عالمی کانفرنس بعنوان: "اہل سنت و الجماعت کا صحیح مفہوم ،،، انتہا پسندی اور غلو سے تحفظ" کا اعلامیہ
یقیناً تمام تعریفیں اللہ کیلیے ہیں، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد اور مغفرت کے طلب گار ہیں، ہم اپنے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالی ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی رہنما نہیں بن سکتا، ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور ہم یہ بھی گواہی دیتے ہیں کہ محمد -ﷺ- اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل اور صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
بروز ہفتہ 12 صفر 1438 ہجری بمطابق 12 نومبر 2016 کو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے "ربانی رضا کار گروپ" اور "ادارہ رافد برائے مطالعہ و تحقیق" کی مشترکہ دعوت پر عالمی کانفرنس بعنوان: "اہل سنت و الجماعت کا صحیح مفہوم ،،، انتہا پسندی اور غلو سے تحفظ" منعقد ہوئی، جس میں دنیا کے متعدد ممالک سے اہل سنت و الجماعت کے نامور علمائے کرام نے شرکت کی، اس کانفرنس کا انعقاد کویت میں ہوا -اللہ تعالی کویت کی حفاظت فرمائے، یہاں کے امیر، حکومت اور عوام کو کامیابیاں اور امن عطا فرمائے- اس کانفرنس کے محرکات یہ تھے:
1- نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام اور چاروں اماموں سمیت دیگر علم و ہدایت کے ائمہ کے عقائد سے امت کی شناسائی۔
2- دفاعِ منہج اہل سنت و الجماعت اور اس منہج کا بدعتی لوگوں کی تحریف، جھوٹے لوگوں کے دعووں اور جاہلوں کی تاویلات سے اعلانِ براءت ۔
3- اس بات کی ترویج کہ منہج اہل سنت و الجماعت ہی ایسا منفرد منہج ہے جس پر چلتے ہوئے اتحاد اور امت کی بہتری ممکن ہے؛ کیونکہ جس طرح پہلے اس امت کی اصلاح ہوئی تھی اسی طرح بعد والوں کی اصلاح ہو گی۔
4- اتحاد امت کا بہترین طریقہ کار یہ ہے کہ: حق بات پر ڈٹ جانے کی ایک دوسرے کو نصیحت اور وصیت کریں، نیکی اور تقوی کے کاموں پہ تعاون کو فروغ دیں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کریں، اس کانفرنس کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔
مقالہ جات پرکھنے کے بعد تمام شرکائے کانفرنس نے درج ذیل اعلامیہ کو حتمی شکل دی:
پہلا:
"اہل سنت و الجماعت" وہ لوگ ہیں جو کتاب و سنت کی اتباع کرتے ہوئے انہی کی جانب اپنی نسبت رکھتے ہیں، اور انکی تعلیمات تسلیم کرتے ہیں، وہ کتاب و سنت کے بالا دستی پر یقین رکھتے ہیں، تمام اہل سنت کا اس ٹھوس اصول پر اجماع ہے، اسی وجہ سے انہیں اہل سنت و الجماعت کہا گیا، ان کے مزید القاب میں: اہل حدیث، اہل اثر، فرقہ ناجیہ، طائفہ منصورہ، امتِ وسط، اہل حق اور سلفی شامل ہیں ۔
اہل سنت کے ہاں سر کردہ افراد یہ ہیں: سب سے پہلے صحابہ کرام، پھر تابعین جیسے کہ سعید بن مسیب، ابن سیرین، عطاء بن ابی رباح، حسن بصری، زہری -رحمہم اللہ- ان کے بعد تبع تابعین جیسے کہ : ابو حنیفہ، ثوری، مالک، اوزاعی اور لیث بن سعد -رحمہم اللہ- پھر ان کے بعد انہی کے منہج پر چلنے والے ائمہ کرام ، مثلاً: امام شافعی، امام احمد، بخاری اور ابن خزیمہ -رحمہم اللہ-چنانچہ اہل سنت کے عقائد بہت قدیم ہیں ، انہیں امام احمد، یا ابن تیمیہ یا محمد بن عبد الوہاب -رحمہم اللہ-نے ایجاد نہیں کیا بلکہ یہ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے عقائد ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ امام احمد، ابن تیمیہ اور محمد بن عبد الوہاب -رحمہم اللہ-نے ان عقائد کو بدعات اور خود ساختہ نظریات پیدا ہونے کے بعد دوبارہ جلا بخشی، ان عقائد کی آبیاری کی اور انہیں لوگوں تک پہنچایا۔
حقیقت میں یہی وہ دین ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالی نے خود لی ہے، لوگوں کو اس کی طرف بلایا، دیگر عقائد و نظریات پہ اسے غالب فرمایا، ان عقائد کے حاملین کو اپنا خصوصی فضل اور مغفرت عطا کی جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
{ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } وہ مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے [ التوبہ: 100]
نیز نبی ﷺ سے متعدد اسانید کے ساتھ ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: (میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا، انہیں رسوا کرنے کی کوشش کرنے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ جائے گا اور وہ حق پر قائم ہوں گے)
یہاں پر ہم امام شافعی رحمہ اللہ کی " المدخل الى السنن "(1/109 ) میں بیان کردہ سلف صالحین کی شان ذکر کرنا چاہیں گے، آپ کہتے ہیں: "سلف صالحین کی شان ہم سے کہیں بلند ہے، وہ ہم سے علم، دانش، دینداری، فضائل، حصولِ علم کے اسباب یا حصولِ رہنمائی کے ذرائع ہر اعتبار سے اعلی ہیں، ان کی رائے ہمارے لیے ہماری اپنی رائے سے بہتر ہے"
اسی طرح حافظ ابو القاسم تیمی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب: " الحجۃ فی بیان المحجۃ"(2 / 410 ) میں بیان کیا ہے کہ: "اہل سنت و الجماعت نے کبھی بھی کتاب و سنت اور سلف صالحین کے اجماع سے تجاوز نہیں کیا، اہل سنت فتنہ پروری کیلیے متَشابہات اور تاویلات کے پیچھے نہیں چلتے، بلکہ اہل سنت و الجماعت صحابہ کرام ، تابعین اور ان کے بعد آنے والے مسلمانوں کے قولی و عملی اجماع پر عمل پیرا ہوتے ہیں"
دوسرا:
اہل سنت و الجماعت کا منہج ایک ہے، دو یا زیادہ نہیں ہو سکتے، یہ منہج شعار، حقیقت اور دلائل کا نام ہے، یہی منہج حق ہے اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہے، یہی منہجِ اعتدال ہے اس میں غلو اور جفا نہیں ہے، اس منہج کے حاملین افراد سب سے زیادہ حق کی معرفت رکھتے ہیں، کسی پر حکم لگاتے ہوئے عدل سے کام لیتے ہیں اور راہِ ہدایت کے راہی ہیں، وہ رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی شخص کی جانب اپنی نسبت نہیں کرتے، آپ ﷺ کی تعلیمات سے تجاوز نہیں کرتے ، آپ ﷺ کی سنت کے مقابلے میں رائے، قیاس، عقل، فلسفی نظریات، منطقی قواعد، ذوق، وجد، قولِ امام یا مجتہد کے اجتہاد کو نہیں لاتے؛ کیونکہ انہیں یقین ہے کہ حق بات رسول اللہ ﷺ کے افعال، اقوال اور تقریری عمل میں محصور ہے، انہیں یہ بھی یقین ہے کہ آپ ﷺ کی تبلیغِ رسالت میں کسی قسم کی کوئی کمی یا غلطی نہیں بلکہ آپ ﷺ تبلیغِ رسالت میں معصوم عن الخطا ہیں، آپ ﷺ کے علاوہ ہر شخص کی بات کتاب و سنت پر پرکھی جائے گی چنانچہ حق کے مطابق ہونے پر قبول اور بصورتِ دیگر اسے مسترد کر دیا جائے گا، چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو، اسی طرح اہل سنت و الجماعت کسی گروہ، فرقہ، تحریک یا جماعت سے نسبت نہیں رکھتے کیونکہ انہیں اسلام اور عقیدے کی نسبت ہی کافی ہے وہ شرعی القاب پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔
تیسرا:
اہل سنت و الجماعت کا مذہب خالص اللہ وحدہ لا شریک کی بندگی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت پر قائم ہے؛ لہذا کوئی مقرب فرشتہ ، نبی یا ولی ہی کیوں نہ ہو اہل سنت اپنے اور اللہ تعالی کی بندگی کے درمیان کسی کو واسطہ نہیں بناتے؛ اس لیے کہ بندگی خالص اللہ تعالی کا حق ہے، اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے جلال اور عظمت کی شایانِ شان صفاتِ کمال سے اللہ تعالی کو موصوف قرار دیتے ہیں اور ہر ایسی چیز سے منزّہ اور مبرّا مانتے ہیں جو اللہ تعالی کی شان کے لائق نہ ہو، نیز اللہ تعالی اور اپنے درمیان تبلیغِ رسالت کیلیے صرف رسول اللہ ﷺ کو ذریعۂ تبلیغ جانتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ وہ کتاب اللہ یا سنت رسول اللہ ﷺ سے دلیل کے بغیر اللہ تعالی کی کوئی عبادت نہیں کرتے۔
چوتھا:
چاروں فقہی مذاہب حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی کے ائمہ کرام امت کے عظیم مجتہدین میں سے ہیں، اور ان کے بیان کردہ فقہی مسائل اور مقرر کردہ اصولوں کے بارے میں-ہمارا گمان ہے کہ – ان کا مقصد تلاشِ حق تھا، امت پر ضروری ہے کہ: ان کی عزت اور احترام کریں نیز ان کی قدر و منزلت پہچانیں، یہ بھی نظریہ رکھیں کہ ان کے فیصلے صحیح بھی ہوتے ہیں اور غلط بھی، لیکن ہر دو حالت میں انہیں اجر ملتا ہے، تاہم ان کے اقوال پرکھنے والا شخص وہی موقف لے جس کی تائید دلیل سے ہو، سب کیلیے رحمت و مغفرت کی دعا کرے، نیز ائمہ کرام کی جانب پہچان کیلیے نسبت میں کوئی ممانعت نہیں ہے، علمائے امت شروع سے ان کی جانب نسبت کرتے چلے آئے ہیں۔
پانچواں:
ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد -رحمہم اللہ- چاروں ائمہ کرام جس طرح فقہی مسائل میں امام ہیں وہ اسی طرح عقیدہ توحید میں بھی امام ہیں، یہ ان کے بڑے بڑے اور نامور شاگردوں کے ذریعے صحیح سند کیساتھ ثابت ہے، جیسے کہ ابو جعفر طحاوی نے امام ابو حنیفہ کا عقیدہ بیان کیا، ابن ابی زید قیروانی نے امام مالک کا عقیدہ بیان کیا، ربیع بن سلیمان اور یونس بن عبد الاعلی نے امام شافعی کا عقیدہ بیان کیا، ابو بکر خلّال نے امام احمد -رحمہم اللہ جمیعاً-کا عقیدہ بیان کیا، یہ چاروں ائمہ کرام سلوک اور تزکیہ نفس کے بھی امام ہے، چنانچہ ان کی امامت کو فقہی مسائل میں محصور کر کے عقیدہ اور سلوک میں ان کے بعد آنے والے ایسے لوگوں کے نقش قدم پر چلنا جو ان کے مقام تک نہیں پہنچتے ؛ عین غلطی ہے، بلکہ گمراہی اور انحراف کا سبب بھی ہے، اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ چاروں ائمہ کرام جاہل تھے یا گمراہ تھے [!]جو کہ ان کی ہتک عزت کا باعث ہے، اور صاحب دانش کا مقام ایسی حرکت سے کہیں بلند ہوتا ہے۔
چھٹا:
اجتہادی مسائل (جن میں واضح نص یا اجماع نہیں ہے) کیلیے سینے میں کشادگی ہونی چاہیے، چنانچہ ایسے مسائل کی وجہ سے کسی کی مذمت کرنا یا انہیں تفرقہ، اختلاف یا سینوں میں کدورت کا باعث بنانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ ان مسائل میں ابتدائے اسلام سے ہی علمائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان میں باہمی کوئی چپقلش نہیں تھی، بلکہ انہوں نے اسے امت کیلیے رحمت اور وسعت قرار دیا، تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ تلاشِ حق کیلیے ان مسائل پر بات چیت اور تنقیدی جائزے سے منع کر دیا جائے۔
نیز ایسے مسائل میں اختلاف اہل سنت سے باہر ہونے کا موجب بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی وجہ سے تفرقہ کی گنجائش پیدا ہوتی ہے، نہ ہی فریق مخالف کو کوئی خاص نام دیکر الگ فرقہ متصور کیا جا سکتا ہے، نہ ہی انہیں بدعتی کہہ سکتے ہیں، نہ ہی اجتہادی مسائل میں اختلاف کی وجہ سے اہل سنت کی جانب متعدد گروہوں میں تقسیم ہونے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے، اور نہ ہی سلفیت کو مختلف تحریکوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، لیکن جاہلوں، بد طینت اور امت کو بحرانوں میں پھنسانے والوں کی کوشش یہی رہی ہے۔
ساتواں:
جن مجتہدین علمائے کرام سے کچھ غلطیاں ہوئیں اور وہ اہل سنت و الجماعت کے موقف سے دور ہو گئے تو ان کے موقف کو ماننا جائز نہیں ہے، ان کے اس موقف کو متعلقہ مسئلہ میں بطور دلیل بھی پیش نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا رد کرنا لازمی ہے، ساتھ ہی ان مجتہدین کے نیک کارناموں کو رائگاں سمجھنا اور ان کی ہتک عزت کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ ان کا احترام اور قدر و منزلت بدستور قائم و دائم رہے گی۔
آٹھواں:
سلف صالحین کے مذہب کو اہل سنت کے اجزائے ترکیبی میں سے ایک جزو قرار دینا محض غلطی ہے؛ کیونکہ حقیقت میں سلف صالحین ہی اہل سنت و الجماعت ہیں، ان کے علاوہ عقائد میں اختلاف رکھنے والے جتنے بھی فرقے ہیں یا انہوں نے اپنا شعار اہل سنت کے شعار سے ہٹ کر بنا لیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے ایسے فرقوں کی مذمت فرمائی ہے، مثال کے طور پر جن فرقوں نے انسانی عقل کو وحی یعنی : کتاب و سنت پر مقدم سمجھا، اور کتاب و سنت کو عقل کے تابع کیا، یا عقیدے کے مسائل میں خبر واحد کو مسترد کیا، یا کتاب و سنت میں ذکر شدہ اللہ تعالی کی صفات کو معطل قرار دیا اور ان کے حقائق مسخ کر کے معانی تبدیل کر دیے ، یا تفویض [اللہ تعالی کے اسما و صفات کا معنی بیان کرنے سے بھی احتراز کرنا]سے کام لیا؛ اس کیلیے دعوی یہ کیا کہ اس سے [اسما و صفات کے حقائق باقی رکھنے یا ان کا معنی بیان کرنے پر] مخلوق کے ساتھ مشابہت لازم آتی ہے، یا اللہ تعالی کے عرش پر مستوی ہونے کی نفی کی، یا مخلوقات سے بلند ہونے کی نفی کی، یا وعید میں غلو کرتے ہوئے گناہوں کی وجہ سے کسی کو کافر قرار دیا، ملت اسلامیہ اور حکمرانوں کے خلاف بغاوت کی اور معصوم جانوں کے قتل کو جائز سمجھا، یا یہ کہا کہ حصولِ شریعت نبوی طریقے کے بغیر بھی ممکن ہے چاہے اس کیلیے کشف، فیض، خوابوں اور پیرانِ طریقت کسی کا بھی سہارا لے، یا اللہ تعالی کی بندگی خود ساختہ طریقوں رقص، سماع، گانے بجانے اور وجد سے کرے، یا دین کو حقیقت و شریعت اور باطن و ظاہر میں تقسیم کرے، یا یہ کہے کہ ولایت کا درجہ نبوت سے بھی اعلی ہے، یا ولایت کا حصول نبی ﷺ کی اطاعت سے نہیں ریاضت سے ممکن ہے، ان کی مزید تفصیلات کانفرنس میں پیش کئے جانے والے مقالہ جات میں موجود ہے۔
نواں:
کانفرنس کے شرکاء جہاں پر اللہ تعالی سے مسلمانوں میں حق و ہدایت پر اتحاد کی دعا کرتے ہیں اسی طرح تمام ایسی جماعتیں جو کسی خاص نظریے، نام یا شعار کی بنا پر الگ ہو گئی ہیں انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ کتاب و سنت اور سلف صالحین کے آثار میں غور و فکر کریں، اپنے بارے میں نظر ثانی کریں، مفادات سے بلند ہو کر حق تلاش کریں اور وہ وقت ذہن میں رکھیں جب اللہ تعالی کے سامنے کھڑے ہونا پڑے گا ، جس دن مال اور بیٹے کچھ بھی کام نہیں آئیں گے سوائے اس شخص کے جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کے سامنے آئے؛ تا کہ سب کے سب خالص عقیدے پر لوٹ آئیں بالکل اسی طرح جیسے امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ اپنے کلامی نظریے سے عقیدۂ سلف اور اہل حدیث کے عقائد کی جانب لوٹ آئے تھے، یہ بات ان کی دونوں کتابوں "الابانہ" اور اسی طرح "مقالات الاسلامیین" سے واضح ہے۔
دسواں:
کانفرنس کے شرکاء غلو اور انتہا پسندی کی تمام صورتوں ، شکلوں اور تنظیموں سے خبردار کرتے ہیں، عصرِ حاضر کی غلو پرور جماعتوں کی مذمت کرتے ہیں کہ ان کی جانب سے مسلمانوں کو بدعتی یا بلا وجہ کافر کہنے کا عمل جاری ہے، وہ اسلامی ممالک سمیت دیگر ممالک میں معصوم لوگوں کا خون بہا رہے ہیں اور حرمت پامال کر رہے ہیں، انہوں نے مسلم حکمرانوں پر انقلابی تحریکوں اور مظاہروں کے ذریعے بغاوت کی ہوئی ہے اور اس کیلیے جہاد کا نام استعمال کر رہے ہیں۔
تمام شرکائے کانفرنس مسلم نوجوانوں کو خصوصی طور پر ایسے افکار ، تنظیموں اور گروہوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور ان سے امید کرتے ہیں کہ ایسی گمراہ کن جماعتوں اور نعروں کے پیچھے مت لگیں بلکہ اہل سنت و الجماعت کے منہج پر قائم رہیں؛ کیونکہ اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے کہ کسی کو کافر، بدعتی اور فاسق قرار دینا شرعی احکام ہیں اور ان کے بارے میں علم و بصیرت کے بغیر گفتگو کرنا جائز نہیں ہے، نیز کسی معین شخص پر کفر، بدعت یا فسق کا حکم لگانے کیلیے صرف وہی عالم دین گفتگو کرے جسے دلائل کا علم ہے اور متعلقہ واقعہ کی حقیقت سے واقف ہے، ساتھ میں حکم لگانے کی مخصوص شرائط مکمل ہوں رکاوٹیں اور موانع موجود نہ ہوں۔
اہل سنت و الجماعت اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرتے ہوئے مسلمان حاکم کے خلاف بغاوت کو حرام کہتے ہیں چاہے وہ ظالم ہی کیوں نہ ہو۔
اسی طرح شرکائے کانفرنس اس بات پر زور دیتے ہیں کہ غلو اور انتہا پسندی میں مبتلا تنظیموں کی نسبت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ جیسے اصلاحی تحریک کے سر کردہ افراد کی جانب کرنا سراسر زیادتی ہے، ان کا ایسی تنظیموں سے کوئی تعلق نہیں ان کی تالیفات ، حالات زندگی اور اہل علم کی ان کے بارے میں تحریریں اس کے متعلق شاہد عدل ہیں۔
گیارہواں:
سلفی منہج کو مختلف تحریکوں میں تقسیم کرتے ہوئے کہنا کہ: جہادی سلفی اور تکفیری سلفی ، یہ محض مغالطہ آرائی ہے، ایسی بات سلف کے منہج سے نا بلد یا ہوس پرست ہی کر سکتا ہے؛ کیونکہ منہجِ سلف ایک ہی ہے، جسے اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں، لہذا اگر کوئی شخص کچھ اور کہتا ہے تو وہ جھوٹا، سرکش اور ظالم ہے، انتہا پسند جماعتیں اپنے آپ کو چاہے سلفی کہیں ان کا سلفیت سے کوئی تعلق نہیں ، ان جماعتوں کی صفات کے مطابق ان کیلیے "خوارج" کا نام موزوں ترین ہے؛ کیونکہ حقیقت کا اعتبار ہوتا ہے زبانی جمع خرچ کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
بارہواں:
شرکائے کانفرنس مسلم حکمرانوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اہل سنت و الجماعت کے منہج کو مضبوط بنائیں اسی کو پھیلائیں، اس کا دفاع کریں؛ کیونکہ اسی منہج میں دلوں کیلیے حیات، اللہ تعالی کی تعظیم، رسول اللہ ﷺ کی اطاعت اور تصدیق سمیت حقوق کی ادائیگی پنہاں ہے، یہی منہج مسلمانوں میں اتحاد، باہمی محبت، دلوں میں الفت اور رحمت کا ضامن ہونے کے ساتھ ساتھ اس منہج کی بنیاد پر دینی و دنیاوی مقاصد حاصل ہوں گے اسی طرح رضائے الہی اور جنت بھی ملے گی۔
تیرہواں:
شرکائے کانفرنس کچھ مغربی اور عربی میڈیا کے ذرائع کی مذمت کرتے ہیں کہ وہ غلو اور انتہا پسندی کو سلفیت یعنی اہل سنت و الجماعت سے منسلک کرتے ہیں اور انہیں موردِ الزام ٹھہراتے ہیں حالانکہ اہل سنت ان سے بری ہیں، اس کے متعلق اہل سنت کی کتابیں، جد و جہد اور موقف شاہد عدل ہیں۔
چودھواں:
تمام شرکائے کانفرنس حوثیوں کی جانب سے بیت اللہ کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے بیت اللہ کو نشانہ بنانے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، اس اقدام سے انہوں نے مسلمانوں کے خون اور حرمتوں کی اہانت کی ہے، دوسری طرف اسلامی اتحاد کی جانب سے مسلمانوں کیلیے پیش کی جانے والی گراں قدر کوششوں کو سراہتے ہیں ، اسلامی اتحاد نے اسلام کے تحفظ کیلیے مسلمانوں کے خلاف جارحیت کو پسپا کیا اور مسلمانوں کے امور کی حمایت کی، اللہ تعالی ان کی جد و جہد کو کامیابیوں سے مزین فرمائے، اس اسلامی اتحاد کے ذریعے اپنے دین کی حفاظت فرمائے، کلمۃ اللہ بلند فرمائے، اور انہیں حق و ہدایت پر متحد فرمائے، بیشک وہی سننے والا، قریب اور قبول کرنے والا ہے۔
آخر میں تمام شرکائے کانفرنس انتظامیہ : "ربانی رضا کار گروپ" اور "ادارہ رافد برائے مطالعہ و تحقیق" کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کانفرنس کے انعقاد میں پہل کی اور اس کیلیے تیاری، تنظیم، انتظامات اور میزبانی اعلی تھی، سب شرکاء کی اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں برکتوں سے نوازے، ان کی قدم بہ قدم رہنمائی فرمائے اور اس عمل کو ان کی نیکیوں میں شامل فرمائے۔
اسی طرح شرکائے کانفرنس عزت مآب مفتی اعظم اسلامی جمہوریہ موریطانیہ جناب علامہ الشیخ احمد بن مرابط کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کانفرنس کی صدارت کی، نیز اللہ تعالی سے دعا گو بھی ہیں کہ اللہ تعالی ان کے علم و عمل اور عمر میں برکت فرمائے۔
ہم اللہ تعالی کے اسما و صفات کا واسطہ دے کر اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا فرمائے، ان کے دلوں میں باہمی الفت ڈال دے، انہیں حق کیلیے بصیرت عطا فرمائے، انہیں راہِ خیر پر چلائے، انہیں شریروں کے شر اور فاجروں کی مکاری سے محفوظ فرمائے، اپنی خصوصی مدد ، حمایت ، مغفرت اور رحمت کے ذریعے ان کے امور سنوار دے، مسلمان حکمرانوں کو نفاذِ شریعت اور نبی ﷺ کی شریعت پر چلنے کی توفیق دے ۔
ہماری آخری دعوت بھی یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلیے ہیں اور اللہ تعالی ہمارے نبی محمد ان کی آل اور تمام صحابہ کرام پر درود و سلام نازل فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غالبا یہ کانفرنس گروزنی میں ہونے والی کانفرنس میں اہل سنت و الجماعت کے حوالے سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے منعقد کی گئی تھی ۔
اردو ترجمہ :
@ابن مبارک ( شفقت الرحمن مغل )