محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
اس کے بعد اگر سائل کسی ماہ کی قسط وقت مقررہ پر ادا نہ کر سکے تو سود در سود نہیں لگے گا بلکہ معاہدہ توڑنے کا "کفارہ" ادا کرنا پڑے گا۔ ابتسامہ۔
سوائے اس کے کہ ٹرمنالوجی مختلف ہے، عملاً ان کے اور سودی بنکوں کے طریقہ کار میں کوئی فرق سرے سے پایا ہی نہیں جاتا۔
پیپر کرنسی کی بجائے اگر ”گولڈ کرنسی“ کو رواج دیاجائے تو ایک تو افراط زر ختم ہوجائے گا، دوسرے مہنگائی کا جن قابو میں آجائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیئے گئے قرض پر سود، منافع، جرمانہ یا کفارہ کے نام پر کچھ بھی ’اضافی‘ نہیں دینا پڑے گا۔
اس پر بھی اپنی قیمتی رائے ضرور دیجئے۔
بات تو بادی النظر میں بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔پیپر کرنسی کی بجائے اگر ”گولڈ کرنسی“ کو رواج دیاجائے تو ایک تو افراط زر ختم ہوجائے گا، دوسرے مہنگائی کا جن قابو میں آجائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیئے گئے قرض پر سود، منافع، جرمانہ یا کفارہ کے نام پر کچھ بھی ’اضافی‘ نہیں دینا پڑے گا۔۔
شاکر بھائی!بات تو بادی النظر میں بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔
لیکن کیا یہ ممکن ہے بھی سہی؟ دنیا میں کسی ملک نے اس کا تجربہ کیا ہے؟
اور اگر یہ گولڈ کرنسی گولڈ ہی ہو، تو اس کی حفاظت کیونکرممکن ہوگی؟
دوم:جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" يقينا تمہارا ساتھى اپنے قرض كے بدلے قيدى ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3341 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر نماز ميں درج ذيل دعا پڑھا كرتے تھے:
" اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ "
اے اللہ ميں تيرى پناہ پكڑتا ہوں گناہ سے اور قرض سے "
تو ايك كہنے والے نے عرض كيا:
آپ قرض سے اتنى كثرت كے ساتھ پناہ كيوں مانگتے ہيں ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" بلا شبہ جب آدمى مقروض ہو جاتا ہے ( يعنى جب قرض ليتا ہے ) تو بات چيت ميں جھوٹ بولتا ہے، اور وعدہ كرتا ہے تو وعدہ خلافى كرتا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 832 )صحيح مسلم حديث نمبر ( 589 )
اور امام نسائى رحمہ اللہ نے محمد بن جحش رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں:
" ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس بيٹھے ہوئے تھے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارك آسمان كى طرف اٹھايا اور پھر اپنى ہتھيلى اپنى پيشانى پر ركھى اور فرمانے لگے:
سبحان اللہ! كتنى سختى اور تشديد نازل كى گئى ہے ؟
تو ہم خاموش رہے اور سہم گئے، اور جب دوسرے دن ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا كہ اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم وہ كونسى سى سختى اور تشديد تھى ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اس ذات كى قسم جس كے ہاتھ ميں ميرى جان ہے! اگر كوئى شخص اللہ كى راہ ميں قتل كر ديا جائے، پھر اسے زندہ كيا جائے، پھر قتل كر ديا جائے، اور پھر زندہ كيا جائے اور پھر قتل كر ديا جائے، اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت ميں داخل نہيں ہو گا، حتى كہ اس كا قرض ادا نہ كر ديا جائے"
سنن نسائى حديث نمبر ( 4605 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر ( 4367 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسے شخص كى نماز جنازہ نہيں پڑھائى تھى جس كے ذمہ دو دينار قرض تھے، حتى كہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ نے اس كا قرض ادا كرنے كى حامى بھرى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى نماز جنازہ ادا كى، اور جب دوسرے دن ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ كو ديكھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اب اس كى چمڑى ٹھنڈى ہوئى ہے "
مسند احمد ( 3 / 629 ) امام نووى رحمہ اللہ نے الخلاصۃ ( 2 / 931 ) ميں اور ابن مفلح نے الآداب الشرعيۃ ( 1 / 104 ) ميں نقل كيا ہے، اور مسند احمد كے محققين نے اسے حسن قرار ديا ہے.