• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب

اللہ عزوجل اپنے ان دشمنوں کے بارے میں قرآن عظیم کی سب سے پہلی سورت میں ارشاد فرماتے ہیں:
{غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ} [الفاتحہ:۷]
''(اللہ کریم اپنے مومن بندوں کو دعا سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وہ اپنی نمازوں میں اپنے رب سے یوں مانگا کریں) اے اللہ! اُن کا راستہ و منہج (تہذیب و تمدن اور دین و مذہب) نہیں چاہیے جن پر (تیرا) غضب و غصہ نازل ہوا ہے۔''
آگے دوسری سورت (البقرہ) میں فرمایا:
{وَبَائُ وْا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ} [البقرہ:۶۱]
''یہ یہودی اللہ کا غضب لے کر واپس پلٹے۔''
آگے ایک اور مقام پر فرمایا:
{فَبِمَا نَقْضِہِمْ مِّیْثَاقَہُمْ لَعَنّٰہُمْ وَ جَعَلْنَا قُلُوْبَہُمْ قٰسِیَۃً یُحَرِّفُونَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعَہٖ وَ نَسُوْا حَظًّا مِّمَّا ذُکِّرُوْا بِہٖ} [المائدہ:۱۳]
''تو ان کے اپنے عہد کو توڑنے کی وجہ ہی سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دلوں کو سخت کر دیا کہ وہ کلام کو اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں اور وہ اس میں سے ایک حصہ بھول گئے جس کی انھیں نصیحت کی گئی تھی۔ ''
یہودی وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اپنے خالق و مالک اللہ پر بھی زبان درازی سے گریز نہیں کیا۔ کہنے لگے: اللہ تعالیٰ تو فقیر ہے۔ (العیاذ باللہ) اللہ تعالیٰ ان کی ایسی بک بک سے بہت بلند ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس موضوع کی تفصیل کے لیے: ابن کثیر، قرطبی اور طبری رحمہم اللہ کی تفاسیر میں موضوع ہذا سے متعلقہ آیات کی تفسیر دیکھ لیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
چنانچہ رب کریم فرماتے ہیں:
{لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِo} [آل عمران:۱۸۱]
''بلاشبہ یقینا اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنھوں نے کہا بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں، ہم ضرور لکھیں گے جو انھوں نے کہا اور ان کا نبیوں کو کسی حق کے بغیر قتل کرنا بھی اور ہم کہیں گے جلنے کا عذاب چکھو۔''
یہ ظالم لوگ اللہ عزوجل کے بارے میں کہنے لگے کہ وہ (نعوذ باللہ) بخیل ہے۔ اللہ عزوجل نے ان کی اس بکواس کا جواب یوں نازل فرمایا:
{وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ یَدُ اللّٰہِ مَغْلُوْلَۃٌ غُلَّتْ اَیْدِیْہِمْ وَ لُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا بَلْ یَدٰہُ مَبْسُوْطَتٰنِ یُنْفِقُ کَیْفَ یَشَآئُ وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا وَ اَلْقَیْنَا بَیْنَہُمُ الْعَدَاوَۃِ وَ الْبَغْضَآئَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَہَا اللّٰہُ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَo} [المائدہ:۶۴]
''اور یہود نے کہا اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، ان کے ہاتھ باندھے گئے اور ان پر لعنت کی گئی، اس کی وجہ سے جو انھوں نے کہا، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے، اور یقینا جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک دشمنی اور بغض ڈال دیا۔ جب کبھی وہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور وہ زمین میں فساد کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔''
پھر اللہ عزوجل کا فیصلہ بھی اسی طرح واقع ہوگیا۔ چنانچہ بخل، کنجوسی، حسد و کینہ، بزدلی اور ذلت ان کا مقدر بن گئیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بارے میں ان کا جو کہنا تھا یہی معاملہ اُن کے رسولوں کے بارے میں تھا، اور آج بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ انہیں نہایت سخت قسم کی سزا دے گا۔ چنانچہ اللہ ذوالجلال فرماتے ہیں:
{لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا وَ قَتْلَہُمُ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ وَّ نَقُوْلُ ذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِo ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِo} [آل عمران:۱۸۱،۱۸۲]
''بلاشبہ یقینا اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنھوں نے کہا بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں، ہم ضرور لکھیں گے جو انھوں نے کہا اور ان کا نبیوں کو کسی حق کے بغیر قتل کرنا بھی اور ہم کہیں گے جلنے کا عذاب چکھو۔ یہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے آگے بھیجا اور اس لیے کہ بے شک اللہ بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں۔''
یہ یہودی وہ لوگ ہیں کہ جنہیں اللہ رب العالمین نے ایک نہایت ظاہر و باہر معجزہ کے ذریعے فرعونِ مصر اور اس کے لشکر سے نجات دلائی تھی ۔یہ معجزہ سمندر کو پھاڑ کر اس میں سے راستے بناتے ہوئے ان کو پوری سلامتی کے ساتھ پار لے جانا تھا۔ اس وقت یہ لوگ اللہ عزوجل کی اس قدرت اور عظیم بادشاہی کو دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ سمندر کے پار پہنچتے ہی ان ظالموں نے اپنے نبی جناب موسیٰ علیہ السلام سے مطالبہ کر ڈالا کہ وہ ان کے لیے ایک بت (صنم) کی صورت میں معبود بنا دیں۔ (ظالموں نے اللہ کے احسان کا بدلہ اس قدر جلدی میں اس غداری کی صورت میں یوں دے ڈالا۔) اور پھر ان پر اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے یہ بھی تھا کہ صحرائے سینا میں اللہ کریم نے ان پر بادلوں کا سایہ کردیا جو انہیں سورج کی گرمی سے محفوظ رکھتا تھا۔ اور یہ کہ سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کے ایک پتھر پر لاٹھی مارنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اس پتھر سے پانی پُھٹا کر اس سے بارہ چشمے جاری کردیے۔ پھر ان کے لیے خوراک کا بندوبست یوں کیا کہ: ان پر آسمان سے من اور سلویٰ (پکے پکائے کھانے) اتار دیے۔ نہایت لذیذ یہ دو کھانے تھے، بغیر کسی محنت و مشقت کے ان کو ملتے تھے۔ مگر ظالموں نے اللہ کی ان نعمتوں کا شکر کی صورت میں حق ہی ادا نہ کیا۔ بلکہ ان میں سے اکثر اس کھانے سے اُکتا گئے اور پھر گھٹیا قسم کے مطالبے کرنے لگے۔ قرآن عظیم میں ان کی اس خباثت کو یوں بیان فرمایا ہے:
{وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ مِنْ بَقْلِہَا وَ قِثَّآئِہَا وَ فُوْمِہَا وَ عَدَسِہَا وَ بَصَلِہَا ط قَالَ اَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌط اِہْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتَلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَo} [البقرہ:۶۱]
''اور جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم ایک کھانے پر ہر گز صبر نہ کریں گے، سو ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، وہ ہمارے لیے کچھ ایسی چیزیں نکالے جو زمین اپنی ترکاری اور اپنی ککڑی اور اپنی گندم اور اپنے مسور اور اپنے پیاز میں سے اگاتی ہے۔ فرمایا کیا تم وہ چیز جو کمتر ہے، اس چیز کے بدلے مانگ رہے ہو جو بہترہے، کسی شہر میں جا اترو تو یقینا تمھارے لیے وہ کچھ ہو گا جو تم نے مانگا، اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کی طرف سے بھاری غضب کے ساتھ لوٹے۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے اور نبیوں کو حق کے بغیر قتل کرتے تھے، یہ اس لیے کہ انھوں نے نا فرمانی کی اور وہ حد سے گزرتے تھے۔ ''
یہ یہودی وہی قوم ہیں کہ جنہیں ان کے پیغمبر جناب موسیٰ علیہ السلام نے حکم دیا کہ وہ اپنے آباؤ اجداد کی جاگیر، مقدس سرزمین فلسطین میں جاداخل ہوں اور وہاں آباد ہوجائیں تو ان کا جواب کیا تھا؟
واقعہ کی تفصیل قرآں یوں بیان کرتا ہے:
{وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقَوْمِ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآئَ وَ جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا وَّ اٰتٰکُمْ مَّالَمْ یُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَo یٰقَوْمِ ادْخُلُوْا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَo قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْہَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ وَ اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَا حَتّٰی یَخْرُجُوْا مِنْہَاج فَاِنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَo قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَ یَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمَاادْخُلُوْا عَلَیْہِمُ الْبَابَ ج فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَط وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مَّؤْمِنِیْنَo قَالُوْا یٰمُوْسٰٓی اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَہَآ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْہَا فَاذْہَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَآ اِنَّا ہٰہُنَا قٰعِدُوْنَo قَالَ رَبِّ اِنِّّیْ لَآ اَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَ اَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَo قَالَ فَاِنَّہَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَتِیْہُوْنَ فِی الْاَرْضِط فَـلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَo} [المائدہ:۲۰تا۲۶]
''اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب اس نے تم میں انبیاء بنائے اور تمھیں بادشاہ بنا دیا اور تمھیں وہ کچھ دیا جو جہانوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ بھائیو پاک زمین (شام کے ملک یا بیت المقدس یا کوہِ طور) میں داخل ہو جائو جو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے لکھ دی ہے (یعنی وہاں کی حکومت تمھاری قسمت میں رکھی ہے) اور پیٹھ موڑ کر مت پھرو پھر الٹے نقصان میں آجائو۔ اے میری قوم! اس مقدس زمین میں داخل ہو جائو جو اس نے تمھارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھوں پر نہ پھر جائو، ورنہ خسارہ اٹھانے والے ہو کر لوٹو گے۔ انھوں نے کہا اے موسیٰ! بے شک اس میں ایک بہت زبردست قوم ہے اور بے شک ہم ہرگز اس میں داخل نہ ہوں گے، یہاں تک کہ وہ اس سے نکل جائیں، پس اگر وہ اس سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہونے والے ہیں۔ دو آدمیوں نے کہا، جو ان لوگوں میں سے تھے جو ڈرتے تھے، ان دونوں پر اللہ نے انعام کیا تھا، تم ان پر دروازے میں داخل ہو جائو، پھر جب تم اس میں داخل ہوگئے تو یقینا تم غالب ہو اور اللہ ہی پر پس بھروسا کرو، اگر تم مومن ہو۔ انھوں نے کہا اے موسیٰ! بے شک ہم ہرگز اس میں کبھی داخل نہ ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں، سو تو اور تیرا رب جائو، پس دونوں لڑو، بے شک ہم یہیں بیٹھنے والے ہیں۔ اس نے کہا اے میرے رب! بے شک میں اپنی جان اور اپنے بھائی کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں، سو تو ہمارے درمیان اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان علیحدگی کر دے۔''
یہ یہود ووہ قوم ہے کہ اللہ کا پیغمبر موسیٰ کلیم اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے اور یہ لوگ ان کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے والے ظاہرہ و باہرہ معجزات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے تھے مگر اس کے باوجود جناب موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام ان سے چند دنوں کے لیے غائب ہوئے تھے تاکہ اپنے رب سے کچھ باتیں کرآئیں کہ ان ظالموں نے اُن کے بعد ایک بچھڑے کو معبود بنالیا اور اُس کی پوجا کرنے لگے۔
چنانچہ اللہ رب العزت نے شدید ناراض ہوئے اور ان کو خوب ڈانٹ پلائی۔ فرمایا:
{اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوا الْعِجْلَ سَیَنَالُہُمْ غَضَبٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ ذِلَّۃٌ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُفْتَرِیْنَo} [الاعراف:۱۵۲]
''بے شک جن لوگوں نے بچھڑے کو (بطورِ معبود) پکڑا عنقریب انھیں ان کے رب کی طرف سے بڑا غضب پہنچے گا اور بڑی رسوائی دنیا کی زندگی میں اور ہم جھوٹ باندھنے والوں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔''
بچھڑے کی پوجا کے نتیجے میں یہودیوں پر اللہ تعالیٰ کا جو غضب نازل ہوا وہ یہ تھا کہ: اللہ عزوجل نے ان کی توبہ قبول کرنے کے لیے ایک کڑی شرط رکھ دی اور وہ یہ تھی کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کو قتل کریں۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے ان کو اللہ کا یہ حکم پہنچاتے ہوئے فرمایا:
{وَ اِذْقَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰقْومِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِا تِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْ آاِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْآ اَنْفُسَکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْدَبَارِئِکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُْمْ اِنَّہٗ ہُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُo} [البقرہ:۵۴]
''اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم! بے شک تم نے بچھڑے کو اپنے پکڑنے کے ساتھ اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، پس تم اپنے پیدا کرنے والے کی طرف توبہ کرو، پس اپنے آپ کو قتل کرو، یہ تمھارے لیے تمھارے پیدا کرنے والے کے نزدیک بہتر ہے، تو اس نے تمھاری توبہ قبول کر لی، بے شک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ ''
چنانچہ بنواسرائیل نے تلواریں، چھریاں سونت لیں اور لگے ایک دوسرے کو قتل کرنے، حتیٰ کہ اللہ عزوجل نے اُن کی توبہ قبول کرلی۔ اور جہاں تک ذلت و رسوائی کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں ہی اس سے دوچار کر رکھا ہے۔
یہ یہود وہی قوم ہیں کہ انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرکے بچھڑے کی پوجا سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ایک دوسرے کو قتل عام کرنے کے بعد ان کی توبہ قبول فرمائی۔ اس کے بعد تھوڑی ہی مدت گزری تھی کہ یہ لوگ اپنے پیغمبر سیّدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے: موسیٰ! ہم تیری بات کو کبھی بھی ماننے والے نہیں (کہ یہ تورات اللہ کا کلام ہے) جب تک کھلم کھلا ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھ نہ لیں۔ چنانچہ انہوں نے جب یہ مطالبہ کیا تو اچانک ایک بجلی نے ان کو آکر پکڑلیا (بجلی اُن پر آن گری) اور وہ اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ اس بجلی کی کڑک سے وہ بے ہوش کر مرگئے۔ (اور پھر موسیٰ علیہ السلام کی دُعا سے دوبارہ زندہ ہوگئے۔) ان کو یہ موت کا آنا انہیں سزا کے طور پر تھا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ یہود وہی قوم ہے کہ جنہیں سیّدنا موسیٰ علیہ السلام نے کسی شخص کے قتل ہوجانے پر انہیں حکم دیا کہ وہ ایک گائے ذبح کریں۔ مگر یہ لوگ جناب موسیٰ علیہ السلام سے بحث مباحثہ اور جھگڑا کرنے لگے کہ یہ گائے کس عمر کی، کس رنگ کی اور کون سی خوبیوں والی ہو؟ اس ضمن میں وہ سوالات کرکے اپنے آپ پر سختی کرتے چلے گئے اور اللہ تعالیٰ بھی اُن پر سختی کرتے گئے۔ یہی وہ یہود ہیں کہ اللہ عزوجل ان کو ڈانٹتے اور لعن طعن کرتے ہوئے اس معاملے کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ جو اُنہوں نے اللہ عزوجل کے معجزات و آیات اور مردوں کو زندہ کرنا اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ فرمایا:
{ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَہِیَ کَالْحِجَارَۃِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَۃًط وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِط وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo} [البقرہ:۷۴]
''پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے تو وہ پتھروں جیسے ہیں، یا سختی میں (ان سے بھی) بڑھ کر ہیں اور بے شک پتھروں میں سے کچھ یقینا وہ ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بے شک ان سے کچھ یقینا وہ ہیں جو پھٹ جاتے ہیں، پس ان سے پانی نکلتا ہے اور بے شک ان سے کچھ یقینا وہ ہیں جو اللہ کے ڈر سے گرپڑتے ہیں اور اللہ اس سے ہر گز غافل نہیں جو تم کر رہے ہو۔ ''
یہی وہ یہودی ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں:
{وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوْا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوْا مِنْہَا حَیْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّ قُوْلُوْا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْ لَکُمْ خَطٰیٰکُمْ وَ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَo فَبَدَّلَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا قَوْلًا غَیْرَ الَّذِیْ قِیْلَ لَہُمْط فَاَنْزَلْنَا عَلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآئِ بِمَاکَانُوْا یَفْسُقُوْنَo} [البقرہ:۵۸،۵۹]
''اور جب ہم نے کہا اس بستی میں داخل ہو جائو، پس اس میں سے کھلا کھائو جہاں چاہو اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جائو اور کہو بخش دے، تو ہم تمھیں تمھاری خطائیں بخش دیں گے اور ہم نیکی کرنے والوں کو جلد ہی زیادہ دیں گے۔ پھر ان لوگوں نے جنھوں نے ظلم کیا، بات کو اس کے خلاف بدل دیا جو ان سے کہی گئی تھی، تو ہم نے ان لوگوں پر جنھوں نے ظلم کیا تھا، آسمان سے ایک عذاب نازل کیا، اس لیے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے۔ ''
یعنی اللہ رب العالمین نے انہیں حکم تو یہ دیا تھا کہ وہ بیت المقدس میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور یوں کہیں: اے اللہ ہمارے گناہ معاف کردے۔ مگر وہ لوگ چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور کہہ رہے تھے: اللہ بالیوں سمیت گندم دے دے۔ تو غایت درجہ کی یہ اللہ کریم کی نافرمانی تھی۔
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی اطاعت سے نکل جانے کی بنا پر اُن پر اپنا عذاب نازل فرمادیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
انہیں یہود کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:
{وَ اِذْ قُلْتُمْ یٰمُوْسٰی لَنْ نَّصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ مِنْ بَقْلِہَا وَ قِثَّآئِہَا وَ فُوْمِہَا وَ عَدَسِہَا وَ بَصَلِہَا قَالَ اَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِیْ ہُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْرٌ اِہْبِطُوْا مِصْرًا فَاِنَّ لَکُمْ مَّا سَاَلْتُمْ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتَلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَo} [البقرہ:۶۱]
''اور جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم ایک کھانے پر ہر گز صبر نہ کریں گے، سو ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کر، وہ ہمارے لیے کچھ ایسی چیزیں نکالے جو زمین اپنی ترکاری اور اپنی ککڑی اور اپنی گندم اور اپنے مسور اور اپنے پیاز میں سے اگاتی ہے۔ فرمایا کیا تم وہ چیز جو کمتر ہے، اس چیز کے بدلے مانگ رہے ہو جو بہترہے، کسی شہر میں جا اترو تو یقینا تمھارے لیے وہ کچھ ہو گا جو تم نے مانگا، اور ان پر ذلت اور محتاجی مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کی طرف سے بھاری غضب کے ساتھ لوٹے۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرتے اور نبیوں کو حق کے بغیر قتل کرتے تھے، یہ اس لیے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے گزرتے تھے۔ ''
ان ظالموں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کیا، شریعت الٰہی کو اپنانے والوں کی اہانت کی، اور یہ تھے اللہ کے نبی اور ان کے اطاعت گزار اہل ایمان۔ ان ظالموں نے اپنے انبیاء اور ان کے اطاعت گزاروں کی غایت درجہ تک تنقیص کرتے ہوئے انہیں قتل کر ڈالا۔ بلکہ ہر دور میں وہ ایسے پاکباز لوگوں کو قتل کرتے کرواتے رہے۔ چنانچہ اس سے بڑھ کر کوئی کفر نہ تھا۔ پس پھر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو ایسی ذلت و رسوائی کے ذریعے سزا دی کہ جس کے یہ مستحق تھے اور ان پر اپنا غضب لکھ دیا۔
یہی وہ یہودی قوم ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے:
{وَ لَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِیْنَ اعْتَدَوْا مِنْکُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنَا لَہُمْ کُوْنُوْا قِرَدَۃً خٰسِئِیْنَo}[البقرہ:۶۵]
''اور بلاشبہ یقینا تم ان لوگوں کو جان چکے ہو جو تم میں سے ہفتے (کے دن) میں حد سے گزر گئے تو ہم نے ان سے کہا ذلیل بندر بن جائو۔ ''
ان ظالموں نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی کی اور اس کے ساتھ کیے گئے عہد و میثاق کو توڑ کر رکھ دیا اور یہ عہد تھا ہفتہ والے دن کی تعظیم کرنا اور اس دن اللہ کی عبادت کرنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ یہودی وہی لوگ ہیں کہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فرمان اس طرح بھی ہے:
{وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبْعَثَنَّ عَلَیْہِمْ اِلٰی یَوْمِ الْقَیٰمَۃِ مَنْ یَّسُوْمُہُمْ سُوْٓئَ الْعَذَابِ اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیْعُ الْعِقَابِ وَ اِنَّہٗ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo وَ قَطَّعْنٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اُمَمًا مِنْہُمُ الصّٰلِحُوْنَ وَ مِنْہُمْ دُوْنَ ذٰلِکَ وَ بَلَوْنٰہُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَo}[الاعراف:۱۶۷،۱۶۸]
''اور جب تیرے رب نے صاف اعلان کر دیا کہ وہ قیامت کے دن تک ان پر ایسا شخص ضرور بھیجتا رہے گا جو انھیں برا عذاب دے، بے شک تیرا رب یقینا بہت جلد سزا دینے والا ہے اور بے شک وہ یقینا بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اور ہم نے انھیں زمین میں مختلف گروہوں میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، انھی میں سے کچھ نیک تھے اور ان میں سے کچھ اس کے علاوہ تھے اور ہم نے اچھے حالات اور برے حالات کے ساتھ ان کی آزمائش کی، تا کہ وہ باز آجائیں۔''
ان آیات میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ یہود کی کھلی نافرمانی، اللہ تعالیٰ کے حکموں اور اس کی شریعت کی صریح مخالفت اور ان کا اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ امور کو حلال کرلینے والے جرائم کی بنا پر قیامت تک کے لیے اُن پر ایسے بندے مسلط کرے گا جو ان کو بڑی تکلیفیں دیتے رہیں گے۔ چنانچہ وہ یونانی، کلشدانی، کلدانی، ایرانی و فارسی اور رومی بادشاہوں کے عتاب کا شکار رہے۔ پھر وہ نصاریٰ کے قہر میں آگئے اور انہوں نے ان کو صدیوں تک رسوا کیے رکھا۔ اس کے بعد اسلام کا غلبہ ہوا اور نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوگئے۔ چنانچہ اپنی غلط کاریوں اور گندی کرتوتوں کی وجہ سے یہ لوگ آپ کے زیر عتاب آگئے ۔پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے روئے زمین میں ان کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کردیا اور یہ لوگ زمین کے جس خطے میں بھی جاکر آباد ہوئے اسی ملک کے رہنے والوں کے ہاتھوں اور وہاں کے بادشاہوں کے ذریعے ان کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ بڑی تکلیفوں میں مبتلا کرتا رہا۔
یہودیوں کی پوری تاریخ اس حقیقت کی زندہ شہادت ہے وہ ہر زمانے میں جہاں بھی رہے دوسروں کے محکوم اور غلام بن کر رہے۔ آئے دن ان پر ایسے حکمران مسلط ہوتے رہے جنہوں نے ان کو اپنے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنائے رکھا۔ ہمارے زمانے میں جرمنی کے ہٹلر نے ان سے جو سلوک کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اگر یہودیوں کو کسی جگہ عارضی طور پر امن و امان نصیب ہوا بھی اور ان کی برائے نام کوئی حکومت قائم ہوئی بھی... جیسے آج کل فلسطین کے علاقے میں اسرائیل ہے... تو وہ اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ سراسر دوسروں کے سہارے پر۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہود وہ قوم ہے کہ جنہوں نے اللہ عزوجل سے اس بات کا پختہ عہد باندھا تھا کہ وہ ایک اللہ عزوجل کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کریں گے۔ قریبی رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھیں گے۔ لوگوں کو نیکی کی دعوت دیں گے، نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ بروقت دیا کریں گے۔ مگر ان میں سے بہت تھوڑے لوگ چھوڑ کر باقی سب منہ موڑ کر اس عہد و معاہدہ سے پھرگئے۔
یہود وہی قوم ہے جو اللہ کی کتاب کے بعض حصے پر ایمان رکھتے ہیں اور بعض حصے کا انکار کرتے ہیں۔ یہ وہی قوم ہے کہ ان کے پاس جب بھی کوئی پیغمبر اللہ تعالیٰ کا ایسا کوئی حکم ان کے پاس لے کر آیا کہ جسے ماننے کے لیے ان کے نفس تیار نہ ہوئے تو انہوں نے تکبر سے کام لیتے ہوئے اللہ کے انبیاء میں سے بعض کو جھٹلا دیا (انہیں اللہ کے نبی ماننے پر ہی تیار نہ ہوئے۔) اور نبیوں کی ایک جماعت کو تو ان بدکردار ظالموں نے ایک ایک کرکے قتل کردیا۔ اور کہنے لگے: ہمارے دل لپیٹ دیے گئے ہیں جو ان پیغمبروں کی دعوت سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
{وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفْرِہِمْ فَقَلِیْلاً مَّا یُؤْمِنُوْنَo} [البقرہ:۸۸]
''اور انھوں نے کہا ہمارے دل غلاف میں (محفوظ) ہیں، بلکہ اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے ان پر لعنت کر دی، پس وہ بہت کم ایمان لاتے ہیں۔''
یہ یہود وہی قوم ہے کہ جنہوں نے اللہ عزوجل کی توحید خالص کے ساتھ غداری کرتے ہوئے نہایت ہی بھونڈی اور نفرت انگیز بات کہی اور اسے اپنے عقیدے کا حصہ بنالیا۔ اُن کے اس گندے عقیدے میں پھر نصرانی بھی شریک ہوگئے۔ یہودیوں نے سیّدنا عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا جانا اور نصاریٰ نے جناب عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو۔ بلکہ بنواسرائیل کے گمراہ شدہ ان دونوں گروہوں نے تو اپنے درویشوں، راہبوں اور احبار کو اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں رب مان لیا۔ چنانچہ قرآن حکیم ان کی اس ذہنی و نظریاتی غلاظت کو یوں بیان کرتا ہے:
{وَ قَالَتِ الْیَہُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِ ذٰلِکَ قَوْلُہُمْ بِاَفْوَاہِہِمْ یُضَاہِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَکُوْنَo اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَo} [التوبہ:۳۰،۳۱]
''اور یہودیوں نے کہا عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہا مسیح اللہ کا بیٹا ہے۔ یہ ان کا اپنے مونہوں کا کہنا ہے، وہ ان لوگوں کی بات کی مشابہت کر رہے ہیں جنھوں نے ان سے پہلے کفر کیا۔ اللہ انھیں مارے، کدھر بہکائے جا رہے ہیں۔ انھوں نے اپنے عالموں اور اپنے درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی، حالانکہ انھیں اس کے سوا حکم نہیں دیا گیا تھا کہ ایک معبود کی عبادت کریں، کوئی معبود نہیں مگر وہی ، وہ اس سے پاک ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔''
ان یہودیوں کے احبار اوران کے بڑے علماء لوگوں کے اموال باطل طریقے سے ہڑپ کر رہے ہیں اور اللہ کی راہ... دین حنیف والی صراط مستقیم... سے روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ یہ لوگ سود کھاتے ہیں اور اس کو رواج بھی دیتے ہیں، حالانکہ انہیں اس سے منع کیا گیا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ یہود وہ قوم ہے کہ جن کی بدکرداری ،اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں سے دشمنی کی بنا پر ربّ کائنات نے اپنے مومن، مسلمان بندوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے کہ وہ ان جیسے ہوجائیں۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو تکلیف پہنچانے سے بھی دریغ نہ کیا حالانکہ وہ ان کے بہت بڑے محسن تھے۔ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰی فَبَرَّاَہُ اللّٰہُ مِمَّا قَالُوْا وَ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ وَجِیْہًاo} [الاحزاب:۶۹]
''اے لوگو جوایمان لائے ہو! ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائو جنھوں نے موسیٰ کو تکلیف پہنچائی تو اللہ نے اسے اس سے پاک ثابت کر دیا جو انھوں نے کہا تھا اور وہ اللہ کے ہاں بہت مرتبے والا تھا۔''
سیّدنا موسیٰ علیہ السلام بڑے حیا دار اور پورے جسم کو ڈھانپ کر رہنے والے آدمی تھے۔ آپ کی شرم و حیاء کی وجہ سے آپ کے جسم کا کوئی حصہ بھی (سوائے سر، چہرہ، کہنیوں تک ہاتھوں اور پنڈلیوں تک پیروں کے) دیکھا نہیں جاسکتا تھا۔ مگر بنواسرائیل میں سے ایک ٹولے نے آپ کو اس ضمن میں بھی تکلیف سے دو چار کیا اور کہنے لگے: لگتا ہے کہ جنابِ موسیٰ اپنے جسم میں کسی عیب کی وجہ سے ہی اس قدر پردے کا اہتمام کرتے ہوں گے یا تو ان کو، برص، کوڑھ کی بیماری ہے اور یا پھر کوئی اور عیب ان کے وجود میں ہے۔ (حالانکہ تمام انبیاء ایسی بیماریوں اور اس طرح کے عیوب و نقائص سے پاک ہوتے تھے۔ وہ اپنے دور کے اور اپنی قوم کے سب سے زیادہ صحت مند وجود والے، وجیہہ و حسین ہوا کرتے تھے) چنانچہ اللہ عزوجل نے ایک واقعہ کی صورت میں یہودیوں پر اپنے پیارے نبی موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کے صحت مند اور حسین و جمیل وجود کو منکشف کرکے اُن کی تہمت سے بری کردیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہی وہ یہودی قوم ہے کہ جن کے بارے میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں:
{وَّ بِکُفْرِہِمْ وَ قَوْلِہِمْ عَلٰی مَرْیَمَ بُہْتَانًا عَظِیْمًاo وَّ قَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا قَتَلُوْہُ وَ مَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًاo بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًاo} [النساء:۱۵۶تا۱۵۸]
''اور ان کے کفر کی وجہ سے اور مریم پر ان کے بہت بڑا بہتان باندھنے کی وجہ سے۔ اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے کہ بلاشبہ ہم نے ہی مسیح عیسیٰ ابن مریم کو قتل کیا، جو اللہ کا رسول تھا، حالانکہ نہ انھوں نے اسے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھایا اور لیکن ان کے لیے اس (مسیح) کا شبیہ بنا دیا گیا اور بے شک وہ لوگ جنھوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، یقینا اس کے متعلق بڑے شک میں ہیں، انھیں اس کے متعلق گمان کی پیروی کے سوا کچھ علم نہیں اور انھوں نے اسے یقینا قتل نہیں کیا۔ بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ ہمیشہ سے ہر چیز پر غالب، کمال حکمت والاہے۔''
اس یہودی قوم نے نعوذ باللہ طاہرہ و مطہرہ بتول سیّدہ مریم پر زنا کی تہمت لگا رکھی تھی۔ بلکہ آج تک یہ ظالم اسی نظریہ پر قائم ہیں۔ اسی طرح جناب عیسیٰ علیہ السلام بھی ان کی خباثتوں سے محفوظ نہ رہ سکے۔ دراصل اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو نبوت و رسالت اور نہایت کھلے معجزات سے جو نوازا تھا، تو ان انعامات کبریٰ کو سیّدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے پاس دیکھ کر یہ بدبخت قوم برداشت نہ کرسکی۔ اُن پر تہمتیں لگانے لگی اور آج تک اُن سے حسد و بغض رکھتی چلی آرہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان ظالموں نے جناب عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کی رسالت و نبوت کا کھلا انکار کیا اور آپ کی مخالفت پر اُتر آئے۔ یہاں پر ہی بس نہیں بلکہ یہ ظالم قوم آپ علیہ السلام کو ہر طرح کی تکلیف پہنچانے میں ہر قسم کی کوشش کرنے لگی حتیٰ کہ انہوں نے سیّدنا عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو سولی پر چڑھا کر قتل کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ مگر اللہ رب العامین نے آپ کو ان ظالموں سے نجات دلائی اور انہیں اپنے پاس اُوپر آسمانوں میں اُٹھالیا۔ اور وہ اس طرح کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہودیوں پر جناب عیسیٰ علیہ السلام کی شکل و صورت والے شخص کو مشتبہ کردیا۔ چنانچہ انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل آدمی کو پکڑا اور اُسے سولی پر لٹکادیا۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو سولی دے دی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ یہود وہی لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ عزوجل کا فرمان یوں بھی ہے:
{لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی ابْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ o} [المائدہ:۷۸]
''پھر جب اس نے سورج چمکتا ہوا دیکھا، کہا یہ میرا رب ہے، یہ سب سے بڑا ہے۔ پھر جب وہ غروب ہوگیا کہنے لگا اے میری قوم! بے شک میں اس سے بری ہوں جو تم شریک بناتے ہو۔''
سیّدنا موسیٰ سے ایک لمبے عرصے کے بعد جب داؤد علیہما السلام کا دور آیا اور ان ظالموں نے اپنی فطرت بد کے مطابق ان کو بھی جھٹلایا تو انہوں نے اللہ کی اجازت سے ان پر لعنت کی (اور پھر آنے والے ہر نبی نے ان ظالموں کی سرکشی کی وجہ سے ان پر لعنت کی)۔ بالآخر بنواسرائیل کے سب سے آخری پیغمبر جناب عیسیٰ بن مریم علیہما السلام نے بھی ان کی گندی کرتوتوں کی وجہ سے ان پر لعنت کی۔ آپ علیہ السلام یہودیوں کو مخاطب کرکے فرماتے:
''ارے! اژدھوں کی اولاد، آستین کے سانپو! تم لوگ جہنم کے عذاب سے کس طرح بھاگ سکو گے؟
'' (دیکھئے: انجیل متی باب: ۲۳،آیت:۳۳)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ یہودی وہی قوم ہے کہ جن کی ایک پہچان اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوں بھی کروائی ہے:
{مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظٰلِمِیْنَo} [الجمعہ:۵]
''ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بوجھ رکھا گیا، پھر انھوں نے اسے نہیں اٹھایا، گدھے کی مثال کی سی ہے جو کئی کتابوں کا بوجھ اٹھا ئے ہوئے ہے، ان لوگوں کی مثال بری ہے جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلادیا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ''
ان لوگوں کو سیّدنا موسیٰ علیہ السلام پر نازل کردہ کتاب ''تورات'' دی گئی تاکہ وہ اس پر عمل کریں مگر ان لوگوں نے اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ اس ضمن میں اُن کی مثال یہاں ایک گدھے سے دی گئی ہے کہ جب کسی گدھے پر کوئی بھاری بھر کم کتاب لاد دی جائے تو اُسے کیا معلوم کہ اس کتاب میں کیا لکھا ہے اور اگر کوئی آدمی گدھے کو سمجھانے کی کوشش کرے کہ: دیکھ گدھے! تیرے اُوپر اس قدر عظیم الشان کتاب لدی ہوئی ہے تو اس سے فائدہ اٹھا تو لاکھ جتن کرو گدھا ہرگز سمجھنے والا نہیں۔ یہی مثال ان یہودیوں کی ہے۔ یہی وہ یہود قوم ہے کہ جن کے متعلق اللہ عزوجل نے بتلایا ہے کہ اُس نے اپنے حبیب و خلیل نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات تورات میں بیان کردی ہیں۔ مگر ان ظالموں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جان بوجھ کر کھلا انکار کردیا۔
چنانچہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں:
{اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرٰیۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْہٰہُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْہِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo}[الاعراف:۱۵۷]
''وہ جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں، جو امی نبی ہے، جسے وہ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں، جو انھیں نیکی کا حکم دیتا اور انھیں برائی سے روکتا ہے اور ان کے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کرتا اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان سے ان کا بوجھ اور وہ طوق اتارتا ہے جو ان پر پڑے ہوئے تھے۔ سو وہ لوگ جو اس پر ایمان لائے اور اسے قوت دی اور اس کی مدد کی اور اس نور کی پیروی کی جو اس کے ساتھ اتارا گیا وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔''
یہاں اس آیت کریمہ میں نبی مکرم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نو صفات کا ذکر ہوا ہے اور یہ ساری کی ساری صفات تورات و انجیل میں مذکور ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کا بیان ان دونوں مقدس کتابوں میں ہوا ہے۔ یہاں ''ناخواندہ نبی'' کے لفظ سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ نبی ''ناخواندہ...ان پڑھ'' ہونے کے باوجود علم کے کمال کو پہنچا ہوا ہوگا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔ چنانچہ ''علوم نبوت'' جو احادیث مبارکہ کی صورت میں موجود ہیں ان کو پڑھ، سیکھ کر عرب جیسی ان پڑھ قوم دنیا کی انتہائی تعلیم یافتہ اور مہذب ترین قوموں کی راہنما بن گئی۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان صفات عالیہ کی خوشخبری بنواسرائیل کے انبیاء اپنی امت کو دیتے رہے اور انہیں یہ بتلاتے رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائیں گے۔ اس لیے جب نبی آخر الزمان امام الانبیاء والمرسلین محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوجائیں تو ان لوگوں پر واجب ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کریں۔ حیرت کی بات ہے کہ باوجود تحریف ہونے کے نبی معظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صفات عالیہ آج تک تورات اور انجیل میں موجود ہیں اور یہود و نصاریٰ کے علماء کو ان کے بارے میں خوب علم ہے۔ مگر بات یہ ہے کہ:
{وَ لَمَّا جَآئَ ہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ وَکَانُوْا مِنْ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوْنَ عَلَی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَلَمَّا جَآئَ ہُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْا بِہٖ فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَo بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَہُمْ اَنْ یَّکْفُرُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ بَغْیًا اَنْ یَّنَزِّلَ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ فَبَآئُ وْ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ مُّہِیْنَo }[البقرہ:۸۹،۹۰]
''اور جب ان کے پاس اللہ کے ہاں سے ایک کتاب آئی جو اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو ان کے پاس ہے، حالانکہ وہ اس سے پہلے ان لوگوں پر فتح طلب کیا کرتے تھے جنھوں نے کفر کیا، پھر جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے انھوں نے پہچان لیا تو انھوں نے اس کے ساتھ کفر کیا، پس کافروں پر اللہ کی لعنت ہے۔ بری ہے وہ چیز جس کے بدلے انھوں نے اپنے آپ کو بیچ ڈالا کہ اس چیز کا انکار کر دیں جو اللہ نے نازل فرمائی، اس ضد سے کہ اللہ اپنا کچھ فضل اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل کرتا ہے۔ پس وہ غضب پر غضب لے کر لوٹے اور کافروں کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔ ''
ان ظالموں نے اپنے علم کے ذریعے حق کو خوب جان لیا ہے مگر یہ لوگ جان بوجھ کر اس سے پھرگئے ہیں۔ جب اللہ عزوجل نے اپنے حبیب و خلیل نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو عربوں میں مبعوث فرمادیا اور یہود و نصاریٰ نے دیکھا کہ یہ عظمت و فضیلت ان کے علاوہ دوسروں کو عطا کردی گئی ہے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھل کر جھٹلایا بھی اور حسد کرتے ہوئے ان باتوں کا دانستہ انکار بھی کرنے لگے جو اپنی زبانوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے بارے میں کیا کرتے تھے۔ اور لوگوں کو یہود و نصاریٰ کے علماء بتلایا کرتے تھے کہ آپ اب مبعوث ہونے ہی والے ہیں۔ بلکہ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطور سیّد الجِنّہ والبشر امام الانبیاء والرسل یوں پہچانتے تھے جیسے لوگ اپنے سگے بیٹوں کو پہچانا کرتے ہیں۔
 
Top