• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم مسلمان ہیں، ہم امریکی ہیں، ہمیں امریکہ سے محبت ہے

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
اس حوالے سے کوئ ابہام نہيں رہنا چاہيے۔ امريکہ نے نا تو ماضی ميں دنيا بھر کے عام مسلمانوں کے خلاف جنگ کی ہے اور نا ہی مستقبل ميں مسلم امہ کے خلاف جنگ کا کوئ امکان موجود ہے۔​
یہ عام مسلمانوں سے آپکی مراد کیا وہ ہے جو امریکہ کے گن گاتے ہوں وہ عام ہیں اور جو امریکہ کو برا کہتے ہوں وہ خاص ہیں
اس طرح تو ہم بھی کہ سکتے ہیں کہ ہم نے بھی عام امریکیوں کے خلاف جنگ نہیں کی اسامہ رحمہ اللہ نے بھی عام امریکیوں کے خلاف جنگ نہیں کی بلکہ ان امریکی غالب نظام کے خلاف جنگ کی ہے جو امریکہ پہ غالب ہے
اگر آپ کہیں کہ بعض دفعہ عام امریکیوں کو بھی مارا گیا ہے تو بھائی وہ اگر داعش کر رہی ہو تو اسکی ہم بات نہیں کر رہے لیکن باقی مجاہدین کی طرف سے اگر کبھی عام امریکی مارے گئے ہوں تو وہ مجبوری میں مارے گئے ہوں گے اور ان پہ ہم یہی کہیں گے کہ ہمیں بس افسوس ہے جیسے آپ ہمارے اوپر ڈرون حملہ کرتے ہیں اور کئی بے گناہ معصوموں کو شہید کر دیتے ہیں جیسا کہ باجوڑ میں معصوم بچوں کو یا سلامہ میں معصوم فوجیوں کو شہید کیا گیا تو جواب میں خالی افسوس کر لیتے ہیں وہ بھی صرف کبھی کبھی

اگر آپ کی دليل کی بنياد عالمی دہشت گردی کے خلاف جاری مشترکہ کاوشوں ميں امريکی کردار کے حوالے سے ہے تو اس ضمن ميں يہ واضح رہے کہ امريکہ تن تنہا دہشت گردی کے خاتمے کی ان کوششوں ميں شريک نہيں ہے۔
ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح رہے کہ 68 ممالک پر مبنی اتحاد جو دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں ميں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، تاريخ کا سب سے بڑا اتحاد ہے۔ يہ ايک متنوع گروپ ہے جس ميں کئ سرکردہ اسلامی ممالک شامل ہيں اور اس گروپ کا ہر رکن سول اور عسکری کاوشوں ميں اپنا مخصوص کردار ادا کر رہا ہے۔​
جی ریکارڈ درست کروانے کی ضرورت نہیں الحمد للہ ہمارے پاس قرآن ہے اور صحیح احادیث ہیں جن میں جنگ خندق کا سارا احوال ذکر ہے کہ وہ کتنے ممالک کا اتحاد تھا کہ لوگوں کے سینے حلق میں آ گئے تھے

إِذْ جَاءُوكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الأَبْصَارُ وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا

جب وہ تمہارے اُوپر اور نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل (مارے دہشت کے) گلوں تک پہنچ گئے اور تم خدا کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے
مسلم ممالک سميت 23 اتحادی ممالک کے قريب نو ہزار سے زائد فوجی عراق اور شام ميں داعش کو شکست دينے کے ليے مل کر کاوشيں کر رہے ہيں۔ اپنے شراکت داروں کے تعاون اور باہم کاوشوں کے ذريعے داعش کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے کے عمل ميں اس عالمی اتحاد کو خاطر خواہ کاميابياں حاصل ہوئ ہيں۔ علاوہ ازيں داعش کے خلاف برسرپيکار قوتوں کی عسکری صلاحيتوں ميں اضافہ بھی ممکن ہو سکا ہے۔​
جی جنگ خندق میں منافقین بھی انہیں کے ساتھ تھے جو بظاہر مسلمان بنے ہوئے تھے یہ بھی ہمیں قرآن اور حدیث بتاتی ہے یہ نیچے آیت انہیں منافق مسلمانوں کے بارے ہی ہے


وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُرِيدُونَ إِلا فِرَارًا

اور جب کہ ان میں سے ایک جماعت کہنے لگی اے مدینہ والو! تمہارے لیے ٹھہرنے کا موقع نہیں سو لوٹ چلو، اور ان میں سے کچھ لوگ نبی سے رخصت مانگنے لگے کہنے لگے کہ ہمارے گھر اکیلے ہیں، اور حالانکہ وہ اکیلے نہ تھے، وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے۔

دنيا ميں پچاس سے زائد اسلامی ممالک موجود ہيں اور امريکہ کے ان ميں سے اکثر ممالک کے ساتھ باہمی تفہيم کی بنياد پر خوشگوار تعلقات قائم ہيں۔​
آپ کے تو ان پچاس مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات اس لئے ہیں کیونکہ وہ آپکے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں پس ان خوشگوار تعلقات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا
لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہمارے مجاہدین کے حقیقت میں آپ کے یورپی ممالک کی اس عوام کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں کہ جنکو آپ کے میڈیا نے اندھیرے میں نہیں رکھا ہوا
مثال کے لئے آپ کے سامنے ایوان ریڈلی ہے کہ جب وہ طالبان کی قید میں رہی اور اسنے آپکے میڈیا میں دکھائے جانے والے جعلی اسلام کی بجائے اپنی آنکھوں سے حقیقی اسلام کو دیکھا تو پھر اسکا وہی حال ہوا جو سیدنا طفیل دوسی رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کافروں نے انکے کانوں میں روئی ڈال دی تھی کہ وہ حقیقی اسلام کی باتیں نہ سن سکے اور ادھر ایوان ریڈلی کو بھی دھوکے باز میڈیا غلط اسلام دکھاتا رہا لیکن جب دونوں کو حقیقی اسلام نظر آیا تو پھر اللہ کے فرمان (قل جاء الحق وزھق الباطل جب حق آتا ہے تو باطل ٹھیر نہیں سکتا) کے مطابق دونوں کی زندگی ہی بدل گئی
یہ ہیں حقیقی خوشگوار تعلقات فواد صاحب
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
آپ اس بات کی کيا توجيہہ پيش کريں گے کہ ايک جانب تو يہ الزام لگايا جاۓ کہ امريکہ دنيا بھر ميں مسلمانوں کو کمزور کرنے کی سازش کر رہا ہے اور دوسری جانب امريکی سرحدوں کے اندر مسلمانوں کو ترقی کرنے کے وہ تمام مواقع بھی فراہم کيے جا رہے ہيں جو کسی بھی اور عام شہری کو ميسر ہوتے ہيں؟​
جی اسکے بارے اوپر بتایا ہے کہ مسلمانوں کو امریکہ میں جتنا بھی سکون فراہم کر دو مگر اگر تم ان مسلمانوں کے نبی ﷺ کے حوالے سے انکو سکون نہیں دے سکو گے تو میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ تم ایک بھی امریکی سچا مسلمان نہیں دکھا سکوں گے جو تم سے خوش ہو گا
یعنی تم ہم سے سب کچھ چھین لو ہماری ماوں بہنوں کو ہم سے چھین کر انکی عزتیں لوٹ لو انکو قتل کر دو مگر ہمارے نبی ﷺ کی حرمت کے معاملے میں تم خالی ہمارے ساتھ چارلی ایبڈو کے خلاف کھڑے ہو جاو تو میرے خیال میں اللہ کی قسم ہم میں سے سارے مسلمان تمھارے ہماری ماوں اور بہنوں کے ساتھ زنا تک کو بھول جائیں گے اور تمھیں معاف کر دیں گے
پھر بھلا بتاو کہ تمھارا یہ امریکی مسلمانوں کو سہولتیں دینا کس کام کا جب ان مسلمانوں کے جان مال عزت سب سے پیارے حبیب ﷺ کی حرمت کے خلاف کھڑے ہو


اب اپنے یہ احسان یاد نہ کروانا بلکہ اپنے امریکی آقاوں کو کہنا کہ وہ تمھیں اس دفعہ پوسٹیں کرنے کی تنخواہ دینے کی بجائے تمھارے نبی ﷺ کے گستاخ چارلی ایبڈو کے خلاف کھڑے ہو جائیں اگر تم واقعی مسلمان ہو جیسا کہ تم نے نام یہاں لکھا ہوا ہے


ویسے اس پہ سلفی حنفی بھائی نے پہلے لکھا ہے کہ ایک عورت کا بچہ ندی میں گر گیا تو وہ نکالنے کے لئے رو رہی تھی اور ایک امریکی رحم دل انسان نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنا خنجر نکالا اور اس ڈوبتے بچے کے سینے میں مار کر اسکو خنجر سے اٹھا کر ندی سے نکال دیا اور ماں کے آگے ڈال دیا سبحان اللہ کیا رحم ہے آپ لوگوں کا

بالکل اسی طرح چارلی ایبڈو کے ساتھ کھڑے ہو کر ہمارے دلوں میں خنجر مار کر ہم کو معیشت اور بے روزگاری کی ندی سے نکالنے کی باتیں کر رہے ہو
جاہلو ہمارے لئے یہ معیشت اور دنیاوی ترقی تو کیا ہماری مائیں بہنیں بھی محمد ﷺ کی ذات کی مقابلے میں ایک ذرہ کی وقعت نہیں رکھتیں تم کن خوابوں میں ہو
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
بالکل اسی طرح چارلی ایبڈو کے ساتھ کھڑے ہو کر ہمارے دلوں میں خنجر مار کر ہم کو معیشت اور بے روزگاری کی ندی سے نکالنے کی باتیں کر رہے ہو

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کی دليل غلط اور گمراہ کن معلومات کی بنياد پر ہے۔ امريکی حکومت کی جانب سے قتل جيسے جرم کی مذمت کا ہرگز يہ مطلب نہيں تھا کہ ہم نے اس جريدے ميں شائع ہونے والوں خاکوں کی حمايت کی تھی يا ان آراء اور خيالات کو درست قرار ديا تھا جن کی اس جريدے کے ذريعے تشہير کی جا رہی تھی۔

امريکی معاشرے کی بنياد آئين ميں وضع کيے گۓ قوانين اور ان کی روح پر استوار کی گئ ہے۔ امريکی صدر اور انکی انتظاميہ کا ہر حصہ آئين ميں درج حدود کا پابند ہے۔ يہ آئين اظہار راۓ کے حق اور مذہبی آزادی کے علاوہ ان معاملات ميں حکومت کی عدم مداخلت کو يقينی بناتا ہے۔

آزادی راۓ کے اظہار ميں يہ حق موجود ہے کہ اپنے مخصوص عقائد کے ضمن ميں گروہی وابستگي اور احتجاج کے ذريعے حکومت کے سامنے تحفظات کا اظہار کيا جاۓ۔

امريکی معاشرے ميں موجود مسلمانوں کو بھی يہی حقوق حاصل ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ امريکہ ميں موجود تمام اہم اسلامی تنظيموں نے اس واقعے پر اپنے بھرپور احتجاج کے باوجود اس حقيقت کو بھی تسليم کيا ہے کہ آزادی راۓ کے اظہار کے ضمن ميں قوانين موجود ہيں۔

اس ايشو کے حوالے سے يہی اصول امريکی صدر اور حکومت پر بھی لاگو ہوتا ہے۔

جيسا کہ ميں نے واضح کيا تھا کہ امريکی حکومت کسی بھی مذہب کے خلاف مبينہ بغض يا اختلاف کی بنياد پر اپنی پاليسياں تشکيل نہيں دے سکتی ہے۔

امريکہ ميں حکومتی سطح پر فيصلہ سازی کے عمل کا اختيار مسلمانوں، عيسائيوں، يہوديوں يا کسی اور عقيدے يا سوچ سے وابستہ کسی مخوص گروہ کے ہاتھوں ميں نہيں ہے۔ يہ تمام فيصلے امريکی شہری اپنے مذہبی عقائد سے قطع نظربحثيت مجموعی امريکی قوم کے مفادات کے تحفظ کے ليے اپنی مخصوص حيثيت ميں سرانجام ديتے ہيں۔​

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
یہ عام مسلمانوں سے آپکی مراد کیا وہ ہے جو امریکہ کے گن گاتے ہوں وہ عام ہیں اور جو امریکہ کو برا کہتے ہوں وہ خاص ہیں


مثال کے لئے آپ کے سامنے ایوان ریڈلی ہے کہ جب وہ طالبان کی قید میں رہی اور اسنے آپکے میڈیا میں دکھائے جانے والے جعلی اسلام کی بجائے اپنی آنکھوں سے حقیقی اسلام کو دیکھا تو پھر اسکا وہی حال ہوا جو سیدنا طفیل دوسی رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کافروں نے انکے کانوں میں روئی ڈال دی تھی کہ وہ حقیقی اسلام کی باتیں نہ سن سکے اور ادھر ایوان ریڈلی کو بھی دھوکے باز میڈیا غلط اسلام دکھاتا رہا لیکن جب دونوں کو حقیقی اسلام نظر آیا تو پھر اللہ کے فرمان (قل جاء الحق وزھق الباطل جب حق آتا ہے تو باطل ٹھیر نہیں سکتا) کے مطابق دونوں کی زندگی ہی بدل گئی
یہ ہیں حقیقی خوشگوار تعلقات فواد صاحب

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميرے ليے يہ امر خاصہ دلچسپ ہے کہ قريب ہر فورم پر برطانوی صحافی کے قبول اسلام کے واقعے کو اس دليل کے طور پر شہ سرخيوں کے ساتھ استعمال کيا جاتا ہے کہ اس سے طالبان کے حسن سلوک اور انسانی حقوق کے حوالے سے ان کی "عظيم" تاريخ کا ثبوت ملتا ہے۔ اس واقعے کو بنياد بنا کر طالبان کے خلاف دنيا بھر کی درجنوں غير جانب دار تنظيموں کی سينکڑوں رپورٹيں جو ايک دہائ کے عرصے پر محيط ہيں اور جن ميں افغان خواتين پر ڈھاۓ جانے والے بے شمار مظالم کی داستانيں رقم ہيں، انھيں يکسر نظر انداز کر ديا جاتا ہے۔

ليکن اسی منطق کے تحت ان فورمز پر وہ مسلمان جو امريکہ ميں مقيم رہے ہيں يا مختلف امريکی اداروں سے تعلقات کی بنا پر يہاں کے معاشرے کو سمجھتے ہيں، وہ اگر کسی بھی حوالے سے امريکہ کی تعريف ميں کوئ بات کريں تو انھيں فوری طور پر غدار قرار دے ديا جاتا ہے۔ کيا يہ دوہرا معيار نہيں ہے؟

مختلف اردو فورمز پر امريکہ ميں بسنے والے لاکھوں مسلمانوں اور ان کے امريکہ کے بارے ميں مثبت خيالات اور اس پر راۓ دہندگان کے تند وتيز جملے اس دوہرے معيار کو واضح کرتے ہيں۔

يہ امريکی حکومت نہيں ہے جسے اس عالمی ردعمل کے ليے ذمہ دار قرار ديا جا سکتا ہے جس کے بعد ان دہشت گردوں کی حقيقت ساری عالمی براداری پر واضح ہو چکی ہے۔ يہ وہ بے رحم مجرم ہيں جو لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے ليے خوف اور دہشت کا استعمال کرتے ہيں اور پھر نہتے شہريوں پر ظلم کر کے اس پر اتراتے بھی ہيں

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
آپ کے تو ان پچاس مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات اس لئے ہیں کیونکہ وہ آپکے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں پس ان خوشگوار تعلقات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

کيا يہ قابل فہم دليل ہے کہ امريکی حکومت کے پاس اتنے وسائل، اثر ورسوخ يا اس بات کی خواہش بھی ہے کہ دنيا کے پچاس سے زائد ممالک کے سياسی نظام کو اپنی مرضی سے چلاۓ، اس ميں تراميم کرے اور ضرورت پڑنے پر سرے سے سارا نظام ہی تبديل کر دے؟

امريکی عوام کی نمايندگی کرتے ہوۓ امريکی حکومت کو بيرون ممالک کی حکومتوں اور ان کے سربراہان کے ساتھ ميل جول بھی رکھنا پڑتا ہے، ان کے ساتھ تعلقات بھی استوار کرنے پڑتے ہيں اور مختلف معاملات پر ان کے ساتھ گفت و شنيد اور مذاکرت بھی کيے جاتے ہيں۔ اسی طرح دنيا کا نظام چلتا ہے۔ يہ ذمہ داری عوام اور اقوام کی ہوتی ہے کہ اپنے ملک کے سياسی نظام اور اس کی سمت کا تعين کريں۔

جہاں تک آپ کا يہ دعوی ہے کہ اسلامی ممالک کے حکمران امريکی شکنجے ميں ہيں تو اس ضمن ميں ميرا بھی ايک سوال ہے کہ مختلف ممالک ميں سياسی قائدين کے انتخاب کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

کون انھيں وہ مقام دلاتا ہے جہاں وہ ايک عالمی طور پر تسليم شدہ جمہوری طريقہ کار کے عين مطابق پورے ملک کے عوام کی اجتماعی راۓ کی ترجمانی کرنے کی پوزيشن ميں ہوتے ہيں؟

يہ امريکہ نہيں بلکہ مختلف ممالک کی عوام ہے جو خود اپنی ليڈرشپ کے ليے ذمہ دار ہيں۔
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ امريکہ اور اسلامی ممالک کے درميان تعلقات بہتر ہو سکتے ہيں اگر ہم اس قياس اور تاثر کی بنياد پر اسلامی ممالک کے قائدين کے ساتھ تعلقات منقطع کر ليں کہ ان کے فيصلے اور پاليسياں ان کے عوام کی اکثريت کی ترجمانی نہيں کرتيں؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

https://www.instagram.com/doturdu/

https://www.flickr.com/photos/usdoturdu/
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
طالبان کے خلاف دنيا بھر کی درجنوں غير جانب دار تنظيموں کی سينکڑوں رپورٹيں جو ايک دہائ کے عرصے پر محيط ہيں اور جن ميں افغان خواتين پر ڈھاۓ جانے والے بے شمار مظالم کی داستانيں رقم ہيں، انھيں يکسر نظر انداز کر ديا جاتا ہے۔
یہ نہ صرف جھوٹ بلکہ بہتان ہے کہ طالبان نے کسی عورت کے ساتھ بدتمیزی کی ہو۔
جو لوگ تقویٰ کی اس کسوٹی پر مأمور ہوں کہ کسی کے مال کو بھی نقصان نہ پہنچاتے ہوں بلکہ دوسروں کے مال کی حفاظت کرتے ہوں وہ ایسا قبیح عمل کیوں کر کرسکتے ہیں۔
جنہیں آپ غیر جانب دار کہتے ہیں ہمارے نزدیک وہ انتہائی نامعقول اور جھوٹی رپورٹس دینے کے مجرم ہیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
يہ وہ بے رحم مجرم ہيں جو لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے ليے خوف اور دہشت کا استعمال کرتے ہيں اور پھر نہتے شہريوں پر ظلم کر کے اس پر اتراتے بھی ہيں
’ بے رحم مجرموں ‘ کا ایک امریکی فوجی پر ’ ظلم ‘
ایک اور امریکی فوجی کی کہانی بھی ہے ، لیکن وہ بہر صورت ’ مظلوم ‘ نہیں تھا۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
یہ نہ صرف جھوٹ بلکہ بہتان ہے کہ طالبان نے کسی عورت کے ساتھ بدتمیزی کی ہو۔
جو لوگ تقویٰ کی اس کسوٹی پر مأمور ہوں کہ کسی کے مال کو بھی نقصان نہ پہنچاتے ہوں بلکہ دوسروں کے مال کی حفاظت کرتے ہوں وہ ایسا قبیح عمل کیوں کر کرسکتے ہیں۔
جنہیں آپ غیر جانب دار کہتے ہیں ہمارے نزدیک وہ انتہائی نامعقول اور جھوٹی رپورٹس دینے کے مجرم ہیں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

طالبان کے عام شہريوں بالخصوص خواتين کے خلاف مظالم کے ثبوت کے طور پر ميرے پاس بے شمار ويڈيوز اور تصاوير موجود ہيں ليکن ميں ايک پبلک فورم پر ان کی اشاعت مناسب نہيں سمجھتا کيونکہ اس فورم کے پڑھنے والوں ميں خواتين بھی شامل ہو سکتی ہيں۔ ليکن طالبان کا اصلی چہرہ دکھانے کے ليے آپ کو ايک لنک دے رہا ہوں۔ آپ ديکھ سکتے ہيں کہ يہ "سزا" ايک فٹ بال کے ميدان ميں دی گئ جسے طالبان فٹ بال کھيلنے پر پابندی لگانے کے بعد اسی مقصد کے ليے استعمال کرتے تھے۔

http://www.rawa.org/murder-w.htm

زرمينہ نامی افغان خاتون کے ساتھ جو سلوک کيا گيا اس واقعہ کی مکمل تفصيل آپ راوا کی ويب سائٹ پر پڑھ سکتے ہيں۔ راوا نامی يہ تنظيم امريکی يا کسی مغربی ملک ميں موجود انسانی حقوق کی تنظیم نہيں ہے۔ يہ افغانستان ميں موجود ايک نجی تنظيم ہے جو سال 1977 سے افغانستان میں فعال ہے۔

علاوہ ازيں، يہ تصور کہ طالبان عام شہريوں کی جانوں اور ان کے مالوں کی حفاظت کو عوام پر اپنے تسلط کو قائم کرنے سے زيادہ مقدم سمجھتے ہيں، ان کے ليڈر ملا عمر نے خود غلط ثابت کر ديا تھا۔

سال 2010 ميں اپنے ايک پيغام ميں انھوں نے اپنے جنگجوؤں کو اس بات کی تلقين کی تھی کہ اپنی کاروائيوں ميں افغان خواتين کو بھی نا بخشا جاۓ۔

http://www.longwarjournal.org/archives/2010/07/mullah_omar_orders_t.php

پھر سال 2011 ميں عيد پر اپنے پيغام ميں انھوں نے اس بات کو تسليم کر کے اس پر اظہار افسوس کيا تھا کہ افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کی بڑی وجہ طالبان کی کاروائياں ہيں۔
https://www.pakistantoday.com.pk/2012/08/18/nato-brands-mullah-omars-eid-message-insane/

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ليکن طالبان کا اصلی چہرہ دکھانے کے ليے آپ کو ايک لنک دے رہا ہوں۔ آپ ديکھ سکتے ہيں کہ يہ "سزا" ايک فٹ بال کے ميدان ميں دی گئ جسے طالبان فٹ بال کھيلنے پر پابندی لگانے کے بعد اسی مقصد کے ليے استعمال کرتے تھے۔
http://www.rawa.org/murder-w.htm
زرمينہ نامی افغان خاتون کے ساتھ جو سلوک کيا گيا اس واقعہ کی مکمل تفصيل آپ راوا کی ويب سائٹ پر پڑھ سکتے ہيں۔ راوا نامی يہ تنظيم امريکی يا کسی مغربی ملک ميں موجود انسانی حقوق کی تنظیم نہيں ہے۔ يہ افغانستان ميں موجود ايک نجی تنظيم ہے جو سال 1977 سے افغانستان میں فعال ہے۔
1999 کی اس تصویر یا ویڈیو سے کیا ثابت ہوتا ہے ؟ آپ جیسے لوگوں کے قوانین کے مطابق ہی ہر معاشرے کو حق ہے کہ وہ جس طرح کا معاشرہ چاہتا ہے ، اسے اپنی رائے کا پورا پورا حق ہے ،ویڈیو سے یہی سامنے آتا ہے کہ کسی کو سزائے موت دی گئی ہے ، اور سب کے سامنے دی گئی ہے ، اگر افغان باشندے واقعتا اس بات کو ظلم اور غلط تصور کرتے تھے ، تو انہوں نے ان لوگوں کو ظلم و جبر سے روکا کیوں نہیں ؟
امریکہ میں سزائیں نہیں ہوتیں ؟ وہ ہم سے یا افغانیوں سے مشورہ کرکے طے کی جاتی ہیں ؟
لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے سے باز رہیں ، اور دوسروں کے معاملات میں سمندر پار سے ٹانگ اڑانے سے گریز کریں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
سال 2010 ميں اپنے ايک پيغام ميں انھوں نے اپنے جنگجوؤں کو اس بات کی تلقين کی تھی کہ اپنی کاروائيوں ميں افغان خواتين کو بھی نا بخشا جاۓ۔
http://www.longwarjournal.org/archives/2010/07/mullah_omar_orders_t.php
پھر سال 2011 ميں عيد پر اپنے پيغام ميں انھوں نے اس بات کو تسليم کر کے اس پر اظہار افسوس کيا تھا کہ افغانستان ميں عام شہريوں کی ہلاکت کی بڑی وجہ طالبان کی کاروائياں ہيں۔​
https://www.pakistantoday.com.pk/2012/08/18/nato-brands-mullah-omars-eid-message-insane/
اپنے حلفاء کو مشورہ دیں ، خبریں گھڑا کریں ، لیکن ذرا عقلمندی سے ۔
اگر انہوں نے خود احکامات جاری کیے تھے، اور وہ انسان نہیں بلکہ درندے ہیں ، تو پھر ہلاکتوں پر ’ اظہار افسوس ‘ کیسا ؟
 
Top