• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ہندو کا قرآنی آیت سے استدلال، کہ نعوذباللہ محمد رسول اللہ درست طریق پر نہ تھے۔

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
السلام علیکم

قرآن میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں۔
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾
'' اور اگر یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا ۔ تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے ۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔''
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ خود فرما رہے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری ( اللہ تعالیٰ) کی طرف کوئی جھوٹ بات منسوب کرتے، تو ہم اس ( محمد رسول اللہ ) کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ اور ظاہر ہے، شہ رگ کاٹنے سے وفات ہوجاتی۔

اب مسلمانوں میں دو قسم کے عقیدہ والے لوگ ہیں۔ ایک کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں۔ اور ایک کہتے ہیں کہ حیات ہیں۔لیکن دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ جو کہتے ہیں وفات پاچکے ہیں۔ ان کے نزدیک اس آیت سے کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نعوذباللہ ثم نعوذباللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ پر جھوٹیں باتیں منسوب کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فوت کردیا۔ اور جو کہتے ہیں کہ حیات ہیں۔لیکن دنیا سے پردہ فرما چکے ہیں۔ تو پھر پردہ فرمانے کا کیا مطلب؟ جب اللہ تعالیٰ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ بولتے ہی نہیں تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پردہ بھی نہ فرماتے۔

یہ ایک ہندو کا سوال ہے۔ ۔ براہ کرم مجھے قرآن وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت فرمائیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
وعلیکم السلام

سب سے پہلی بات یہ کسی کتاب لیا گیا ہے، اگر کتاب کا نام معلوم ہو جائے تو شاید جواب بھی اسی کے اگلے صفحے پر موجود ہو،
دوسری بات کیا اس ہندو نے قرآن کریم کی اس آیت کا ذکر نہیں کیا جس میں الله تعالی فرماتا ہے
كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ ۗ
ہر جان موت کا مزه چکھنے والی ہے
جب ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے تو کبھی نہ کبھی رسول الله علیہ وسلم کی وفات تو ہونی ہی تھی اس میں حیرانی والی کیا بات ہے؟؟!

تفسیر ابن کثیر
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ؀ۙ
اگر یہ پیغمبر ہماری نسبت کوئی بات جھوٹ بنا لائے
لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ 45؀ۙ
تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے
ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ 46؀ڮ
پھر ان کی رگ گردن کاٹ ڈالتے
یہاں فرمان باری ہے کہ جس طرح تم کہتے ہو اگر فی الواقع ہمارے یہ رسول ایسے ہی ہوتے کہ ہماری رسالت میں کچھ کمی بیشی کر ڈالتے یا ہماری نہ کہی ہوئی بات ہمارے نام سے بیان کر دیتے تو یقیناً اسی وقت ہم انہیں بدترین سزا دیتے یعنی اپنے دائیں ہاتھ سے اس کا دائیاں ہاتھ تھام کر اس کی وہ رگ کاٹ ڈالتے جس پر دل معلق ہے اور کوئی ہمارے اس کے درمیان بھی نہ آ سکتا کہ اسے بچانے کی کوشش کرے، پس مطلب یہ ہوا کہ حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سچے پاک باز رشد و ہدایت والے ہیں اسی لئے اللہ نے زبردست تبلیغی خدمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپ رکھی ہے اور اپنی طرف سے بہت سے زبردست معجزے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق کی بہترین بڑی بڑی نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت فرما رکھی ہیں ۔ پھر فرمایا یہ قرآن متقیوں کے لئے تذکرہ ہے، جیسے اور جگہ ہے کہدو یہ قرآن ایمانداروں کے لئے ہدایت اور شفا ہے اور بے ایمان تو اندھے بہرے ہیں ہی، پھر فرمایا باوجود اس صفائی اور کھلے حق کے ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اسے جھوٹا بتلاتے ہیں، یہ تکذیب ان لوگوں کے لئے قیامت کے دن باعث حسرت و افسوس ہو گی، یا یہ مطلب کہ یہ قرآن اور اس پر ایمان حقیقتاً کفار پر حسرت کا باعث ہو گا، جیسے اور جگہ ہے، اسی طرح ہم اسے گنہگاروں کے دلوں میں اتارتے ہیں پھر وہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔ اور جگہ ہے ( وَحِيْلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُوْنَ كَمَا فُعِلَ بِاَشْيَاعِهِمْ مِّنْ قَبْلُ ۭ اِنَّهُمْ كَانُوْا فِيْ شَكٍّ مُّرِيْبٍ 54؀ۧ) 34- سبأ:54) ان میں اور ان کی خواہش میں حجاب ڈال دیا گیا ہے، پھر فرمایا یہ خبر بالکل سچ حق اور بیشک و شبہ ہے، پھر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ اس قرآن کے نازل کرنے والے رب عظیم کے نام کی بزرگی اور پاکیزگی بیان کرتے رہو ۔ اللہ کے فضل سے سورہ الحاقہ کی تفسیر ختم ہوئی۔
تفسیر احسن البیان
وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ 44 ؀ۙ
اور اگر یہ ہم پر کوئی بات بنا لیتا (١)
٤٤۔١ یعنی اپنی طرف سے گھڑ کر ہماری طرف منسوب کر دیتا، یا اس میں کمی بیشی کر دیتا، تو ہم فوراً اس کا مؤاخذہ کرتے اور اسے ڈھیل نہ دیتے جیسا کہ اگلی آیات میں فرمایا۔
لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ 45؀ۙ
تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے (١)
٤٥۔١ یا دائیں ہاتھ کے ساتھ اس کی گرفت کرتے، اس لئے کہ دائیں ہاتھ سے گرفت زیادہ سخت ہوتی ہے۔ اور اللہ کے دونوں ہاتھ ہی دائیں ہیں۔
ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ 46؀ڮ
پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے (١)
٤٦۔١ خیال رہے یہ سزا، خاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ضمن میں بیان کی گئی ہے جس سے مقصد آپ کی صداقت کا اظہار ہے۔ اس میں یہ اصول بیان نہیں کیا گیا ہے کہ جو بھی نبوت کا جھوٹا وعدہ کرے تو جھوٹے مدعی کو ہم فورا سزا سے دوچار کردیں گے لہذا اس سے کسی جھوٹے نبی کو اس لیے سچا باور نہیں کرایا جاسکتا کہ دنیا میں وہ مؤخذہ الہی سے بچا رہا۔
فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْهُ حٰجِـزِيْنَ 47؀
پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا (١)
٤٧۔١ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول تھے، جن کو اللہ نے سزا نہیں دی، بلکہ دلائل و معجزات اور اپنی خاص تائید و نصرت سے انہیں نوازا۔
 

بابر تنویر

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 02، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
692
پوائنٹ
104
دوستو، ان دونوں باتوں کا مدلل جواب تو علماء بہتر انداز سے دے سکتے ہیں۔ لیکن اگر مجھ سے یہ سوال کیا جاتا تو میرا جواب کچھ اس طرح ہوتا
ذرا اس آیت کے الفاظ پر غور فرما لیجیۓ :
اور اگر یہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہم پر کوئی بھی بات بنا لیتا ۔ تو البتہ ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے ۔ پھر اس کی شہ رگ کاٹ دیتے۔''
ایک جواب تو سیدھا سادا ہے کہ کیا آپ کی وفات شہ رگ کاٹے جانے سے ہوئ؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ بلکہ آپ کی وفات طبعی طور پر ہوئ۔ تو اس آیت سے ان کا استدلال باطل ثابت ہوتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر تھے اور بشر ہونے کی حیثیت سے ان کی دنیاوي زندگي تو ایک مقررہ وقت تک ہی تھی۔ جس کا ذکر تو قران پاک میں ہی موجود ہے۔
سورہ غافر کی آيت نمبر 77۔
فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ ۚ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ
پھر صبر کر بے شک الله کا وعدہ سچا ہے پھر جس (عذاب) کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں کچھ تھوڑا سا اگر ہم آپ کو دکھا دیں یا ہم آپ کو وفات دے د یں تو ہماری طرف ہی سب لوٹائے جائیں گے
اسی طرح سورہ الزمر کی آیت نمبر 30
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ
بے شک آپ کو بھی مرنا ہے اور ان کو بھی مرنا ہے
ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نبئ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ اے نبئ اس دنیا میں آپ کا قیام بالکل اسی طرح عارضی ہے جس طرح کسی دوسرے انسان کا۔ اور ان آيات سے آپ کا پردہ فرمانے والا نظریہ بھی باطل ثابت ہوتا ہے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
سمپل سی بات ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالی نے ایک دوسرا پہلو دکھایا ہے۔جیسا کہ اور بھی بہت سی جگہ پر ایسا کیا گیا۔
اور دوسری بات یہ ہے کہ اس کی تردید ٖقرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے کہ جو کہ تکمیل قرآن کے حوالے سے نازل ہوئی یعنی اللہ نے اپنے نبی پر دین کو مکمل کیا۔۔۔۔
اور اس موقعہ پر وہاں موجود سب صحابہ نے آپ کی تصدیق کی۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
و علیکم السلام و رحمۃ اللہ۔۔۔ جس ہندو نے یہ اعتراض کیا ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ پاگل ہے، اور اس قسم کے لوگوں کو علمی انداز سے سمجھائی بات سمجھ نہیں آتی۔ آپ اس سے صرف اتنا کہیئے کہ:

" اگر آپ کے والد آپ کی والدہ محترمہ سے کہیں کہ اگر تو نے بدکاری کی تو تجھے جان سے مار دونگا۔۔۔ اور چند دنوں کے بعد آپ کی والدہ کا انتقال ہو جائے، تو کیا ثابت ہو گیا کہ آپ کی والدہ بدکار تھیں، اور ان کو مارنے والے آپ کے والد تھے، ۔۔۔؟" تنبیح و واقعہ میں کچھ تو فرق کرو۔۔۔

الفاظ کی سختی معاف۔۔۔ میرا خون کھولتا ہے ان جاہل مشرکوں کی ایسی باتیں سن کر۔۔۔
جزاک اللہ کثیرا۔۔۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

یہ ابتدائی مکی دَور کی آیات کریمہ ہیں۔ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد تقریباً عرصہ بیس سال سے زیادہ نبی کریمﷺ کا اس دنیا میں رہنا اور اللہ کے حکم سے ترقی پر ترقی اور فتوحات حاصل کرتے جانا (حتیٰ کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ لوگ جوق در جوق فوجوں کی صورت میں اسلام میں داخل ہونے لگے) اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نبی کریمﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔

وگرنہ معاذ اللہ ثم معاذ باللہ اگر آپﷺ سچے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ فوراً آپ کو دوسروں کیلئے عبرت کا نشان بنا دیتے۔

یہی ان آیات کریمہ کا مستفاد ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم!

باقی موت تو ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو مفرّ نہیں۔ جو اس دنیا میں آیا، اس نے فوت ہو کر واپس اپنے خالق حقیقی کے پاس جانا ہے۔ فرمانِ باری ہے:
﴿ وَما جَعَلنا لِبَشَرٍ‌ مِن قَبلِكَ الخُلدَ ۖ أَفَإِي۟ن مِتَّ فَهُمُ الخـٰلِدونَ ٣٤ كُلُّ نَفسٍ ذائِقَةُ المَوتِ ۗ وَنَبلوكُم بِالشَّرِّ‌ وَالخَيرِ‌ فِتنَةً ۖ وَإِلَينا تُر‌جَعونَ ٣٥ ﴾ ... سورة الأنبياء
آپ سے پہلے کسی انسان کو بھی ہم نے ہمیشگی نہیں دی، کیا اگر آپ مرگئے تو وه ہمیشہ کے لئے ره جائیں گے (34) ہر جان دار موت کا مزه چکھنے والا ہے۔ ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے (35)
 

ام کشف

رکن
شمولیت
فروری 09، 2013
پیغامات
124
ری ایکشن اسکور
386
پوائنٹ
53
قرآن میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ نبی پاک شاعر ہیں مجنون ہیں تو آپ ان کی باتوں سے دربردشتہ نہ ہوں یہ ان کی خام خیالیاں ہیں اب یہ بات کہاں تک درست ہے اللہ تعالٰی ہی جانتے ہیں لیکن اس طرح کے اعتراضات ہی اس بات کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ واقعی اسلام بت پرستی کو دنیا سے ختم کرنے کے لئے نازل کیا گیا تھا
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76

قرآن میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ نبی پاک شاعر ہیں مجنون ہیں تو آپ ان کی باتوں سے دربردشتہ نہ ہوں یہ ان کی خام خیالیاں ہیں اب یہ بات کہاں تک درست ہے اللہ تعالٰی ہی جانتے ہیں لیکن اس طرح کے اعتراضات ہی اس بات کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ واقعی اسلام بت پرستی کو دنیا سے ختم کرنے کے لئے نازل کیا گیا تھا

ان الفاظ پر غور کریں اور جلد از جلد درستگی کریں
 
شمولیت
جولائی 23، 2013
پیغامات
184
ری ایکشن اسکور
199
پوائنٹ
76



بعض اہل علم کہتے ہیں کہ گناہ کرکے بندہ اپنے دل پر ٹھپہ لگا لیتا ہے لیکن جب توبہ کر لیتا ہے تو اس کا گناہ توڑنے کا ذریعہ بن جاتا ہے، کثرت استغفار، توبہ انابت، توجہ الی اللہ، انکسار اور ندامت کا باعث ہوجاتا ہے، آدمی قضاء قدر کو مان لیتا ہے اور توبہ کرنے سے اللہ کے اسماء وصفات حسنہ مثلا رحیم غفور اور تواب ہونا ظاہر ہوجاتا ہے
میں نے اس مفہوم کی روائت سنی ہوئ ہے ۔کیا یہ حدیث کے الفاظ ہیں یا بعض اہل علم کا کہنا ہے ؟
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
قرآن میں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ نبی پاک شاعر ہیں مجنون ہیں تو آپ ان کی باتوں سے دربردشتہ نہ ہوں یہ ان کی خام خیالیاں ہیں اب یہ بات کہاں تک درست ہے اللہ تعالٰی ہی جانتے ہیں لیکن اس طرح کے اعتراضات ہی اس بات کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ واقعی اسلام بت پرستی کو دنیا سے ختم کرنے کے لئے نازل کیا گیا تھا
السلام علیکم بہنا!
آپ کس بات کی درستگی کی بات کر رہی ہیں؟ اس کی وضاحت کریں۔
 
Top