صحابہ رضی اللہ عنہم نے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل اور فرمان عالی کے مقابلے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ جیسے بلند پایہ صحابہ کی باتوں کو رد کیا ہے جیسے کہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ قول موجود ہے:
(يوشك ان تنزل عليكم حجارة من السماء اقول: قال رسول الله ﷺ وتقولون: قال ابو بكر و عمر)
میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بات کرتے ہو، مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ آئے۔
جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما حج تمتع کو جائز سمجھتے تھے جبکہ ابو بکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما حج تمتع کے قائل نہیں تھے۔
یہ صورتحال دیکھ کر کسی نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ یہ دونوں بزرگ صحابہ تو حج تمتع کے قائل نہیں ہیں اور آپ اس کے قائل ہیں تو جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے لیے ابوبکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما کا طرز عمل حجت نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قول حجت ہے۔ میں تمہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی بات کرتے ہو۔ اگر تمہارا یہی طرزِ عمل و فکر رہا تو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش نہ ہو جائے۔
قارئین محترم!
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے تقلید کے رد میں اس بے مثال قول میں سوچنا چاہیئے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے انسان کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے، تو مقلدین کیسے ہوئے اور صحابہ کرام آج کے مقلدین کی طرح بے باک لوگ نہیں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے ساتھ طرح طرح کے ظلم کرتے ہیں۔ واللہ المستعان۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تقلید کی نحوستوں میں سے ایک نحوست یہ ہے کہ آدمی جھوٹ کہنے میں مبتلا کر دیتی ہے۔
السلام عليكم ورحمة الله محترم،
ایک اشکال آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں، اگر وہ دور کر دیں تو مہربانی ہوگی.
حضرت عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ خندق سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آئے تو آپ نے فوری طور پر بنو قریظہ کی طرف چلنے کا حکم دیا اور کہا کہ بنو قریظہ میں پہنچنے سے قبل کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے۔ بعض صحابہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ عصر کی نماز کا وقت آ گیا اور ان میں رائے کا اختلاف ہو گیا۔ ایک گروہ نے کہا کہ چونکہ ہمیں بنو قریظہ میں پہنچنے سے پہلے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، اس لیے ہم نماز نہیں پڑھیں گے۔ جب کہ دوسرے گروہ نے یہ کہہ کر نماز پڑھ لی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ نہیں تھا ،(بلکہ یہ تھا کہ ہم تیزی سے چلیں اور عصر سے پہلے بنو قریظہ میں پہنچ جائیں)۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ بعد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا تو آپ نے دونوں گروہوں میں سے کسی کو نہیں ڈانٹا.
اس حدیث کو اگر ہم دیکھیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی فہم حدیث کے حوالے سے اختلاف ہوا مگر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فریقین میں سے کسی کو غلط نہیں کہا. کیونکہ یہاں پر مقصد کسی کا بھی رسول اللہ صلي الله عليه وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہیں تھا بلکہ حدیث کو سمجھنے میں اختلاف ہوا تھا.
اب تو رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کے وصال کو تقریباً ساڑھے چودہ سو سال ہو چکے ہیں تو امت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ اختلافات کا ہونا فطری بات ہے. اور ہر شخص اس بات کی تائید کریگا کہ اختلاف کا ہونا بری بات نہیں ہے جبکہ دلیل ہم قرآن و سنت سے لیں اور ادب کے دائرے میں رہ کر ہر دو فریق اپنے دلائل سامنے رکھیں، بعد میں ایک دوسرے کا آپس میں متفق ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا، ہاں یہ ضروری ہے کہ تحمل اور احترام کے ساتھ ایک دوسرے کی بات کو سمجھا جائے.
نماز میں رفع الیدین کے مسئلے کی طرف اگر آئیں تو سب سے پہلی بات کہ یہ اصولی اختلاف نہیں، فروعی اختلاف ہے. دوسرا یہ کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین نہ کرنے کی احادیث بھی موجود ہیں اسلئے اس معاملے میں زیادہ شدت اختیار کرنا چاہے وہ مقلدین کی طرف سے ہو یا غیر مقلدین کی طرف سے صحیح نہیں اور نا ہی یہ کہنا درست ہے کہ مقلدین اگر رفع الیدین نہیں کرتے تو وہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی حدیث کی مخالفت میں ایسا کرتے ہیں نعوذباالله. رسول اللہ صلی الله عليه وسلم سے محبت تو مقلدین ہوں یا غیر مقلدین سب کرتے ہیں اسلئے اس قسم کی غیر منصفانہ باتوں کا شدت سے رد ہونا چاہئے.
اگر میں نے کوئی غلط بات کہی ہے تو اسے معاف فرما کر میری رہنمائی فرمائیں. جزاك الله خيرا