• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

۴۶۔ شیطان سے بچو۔ ۔ اسعد الزوجین

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۵۔ بیوی کی تعریف کرنا اور اس کے ساتھ ہنسی کھیل کرنا،
عورت کو یہ چیز بہت پسند ہے کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ کھیلے ہنسی مذاق کرے۔ اس کی تعریف کرے کیونکہ یہ کھیلنا اور ہنسنا شوہر کی پسندیدگی کی دلیل ہے۔ اور جس چیز کی بیوی سب سے زیادہ کوشش کرتی ہے وہ اس کے شوہر کی اس کے لئے محبت اور پسندیدگی ہے۔ شوہر کے چند تعریفی کلمات بیوی پے جادو کا سا اثر کرتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی مواقع آتے ہیں جب میاں بیوی کے درمیان ناچاقی ہوگئی لیکن پھر صرف ایک پیار کے بول سے ساری لڑائی کافور ہوگئی۔اسی طرح سے کتنے ہی مسائل ہیں جو محبت بھرے کلمات سے حل ہوچکے ہیں۔

ہمارے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔ آپ عائشہؓ کو پیارے پکارتے اور کہتے: (اے عائشہ یہ جبریل تمہیں سلام کہہ رہے ہیں) (۱) (بخاری، مسلم)

آپؓ کا نام نہیں پکارا بلکہ اس نام کو پیار اور محبت سے مختصر کرکے پکارا۔ اسی طرح سے ایک اور حدیث میں آپ کا قول: اسے حمیراء کیا تم انھیں دیکھنا پسند کرتی ہو۔ (۲) (ابن حجر نے فتح الباری میں سند کو صحیح کہا ہے (۳/۴۴۴) اس حدیث کے علاوہ مجھے حمیراء کا لفظ نہیں ملا)

نیز بخاری میں عائشہؓ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتی: اگر آپ کسی ایسی وادی میں قیام کریں جس میں ایک درخت ہے جس کے پھل، پتے وغیرہ لئے جاچکے اور کھائے جاچکے ہیں اور دوسرا درخت ایسا ہے جس سے کچھ نہیں توڑا یا کھایا گیا تو آپ کسی درخت پر اپنے اونٹ کو چرنے کے لئے چھوڑیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: جس درخت میں سے کچھ نہیں کھایا گیا۔ (۳) (بخاری)

ذرا دیکھیے کس طرح عائشہؓ اپنے آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر رہی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں اور جو وہ سننا چاہتی ہیں وہی کچھ ان سے کہہ رہے ہیں۔

اس لئے کوشش کریں کہ اپنی بیوی کی تعریف کریں۔ اس کے ساتھ ہنسے کھیلیں، پیار محبت کی باتیں کریں تاکہ اس کے دل میں کوئی کسک باقی نہ رہ جائے اور وہ اس لحاظ سے آپ سے مطمئن ہو۔ اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۶۔ مضبوط شخصیت کے حامل بنیں: فیملی افئیرز اینڈ ورکنگ ریلیشن میں انسٹیوٹ کا نائب صدر امریکی محقق شیفٹر کہتا ہے:

جامعہ میں نفسیاتی تجزیے کا اسسٹنٹ پروفیسر اپنے کلینک میں کام کے دوران میں ہزاروں مردوں اور عورتوں سے ملا اور میں نے یہ دیکھا کہ عورت مرد کی جن صفات میں دلچسپی رکھتی ہے وہ ہے طاقت اور خود اعتمادی کتنی ہی بار میں نے عورتوں سے پوچھا کہ آپ اگر کسی حساس، بہت ہی خیال رکھنے والے صاف گو شخص سے ملتی ہیں تو کیسا محسوس کرتی ہیں۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ یہ خوبیاں عورتوں کو بہت پسند ہیں۔
مجھے یہ سن کر تعجب ہوا کہ عورت اس قسم کے مردوں کو پسند نہیں کرتی کیونکہ ایسے مردوں کے ساتھ وہ سکون محسوس نہیں کرتی بلکہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی حقیقی مرد کے ساتھ ہی نہیں۔

محقق شیفٹر مزید کہتا ہے: عورت سب سے پہلے جس مرد کو تلاش کرتی ہے وہ طاقت ور، اس کا ہم پلہ ، کامیاب، خود اعتماد مرد، اور وہ ہے مروجہ صفات ہیں جنہیں عورت مرد میں ہمیشہ تلاش کرتی رہی ہے۔ لیکن ان صفات کے ساتھ اگر اسے محبت، احساس وغیرہ بھی مل جائے تو یہ بہت اچھی بات ہے۔

اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ مرد ہر وقت چیخنا چلاتا رہے اور گالیاں بکتا رہے۔ بلکہ یہاں پر مقصود یہ ہے کہ اپنی آراء میں مضبوط و متوازن ہو، ہر کام کرنے سے پہلے اس کے بارے میں سوچے اور ہر لفظ بولنے سے پہلے اس پر غور کرے۔ اس کے بعد پھر کوئی قدم اٹھائے۔ پھر اگر کسی بات پر (نا) کہے تو (نا) پر قائم رہے اور (ہاں) کہے تو ہاں پر قائم رہے۔

نیز طاقت ور شخصیت کا یہ تقاضا ہے کہ مرد مصیبت کے وقت اپنی بیوی کا ساتھ دے اور اس کی راہ نمائی کرے اور اسے مصیبت سے نکلنے کا راستہ سمجھائے تو خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ طاقت ور شخصیت کا مطلب یہ ہے کہ مرد صحیح وقت پر صحیح فیصلے اور صحیح کلام کرے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۷۔ بیوی کو اچھے طریقے ٹوکے اور سمجھائے:

بعض شوہر یہ سمجھتے ہیں کہ بیوی کی تربیت کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ سخت الفاظ استعمال کیے جائیں اور سختی کے ساتھ اسے سمجھایا بجھای جائے۔
مثال کے طور پر اس کے ہاتھ سے کوئی چیز گر جائے تو کہتا ہے: (او اندھی !! (۱۱۴) یا کسی مسئلے پر بحث و مباحثہ کرتے وقت کہتا ہے (جاہل بے وقوف عورت!!) یا اگر کسی بات پر ٹوکنے کو ہوتا ہے یا کچھ بتانے کو ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر گھر میں صفائی صحیح طریقے سے ہوتی تو بجائے اس کے کہ اس کو گندی یا اور کوئی غیر مہذب لفظ کہے پیار محبت سے سمجھائے۔
کیونکہ جو شخص ہر وقت بیوی کو کچھ نہ کچھ کہتا رہتا ہے اور اس کے لئے غیر مہذبانہ زبان استعمال کرتا ہے تو ایسا شخص بیوی کو غصہ دلاتا ہے اور اگر اس طرح کا اسلوب حد سے زیادہ بڑھ جائے تو بیوی کا یہ غصہ اس کی نفرت میں بھی بدل سکتا ہے اور پھر نوبت علیحدگی تک پہنچ سکتی ہے۔

۲۸۔ بیوی کی غلطیوں اور عیوب کو مت گنیے:
اگر دو شخص ایک ساتھ رہتے رہیں اور پھر تھوڑے عرصے کے بعد کسی بحث و مباحثے کے موقع پر ان میں سے ایک دوسرے کو اس کی غلطیاں اور عیوب گنانے شروع کر دیتا ہے تو دوسرے کا کہا رد عمل ہوگا؟ اس نے کہنا ہے کہ اللہ تم سے بچائے، تمہارا دل اس حد تک سیاہ ہے کہ اب تک ہونے والی یہ چھوٹی چھوٹی معمولی باتیں تم اپنے دل میں جمع کر رہے ہو اور اب اسے میرے سامنے میری غلطیاں قرار دے کے مجھے قصو وار ٹھہرا رہے ہو؟ میں تمہاے جیسے انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ اور پھر اس کے بعد وہ اسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔

ایسا انسان جو ہر ایک کو چھوٹی چھوٹی معمولی خطائیں نوٹ کرے اور انھیں گن گن کر اپنے ذہن میں محفوظ رکھے تو ایسے شخص لوگوں کی نگاہوں میں ناپسندیدہ بن جاتا ہے کیونکہ ایسا شخص دوسرے کے حوصلے پست کرتا ہے اور اس کی خود اعتمادی کو نقصان پہنچاتا ہے۔

ایسا شخص اگر تھوڑا سا غور کرے تو اسے پتہ چل جائے کہ غلطی ہر انسان سے ہوتی ہے ہاں یہ ٹھیک ہے کسی سے غلطیاں کم ہوتی ہیں اور کسی سے زیادہ ہوتی ہیں۔ اگر غلطیاں بڑی اور خطرناک ہوں تو پھر ایسی غلطیوں پر ٹوکنا چاہیے لیکن اگر غلطیاں چھوٹی اور معمولی ہوں تو ایسی صورت میں اشارۃً اس کے بارے میں بتا دینا زیادہ بہتر ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۲۹۔ صبر و بردباری:
برد باری ایک ایسی خصلت ہے جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے، اس لئے جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ اللہ اسے اپنا محبوب بنا لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے أشجؓ کو فرمایا: تم میں دو ایسی خصلتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں، ایک بردباری دوسری تحمل(۱) (مسلم ، کتاب الایمان)

بردباری کی تعریف یہ ہے کہ یہ دو خراب خصلتوں کے درمیان ایک حالت ہے ایک غصہ اور دوسرے حماقت و کند ذہن (۲) (الحکمۃ فی الدعوۃ الی ،سعد بن علی بن وطف القحطانی۔)

اور زیادہ تر مسائل اور مصیبتوں کی وجہ عموماً غصہ ہی ہوتا ہے کیونکہ غصے کی وجہ سے انسان طبعی حالت سے نکل کر یک دم طیش کا شکار ہوجاتا ہے اور کسی بھی عمل یا تصرف پر فوری اور شدید رد عمل کا اظہار کرتا ہے جس سے بربادی زیادہ ہوتی ہے اور اصلاح کم ہوتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاملات مزید پیچیدہ ہوجاتے ہیں اور مسائل اور بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لئے جب ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے نصیحت کرنے کو کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غصہ مت کرو (۳) (بخاری)

حماقت یا کند ذہن ایک ایسی خصلت ہے جس سے زندگی بے مقصد ہو کر رہ جاتی ہے اور کند ذہن شخص نہ کسی کو متاثر کر پاتا ہے اور نہ خود کسی اور بے معنی سے متاثر ہوت اہے۔ اس لئے یہ دونوں ہی خصلتیں خراب اور مذموم ہیں۔ اس لئے شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے معاملات میں بردباری سے کام لے اور اسے اچھے طریقے سے سمجھائے۔ اگر کسی بات پر ڈانٹنا ہو تو عقل و حکمت کے ساتھ متنبہ کرے اور پیار سے سمجھائے اور چھوٹی موٹی غلطیوں کو نظر انداز کرے۔ میرے بھائی اگر تم بردباری کو اپنی زندگی میں نہیں اپنائو گے تو تھکو گے اور پچھتائو گے۔

۳۰۔ گھر کی دیکھ بھال اور اس کا خیال رکھنا:
شادی ایک بہت بڑی ذمے داری ہے شادی سے پہلے مرد صرف اپنی ذات کا ہی ذمے دار ہوتا ہے لیکن شادی کے بعد پورے گھر کی ذمے داری اس کے کاندھوں پر آن پڑتی ہے۔ بیوی بچوں کو سنبھالنا اور ان کی ضروریات کو پورا کرنا اس دینی و اخلاقی فریضہ بن جاتا ہے۔

اس لئے ایک اچھے شوہر کا کام یہ ہے کہ وہ گھر کی دیکھ بھال کرے اس میں موجود کمی کو پورا کرے۔ اگر کوئی چیز خراب ہوجائے تو اسے صحیح کرے۔ اگر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے تو اس کی جگہ دوسری لائے۔ اگر کوئی فرنیچر خراب ہو گیا ہے تو بڑھتی کو بلا کر صحیح کروائے۔ اگر بجلی میں خرابی ہوجائے تو الیکٹریشن کو بلوائے۔ (ص۱۱۷ سبالہ ۴) تاکہ کام بروقت ہوجائے اور بہت سارے کام اکٹھے نہ ہوں۔ مثال کے طور پر اگر بجلی کا تار ننگا ہے تو اس کے فوراً بدلنا ضروری ہے تاکہ بچے یا گھروالوں کو نقصان نہ پہنچنے یا پانی کے پائپ سے اگر پانی لیک ہو رہا ہے تو پلمبر کو بلوا کر اس کو صحیح کروائے تاکہ باتھ روم جاتے وقت کوئی پھسل کر نہ گر پڑے۔ اسی طرح سے اگر کرسی ٹوٹ گئی ہے تو اسے ٹھیک کراوئے یا گھر کی فلاں فلاں چیزیں ختم ہوگئی ہیں، وہ لے کر آئے۔ الخ تو ایک شوہر کا یہ کام ہوتا ہے۔

اگر شوہر مذکورہ بالا ذمے داریوں کا خیال نہ رکھے تو پھر بیوی کو بار بار اسے یاد دہانیاں کرانی پڑتی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ بار بار کا بولنا شوہر کو ناراض کردے اور پھر میاں بیوی کے تعلقات میں دراڑ پڑ جائے۔ اس سے پہلے کو نوبت یہاں تک پہنچے شو کو مذکورہ کا بالا امور کی طرف دیہان دینا چاہیے۔ کتنے ایسے شوہر ہیں جو ان گھریلوں مسائل کی طرف سے آنکھ بند کر کے بیٹھ گئے اور دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں اور عیاشیوں میں لگے رہے جس کا خمیازہ پورے گھر کو بگھتنا پڑا۔ اگر ان چھوٹے مسائل کو شروع ہی سے دیکھ لیا جاتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۱۔ اپنی بیوی پر قناعت کرنا اور دوسری عورتوں کی طرف دیکھنے سے گریز کرنا:
کمال صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور ہر مخلوق میں کوئی نہ کوئی کمی ہے جس کے ساتھ کچھ خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ ہر بیوی میں کچھ ایسے پہلو ہوتے ہیں جو کمزور ہوتے ہیں جبکہ دوسری طرف اس میں کچھ خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ اگر بیوی کا دین اور اس کا خلق ٹھیک ہے تو وہ بنیاد ہے جس کا اعتبار کرنا چاہیے جیسا کہ حسن انتخاب کے باب میں گذرا۔

اس کے بعد اگر اسے اپنی بیوی میں کچھ کمی نظر آتی ہے جو دوسری عورتوں میں نہیں ہے تو اسے سمجھنا چاہیے کہ کچھ ایسی خوبیاں بھی ہیں جو اس کی بیوی میں ہیں لیکن دوسری عورتیں ان سے محروم ہیں۔ کیونکہ روئے زمین پر ایسی کسی عورت کا وجود نہیں جس کے اندر سب خوبیاں پائی جاتی ہوں اور اس میں کوئی خالی نہ ہو۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: کوئی مومن مرد اپنی مومن بیوی سے متنفر نہ ہو اگر اسے ایک خصلت بری لگے تو تو دوسری خصلوں سے خوش ہوجائے گا۔ (۱) (مسلم)

اس لئے شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی سے راضی رہے اور دوسری عورتوں کی طرف نظر نہ کرے۔ نیز اپنی بیوی میں موجود خامیوں کی اصلاح کی کوشش کرے تاکہ اس کی خامیوں میں کمی آئے اور خوبیوں میں روز بوز زیادتی ہو نیز اس کی خوبیوں پر اس کی تعریف کرے تاکہ اس کی حوصلہ افزائی اور وہ خود بھی اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔

۳۲۔ آزمائش کے وقت بیوی کا ساتھ دینا:
ہر انسان کو کسی نہ کسی وقت کسی نہ کسی آزمائش سے گذرنا پڑتا ہے جو بڑی بھی ہوسکتی ہے اور چھوٹی بھی۔ بیوی پر بھی مشکل وقت آسکتا ہے چاہے وہ خود اس کی ذات پر آئے یا اس کے گھر والوں پر آئے۔ بعض اوقات وہ بیمار بھی پڑ سکتی ہے یا عمل حمل سے ہوتی ہے یا اس کے نیا نیا بچہ پیدا ہوتا ہے یا کسی قریبی رشتے دار کی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے امتحان ہیں۔ ایسے موقع پر ہر ایک دانا شوہر کا کردار ابھر کر سامنے آتا ہے۔ وہ اپنی بیوی کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کرت اہے اور اگر اس کے بس میں ہوتا ہے تو اس کو حل بھی کرتا ہے۔

مثال کے طور پر ایام حمل میں گھر کی ذمے داریاں اس پر کافی حد تک کم کر دیتا ہے اور جب بچے کی ولادت کا وقت آتا ہے تب بھی وہ اس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے اور ولادت کے بعد بھی اس کو ہر طرح آرام مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح اگر بیوی کے کسی قریبی رشتے کی وفات ہوجاتی ہے تو شوہر اسے تسلی دیتا ہے اور اس کے غم کو ہلکا کرتا ہے اور مسلسل اس کے ساتھ رہتا ہے یہاں تک کہ وہ طبعی حالت پر واپس لوٹ آتی ہے۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف یہ کہ میاں بیوی کے تعلقات مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں بلکہ ان کے درمیان پائے جانے والی محبت اور گہری اور مضبوط ہوجاتی ہے اور اگر کچھ مسائل یا مشکلات ہوتی ہیں تو ان کا زور ان کی مضبوط محبت کے بند کے آگے ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اور وقت کے ساتھ ستھ اس طرح کے سلوک سے محبت مزید مضبوط ہوتی چلی جاتی ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۳۔ بیوی کی فراغت میں اس کے ساتھ رہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: دو نعمتیں ایسی ہیں جس کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے میں پڑے ہوتے ہیں: ایک صحت اور دوسری فراغت۔ (۱) (بخاری)

اس لئے جو انسان اپنے فراغت کے اوقات کو اس کام نہیں لاتا۔ عن قریب پچھتائے گا۔ کیونکہ کبھی فراغ کے بعد مصروفیت آجاتی ہے اور صحت کے بعد بیماری حملہ آور ہوتی ہے۔ جو انی کے بعد بڑھاپا ڈیرا ڈال لیتا ہے۔ اسیری کے بعد فقیری گھر میں بسیرا کرلیتی ہے اور چستی کے بعد سستی چھا جاتی ہے۔ اس لئے انسان کو چاہیے کہ وہ جوانی میں اپنی عمر کے سنہرے سالوں کا صحیح استعمال کرے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے اسے کوئی مصروفیت گھیر لے۔

اسی طرح سے بیوی جو کوئی ملازمت یا دعوتی کام نہ کر رہی ہو اس کے پاس بھی کافی فارغ وقت ہوتا ہے۔ اور فراغت کو اگر مفید کاموں میں نہ صرف کیا جائے تو وہ بلا فائدہ ہی ختم ہوجاتی ہے۔
شاعر کہتا ہے:
فراغت، جوانی اور کھیل کود آدم کو یکسر خراب کرکے رکھ دیتے ہیں۔

اور انسان کا نفس ایسی چیز ہے کہ اگر آپ اسے اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں نہیں لگائیں گے تو وہ آپ گناہ اور معصیت کے کاموں میں لگا دے گا۔ اس لیے شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے فارغ وقت میں اس کے ساتھ ایسے کام یا باتیں کرے جو اس کی بیوی اور پورے گھر کے لئے مفید ہوں۔ یہ بہتر ہے بنسبت اس کے کہ وہ ٹی وی دیکھ کر اپنا وقت گذارے یا ادھر ادھر کی فضول باتیں کرکے اپنا وقت ضائع کرے یا سہیلیوں کے ساتھ دوسرے کی غیبت یا چغل خوری میں لگ جائے۔ اس لیے اس کو تحفیظ قرآن کریم کے حلقات میں لے جانا۔ یا کمپیوٹر میں سکھانا یا کپڑے بننا یا کوئی بھی دوسرا فن سیکھنا اس کے لیے اپنا وقت ضائع کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ نیز شوہر کو چاہیے کہ اس کو قرآن کریم، کمپیوٹر یا اور کوئی فن سیکھنے کے لیے جس کتاب یا سی ڈی وغیرہ کی ضرورت ہے وہ اسے مہیا کرے۔ نیز اگر بیوی اس صلاحیت کو بیچ کر اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے تو اسے فائدہ اٹھانے میں کوئی مذائقہ نہیں ہے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۴۔ وعدے کی پابندی کرے:
اللہ تعالیٰ نے ہمیں عہد و پیمان کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے معاملات کو پرا کرو (۱) (سورۂ مائدہ آیت ۱) نیز رب کریم نے اپنے بنی اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: اور بے شک وہ اپنے ووعدے کا پکا تھا۔

نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تین خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ منافق ہے اگرچہ وہ نماز پڑھے، روزہ رکھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب کوئی امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے (۲) (متفق علیہ)

ایک اور حدیث آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں پھر اگر وعدہ کرتے وقت ہی اس کی نیت یہ ہو کہ وہ پورا نہیں کرے گا تو یہی نفاق ہے (۳) (تھذیب موعظۃ لمومنین، جمال الدین القاسمی ص ۲۸۸)

چنانچہ اگر شوہر وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے یاا سکی پہلے ہی سے یہ نیت تھی بغیر کسی قابل قبو ل عذر کے وہ اس وعدے کو پورا نہیں کرے گا اور بار بارہ ایسی مذموم حرکت کرت اہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بیوی کا اعتماد اس پر سے اٹھے جائے گا اور پھر وہ اس کی کسی بات کی تصدیق نہیں کرے گی اور نہ اس پر بھروسہ کرے گی اور ممکن ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے۔ اور ان سب امور کا اثر ان کے آپس کے تعلقات پر پڑے گا اور دونوں ایک دوسرے کا اعتبار کرنا چھوڑ دیں گے اور ان کی زندگی جھوٹ اور عدم اعتماد کے پتیوں پر چلنا شروع ہوجائے گے جس کا نتیجہ مشکلات میں اضافے کی صورت میں نکلے گا۔ چنانچہ محبت، باہمی احترام، چین سکون اور اطمینان سب رخصت ہوجائے گا اور اس کی جگہ ڈر خوف احتیاط اور شک لے لیں گے اور دنیا میں ان کی زندگی دہکتے جہنم میں تبدیل ہوجائے گی۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۵۔ بیوی کی رائے اور اس کے فیصلوں کا احترام کرے:
میاں بیوی کی شخصیتیں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں اس لیے دونوں میں کسی قسم کی کوئی منافرت یا اپنی رائے کے لئے تعصب نہیں پایا جاتا بلکہ دونوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی اور اتفاق ہوتا ہے تاکہ گھر کی صورت میں اس تربیت گاہ کی تکمیل ہوسکے۔ چناچنہ بیوی کی اپنی رائے ہوتی ہے اور گھر کے امور میں اس کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں جن سے نہ اس کو روکا جاتا ہے اور نہ اسے رائے دینے سے منع کیا جاتا ہے بلکہ اس پر اعتماد کا اظہار کیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں وہ صحیح طریقے سے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور راہ نمائی کرسکے۔ دوسری طرف اگر اس رائے کا احترام نہ کیا جائے اور اسے یکسر مسترد کر دیا جائے تو اس کا خراب نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے ہی بچوں پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھتی ہے جس کے نتیجے میں آگے جا کے بچے اس کی باتون پر کان دھرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی من مانی کر تے ہیں جس سے بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

اس لیے اگر بیوی اپنے کسی بچے کو کسی بات سے منع کرے اور شوہر کو علم ہوجائے کہ اس منع کرنے میں بیوی غلطی پر ہے تو اسے فوراً نہ ٹوکے بلکہ صبر سے کام لے۔ پھر جب بچہ ادھر ادھر ہوجائے تو بیوی کو سمجھائے اور حکمت و دانائی کے ساتھ مسئلے کو نپٹائے۔

اسی طرح اگر بیوی گھر کے فرنیچر وغیرہ کی ترتیب بدل دے تو شوہر کو اس کی رائے کا احترام کرنا چاہیے اور اس پر ظاہری چیزوں کی محبت و غیرہ قسم کے الزامات عائد کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور یہی جو اسلوب دیگر معاملات میں اختیار کرنا چاہیے۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۶۔ بیوی کے لئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرنا:
تقریباً ہر عورت کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے نگاہوں کا مرکز اور ان کی پسندیدگی کا چمن ہو اگرچہ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ ہوتی ہے لیکن سب عورتیں اس پر متفق ہیں۔

عقلمند شوہر وہ ہوتا ہے جو بیوی کے لئے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے اور مختلف حرکات کے ذریعے اس کو اس کے سامنے ظاہر کرتا ہے اور کہہ کے مناتا ہے۔ جب بھی اسے موقع ملتا ہے اس سے اپنی محبت و پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے جب وہ گھر میں کوئی کام کرتی ہے تو اس کی تعریف کرتا ہے اور جب بنتی سنورتی ہے تو اس کی اور اس کے لباس کی شاعرانہ انداز میں تعریف کرتاہے۔ اس کا یہ طریقہ ہوتا ہے کہ ہر تھوڑے عرصے کے بعد اس کے حسن اور اس کی خوبیوں کی تعریفوں کے پل باندھتا ہے۔ اس طرح کی تعریف کرنا عورت کی نظر میں شوہر کی قدرو قیمت بڑھاتا ہے اور بیوی کو بطور ایک عورت کے کسی دوسرے سے اپنی تعریف سننے کی خواہش نہیں رہتی۔ شوہر اپنے رویے اور تعریف اسے اپنی طرف مائل کرتا ہے پھر وہ اس کی خدمت میں لگی رہتی ہے اور اس کے شوہر ہونے کا پورا پورا حق ادا کرتی ہے۔

ایک مرتبہ علی بن ابی طالبؓ اپنی زوجہ فاطمہؓ کے پاس گئے تو وہ عود کی لکڑی سے مسواک کر رہی تھیں۔ آپ نے یہ دیکھ کر یہ شعر پڑحا۔

ترجمہ: اے عود کی لکڑی تمہیں اراک کا مورچہ مل گیا۔ کیا تمہیں اے عود کی لکڑی ڈر نہیں لگا کہ میں تمہیں دیکھ رہا ہوں۔

اگر تم لڑنے والی فوج میں ہوتیں تو میں تمہیں قتل کر دیتا۔ تمہارے سوائے میرے اوپر کوئی غلبہ نہیں پاسکا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
۳۷۔ بیوی سے اظہارِ محبت کرنا:
عائشہؓ سے روایت ہے کہ آپ فرماتی ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اکٹھی ہوتیں اور فاطمہؓ کو کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائو اور کہو کہ آپ کی ازواج اکٹھی ہو کر میرے پاس آئی ہیں اور ابن ابی قحافہ کی بیٹی کے بارے میں آپ سے انصاف مانگ رہی ہیں۔

عائشہؓ فرماتی ہیں: فاطمہؓ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ ایک اونی چادر میں لپٹے ہوئے تھے۔ فاطمہؓ بولیں: آپ کی ازواج نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ وہ اکھٹی ہوئی ہیں اور آپ سے ابن ابی قحافہ کی بیٹی کے بارے میں انصاف مانگ رہی ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ فاطمہؓ بولیں: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس اس سے بھی محبت کرو۔ (۱) (ابن حبان)

عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے اللہ کے رسول! آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہؓ ، آپ نے پوچھا: مردوں میں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے والد۔ (۲) (ترمذی) (پچھلے صفحات میں ایسی بہت سی احادیث گذری ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم عائشہؓ سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے تھے)

یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، عائشہؓ کی موجودگی وغیر موجودگی میں آپ ان سے اپنی محبت کا اعتراف فرما رہے ہیں اس طرح کے اعتراف ان سے بیوی کی محبت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور شوہر کی خدمت میں اپنا سب کچھ لٹانے پر تیار ہوجاتی ہے۔

نیز محبت کے اظہار کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ شوہر بیوی کے لئے اس کی ساری ضروریات بخوشی بغیر کسی ناراضگی کے مہیا کرے اور اس ضمن میں بیوی کو اس کی نفسیاتی، اجتماعی ضرورتوں کو پورا کرے اور یہ سب اس سے محبت کا اظہار کا ایک طریقہ ہے۔
 
Top