- شمولیت
- مارچ 08، 2011
- پیغامات
- 2,521
- ری ایکشن اسکور
- 11,555
- پوائنٹ
- 641
سات دسمبر راقم کا یوم پیدائش تھا۔ بہت سے دوستوں اور شاگردوں نے ہیپی برتھ ڈے کا میسج بھیجا یا وش کیا۔ فوری طور تو میسج کرنے والوں کو یہ کہا کہ بھائی اس موقع پر کوئی دعا بھی دے دینی چاہیے لیکن اس موضوع پر مذہبی حوالے سے کچھ گفتگو کرنے کا دل چاہ رہا ہے۔
ہمارے ہاں عام طور اہل علم کا خیال ہے کہ برتھ ڈے منانا ایک بدعت ہے۔ اگرچہ میں نہیں مناتا لیکن ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ بدعت تو دین میں اضافے کا نام ہے جبکہ برتھ ڈے کسی دینی شعائر کے طور نہیں منایا جاتا۔
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ یہ انگریز اقوام سے تشبہ ہے کیونکہ یہ رسم ان سے آئی ہے۔ اگر کوئی رسم مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف بن جائے تو پھر تشبہ کا اعتراض باقی نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اب تو یہ خود مسلمان معاشروں کا رواج ہے۔ ہاں اگر کسی رسم یا رواج کے خلاف کتاب وسنت میں کوئی صریح نص موجود ہو تو پھر اس کا رائج ہو جانا دلیل نہیں بنے گا بلکہ یہ عرف فاسد کہلائے گا۔
انسانی جبلت یا تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ دوسروں کو خوش کرنا چاہتا ہے یا ان کی خوشیوں میں شریک ہونا چاہتا ہے، چاہے اس کا مقصد اس سرگرمی سے دراصل اپنی خوشی ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ مقاصد کے اعتبار سے اچھی چیز ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اگر ہم مغرب کی نقالی کو درمیان سے نکال دیں اور اس موقع کو اپنے دین سے جوڑ دیں تو اس طرح ایک رسم کا ہم امالہ کر سکتے ہیں یعنی اسے ایک صحیح رخ دے سکتے ہیں جو کہ نسبتا آسان ہے اس سے کہ ہم اس رسم کا ازالہ کر سکیں کہ اسے ختم کر سکیں۔
اس ضمن میں پہلی تجویز تو یہ ہے کہ کسی کو اس کا جنم دن اپنی زبان میں وش کیا جائے مثلا ہیپی برتھ ڈے نہ کہے بلکہ جنم دن مبارک ہو، یوم پیدائش مبارک ہو یا یوم ولادت مبارک ہو۔ صرف زبان کے بدل دینے سے اس رسم پر اگر انگریز کی کچھ چھاپ موجود بھی ہے تو وہ ختم ہو جائے گا۔ مزید اس کو اسلامی کلچر سے جوڑنے کے لیے یہ کیا جائے کہ اس موقع پر کوئی دعا دی جائے جیسا کہ اللہ تعالی آپ کو جنم دن مبارک کرے۔ اب اس رسم میں خدا کا تصور آ گیا، دعا شامل ہو گئی، برکت بھی آ گئی اور انسان کی خواہش بھی پوری ہو گئی۔
ہم میں سے بعض لوگوں نے عید کے موقع ہر گلے ملنے کو بھی بدعت قرار دے دیا حالانکہ اتنی سختی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اسلام تو ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ جو مسلمانوں میں باہمی محبت اور الفت بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں۔
بس اس تناظر میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ مغرب یا دوسرے معاشروں سے جو بہت سے رسمیں ہمارے ہاں آ گئی ہیں تو ان میں ازالے بجائے اگر امالے کا تصور دیا جائے کہ ان رسموں یا رواجات کو اس طرف موڑ دیا جائے کہ دینی مقاصد پورے ہو جائیں اور وہ اسلامی کلچر یا تہذیب کے فریم ورک میں فٹ ہو جائیں تو یہ بھی ایک کرنے کا کام ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
میں کوئی مفتی نہیں کہ اس پوسٹ کو فتوی کے انداز میں دیکھا جائے۔ ایک بات دل میں آئی، سو شیئر کر دی، اگر کسی بھائی کے ملاحظات ہوں تو غور کیا جا سکتا ہے۔
ہمارے ہاں عام طور اہل علم کا خیال ہے کہ برتھ ڈے منانا ایک بدعت ہے۔ اگرچہ میں نہیں مناتا لیکن ایک سوال ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ بدعت تو دین میں اضافے کا نام ہے جبکہ برتھ ڈے کسی دینی شعائر کے طور نہیں منایا جاتا۔
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ یہ انگریز اقوام سے تشبہ ہے کیونکہ یہ رسم ان سے آئی ہے۔ اگر کوئی رسم مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف بن جائے تو پھر تشبہ کا اعتراض باقی نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اب تو یہ خود مسلمان معاشروں کا رواج ہے۔ ہاں اگر کسی رسم یا رواج کے خلاف کتاب وسنت میں کوئی صریح نص موجود ہو تو پھر اس کا رائج ہو جانا دلیل نہیں بنے گا بلکہ یہ عرف فاسد کہلائے گا۔
انسانی جبلت یا تقاضوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ دوسروں کو خوش کرنا چاہتا ہے یا ان کی خوشیوں میں شریک ہونا چاہتا ہے، چاہے اس کا مقصد اس سرگرمی سے دراصل اپنی خوشی ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ مقاصد کے اعتبار سے اچھی چیز ہے۔ اس لیے میرے خیال میں اگر ہم مغرب کی نقالی کو درمیان سے نکال دیں اور اس موقع کو اپنے دین سے جوڑ دیں تو اس طرح ایک رسم کا ہم امالہ کر سکتے ہیں یعنی اسے ایک صحیح رخ دے سکتے ہیں جو کہ نسبتا آسان ہے اس سے کہ ہم اس رسم کا ازالہ کر سکیں کہ اسے ختم کر سکیں۔
اس ضمن میں پہلی تجویز تو یہ ہے کہ کسی کو اس کا جنم دن اپنی زبان میں وش کیا جائے مثلا ہیپی برتھ ڈے نہ کہے بلکہ جنم دن مبارک ہو، یوم پیدائش مبارک ہو یا یوم ولادت مبارک ہو۔ صرف زبان کے بدل دینے سے اس رسم پر اگر انگریز کی کچھ چھاپ موجود بھی ہے تو وہ ختم ہو جائے گا۔ مزید اس کو اسلامی کلچر سے جوڑنے کے لیے یہ کیا جائے کہ اس موقع پر کوئی دعا دی جائے جیسا کہ اللہ تعالی آپ کو جنم دن مبارک کرے۔ اب اس رسم میں خدا کا تصور آ گیا، دعا شامل ہو گئی، برکت بھی آ گئی اور انسان کی خواہش بھی پوری ہو گئی۔
ہم میں سے بعض لوگوں نے عید کے موقع ہر گلے ملنے کو بھی بدعت قرار دے دیا حالانکہ اتنی سختی کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اسلام تو ایسی چیزوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ جو مسلمانوں میں باہمی محبت اور الفت بڑھانے میں اہم کردار ادا کریں۔
بس اس تناظر میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ مغرب یا دوسرے معاشروں سے جو بہت سے رسمیں ہمارے ہاں آ گئی ہیں تو ان میں ازالے بجائے اگر امالے کا تصور دیا جائے کہ ان رسموں یا رواجات کو اس طرف موڑ دیا جائے کہ دینی مقاصد پورے ہو جائیں اور وہ اسلامی کلچر یا تہذیب کے فریم ورک میں فٹ ہو جائیں تو یہ بھی ایک کرنے کا کام ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
میں کوئی مفتی نہیں کہ اس پوسٹ کو فتوی کے انداز میں دیکھا جائے۔ ایک بات دل میں آئی، سو شیئر کر دی، اگر کسی بھائی کے ملاحظات ہوں تو غور کیا جا سکتا ہے۔