ابو الحسن بھائی نے کہا
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ یہ انگریز اقوام سے تشبہ ہے کیونکہ یہ رسم ان سے آئی ہے۔ اگر کوئی رسم مسلمان معاشروں میں اس قدر عام ہو جائے کہ ان کا عرف بن جائے تو پھر تشبہ کا اعتراض باقی نہیں رہنا چاہیے کیونکہ اب تو یہ خود مسلمان معاشروں کا رواج ہے
یہ تو بہت عجیب بات ہے شریعت کہتی ہے تشابہ نہیں کرنی ابتداء سے ہی روک رہی ہے اور آپ کہتے ہیں کہ تشابہ بکثرت ہو جائے تو اسے تشابہ نہیں کہنا چاھیئے
اس وقت شدت کے ساتھ اس کا رد کرنا چاھیئے کل کو ویلنٹائن ڈے بھی اسی طرح منایا جائے کہ دیکھو عام ہو گیا ہے تو کیا اسے بھی جائز کہ دیں گے ایسے ہی مدرز ڈے فادرز ڈے اور اور اور
بھائی من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ
و اللہ اعلم ہمیں تو کبھی ایسی خوشی کا احساس نہیں ہوا کہ آج ھمارا یوم پیدائش ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ انسان کا نظریہ سوچ بدل جائے تو اسے خوشی کا آحساس ہونے لگے مثلا الحمدللہ کے دنیا کی آسائشوں کے نہ چھننے کی خوشی ہوتی ہے نہ ملنے کی لیکن اگر یہی مطمع نظر دنیا بن جائے تو معاملہ الٹ ہو جائے گا
اگر کسی کو یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سوموار کو روزہ رکھا اور کہا کہ ذلک الیوم الذی ولدت فیہ تو آگے یہ بھی ہے و فیہ انزل علی
اور کہاں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کہاں میں اور آُ اور کوئی اور آخر کو صحا بہ کو یہ عمل کیوں نہ دکھا؟؟؟
دوسری بات پہلے دن گھر والے مٹھائی بانٹتے ہیں تب جائز اور بعد میں نا جائز کیوں ؟؟؟
بھائی یہ وہی بات ہے جو میلاد پر کہی جاتی ہے ایک ہے خوشی ہونا ایک ہے دھکے کی منانا جب بچہ ابتداء پیدا ہوتا ہے تو اس کی بری بات بھی ایک عرصہ تک اچھی لگتی ہے یہ خوشی ہے اور اس عمر میں تو ذرا سی اس کی نصیحت بھی کاٹ جاتی ہے یہ خوشی منانا ہے
علی کل حال انسان کو اپنی آخرت کی فکر زیادہ کرنی چاھیئے ویسے بھی قاعدہ یہی ہے اذا دار الامر بین البدعۃ و المستحب وجب ترکہ
کجا یہ کہ وہ مستحب بھی نا ہو باقی عید کے بعد گلے ملنا یہ رواج ہے اور رواج جب تک شریعت کے خلاف نہ ہو کوئی حرج نہیں ہاں اگر کوئی سنت سمجھتا ہے تو پھر اس پر اعتراض ممکن ہے
ان تجد عیبا فسد الخللا جل من لا عیب فیہ و علا