزام لگائے گا، حالانکہ کائناتی قوانین ہر جگہ ایک ہیں، مگر وہ ہمیں غیر متوازن لگتے ہیں جس کی وجہ ہماری کم علمی ہے.

یعنی آپ - کائناتی سطح پر - یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ اور وہ ایک ہی لمحے میں ہوئے، حالانکہ آپ نے دونوں کو ایک ہی لمحے ہوتے دیکھا تھا، اس کے علاوہ آپ واقعے کے وقوع پذیر ہونے کے مقام (مکان) کا تعین بھی نہیں کر سکتے.. کیونکہ زمان متغیر ہے.. اور مکان بھی متغیر ہے.. کائنات میں کوئی چیز اپنی جگہ پر ساکن نہیں ہے.. کیونکہ اس میں ہر چیز حرکت میں ہے اور ایک دوسرے کی نسبت منظم رفتار سے اپنے مقامات بدلتی رہتی ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اسی طرح آپ یہ یقین بھی نہیں دلا سکتے کہ یہ واقعہ اس واقعے سے پہلے واقع ہوا ہے، یا بعد میں اور پھر خاموش ہوجائیں، کیونکہ اس حالت میں آپ کی بات - ہمارے موضوع کے حساب سے - بے معنی ہے، ما سوائے اگر آپ اس ماحول کو اپنے ماحول سے متعین کردیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص اپنے ماحول کے حساب سے آپ کے برعکس دیکھے، کیونکہ آپ کا "پہلے" اس کے لیے "بعد" ہوسکتا ہے.

"یہاں" اور "وہاں" اور "گزشتہ کل" اور "کل" اور "اب" ایسے الفاظ ہیں جنہیں ہم صرف زمین پر اپنے ماحول کے حساب (نسبت) سے استعمال کرتے ہیں، یہ "لوکل" الفاظ ہم کائنات کے تمام ماحولوں کے لیے استعمال نہیں کر سکتے.. کیونکہ گزشتہ کل آنے والا کل ہوسکتا ہے، اور آنے والا کل گزشتہ کل بھی ہوسکتا ہے.. ہر کوئی اپنے ماحول کے حساب سے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
چلیے اسے ایک مثال سے واضح کرتے ہیں: فرض کرتے ہیں کہ فہیم اور شبانہ ایک فلکیات دان سے اس کی رصدگاہ میں ملنے جاتے ہیں تاکہ کائنات کے بارے میں اپنی معلومات میں اضافہ فرما سکیں، گفتگو کے دوران اچانک آسمان میں ایک ستارہ بڑے زور سے چمکتا ہے اور پھر پھٹ جاتا ہے، بالکل اسی وقت جب اس دھماکے کی تصویر ٹیلی سکوپ کے حساس کیمرے میں اترتی ہے شبانہ کو دل کا دورہ پڑتا ہے اور وہ اللہ کو پیاری ہوجاتی ہے.. تب فہیم ہاتھ سے ہاتھ ملتے ہوئے کہتا ہے: انا للہ و انا الیہ راجعون.. کیسا عجیب اتفاق ہے، ستارے کی زندگی کا خاتمہ بالکل اسی وقت ہوا جب شبانہ کی زندگی کا خاتمہ ہوا..!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
اس کے بعد پھر کبھی فہیم کی اس فلکیات دان سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ ان سے پوچھتا ہے کہ کیا وہ "علم نجوم" پر یقین رکھتے ہیں؟ فلکیات دان کہتا ہے کہ: آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟

فہیم: کیا آپ کو یاد ہے کہ شبانہ کی موت بالکل اسی وقت ہوئی تھی جس وقت وہ ستارہ آسمان میں پھٹ گیا تھا اور آپ کے آلات نےآسمان میں بالکل اسی جگہ اسے ریکارڈ کیا تھا؟

فلکیات دان: جی ہاں مجھے یاد ہے.. مگر اسی وقت اور آسمان میں اسی جگہ سے آپ کی کیا مراد ہے؟

فہیم: میرا سوال کافی واضح ہے.

فلکیات دان: اگر یہ بات ہے تو آپ کی سوچ غلط ہے.. نا تو ستارہ وہاں اپنی جگہ پر تھا، اور نہ ہی وہ اس وقت پھٹ کر ختم ہوا جب شبانہ کی موت ہوئی.. ستارہ اس کے مرنے کے 300 نوری سال پہلے مرا..!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
فہیم (حیرت سے): آپ کے کہنے کا کیا مطلب ہے؟

فلکیات دان: میرا مطلب ہے کہ ہمیں کائناتی واقعات کو شبانہ کی موت یا ہماری زمین پر ہو رہے کسی دوسرے واقعے سے منسلک نہیں کرنا چاہیے.. آپ کہہ سکتے ہیں کہ شبانہ کی موت ٹھیک اسی وقت ہوئی جب آپ سگریٹ جلا رہے تھے، یا ٹھیک اسی وقت ہوئی جب بجلی کڑکی، یا جب کوئی راکٹ زمین سے چاند کے سفر پر نکلا.. کیونکہ یہ سب زمینی واقعات ہیں جو ایک ہی ماحول میں وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ایک ہی زمینی وقت استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ ایک محدود فلک میں ہماری زمین کی حرکت ہے.. مگر جو ستارہ پھٹا وہ ہم سے 300 نوری سال دور تھا، اور اس کا ہم سے فاصلہ کوئی 1764000000000000 میل تھا، اس ستارے کے ساتھ کیا ہوا یہ ہم صرف اس کی روشنی کے ذریعے ہی جان سکتے ہیں جسے ہم تک پہنچنے میں 300 نوری سال لگے ہیں.. چنانچہ در حقیقت ہم ماضی بعید میں دیکھ رہے ہیں نا کہ وہ لمحہ جس میں شبانہ کی موت ہوئی.. یہاں "اب" کا مطلب ہے ماضی بعید.. اور اس کا برعکس بھی درست ہے.

فہیم: عکس بھی درست ہے.. اس کا کیا مطلب ہے؟

فلکیات دان: فرض کریں کہ ہمارا سورج پھٹ گیا ہے.. مگر ہمیں اس کی خبر آٹھ منٹ کے بعد ہوگی.. کیونکہ دھماکے کی خبر لانے والی روشنی 93 ملین میل کا سفر طے کر کے ہم تک پہنچے گی جو کہ سورج کی ہم سے دوری کی مسافت ہے (سورج کا ہم سے فاصلہ 8.3 نوری منٹ ہے)، مگر عطارد یہی واقعہ ہم سے پہلے دیکھے گا اور مریخ ہمارے بعد! (عطار ہمارے مقابلے میں سورج سے زیادہ نزدیک ہے اور مریخ ہمارے مقابلے میں سورج سے زیادہ دور ہے).

یا فرض کرتے ہیں کہ ایک ستارہ ہم سے ایک ہزار نوری سال دور ہے، اور اس ستارے کا ایک سیارہ بھی ہے جو اس کے گرد گردش کرتا ہے اور جس پر کوئی سمجھدار مخلوق رہتی ہے.. چنانچہ اگر ہمارا سورج 14 اگست 1947ء کو پھٹ جائے تو اس سیارے کی سمجھدار مخلوق یہ واقعہ 14 اگست 2947ء کو ہی ریکارڈ کر پائے گی.. یعنی ہمارے لیے اب یا کل کا مطلب ایک ایسا مستقبل ہے جس کی جڑیں تقریباً ایک ہزار سال تک پھیلی ہوئی ہیں، یا دس ہزار، ایک ملین یا شاید ایک بلین سال.. اور اس کا برعکس بھی درست ہے.
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
یہاں فہیم مسکراتے ہوئے کہتا ہے: تو مجھ پر اعتراض کیوں کیا جب میں نے آپ کو کہا کہ واقعہ اسی جگہ ہوا ہے؟

فلکیات دان: کیونکہ تمام اجرامِ فلکی منظم رفتار سے ایک دوسرے کی نسبت حرکت کرتے رہتے ہیں، اس لیے پوری کائنات میں کوئی چیز ساکن نہیں.. کیونکہ ان کی حرکت کے نتیجے میں ان کے مقامات ایک دوسرے کی نسبت بدلتے رہتے ہیں.. اگرچہ ہمیں معاملات کچھ اور لگتے ہیں.. چنانچہ وقت متغیر ہے، اور مکان یا مقام بھی متغیر ہے.. چنانچہ اس بنیاد پر کائنات میں ہر کسی کو چاہیے کہ وہ معاملات کو اپنے رہنے کے ماحول کے حساب سے ریکارڈ کرے، یعنی اپنے ماحول کے وقت، مقام اور حرکت کے حساب سے!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
خیر فہیم اور فلکیات دان کی بحث کو چھوڑ کر ہم زمان کی اضافیت پر بات کرتے ہیں جس طرح کہ آئن سٹائن نے اسے اپنی مساوات کے ذریعے پیش کیا جو دماغ کی چولیں تک ہلا دیتی ہے.. کیونکہ سائنسدان زمان، حرکت اور فضاء (مکان یا کائنات) کو جس طرح دیکھتے ہیں وہ ہمیں ان ظاہری حقائق سے بہت دور لے جاتا ہے جو ہمیں منطقی اور معقول لگتی ہیں جن پر کسی صورت بحث نہیں کی جاسکتی!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
ہر متحرک چیز اپنے ساتھ اپنا زمان یعنی وقت بھی لے جاتی ہے، اس سے ہمارا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے ہاتھ میں گھڑی باندھے ہوئے ہے یا "الارم" ساتھ لیے ہوئے ہے، یا اس طرح کا کوئی آلہ جن سے ہم وقت کو اپنی زمین پر ناپتے ہیں اور جنہیں ہم نے اپنی مرضی سے بنا کر ان میں سیکنڈ، منٹ اور گھنٹے شامل کر کے اپنی روز مرہ زندگی کی مناسبت سے ہم آہنگ کر لیا ہے، بلکہ یہاں ہمارا مطلب کائناتی زمان ہے.. یعنی ہم اس زمان کو نہیں دیکھ سکتے، حالانکہ وہ چاروں ابعاد کا ایک بعد ہے.. اس کے با وجود کہ ہم "چار ابعادی" دنیا میں رہتے ہیں - جیسا کہ آئن سٹائن کے استاد مینکوفسکی کہتے ہیں - اور ان کے بعد آئن سٹائن جس نے استاد کے خیال کو ترقی دی.. اور اس کے با وجود کہ یہ عجیب دنیا موجود ہے، ہم صرف تین ابعاد میں ہی دیکھ سکتے ہیں، کیونکہ زمانی بعد ہم سے اوجھل ہے، اگر وہ ہمارے سامنے منکشف ہوجائے تو شاید ہم مستقبل کے واقعات کو وقوع پذیر ہونے سے پہلے دیکھنے کے قابل ہوجائیں.. مگر در حقیقت زمانی بعد اس طرح کا بعد نہیں ہے جنہیں ہم اپنی زندگی میں جانتے ہیں، بلکہ یہ چار ابعادی کائنات میں بطور چوتھے بعد کے کسی نہ کسی طرح بُنا ہوا ہے، اور اگر اس بعد کی رفتار بڑھ جائے تو یہ سکڑ بھی سکتا ہے.. خیر فی الوقت یہ سب رہنے دیتے ہیں اور زمان کی مساوات کی طرف واپس جاتے ہوئے اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.
 
Top