• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’اَہْلُ السُّنَّۃ وَالْجَمَاعَۃ‘‘ کون؟ چشم کشا تحریریں

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
⁠⁠⁠مفتی منیب صاحب ، نئے اہل سنت اور تازہ مظلوم
تحریر : حافظ یوسف سراج
بہت اعلےٰ ، لا جواب ،
اردو کالم میں دینی معلومات کی خوشبو چھلک رہی ہے ،
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بہت اعلےٰ ، لا جواب ،
اردو کالم میں دینی معلومات کی خوشبو چھلک رہی ہے ،
الحمد للہ ، ویسے یوسف سراج صاحب خالی صحافی نہیں ، بلکہ ایک دینی مدرسہ کے فارغ التحصیل اور اس وقت بھی روایتی علماء والی ذمہ داریاں ادا کرر ہے ہیں ، لیکن اس کالم میں بالخصوص اس بات کا خیال شاید اس لیے بھی رکھا گیا ہے ، کہ انہیں کہا گیا تھا ، ایسا لکھ کر دکھائیں ، جس میں دین و صحافت دونوں کے تقاضوں کا خیال رکھا گیا ہو ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جب مفتی صاحب ہماری طرف منیب ہوئے !

تحریر : فردوس جمال
ہمارے ملک میں پائے جانے والے آثار قدیمہ اور تاریخی عجوبوں میں جہاں ایک نام سائیں قائم علی شاہ دائم صاحب کا ہے وہیں ایک نام مفتی منیب الرحمن صاحب المعروف چاند والی سرکار کا بھی ہے ، مفتی صاحب کا ذکر بچپن میں ہم اپنے بزرگوں سے سنا کرتے تھے یہ وہ عمر تھی جب ہم گاؤں کے دیگر بچوں کے ساتھ مل کر سہانی شاموں اور چاندنی راتوں میں زمین پر جگنو ڈھونڈتے اور آسمان سے ستارے تلاش کرتے ، اسی عمر سے مفتی منیب صاحب چاند ڈھونڈنے نکل پڑے تھے چاند انہیں کبھی وقت پر نظر نہیں آیا یہاں تک کہ چشمے پڑگئے ادھر ہم جگنو مٹھیوں میں بھر کر اور ستارے بانٹ کر گھروں کو لوٹتے ہم بڑے ہوگئے مگر مفتی صیب بڑے نہیں ہوسکے وہ بس بوڑھے ہوگئے ، یہ مفتی صاحب کا ہی ذوق تھا کہ ہمارے پٹھان دوستوں کو بھی چاند کے پیچھے لگا دیا ،مفتی صاحب کا ہی کرشمہ تھا کہ ستاروں سے آگے کے جہاں دیکھنے والی دیدہ ور پاکستانی قوم کو کبھی وقت پر چاند نظر نہیں آیا چاند کے معاملے میں ہمیشہ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں کا مژدہ ہی سنتے ، خیر ہم بچپن لڑکپن سے ہوکر جوانی کی دہلیز میں قدم رکھ چکے اور بغرض تعلیم مدینہ منورہ آئے ،لیکن مفتی صاحب آج بھی حبیب بنک کی چھت پر چاند دیکھنے کا وظیفہ فرماتے ہیں،یادش بخیر وہ عمرے کا موسم تھا اور ہم مکہ مکرمہ میں تھے ،فجر کی اذان ہونے کو ابھی خاصا وقت پڑا تھا لوگ تہجد نماز پڑھ رہے تھے ، میں حرم شریف میں مطاف میں بیٹھا فجر کی اذان اور نماز کا انتظار کررہا تھا کہ میرے بائیں جانب ایک صاحب نے اپنا ہینڈ بیگ اور جوتے رکھ کر نماز شروع کردی ،میں نے ان پر دھیان نہ دیا مگر جب وہ سلام پھیر کر ہلنے جلنے لگے تو ان پر میری توجہ پڑی غور سے اور مزید غور سے دیکھا تو انکشاف ہوا کہ ہمارے بچپن اور اپنے بڑھاپے کے ہمارے ہم شغل مفتی منیب صاحب ہمارے پہلو میں ہیں ، اس دفعہ وہ چاند کو نہیں سامنے ایک افریقی کو دیکھنے کا شغل فرما رہے تھے جو نماز کی جگہ کے بارے ایک یمنی سے الجھ رہے تھے، ہم مفتی صاحب کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے تھوڑا کھانسے کی ایکٹنگ کرنے لگے مگر بے سود ، اگلے لمحے ہم نے مفتی صاحب کے حضور وہابیوں والا مصافحہ داغ دیا مفتی صاحب ہماری طرف منیب ہوئے ، علیک سلیک ہوئی ، ہمارے تعارف کرانے پر کہ خاکسار مدینہ یونیورسٹی کا طالب علم ہے مفتی صاحب کا لہجہ کچھ سرد پڑگیا ،چند لمحے پہلے والا وہ خوشگوار ماحول بدل سا گیا تب انتہائی غیر متوقع سوال مفتی صاب نے میری طرف اچھالا کہ مدینہ یونیورسٹی میں تو طلباء کی زھن سازی کی جاتی ہے کہ وہابیوں کے علاوہ باقی سب مشرک، بدعتی اور اسلام سے خارج ہیں ، میں سمجھ گیا کہ مفتی صاحب سنی سنائی باتوں پر کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں، میں نے حکیمانہ اسلوب اپنایا ،ان سے پوچھا کہ ہماری یونیورسٹی کی اور کیا کیا تعریف آپ نے سنی ہے ؟ کہنے لگا آپ کی یونیورسٹی کے طلبہ حج سیزن میں حجاج کو ایک مخصوص عقیدے پر لانے کے مشن پر کام کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ، اسی دوران مفتی صاب نے ایک بات ایسی کہی کہ میں چونک سا گیا کہنے لگے آپ کی یونیورسٹی کے طلبہ روضہ رسول کے باہر کھڑے ہوکر حجاج کو تبلیغ کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ کہنا شرک ہے جب کہ اندر روضہ رسول کی جالیوں میں سہانی تاروں سے یا محمد لکھا ہوا ہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ میں اندر ہی اندر سوچنے لگا کہ ان کی غلط فہمی یوں باتوں سے تو دور نہیں ہوگی ان موصوف نے تو ہمیں چاند نہیں دکھایا البتہ ہم انہیں یونیورسٹی اور روضہ رسول دکھا کر ،طلبہ سے ملا کر ان کی غلط فہمی دور کرنے کا سامان کرسکتے ہیں ،خیر کچھ وقت تو لگا مگر فجر کی اذان تک میں انہیں قائل کرچکا تھا کہ وہ جب مدینہ منورہ آئیں گے تو ہم انہیں مدینہ یونیورسٹی دکھائیں گے اور وہ ہمیں روضہ رسول کی جالیوں میں لکھا یا محمد دکھائیں گے ، ایک دوسرے کے نمبروں کا تبادلہ کیا، نماز فجر ہم نے مطاف میں اکٹھی پڑھی ،فجر کے بعد میں ان سے گلے مل کر رخصت ہوا بلکہ یوں سمجھیں کہ گلے پڑ کر ، چند دن بعد مفتی صاحب مدینہ منورہ آئے تو مجھے یاد کیا میں ہوٹل پہنچا عشاء کے بعد کا وقت تھا رات دس بجے کے قریب حسب وعدہ میں مفتی صاحب کے ساتھ روضہ رسول پر سلام پیش کرنے چل دیا ، جب کہ اس سے ایک آدھ دن پہلے میں جاکر روضہ رسول کی جالیوں کو باریک بینی سے دیکھ کر مفتی صاحب کی غلط فہمی کی بنیاد تک پہنچ چکا تھا ،خیر ہم نے سلام پیش کیا اس کے بعد مفتی صاحب نے اپنی انگلی کے اشارے سے مجھے اشارہ کیا کہ وہ دیکھ "یا محمد" میں زیرلب مسکرایا ، مفتی صاحب سے کہا مفتی صاحب وہ تو" یا مجید" لکھا ہوا ہے اور مجید اللہ کے مبارک ناموں میں سے ایک نام ہے ، اب میں نے اشارے سے مفتی صاحب کو وہ تین نقطے دکھائے جو چاند کی طرح مفتی صاحب سے روٹھے ہوئے تھے یہ رسم الخط اور جالیوں کی تزئین کے باعث نقطے کچھ ذرا فاصلے پر ہیں ، خیر میں نے مفتی صاحب کو شرمندگی کا احساس نہیں ہونے دیا البتہ غلط فہمی واضح کردی ،پھر ہم ہوٹل چل دیے ،میں نے دیکھا کہ مفتی صاحب کی رنگت اڑی اڑی سی تھی ، ہوٹل پہنچ کر بیٹھے ہی تھے کہ مفتی صاحب اپنے خاص انداز میں مجھ سے مخاطب ہوئے کہ دراصل یہ لوگ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے پیروکار ہیں جو بزرگوں اور اولیاء اللہ کے خلاف تھا انہوں نے صحابہ کرام کی قبروں کو منہدم کیا تھا وغیرہ وغیرہ، میں نے مفتی صاحب پر واضح کیا کہ یہ محض پروپیگنڈہ ہے اور جالیوں والی غلط فہمی کی طرح یہاں بھی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے آپ تحقیق کریں ، صبح میرے ساتھ یونیورسٹی چلیں وہاں لائبریری کا بھی وزٹ کرائیں گے ،مشائخ سے ملاقاتیں بھی ہوں گی ، مگر مفتی صاحب نے نہ صرف انکار کردیا بلکہ مجھے بھی دبے لفظوں میں وہابی ہونے کا خطاب دے کر مجھ پر اپنی باتوں سے یہ تاثر دیا کہ اہل سنت اور ہیں اور وہابی الگ مخلوق ، آج دو سال بعد پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مفتی صاحب کا ایک کالم دیکھا جو ان صوفیوں کی تائید میں لکھا گیا تھا جنہوں نے گروزنی میں مغرب سپانسرڈ ایک کانفرنس کرکے وہابیوں کو اور دیگر کئ طرح کے دوسرے مسلمانوں کو اہل سنت سے خارج کردیا ہے تو مفتی صاحب سے وابستہ وہ واقعہ زھن میں تازہ ہوا کہ فقیہ شھر اور مفتی وقت نے ہمیں تو اس کانفرنس سے چار سال پہلے ہی اہل سنت سے خارج قرار دیا تھا مجھے ان کے کالم پر حیرت بالکل نہیں ہوئی البتہ افسوس ضرور ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب خوارج اور تکفیری امت مسلمہ کی وحدت کو ملت کے دائرے سے نکال رہے ہیں، مفتی صاحب نے بھی ان کا کام آسان کردیا ہے،کاش کوئی پکار اٹھے بس بہت ہوگیا دائرے سے نکالنے کا کام ، ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہم اس دائرے اور دلوں میں وسعت پیدا کریں ،اس دائرے میں لوگوں کو داخل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ خوارج کی طرح اس دائرے سے نکالنے کا قبیح فعل ہم بھی سرانجام دینے لگیں !
 

makki pakistani

سینئر رکن
شمولیت
مئی 25، 2011
پیغامات
1,323
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
282
مفتی منیب صاحب کا کالم روزنامہ دنیا میں چھپا تھا اور دلیل ڈاٹ کام نے بھی اسے چھاپا تھا کیا ایسا ممکن ھے کہ یہ تمام تحریریں روزنامہ دنیا اور دلیل ڈاٹ کام پر بھی شایئع ھو سکیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مفتی منیب صاحب کا کالم روزنامہ دنیا میں چھپا تھا اور دلیل ڈاٹ کام نے بھی اسے چھاپا تھا کیا ایسا ممکن ھے کہ یہ تمام تحریریں روزنامہ دنیا اور دلیل ڈاٹ کام پر بھی شایئع ھو سکیں۔
نہیں ، کوشش کے باوجود ایسا نہیں ہوسکا۔
البتہ یوسف سراج صاحب کا کالم دلیل اور روزنامہ پاکستان دونوں جگہ چھپ گیا ہے ۔
 
شمولیت
نومبر 27، 2014
پیغامات
221
ری ایکشن اسکور
62
پوائنٹ
49
خضر بھائی ۔
قابل اعتراض عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ تین لوگ اہلسنت ہیں۔
اشاعرہ ، ماتریدیہ ، اہل حدیث مفوضہ ۔۔۔اور صوفی بھی۔
اس کے جواب میں جتنے کالم ہیں ۔ ان سے یہ اغلباََ یہ بات نکلتی ہے کہ ۔
اشاعرہ ، ماتریدیہ ،صوفی اہل سنت میں سے نہیں ہیں ۔
اور اہل حدیث میں مفوضہ کوئی نہیں ۔
اور اہل حدیث اہلسنت ہیں ۔
تو پھر بات تو وہی ہو گئی ۔انہوں نے اِن کو نکال دیا ۔۔۔اِنہوں نے اُن کو ۔
تو پھر اتحاد کی بات کون کر رہا ہے ۔۔جب باتوں میں طنز غالب ہے ۔

خضر بھائی کیا مسئلہ کو حل نہیں ہونا چاہیے ۔؟

مجھے اس کانفرنس سے کچھ لینا دینا نہیں ۔۔ نہ ہی کسی کی بات کا دفاع کرنا ہے ۔ ۔۔کاش کوئی اپنے مخالف کی تعبیرات کو حسن ظن کا معنی پہنانے کی بھی کانفرنس کرے ۔۔۔۔۔

کچھ عرصہ پہلے اس سے ملتی جلتی گفتگو اسی فورم پہ ہماری ہو بھی چکی ہے ۔۔

ابھی اتحاد کی صورت تو میرے نزدیک یوں ہی ہے کہ کسی ایک شخصیت کو دیکھے بغیر نظریہ کے بارے میں بات کی جائے اور اس میں دوسرے کے موقف کے بارے میں نرم رویہ رکھا جائے ۔
یہ نہ کیا جائے کہ ۔۔۔کوئی صوفی کا نام لے تو اس کے ذہن میں قبر پرست ، جوگی ، سنیاسی ، یا مجزوب ذہن میں آئے ۔ بلکہ حسن بصریؒ ، جنید بغدادیؒ ، سیوطیؒ ، شاہ ولی اللہؒ کو ہی کم سے کم ذہن میں لایا جائے ۔

شیخ صالح المنجدؒ کے سوال و جواب میں سے ایک مضمون نقل کرتا ہوں ۔
موقف علمائنا من الحافظين ابن حجر والنووي رحمهما الله
السؤال: قال واحد من العلماء المسلمين في المدينة التي أسكن بها : إن الإمام ابن حجر ، والإمام النووي مبتدعان ، وساق بعض الأدلة من "فتح الباري" لتبرير رأيه ، وأعطى مثالاً على ذلك بشرح الإمام ابن حجر للمقصود بوجه الله أنه رحمته ، ما رأيكم ؟
تم النشر بتاريخ: 2008-07-31
الجواب:
الحمد لله
أهل السنَّة والجماعة منصفون في الحكم على الآخرين ، لا يرفعون الناس فوق ما يستحقون ، ولا ينقصون قدرهم ، ومن الإنصاف بيان خطأ المخطئ من أهل العلم والفضل ، والتأول له ، والترحم عليه ، كما أن من الإنصاف التحذير من خطئه ؛ لئلا يغتر أحد بمكانته فيقلده فيما أخطأ فيه ، وأهل السنَّة لا يتوانون عن الحكم على المخالف المتعمد للسنَّة بأنه مبتدع ضال .
وقد وُجد في زماننا هذا من نال من الإمامين ابن حجر والنووي ، فحكم عليهما بأنهم مبتدعة ضالون ! ، وبلغت السفاهة ببعضهم أن قال بوجوب إحراق كتابيهما "فتح الباري" و "شرح مسلم " ! .
وليس معنى هذا أنهما لم يخطئا في مسائل من الشرع ، وبخاصة في باب صفات الله تعالى ، وقد علَّق عليها علماؤنا ، وبينوها ، وردوا عليهما ، مع الترحم عليهما ، والثناء بما يستحقانه ، والدعاء لهما ، والوصية بالاستفادة من كتبهما ، وهذا هو الإنصاف الذي عُرف به أهل السنَّة والجماعة ، بخلاف من بدَّعهما ، وضلَّلهما ، وقال بإحراق كتبهما ، وبخلاف من استدل بكلامهما كأنه شرع منزَّل ، وجعل ما يعتقدانه هو الحق الذي لا ريب فيه ، وسنذكر ما يتيسر من كلام علمائنا ليقف المسلم على الإنصاف ، والعلم ، والحكم بالعدل على هذين الإمامين .
1- سئل علماء اللجنة الدائمة للإفتاء :
ما هو موقفنا من العلماء الذين أوَّلوا في الصفات ، مثل ابن حجر ، والنووي ، وابن الجوزي ، وغيرهم ، هل نعتبرهم من أئمة أهل السنَّة والجماعة أم ماذا ؟ وهل نقول : إنهم أخطأوا في تأويلاتهم ، أم كانوا ضالين في ذلك ؟
فأجابوا :
" موقفنا من أبي بكر الباقلاني ، والبيهقي ، وأبي الفرج بن الجوزي ، وأبي زكريا النووي ، وابن حجر ، وأمثالهم ممن تأول بعض صفات الله تعالى ، أو فوَّضوا في أصل معناها : أنهم في نظرنا من كبار علماء المسلمين الذين نفع الله الأمة بعلمهم ، فرحمهم الله رحمة واسعة ، وجزاهم عنا خير الجزاء ، وأنهم من أهل السنة فيما وافقوا فيه الصحابة رضي الله عنهم وأئمة السلف في القرون الثلاثة التي شهد لها النبي صلى الله عليه وسلم بالخير ، وأنهم أخطأوا فيما تأولوه من نصوص الصفات وخالفوا فيه سلف الأمة وأئمة السنة رحمهم الله ، سواء تأولوا الصفات الذاتية ، وصفات الأفعال ، أم بعض ذلك .
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم " انتهى .
الشيخ عبد العزيز بن باز. الشيخ عبد الرزاق عفيفي . الشيخ عبد الله بن قعود
"فتاوى اللجنة الدائمة" (3/241) .
2- وسئل الشيخ محمد بن صالح العثيمين رحمه الله :
بالنسبة للعلماء الذين وقعوا في بعض الأخطاء في العقيدة ، كالأسماء والصفات ، وغيرها ، تمر علينا أسماؤهم في الجامعة حال الدراسة ، فما حكم الترحُّم عليهم ؟ .
الشيخ : مثل مَن ؟ .
السائل : مثل : الزمخشري ، والزركشي ، وغيرهما .
الشيخ : الزركشي في ماذا ؟ .
السائل : في باب الأسماء والصفات .
فأجاب :
"على كل حال ، هناك أناس ينتسبون لطائفة معينة شعارها البدعة ، كالمعتزلة مثلاً ، ومنهم الزمخشري ، فالزمخشري مُعتزلي ، ويصف المثْبِتِين للصفات بأنهم : حَشَوِية ، مُجَسِّمة ، ويُضَلِّلهم فهو معتزلي ، ولهذا يجب على مَن طالع كتابه "الكشاف" في تفسير القرآن أن يحترز من كلامه في باب الصفات ، لكنه من حيث البلاغة ، والدلالات البلاغية اللغوية جيد ، يُنْتَفع بكتابه كثيراً ، إلا أنه خَطَرٌ على الإنسان الذي لا يعرف في باب الأسماء والصفات شيئاً ، لكن هناك علماء مشهودٌ لهم بالخير ، لا ينتسبون إلى طائفة معينة مِن أهل البدع ، لكن في كلامهم شيءٌ من كلام أهل البدع ؛ مثل ابن حجر العسقلاني ، والنووي رحمهما الله ، فإن بعض السفهاء من الناس قدحوا فيهما قدحاً تامّاً مطلقاً من كل وجه ، حتى قيل لي : إن بعض الناس يقول : يجب أن يُحْرَقَ " فتح الباري " ؛ لأن ابن حجر أشعري ، وهذا غير صحيح ، فهذان الرجلان بالذات ما أعلم اليوم أن أحداً قدَّم للإسلام في باب أحاديث الرسول مثلما قدَّماه ، ويدلك على أن الله سبحانه وتعالى بحوله وقوته - ولا أَتَأَلَّى على الله - قد قبلها : ما كان لمؤلفاتهما من القبول لدى الناس ، لدى طلبة العلم ، بل حتى عند العامة ، فالآن كتاب " رياض الصالحين " يُقرأ في كل مجلس , ويُقرأ في كل مسجد ، وينتفع الناس به انتفاعاً عظيماً ، وأتمنى أن يجعل الله لي كتاباً مثل هذا الكتاب ، كلٌّ ينتفع به في بيته ، وفي مسجده ، فكيف يقال عن هذين : إنهما مبتِدعان ضالان ، لا يجوز الترحُّم عليهما ، ولا يجوز القراءة في كتبهما ! ويجب إحراق " فتح الباري " ، و " شرح صحيح مسلم " ؟! سبحان الله ! فإني أقول لهؤلاء بلسان الحال ، وبلسان المقال :
أَقِلُّوا عليهمُ لا أبا لأبيكمُ مِن اللومِ أو سدوا المكان الذي سدوا
من كان يستطيع أن يقدم للإسلام والمسلمين مثلما قدَّم هذان الرجلان ، إلا أن يشاء الله ، فأنا أقول : غفر الله للنووي ، ولابن حجر العسقلاني ، ولمن كان على شاكلتهما ممن نفع الله بهم الإسلام والمسلمين ، وأمِّنوا على ذلك " انتهى .
"لقاءات الباب المفتوح" (43/السؤال رقم 9) .
3- وسئل الشيخ صالح بن فوزان الفوزان حفظه الله :
لقد ظهر بين طلاب العلم اختلاف في تعريف المبتدع ، فقال بعضهم : هو من قال أو فعل البدعة ، ولو لم تقع عليه الحجة ، ومنهم من قال لابد من إقامة الحجة عليه ، ومنهم من فرَّق بين العالم المجتهد وغيره من الذين أصلوا أصولهم المخالفة لمنهج أهل السنة والجماعة ، وظهر من بعض هذه الأقوال تبديع ابن حجر والنووي ، وعدم الترحم عليهم ؟
فأجاب :
" أولاً: لا ينبغي للطلبة المبتدئين وغيرهم من العامة أن يشتغلوا بالتبديع والتفسيق ؛ لأن ذلك أمر خطير وهم ليس عندهم علم ودراية في هذا الموضوع ، وأيضاً هذا يُحدث العداوة والبغضاء بينهم ، فالواجب عليهم الاشتغال بطلب العلم ، وكف ألسنتهم عما لا فائدة فيه ، بل فيه مضرة عليهم ، وعلى غيرهم .
ثانياً: البدعة : ما أحدث في الدين مما ليس منه ؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : ( من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد ) - رواه البخاري - ، وإذا فعل الشيء المخالف جاهلاً : فإنه يعذر بجهله ، ولا يحكم عليه بأنه مبتدع ، لكن ما عمله يعتبر بدعة .
ثالثاً: من كان عنده أخطاء اجتهادية تأوَّل فيها غيره ، كابن حجر ، والنووي ، وما قد يقع منهما من تأويل بعض الصفات : لا يُحكم عليه بأنه مبتدع ، ولكن يُقال : هذا الذي حصل منهما خطأ ، ويرجى لهما المغفرة بما قدماه من خدمة عظيمة لسنَّة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فهما إمامان جليلان ، موثوقان عند أهل العلم " انتهى .
"المنتقى من فتاوى الفوزان" (2/211 ، 212) .
4- وقال الشيخ محمد ناصر الدين الألباني رحمه الله :
" مثل النووي ، وابن حجر العسقلاني ، وأمثالهم ، من الظلم أن يقال عنهم : إنهم من أهل البدع ، أنا أعرف أنهما من " الأشاعرة " ، لكنهما ما قصدوا مخالفة الكتاب والسنَّة ، وإنما وهِموا ، وظنُّوا أنما ورثوه من العقيدة الأشعرية : ظنوا شيئين اثنين :
أولاً: أن الإمام الأشعري يقول ذلك ، وهو لا يقول ذلك إلاَّ قديماً ؛ لأنه رجع عنه .
وثانياً: توهموه صواباً ، وليس بصواب .
انتهى من (شريط رقم 666) "من هو الكافر ومن هو المبتدع ".
فرحم الله الإمامين : النووي وابن حجر ، وغفر لهما ما أخطآ فيه .
والله أعلم


اس مضمون سے میں یہ بحث نہیں چھیڑنا چاہتا کہ ۔۔۔کون ۔۔اشعری ہے ۔۔یا نہیں۔۔۔اور کون کون سے اختلافی مسائل ہیں۔
اور ان میں حق پہ کون ہے ۔
اس وقت تو بس یہ دکھانا مقصود ہے کہ۔۔۔
اس مضمون میں جس طرح ۔۔خاص ۔۔۔ان جبال علم ۔۔یعنی ۔۔۔حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۔۔اور ۔۔امام نوویؒ ۔۔وغیرہ۔کے بارے میں جو رویہ ۔۔۔کبار سلفی علما ء نے اختیا ر کیا ہے ۔۔۔۔کیا ہی اچھی مثال ہے ۔۔
کیا یہ رویہ ۔۔۔مخالف ۔۔۔سے اختیار کرنے سے ۔۔۔اتحاد کی طرف قدم بڑھ سکتا ہے کہ نہیں؟
اسی طرح مثلاََ دوسری طرف سے شیخ الکوثریؒ۔۔۔جو ۔۔۔حافظ ابن تیمیہؒ کے بارے میں سخت رویہ رکھتے تھے ۔۔لیکن ان کے معتقدین میں ۔۔۔شیخ عبد الفتاح ابوغدہؒ ۔۔۔اور ۔۔شیخ محمد عوامہؒ۔۔کا رویہ بالکل مختلف ہے کہ ۔۔۔وہ شیخ الاسلام ؒ سے جہاں اختلاف ہو ۔۔وہ بھی بیان کرتے ۔۔۔اور ۔۔۔اس کے باوجود ان کی علمی شان کا بھی اعتراف کرتے ۔۔ان کی تحقیقات بھی نقل کرتے ۔۔۔
مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ یہ علما ۔۔اشاعرہ ۔ماتریدیہ کو ۔۔اہلسنت میں سے نہیں سمجھتے ۔۔
اور میں اس مضمون میں جو ۔۔۔حافظ ابن حجرؒ اور امام نوویؒ۔۔۔وغیرہ کو ۔۔۔جن بعض مسائل میں اشاعرہ ہونے کی وجہ سے خاطی قرار دیا گیا ہے ۔ اس سے متفق نہیں ہوں ۔۔اور ان معاملات میں ان کبار سلفی علماء ۔رحمہم اللہ۔کے بارے میں وہی الفاظ اختیار کرتا ہوں جوانہوں نے ۔۔ان ائمہ کے لئے اختیار کئے ہیں ۔۔۔یعنی ان کو اہل سنت میں سے سمجھتے ہوئے ۔۔فلاں فلاں مسائل میں ان سے متفق نہیں ہوں۔
والله اعلم۔
اور کوئی صورت جو اس معاملے میں کسی شخصیت یا انفرادی مسئلہ کو زیر بحث لائے بغیر۔۔۔اتحاد كے لیے مفید ہو تو آپ ضرور پیش کیجئے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اور ''اَھْلُ الْحَدِیْثِ الْمُفَوِّضَہ‘‘شامل ہیں (یعنی وہ اہلِ حدیث جو اعتقادی مسائل میں صفاتِ الٰہی سے متعلق آیاتِ متشابہات پر ایمان لاتے ہیں اور اُن کے مرادی یا حقیقی معنی کو اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف تفویض کردیتے ہیں،یعنی وہ ان الفاظ کے ظاہری معنی مراد نہیں لیتے ۔ان آیاتِ متشابہات میں اللہ تعالیٰ کے لیے ''یَدْ،وَجْہ،ساق، نفس، عَین اور جہت وغیرہا‘‘ کلمات آئے ہیں
اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ اور کیا یہ اہل حدیث, اسلاف اور محدثین کا عقیدہ نہیں ہے؟

اس جملے میں "مرادی یا حقیقی معنی" کی تفویض کا ذکر ہے. جسے امام مالک رح نے "کیفیۃ" کا نام دیا ہے. اس میں "لفظی معنی" کا ذکر نہیں کیا گیا.
کیا اہل حدیث حضرات یہ نہیں کہتے کہ ید, ساق وغیرہ کی کیفیت اللہ پاک کو ہی معلوم ہے؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تو پھر بات تو وہی ہو گئی ۔انہوں نے اِن کو نکال دیا ۔۔۔اِنہوں نے اُن کو ۔
تو پھر اتحاد کی بات کون کر رہا ہے ۔
جی میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہم سب اہل سنت والجماعت میں شامل ہیں ۔ البتہ جس طرح اہل تاویل کے ہاں ان کا موقف درست ہے ، اسی طرح ہم اپنا موقف درست سمجھتے ہیں ۔
اور یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سلف کا موقف بھی وہی تھا جو ہمارا ہے ۔ واللہ اعلم
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ اور کیا یہ اہل حدیث, اسلاف اور محدثین کا عقیدہ نہیں ہے؟
اس جملے میں "مرادی یا حقیقی معنی" کی تفویض کا ذکر ہے. جسے امام مالک رح نے "کیفیۃ" کا نام دیا ہے. اس میں "لفظی معنی" کا ذکر نہیں کیا گیا.
کیا اہل حدیث حضرات یہ نہیں کہتے کہ ید, ساق وغیرہ کی کیفیت اللہ پاک کو ہی معلوم ہے؟
جی اہل حدیث کے ہاں ’ معنی معلوم ‘ جبکہ ’ کیفیت نا معلوم ‘ ہے ۔ لیکن اس کو تفویض نہیں کہتے ، مفوضہ ان لوگوں کو کہا جاتا ، جو کیفیت اور معنی دونوں کی تفویض کرتے ہیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جی اہل حدیث کے ہاں ’ معنی معلوم ‘ جبکہ ’ کیفیت نا معلوم ‘ ہے ۔ لیکن اس کو تفویض نہیں کہتے ، مفوضہ ان لوگوں کو کہا جاتا ، جو کیفیت اور معنی دونوں کی تفویض کرتے ہیں ۔
عمومی حالات میں انہی لوگوں کو کہا جاتا ہے لیکن جب صاحب کلام نے قوسین میں وضاحت کر دی ہے کہ اس کی مراد کیا ہے تو پھر لا مشاحۃ فی الاصطلاح کے مطابق اس پر اتنے مضامین لکھنے کا کیا فائدہ ہے؟
 
Top