• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہم نماز میں رفع الیدین کیوں کرتے ہیں !!!

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تقلید اہل الرائے کے موتیا کا علاج کروا کر اسی تھریڈ میں بھی کچھ احادیث نظر آجائیں گی!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
پھر فرصت تلاش کریں!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفات تک رفع الیدین کا ثبوت


تحریر : غلام مصطفے ظہیر امن پوری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور دو رکعتوں سے اٹھ کر، رفع الیدین کرتے تھے، اس کا ترک ثابت نہیں، دلائل ملاحظہ ہوں :
دلیل نمبر ①

❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع وإذا رفع راسه من الركوع رفعهما، ‏‏‏‏‏‏كذلك ايضا، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يفعل ذلك في السجود .

”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر دونوں ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے اور سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کہتے، سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔“
[صحیح بخاری : 102/1، ح : 735، 738، 738، صحیح مسلم : 168، ح : 390]
راوی حدیث کا عمل :
◈ سلیمان الشیبانی کہتے ہیں :
رأيت سالم بن عبد الله اذا افتتح الصّلاة رفع يديه، فلمّا ركع رفع يديه، فلمّا رفع رأسه رفع يديه، فسألته، فقال : رأيت أبى يفعله، فقال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله .

”میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر تابعی رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا، میں نے آپ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، میں نے اپنے باپ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کو ایسا کرتے دیکھا ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔“
[حديث السراج : 34/2- 35، ح : 115، وسندۂ صحيح]


سبحان اللہ ! کتنی پیاری دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تا وفات رفع الیدین کرتے رہے، راوی حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین ملاحظہ فرمایا، خود بھی رفع الیدین کیا، یہاں تک ان کے بیٹے سالم جو تابعی ہیں، وہ آپ کا رفع الیدین ملاحظہ کر رہے ہیں اور وہ خود بھی رفع الیدین کر رہے ہیں، اگر رفع الیدین منسوخ ہو گیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازیں ادا کرنے والے راوی حدیث صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اس نسخ کا علم کیسے نہ ہوا[URL='https://www.tohed.com/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%AA%D8%B1%DA%A9-%D8%B1%D9%81%D8%B9-%DB%8C%D8%AF%DB%8C%D9%86-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%D9%88-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D8%B3%DB%92-%D8%AB%D8%A7%D8%A8%D8%AA-%DB%81%DB%92%D8%9F/'][URL='https://www.tohed.com/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%AA%D8%B1%DA%A9-%D8%B1%D9%81%D8%B9-%DB%8C%D8%AF%DB%8C%D9%86-%D9%82%D8%B1%D8%A2%D9%86-%D9%88-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB-%D8%B3%DB%92-%D8%AB%D8%A7%D8%A8%D8%AA-%DB%81%DB%92%D8%9F/'] اور سینکڑوں سالوں بعد احناف کو کیسے ہو گیا ؟[/URL][/URL]
⟐ جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں :
”جو سنت کی محبت سے بلاشر و فساد آمین بالجہر اور رفع الیدین کرے، اس کو برا نہیں جا نتا“۔ [تذكرة الرشيد : 175/2]

”اے اللہ ! اے زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے تو جانتا ہے کہ ہم رفع الیدین اور آمین بالجہر محض تیرے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں !

دلیل نمبر ②

❀ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیس دن رہے، جب واپس جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا : صلّوا كما رأيتموني أصلّي ”نماز ایسے پڑھو، جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ [صحيح بخاري : 88/1 ح : 631]

راوی حدیث کا عمل :
◈ ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ سے روایت ہے :
أنه راى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا أراد أن يركع رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا رفع راسه من الركوع رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا .

”انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے، جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔“ [صحيح بخاري : 102/1، ح : 737، صحيح مسلم : 168/1، ح : 391]
صحابی رسول سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل مبارک تھا، ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تاوفات رفع الیدین کرتے رہے۔

دلیل نمبر ③

أنه راى النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏رفع يديه حين دخل في الصلاة كبر، ‏‏‏‏‏‏وصف همام حيال اذنيه، ‏‏‏‏‏‏ثم التحف بثوبه، ‏‏‏‏‏‏ثم وضع يده اليمنى على اليسرى، ‏‏‏‏‏‏فلما اراد ان يركع، ‏‏‏‏‏‏اخرج يديه من الثوب، ‏‏‏‏‏‏ثم رفعهما، ‏‏‏‏‏‏ثم كبر فركع، ‏‏‏‏‏‏فلما قال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده، ‏‏‏‏‏‏رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏فلما سجد، ‏‏‏‏‏‏سجد بين كفيه .

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا، پھر کپڑا لپیٹ لیا، دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہاتھ مبارک پر رکھا، جب رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے، پھر رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا :، جب (رکوع کے بعد) سمع الله لمن حمده کہا، تو رفع الیدین کیا، سجدہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔ [صحيح مسلم : 173/1، ح : 401]
واضح رہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ [عمدة القاري از عيني حنفي : 274/5]
ایک وقت کے بعد موسم سرما میں دوبارہ آئے اور رفع الیدین کا مشاہدہ کیا۔ [سنن ابي داود : 727، وسنده حسن]

دلیل نمبر ④
عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏ انه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر ورفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏ويصنع مثل ذلك إذا قضى قراءته واراد ان يركع، ‏‏‏‏‏‏ويصنعه إذا رفع من الركوع، ‏‏‏‏‏‏ولا يرفع يديه في شيء من صلاته وهو قاعد وإذا قام من السجدتين رفع يديه كذلك وكبر .

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت مکمل کر کے رکوع کا ارادہ کرتے تو رفع الیدین کرتے اور رکوع سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتے تھے، دو رکعتوں سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے اور اللہ اکبر کہتے تھے۔“ [سنن ابي داؤد : 744، مسند الامام احمد 93/1، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کہا ہے، امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ [584] نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
◈ راوی حدیث سلیمان بن داؤد الہاشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
هذا عندنا مثل حديث الزّ هري عن سالم عن أبيه
ہمارے نزدیک یہ اس طرح کی حدیث ہے جسے امام زہری سالم سے اور وہ اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔“ [سنن الترمذي، تحت حديث : 3423، وسنده صحيح]
اس کے راوی عبدالرحمٰن بن ابی الزناد جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہیں، جیسا کہ :
◈ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وهو ثقة عند الجمهور، وتكلّم فيه بعضهم بما لا يقدح فيه .

”وہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں، ان پر بعض نے ایسی کلام کی ہے جو موجب جرح نہیں۔“ [نتائج الافكار لا بن حجر : 304]
”مدینہ میں اس کی حدیث ”صحیح“ اور عراق میں ”مضطرب“ تھی، اس پر جرح اسی صورت پر محمول ہے، یہ روایت مد نی ہے۔“ والحمد لله !

دلیل نمبر ⑤
❀ ابوالزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أن جابر بن عبد الله‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏ كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا ركع، ‏‏‏‏‏‏وإذا رفع راسه من الركوع فعل مثل ذلك، ويقول:‏‏‏‏ رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل ذلك .

”سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے، جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔“ [سنن ابن ماجة : 868، وسنده صحيح]
ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس تابعی نے ”مسند السراج [92] “ میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
اب غور فرمائیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک تابعی سیدنا جابر صحابی رسول کو رفع الیدین کرتے دیکھ رہے ہیں اور صحابی رسول ا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک بتا رہے ہیں، اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا تھا تو صحابہ کرام آپ کی وفات کے بعد اس پر کاربند کیوں رہے ؟

دلیل نمبر ⑥

❀ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
هل أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فكبّر ورفع يديه، ثمّ كبّر ورفع يديه للرّكوع، ثمّ قال : سمع الله لمن حمده، ثم قال: هكذا فاصنعوا ولا يرفع بين السجدتين .

”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں، آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر اللہ اکبر کہا : اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر فرمایا، تم ایسا ہی کیا کرو ! آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ [سنن الدار قطني : 292/1، ح : 1111، وسنده صحيح]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ورجاله ثقات ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“ [التلخيص الحبير : 219/1]

اس حدیث سے ”بعض الناس“ کا یہ کہنا کہ ”9 مقامات پر رفع الیدین کا اثبا ت اور 18 مقامات پر نفی دکھاؤ“ ”باطل و مردود ٹھہرتا ہے، کیونکہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الیدین کر رہے ہیں، رفع الیدین والی نماز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قرار دے رہے ہیں، ہمیں بھی رفع الیدین کرنے کا حکم دے رہے ہیں، صحابہ کرام نے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا، وہا ں کیا، جہاں نہیں دیکھا، وہاں نہیں کیا۔

دلیل نمبر ⑦

سید
نا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نماز پڑ ھ کر دکھائی، نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا تو دس کے دس صحابہ کرام نے کہا :[URL='https://www.tohed.com/%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%81-%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B2-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB%D9%90-%D8%A7%D8%A8%D9%88-%D8%AD%D9%85%DB%8C/'][URL='https://www.tohed.com/%D8%B7%D8%B1%DB%8C%D9%82%DB%81-%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B2-%D8%B3%DB%92-%D9%85%D8%AA%D8%B9%D9%84%D9%82-%D9%85%D8%B4%DB%81%D9%88%D8%B1-%D8%AD%D8%AF%DB%8C%D8%AB%D9%90-%D8%A7%D8%A8%D9%88-%D8%AD%D9%85%DB%8C/'] صدقت، هكذا يصلّي النّبيّ صلى الله عليه وسلم ”آپ نے سچ کہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔“ [مسند الامام احمد : 424/5، سنن التر مذي : 304، وسنده صحيح][/URL][/URL]
◈ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کہا ہے۔
◈ امام ابن خزیمہ [587] امام ابن الجارود [192] ، امام ابن حبان [1865] ، نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

◈ حافظ خطابی [معالم السنن : 194/1] نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ”صحیح“ کہا ہے۔ [خلاصة الا حكام : 353]
◈ حافظ ابن قّیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
حديث أبى حميد هذا حديث صحيح متلقّي بالقبول، لا علّة له، وقد أعله قوم بما برأه الله أئمة الحديث منه، ونحن نذكر ما علّلوا به، ثمّ نبيّن فساد تعليلهم وبطلانه بعون الله . . . .

یہ حدیث صحیح ہے، اسے امت نے صحت و عمل کے لحاظ سے قبول کیا ہے، اس میں کوئی علت نہیں، ہاں ! اسے ایک قوم (احناف) نے ایسی علت کے ساتھ معلول کہا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ائمہ حدیث کو بری کر دیا ہے، ہم ان کی بیان کردہ علتوں کو ذکر کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے ان کا فاسد و باطل ہونا بیان کریں گے۔“ [تهذيب السنن لا بن القيم : 416/2]
◈ امام محمد بن یحییٰ الذہلی ابوعبداللہ النیسابوری رحمہ اللہ ( 258ھ) فرماتے ہیں :
”جو آدمی یہ حدیث سن لے اور پھر رکوع سے پہلے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہ کرے، اس کی نماز ناقص ہے۔“ [صحيح ابن خزيمة : 298/1، وسنده صحيح]


دلیل نمبر ⑧
امام ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابونعمان محمد بن فضل رحمہ اللہ کی اقتدار میں نماز پڑھی، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا : تو انہوں نے فرمایا، میں نے امام حماد بن زید رحمہ اللہ کی اقتدار میں نماز پڑھی، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا، میں نے امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ کی اقتدا ءمیں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے پوچھا : تو آپ نے فرمایا، میں امام عطاء بن ابی ربا ح کی اقتدار میں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے جب آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے فرمایا، میں نے (صحابی رسول) سیدنا عبد اللہ زبیر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھی، آپ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں، میں رفع الیدین کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرما یا، میں نے (اپنے نانا) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی، آپ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور (خلیفہ اول) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ء میں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین فرماتے تھے۔“ [السنن الكبرٰي للبيهقي : 73/2، وسنده صحيح]
◈ خود امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رواته ثقات . ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“

◈حافظ ذہبی رحمہ اللہ [المهذب فى اختصار السنن الكبير : 49/2] اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے راویوں کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔

قارئین کرام !

اس سنہری کڑی پر غور کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام، اور تابعین عظام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرتے تھے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس سنت کو اپنانے کی توفیق سے نوازے۔۔۔۔۔ آمين ياربّ العالمين !


تنبیہ :
◄ الامام الثقۃ ابوجعفر احمد بن اسحاق بن بہلول البغدادی رحمہ اللہ (م318) بیان کرتے ہیں :

”میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھے رہے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔“ [سنن دار قطني : 292/1، ح : 1112، وسنده صحيح]
جن لوگوں کے مذہب کی بنیاد بزرگوں کے خوابوں پر ہے، کیا وہ اس ثقہ امام کے خواب کی صورت میں ملنے والے نبوی عمل کو اپنانے کے لیے تیار ہیں ؟

الحاصل :

رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنت متواترہ ہے جس کا ترک یا نسخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ امت کا اسی پر عمل رہا ہے۔

والحمد للہ رب العالمین
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
کیا ترکِ رفع الیدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟


تحریر: شیخ الحدیث حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال : کیا ترک رفع یدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ؟
مقلدین کے ایک فتوی کے مطابق : ترک رفع یدین قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ رفع یدین پر ناراضگی اور ترک کا حکم۔ [1]

صریح دلائل کی روشنی میں جواب پیش فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب : بسم الله الرحمٰن الرحيم، جواب الجواب، امابعد :
رفع یدین کی بہت سی قسمیں ہیں، مثلاً
➊ تکبیر تحریمہ والا رفع یدین۔
➋ رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین۔
➌ سجدوں والا رفع یدین۔
➍ تشہد والا رفع یدین، جیسا کہ شیعہ حضرات کرتے ہیں۔
➎ دعا میں رفع یدین۔
➏ سر اور داڑھی کھجانے کے لئے رفع یدین [ !] وغیرہ وغیرہ

↰ ”غیر اہل حدیث“ صاحب نے اپنے دعوی ”ترک رفع یدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے“ میں یہ وضاحت نہیں کی کہ ”ترک رفع یدین“ سے ان کی کیا مراد ہے ؟ ظاہر ہے کہ علمی میدان میں مبہم اور غیر واضح دعوی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، ان غیر اہل حدیث صاحب کے مقابلے میں اہل حدیث کا دعوی صاف اور واضح ہے کہ :
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ اس دعویٰ کی دلیل کے لئے دیکھئے [صحيح بخاري 738] و [صحيح مسلم 390/22]

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات) کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ رفع یدین کرتے تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھئے [صحيح البخاري 739]
❀ تابعین عظام رحمہم اللہ بھی یہی رفع یدین کرتے تھے، مثلاً
◈ محمد بن سیرین [مصنف ابن ابي شيبه : 235/1 و سنده صحيح]
◈ ابوقلابہ [ايضا و سنده صحيح]
◈ وہب بن منبہ [مصنف عبدالرزاق : 69/2 و سنده صحيح]
◈ سالم بن عبداللہ بن عمر [جزء رفع يدين للبخاري : 62 وسنده حسن]
◈ قاسم بن محمد [ايضا : 62]
◈مکحول [ايضا : 62] وغیرھم رحمها اللہ اجمعین

↰ جو عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ رضی اللہ عنہ، تابعین رحمہ اللہ نے خیر القرون میں بلا انکار و نکیر کیا ہے جس کا ترک یا نسخ کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے لہذا اسے متروک و منسوخ قرار دینا اور ”ناراضگی“ کا دعویٰ کرنا علمی عدالت انصاف میں چنداں وزن نہیں رکھتا۔
↰ رکوع کرنے سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کے غیر متروک و غیر منسوخ ہونے کے بہت سے دلائل ہیں دیکھئے :
● کتاب ”نور العینین فی اثباترفع یدین“ اور
● امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کا ثابت شدہ رسالہ ”جزء رفع یدین۔“
فی الحال دو اہم دلیلیں پیش خدمت ہیں، جن میں رفع یدین کا دوام ثابت ہوتا ہے۔
اول : عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں جو شخص (مسنون) اشارہ کرتا ہے تو ہر اشارے کے بدلے ہر انگلی پر ایک نیکی یا درجہ ملتا ہے۔ [المعجم الكبير للطبراني ج 17 ص 297 ح 819 وسنده حسن]
↰ اسے حافظ الہیثمی نے ”اسنادہ حسن“ قرار دیا ہے۔ [مجمع الزوائد : 103/2]
↰ یہ روایت مرفوع حکماً ہے، بلکہ مرفوعاً بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ [السلسلة الصحيحة للشيخ الالباني رحمه الله 848/3 ح 3286 بحواله الفوائد لابي عثمان البحيري والديلمي 344/4]
↰ اس سے معلوم ہوا کہ رفع یدین ثواب کا کام ہے اور ہر (مسنون) رفع یدین پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ثواب اور نیکیوں والی روایتیں منسوخ نہیں ہوئی ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے خوب نیکیاں کمائیں۔

دوم : ابن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی (غیر صحابی) شخص کودیکھتے کہ رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین نہیں کرتا تو اسے کنکریوں سے مارتے تھے۔ [جزء رفع يدين : 15، وسنده صحيح]
↰ ظاہر ہے کہ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمانہ تابعین کے بعض لوگوں کو مار مار کر رفع یدین کرانا اس بات کی دلیل ہے کہ رفع یدین متروک و منسوخ بالکل نہیں ہوا۔

مقلدین کی دلیل :
حدیث نمبر 1 : عن جابر بن سمرة : قال خرج علينا رسول الله صلى الله تعالىٰ عليه وآلهٖ وسلم فقال مالي اراكم رافعي ايديكم كانها اذناب خيل شمس اسكنوا فى الصلوة۔ [صحيح ج 1 ص 181، ابوداود : ج 1 ص 150، نسائي ج 1 ص 176، طحاوي شريف ج 1 ص 158، مسند احمد ج 5 ص 93 و سنده صحيح]
”سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بن سمرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم کو نماز میں شریر گھوڑوں کی دم کی طرح رفع یدین کرتے کیوں دیکھتا ہوں نماز میں ساکن اور مطمئن رہو۔“ [2]

↰ جابر رضی اللہ عنہ بن سمرہ والی روایت میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کی صراحت نہیں ہے بلکہ بہت سے دلائل سے صاف ثابت ہے کہ یہ روایت رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں رکھتی، بعض دلائل درج ذیل ہیں :
① حدیث میں خود صراحت ہے کہ یہ رفع یدین تشہد میں سلام کے وقت والا تھا جیسا کہ اب بھی شیعہ حضرات کرتے ہیں۔ دیکھئے [صحيح مسلم ح 431/121، 120]
یعنی یہ حدیث شیعوں کے رد میں ہے، جسے عام دیوبندی و بریلوی اور بعض معتصب حنفی حضرات، اہل حدیث کے خلاف پیش کرنے لگے ہیں۔ شیعوں پر رد والی حدیث کو اہل حدیث کے خلاف فٹ کرنا انتہائی مذموم حرکت ہے۔
② مسند احمد میں اسی روایت میں آیا ہے کہ وهم قعود ”اور وہ بیٹھے ہوئے تھے۔“ [93/5 مختصر]
③ اس پر اجماع ہے کہ یہ روایت تشہد کے بارے میں ہے۔ [جزء رفع يدين : 37، التلخيص الحبير 221/1 ح 328]
↰ اور یہ بات عندالفریقین مسلم ہے کہ اجماع حجت ہے۔
④ محدثین کرام مثلاً امام نسائی، امام ابوداؤد وغیرھما نے اس پر سلام کے باب باندھے ہیں۔
⑤ کسی محدث نے یہ روایت ترک رفع یدین کے باب میں ذکر نہیں کی۔

مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں :
نماز تکبیر شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ [3] اسکے اندر کسی جگہ رفع یدین کرنا خواہ وہ دوسری، تیسری، چوتھی رکعت کے شروع میں یا رکوع میں جاتے یا سر اٹھاتے وقت ہو اس رفع یدین پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے اس کو جانوروں کے فعل سے تشبیہ بھی دی اس رفع یدین کو خلاف سکون بھی فرمایا اور پھر حکم دیا کہ نماز سکون سے یعنی بغیر رفع یدین کے پڑھا کرو، قرآن پاک میں نماز میں سکون کی تاکید ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں : ”قومواللہ قانتین ”خدا کے سامنے نہایت سکون سے کھڑے ہو [4]

⑥ جو کام ہمارے پیارے نبی سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اسے شریر گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دینا انتہائی غلط اور قابل مذمت ہے۔
⑦ علماء حق نے اس حدیث کو ترک یا نسخ کے استدلال کرنے والوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کے عمل کو جہالت کی سب سے بری قسم قرار دیا ہے۔ دیکھئے [المجموع شرح المهذب 403/4]
⑧ متعدد غیر اہلحدیث علماء کرام نے اس روایت کے ساتھ نسخ رفع الیدین پر استدلال کرنے والوں پر تنقید کی ہے، مثلاً :
◈ محمود الحسن رحمہ اللہ دیوبندی فرماتے ہیں :
باقي اذناب الخيل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے۔“[الوردالشذي على جامع الترمذي ص 63، تقارير سيدنا شيخ الهند ص 65]
◈ مفتی محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب فرماتے ہیں کہ :
”لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے۔“ [درس ترمذي : 36/2]
⑨ اگر اس حدیث سے مطلقا ہر رفع یدین کا نسخ یا منع ثابت کیا جاتا تو پھر حنفی، دیوبندی و بریلوی حضرات : تکبیر تحریمہ، وتر اور عیدین میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں ؟
⑩ اس حدیث کے راویوں مثلا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ میں سے ایک محدث سے بھی اس حدیث کی بنیاد پر رفع یدین کا منسوخ یا متروک قرار دیا جانا ثابت نہیں ہے۔

❀ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مابال الذين يرمون بأيديهم فى الصلوة كأنها أذناب الخيل الشمس الخ [مسند احمد 102/5 ح 21281 وسنده صحيح]
”انہیں کیا ہوگیا ہے کہ نماز میں ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہیں گویا شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں۔۔۔“ الخ
↰ اس سے معلوم ہوا کہ سلام کے بعد ہی نماز ختم ہوتی ہے۔

❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :
مفتاح الصلوة الطهور و احرامها التكبير و انقضاء ها التسليم
”وضو نماز کی کنجی ہے اور تکبیر اس کا احرام ہے، نماز سلام سے ختم ہوتی ہے۔“ [السنن الكبري للبيهقي 6/2 وسنده صحيح]
↰ معلوم ہواکہ سلام نماز میں داخل ہے۔

مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں:
دیکھو خدا اور رسول نے نماز میں سکون کا حکم فرمایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر رفع یدین کو سکون کے خلاف فرمایا۔
قانتين کا یہ مطلب کسی نے بھی بیان نہیں کیا کہ ”نماز میں مسنون رفع یدین نہیں کرنا چاہئے“، اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت باطل ہے، اگر قانتين کا یہی مطلب ہوتا تو پھر حنفیہ و دیوبندیہ و بریلویہ، تینوں گروہ عیدین، وتر اور تکبیر تحریمہ میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں ؟

تنبیہ بلیغ : دیوبندی و بریلوی حضرات کا یہ دعوی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں لہذا ان لوگوں پر یہ لازم ہے کہ خود مجتہد نہ بنیں بلکہ باسند صحیح اپنے مزعوم امام سے ثابت کریں کہ انہوں نے قوموالله قانتين ”اور حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین یا منسوخیت رفع یدین پر استدلال کیا ہے، اگر یہ لوگ اپنے دعوی تقلید کے باوجود اپنے امام سے استدلال ثابت نہ کر سکیں تو یہ اس کی واضح دلیل ہے کہ یہ لوگ خود مجتہد بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ لوگ نماز میں باتیں کرتے تھے۔ وقوموالله قانتين ”آیت نازل ہوئی اور لوگوں کو سکوت خاموشی کا حکم دیا گیا۔ [صحيح البخاري : 4534 و صحيح مسلم : 539]
↰ یعنی اس آیت کریمہ کا تعلق رفع یدین سے نہیں ہے بلکہ ”سکوت فی الصلوۃ“ سے ہے، یاد رہے کہ دل میں، زبان میں ہلا کر پڑھنا سکوت کے منافی نہیں ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکوت کے دوران اللهم باعدبيني الخ پڑھتے تھے [ديكهئے صحيح البخاري : 744 و صحيح مسلم : 598]
↰ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وقومواللہ قانتین پڑھتے تھے [تفسير ابن جرير 354/2 وسنده صحيح] اور خود رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [مصنف عبدالرزاق 69/2 ح 2523 و مصنف ابن ابي شيبه 235/1 ح 2431 و سنده صحيح، وجزء رفع اليدين للبخاري : 21 ومسائل احمد، رواية عبدالله : 244/1]
مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں:
حدیث نمبر 2 : قال ابن عباس الذين لا يرفعون ايديهم فى صلوتهم
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یعنی جو نمازوں میں رفع یدین نہیں کرتے۔ [مسند امام اعظم ص 227] [5]

[5] یہ روایت ”مسند امام اعظم“ میں مجھے نہیں ملی۔
مسند امام اعظم نامی کتاب کی سند کا دارومدار عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی پر ہے دیکھئے مقدمہ مسند امام اعظم اردو [ص26] و مسند امام اعظم عربی [ص27]
یہ حارثی مذکور کذاب اور وضع حدیث میں پورا استاد تھا دیکھئے میزان الاعتدال [296/2] ولسان المیزان [349، 348/3]اور الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث [ص 248 ت 411]
لہٰذا ”مسند امام اعظم“ کے نام سے سار ی کتاب موضوع اور من گھڑت ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کتاب سے بری ہیں۔ والحمدللہ

مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں:
حدیث نمبر 3: حدثنا عبدالله۔۔۔۔۔۔عن علقمة قال قال الا اصلي لكم صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فصلي فلم يرفع يديه الامرة۔ [مسند احمد ج 1 ص 442،388] حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دِکھاؤں چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور صرف ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔ [6]

[6] یہ روایت دووجہ سے ضعیف ہے۔
اول : سفیان ثوری مدلس ہیں۔
حنفیوں کے امام عینی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کے بارے میں لکھا ہے کہ :
وسفيان من المدلسين و المدلس لا يحتج بعنعنته إلا أن يثبت سماعه من طريق آخر [عمدة القاري ج3 ص 112 باب الوضوء من غير حدث]
یعنی سفیان (ثوری) مدلسین میں سے ہیں اور مدلس کا ”عن“ والی روایت حجت نہیں ہوتی الایہ کہ دوسری سند سے اس مدلس کی تصریح سماعت ثابت ہو جائے۔ سفیان ثوری ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔ [ديكهئے ميزان الاعتدال : 169/2 ت 3322]

◈ ابوبکر الصیر فی کتاب الدلائل میں لکھتے ہیں کہ :
كل من ظهر تدليسه عن غير الثقات لم يقبل خبره حتي يقول حدثني أو سمعت
”ہر وہ شخص جس کی غیر ثقہ سے تدلیس ظاہر ہوتو اس کی صرف وہی خبر قبول کی جائے گی جس میں وہ حدثني یاسمعت کے الفاظ کہے۔ [شرح الفية العراقي / التبصرة و التذكرة ج 1 ص 184، 185 والتأ سيس فى مسئله التدليس ص : 37مطبوعه محدث : جنوري 1996؁ء]
↰ اس سے بھی معلوم ہوا کہ سفیا ن ثوری رحمہ اللہ طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں۔

◈ امام حاکم رحمہ اللہ کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حافظ ابن حبان نے لکھا ہے :
وأما المدلسون الذين هم ثقات و عدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووامثل الثوري والأعمش وأبي إسحاق و أضرابهم
”اور وہ مدلس جو ثقہ و عادل ہیں جیسے (سفیان) ثوری، اعمش، ابواسحاق وغیرہم، تو ہم ان کی صرف انہی احادیث سے حجت پکڑتے ہیں جن میں سماع کی تصریح کرتے ہیں۔“ [الاحسان : 92/1، و نسخة محققه : 161/1]
تفصیلی بحث کے لئے نور العینین اور التأسیس پڑھ لیں۔

دوم : امام احمد، ابوحاتم الرازی، دارقطنی اور ابوداؤد وغیرہم جمہور محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے میری کتاب ”نور العینین فی مسئلہ رفع الیدین“ [ طبع قدیم ص 99، 97 وطبع دوم ص 119۔ 124 و طبع سوم ص 115۔ 119] رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کی صحیح روایات کے لئے صحیح بخاری و صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ و صحیح ابن حبان اور نظم المتناثر من الحدیث المتواتر [ص 97، 96] وغیرہ کتابوں کا مطالعہ کریں۔
اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
كل ما قلت۔۔۔۔ وكان عن النبى صلى الله عليه وسلم خلاف قولي مما يصح فحدث النبى صلى الله عليه وسلم أولي، ولا تقلدوني
”میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے زیادہ بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔“ [آداب الشافعي و مناقبه لابن ابي حاتم ص 51 وسنده صحيح]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفات تک رفع الیدین کا ثبوت


تحریر : غلام مصطفے ظہیر امن پوری
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت اور دو رکعتوں سے اٹھ کر، رفع الیدین کرتے تھے، اس کا ترک ثابت نہیں، دلائل ملاحظہ ہوں :
دلیل نمبر ①

❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع وإذا رفع راسه من الركوع رفعهما، ‏‏‏‏‏‏كذلك ايضا، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يفعل ذلك في السجود .

”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو کندھوں کے برابر دونوں ہاتھ اٹھاتے، جب رکوع کے لیے اللہ اکبر کہتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے تھے اور سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد کہتے، سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔“
[صحیح بخاری : 102/1، ح : 735، 738، 738، صحیح مسلم : 168، ح : 390]
راوی حدیث کا عمل :
◈ سلیمان الشیبانی کہتے ہیں :
رأيت سالم بن عبد الله اذا افتتح الصّلاة رفع يديه، فلمّا ركع رفع يديه، فلمّا رفع رأسه رفع يديه، فسألته، فقال : رأيت أبى يفعله، فقال : رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعله .

”میں نے سالم بن عبد اللہ بن عمر تابعی رحمہ اللہ کو دیکھا کہ انہوں نے جب نماز شروع کی تو رفع الیدین کیا، جب رکوع کیا تو رفع الیدین کیا اور جب رکوع سے سر اٹھایا تو رفع الیدین کیا، میں نے آپ سے اس بارے میں دریافت کیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا، میں نے اپنے باپ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) کو ایسا کرتے دیکھا ہے، انہوں نے فرمایا تھا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا تھا۔“
[حديث السراج : 34/2- 35، ح : 115، وسندۂ صحيح]


سبحان اللہ ! کتنی پیاری دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تا وفات رفع الیدین کرتے رہے، راوی حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع الیدین ملاحظہ فرمایا، خود بھی رفع الیدین کیا، یہاں تک ان کے بیٹے سالم جو تابعی ہیں، وہ آپ کا رفع الیدین ملاحظہ کر رہے ہیں اور وہ خود بھی رفع الیدین کر رہے ہیں، اگر رفع الیدین منسوخ ہو گیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازیں ادا کرنے والے راوی حدیث صحابی رسول سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اس نسخ کا علم کیسے نہ ہوا اور سینکڑوں سالوں بعد احناف کو کیسے ہو گیا ؟
⟐ جناب رشید احمد گنگوہی دیوبندی لکھتے ہیں :
”جو سنت کی محبت سے بلاشر و فساد آمین بالجہر اور رفع الیدین کرے، اس کو برا نہیں جا نتا“۔ [تذكرة الرشيد : 175/2]

”اے اللہ ! اے زمین و آسمان کو پیدا کرنے والے تو جانتا ہے کہ ہم رفع الیدین اور آمین بالجہر محض تیرے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں !

دلیل نمبر ②

❀ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیس دن رہے، جب واپس جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا : صلّوا كما رأيتموني أصلّي ”نماز ایسے پڑھو، جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ [صحيح بخاري : 88/1 ح : 631]

راوی حدیث کا عمل :
◈ ابوقلابہ تابعی رحمہ اللہ سے روایت ہے :
أنه راى مالك بن الحويرث إذا صلى كبر ورفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا أراد أن يركع رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا رفع راسه من الركوع رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صنع هكذا .

”انہوں نے سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، جب آپ نماز پڑھتے تو اللہ اکبر کہتے اور رفع الیدین کرتے، جب رکوع کو جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے اور بیان کرتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔“ [صحيح بخاري : 102/1، ح : 737، صحيح مسلم : 168/1، ح : 391]
صحابی رسول سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے حکم کے مطابق رفع الیدین کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی عمل مبارک تھا، ثابت ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تاوفات رفع الیدین کرتے رہے۔

دلیل نمبر ③

أنه راى النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏رفع يديه حين دخل في الصلاة كبر، ‏‏‏‏‏‏وصف همام حيال اذنيه، ‏‏‏‏‏‏ثم التحف بثوبه، ‏‏‏‏‏‏ثم وضع يده اليمنى على اليسرى، ‏‏‏‏‏‏فلما اراد ان يركع، ‏‏‏‏‏‏اخرج يديه من الثوب، ‏‏‏‏‏‏ثم رفعهما، ‏‏‏‏‏‏ثم كبر فركع، ‏‏‏‏‏‏فلما قال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده، ‏‏‏‏‏‏رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏فلما سجد، ‏‏‏‏‏‏سجد بين كفيه .

سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز میں داخل ہوئے تو رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا، پھر کپڑا لپیٹ لیا، دایاں ہاتھ مبارک بائیں ہاتھ مبارک پر رکھا، جب رکوع کا ارادہ کیا تو اپنے دونوں ہاتھ کپڑے سے نکالے، پھر رفع الیدین کیا اور اللہ اکبر کہا :، جب (رکوع کے بعد) سمع الله لمن حمده کہا، تو رفع الیدین کیا، سجدہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان کیا۔ [صحيح مسلم : 173/1، ح : 401]
واضح رہے کہ سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ 9 ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ [عمدة القاري از عيني حنفي : 274/5]
ایک وقت کے بعد موسم سرما میں دوبارہ آئے اور رفع الیدین کا مشاہدہ کیا۔ [سنن ابي داود : 727، وسنده حسن]

دلیل نمبر ④
عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏ انه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر ورفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏ويصنع مثل ذلك إذا قضى قراءته واراد ان يركع، ‏‏‏‏‏‏ويصنعه إذا رفع من الركوع، ‏‏‏‏‏‏ولا يرفع يديه في شيء من صلاته وهو قاعد وإذا قام من السجدتين رفع يديه كذلك وكبر .

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت مکمل کر کے رکوع کا ارادہ کرتے تو رفع الیدین کرتے اور رکوع سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتے تھے، دو رکعتوں سے اٹھ کر بھی رفع الیدین کرتے اور اللہ اکبر کہتے تھے۔“ [سنن ابي داؤد : 744، مسند الامام احمد 93/1، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کہا ہے، امام ابنِ خزیمہ رحمہ اللہ [584] نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔
◈ راوی حدیث سلیمان بن داؤد الہاشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
هذا عندنا مثل حديث الزّ هري عن سالم عن أبيه
ہمارے نزدیک یہ اس طرح کی حدیث ہے جسے امام زہری سالم سے اور وہ اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔“ [سنن الترمذي، تحت حديث : 3423، وسنده صحيح]
اس کے راوی عبدالرحمٰن بن ابی الزناد جمہور کے نزدیک ”ثقہ“ ہیں، جیسا کہ :
◈ حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وهو ثقة عند الجمهور، وتكلّم فيه بعضهم بما لا يقدح فيه .

”وہ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں، ان پر بعض نے ایسی کلام کی ہے جو موجب جرح نہیں۔“ [نتائج الافكار لا بن حجر : 304]
”مدینہ میں اس کی حدیث ”صحیح“ اور عراق میں ”مضطرب“ تھی، اس پر جرح اسی صورت پر محمول ہے، یہ روایت مد نی ہے۔“ والحمد لله !

دلیل نمبر ⑤
❀ ابوالزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أن جابر بن عبد الله‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏ كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا ركع، ‏‏‏‏‏‏وإذا رفع راسه من الركوع فعل مثل ذلك، ويقول:‏‏‏‏ رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل ذلك .

”سیدنا جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو رفع الیدین کرتے، جب رکوع کرتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح رفع الیدین کرتے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔“ [سنن ابن ماجة : 868، وسنده صحيح]
ابوالزبیر محمد بن مسلم بن تدرس تابعی نے ”مسند السراج [92] “ میں سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔
اب غور فرمائیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک تابعی سیدنا جابر صحابی رسول کو رفع الیدین کرتے دیکھ رہے ہیں اور صحابی رسول ا سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک بتا رہے ہیں، اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا تھا تو صحابہ کرام آپ کی وفات کے بعد اس پر کاربند کیوں رہے ؟

دلیل نمبر ⑥

❀ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
هل أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فكبّر ورفع يديه، ثمّ كبّر ورفع يديه للرّكوع، ثمّ قال : سمع الله لمن حمده، ثم قال: هكذا فاصنعوا ولا يرفع بين السجدتين .

”کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں، آپ رضی اللہ عنہ نے اللہ اکبر کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر اللہ اکبر کہا : اور رکوع کے لیے رفع الیدین کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا : اور رفع الیدین کیا، پھر فرمایا، تم ایسا ہی کیا کرو ! آپ دو سجدوں کے درمیان رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔ [سنن الدار قطني : 292/1، ح : 1111، وسنده صحيح]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ورجاله ثقات ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“ [التلخيص الحبير : 219/1]

اس حدیث سے ”بعض الناس“ کا یہ کہنا کہ ”9 مقامات پر رفع الیدین کا اثبا ت اور 18 مقامات پر نفی دکھاؤ“ ”باطل و مردود ٹھہرتا ہے، کیونکہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رفع الیدین کر رہے ہیں، رفع الیدین والی نماز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قرار دے رہے ہیں، ہمیں بھی رفع الیدین کرنے کا حکم دے رہے ہیں، صحابہ کرام نے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رفع الیدین کرتے دیکھا، وہا ں کیا، جہاں نہیں دیکھا، وہاں نہیں کیا۔

دلیل نمبر ⑦

سید
نا ابوحمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں نماز پڑ ھ کر دکھائی، نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے، رکوع سے سر اٹھاتے اور دو رکعتوں سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیا تو دس کے دس صحابہ کرام نے کہا : صدقت، هكذا يصلّي النّبيّ صلى الله عليه وسلم ”آپ نے سچ کہا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔“ [مسند الامام احمد : 424/5، سنن التر مذي : 304، وسنده صحيح]
◈ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ کہا ہے۔
◈ امام ابن خزیمہ [587] امام ابن الجارود [192] ، امام ابن حبان [1865] ، نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔

◈ حافظ خطابی [معالم السنن : 194/1] نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
◈ حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ”صحیح“ کہا ہے۔ [خلاصة الا حكام : 353]
◈ حافظ ابن قّیم الجوزیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
حديث أبى حميد هذا حديث صحيح متلقّي بالقبول، لا علّة له، وقد أعله قوم بما برأه الله أئمة الحديث منه، ونحن نذكر ما علّلوا به، ثمّ نبيّن فساد تعليلهم وبطلانه بعون الله . . . .

یہ حدیث صحیح ہے، اسے امت نے صحت و عمل کے لحاظ سے قبول کیا ہے، اس میں کوئی علت نہیں، ہاں ! اسے ایک قوم (احناف) نے ایسی علت کے ساتھ معلول کہا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے ائمہ حدیث کو بری کر دیا ہے، ہم ان کی بیان کردہ علتوں کو ذکر کریں گے، پھر اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے ان کا فاسد و باطل ہونا بیان کریں گے۔“ [تهذيب السنن لا بن القيم : 416/2]
◈ امام محمد بن یحییٰ الذہلی ابوعبداللہ النیسابوری رحمہ اللہ ( 258ھ) فرماتے ہیں :
”جو آدمی یہ حدیث سن لے اور پھر رکوع سے پہلے سر اٹھانے کے بعد رفع الیدین نہ کرے، اس کی نماز ناقص ہے۔“ [صحيح ابن خزيمة : 298/1، وسنده صحيح]


دلیل نمبر ⑧
امام ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابونعمان محمد بن فضل رحمہ اللہ کی اقتدار میں نماز پڑھی، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا : تو انہوں نے فرمایا، میں نے امام حماد بن زید رحمہ اللہ کی اقتدار میں نماز پڑھی، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا، میں نے امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ کی اقتدا ءمیں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے پوچھا : تو آپ نے فرمایا، میں امام عطاء بن ابی ربا ح کی اقتدار میں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے جب آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے فرمایا، میں نے (صحابی رسول) سیدنا عبد اللہ زبیر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھی، آپ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں، میں رفع الیدین کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرما یا، میں نے (اپنے نانا) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی، آپ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور (خلیفہ اول) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ء میں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین فرماتے تھے۔“ [السنن الكبرٰي للبيهقي : 73/2، وسنده صحيح]
◈ خود امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رواته ثقات . ”اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں۔“

◈حافظ ذہبی رحمہ اللہ [المهذب فى اختصار السنن الكبير : 49/2] اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کے راویوں کو ”ثقہ“ قرار دیا ہے۔

قارئین کرام !

اس سنہری کڑی پر غور کریں تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام، اور تابعین عظام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرتے تھے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس سنت کو اپنانے کی توفیق سے نوازے۔۔۔۔۔ آمين ياربّ العالمين !


تنبیہ :
◄ الامام الثقۃ ابوجعفر احمد بن اسحاق بن بہلول البغدادی رحمہ اللہ (م318) بیان کرتے ہیں :

”میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھے رہے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔“ [سنن دار قطني : 292/1، ح : 1112، وسنده صحيح]
جن لوگوں کے مذہب کی بنیاد بزرگوں کے خوابوں پر ہے، کیا وہ اس ثقہ امام کے خواب کی صورت میں ملنے والے نبوی عمل کو اپنانے کے لیے تیار ہیں ؟

الحاصل :

رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنت متواترہ ہے جس کا ترک یا نسخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ امت کا اسی پر عمل رہا ہے۔

والحمد للہ رب العالمین
آپ کی مذکورہ احادیث میں سے کوئی ایک بھی آپ کی رفع الیدین کی دلیل نہیں بنتی۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
کیا ترکِ رفع الیدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے ؟


تحریر: شیخ الحدیث حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ

سوال : کیا ترک رفع یدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ؟
مقلدین کے ایک فتوی کے مطابق : ترک رفع یدین قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ رفع یدین پر ناراضگی اور ترک کا حکم۔ [1]

صریح دلائل کی روشنی میں جواب پیش فرمائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب : بسم الله الرحمٰن الرحيم، جواب الجواب، امابعد :

رفع یدین کی بہت سی قسمیں ہیں، مثلاً
➊ تکبیر تحریمہ والا رفع یدین۔
➋ رکوع سے پہلے اور بعد والا رفع یدین۔
➌ سجدوں والا رفع یدین۔
➍ تشہد والا رفع یدین، جیسا کہ شیعہ حضرات کرتے ہیں۔
➎ دعا میں رفع یدین۔
➏ سر اور داڑھی کھجانے کے لئے رفع یدین [ !] وغیرہ وغیرہ

↰ ”غیر اہل حدیث“ صاحب نے اپنے دعوی ”ترک رفع یدین قرآن و حدیث سے ثابت ہے“ میں یہ وضاحت نہیں کی کہ ”ترک رفع یدین“ سے ان کی کیا مراد ہے ؟ ظاہر ہے کہ علمی میدان میں مبہم اور غیر واضح دعوی کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، ان غیر اہل حدیث صاحب کے مقابلے میں اہل حدیث کا دعوی صاف اور واضح ہے کہ :
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ اس دعویٰ کی دلیل کے لئے دیکھئے [صحيح بخاري 738] و [صحيح مسلم 390/22]

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی وفات) کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ رفع یدین کرتے تھے مثلا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیکھئے [صحيح البخاري 739]
❀ تابعین عظام رحمہم اللہ بھی یہی رفع یدین کرتے تھے، مثلاً
◈ محمد بن سیرین [مصنف ابن ابي شيبه : 235/1 و سنده صحيح]

◈ ابوقلابہ [ايضا و سنده صحيح]
◈ وہب بن منبہ [مصنف عبدالرزاق : 69/2 و سنده صحيح]
◈ سالم بن عبداللہ بن عمر [جزء رفع يدين للبخاري : 62 وسنده حسن]
◈ قاسم بن محمد [ايضا : 62]
◈مکحول [ايضا : 62] وغیرھم رحمها اللہ اجمعین
↰ جو عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ رضی اللہ عنہ، تابعین رحمہ اللہ نے خیر القرون میں بلا انکار و نکیر کیا ہے جس کا ترک یا نسخ کسی دلیل سے ثابت نہیں ہے لہذا اسے متروک و منسوخ قرار دینا اور ”ناراضگی“ کا دعویٰ کرنا علمی عدالت انصاف میں چنداں وزن نہیں رکھتا۔
↰ رکوع کرنے سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کے غیر متروک و غیر منسوخ ہونے کے بہت سے دلائل ہیں دیکھئے :
● کتاب ”نور العینین فی اثباترفع یدین“ اور
● امیر المؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کا ثابت شدہ رسالہ ”جزء رفع یدین۔“
فی الحال دو اہم دلیلیں پیش خدمت ہیں، جن میں رفع یدین کا دوام ثابت ہوتا ہے۔

اول : عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز میں جو شخص (مسنون) اشارہ کرتا ہے تو ہر اشارے کے بدلے ہر انگلی پر ایک نیکی یا درجہ ملتا ہے۔ [المعجم الكبير للطبراني ج 17 ص 297 ح 819 وسنده حسن]
↰ اسے حافظ الہیثمی نے ”اسنادہ حسن“ قرار دیا ہے۔ [مجمع الزوائد : 103/2]
↰ یہ روایت مرفوع حکماً ہے، بلکہ مرفوعاً بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ [السلسلة الصحيحة للشيخ الالباني رحمه الله 848/3 ح 3286 بحواله الفوائد لابي عثمان البحيري والديلمي 344/4]
↰ اس سے معلوم ہوا کہ رفع یدین ثواب کا کام ہے اور ہر (مسنون) رفع یدین پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور یہ بات عام لوگوں کو بھی معلوم ہے کہ ثواب اور نیکیوں والی روایتیں منسوخ نہیں ہوئی ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے خوب نیکیاں کمائیں۔
دوم : ابن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی (غیر صحابی) شخص کودیکھتے کہ رکوع سے پہلے اور بعد رفع یدین نہیں کرتا تو اسے کنکریوں سے مارتے تھے۔ [جزء رفع يدين : 15، وسنده صحيح]

↰ ظاہر ہے کہ وفات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمانہ تابعین کے بعض لوگوں کو مار مار کر رفع یدین کرانا اس بات کی دلیل ہے کہ رفع یدین متروک و منسوخ بالکل نہیں ہوا۔
مقلدین کی دلیل :
حدیث نمبر 1 : عن جابر بن سمرة : قال خرج علينا رسول الله صلى الله تعالىٰ عليه وآلهٖ وسلم فقال مالي اراكم رافعي ايديكم كانها اذناب خيل شمس اسكنوا فى الصلوة۔ [صحيح ج 1 ص 181، ابوداود : ج 1 ص 150، نسائي ج 1 ص 176، طحاوي شريف ج 1 ص 158، مسند احمد ج 5 ص 93 و سنده صحيح]

”سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بن سمرہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا میں تم کو نماز میں شریر گھوڑوں کی دم کی طرح رفع یدین کرتے کیوں دیکھتا ہوں نماز میں ساکن اور مطمئن رہو۔“ [2]
↰ جابر رضی اللہ عنہ بن سمرہ والی روایت میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کی صراحت نہیں ہے بلکہ بہت سے دلائل سے صاف ثابت ہے کہ یہ روایت رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین سے کوئی تعلق نہیں رکھتی، بعض دلائل درج ذیل ہیں :
① حدیث میں خود صراحت ہے کہ یہ رفع یدین تشہد میں سلام کے وقت والا تھا جیسا کہ اب بھی شیعہ حضرات کرتے ہیں۔ دیکھئے [صحيح مسلم ح 431/121، 120]

یعنی یہ حدیث شیعوں کے رد میں ہے، جسے عام دیوبندی و بریلوی اور بعض معتصب حنفی حضرات، اہل حدیث کے خلاف پیش کرنے لگے ہیں۔ شیعوں پر رد والی حدیث کو اہل حدیث کے خلاف فٹ کرنا انتہائی مذموم حرکت ہے۔
② مسند احمد میں اسی روایت میں آیا ہے کہ وهم قعود ”اور وہ بیٹھے ہوئے تھے۔“ [93/5 مختصر]

③ اس پر اجماع ہے کہ یہ روایت تشہد کے بارے میں ہے۔ [جزء رفع يدين : 37، التلخيص الحبير 221/1 ح 328]
↰ اور یہ بات عندالفریقین مسلم ہے کہ اجماع حجت ہے۔
④ محدثین کرام مثلاً امام نسائی، امام ابوداؤد وغیرھما نے اس پر سلام کے باب باندھے ہیں۔
⑤ کسی محدث نے یہ روایت ترک رفع یدین کے باب میں ذکر نہیں کی۔
مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں :
نماز تکبیر شروع ہوتی ہے اور سلام پر ختم ہوتی ہے۔ [3] اسکے اندر کسی جگہ رفع یدین کرنا خواہ وہ دوسری، تیسری، چوتھی رکعت کے شروع میں یا رکوع میں جاتے یا سر اٹھاتے وقت ہو اس رفع یدین پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے اس کو جانوروں کے فعل سے تشبیہ بھی دی اس رفع یدین کو خلاف سکون بھی فرمایا اور پھر حکم دیا کہ نماز سکون سے یعنی بغیر رفع یدین کے پڑھا کرو، قرآن پاک میں نماز میں سکون کی تاکید ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں : ”قومواللہ قانتین ”خدا کے سامنے نہایت سکون سے کھڑے ہو [4]

⑥ جو کام ہمارے پیارے نبی سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اسے شریر گھوڑوں کی دموں سے تشبیہ دینا انتہائی غلط اور قابل مذمت ہے۔
⑦ علماء حق نے اس حدیث کو ترک یا نسخ کے استدلال کرنے والوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے ان کے عمل کو جہالت کی سب سے بری قسم قرار دیا ہے۔ دیکھئے [المجموع شرح المهذب 403/4]

⑧ متعدد غیر اہلحدیث علماء کرام نے اس روایت کے ساتھ نسخ رفع الیدین پر استدلال کرنے والوں پر تنقید کی ہے، مثلاً :
◈ محمود الحسن رحمہ اللہ دیوبندی فرماتے ہیں :
باقي اذناب الخيل کی روایت سے جواب دینا بروئے انصاف درست نہیں کیونکہ وہ سلام کے بارے میں ہے۔“[الوردالشذي على جامع الترمذي ص 63، تقارير سيدنا شيخ الهند ص 65]

◈ مفتی محمد تقی عثمانی دیوبندی صاحب فرماتے ہیں کہ :
”لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ اس حدیث سے حنفیہ کا استدلال مشتبہ اور کمزور ہے۔“ [درس ترمذي : 36/2]

⑨ اگر اس حدیث سے مطلقا ہر رفع یدین کا نسخ یا منع ثابت کیا جاتا تو پھر حنفی، دیوبندی و بریلوی حضرات : تکبیر تحریمہ، وتر اور عیدین میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں ؟
⑩ اس حدیث کے راویوں مثلا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ میں سے ایک محدث سے بھی اس حدیث کی بنیاد پر رفع یدین کا منسوخ یا متروک قرار دیا جانا ثابت نہیں ہے۔
❀ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مابال الذين يرمون بأيديهم فى الصلوة كأنها أذناب الخيل الشمس الخ [مسند احمد 102/5 ح 21281 وسنده صحيح]

”انہیں کیا ہوگیا ہے کہ نماز میں ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہیں گویا شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں۔۔۔“ الخ
↰ اس سے معلوم ہوا کہ سلام کے بعد ہی نماز ختم ہوتی ہے۔
❀ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ :
مفتاح الصلوة الطهور و احرامها التكبير و انقضاء ها التسليم

”وضو نماز کی کنجی ہے اور تکبیر اس کا احرام ہے، نماز سلام سے ختم ہوتی ہے۔“ [السنن الكبري للبيهقي 6/2 وسنده صحيح]
↰ معلوم ہواکہ سلام نماز میں داخل ہے۔
مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں:
دیکھو خدا اور رسول نے نماز میں سکون کا حکم فرمایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر رفع یدین کو سکون کے خلاف فرمایا۔
قانتين کا یہ مطلب کسی نے بھی بیان نہیں کیا کہ ”نماز میں مسنون رفع یدین نہیں کرنا چاہئے“، اس سلسلے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب روایت باطل ہے، اگر قانتين کا یہی مطلب ہوتا تو پھر حنفیہ و دیوبندیہ و بریلویہ، تینوں گروہ عیدین، وتر اور تکبیر تحریمہ میں کیوں رفع یدین کرتے ہیں ؟

تنبیہ بلیغ : دیوبندی و بریلوی حضرات کا یہ دعوی ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد ہیں لہذا ان لوگوں پر یہ لازم ہے کہ خود مجتہد نہ بنیں بلکہ باسند صحیح اپنے مزعوم امام سے ثابت کریں کہ انہوں نے قوموالله قانتين ”اور حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے ترک رفع یدین یا منسوخیت رفع یدین پر استدلال کیا ہے، اگر یہ لوگ اپنے دعوی تقلید کے باوجود اپنے امام سے استدلال ثابت نہ کر سکیں تو یہ اس کی واضح دلیل ہے کہ یہ لوگ خود مجتہد بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ لوگ نماز میں باتیں کرتے تھے۔ وقوموالله قانتين ”آیت نازل ہوئی اور لوگوں کو سکوت خاموشی کا حکم دیا گیا۔ [صحيح البخاري : 4534 و صحيح مسلم : 539]
↰ یعنی اس آیت کریمہ کا تعلق رفع یدین سے نہیں ہے بلکہ ”سکوت فی الصلوۃ“ سے ہے، یاد رہے کہ دل میں، زبان میں ہلا کر پڑھنا سکوت کے منافی نہیں ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکوت کے دوران اللهم باعدبيني الخ پڑھتے تھے [ديكهئے صحيح البخاري : 744 و صحيح مسلم : 598]
↰ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وقومواللہ قانتین پڑھتے تھے [تفسير ابن جرير 354/2 وسنده صحيح] اور خود رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے۔ [مصنف عبدالرزاق 69/2 ح 2523 و مصنف ابن ابي شيبه 235/1 ح 2431 و سنده صحيح، وجزء رفع اليدين للبخاري : 21 ومسائل احمد، رواية عبدالله : 244/1]
مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں:
حدیث نمبر 2 : قال ابن عباس الذين لا يرفعون ايديهم فى صلوتهم

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں یعنی جو نمازوں میں رفع یدین نہیں کرتے۔ [مسند امام اعظم ص 227] [5]
[5] یہ روایت ”مسند امام اعظم“ میں مجھے نہیں ملی۔
مسند امام اعظم نامی کتاب کی سند کا دارومدار عبداللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی پر ہے دیکھئے مقدمہ مسند امام اعظم اردو [ص26] و مسند امام اعظم عربی [ص27]
یہ حارثی مذکور کذاب اور وضع حدیث میں پورا استاد تھا دیکھئے میزان الاعتدال [296/2] ولسان المیزان [349، 348/3]اور الکشف الحثیث عمن رمی بوضع الحدیث [ص 248 ت 411]
لہٰذا ”مسند امام اعظم“ کے نام سے سار ی کتاب موضوع اور من گھڑت ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کتاب سے بری ہیں۔ والحمدللہ
مقلدین اپنے فتوی میں کہتے ہیں:
حدیث نمبر 3: حدثنا عبدالله۔۔۔۔۔۔عن علقمة قال قال الا اصلي لكم صلوة رسول الله صلى الله عليه وسلم قال فصلي فلم يرفع يديه الامرة۔ [مسند احمد ج 1 ص 442،388] حضرت علقمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دِکھاؤں چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور صرف ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔ [6]

[6] یہ روایت دووجہ سے ضعیف ہے۔
اول : سفیان ثوری مدلس ہیں۔
حنفیوں کے امام عینی رحمہ اللہ نے سفیان ثوری کے بارے میں لکھا ہے کہ :
وسفيان من المدلسين و المدلس لا يحتج بعنعنته إلا أن يثبت سماعه من طريق آخر [عمدة القاري ج3 ص 112 باب الوضوء من غير حدث]

یعنی سفیان (ثوری) مدلسین میں سے ہیں اور مدلس کا ”عن“ والی روایت حجت نہیں ہوتی الایہ کہ دوسری سند سے اس مدلس کی تصریح سماعت ثابت ہو جائے۔ سفیان ثوری ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔ [ديكهئے ميزان الاعتدال : 169/2 ت 3322]
◈ ابوبکر الصیر فی کتاب الدلائل میں لکھتے ہیں کہ :
كل من ظهر تدليسه عن غير الثقات لم يقبل خبره حتي يقول حدثني أو سمعت

”ہر وہ شخص جس کی غیر ثقہ سے تدلیس ظاہر ہوتو اس کی صرف وہی خبر قبول کی جائے گی جس میں وہ حدثني یاسمعت کے الفاظ کہے۔ [شرح الفية العراقي / التبصرة و التذكرة ج 1 ص 184، 185 والتأ سيس فى مسئله التدليس ص : 37مطبوعه محدث : جنوري 1996؁ء]
↰ اس سے بھی معلوم ہوا کہ سفیا ن ثوری رحمہ اللہ طبقہ ثالثہ کے مدلس ہیں۔
◈ امام حاکم رحمہ اللہ کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ حافظ ابن حبان نے لکھا ہے :
وأما المدلسون الذين هم ثقات و عدول فإنا لا نحتج بأخبارهم إلا ما بينوا السماع فيما رووامثل الثوري والأعمش وأبي إسحاق و أضرابهم

”اور وہ مدلس جو ثقہ و عادل ہیں جیسے (سفیان) ثوری، اعمش، ابواسحاق وغیرہم، تو ہم ان کی صرف انہی احادیث سے حجت پکڑتے ہیں جن میں سماع کی تصریح کرتے ہیں۔“ [الاحسان : 92/1، و نسخة محققه : 161/1]
تفصیلی بحث کے لئے نور العینین اور التأسیس پڑھ لیں۔
دوم : امام احمد، ابوحاتم الرازی، دارقطنی اور ابوداؤد وغیرہم جمہور محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، دیکھئے میری کتاب ”نور العینین فی مسئلہ رفع الیدین“ [ طبع قدیم ص 99، 97 وطبع دوم ص 119۔ 124 و طبع سوم ص 115۔ 119] رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کی صحیح روایات کے لئے صحیح بخاری و صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ و صحیح ابن حبان اور نظم المتناثر من الحدیث المتواتر [ص 97، 96] وغیرہ کتابوں کا مطالعہ کریں۔

اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
◈ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
كل ما قلت۔۔۔۔ وكان عن النبى صلى الله عليه وسلم خلاف قولي مما يصح فحدث النبى صلى الله عليه وسلم أولي، ولا تقلدوني

”میری ہر بات جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف ہو (چھوڑ دو) پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سب سے زیادہ بہتر ہے اور میری تقلید نہ کرو۔“ [آداب الشافعي و مناقبه لابن ابي حاتم ص 51 وسنده صحيح]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترک رفع الیدین کا رد اس وقت جائز ہوگا جب آپ اپنی رفع الیدین کی صراحت ثابت کردو۔
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
تقلید اہل الرائے کے موتیا کا علاج کروا کر اسی تھریڈ میں بھی کچھ احادیث نظر آجائیں گی!
جنہیں دینی ابحاث کی تہذیب نا ہو انہیں ابحاث سے دور ہی رہنا چاہیئے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
رفع الیدین کی دلیل اور صراحت نظر نہ آنے کا سبب تقلید اہل الرائے کا موتیا ہے!
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
دلیل نمبر ②
❀ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیس دن رہے، جب واپس جانے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا : صلّوا كما رأيتموني أصلّينماز ایسے پڑھو، جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ [صحيح بخاري : 88/1 ح : 631]
کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے؟

دلیل نمبر ①
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع وإذا رفع راسه من الركوع رفعهما، ‏‏‏‏‏‏كذلك ايضا، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يفعل ذلك في السجود .
دلیل نمبر ③
أنه راى النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏رفع يديه حين دخل في الصلاة كبر، ‏‏‏‏‏‏وصف همام حيال اذنيه، ‏‏‏‏‏‏ثم التحف بثوبه، ‏‏‏‏‏‏ثم وضع يده اليمنى على اليسرى، ‏‏‏‏‏‏فلما اراد ان يركع، ‏‏‏‏‏‏اخرج يديه من الثوب، ‏‏‏‏‏‏ثم رفعهما، ‏‏‏‏‏‏ثم كبر فركع، ‏‏‏‏‏‏فلما قال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده، ‏‏‏‏‏‏رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏فلما سجد، ‏‏‏‏‏‏سجد بين كفيه .
دلیل نمبر ⑤
❀ ابوالزبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
أن جابر بن عبد الله‏‏‏‏‏‏‏‏‏‏ كان إذا افتتح الصلاة رفع يديه، ‏‏‏‏‏‏وإذا ركع، ‏‏‏‏‏‏وإذا رفع راسه من الركوع فعل مثل ذلك، ويقول:‏‏‏‏ رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل مثل ذلك .
دلیل نمبر ⑧
امام ابو اسماعیل محمد بن اسماعیل سلمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابونعمان محمد بن فضل رحمہ اللہ کی اقتدار میں نماز پڑھی، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا : تو انہوں نے فرمایا، میں نے امام حماد بن زید رحمہ اللہ کی اقتدار میں نماز پڑھی، انہوں نے نماز شروع کرتے وقت، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا، میں نے ان سے اس بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا، میں نے امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ کی اقتدا ءمیں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے پوچھا : تو آپ نے فرمایا، میں امام عطاء بن ابی ربا ح کی اقتدار میں نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، میں نے جب آپ سے اس بارے میں سوال کیا تو امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ نے فرمایا، میں نے (صحابی رسول) سیدنا عبد اللہ زبیر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھی، آپ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے، امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کہتے ہیں، میں رفع الیدین کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے سوال کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرما یا، میں نے (اپنے نانا) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی، آپ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے، رکوع جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور (خلیفہ اول) سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا ء میں نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے، رکوع کو جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین فرماتے تھے۔“ [السنن الكبرٰي للبيهقي : 73/2، وسنده صحيح]
◈ خود امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
پہلی بات تو یہ کہ ترجمہ میں بہت بڑی خامی ہے۔ خیر اس کو جانے دیں۔
اس میں آپ لوگوں کی وہ رفع الیدین مذکور نہیں جو تمام اہلسنت کی مخالف ہے یعنی تیسری رکعت کو اٹھتے وقت کی رفع الیدین۔

دلیل نمبر ⑥
❀ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
هل أريكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فكبّر ورفع يديه، ثمّ كبّر ورفع يديه للرّكوع، ثمّ قال : سمع الله لمن حمده، ثم قال: هكذا فاصنعوا ولا يرفع بين السجدتين .
اس میں رکوع سے اٹھتے وقت کی رفع الیدین بھی مذکور نہیں۔
یہ حدیث آپ کی دلیل کیسے بن گئی؟


دلیل نمبر ④
عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏ انه كان إذا قام إلى الصلاة المكتوبة كبر ورفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏ويصنع مثل ذلك إذا قضى قراءته واراد ان يركع، ‏‏‏‏‏‏ويصنعه إذا رفع من الركوع، ‏‏‏‏‏‏ولا يرفع يديه في شيء من صلاته وهو قاعد وإذا قام من السجدتين رفع يديه كذلك وكبر .
یہ روائیت بھی آپ لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتی کہ اس میں چند جگہوں کی رفع الیدین کا اثببات ہے باقی جگہوں سے انکار نہیں ہے۔
آپ اپنے عمل پر ایسی حدیث لائیں جس میں آپ کی رفع الیدین کے علاوہ کی ممانعت ثابت ہو۔


الحاصل :
رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی سنت متواترہ ہے جس کا ترک یا نسخ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، بلکہ امت کا اسی پر عمل رہا ہے۔

والحمد للہ رب العالمین
ترک تو آپ نے خود ہی پہلی دلیل میں ثابت کیا ہے۔
حدیث کے ملون الفاظ دیکھو

دلیل نمبر ①
❀ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يرفع يديه حذو منكبيه، ‏‏‏‏‏‏إذا افتتح الصلاة وإذا كبر للركوع وإذا رفع راسه من الركوع رفعهما، ‏‏‏‏‏‏كذلك ايضا، ‏‏‏‏‏‏وقال:‏‏‏‏ سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد، ‏‏‏‏‏‏وكان لا يفعل ذلك في السجود .
 
Last edited:
Top