• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یہ قرآن کہاں سے آیا؟ کس نے کہا کہ یہ قرآن ہے؟

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
واہ ماشااللہ کیا خوبصورت بات کہی ہے
مطلب اس کا یہ نکلا کے قرآن کو ماننا ہو تو پہلے حدیث کی ان کتابوں کو مانوں جن پر آج تک ایک رائے نا بن سکی !

باذوق بھائی
آپ جیسے محترم آدمی سے ایس ہلکی بات
السلام علیکم ، فیصل ناصر بھائی ، اہلاً و سہلاً
بھائی جان ! کیا کریں کہ یہ آپ کا نہیں میرا مسئلہ ہے کہ ایسی ہی "ہلکی بات" گذشتہ پانچ چھ سال سے کئے جا رہا ہوں ، مختلف فورمز پر یہی "ہلکی باتیں" آج بھی درج ہیں ۔۔ ذرا انکل گوگل کو زحمت دے کر دیکھ لیں :) ۔ یہ الگ بات ہے کہ جتنے لوگ پڑھتے ہیں (عوام ، علماء و دانشور وغیرہم) الحمد اللہ سب کا اتفاق ان نکات سے ہوتا ہے جو بیان کیے گئے ہیں۔ اب اس بات سے تو مجھے کبھی انکار نہیں رہا کہ کوئی ان نکات سے "اختلاف" کر ہی نہیں سکتا۔ لہذا اگر آپ کو یا muslim صاحب کو اختلاف ہے تو اس میں کوئی خرابی نہیں۔
لیکن "خرابی" یہ ضرور ہے کہ آپ اٹھائے گئے سوالات کا کوئی معقول جواب دینے کے بجائے جذباتی باتوں میں الجھ جائیں اور الٹا وہی سارے سوالات پیش کرنا شروع کر دیں جن کے جوابات ایک طویل عرصے سے دئے جا رہے ہیں اور دئے جاتے رہیں گے ان شاءاللہ۔
معذرت خواہ ہوں کہ میرے پاس گفتگو یا بحث کے لیے وقت کی انتہائی کمی ہے۔ یہ مراسلہ بھی بوجہ ارسال کر رہا ہوں کہ ریکارڈ رہے :)
ویسے آپ کے سوالات کا بہتر جواب خضر حیات بھائی نے ابھی اوپر کے مراسلے میں دے دیا ہے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام علیکم۔

حدیث کی کتابوں کو ماننا ضروری نہیں لیکن حدیث کو ماننا ضروری ہے ۔ حدیث کی کتابوں میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور بعض ایسے لوگوں کی بھی باتیں ہیں جنہوں نے جان بوجھ کر جھوٹ بول کر اپنی یا کسی اور کی بات کو حدیث بنا کر پیش کردیا ہے ۔ محدثین نے دونوں طرح کی باتیں کیوں لکھی ہیں پہلی اس لیے کہ تاکہ احادیث رسول دوسروں تک پہنچ جائے ۔ اور دوسری کی قسم کی باتیں اس وجہ سے لکھی ہیں تاکہ وضاحت کردیں کہ یہ حدیث رسول نہیں ہے تاکہ بعد میں آنے والے لوگ دھوکے سے اس کو بھی حدیث رسول نہ سمجھنے لگ جائیں ۔

کیا آپ کے پاس اس بات کی کوئی شہادت ھے کہ کتب احادیث میں لکھی ہوئی احادیث " قول رسول کریم " ہیں؟
کیا آپ شیعہ محدّثین کی مرتّب کردہ احادیث کو بھی مانتے ہیں؟

محدّثین آپ کو بتا رہے ہیں کہ کیا صحیح ھے کیا غلط ۔
اگر یہ محدثین نہ ہوتے تو دین کا کیا ھوتا؟ کیا اللہ نے اپنا دین اسلام، محدّثین پر چھوڑ دیا؟
کیا انبیاء سابقین کے لیئے بھی محدّث تھے؟ اگر نہیں تو دین کیسے پھیلا؟
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے کام پورا نہیں کیا؟ اور امّت کو اہل سنّت اور شیعہ محدّثین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا؟
کیا کسی بھی حدیث کی کتاب کی تصدیق اللہ کے رسول نے کی ھے؟
آپ حدیث کی کتابوں میں لکھی ہوئی باتوں کو قول رسول کریم کیوں سمجھتے ہیں؟
جبکہ اللہ اپنی کتاب میں بتا رہا ھے کہ " قول رسول کریم کیا ھے"۔ کیا یہ ہمارے لیئے کافی نہیں ھے؟

فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٨﴾ وَمَا لَا تُبْصِرُونَ ﴿٣٩﴾ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٤٠﴾ وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾ وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٨﴾ وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنكُم مُّكَذِّبِينَ ﴿٤٩﴾ وَإِنَّهُ لَحَسْرَةٌ عَلَى الْكَافِرِينَ ﴿٥٠﴾ وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ ﴿٥١﴾ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ ﴿٦٩-٥٢﴾

تو مجھے قسم ان چیزوں کی جنہیں تم دیکھتے ہو، (38) اور جنہیں تم نہیں دیکھتے (39) بیشک یہ قرآن قول رسول کریم ھے (40) اور وہ کسی شاعر کی بات نہیں کتنا کم یقین رکھتے ہو (41) اور نہ کسی کاہن کی بات کتنا کم دھیان کرتے ہو (42) اس نے اتارا ہے جو سارے جہان کا رب ہے، (43) اور اگر وہ ہم پر ایک بات بھی بنا کر کہتے (44) ضرور ہم ان سے بقوت بدلہ لیتے، (45) پھر ان کی رگِ دل کاٹ دیتے (46) پھر تم میں کوئی ان کا بچانے والا نہ ہوتا، (47) اور بیشک یہ قرآن ڈر والوں کو نصیحت ہے، (48) اور ضرور ہم جانتے ہیں کہ تم کچھ جھٹلانے والے ہیں، (49) اور بیشک وہ کافروں پر حسرت ہے (50) اور بیشک وہ یقین حق ہے (51) تو اے محبوب تم اپنے عظمت والے رب کی پاکی بولو (52)


رسول نے کوئی اقوال نہیں کہے بجز اس کے جو اللہ نے ان پر نازل کیئے۔
یہ تو راوی حضرات اور محدّثین کا کمال ھے کہ وہ اللہ کے رسول کی جانب اقوال منسوب کررہے ہیں۔


کیا، اللہ نے انسانیت کی ہدایت کے لیئے انبیاء بھیجے اور ان کے ساتھ حق کے ساتھ الکتاب نازل کی یا محدّثین کو بھیجا؟ کہ وہ لوگوں
کو بتایئں کہ حق کیا ھے اور باطل کیا ھے؟


كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّـهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٢-٢١٣﴾

لوگ ایک امّت تھے پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے اور ان کے ساتھ سچی کتاب اتاری کہ وہ لوگوں میں ان کے اختلافوں کا فیصلہ کردے اور کتاب میں اختلاف اُنہیں نے ڈالا جن کو دی گئی تھی بعداس کے کہ ان کے پاس روشن حکم آچکے آپس میں سرکشی سے تو اللہ نے ایمان والوں کو وہ حق بات سوجھا دی جس میں جھگڑ رہے تھے اپنے حکم سے، اور اللہ جسے چاہے سیدھی راہ دکھائے،


غور کریں آیت مبارکہ میں نہ تو کسی محدّث کا ذکر ھے اور نہ ہی ان کی کتابوں کا۔ ہر فیصلہ صرف اللہ کی کتاب سے ہو رہا ھے۔




امّید ھے وضاحت فرمائیں گے۔
 

فیصل ناصر

مبتدی
شمولیت
نومبر 09، 2011
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
0
جی باذوق بھائی خضر صاحب کی پوسٹ پڑھ لی ہے
فرصت سے ان کو جواب دیتا ہوں

آپ ماشااللہ بہت مصروف شخصیت ہیں
اللہ آپ کو اور بھی مصروف کرے

آپ کا نام تھریڈ پر دیکھ کر کچھ پوسٹس کر بیٹھا ورنہ میں عموما خاموشی سے پڑھنے پر ہی توجہ مرکوز رکھتا ہوں
آپ کی توجہ کا بہت بہت شکریہ
وسلام علیکم
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم۔
کنعان صاحب

آپ نے جو آیات بطور دلیل پیش کی ہیں، ان میں (عربی ٹیکسٹ ) میں کہاں لکھا ھے کہ کتاب آسمانی ھے اور موسٰی علیہ السلام پر
توراۃ
نازل ہوئی ھے؟

جو بات آیت میں نہیں لکھی وہ بات آپ آیت سے منسوب کریں گے تو وہ صرف جھوٹ افتراء ھوگا۔

السلام علیکم۔

إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٤٠﴾
بیشک یہ قرآن قول رسول کریم ھے (40)
سلام محترم مسلم

میں ایسا سوال کسی سے بھی نہ کروں جو یہ بھی نہ جانتا ہو کہ گفتگو جب چل رہی ہوتی ھے تو اسے کیسے سمجھا جاتا ھے مگر پھر بھی آپ کو دکھانے کے لئے پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ غور فرمائیں اوپر دونوں مراسلے آپ کے ہی ہیں، آپ نے میرے جواب میں کیا الفاظ لکھے اور خود کسی کو سوال میں کیا لکھ گئے بغیر غور اور عقل کے استعمال کے۔ آپ نے جو آیت پیش فرمائی ھے اس کے عربی متن میں قرآن نہیں لکھا ہوا مگر اردو ترجمہ میں قرآن لکھا ھوا ھے۔

یہاں پر جو بھی قرآن کی آیات کا ترجمہ پیش کیا جاتا ھے وہ صاحب مراسل کا کیا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اسے کسی مستند جگہ سے لیا جاتا ھے اس لئے اسے جھوٹ افتراء کہنا بہودگی اور کم عقلی کہلاتا ھے

والسلام
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
سلام محترم مسلم

میں ایسا سوال کسی سے بھی نہ کروں جو یہ بھی نہ جانتا ہو کہ گفتگو جب چل رہی ہوتی ھے تو اسے کیسے سمجھا جاتا ھے مگر پھر بھی آپ کو دکھانے کے لئے پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ غور فرمائیں اوپر دونوں مراسلے آپ کے ہی ہیں، آپ نے میرے جواب میں کیا الفاظ لکھے اور خود کسی کو سوال میں کیا لکھ گئے بغیر غور اور عقل کے استعمال کے۔ آپ نے جو آیت پیش فرمائی ھے اس کے عربی متن میں قرآن نہیں لکھا ہوا مگر اردو ترجمہ میں قرآن لکھا ھوا ھے۔

یہاں پر جو بھی قرآن کی آیات کا ترجمہ پیش کیا جاتا ھے وہ صاحب مراسل کا کیا ہوا نہیں ہوتا بلکہ اسے کسی مستند جگہ سے لیا جاتا ھے اس لئے اسے جھوٹ افتراء کہنا بہودگی اور کم عقلی کہلاتا ھے

والسلام

السلام علیکم۔

تصحیح کرنے کا بہت شکریہ۔
جزاک اللہ۔


إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٤٠﴾
بیشک یہ قول رسول کریم ھے

اب صحیح ھے؟
درست بات مان لینی چاہیئے، ضد نہیں کرنی چاہیئے۔
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
سلام

السلام علیکم۔
تصحیح کرنے کا بہت شکریہ۔

جو بات آیت میں نہیں لکھی وہ بات آپ آیت سے منسوب کریں گے تو وہ صرف جھوٹ افتراء ھوگا۔
میں نے کسی قسم کی تصحیح نہیں کی بلکہ یادداشت کے لئے آپ کو آپکی اس بات پر آگاہی دی تھی اگر تصحیح ہوتی تو آپ جانتے ہوتے کہ غلطی کا امکان بھی ہوتا ھے اور یہ عبارت نہ لکھتے۔ کوشش کیا کریں جب بھی کسی سے گفتگو کریں تو ایسے ڈائیلاگ سے پرہیز کیا کریں جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔

اب صحیح ھے؟
درست بات مان لینی چاہیئے، ضد نہیں کرنی چاہیئے۔
اب یہاں آپ نے ظلم کر دیا۔ قرآن مجید کا ترجمہ آپکا کیا ہوا نہیں اس لئے آپکو اس میں سے کسی لفظ کو نکالنے کا کوئی اختیار نہیں ھے۔ جہاں سے آپ نے نقل کیا وہاں اس کے اصل متن میں جو لکھا ہوا ھے اسی طرح نقل کیا جائے گا، میں نے جو آپکو لکھا تھا وہ آپکے اسطرح کے ڈائیلاگ کے استعمال سے منع ہونے پر لکھا تھا اسے تسلیم کرتے کہ آئیندہ اس سے پرہیز کریں گے۔

یہاں کلک کریں پھر اس کے بعد یہاں کلک کریں اور دیکھیں یہی آیت قرآن مجید میں دو جگہوں پر آئی ھے اور سات ٧ مختلف تراجم ہیں سب کا مطلب ایک ہی ھے مگر جب ہم یہاں سے جسے بھی کاپی کریں گے تو ویسا ہی پیسٹ بھی کریں گے، اپنی عقل سے کچھ نہیں نکال سکتے۔ عربی ہماری زبان نہیں اس لئے ہم ترجمہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اصل سمجھنا اھل علم والوں کی مجلس سے ہی ہوتا ھے ۔

والسلام
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
مسلم برادر،
اللہ تعالیٰ آپ کو سچا مسلم بنائے اور سچا مسلم تو اللہ کے علاوہ ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمانبردار ہی ہوتا ہے۔

سارا دھاگا پڑھ ڈالنے کے بعد، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ دونوں پارٹیوں کے پاس ایک دوسرے کو کہنے کے لئے اتنی باتیں اور اتنے دلائل ہیں کہ کسی ایک موضوع پر رہ کر بات کرنا ہر ایک کے لئے مشکل ہو رہا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اتنا ڈھیر سارا مطالعہ جو اس نے کر رکھا ہے اور جس کی بنیاد پر اپنے لئے ایک موقف چن لیا ہے۔ وہ بس ایک ہی دفعہ دوسرے کے دل و دماغ تک انڈیل دے۔ اصطلاحات ایک جیسی ہیں، پر طرفین کے نزدیک ان کے مفاہیم مختلف ہیں۔ اور چونکہ یہ کسی فرعی مسئلہ کا اختلاف نہیں بلکہ دین کی ایک اہم اصولی بحث ہے۔ جس پر کسی کو اپنا موقف تبدیل کرنے کی حد تک متاثر کر لینا کم ازکم آسانی سے تو ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا میری تجویز ہے کہ اس موضوع کو الگ الگ موضوعات کے تحت تقسیم کر کے بات کر لی جائے۔ مثلاً سب سے اہم یہ کہ اس دھاگے کا موضوع قرآن کے ثبوت سے متعلق تھا، تو اسی سے متعلق رہنا چاہئے۔ کتب احادیث، راویان حدیث وغیرہ کی بات علیحدہ موضوع میں کر لی جائے تو بہتر رہے گا۔

مسلم اور ہمارے پرانے دوست فیصل ناصر صاحب سے اسی دھاگے سے متعلق اس اہم ترین موضوع میں توجہ کی درخواست ہے۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
سلام



میں نے کسی قسم کی تصحیح نہیں کی بلکہ یادداشت کے لئے آپ کو آپکی اس بات پر آگاہی دی تھی اگر تصحیح ہوتی تو آپ جانتے ہوتے کہ غلطی کا امکان بھی ہوتا ھے اور یہ عبارت نہ لکھتے۔ کوشش کیا کریں جب بھی کسی سے گفتگو کریں تو ایسے ڈائیلاگ سے پرہیز کیا کریں جن کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔



اب یہاں آپ نے ظلم کر دیا۔ قرآن مجید کا ترجمہ آپکا کیا ہوا نہیں اس لئے آپکو اس میں سے کسی لفظ کو نکالنے کا کوئی اختیار نہیں ھے۔ جہاں سے آپ نے نقل کیا وہاں اس کے اصل متن میں جو لکھا ہوا ھے اسی طرح نقل کیا جائے گا، میں نے جو آپکو لکھا تھا وہ آپکے اسطرح کے ڈائیلاگ کے استعمال سے منع ہونے پر لکھا تھا اسے تسلیم کرتے کہ آئیندہ اس سے پرہیز کریں گے۔

یہاں کلک کریں پھر اس کے بعد یہاں کلک کریں اور دیکھیں یہی آیت قرآن مجید میں دو جگہوں پر آئی ھے اور سات ٧ مختلف تراجم ہیں سب کا مطلب ایک ہی ھے مگر جب ہم یہاں سے جسے بھی کاپی کریں گے تو ویسا ہی پیسٹ بھی کریں گے، اپنی عقل سے کچھ نہیں نکال سکتے۔ عربی ہماری زبان نہیں اس لئے ہم ترجمہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اصل سمجھنا اھل علم والوں کی مجلس سے ہی ہوتا ھے ۔

والسلام

السلام علیکم۔

تھریڈ کے موضوع پر رہیں تو بہتر رہے گا۔
ڈائیلاگ لکھنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ھے۔
آپ میری پوسٹ نمبر ٧٢ کا جواب دیں۔ اپنی عقل سلیم سے جس پر آپ کو بڑا گھمنڈ ھے۔ بقول آپ کے وہ عقل جس کو اللہ کی آیات کی ضرورت
نہیں جو بغیر، کتاب اللہ کھولے نان مسلمز پر اللہ کی کتاب ثابت کرنے کا دعوٰی رکھتی ھے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جناب مسلم صاحب،
آپ دوسروں سے سخت بیانی کا گلہ کرتے ہیں اور اپنے سخت الفاظ پر توجہ نہیں کرتے۔ ایسا تو نہ کریں۔
گزشتہ مراسلوں میں محترم انس نضر اور محترم خضر حیات بھائی آپ کو جو بات سمجھانا چاہ رہے تھے۔ وہ بات بیچ ہی میں رہ گئی۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ تک اپنا موقف آسان الفاظ میں پہنچا سکوں۔ یہ کوئی لڑنے جھگڑنے، غصہ کرنے یا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، ہارنے جیتنے کی بات نہیں ہے۔ آپ کا ہمارا اختلاف دین کے ایک اہم ترین بنیادی مسئلہ حجیت حدیث کا ہے۔ خیر،جہاں تک آپ کی گزشتہ گفتگو سے میں سمجھ پایا ہوں، آپ کو دراصل احادیث سے یہ شکوہ ہے کہ اس میں بہت اختلاف ہے۔ کتب احادیث پر ایمان لانا پڑتا ہے بلکہ ہزاروں لاکھوں راویوں پر ایمان لانا پڑتا ہے۔ اور اس ایمان لانے کا ذکر کہیں بھی قرآن میں نہیں ہے۔ اور قرآن ہی محفوظ کتاب ہے، حدیث کی کوئی حفاظت نہیں ہوئی۔ وغیرہ وغیرہ۔

دراصل آپ کو ایک غلط فہمی ہو گئی ہے۔ حدیث کے بارے میں جس طرح کی باتیں آپ کرتے ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے خود اس فن میں مہارت حاصل نہیں کی، بلکہ کسی صاحب علم کی تحقیق کے بھروسہ پر آپ بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہو گئے ہیں۔ سمجھنے کی باتیں بہت ساری ہیں، فی الحال قرآن کے محفوظ ہونے پر بات کر لیتے ہیں جو کہ اس دھاگے کا موضوع ہے۔

اب آپ سے ایک متعین اور آسان سے سوال کا جواب مطلوب ہے۔ لیکن گزارش فقط اتنی ہے کہ خوب غور و فکر کر کے سوچ سمجھ کر جواب دیجئے گا۔ سوال یہ ہے کہ:

سورہ روم کی آیت 54 میں ضعف کا لفظ تین بار آیا ہے۔ تینوں جگہ پر اس لفظ ضعف میں ض کو آپ ضمہ (یعنی پیش ُ) کے ساتھ پڑھتے ہیں یا فتحہ (یعنی زبر َ) کے ساتھ؟ اور درست تلاوت کیا ہے؟ اگر آپ کو ثابت کرنا ہو کہ یہاں پر فتحہ ہے ، ضمہ نہیں ہے تو آپ اللہ کے رسول ﷺ سے کیسے ثابت کریں گے کہ انہوں نے بھی یہاں فتحہ ہی پڑھا ہے ضمہ نہیں پڑھا؟
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
السلام علی من اتبع الہدی ۔
منکرین حدیث پر کبھی کبھی انتہائی تعجب ہوتا ہے کہ اپنے قوت فہم و فراست پر اعتماد کرتے ہوئے قرآن کو سمجھنے میں حدیث رسول کو شامل کرنا بھی ان کو گوارا نہیں ۔ لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ یہ مخلوق کا کلام سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہیں چہ جائے کہ اللہ تعالی کی کلام میں موجود اسرارو رموز کو سمجھیں ۔
بعض گمراہ فرق دیکھنے میں آئے ہیں کہ وہ اگرچہ بات غلط ہی کرتے ہیں لیکن کسی نہ کسی طرح اپنی بات پر دلائل اور مخالفین کے دلائل کو رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس فرقے کی فکر اور منہج کا تقاضا یہ تھا کہ انتہائی زیادہ فہم و فراست کے مالک ہوتے تاکہ احادیث رسول کا انکار کرنے سے قرآن کے فہم میں جو رکاوٹیں آتی ہیں ان میں کچھ نہ کچھ تو کرتے تاکہ غلط سلط کچھ نہ کچھ ڈہانچہ تو بنتا ۔
یہ بات یہاں موجود منکرین حدیث کی باتوں کے مطالعہ سے سامنے آئی ۔ اگر ان کے پاس کوئی اور قد آور شخصیت ہےتو ان کوچاہیے کہ یہاں لے گر آئیں یا کم ازکم ہمیں اس کی کتابوں کی طرف رہنمائی کریں تاکہ کم ازکم ہم اس گمراہ فرقے کے اصول و مبادی تو سمجھ سکیں ۔

جی ہاں قرآن(یہ نہ بھولیں کہ اس میں وہ آیات بھی شامل ہیں جو آپ ثبوت قرآن کے لیے پیش فرماتے ہیں ) کو ثابت کرنے کے لیے جس پر قرآن نازل ہوا ہے اس کی شہادت ضروری ہے ۔ کہ یہ وہی کتاب ہے جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے ۔
حدیث کی کتابوں کو ماننا ضروری نہیں لیکن حدیث کو ماننا ضروری ہے ۔ حدیث کی کتابوں میں احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں اور بعض ایسے لوگوں کی بھی باتیں ہیں جنہوں نے جان بوجھ کر جھوٹ بول کر اپنی یا کسی اور کی بات کو حدیث بنا کر پیش کردیا ہے ۔ محدثین نے دونوں طرح کی باتیں کیوں لکھی ہیں پہلی اس لیے کہ تاکہ احادیث رسول دوسروں تک پہنچ جائے ۔ اور دوسری کی قسم کی باتیں اس وجہ سے لکھی ہیں تاکہ وضاحت کردیں کہ یہ حدیث رسول نہیں ہے تاکہ بعد میں آنے والے لوگ دھوکے سے اس کو بھی حدیث رسول نہ سمجھنے لگ جائیں ۔
اگر آپ کے نزدیک یہ کتب شجرہ ممنوعہ نہیں ہیں تو کبھی مطالعہ کرنے کی سعادت حاصل کریں آپ کو ان سب باتوں کی وضاحت تفصیل سےمل جائے گی ۔
یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں جب ہم کہتے ہیں کہ قرآن کے ثبوت کے لیے حدیث کا ماننا ضروری ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ خالق کا کلام مخلوق کا محتاج ہے ۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیا اللہ تعالی اپنا کلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کرنے کا محتاج تھا ۔ آپ کو اللہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ قرآن کو ہر ہر بندے پر براہ راست نازل کرنا چاہیے ۔ کیا اللہ تعالی کے لیے مشکل تھا کہ اللہ تعالی تیار شدہ ایک ایک مصحف ہر ہر بندے کو دے دیتا ۔ اللہ تعالی یہ سب کام اپنی مخلوق سے لے رہا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ اپنی مخلوق کا محتاج ہے ۔
قرآن کی توقیر یہ مفہوم آپ کا اپنا گھڑا ہوا ہے جس سےقرآنی کی عظمت میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا ۔
بلکہ آپ جیسے لوگ قرآن کی بے حرمتی کرتےہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےجو اس کے معانی و مفاہیم سمجھائےہیں ان کو چھوڑ کر اپنی عقل کے بل بوتے پر اس سے من مانا مقصد نکالتے ہو ۔
اس جرأت پر اللہ تعالی سے معافی مانگیں اور آئندہ ایسی جرأت کا ارتکاب نہ کریں ۔ اللہ ہمیں توفیق دے ۔

آپ فن حدیث پر اور علم الجرح والتعدیل پر بے تکے اعتراضات کر رہے ہیں ۔ اس کا سیدھا اور سادھ جواب یہ ہے کہ اس پرصحابہ کےدورسے لے کر پوری امت کا اجماع ہے ۔ اور پوری امت خطا پر جمع نہیں ہوسکتی ۔
اور علماء نے جو حدیث کے قبول و رد کے لیے قواعد جمع کیے باقاعدہ دلائل سےمرتب فرمائے ہیں ۔ اگر آپ کو کسی اصول پر اعتراض ہے تو پیش کریں تاکہ آپ کو تسلی بخش جواب دیا جائے ۔

اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ اللہ تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا :
وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ
اور آپ کی طرف یہ ذکر (قرآن) اس لئے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو واضح طور پر بتا دیں کہ ان کی طرف کیا چیز نازل کی گئی ہے۔ اس لئے کہ وہ اس میں غوروفکر کریں
یہاں اللہ تعالی نے حضور کو قرآن کی تبیین کا حکم دیا ہے اور فرمایا ان کو قرآنی وضاحت کر کے دکھائیں تاکہ یہ اس کو سمجھ سکیں ۔ اب مجھے بتائیں قرآن تو چلو ہم تک بین الدفتین پہنچ گیا ہے لیکن اس کی تبیین وضاحت کہاں سے آئے گی ۔ اس کی وضاحت احادیث رسول ہیں حن کا آپ انکار کرتے ہیں ۔ کیاآپ میں اتنی ہمت ہے کہ قرآن کو بغیر کسی کے سمجھانے کے سمجھ سکیں ۔ تعجب والی بات یہ ہے کہ منکرین حدیث قرآن کو سمجھنے کے لیے اپنے بڑوں کےنکات سے استفادہ کرتے ہیں لیکن جو سب سے بڑے معلم اور أعلم الناس تھے ان کی بات کو خاطر میں نہیں لاتے ۔
آپ سے سیدھا سوال ہےکہ قرآن کو سمجھنے کے لیے حضور کے ارشادات کی ضرورت ہے کہ نہیں ؟
اگر ہےتو وہ ارشادات آپ کیسے حاصل کریں گے ؟
اگر آپ کہیں کہ حضور کے ارشادات قرآن کو سمجھنے کےلیے ضروری ہیں لیکن ہم تک چونکہ صحت کے ساتھ پہنچے نہیں اس لیے ہم مجبورا خود ٹکریں مارتے ہیں ۔
تو یہ بات آپ کی بالکل بے تکی ہے کیونکہ شریعت میں جس جس چیز کی ضرورت ہے وہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لوگوں تک نہ پہنچے ۔ کیا نعوذ باللہ اللہ تعالی اس کی حفاظت سے عاجز آگیاہے ۔
اسی لیے علماء نےکہا کہ
إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحفظون سے حفاظت لفظ و معنی دونوں ہی مراد ہیں ۔

سبحان اللہ کیا نکتہ آفرینی ہے !
کتب حدیث کے مصنفین نہ نبی تھے نہ فرشتے تھے ۔
ہم جو ان کی کتب پڑھتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ان سے شریعت اخذ کرتے ہیں ہمارا ان کی طرف رجوع کی وجہ یہ ہے کہ وہ شریعت کے ناقلین ہیں وہ ہم تک شریعت پہنچانے کا ذریعہ ہیں ۔ وہ ناقلین ہیں شارعین نہیں ۔
اگر شخصیت پرستی سے آپ کی یہی مراد ہے تو ہم ایسی شخصیت پرستی کے پرجوش حامی ہیں اس کے حق میں دلائل دیتے ہیں ۔
جس شخصیت پرستی کے ہم مخالف ہیں وہ یہ ہے کہ لوگوں کی اپنے رائے کو جو قرآن وسنت کے خلاف ہے دین کا درجہ دے دیا جائے ۔
جیساکہ بعض منکرین حدیث کا طرز عمل ہے کہ ان کے نزدیک دین کی وہی تعبیر مقبول ہے جو ان کے گمراہ اماموں نے کردی ہے ۔



کلمۃ حق أرید بہا الباطل ۔
اللہ کی بات کوحکم اور فیصل سمجھنے کا بہانہ بنا کر دین کی وہ تعبیر کرتے ہیں جو دین میں مطلوب ہی نہیں ۔ دین کی وہی تعبیر معتبر ہے جو اس کے رسول اور اس کے صحابہ اور سلف صالحین نےہم تک پہنچائی ہے ۔
اور وہ ہے کہ قرآن اور سنت دونوں ماخذ شریعت ہیں ۔
اور آپ جو تعبیر کرتے ہیں وہ دین کو سمجھنےکی کوشش نہیں بلکہ دین میں بگاڑ پیدا کرنے کی چال ہے کہ احادیث جو قرآن کی صحیح تفسیر و وضاحت اور تشریح ہیں ان کا انکار کردو اور پھر قرآن سےاپنےمن مانے مفاہیم نکالو ۔
بئس ما تفعلون
اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔

ہم پہلےوضاحت کرچکے ہیں کہ جن کو آپ احادیث سمجھتے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں مقبول ، مردود ۔
احادیث رسول کو مقبول احادیث کہا جاتا ہے ۔
اور جو لوگوں نے دین میں بگاڑ پیدا کرنےکے لیے اپنی طرف سے گھڑ لیں ہیں ان کو مردود کہاجاتا ہے ۔
محدثین نے ان دونوں طرح کی احادیث کو کیوں لکھا اس کی وضاحت بھی پہلے کر چکا ہوں ۔
رہی یہ بات کہ محدثین نے بہت ساری احادیث ضائع کی ہیں اگر آپ کی یہ بات درست ہے تو وہ دوسری قسم مردود سے ہیں ۔
کیونکہ پہلی قسم کا ضائع ہونا محال ہے اس کی بھی ہم وضاحت کر چکے ہیں ۔
رہی یہ بات کہ محدثین یہ مقبول مردود کی تقسیم اپنےبنائے ہوئےاصولوں کے مطابق کرتے ہیں ۔ تو اس کاجواب بھی ہم پہلے عرض کرچکے ہیں ۔ کہ یہ اصول بھی دلائل کے ساتھ بنائے گئے ہیں اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی میں نہیں بنائےگئے (جیساکہ آپ قرآن کی من مانی تفسیر کر لیتے ہیں ) اگر آپ کو حدیث کے قبول و رد پر بنائے ہوئے اصولوں پر کوئی اعتراض ہے تو پیش کریں تاکہ آپ کی غلط فہمی دور کی جائے ۔
بہت خوب!
اللہم زد فزد
جزاکم اللہ خیرا!
 
Top