بعض الناس نے ایک حدیث (جسے گھمن صاحب نے ترک رفع الیدین کی دلیل نمبر دو میں درج کیا ہے) کو ضعیف قرار دے کر اس حدیث کو ناقابل قبول یعنی جھوٹی قرار دینے کی مذموم کوشش کی ہے۔
منکرین حدیث میں شامل ہونے کی اچھی کاوش ـــ :)
حدیث یہ ہے؛
سنن النسائي : [حكم الألباني: صحيح]
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «فَقَامَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ ثُمَّ لَمْ يُعِدْ»
بعض الناس کا کہنا ہے کہ اس میں ایک راوی سفیان ہے جو کہ مدلس ہے اور یہاں عن سے روایت کر رہا ہے لہٰذا یہ روایت قابل قبول نہیں۔
کیا سفیان کی وہ تمام روایات جو عن سے مروی ہوں وہ ناقابل قبول ہوں گی؟
یا صرف عاصم بن کلیب والی ہی؟