• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یا رسول اللہ ( صل اللہ علیہ و آلہ و سلم ) مدد کہنا...

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
پھر عبد الغفور اثری نے پوری کتاب لکھی دی کہ نعرہ یا رسول اللہ جائز ہے ۔ملاحظہ ہو نعرہ یا محمد کی تحقیق ۔میری صرف ایک گزارش ہے اگر تو یا رسول اللہ کہنا شرک ہے تو مندرجہ بالا حضرات کو بلا تردد مشرک قرار دیا جائے۔جزاک اللہ
یہ کتاب ، کتاب و سنت لائبریری میں موجود ہے درج ذیل تبصرہ کے ساتھ :
برصغیر پاک و ہندمیں اکثریہ رواج پایا جاتا ہے کہ کئی مسلمان اپنی مسجدوں ، عمارتوں ، دفتروں، بسوں ،ٹرکوں ، ویگنوں، اور رکشوں ،کلینڈروں، اشتہارات وغیرہ پر بڑی عقیدت سے ایک طرف یا اللہ جل جلالہ اور دوسری طرف یا محمد ﷺ لکھتے ہیں اور اسے شعائر اسلام اور محبت رسول ﷺ کا نام دیتے ہیں اور جو شخص یامحمد ﷺ کہنے اور لکھنے کا انکار کرے تو اسے بے ادب اور گستاخِ رسول بلکہ بے ایمان تک قرار دے دیا جاتاہے حالانکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے کہ رسول ﷺ کو ان کا نام لےکر (یا محمد کہہ کر) آواز دینی ،بلانا ، اورپکارنا وغیرہ نہ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں جائز تھا اور نہ آپ ﷺ کے وفات کے بعد جائز ہے ۔زیر نظر کتاب’’ندائے یا محمد ﷺ کی تحقیق‘‘ از مولانا عبد الغفور اثری میں قرآن مجید کتب احادیث و تفاسیر وغیرہ سے دلائل کی روشنی میں یہ مسئلہ واضح کیا گیا ہے کہ نبی آخر الزماں امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ کا نام لے کر آواز دینی بلانا اور پکارنا وغیرہ بالکل ممنوع وحرام ہے ۔ اللہ تعالی فاضل مؤلف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور اس کتا ب کو عوام الناس کے عقید ہ کی اصلا ح کاذریعہ بنا ئے (آمین) ( م۔ا)
 

ایک گنہگار

مبتدی
شمولیت
اگست 28، 2014
پیغامات
72
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
18
انتظامیہ سے گزارش ہے کہ میرے شروع کردہ اس دھاگے کو ختم کر دیں. اس سے اگر کسی بهی مسلمان بهائی بہن کو تکلیف ہوئی ہو تو میں اللہ سے توبہ کرتا ہوں. اور اس شخص سے معافی مانگتا ہوں.
اس دھاگے اور اس میں شریک کردہ سب معلومات سے عند اللہ دستبردار ہوتا ہوں.

انتظامیہ سے گزارش ہے کہ اس دھاگے کو ختم کر دیں.

جزاکم اللہ خیراً.
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
سیف بن عمر پر جرح یہاں دیکھیں
http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=3737
دائیں بائیں لکھا ہوا ہے تعریف عام شیوخ تلامیذ آخر میں تھذیب الکمال یہ آن لائن لائبریری ہے جس بٹن پر کلک کریں گے آپ کو اس کی تفصیل مل جائے گی
شعیب بن ابراھیم الکوفی کو یہاں دیکھیں
http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=19223
امید ہے ان دونوں پر موجود جرح کفایت کرے گی
 

ایک گنہگار

مبتدی
شمولیت
اگست 28، 2014
پیغامات
72
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
18
سیف بن عمر پر جرح یہاں دیکھیں
http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=3737
دائیں بائیں لکھا ہوا ہے تعریف عام شیوخ تلامیذ آخر میں تھذیب الکمال یہ آن لائن لائبریری ہے جس بٹن پر کلک کریں گے آپ کو اس کی تفصیل مل جائے گی
شعیب بن ابراھیم الکوفی کو یہاں دیکھیں
http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=19223
امید ہے ان دونوں پر موجود جرح کفایت کرے گی
بهائی یہ ویب سائٹ تو بہت زبردست ہے. ماشاءاللہ.
بس یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ سب معلومات سچ ہیں یا ان میں غلطیاں اور کذب بیانی ہے، نعوذ باللہ.
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
اس کا حل یہ ہے کہ پی ڈی ایف کی صورت میں آپ امام النسائی کی کتاب الضعفاء و المتروکین ڈانلوڈ کر کے تصدیق کر لیجیئے مجھے یہ روایت دوران تعلیم ہی دیکھنی پڑھی تھی اور ابھی تک یاد ہے کہ سیف بن عمر کے بارے اسی کتاب کو دیکھا تھا
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
شیخ کفایت اللہ نے اسکا مدلل جواب دیا ہے



امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا: وحمل خالد بن الوليد حتى جاوزهم وسار لجبال مسيلمة وجعل يترقب أن يصل إليه فيقتله ثم رجع ثم وقف بين الصفين ودعا البراز وقال أنا ابن الوليد العود أنا ابن عامر وزيد ثم نادى بشعار المسلمين وكان شعارهم يومئذ يا محمداه[البداية والنهاية لابن کثیر: 6/ 324]۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی ہے لیکن اس کی سند تاریخ طبری میں ہے چنانچہ: امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310)نے کہا: كتب إلي السري، عن شعيب، عن سيف، عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي سُحَيْمٍ قَدْ شَهِدَهَا مَعَ خَالِدٍ، قَالَ: لَمَّا اشْتَدَّ الْقِتَالُ- وَكَانَتْ يَوْمَئِذٍ سِجَالا إِنَّمَا تَكُونُ مَرَّةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ وَمَرَّةً عَلَى الْكَافِرِينَ- فَقَالَ خَالِدٌ: أَيُّهَا النَّاسُ امْتَازُوا لِنَعْلَمَ بَلاءَ كُلِّ حَيٍّ، وَلِنَعْلَمَ مِنْ أَيْنَ نُؤْتَى! فَامْتَازَ أَهْلُ الْقُرَى وَالْبَوَادِي، وَامْتَازَتِ الْقَبَائِلُ من اهل البادية واهل الحاضر، فَوَقَفَ بَنُو كُلِّ أَبٍ عَلَى رَايَتِهِمْ، فَقَاتَلُوا جَمِيعًا، فَقَالَ أَهْلُ الْبَوَادِي يَوْمَئِذٍ: الآنَ يَسْتَحِرُّ الْقَتْلُ فِي الأَجْزَعِ الأَضْعَفِ، فَاسْتَحَرَّ الْقَتْلُ فِي أَهْلِ الْقُرَى، وَثَبَتَ مُسَيْلِمَةُ، وَدَارَتْ رَحَاهُمْ عَلَيْهِ، فَعَرَفَ خَالِدٌ أنَّهَا لا تَرْكُدُ إِلا بِقَتْلِ مُسَيْلِمَةَ، وَلَمْ تَحْفَلْ بَنُو حَنِيفَةَ بِقَتْلِ مَنْ قُتِلَ مِنْهُمْ ثُمَّ بَرَزَ خَالِدٌ، حَتَّى إِذَا كَانَ أَمَامَ الصَّفِّ دَعَا إِلَى الْبِرَازِ وَانْتَمَى، وَقَالَ: أَنَا ابْنُ الْوَلِيدِ الْعود، أَنَا ابْنُ عَامِرٍ وَزَيْدٍ! وَنَادَى بِشِعَارِهِمْ يَوْمَئِذٍ، وَكَانَ شِعَارُهُمْ يَوْمَئِذٍ: يَا مُحَمَّدَاهُ! [تاريخ الطبري: 3/ 293] یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے ۔ اس کی سند میں کئی خرابیاں ہیں۔ خالدرضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والا شخص مجہول ہے۔ ضحاک کے والد کے حالات بھی معلوم نہیں ۔ خود ضحاک بھی ضعیف ہے۔ سیف بن عمر تو مشہور ضعیف راوی ہے۔
 
Last edited:

ایک گنہگار

مبتدی
شمولیت
اگست 28، 2014
پیغامات
72
ری ایکشن اسکور
26
پوائنٹ
18
اس کا حل یہ ہے کہ پی ڈی ایف کی صورت میں آپ امام النسائی کی کتاب الضعفاء و المتروکین ڈانلوڈ کر کے تصدیق کر لیجیئے مجھے یہ روایت دوران تعلیم ہی دیکھنی پڑھی تھی اور ابھی تک یاد ہے کہ سیف بن عمر کے بارے اسی کتاب کو دیکھا تھا
شکریہ.
جزاک اللہ خیراً
 
شمولیت
مئی 30، 2017
پیغامات
93
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
52
السلام علیکم

محترم شیوخ
ٹھیک اس ہی طرح کی ایک روایت ابن کثیر سے بیان کی جاتی ھے کے ایک اعرابی نبی ص کی قبر پر آیا اور کہا یا رسول اللّه قرآن میں فرمان ھے کے اگر نبی چاہیں تو اللّه معاف کردیگا انہیں جنہوں نے اپنی جان پر ظلم کیا

اس پر ابن کثیر رح کا کیا موقف ھے اور روایت پر کس کس کی جرح موجود ھے

جزاک اللّه خیرا کثیرا
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
السلام علیکم

محترم شیوخ
ٹھیک اس ہی طرح کی ایک روایت ابن کثیر سے بیان کی جاتی ھے کے ایک اعرابی نبی ص کی قبر پر آیا اور کہا یا رسول اللّه قرآن میں فرمان ھے کے اگر نبی چاہیں تو اللّه معاف کردیگا انہیں جنہوں نے اپنی جان پر ظلم کیا

اس پر ابن کثیر رح کا کیا موقف ھے اور روایت پر کس کس کی جرح موجود ھے

جزاک اللّه خیرا کثیرا
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
شاید آپ مالک الدار والی روایت کی بات کر رہے ہیں۔
ناجائز وسیلہ سے متعلق ضعیف احادیث
 
Top