۵۰۔ بیوی پر ہاتھ نہ اٹھائے۔
مارنا کمزور شخص کا کام ہوتا ہے جو اپنے حریف یا رفیق کو کسی بات پر قائل نہیں کر پاتا اور جھنجھلا کر مارنے پر اتر آتا ہے اور پھر جو شخص کمزور و ناتواں لوگوں پر ہاتھ اٹھائے تو ایسے شخص سے زیادہ لاچار اور بے بس شخص کوئی نہیں ہے۔ بعض شوہر، اللہ انھیں ہدایت دے۔ معمولی سے معمولی بات پر اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھا دیتے ہیں۔ کوئی شخص اسے اس لئے مارتا ہے کیونکہ اس نے اونچی آواز میں بات کی اور دوسرا اپنی بیوی کو اس لئے مارتا ہے کیونکہ اس نے بات کا جواب صحیح طریقے سے نہیں دیا اور تیسرا اس لئے مارتا ہے کیونکہ وہ اس سے پوچھے بغیر گھر سے نکل گئی۔ وغیرہ اور اگر بالفرض بیوی کوئی غلط یا برا کام کر بھی جائے جو قابل سزا ہو تو ایسی صورت میں مار بہت زیادہ سخت نہیں ہونی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور جن سے تمہیں نافرمانی کا خوف ہو تو ان کی نصیحت کرو (پھر اگر نہ مانیں تو) بستروں پر سے ان کو الگ کر دو (پھر بھی اگر نہ مانیں تو) ان کو مارو پھر اگر تمہاری اطاعت کریں تو ان پر زیادتی نہ کرو۔ بے شک اللہ بہت بلند اور بڑا ہے۔ (۱) (سورۃ النساء: آیت ۲۵)
آیت پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آیت میں بیان کردہ سزا بالترتیب ہے،
۱۔ نصیحت ۲۔ بستروں سے الگ کر دینا ۳۔ اور آخر میں مارنا
سلف کے اقوال پڑھنے سے پتہ چلتا ہے مارنا ایسا ہو جس سے تکلیف نہ ہو۔ فقہاء فرماتے ہیں ایسے مارے کہ اس کا کوئی عضو نہ توڑے اور نہ کوئی ظاہری چوٹ لگے۔ (۲) (تفسیر ابن کثیر: نساء آیت ۲۴)
بلکہ فقہاء نے اس (ضرب) کی کچھ شرائط مقرر کی ہیں:
۱۔ ضرب اس وقت ماری جائے جب وعظ و نصیحت اور ان سے الگ ہوجانا فائدہ نہ دے رہا ہو۔
۲۔ شوہر کو یہ یقین ہو کہ مارنے سے فائدہ ہوگا اور وہ نافرمانی سے باز آجائے گی۔
۳۔ عورت کا مرد پر کوئی حق باقی نہ ہو اور نہ ہی اس کے اور شوہر کے درمیان کوئی دشمنی چل رہی ہے۔
۴ ۔ ضرب چہرے یا کسی اور نازک حصے پر نہ ماری جائے۔
۵۔ ضرب بہت شدید نہ ہو اور فقہاء کا اجماع ہے کہ شوہر کو اگر معلوم ہوجائے کہ سختی سے مارنے پر عورت نافرمانی چھوڑ دے گی تو اس کے لئے مارنا جائز ہی نہیں ہے۔
ضرب کی کیفیت : مفسروں نے اس بات پر مفتق ہے کہ نافرمان عورت کو مارنا اس طرح سے ہو کہ نہ کوئی ہڈی وغیرہ ٹوٹے اور نہ کوئی زخم لگے۔ (۱) (موقف الاسلام منہ نشوز لزوجیہ آرا وھما ڈاکٹر نور حسن قاروت ص ۱۴۶۔ ۱۴۸)
مارنے والا یہ شوہر یہ بھول جاتا ہے کہ اس کا یہ ہاتھ جو غصے کے وقت بیوی کو مارنے کے لئے اٹھا وہی ہاتھ ہے جو میں نے ضرورت کے وقت بیوی کو گلے لگایا تھا! ستیا ناس ہو ایسے ہاتھ کا جو اپنی ضرورتوں کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اور سخت ضرب وہ ہوتی ہے جس سے دل میں شوہر کے لئے نفرت کے جذبات ابھرتے ہو ںاور بیوی ہمیشہ خوفزدہ اور چوکنی رہنے لگے کہ اس سے کوئی غلطی نہ ہو۔ ایسی صورتحال میں بیوی جائے ازدواجی زندگی کی چاشنی کھو بیٹھتی ہے اور زندگی اکتاہٹ اور بوریت کا شکار ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ عموماً یہ نکلتا ہے بیوی شوہر کو ناپسند کرنے لگتی ہے اور ان کے درمیان محبت اور الفت یکسر مفقود ہو کر رہ جاتی ہے۔