• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۴۶۔ شیطان سے بچو۔ ۔ اسعد الزوجین

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۵۔ کسی کھانے کو برا بھلا نہ کہے: ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ فرماتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے کو برا نہیں کہا۔ اگر دل چاہا تو کھا لیا اور اگر پسند نہیں آیا تو چھوڑ دیا۔ (۱) (متفق علیہ)

جابرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں سے سالن مانگا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے پاس صرف سرکا ہے۔ آپ نے سرکا منگوایا اور کھانے لگے اور فرمایا: سرکا بہترین سالن ہے سرکا بہترین سالن ہے (۲) (مسلم)

اور یہ کھانے کے ضروری آداب میں سے ہے (۳) (صحیح مسلم بشرح النووی ج۵ ص ۴۶ باب لا یعیب طعاما)

سبحان اللہ !! کتنے اعلیٰ اخلاق ہیں۔ '' آپ کسی کھانے کو برا نہیں کہتے تھے یعنی اس کے عیب نہیں نکالتے تھے اور نہ ہی اس کو خراب کہتے تھے اور نہ اس کو بد مزا کہتے تھے اسے اخلاق سے کھانا دینے والے اور پکانے والا کا دل خوش ہوجاتا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھا کر خاموش نہیں رہے بلکہ اس کی تعریف کی اور اس تعریف کو دہراتے رہے۔

آج کے بعض شوہروںکو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس خلقِ کریم کا کچھ اندازہ ہے؟ آج اگر بیوی کھانا دیتی ہے اور اس میں نمک وغیرہ زیادہ ہوجائے یا کم ہوجائے یا کھانا صحیح طرح نہ پک سکے یا تھوڑا سا جل جائے تو شوہر پاگل ہوجاتا ہے اور اس جنون میں بیوی کو گالیاں بکنے لگتا ہے اور جو کھانا بیوی پہلے دے چکی ہے اسے بھول جاتا ہے گویا کہ بیوی نے جان بوجھ کر ایسا کھانا پکایا ہے۔

شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے کام اور محنت کی قدر کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے کسی کھانے کو برا نہ کہے لیکن اگر بیوی مسلسل کھانا برا پکاتی ہو تو اچھے اسلوب میں اسے سمجھاے اور اسے کھانے کی کتابیں وغیرہ لا کردے جس کی مدد سے بیوی اچھا کھانا پکانا سیکھ سکے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۶۔ نرم خوئی:
عائشہؓ سے روایت ہے کہ نرمی جس چیز میں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے اور جس چیز سے بھی نکالی جاتی ہے اسے بد صورت بنا دیتی ہے۔ (۱) (صحیح الجامع الصغیر و زیادتہ۔ البالنی ۵۶۵۴۰) حدیث صحیح ہے )

مذکورہ حدیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ جس معاملے میں یا کام میں بھی نرمی برتی جائے گی وہ کام اچھا اور خوبصورت ہوگا اور جس معاملے میں کام سے نرمی نکال دی جائے گی وہ کام خراب اور بد صورت ہوجائے گا۔

اگر شوہر کو بیوی سے کسی کام کو کہنا ہو تو بلند آواز میں بولنا یا چیخ کر بولنا کوئی مردانگی نہیں ہے اور اگر بالفرض بیوی کوئی غلطی کر بیٹھتی ہے جس کی اصلاح کرنا ضروری ہے تو اسے چیخ کر سمجھانا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ حدیث میں یہ واضح فرما دیا کہ نرمی غیر نرمی سے بہتر ہے۔ اور بیوی کے ساتھ نرم برتائو کا یہ تقاضا ہے کہ اس نے گالم گلوچ نہ کی جائے۔ اس پر لعنت نہ کی جائے۔ اسی طرح کے بلاتے وقت (اے عورت!) یا (اوے) وغیرہ یا (اسے لڑکی!) کہہ کر نہ بلایا جائے مثال کے پر (ام ...فلان) اس کے علاوہ کوئی اور خوبصورت عبارات یا جملہ بھی استعمال کی جاسکتا ہے نرمی جس گھر میں بھی بسیرا کرتی ہے اس گھرپررحمت کی بارش ہونے لگتی ہے اور محبت و اتفاق اُدھر ڈیرا ڈال دیتے ہیں نرمی سے آپس کی محبت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ پھر بچوں کی تربیت بھی اسی ڈھب پر ہوتی ہے اور گھر میں ہر طرف رحمت اور برکت نظر آتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۷۔ بیوی کے کاموں میں مداخلت کرنے سے گریز کرنا: بعض شوہروں میں اتنا تجسس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کے بارے میں ہر بات جاننے کے خواہاں ہوتے ہیں اس کے گھر والے اس کی سہیلیاں، اس کے عزیز و اقارب وغیرہ۔ ایسا شوہر ہمیشہ پانی بیوی سے اس کی فیملی کے مسئلے مسائل پوچھتا ہے کہ ان کے حالات کیسے جارہے ہیں؟ اس کے ماں باپ خالائیں ، پھوپھیاں اور بھائی وغیرہ کیسے ہیں؟ یہ شخص ان لوگوں کے بارے میں ہر چھوٹی اور بڑی بات جاننا چاہتا ہے۔ اور یہ ایسے معاملات ہوتے ہیں جو گھر کے اندر ہی رہتے ہیں اور کوئی بھی گھرانہ یہ پسند نہیں کرتا کہ ایسے معاملات گھر سے باہر کسی کو پتہ چلیں یہاں تک کہ قریب سے قریبی رشتے دار کو بھی نہیں بتائے جاتے۔ لیکن یہ شوہر ہر وقت اپنی بیوی سے اسی قسم کے سوال کر رہا ہوتا ہے اور اگر بیوی نہیں بتاتی تو سمجھو اس کی شامت آگئی۔ ایسے معاملات بیوی اور اس کے گھر والوں کے خاص اور ذاتی معاملات ہوتے ہیں اس لیے شوہر کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے اس لیے اسے چاہیے کہ وہ وہی کچھ پوچھے جس کے بارے میں خود بیوی اسے اپنی مرضی سے بتا دے اور پھر ایسی باتوں کو بھی راز سمجھ اپنے سینے میں حفاظت سے رکھے۔

بعض دوسرے شوہر بیوی کے لباس میں مداخلت کرتے ہیں۔ اگر وہ کوئی لباس پہنتی ہے تو کہتا ہے کہ اس کا لباس صحیح نہیں ہے۔ اور اگر کوئی پائوڈر وغیرہ لگاتی ہے تو کہتا ہے کہ بازار میں اس سے اچھا پائوڈر موجود ہے اور اگر اپنے لباس وغیرہ میں کوئی ڈیزائن بناتی ہے تو کہتا ہے یہ یہ ڈیزائن ہٹائو اور یہ ڈیزائن بنائو اور اگر اپنے بیڈ روم کی ترتیب نئے سے سے کرتی ہے تو کہتا ہے کہ اس کو بدلو اور جیسے پہلے رکھا تھا ویسا ہی کردو۔

اور جب باورچی خانے میں کھانا بنا رہی ہوتی ہے تو اس کے ساتھ کھڑا ہوجاتا ہے اور اس کے کھانے پکانے کے طریقے پر اعتراض کرتا ہے یہ سارے کام ایسے ہیں جن میں مردوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور یہ سب ایک ہائوس وائف یا گھر والی کے کرنے کا کام ہیں۔ اگر شوہر کو بالفرض ایسے معاملات میں بولنا بھی ہو تب بھی اسے اپنی رائے کے شروع کرنا چاہیے جو اس کے خیال میں بہتر ہے۔

اور رہ گئی لباس وغیرہ کی بات تو اگر بیوی نے یہ لباس شوہر کے لیے زیب تن کیا ہو تو شوہر کا حق ہے کہ وہ اسے لباس پہننے کو کہے جو اسے پسند ہو اور اگر یہ لباس بیوی نے کسی تقریب وغیرہ میں جانے کے لیے پہنا ہو اور اس میں کوئی شرعی قباحت بھی نہ ہو تو ایسی صورت میں شوہر کو فیصلہ بیوی پر چھوڑ دینا چاہیے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۸۔ تحصیلِ عمل میں بیوی کی مدد کرنا:
بہت سی لڑکیوں کی شادیاں ہوتی ہیں جبکہ وہ مدرسے یا کالج یا یونیورسٹی یا ایم بی اے وغیرہ میں پڑھ رہی ہوتی ہے۔ شادی ہونے کے بعد کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے تحصیل علم میں مختلف ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ طالبہ کو جن مراجع کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے لائبریری سے لانے ہوتے ہیں۔ ان میں سے جو چیز تشریح کی محتاج ہے اس کی تشریح کرنی ہوتی ہے پھر اسے اپنی پڑھائی کی تکمیل کے لئے مناسب ماحول درکار ہوتا ہے۔

ادھر ایک اچھے شوہر کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے بعض حقوق سے دستربردار ہوجائے اور اس کی بعض گھر کی ذمہ داریاں سنبھال لے مثال کے طور پر بعض اوقات کھانا باہر سے منگوائے اور وفا شعار بیوی اپنے شوہر کا یہ تعاون کبھی نہیں بھولے گی کتنے یونیورسٹی تھیسز ہیں اور کتنی تصنیفات ہیں جو شوہروں کی طرف منسوب کی جاتی ہیں اور جن کے مقدمات میں بیویاں شوہروں کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ اور دورانِ تصنیف ان کے تعاون سراہتی ہیں اور یہ حقیقت میں شوہروں کے تعاون اور ان کی قربانیوں کا اعتراف ہے۔

اور اگر بیوی مبلغہ ہو اور مساجد وغیرہ میں درس و تدریس کرتی ہو اور لڑکیوں کو تبلیغ کرتی ہو تو شوہر کو چاہیے کہ اس کے ساتھ تعاون کرے اجر میں اس کا حصے دار بنے۔ اور دعوتی کام میں اس کے ساتھ کھڑا ہو۔ اسے منع نہ کرے اور نہ ہی اس کے کام میں راستے کا پتھر بنے۔ بلکہ شوہر کا کام یہ ہونا چاہیے کہ اس کے لئے مناسب ماحول تیار کرے اور اس کا دعوتی عمل میں ساتھ دے تاکہ وہ بھی اس کے اجرو ثواب میں شریک ہوسکے۔

''ترجمہ: نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ مت دو''
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۱۹۔ گھر میں بیوی کے لیے ایمان سے منور فضا پیدا کرنا، گناہ اور معصیت سے پاک گھر اللہ کے قریب ہوتا ہے۔ اس لیے جس چیز میں بھی اللہ کی نافرمانی ہو اور اللہ سے دور کرتی ہو ایسی چیز کو گھر سے نکال دینا چاہیے۔ تاکہ دل اللہ کی اطاعت میں جڑے رہے۔ لہٰذا گھر میں شیطان کے باجے بجنے کی بجائے تلاوتِ قرآن کی آواز سنائی دے اور گھٹیا فحش چینل چلنے کے بجائے دعوت و اصلاح کے چینل چلیں اور گھر میں فسق و فجور اور گناہ کی دعوت دینے والے رسالوں کی بجائے ایسے رسالے رکھے جائیں جنھیں پڑھ کے صحابہ و تابعین کی یاد تازہ ہوجاتی ہو اور جو گھر و معاشرے کی اصلاح میں اہم کردار ادا کر رہے ہوں۔

اس ضمن میں شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کو حفظِ قرآن کے حلقات میں شرکت کی اجازت دے تاکہ نہ صرف یہ کہ اس کی بیوی قرآن حفظ کرسکے بلکہ اپنے بچوں کو بھی قرآن حفظ کروائے۔ نیز شوہر کوچاہیے کہ اس کے لیے دینی کتب اور کیسٹس لے کر آئے جس سے بیوی کے ایمان میں اضافہ ہو۔ وہ دینی لیکچر سننے جائے اور نیک عورتوں سے میل جول رکھے۔ اس طریقے سے وہ اپنے شوہر سے زیادہ محبت کرے گی اور زیادہ توجہ سے اس کی بات سنے گی اور اس کے بارے میں اللہ سے ڈرے گی۔ نیز یہ بھی حقیقت ہے کہ گذری ہوئی تمام سرگرمیاں یا اعمال فجر تک فحش گانے سننے، غیبت، چغلی اور فضول باتوں میں وقت گذارن۔ دوسرے میاں اور بیویوں کے قصے سننے، سنانے سے لاکھ درجے بہتر ہے جن سے بیوی نہ صرف یہ کہ اپنے رب سے دور ہوتی ہے بلکہ اپنے شوہر سے بھی دور ہوتی چلی جاتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۰۔ بیوی کے معاملات میں اس سے مشورہ کرے: ہوسکتا ہے کہ شوہر بازار میں کوئی ایسا صوفہ وغیرہ دیکھے جو عورتوں کے لیے مناسب ہو اور پھر بیوی کے بغیر مشورہ کیے وہ اسے خرید لے تاکہ اپنی بیوی کو تحفہ کے طور پر دے سکے یا گھر کے برتن خریدے اور اس کا خیال ہو کہ یہ گھر کے لیے بہتر ہیں یا نیا بیڈ روم وغیرہ جو عورتوں کی خاص چیزیں ہوتی ہیں اور یہ وہ چیزیں ہوتی ہیں جو ہائوس وائف / گھر والی کے ذوق کے مطابق خریدی جاتی ہیں یا دونوں میاں بیوی مل کر اسے خریدتے تہیں اور ایسی چیزیں اکیلے خرید لینا کبھی کبھی آپس میں غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کر دیتا ہے اس لیے شوہر کو چاہیے کہ بیوی سے متعلقہ امور میں بیوی سے ضرور مشورہ کرے۔

اور ذرا دیکھو اللہ کے بندے! اللہ تمہارے حفاظت کرے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح اپنے رسول کو اس بات کا حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں کو اس بات کا اختیار دیں کہ یا تو وہ ان کے ساتھ رہیں یا انھیں چھوڑ دیں۔ چنانچہ عائشہؓ سے روایت ہے جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی ازواج مطہرات کو اختیار دینے کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شروعات کیں اور فرمایا: میں تمہیں ایک بات بتانے لگا ہوں اس میں جلدی مت کرنا یہاں تک کہ اپنے والدین سے پوچھ لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم تھا کہ میرے والدین کبھی بھی مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑنے کا حکم نہیں دے سکتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے کہہ دو۔ الایۃ۔ میں نے آپ سے کہا: ان میں سے کس میں اپنے والدین سے پوچھوں۔ مجھے اللہ ، رسول اور آخرت چاہیے۔ (۱) (بخاری، تفسیر ابن کثیر سورۃ احزاب آیت ۲۸۔۲۹)

ذرا غور کیجیے کس طرح سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہؓ سے ان کے معاملے میں مشورہ فرما یا اور اپنی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں فرمایا بلکہ عائشہؓ سے مشورہ فرمایا اور انھیں عجلف کامظاہرہ کرنے کو کہا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۱۔ عدمِ عجلت
(۱) (میں یہاں پر مائوں کو اس غلطی سے بری قرار نہیں دوں گا جو وہ اپنی لڑکیوں کو اُمورِ خانہ داری نہ سکھا کر کرتی ہیں۔ اسی طرح سے لڑکی بھی قصور وار ہے بہتر ہے کہ شروع سے ہی امورِ خانہ داری سکھائے جائیں تاکہ آگے جاکر جب شادی ہو تو لڑکی تیار ہو: آج کل کے دور میں جب لڑکی اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہوتی ہے تو وہ ازدواجی زندگی کے بہت سے معاملات سے لاعلم ہوتی ہے۔ یہ زندگی کا ایک نیا دور ہوتا ہے جس میں وہ نئی نئی داخل ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک نیا تجربہ جسے وہ کرنے جارہی ہوتی ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ ابتداء میں وہ غلطی کر بیٹھے یا اس نے کوئی بھول چوک ہوجائے۔ ممکن ہے کہ بعض اہم معاملات اُس کے ذہن میں نہ رہیں یا گھر کے بعض کام وہ صحیح طریقے سے انجام نہ دے پائے۔ اس کی وجہ سے یہ ہوتی ہے کہ شادی سے پہلے وہ پڑھائی میں مصروف رہی ہوتی ہے۔

ایسی صورتحال میں دانا اور عقلمند شوہر وہ ہوتا ہے جو اس کے امورِ خانہ داری کے سیکھنے میں جلدی نہیں کرتا اور نہ اس کا اس سے برتائو ایسا ہوتا ہے جیسا کہ وہ امورِ خانہ داری کی ماہر ہے وہ اپنی بیوی سے اس طرح پیش آتا ہے جیسے کہ ان امور میں نو وارد و ناتجربہ کار ہے۔ وہ اس پر صبر کرتا ہے یہاں تک کہ اس کی بیوی اموِ خانہ داری میں ماہر ہوجاتی ہے اور زندگی کے اس نئے موڑ سے واقف ہوجاتی ہے۔ اسی طرح کے پہلے بچے کی ولادت پر بھی بچے و بیوی کے ساتھ انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۱۔ اپنی بیوی کو یہ نہ بتائیں کہ آپ بعض عورتوں کو پسند کرتے ہیں، بعض گھرانوں کی عورتیں بڑی لائق ہوتی ہیں اور امورِ خانہ داری اور بچوں کی تربیت میں دوسوں سے میل جول میں، ذاتی خوبصورتی میں دوسری عورتوں سے بالکل الگ نظر آتی ہے اور یہ صلاحیتیں اللہ تعالیٰ کی دین و انعام ہیں۔ وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے اور شوہر چونکہ بیوی کے ساتھ ہی ہوتا ہے تو کبھی کبھار وہ بھی ایسی کسی عورت کے بارے میں سنتا ہے اور اسے اس کی خوبیاں پسند آتی ہیں۔ اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہ چند خوبیاں اُس کی اپنی بیوی میں نہیں پائی جاتیں۔

اس مقام پر شوہر کو چاہیے وہ اپنی بیوی کے سامنے اس پسندیدگی کا اظہار نہ کرے مثال کے طور پر اگر اپنی بیوی کی کوئی بات پسند نہ آئی تو جھوٹ سے بولتا ہے مجھے فلانی لڑکی اچھی لگتی ہے یا کاش تم ذہانت یا حسنِ تعامل میں فلاں لڑکی کے جیسی ہوتی۔ اور اس کے اس لڑکی کے تعریفوں کے یا تربیتِ اولاد میں یا صفائی ستھرائی میں پل باندھنے شروع کر دیت اہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ جس کے سامنے وہ اس لڑکی کے گن گا رہا ہے وہ اس کی اپنی بیوی ہے اور وہ ایسا کرکے اپنی خوشی کا گلا گھونٹ رہا ہے کیونکہ عورتوں میں غیرت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ چنانچہ جب عورت تعریفوں کا فوراہ اچھلتے دیکھتی ہے تو اس کی غیرت کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے اور وہ فون پر ہونے والی پر گفتگو کو شک کی نظر سے دیکھتی ہے اور اس کے دل میں دوسری لڑکی کے لیے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور جب بھی آپس میں کوئی ناچاقی یا لڑائی چھڑتی ہے وہ اپنے شوہر کو کہتی ہے کہ تم مجھ سے محبت نہیں کرتے بلکہ فلاں لڑکی سے کرتے ہو اور اس پر طرح طرح کی قیمتیں اور الزامات کی بوچھاڑ کر دیتی ہے اور بعض ایسی لڑائی طلاق پر ہی ختم ہوتی ہے۔

اس لئے شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے جذبات اور احساسات کو سمجھے اور کسی کو اس پر ترجیح نہ دے۔ کیونکہ ایسا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی اپنی بیوی میں کوئی عیب یا خرابی ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شوہر کی نگاہ کا مرکز کوئی اور عورت بھی ہوسکتی ہے اور اس کی بیوی اس کی زندگی میں آنے والی پہلی عورت نہ بن سکی۔

شوہر کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر کچھ ایسی خوبیاں ہیں جن میں وہ عورت اس کی بیوی نے آگے ہے تو ایسی خوبیاں بھی ہیں جن میں اس کی بیوی اس عورت سے آگے ہے۔

ہاں اگر ایسا شوہر اپنی بیوی کی حوصلہ افزائی کے لئے کرتا ہے۔ بشرطیکہ وہ عورت جس کی تعریف کر رہا ہے۔ اس کے قریبی رشتہ داروں میں ہو تو اس میں حرج نہیں ہے۔ لیکن ایسا بھی ہر وقت اور پھر چھوٹی بڑی بات پر نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ کسی کسی وقت میں اشارہ وغیرہ دے کے ایسا کر سکتا ہے اور عقلمند بیوی کے لیے یہ اشارہ یقینا گرین سگنل ہوگا اور وہ مطلوبہ کام کرے گی اور بات وہی اچھی ہوتی ہے جو مختصر بھی ہو اور مقصود بھی بیان کردے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۲۔ بیوی کی بات غور سے سننا اور اس سے بات چیت کرنا:
مرد اور عورت دونوں کو اس خالقِ کائنات نے پیدا کیا اور ساتھ میں ان کے نفوس میں ایک دوسرے کی طرف میلان اور ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کی چاہت بھی ودیعت کردی۔ ایک ہم صفت یا عادت جو عموماً عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہے۔ وہ ہے بولنے کا شوق۔ چنانچہ جب عورت کو غصہ آتا ہے تو وہ غصے میں سب کو اپنے غصے کی وجہ و سبب کے بارے میں بتاتی ہے اور جب خوش ہوتی ہے تو خوشی میں بھی یہی حال ہوتا ہے۔ اس لیے شوہر کو چاہیے کہ عورت کا یہ شوق مکمل طور پر پورا کرے۔ اس کی باتیں سننے سے گریز نہ کرے اور نہ اکتاہٹ کا اظہار کرے۔ اسے چاہیے کہ خوب غور سے سنے کہ وہ کیا بات کر رہی ہے کیونکہ اس کے چپ ہوکے سننے اس کے لیے بہت سے فوائد ہیں۔
۱۔ بیوی اپنے بولنے کا شوق شوہر کے ساتھ ہی پورا کرے گی اور کسی اور کی طرف نہیں دیکھے گی۔
۲۔ شوہر کی اس بارے میں معفرت میں اضافہ ہوگا اور اسے اپنی بیوی کی سوچ و فکر کا پتہ چلے گا۔
۳۔ شوہر کو یہ علم بھی ہوگا کہ معاشرے میں کیا کچھ ہو رہا ہے چاہے وہ کام سے متعلق ہو یا عورتوں کے میل ملاقاتوں سے۔
۴۔ اگر اس کے خیالات یا نظریات میں کسی قسم کی کج روی ہے تو شوہر اس کی اصلاح کر سکتا ہے۔
کتنی ہی عورتیں صرف اس وجہ سے بے راہ روی کا شکار ہوگئیں یا ہوتے ہوتے رہ گئیں۔ اور اس وجہ صرف یہ تھی کہ اُن کے شوہر ان سے بات چیت نہیں کرتے تھے چنانچہ انھوں نے اپنی اس خوایش کو پورا کرنے کے لئے غیر شرعی طریقوں کا سہارا لیا۔ اپنی بیویوں سے بات چیت کے ضمن میں ہمارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہترین نمونہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج سے گفتگو فرماتے اور بیت سے امور میں ان سے بحث مباحثہ کرتے۔ ابی ورح کی حدیث جو عائشہؓ نے روایت کی ہے اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ دلیل حدیث میں ایک طویل قصہ جسے عائشہؓ نے روایت کیا ہے کہ عہدِ جاہلیت کی ۱۱ عورتیں جمع ہوئیں اور اپنے اپنے شوہروں کے بارے میں بات کرنے لگیں:
عائشہؓ قصہ سنا رہی تھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم بڑی توجہ اور انہماک سے اسے سن رہے تھے، آپ کے چہرے مبارک پر کسی قسم کی اکتاہٹ یا تھکاوٹ کے آثار نہیں تھے اور یہ بس اس لیے تھا کہ عائشہؓ کی آپ سے بات چیت کا شومہ پورا ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باوجود اپنی دعوتی مصروفیات اور اصلاحی اعمال کے آپؓ کی بات سنتے رہے اور جب عائشہؓ نے اپنی بات ختم کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے لیے ایسے ہوں جیسے أم زرع کے لئے ابو زرع تھا۔ (۱) (متفق علیہ۔ بخاری کتاب النکاح /مسلم۔ فضال الصحابہ)
صحیح بخاری میں حدیث کی مراجعت کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ حدیث بہت طویل ہے اور یہ واقعہ عہد جاہلیت میں پیش آیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی انتہا دیکھیے کہ آپ صبر سے سارے واقع کو سنتے رہے اور آپ نے عائشہؓ کو بر بھلا نہیں کہا اور نہ ہی آپ کی عقل کے بارے میں نازیبا کلمات منہ سے نکلے کہ وہ وقت ضائع کر رہی ہیں بلکہ آپ خاموش رہے تاکہ آپ کی زوجہ کی جو آپ سے بات چیت کی خواہش ہے وہ پوری ہوجائے۔
علم اجتماع کے بہت سے علماء ایک تہائی گھریلو جھگڑے اور لڑائیوں کا سبب شوہر کو قرار دیتے ہیں کہ شوہر اپنی بیوی کی بات کو صحیح طریقے سے نہیں سنتا نیز (%۴) چار فیصد طلاقیں اس بنا ء پر واقع ہوئی ہیں کہ شوہر اچھے طریقے سے اپنی بیوی کی بات سننے سے قاصر ہیں چنانچہ علماء نے یہ شعار بنا لیا ہے کہ اپنی بیوی کی بات سنو تم اس کی آنکھیں (مسرت و خوشی سے۔ مترجم) بھر دو گے اور اس کی محبت سے تمہارا دل لبریز ہوجائے گا۔ (۱) (أخبار۔ دنیا۔ العدد (۱۰۰) بدھ۔ ۹ جمادی الثانی ۱۴۲۷ھ)
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک سروے کے مطابق شوہر کی بیوی کی بات نہ سننا ہی (%۴) طلاقوں کا سبب بنتا ہے۔
مجھے ایک دوست نے جو گھرانوں کے درمیان صلح کرانے والی ایک تنظیم میں کام کرنا ہے۔ بتایا کہ جس چیز کی بیوی سے زیادہ اور بڑی شد ومد سے شکایت کرتی ہے وہ یہ ہے کہ میرا شوہر میری بات نہیں سنتا ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۴۔ بیوی کے لیے بننا سنورنا۔
نفس کی فطرت میں ہر خوبصورت چیز کی محبت و دیعت کر دی گئی ہے اور اگر مرد بھی خُلِقْ، خلقت اور سنگار کی خوبصورتی اکٹھی ہوجائے تو سمجھیں کہ اس میں ساری خوبصورتی جمع ہوگئی۔ ہر بیوی یہ چاہتی ہے کہ اس کے مرد میں خوبصورتی کی تمام اقسام اکٹھی ہوں اس لئے شوہر کو چاہیے کہ اس کے پاس جو بھی خوبصورتی ہے وہ اسے بیوی کے سامنے ظاہر کرے چاہے وہ خوبصورتی لباس میں ہو یا صفائی میں ہو یا گفتگو میں ہو۔ جس طرح سے مرد چاہتا ہے اور پسند کرتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لئے بنائو سنگار کرے اسی طرح سے عورت بھی چاہتی ہے کہ شوہر اس کے لئے بنے سنورے، اس لئے عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے تھے۔ میں بھی اپنی بیوی کے لئے بننا سنورتا ہوں جس طرح سے وہ میرے لیے بنتی سنورتی ہے۔

چنانچہ شوہر کو چاہیے کہ اپنے جسم اور اپنے لباس کی صفائی کا خاص خیال رکھے اور خوشبو وغیرہ لگائے۔ اور جب اپنے گھر والوں کے ساتھ نکلے تو اچھے سے اچھا لباس پہن کر نکلے۔ کوئی معمولی لباس زیب تن نہ کرے۔ بنائو سنگار کی اہمیت مندرجہ ذیل قصے سے واضح ہوتی ہے۔ جو سیرت و تراجم کی کتب میں مذکور ہے: ایک آدمی بہت ہی خراب حالت میں اپنی بیوی کے ساتھ عمر بن خطابؓ کے پاس آیا۔ اس کی بیوی کہہ رہی تھی، نہ میں اور نہ سید۔ عمرؓ کو احساس ہوگیا کہ اس کی بیوی اس کو پسند نہیں کرتی۔ اس نے آدمی کو بھیجا تاکہ وہ نہاتے دھوتے اور اپنے بال کاٹے۔ اپنے ناخن کاٹے۔ جب وہ نہا دھوکے صاف ستھرا ہو کر آیا تو آپ نے اس کو اس کی بیوی کے سامنے کر دیا۔ اس کی بیوی کو سخت تعجب ہوا اور وہ اسے نہ پہچان سکی اور الگ ہوگئی۔ بعد میں جب اس نے پہچانا تو اس نے اسے قبول کر لیا۔ عمرؓ نے فرمایا: اس طرح سے اُن کے لئے کرو، جس طرح تم چاہتے ہو کہ یہ تمہارے لیے بنائو سنگار کریں اس طرح سے وہ بھی چاہتی ہیں کہ تم ان کے لئے بنائو سنگار کرو۔(۱) (حصہ لمرأۃ علی زوجہا دراسۃ منہ الکتاب والسنۃ، مجدی ضحتی سید۔ ۱۷۲۔ ۱۷۲۔ )
 
Top