• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید بن معاویہ کی امارت

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
دوسری حدیث
صحیح بخاری میں سیدنا محمود بن الربیع کا بیان ہے، وہ فرماتے ہیں:

’’میں نے (نفل نماز کی جماعت والی یہ) حدیث ایک ایسی قوم کے سامنے بیان کی کہ جن میں رسول اللہﷺ کے صحابی (اور میزبان) سیدنا ابوایوب انصاری بھی تھے اور اُنہوں نے اسی غزوہ کے دوران وفات پائی اور یزید بن معاویہ اس لشکر پرسالار تھے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۱۸۶)


ایک غزوہ میں حضرت ایوب انصاری راضی اللہ زندہ ہیں اور دوسرے غزوہ میں انھوں نے وفات پائی

اب بتایں کہ کون سا لشکر پہلا تھا
حدثني إسحاق حدثنا يعقوب بن إبراهيم حدثنا أبي عن ابن شهاب قال أخبرني محمود بن الربيع الأنصاري أنه عقل رسول الله صلی الله عليه وسلم وعقل مجة مجها في وجهه من بئر کانت في دارهم فزعم محمود أنه سمع عتبان بن مالک الأنصاري رضي الله عنه وکان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول کنت أصلي لقومي ببني سالم وکان يحول بيني وبينهم واد إذا جائت الأمطار فيشق علي اجتيازه قبل مسجدهم فجئت رسول الله صلی الله عليه وسلم فقلت له إني أنکرت بصري وإن الوادي الذي بيني وبين قومي يسيل إذا جائت الأمطار فيشق علي اجتيازه فوددت أنک تأتي فتصلي من بيتي مکانا أتخذه مصلی فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم سأفعل فغدا علي رسول الله صلی الله عليه وسلم وأبو بکر رضي الله عنه بعد ما اشتد النهار فاستأذن رسول الله صلی الله عليه وسلم فأذنت له فلم يجلس حتی قال أين تحب أن أصلي من بيتک فأشرت له إلی المکان الذي أحب أن أصلي فيه فقام رسول الله صلی الله عليه وسلم فکبر وصففنا ورائه فصلی رکعتين ثم سلم وسلمنا حين سلم فحبسته علی خزير يصنع له فسمع أهل الدار رسول الله صلی الله عليه وسلم في بيتي فثاب رجال منهم حتی کثر الرجال في البيت فقال رجل منهم ما فعل مالک لا أراه فقال رجل منهم ذاک منافق لا يحب الله ورسوله فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم لا تقل ذاک ألا تراه قال لا إله إلا الله يبتغي بذلک وجه الله فقال الله ورسوله أعلم أما نحن فوالله لا نری وده ولا حديثه إلا إلی المنافقين قال رسول الله صلی الله عليه وسلم فإن الله قد حرم علی النار من قال لا إله إلا الله يبتغي بذلک وجه الله قال محمود بن الربيع فحدثتها قوما فيهم أبو أيوب صاحب رسول الله صلی الله عليه وسلم في غزوته التي توفي فيها ويزيد بن معاوية عليهم بأرض الروم فأنکرها علي أبو أيوب قال والله ما أظن رسول الله صلی الله عليه وسلم قال ما قلت قط فکبر ذلک علي فجعلت لله علي إن سلمني حتی أقفل من غزوتي أن أسأل عنها عتبان بن مالک رضي الله عنه إن وجدته حيا في مسجد قومه فقفلت فأهللت بحجة أو بعمرة ثم سرت حتی قدمت المدينة فأتيت بني سالم فإذا عتبان شيخ أعمی يصلي لقومه فلما سلم من الصلاة سلمت عليه وأخبرته من أنا ثم سألته عن ذلک الحديث فحدثنيه کما حدثنيه أول مرة

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر ١١٢٣
اسحاق، یعقوب بن ابراہیم، ابراہیم، ابن شہاب، محمود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن ربیع انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہیں اور وہ کلی بھی یاد ہے جو میرے چہرے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے گھر کو کنوئیں سے لے کر کی تھی، انہوں نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر میں شریک ہوئے تھے کہتے ہوئے سنا کہ میں اپنی قوم بنی سالم کو نماز پڑھاتا تھا اور میرے درمیان اور ان کے درمیان ایک وادی حائل تھی اور جب بارش ہوتی تو میرے لئے ان کی مسجد کی طرف راستہ طے کرکے جانا دشوار ہوتا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا اور عرض کیا کہ میری نگاہ کمزور ہے اور وادی جو ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حائل ہے جب بارش ہوتی ہے تو مجھ پر دشوار ہوتا ہے کہ راستہ طے کرکے وہاں پہنچوں، اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئیں اور میرے مکان میں ایک جگہ پر نماز پڑھ لیں کہ میں اس کو نماز کی جگہ بنالوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایسا کروں گا، چنانچہ صبح کے وقت میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہنچے جب کہ دھوپ تیز ہوچکی تھی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت چاہی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دے دی، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی بیٹھے بھی نہ تھے کہ فرمایا تم اپنے گھر میں کون سی جگہ پسند کرتے ہو جہاں میں نماز پڑھوں؟ میں نے اس جگہ کی طرف اشارہ کیا جس میں نماز پڑھنا پسند کرتا تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صف قائم کی پھر دو رکعت نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم نے بھی سلام پھیرا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام پھیر چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خزیرۃ(ایک قسم کا کھانا) پر روکا، جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے تیار کرلیا گیا تھا۔ جب دوسرے گھر والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے گھر میں سنی تو دوڑ پڑے یہاں تک کہ گھر میں لوگ بہت زیادہ ہوگئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ مالک نے کیا کیا، میں اسے نہیں دیکھتا ہوں تو ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ وہ منافق ہے اللہ کے رسول سے اسے محبت نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا نہ کہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ اس نے لا الہ اللہ کہا ہے اس سے اللہ کی رضا چاہتا ہے تو اس نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں لیکن ہم تو بخدا اس کی محبت اور اس کی گفتگو منافقین ہی سے دیکھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے جہنم پر اس شخص کو حرام کردیا ہے جو لا الہ اللہ کہے اور اس سے رضائے الٰہی چاہتا ہو۔ محمود نے بیان کیا کہ میں نے اس کو ایک جماعت سے بیان کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ابوایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اور اس جنگ میں بیان کیا جس میں انہوں نے وفات پائی اور اس وقت روم میں یزید بن معاویہ حاکم تھا، ابوایوب نے ہماری اس حدیث کا انکار کیا اور کہا و اللہ جو تو نے کہا میرا خیال ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہا، یہ مجھے برا معلوم ہوا اور میں نے اللہ کیلئے نذر مانی کہا اگر وہ مجھے صحیح و سالم رکھے یہاں تک کہ میں اس غزوہ سے واپس ہوجاؤں تو میں اس حدیث کے متعلق عتبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن مالک سے پوچھوں گا، اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا، چنانچہ میں غزوہ سے لوٹا میں نے حج یا عمرہ کا احرام باندھا پھر میں چلا یہاں تک کہ مدینہ پہنچا، میں بنی سالم کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ عتبان بڈھے اور نابینا ہوگئے ہیں اپنی قوم کو نماز پڑھاتے ہیں، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے ان کو سلام کیا اور بتایا کہ میں کون ہوں، پھر میں نے ان سے حدیث کے متعلق پوچھا تو انہوں نے مجھ سے اسی طرح بیان کیا جس طرح پہلی بار بیان کیا گیا تھا۔
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
یہ بھی ٹھیک ہے۔ لیکن میں نے زبیر علی زئی کا مقالہ پڑھا اس میں انہوں نے کہا کہ یزید اول جیش میں شامل نہیں تھا اور اول جیش کے لیے خوشخبری ہے
محترم بھائی۔۔۔ جو تحقیق شیخ زبیر علی زئی صاحب نے پیش کی ہے۔۔۔ کیا یہ اُن کی اپنی تحقیق ہے؟؟؟۔۔۔ اور کیا کسی ایک کتاب کا حوالہ کوٹ کردینے سے وہ اپنے موقف کو درست ثابت کرسکتے ہیں۔۔۔ تمام آئمہ کرام نے یزید رحمہ اللہ کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا مگر وہ رائے کن بنیادوں پر قائم ہوئیں؟؟؟۔۔۔ اس نقطے کو سمجھیں۔۔۔ ابن سباء کون تھا۔۔۔ اور کیسے اسبائیوں نے کام دکھایا جنگ جمل اور جنگ صفین میں حالانکہ دونوں طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین تھے۔۔۔ دراصل یہ فضول کی بحیث جس کا کوئی مقصد نہیں ہے بس چھیڑ دی گئی ہے۔۔۔ اسلئے کے لفظ ناصبی کو اُن لوگوں سے منسوب کردیا جائے جو یزید رحمہ اللہ کے دفاع میں یا اُن کے حق میں بات کرتے ہیں۔۔۔ کیونکہ اُن کے دور حکومت میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی جس کے پیچھے کوفیوں کی سازش تھی۔۔۔ سوچئے کے یزید رحمہ اللہ علیہ پر ہی جراح کیوں ہوتی ہے؟؟؟۔۔۔ المہمم۔۔۔
 

فہد حارث

مبتدی
شمولیت
جولائی 14، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
10

امام بخاری اپنی صحیح میں "باب ما قيل في قتال الروم" میں روایت بیان کرتے ہیں کہ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا
أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ
میری امّت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) پر حملہ کرے گا وہ مغفور ہے

بخاری کے شا رح المهلب کہتے ہیں کہ:
قال المهلب : في هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا البحر ، ومنقبة لولده يزيد لأنه أول من غزا مدينة قيصر
المهلب کہتے ہیں کہ اس حدیث میں منقبت ہے معاویہ کی کیونکہ ان کے دور میں بحری حملہ ہوا اور منقبت ہے ان کے بیٹے کی کہ انہوں نے سب سے پہلے قیصر کے شہر پر حملہ کیا - (بحوالہ فتح الباری شرح صحیح البخاری: كتاب الجهاد والسير: باب ما قيل في قتال الروم)

اس کے برعکس ماہنامہ الحدیث حضرو شمارہ نمبر ٦ نومبر ٢٠٠٤ کے شمارے میں اہلحدیث عالم حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں کہ:
سنن ابی داود کی ایک حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یزید والے حملے سے پہلے بھی قسطنطنیہ پر حملہ ہوا ہے جس میں جماعت (پورے لشکر) کے امیر عبد الرحمن بن خالد بن الوليد تھے - چونکہ یہ حدیث ان لوگوں کے لئے زبردست رکاوٹ ہے جو ضرور بالضرور یزید کا بخشا ہوا ہونا ثابت کرنا چاہتے ہیں -

مزید آگے صفحہ ٨ پر لکھتے ہیں کہ:
خلاصتہ التحقیق: یزید بن معاویہ کے بارے میں دو باتیں انتہائی اہم ہیں -

١: قسطنطنیہ پر پہلے حملہ آور لشکر میں اسکا موجود ہونا ثابت نہیں -
٢: یزید کے بارے میں سکوت کرنا چاہیے حدیث کی روایت میں وہ مجروح راوی ہے -

ضروری ہے کہ تاریخی حقائق کو تسلیم کیا جائے اور کسی کو بھی اپنے بغض و عناد کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے -

ابو عمرو خليفة بن خياط (المتوفى: 240هـ) اپنی کتاب تاريخ خليفة بن خياط میں لکھتے ہیں کہ:
كتب عُثْمَان إِلَى مُعَاوِيَة أَن يغزي بِلَاد الرّوم فَوجه يَزِيد بْن الْحر الْعَبْسِي ثمَّ عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد عَلَى الصائفتين جَمِيعًا ثمَّ عَزله وَولى سُفْيَان ابْن عَوْف الغامدي فَكَانَ سُفْيَان يخرج فِي الْبر ويستخلف عَلَى الْبَحْر جُنَادَة بْن أَبِي أُميَّة فَلم يزل كَذَلِكَ حَتَّى مَاتَ سُفْيَان فولى مُعَاوِيَة عَبْد الرَّحْمَن بْن خَالِد بْن الْوَلِيد ثمَّ ولى عبيد اللَّه بْن رَبَاح وشتى فِي أَرض الرّوم
سنة سِتّ وَثَلَاثِينَ
عثمان رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے دور خلافت میں معاویہ رضی الله تعالیٰ عنہ کو حکم لکھا کہ روم کے شہروں پر حملے کئے جائیں پس معاویہ نے توجہ کی يزيد بن الحر العبسِی کی طرف عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کی طرف اور دونوں کو گرمیوں کے موسم میں امیر مقرر کیا پھر ہٹا دیا اور سفيان ابن عوف الغامدی کو مقرر کیا - سفيان ابن عوف الغامدی کو بری جنگ پر اور بحری معرکے پر جنادہ بن ابِی اميہ کو مقرر کیا اور ان کو معذول نہیں کیا حتیٰ کہ سفیان کی وفات ہوئی - اس کے بعد معاويہ عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کو مقرر کیا اور ان کے بعد عبيد الله بن رباح کو روم کے شہروں کے لئے مقرر کیا سن ٣٦ ہجری تک - (تاريخ خليفة بن خياط: صفحہ ١٨٠ ، دار القلم ، مؤسستہ الرسالہ - دمشق ، بیروت)
 

فہد حارث

مبتدی
شمولیت
جولائی 14، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
10

الذہبی (المتوفى: 748هـ) اپنی کتاب تاريخ سیر اعلام النبلاء میں سن ٣٢ ہجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
سنة اثنتين وثلاثين فيها كانت وقعة المضيق بالقرب من قسطنطينية ، وأميرها معاوية .
سن ٣٢ ہجری: اور اس میں المضيق کا واقعہ ہوا جو قسطنطنیہ کے قریب ہے ، اور اس کے امیر معاوية تھے - (سير أعلام النبلاء: سيرة الخلفاء الراشدين: سيرة ذي النورين عثمان رضي الله عنه: الحوادث في خلافة ذي النورين عثمان: سنة اثنتين وثلاثين)

المضيق ایک استریت ہے اور اس سے مراد دردانیلیس ہے جو ایجین سمندر کو مرمرا سمندر سے ملاتا ہے اور ایک تنگ سمندری گزر گاہ ہے -

لیکن ان تمام معرکوں کے باوجود اسلامی لشکر قسطنطنیہ نہیں پہنچ سکا -

الذہبی اپنی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں سن ٥٠ ھجری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:
وَفِيهَا غَزْوَةُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ ، كَانَ أَمِيرُ الْجَيْشِ إِلَيْهَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، وَكَانَ مَعَهُ وُجُوهُ النَّاسِ ، وَمِمَّنْ كَانَ مَعَهُ أَبُو أَيُّوبُ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
اور اس میں غزوہ القسطنطنیہ ہوا اور امیر لشکر عساکر یزید بن معاویہ تھے اور ان کے ساتھ لوگ تھے اور ابو ايوب الانصاری رضی الله عنہ بھی ساتھ تھے - ( تاريخ الإسلام: الطبقة الخامسة: حَوَادِثُ سَنَةِ خَمْسِينَ)

مزید تفصیل أبي زرعة الدمشقي (المتوفى: 281هـ) بتاتے ہیں کہ
أبي زرعة الدمشقي (المتوفى: 281هـ) اپنی کتاب تاريخ أبي زرعة الدمشقي میں لکھتے ہیں کہ:
قَالَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ : فَأَغْزَا مُعَاوِيةُ الصَّوَائِفَ ، وَشَتَّاهُمْ بِأَرْضِ الرُّومِ سِتَّ عَشْرَةَ صَائِفَةً ، تَصِيفُ بِهَا وَتَشْتُو ، ثُمَّ تُقْفِلُ وَتَدْخُلُ مُعَقِّبَتُهَا ، ثُمَّ أَغْزَاهُمْ مُعَاوِيَةُ ابْنُهُ يَزِيدَ فِي سَنَةِ خَمْسٍ وَخَمْسِينَ فِي جَمَاعَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وسَلَّمَ فِي الْبَرِّ وَالبْحَرِ حَتَّى جَازَ بِهِمِ الْخَلِيجَ ، وَقَاتَلُوا أَهْلَ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ عَلَى بَابِهَا ، ثُمَّ قَفَلَ
سعيد بن عبد العزيزکہتے ہیں کہ معاويہ نے الصوائف (گرمیوں کے موسم میں حملے) کیے اور سولہ حملے ارض روم پر کیے.......پھر یزید بن معاویہ نے ٥٥ ہجری میں اصحابِ رسول کی جماعت کے ساتھ سمندر اور خشکی کے ذریعہ حملہ کر کے خلیج کو پار کیا اور اہلِ قسطنطنیہ سے ان کے دروازے پر جنگ کی - (تاريخ أبي زرعة الدمشقي: ذِكْرُ خِلَافَةِ عُثْمَانَ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ......)

عبد الرحمن بن خالد بن الوليد (المتوفى: ٤٦ هـ)

عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کے حوالے سے روایات میں بیان ہوا ہے کہ وہ اس لشکر کے اوپر امیر تھے جس نے قسطنطنیہ پر حملہ کیا - یہ روایت سنن ابی داؤد ، جا مع ترمذی ، تفسیر ابن ابی حاتم ، مستدرک حاکم وغیرہ میں بیان ہوئی ہے - تفسیر کی کتابوں میں یہ روایت اس لئے موجود ہے کہ اس میں سوره البقرہ کی ایک آیت {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} کا ذکر بھی آتا ہے - عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کے حوالے سے تاریخ خلیفہ بن خیاط میں بیان ہوا ہے کہ ارض روم پر کسی حملے میں معاویہ رضی الله عنہ نے ان کو استعمال کیا تھا لیکن ان کے بعد اور لوگوں کو مقرر کیا جس سے ظاہر ہے کہ عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کو ابتدائی دور میں امیر لشکر بنایا گیا تھا - سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٣٢ ہجری میں خود معاویہ رضی الله عنہ بھی قسطنطنیہ کے پاس المضيق تک پہنچ پائے - اس سے صاف ظاہر ہے کہ عبد الرحمن بن خالد بن الوليد بھی قسطنطنیہ نہیں پہنچ سکے تھے -

الذہبی اپنی کتاب تاريخ الإسلام ووفيات المشاهير والأعلام میں عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کے لئے لکھتے ہیں کہ:
وَكَانَ يَسْتَعْمِلُهُ مُعَاوِيَةُ عَلَى غَزْوِ الرُّومِ. وَكَانَ شَرِيفًا شُجَاعًا مُمَدَّحًا.
ان کو معاویہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے روم کے معرکے میں مقرر کیا اور یہ شریف ، بہادر اور ممدوح تھے - (تاريخ الإسلام: الطبقة الخامسة: تَرَاجِمُ أَهْل هَذِهِ الطَّبَقَةِ عَلَى تَرْتِيبِ.....)

الذہبی جو ایک معتدل مؤرخ ہیں انہوں نے کہیں بھی عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کے لئے قسطنطنیہ کے معرکوں کا ذکر نہیں کیا - وہ ان معرکوں میں شامل ہوۓ جو ارض روم کے مختلف شہروں میں ہوۓ - روم وسیع علاقہ تھا جس میں موجودہ ترکی اور قبرص و یونان کے جزائر بھی شامل تھے -

اب ان روایات کی اسناد دیکھتے ہیں جن میں عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کا قسطنطنیہ پر حملے کا تذکرہ آ رہا ہے - قسطنطنیہ کے حوالے سے یہ تمام روایات تقریباً ایک سند (حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ ، وَابْنِ لَهِيعَةَ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ) سے آرہی ہیں لیکن اضطراب کا شکار ہیں جیسا کہ مندرجہ ذیل شجرہ کو دیکھنے سے ہوتا ہے -

١: سنن أبي داود
غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، وَابْنِ لَهِيعَةَ
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ

٢: تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم
غَزَوْنَا الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ
مَا قُرِئَ عَلَى يُونُسَ بْنِ عَبْدِ الأَعْلَى، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ، وَابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ

٣: صحيح ابن حبان
كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الضَّحَّاكِ بْنِ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ أَبِي حَبِيبٍ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي أَسْلَمُ أَبُو عِمْرَانَ، مَوْلًى لِكِنْدَةَ

٤: المستدرك على الصحيحين
غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ
حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، أَنْبَأَ ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ

٥: المستدرك على الصحيحين
كُنَّا : بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَنَسٍ الْقُرَشِيُّ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ، أَنْبَأَ حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَنْبَأَ يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ، أَخْبَرَنِي أَسْلَمُ أَبُو عِمْرَانَ، مَوْلَى بَنِي تُجِيبَ

٦: الجامع الكبير - سنن الترمذي
كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَسْلَمَ أَبِي عِمْرَانَ التُّجِيبِيِّ

کبھی راوی کہتے ہیں

غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ - ہم نے جنگ کی ایک شہر میں ہم قسطنطنیہ چاہتے تھے -

غَزَوْنَا الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ ہم نے قسطنطنیہ میں جنگ کی

كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ ہم روم کے ایک شہر میں تھے

كُنَّا بِالْقُسْطَنْطِينِيَّةِ ہم قسطنطنیہ میں تھے

اسی اضطراب کی وجہ سے شاید یہ روایت صحیحن میں نہیں اور امام ترمذی بھی اس کو حسن صحيح غريب کا درجہ دیتے ہیں -

دراصل عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کے امیر لشکر ہونے کے حوالے سے صحیح بات یہی ہے کہ وہ "كُنَّا بِمَدِينَةِ الرُّومِ" ہم روم کے ایک شہر میں تھے اور "غَزَوْنَا مِنَ الْمَدِينَةِ نُرِيدُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةَ" اور انہوں نے جنگ کی ایک شہر میں اور وہ قسطنطنیہ تک رسائی چاہتے تھے -
 

فہد حارث

مبتدی
شمولیت
جولائی 14، 2013
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
10

منطقی نقطۂ نگاہ سے بھی یہ بات درست نہیں کہ عبد الرحمن بن خالد بن الوليد کی قیادت میں ہونے والا یہ حملہ پہلا تھا کیونکہ اگر یہ پہلا حملہ تھا اور قسطنطنیہ تک رسائی ہو گئی تھی تو پھر قسطنطنیہ پر سولہ حملوں کی کیا ضرورت تھی - اصل بات یہی ہے کہ یہ سارے حملے قسطنطنیہ تک بری راستہ بنانے کے لئے تھے کیونکہ قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) ایک بندر گاہ تھی اور اس کا دفاع بہت اچھا تھا -

اس روایت میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ایک مسلمان کفار کی صفوں میں کود پڑا جس پر لوگوں نے کہا کہ اس نے اپنے آپ کو ہلاک کیا اور آیت {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} پڑھی اس پر ابو ايوب الانصاری رضي الله عنہ نے فرمایا کہ یہ آیت جہاد سے کنارہ کشی کرنے کی ہماری خواہش کی بنا پر نازل ہوئی تھی - اس کے برعکس امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ آیت {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195] کی تفسیر حذیفہ رضی الله تعالیٰ عنہ نے بیان کی ہے کہ:

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، {وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلاَ تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195] قَالَ: «نَزَلَتْ فِي النَّفَقَةِ»
یہ آیت انفاق کے بارے میں نازل ہوئی ہے -

اس بحث کا خلاصہ ہے کہ تاریخ کی مستند کتابوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ یزید بن معاویہ قسطنطنیہ پر حملہ کرنے والے لشکروں میں شامل تھے - قسطنطنیہ پر دو دفعہ حملہ ہوا - ایک سن ٥٠ یا ٥١ ہجری میں ہوا اور اس میں ابو ايوب الانصاری رضي الله عنہ بھی ساتھ تھے - دوسرا حملہ سن ٥٥ ہجری میں ہوا اور اصحابِ رسول کی جماعت کے ساتھ سمندر اور خشکی کے ذریعہ حملہ کر کے خلیج کو پار کیا اور اہل قسطنطنیہ سے ان کے دروازے پر جنگ کی - ان دونوں حملوں میں سپہ سالار لشکر یزید بن معاویہ تھے -

حدیث القسطنطنیہ پر شیعہ اعتراضات:

تمام راویوں کا شامی ہونا وہی شام جو معاویہ ابن ابی سفیان اور اسکے بیٹے یزید کا دارلحکومت تھا اور یہاں کے لوگ سخت مخالفین اہلبیت تھے اور بنی امیہ کی شان میں احادیث گھڑنے میں مشہور تھے -

جواب: اس روایت میں شامیوں کا تفرد نہیں - اس کے ایک راوی خالد بن معدان بن ابی كرب الكلاعی بھی ہیں -

الأعلام الزركلي کے مطابق:
خالد بن معدان بن أبي كرب الكلاعي، أبو عبد الله: تابعيّ، ثقة، ممن اشتهروا بالعبادة. أصله من اليمن، وإقامته في حمص (بالشام)
خالد بن معدان بن ابی كرب الكلاعی ، ابو عبد الله یمنی تھے لیکن حمص شام میں رہتے تھے - (جلد ٢ ، صفحہ ٢٩٩ ، الناشر: دار العلم للملایین)

یہ روایت اُمِ حرام بنت ملحان رضی الله تعالی عنہا کی ہے اور اُمِ حرام ، انس بن مالک رضی الله تعالی عنہ کی خالہ اور عبادہ بن الصامت رضی الله تعالی عنہ کی بیوی ہیں - مدینہ کی رہنے والی تھیں - یہ بھی شامی نہیں - مسلمان فتوحات کی وجہ سے بہت علاقوں میں پھیل گئے تھے - اگر اس اعتراض کو صحیح مانا جائے تو اس بنیاد پر تو علی رضی الله تعالی عنہ بھی کوفی کہلائیں گے -

روایت کے دوسرے راوی ثور بن يزيد کے لئے لکھتے ہیں کہ:

یحیی ابن معین (جن کے فن رجال کو تمام علماء مانتے ہیں) اس ثور کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ ثور اس جماعت میں شامل تھا جو علی ابن ابی طالب پر سب کرتے تھے (سب کا مطلب ہے برا کہنا اور گالیاں وغیرہ دینا) یحیی ابن معین کے الفاظ یہ ہیں: و قال فى موضع آخر : أزهر الحرازى ، و أسد بن وداعة و جماعة كانوا يجلسون و يسبون على بن أبى طالب ، و كان ثور بن يزيد لا يسب عليا ، فإذا لم يسب جروا برجلہ

جواب: ثور بْن يزيد الكلاعي الشامي حمصي - یہ اہل حمص میں سے تھے - ابن معین کے الفاظ کا مطلب ہے: أزهر الحرازي اورأسد بْن وداعة علی کو گالیاں دتیے تھے وكان ثور بن يزيد لا يسب عليا اور ثور بن يزيد علی کو گالیاں نہیں دیتے تھے - (الكامل في ضعفاء الرجال از ابن عدی: جلد ٢ ، صفحہ ٣١٠ ، الکتب العلمیہ - بیروت - لبنان)

اس بات کا تو مطلب ہی الٹا ہے ثور بن يزيد ، علی کو گالیاں نہیں دیتے تھے - ہاں یہ ضرور ہے کہ ابن سعد کے مطابق وہ لا أحب رجلا قتل جدى: علی کو اپنے دادا کے صفیں میں قتل کی وجہ سے نا پسند کرتے تھے -

یزید بن معاویہ کی بیعت:
١: سب سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ یزید بن معاویہ کی بیعت سے لے کر متمکن خلافت ہونے تک کل دس سال ہیں یعنی سن ٥١ ہجری سے لے کر سن ٦٠ ھجری تک - اس دوران تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ کسی نے مخالفت نہ کی لیکن معاویہ رضی الله عنہ کی وفات کے ایک سال بعد یعنی ٦١ ہجری میں حسین رضی الله عنہ نے اور عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ نے خروج کیا - دونوں کو وہ عصبیت یا سپورٹ نہ مل سکی جو یزید بن معاویہ کو حاصل تھی - ان دونوں نے راست قدم اٹھایا یا نہیں - اس پر رائے زنی کرنے کا ہمارا مقام نہیں کیونکہ حسین رضی الله عنہ اور عبد الله بن زبیر رضی الله عنہ دونوں جلیل القدر ہیں -

٢: معاویہ رضی الله عنہ کا اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کرنے کا عمل بھی قابل جرح نہیں کیونکہ اسلام میں خلیفہ مقرر کرنے کا حق خلیفہ کا ہی ہے جیسے ابوبکر رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ کو خلیفہ مقرر کیا - عمر رضی الله عنہ نے شہادت سے پہلے ایک کمیٹی مقرر کی - علی رضی الله عنہ نے شہادت سے پہلے اپنے بیٹے حسن رضی الله عنہ کو مقرر کیا - اسی طرح معاویہ رضی الله عنہ نے بھی علی رضی الله عنہ کی طرح اپنے بیٹے یزید کو مقرر کیا - اسلام میں موروثی خلافت کا نظریہ علی رضی الله عنہ نے ہی پیش کیا -

٣: حسن رضی الله عنہ نے علی رضی الله عنہ کی وفات کے سال ٤١ ہجری میں ہی خلافت سے دست برداری کا اعلان کر دیا - چونکہ وہ حسین رضی الله عنہ کے بڑے بھائی تھے اس لئے خاندانِ علی کے ایک نمائندہ تھے - معاویہ رضی الله عنہ کے دور میں دونوں بھائیوں کو وظیفہ بھی ملتا رہا - حسن رضی الله عنہ کی سن ٥٠ ہجری میں وفات ہوئی - سن ٥١ ہجری میں یزید بن معاویہ نے القسطنطنیہ پر حملہ کر کے امت میں اپنی امیر کی صلاحیتوں کو منوا لیا - اس حملے میں جلیل القدر اصحابِ رسول بھی ساتھ تھے - سن ٥١ ہجری میں معاویہ رضی الله عنہ نے یزید کی بیعت کی طرف لوگوں کو دعوت دی -

بخاری نے سوره الاحقاف کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ:
باب {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي أَنْ أُخْرَجَ وَقَدْ خَلَتِ الْقُرُونُ مِنْ قَبْلِي وَهُمَا يَسْتَغِيثَانِ اللَّهَ وَيْلَكَ آمِنْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ فَيَقُولُ مَا هَذَا إِلَّا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (17)} [الأحقاف:17]

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِى بِشْرٍ عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ قَالَ كَانَ مَرْوَانُ عَلَى الْحِجَازِ اسْتَعْمَلَهُ مُعَاوِيَةُ، فَخَطَبَ فَجَعَلَ يَذْكُرُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ، لِكَىْ يُبَايِعَ لَهُ بَعْدَ أَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِى بَكْرٍ شَيْئًا، فَقَالَ خُذُوهُ. فَدَخَلَ بَيْتَ عَائِشَةَ فَلَمْ يَقْدِرُوا عَلَيْهِ فَقَالَ مَرْوَانُ إِنَّ هَذَا الَّذِى أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي}. فَقَالَتْ عَائِشَةُ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِينَا شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ إِلاَّ أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِى.

مروان جو معاویہ رضی الله تعالیٰ عنہ کی جانب سے حجاز پر (گورنر) مقرر تھے انہوں نے معاویہ کے بعد يزيد بن معاويہ کی بیعت کے لئے خطبہ دیا - پس عبد الرحمن بن ابی بكر نے کچھ بولا - جس پر مروان بولے اس کو پکڑو اور عبد الرحمن بن ابی بكر عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا کے گھر میں داخل ہو گئے - اس پر مروان بولے کہ یہی وہ شخص ہے جس کے لئے نازل ہوا ہے {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي} - اس پر عائشہ رضی الله تعالیٰ عنہا نے پردے کے پیچھے سے فرمایا کہ ہمارے لئے قرآن میں سوائے برأت کی آیات کے کچھ نازل نہ ہوا -

عائشہ رضی الله تعالی عنہا کی وفات ٥٧ ہجری کی ہے لہذا یہ واقعہ معاویہ ر ضی الله تعالیٰ عنہ سے کم از کم تین سال پہلے کا ہے -

أبو عمرو خليفة بن خياط اپنی کتاب تاريخ خليفة بن خياط میں لکتھے ہیں کہ:
فِي سنة إِحْدَى وَخمسين وفيهَا غزا يَزِيد بْن مُعَاوِيَة أَرض الرّوم وَمَعَهُ أَبُو أَيُّوب الْأنْصَارِيّ وفيهَا دَعَا مُعَاوِيَة بْن أَبِي سُفْيَان أهل الشَّام إِلَى بيعَة ابْنه يَزِيد بْن مُعَاوِيَة فأجأبوه وَبَايَعُوا
اور سن ٥١ ہجری میں یزید بن معاویہ نے رومی سر زمین پر جہاد کیا اور ان کے ساتھ تھے ابو ايوب الانصاری اور اسی سال معاويہ بن ابِی سفيان نے اہل شام کو یزید بن معاویہ کی بیعت کی دعوت دی جس کو انہوں نے قبول کیا اور بیعت کی - (صفحہ ٢١١)

بخاری مزید بیان کرتے ہیں کہ:
باب إِذَا قَالَ عِنْدَ قَوْمٍ شَيْئًا، ثُمَّ خَرَجَ فَقَالَ بِخِلاَفِهِ

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ
نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يزيد بن معاويہ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا گاڑھا جائے گا - اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتباع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے -

بخاری رحمتہ الله علیہ یزید بن معاویہ کو حسین رضی الله تعالیٰ عنہ کی شہادت کا ذمہ دار نہیں سمجھتے تھے بخاری بَابُ مَنَاقِبِ الحَسَنِ وَالحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا میں روایت کرتے ہیں کہ:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي نُعْمٍ، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، وَسَأَلَهُ عَنِ المُحْرِمِ؟ قَالَ: شُعْبَةُ أَحْسِبُهُ يَقْتُلُ الذُّبَابَ، فَقَالَ: أَهْلُ العِرَاقِ يَسْأَلُونَ عَنِ الذُّبَابِ، وَقَدْ قَتَلُوا ابْنَ ابْنَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ابن ابی نعم کہتے ہیں میں نے عبد الله بن عمر کو سنا جب ان سے محرم کے بارے میں سوال ہوا کہ اگر محرم (احرام ) کی حالت میں مکھی قتل ہو جائے تو کیا کریں پس انہوں نے کہا اهل العراق مکھی کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور انہوں نے رسول الله صلى الله عليہ وسلم کے نواسے کا قتل کیا -

بخاری نے ابن عمر کی یہ روایت بیان کر کے قتل حسین کا بوجھ أَهْلُ العِرَاقِ پر بتایا اور أَهْلُ الشام کو اس کا ذمہ دار قرار نہ دیا -

اس واقعہ (کربلا) کے ١٠٠ سال بعد ابو مخنف لوط بن یحییٰ نے جو اپنے زمانے میں آگ لگانے والا شیعہ مشہور تھا اور ایک قصہ گو تھا اس نے گھڑ کر مختلف قصے اس واقعہ سے متعلق مشہور کیے جن کو ذاکرین اب شامِ غریباں میں بیان کرتے ہیں جو نہایت عجیب اور محیر العقول ہیں مثلاً حسین کا ایک ایک کر کے اپنے رشتہ داروں کو شہید ہونے بھیجنا - ان کے قتل کے وقت آسمان سے خون کی بارش ہونا - آسمان سے ھاتف غیبی کا پکارنا - قبر نبی سے سسکیوں اور رونے کی آواز آنا - حسین کے کٹے ہوۓ سر کا نوک نیزہ پر تلاوت سوره کہف کرنا - وغیرہ

رہی بات یزید بن معاویہ کی حدیث کی روایت کی تو یہ بھی غیر ضروری ہے کیونکہ یزید بن معاویہ نے کچھ روایت نہیں کیا - اور اصحاب رسول کی سینکڑوں اولادیں ہیں جنہوں نے کوئی روایت بیان ہی نہیں کی - لہذا یہ مسئلہ پیدا ہی نہیں ہو گا تو اس کو بیان کرنے کا فائدہ کیا ہے -

انہی اختلافات پر امت میں پہلے سیاسی گروہ اور پھر مذہبی فرقے بنے ورنہ اس سے پہلے نہ عقائد کا اختلاف تھا نہ عمل میں کوئی بحث - آج ١٤٠٠ سال گذرنے کے باوجود ہم انہی مسئلوں میں الجھے ہوۓ ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا فائدہ نہیں -

فاعتبرو یا اولی الابصار!
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
ضعیف تو دور کی بات آپ کے خط کشید ہ الفاظ سرے سے احادیث ہی نہیں بلکہ یہ تو عہدیزید رحمہ اللہ کے صدیوں بعد پیداہونے والے امتیوں کے اقوال ہیں جو بے دلیل ہیں۔
اوربچوں کی امارت والی جو حدیث ہے اس میں یزید کا ذکر کہا ں اس میں تو صرف بچوں کی امارت کا ذکر ہے، اوریزید رحمہ اللہ بچے تو نہ تھے ، نیز اس کی مفصل تشریح پیش کردی گئی ہے اس کا آپ کے پاس کوئی جواب ہو تو پیش کریں ۔

[FONT=kfgqpc uthman taha naskh, trad arabic bold unicode, tahoma]شیخ ،[/FONT]
[FONT=kfgqpc uthman taha naskh, trad arabic bold unicode, tahoma]اپ نے ٧٠ کے فتنوں کا مصداق حجاج کو بنایا ہے اور اور اپ کے مطابق وہ ہجری حساب سے ٨٠ ہجری کا دور بنے گا اب کیا یہ ممکن ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم تو فتنہ ٨٠ ہجری کی سے شروع ہوں گے مگر وہ فتنہ (حجاج ) ٧٠ ہجری یعنی نبی صلی الله علیہ وسلم کے پیشنگوئی کرنے کے دس سال پہلے ہی شروع ہو جائے کیونکہ حجاج ٧٣ ہجری میں مکہ کا محاصرہ کر چکا اور ابن زبیر رضی الله عنہ کی شہادت کر چکا تھا تو جس کو اپ فتنہ بتا رہے ہے وہ تو نبی صلی الله علیہ وسلم کے اس غیبی خبر میں جو وقت ہے اس سے قبل ہی فتنہ آ چکا ہے کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اپ کی توجہی غلط ہے اور امام شوکانی اور محمد رشید رضا(تفسیر المنار والے ) نے جو اس کی توجہی پیش کی ہے یعنی اس کو نبی صلی الله علیہ وسلم کے ہجرت کے وقت سے حساب لگا رہے ہے جو ٦٠ ہجری کا دور بنتا ہے جس میں کربلا اور حرہ جیسے فتنہ اٹھے تھے . الله سب کو ہدایت دے [/FONT]
[FONT=kfgqpc uthman taha naskh, trad arabic bold unicode, tahoma][/FONT]
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
معاویہ رضی الله عنہ کا اپنے بیٹے کو خلیفہ مقرر کرنے کا عمل بھی قابل جرح نہیں کیونکہ اسلام میں خلیفہ مقرر کرنے کا حق خلیفہ کا ہی ہے جیسے ابوبکر رضی الله عنہ نے عمر رضی الله عنہ کو خلیفہ مقرر کیا - عمر رضی الله عنہ نے شہادت سے پہلے ایک کمیٹی مقرر کی - علی رضی الله عنہ نے شہادت سے پہلے اپنے بیٹے حسن رضی الله عنہ کو مقرر کیا - اسی طرح معاویہ رضی الله عنہ نے بھی علی رضی الله عنہ کی طرح اپنے بیٹے یزید کو مقرر کیا - اسلام میں موروثی خلافت کا نظریہ علی رضی الله عنہ نے ہی پیش کیا -


بھائی کچھ تاریخ کو چھوڑ کر کتب احادیث سے بھی شغف رکھیں حسن رضی الله عنہ کو علی رضی الله عنہ نے نہیں نامزد کیا تھا بلکہ ٤٠ ہزار مہاجرین و انصار نے چنا تھا یہ اسکین پڑھ لیں
beat1.png


عون المعبود شرح ابو داؤد
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اس طرح کے ملتے جلتے موضوعات پر فورم پر دونوں طرف سے اتنا لکھا جا چکا ہے ، اور اس تکرار کے ساتھ لکھا جا چکا ہے کہ شاید کچھ نئی بات سامنے نہ آئے ، لہذا کم از کم اس فورم کی حد تک اس موضوع پر بات بالکل نہ کریں ، اور جتنے بھی احباب اس قسم کی بحثوں میں شریک رہے ، میری ان سے گزارش ہے کہ دیگر اہم اور مفید موضوعات میں بھی اپنا حصہ ڈالیں ، لوگوں اور بھی بہت سارے مسائل کی حاجت ہے ، چاروں طرف اسلامی تاریخ کے متنازعہ مسائل کو بکھیرنے کی بجائے ، عوام کو پیش آمدہ مسائل کے حل کی طرف توجہ کریں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top