السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک اشکال آپ کے سامنے رکھ رہی ہوں، اگر وہ دور کر دیں تو مہربانی ہوگی.
حضرت عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ خندق سے فارغ ہو کر مدینہ واپس آئے تو آپ نے فوری طور پر بنو قریظہ کی طرف چلنے کا حکم دیا اور کہا کہ بنو قریظہ میں پہنچنے سے قبل کوئی عصر کی نماز نہ پڑھے۔ بعض صحابہ ابھی راستے ہی میں تھے کہ عصر کی نماز کا وقت آ گیا اور ان میں رائے کا اختلاف ہو گیا۔ ایک گروہ نے کہا کہ چونکہ ہمیں بنو قریظہ میں پہنچنے سے پہلے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے، اس لیے ہم نماز نہیں پڑھیں گے۔ جب کہ دوسرے گروہ نے یہ کہہ کر نماز پڑھ لی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ نہیں تھا ،(بلکہ یہ تھا کہ ہم تیزی سے چلیں اور عصر سے پہلے بنو قریظہ میں پہنچ جائیں)۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ بعد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا ذکر کیا گیا تو آپ نے دونوں گروہوں میں سے کسی کو نہیں ڈانٹا.
اس حدیث کو اگر ہم دیکھیں تو صحابہ رضی اللہ عنہم میں بھی فہم حدیث کے حوالے سے اختلاف ہوا مگر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فریقین میں سے کسی کو غلط نہیں کہا. کیونکہ یہاں پر مقصد کسی کا بھی رسول اللہ صلي الله عليه وسلم کے حکم کی خلاف ورزی نہیں تھا بلکہ حدیث کو سمجھنے میں اختلاف ہوا تھا.
ایسی کوئی بات اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں رفع الیدین کے متعلق بھی فرمائی ہو، تو ہمیں سر آنکھوں پر قبول ہوگی!
اور اگر ہر معاملہ پر اس حدیث کا اطلاق کر کے کہا جائے، کہ ہر ہر طریقہ جو امتی نے سمجھا ہے، وہ درست ہے، تو مجتہد کے مخطی ہونے کا معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے، اور تمام مجتہد ہر اجہاد میں مصیب ہی قرار پاتے ہیں، اور یہ محال ہے!
اب تو رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کے وصال کو تقریباً ساڑھے چودہ سو سال ہو چکے ہیں تو امت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے زیادہ اختلافات کا ہونا فطری بات ہے. اور ہر شخص اس بات کی تائید کریگا کہ اختلاف کا ہونا بری بات نہیں ہے جبکہ دلیل ہم قرآن و سنت سے لیں اور ادب کے دائرے میں رہ کر ہر دو فریق اپنے دلائل سامنے رکھیں، بعد میں ایک دوسرے کا آپس میں متفق ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا، ہاں یہ ضروری ہے کہ تحمل اور احترام کے ساتھ ایک دوسرے کی بات کو سمجھا جائے.
تحمل اور احترام کے ساتھ ساتھ سمجھانے کے لیئے کبھی ''ڈنڈے'' کی بھی ضرورت ہوتی ہے!
اور بعض الناس کو احترام ہضم نہیں ہوتا! انہیں، انہیں کے قبیل میں رکھنا چاہیئے!
نماز میں رفع الیدین کے مسئلے کی طرف اگر آئیں تو سب سے پہلی بات کہ یہ اصولی اختلاف نہیں، فروعی اختلاف ہے. دوسرا یہ کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفع الیدین نہ کرنے کی احادیث بھی موجود ہیں اسلئے اس معاملے میں زیادہ شدت اختیار کرنا چاہے وہ مقلدین کی طرف سے ہو یا غیر مقلدین کی طرف سے صحیح نہیں اور نا ہی یہ کہنا درست ہے کہ مقلدین اگر رفع الیدین نہیں کرتے تو وہ رسول اللہ صلی الله عليه وسلم کی حدیث کی مخالفت میں ایسا کرتے ہیں نعوذباالله. رسول اللہ صلی الله عليه وسلم سے محبت تو مقلدین ہوں یا غیر مقلدین سب کرتے ہیں اسلئے اس قسم کی غیر منصفانہ باتوں کا شدت سے رد ہونا چاہئے.
رفع الیدین عند الرکوع نہ کرنے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی صحیح حدیث موجود نہیں!
تمام نہیں لیکن مقلدین حنفیہ کی ایک قبیل رفع الیدین نہ کرنے پ مصر رہنے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت تو ایک طرف بلکہ اس سے بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مذاق واستہزاء بھی کرتی ہے!
یہ بھی ایک الگ موضوع ہے، کہ ''امام صاحب'' اور ان کی فقہ کی محبت سبقت لے جاتی ہے!