• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’تفسیر المعوّذتین‘‘ کا اردو ترجمہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصلِ چہارم
مستعاذمنہ
معانی و اقسامِ شر:
جن چیزوں سے پناہ مانگی جاتی ہے انہیں مستعاذمنہ کہتے ہیں۔ یہ سب کی سب شر کی قسمیں ہیں جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
۱۔ مثلاً گناہوں کی معافی مطلوب ہو تو غفور رحیم کا استعمال موزوں ہو گا رزق کی فراخی کا سوال ہو تو رزاق اور واسع علیم پکارنا مناسب ہے، دشمن پر فتح چاہتے ہو تو عَزِيْزٌ حكيم کے اسمائے پاک کا دعاء کے ساتھ لگانا انسب ہو گا۔ مترجم
انسان کو جو بُرائی پہنچتی ہے وہ دو قسم سے باہر نہیں۔
الف: ہر ایک قسم کے گناہ جن کا انسان اپنے ارادہ اور اختیار سے ارتکاب کرتا ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو دنیا اور آخرت میں سزا ملتی ہے۔ شر کی یہ قسم (گناہ اور نافرمانیوں اور ان کے موجبات و بواعث کی) شدید ترین اور پائیدار ہے اور اس سے نجات پانا نہایت دشوار ہے۔
ب: شر کی دوسری قسم وہ ہے جو انسان کو دوسرے کی طرف سے پیش آتی ہے چاہے وہ دوسرا مکلف یعنی ذمہ دار ہستی ہو جیسے انسان اور جن یا غیر مکلف ہو جیسے زہر دار اشاء وغیرہ۔ سورئہ فلق اور سورئہ ناس میں نہایت مختصر اور جامع عبارت میں شر کی ان تمام اقسام سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے چنانچہ سورئہ فلق میں چار باتوں سے پناہ مانگی گئی ہے۔
۱۔ تمام وہ مخلوقات جس سے شر کا صادر ہونا ممکن ہے۔
۲۔ شب تاریک کے چھا جانے سے جو شر پیدا ہوتے ہیں
ـ۔
۳۔ گانٹھوں پرپھونکنے والیوں کے شر انگیز اعمال سے۔
۴۔ حسد کرنے والے کے حسد کے بُرے نتائج سے۔
لیکن ان چاروں کی تفصی بیان کرنے سے پیشتر شر کے معنی اور اس کی حقیقت کا بیان کرنا لازم ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شر اور اس کی حقیقت
شر کا اطلاق درد و تکلیف اور اس کے نتائج و اسباب پر ہوتا ہے، چنانچہ کفر و شرک، ظلم و بدعت اور ہر ایک قسم کے گناہ کو اگرچہ اس میں اس کے کرنے والے کی کچھ غرض مدّ نظر ہوتی اور اس کے ارتکاب سے اس کو لذت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے شر کہا جاتا ہے کہ ایسی باتوں کے مرتکب کو دنیا یا آخرت میں انہی باتوں کے نتیجہ کے طور پر تکلیف اور عذاب پیش آتا ہے کیونکہ کفر و شرک اور اسی قسم کے دیگر امور اور ان کے عواقب و نتائج یعنی ان کی عقوبت اور عذاب کا آپس میں وہی تعلق ہے جو کسی سبب اور اس کے مسبب کے درمیان ہوتا ہے۔ مثلاً زہر کھانا (بشرطیکہ کوئی مانع نہ ہو) ہمیشہ ہلاکت پر منتج ہوتا ہے، ذبح کرنے اور گلا گھونٹنے کا نتیجہ موت ہوتی ہے اور اگر آدمی آگ میں ہاتھ ڈالے تو لا محالہ اس کا ہاتھ جل جائے گا۔ الغرض ہر ایک سبب کا نتیجہ اس کا مسبب ہوتا ہے بشرطیکہ کوئی مانع پیش نہ آجائے یا ایک سبب کے ساتھ کوئی دوسرا سبب معارض نہ ہو جائے جو اس سے قوی تر ہے اور جس کا نتیجہ پہلے سبب کے نتیجہ کے برعکس ہو۔ صحت اور مرض کے مضمون پر بڑی بڑی ضخیم کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان کا غور سے مطالعہ کرو، اسباب اور مسبباب کے قانون کو مطرّد پاؤ گے۔
عالمِ اسباب:
اسی طرح روحانی امراض میں بھی یہی سبب اور مسبب کا قانون نافذ ہے اور ہر ایک گناہ کی عقوبت خاص اس کا مسبب ہے۔ الغرض ذنوب اور معاصی بعنہ اس طرح آخرت میں عذاب اور ہلاکت کا موجب ہوتے ہیں جس طرح اس دنیا میں زہر ہلاکت کا باعث ہوتا ہے البتہ اگر کوئی دوسرا سبب معارض ہو یا کوئی مانع پیش آجائے توان کا نتیجہ ظہور میں آنے سے رک سکتا ہے (جیسے کہ پہلے ذکر ہوا) مثلاً قوتِ ایمان، کثرت حسنات اور متقیانہ اعمال سے معاصی اور سیئات کی عقوبت سے انسان بچ سکتا ہے جیسے کہ اس دنیا میں بھی جو سبب قوی تر ہو اس کا نتیجہ ظہور میں آتا ہے۔ دنیا اور آخرت میں خدا کا قانون ایک ہے۔
وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيْلاً
ـ ’’اور تم اللہ کے قانون میں کوئی تغیر اور تبدل نہیں پاؤ گے۔
تمثیل:
معاصی اور سیئات کے ارتکاب میں اگرچہ بظاہر لذت محسوس ہوتی ہے اور اس سے نفس کو فوری خوشی حاصل ہوتی ہے لیکن اس کی مثال ایک لذیذ کھانے کی ہے جس میں زہر ملایا گیا ہو۔ بظاہر وہ نہایت مرغوب ہوتا ہے مگر اس کا انجام کھانے والے کی ہلاکت ہے ذنوب اور معاصی بھی اسی لذیذ مگر مسموم کھانے کی طرح عقوبت اور عذاب کے موجب ہیں اور گناہ اور عذاب میں سبب اور مسبب کا تعلق ہے اگر بالفرض شریعتِ مطہرہ نے آدمی کو اس کی عقوبت اور انجامِ بد سے آگاہ نہ کیا ہوتا تب بھی ایک صاحبِ بصیرت انسان، تجربہ کے ذریعہ سے اور واقعاتِ عالم سے استدلال کر کے اسی نتیجہ پر پہنچتا۔ کیونکہ جب کبھی بھی کسی سے کوئی نعمت زائل ہوتی ہے اس کا سبب یقینا اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی ہو گا۔ ارشادِ ربانی ہے کہ :
اِنَّ اللهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ وَاِذَا اَراَدَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوئً فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهِ مِنْ وَّالٍ
ـ
’’بیشک اللہ تعالیٰ کسی قوم کی اچھی حالت کو بُری حالت سے تبدیل نہیں فرماتا جب تک وہ خود اپنے اعمال میں تبدیلی پیدا نہ کر لیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب نازل فرمانا چاہتا ہے تو پھر کوئی بھی اس کو ٹال نہیں سکتا اور نہ ہی سوائے اس کے کوئی اور ان کے لئے کارساز ہو سکتا ہے۔
زوالِ نعمت کے اسباب:
اللہ تعالیٰ کے کلامِ پاک میں جن قوموں کی ہلاکت اور ان پر نزولِ عذاب کا ذکر ہے اگر کوئی سمجھ دار آدمی ان قصص کو غور سے پڑھے تو ان کو واضح طور پر نظر آجائے گا کہ ہر ایک قوم کی ہلاکت اور عذاب کا سبب اس قوم کی نافرمانی تھی۔ اسی طرح اگر کوئی تاریخی واقعات یا اپنے زمانہ کے احوال پر ایک نظر غائر ڈالے تو اس کو نظر آئے گا کہ زوالِ نعمت کا اصل اور حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسولوں کی نافرمانی ہے۔ ایک شاعر نے اس مضمون کو نہایت خوبی کے ساتھ منظوم کیا ہے :
اِذا كُنْتَ فِيْ نِعْمَةٍ فَارِعْهَا
فَاِنَّ الْمَعَاصِيْ تَزِيْلُ النَّعَمُ
’’جب تم پر اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت ہو اور تم کسی نعمت کا لطف اٹھا رہے ہو تو اس کو محفوظ رکھنے کی کوشش کرو۔ ((اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اس کی نعمتوں کے سب کئے جانے کا سبب ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کی نعمت کو برقرار رکھنے کا سب سے بہتر طریقہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پابندی ہے اس نے اپنے کلامِ مجید میں شکر کو زیادتی نعمت کا موجب بتایا ہے لیکن کیاتم جانتے ہو کہ صرف زبانی الحمدللہ کہنے سے شکر گزاری کا حق ادا ہو جاتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں شکر کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ا للہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
شر کا مفہوم :
خلاصۃالکلام یہ ہے کہ معاصی اور سیئات جو دنیا اور آخرت میںعقوبت اور عذاب کا موجب، عذاب کا سبب ہونے کے باعث شر کے مفہوم میں داخل ہو جانا بالکل ظاہر ہے کیونکہ اس کی عقوبت جسمانی اور روحانی دونوں قسم کے شدید ترین عذاب پر مشتمل ہے۔ روحانی عذاب سے مراد شرمندگی کااحساس، سخت ندامت اور حسرت ہے۔
اگر ایک عقلمند اس کی نوعیت پر کما حقہ غور کرے تو یقینا اس کے اسباب سے پرہیز کرنا وہ اپنا اوّل ترین فرض خیال کرے گا لیکن اصل یہ ہے کہ آدمیوں کے دل پر غفلت کے پردے پڑے ہوئے ہیں۔ اور اگر ان کو حقیقتِ حال پر اطلاع ہوتی تو وہ ایسی باتوں کا ہرگز ارتکاب نہ کرتے جن کے سبب سے وہ نجات سے محروم رہیں یادنیا اور آخرت کے درجات سے بے بہرہ ہوں۔ آخرت میں جب انکشافاتِ حقیقت ہو گا تو گنہگار اور مجرم چیخیں مار مار کر پکارے گا يا ليتني قدمت لحياتي ’’کاش میں اپنی اس ابدی زندگی کے لئے بھی کچھ زخیرہ کرتا‘‘۔ يا حسرتا على ما فرطت في جنب الله ’’ہائے افسوس! میں نے اللہ تعالیٰ کے پہلو میں (اس کی آنکھوں کے سامنے رہ کر) کس قدر کوتاہی کی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
سرورِ کونین کا پہلا استعاذہ :
الغرض چونکہ شر کا مفہوم ’’درد و تکلیف‘‘ اور اسکے اسباب اور نتائج تک محدود ہے اس لئے کہ نبی ﷺ نے جب کبھی کسی چیز سے پناہ مانگی ہے وہ ضرور با تو بذاتِ خود ’’درد و تکلیف‘‘ہو گی یا اس کا موجب۔ چنانچہ نبی ﷺ کی عادت تھی کہ عموماً ہر نماز کے آخر میں چار چیزوں سے پناہ مانگتے تھے۔
۱۔ قبر کا عذاب ۔ ۲۔ دوزخ کا عذاب۔
یہ دونوں چیزیں بذاتِ خود درد و تکلیف بلکہ اس کی شدید ترین صورت ہیں۔
۳۔ زندگی اور موت کا فتنہ۔ ۴۔ مسیح دجال کا فتنہ
یہ دونوں چیزیں ’’درد و تکلیف‘‘ اور عذاب کا موجب ہیں کیونکہ کسی فتنہ کے اثر میں آجانا عذاب کا موجب ہے۔
اس استعاذہ میں دونوں قسم کے فتنہ کا ذکر ہے۔ ایک زندگی کا فتنہ جس کا عذاب بعض اوقات فوراً نازل نہیں ہوتا۔ دوسرے موت کا فتنہ جس کا عذاب بغیر کسی مہلت کے مفتون پر نازل ہوتا ہے۔ ان اشیائے چہار گانہ سے نماز کے آخر میں پناہ مانگنا نماز کی موکد ترین دعاؤں میں سے ہے۔ یہاں تک کہ بعض علمائے سلف اور خلف کا قول ہے کہ جو شخص اپنی نماز کے آخر میں یہ استعاذہ (۱) نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی ہے۔ علامہ ابن حزمؒ اس کو ہر ایک تشہد میں کہنا لازم سمجھتے ہیں اور اس کے ترک کرنے والے نماز کا اعادہ واجب خیال کرتے ہیں۔
سرور کونین کا دوسرا استعاذہ:
اسی طرح نبی ﷺ سے نماز کے آخر میں یہ استعاذہ بھی منقول ہے: اللهم اني اعوذبك من الهم والحزن والعجز والكسل والجبن وصلع الدين وغلبة الرجال
ـ ’’اے اللہ! میں تیرے ساتھ پناہ لیتا ہوں اندیشہ اور غم سے، بے بسی اور سستی سے، بزدلی اور بخیلی سے، قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے تغلب سے‘‘۔ اس استعاذہ میں نبی ﷺ نے آٹھ چیزوں سے پناہ طلب فرمائی ہے جن میں سے دو دو آپس میں مناسبت رکھتی ہیں چنانچہ غم اور اندیشہ کا آپس میںتعلق ہے اور یہ دونوں روحانی تکلیف کی قسم
۱۔ استعاذہ مذکور کے الفاظ ماثورہ یہ ہیں: اللهم اني اعوذبك من عذاب القبر وعذاب القبر وعذاب النار واعوذبك من فتنة المحيا والممات واعوذبك من فتنة المسيح الدجال
ـ مترجم
سے ہیں۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ اندیشہ کے معنی ہیں، مستقبل میں کسی تکلیف کے پیش آنے کا خوف۔ اور غم کا اطلاق اس احساس پر ہوتا ہے کہ کسی گزشتہ تکلیف کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح بے بسی اور سستی کا آپس میں تعلق ہے۔ بے بسی کسی چیز پر عدم قدرت کا نام ہے اور سستی کے یہ معنی ہیں کہ انسان کو قدرت حاصل ہو لیکن اس کو استعمال نہ کرے۔ چونکہ ان دونوں کا نتیجہ کسی مطلوب کا ہاتھ سے نکل جانا ہوتا ہے اس لئے ان کا شمار بھی شر کے مفہوم میں ہوتا ہے۔ بزدلی اور بخیلی کا بھی آپس میں ساتھ ہے کیونکہ اوّل الذکر کے یہ معنی ہیں کہ ایک شخص اپنے بدن اور اپنی قوت کواستعمال نہیں کرتا اور مؤخر الذکر کے معنی مال کو استعمال نہ کرنا ہے۔ یہ دونوں ایسی صفتیں ہیں جن سے پناہ مانگنا لازم ہے کیونکہ انسان کو حصولِ مطالب و مقاصد میں اکثر اوقات دلیری اور شجاعت سے کام لینا پڑتا ہے اور مال خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے (لیکن بزدلی اور بخیلی اس کے منافی ہے اور اس لئے حصولِ مقصد سے مانع) اور تم جانتے ہو کہ ادراکِ مطلوب میں جولذت ہوتی ہے اس سے محروم رہ جانا کس قدر عذاب (عذابِ روحانی) کا موجب ہو گا۔ علیٰ ہذا القیاس قرض کے بوجھ اور لوگوں کے تغلب میں ارتباط یہ ہے کہ قرض کا بوجھ اکثر آدمی اپنے اختیار سے سر پرلیتا ہے لیکن لوگوں کا تغلب انسان کے بس کی بات نہیں۔
دوسرا فرق یہ ہے کہ قرض کے بوجھ سے انسان کو جو تکلیف پیش آتی ہے اس میں قرض خواہ حق بجانب ہوتا ہے مگر لوگوں کا تغلب ظلم اور ناحق ہوتا ہے۔ ایک حدیث میں استعاذہ کے الفاظ حسبِ ذیل ہیں:
اللهم اني اعوذبك من الماثم والمغرم
ـ ’’اے اللہ میں تیرے ساتھ گناہ اور قرض سے پناہ مانگتا ہوں‘‘۔ گناہ آخرت میں تکلیف اور عذاب کا باعث ہے اور قرض سے سرِ دست تکلیف آنے کااحتمال ہے۔ ایک اور موقع پر رسول اللہﷺ نے اس طرح استعاذہ فرمایا ہے: اللهم اني اعوذ برضاك من سخطك ومعافاتك من عقوبتك ـ ’’اے اللہ! میں تیری رضامندی کے ساتھ ناخوشی سے پناہ مانگتا ہوں اور تیرے عذاب کے مقابلے میںتیری عفو کو جائے پناہ ٹھہراتا ہوں‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی عذاب کا موجب ہے اور عذاب عین تکلیف ہے۔
الغرض مستعاذ منہ وہ چیز جس سے پناہ مانگی جاتی ہے شر ہے اور ہمیشہ کوئی تکلیف یا اس کا سبب اور نتیجہ ہو گاجیسے کہ مندرجہ بالا مثالوں سے اس کی توضیح ہوتی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل پنجم
مستعاذ منہ کے اقسام
تفصیل:
جس شر سے پناہ مانگی جاتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔
۱۔ ایک موجود شر جس کا دُور کیا جانا مطلوب ہے۔
۲۔ دوسرے معدوم شر جس کا عدم پر باقی رہنا مطلوب ہے۔
اسی طرح اس کے بالمقابل خیر کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک موجود خیر جس کی بقا مطلوب ہے۔ دوسرے معدوم خیر جس کا وجود میں آنا مقصود ہے۔
اللہ تعالیٰ سے جتنی دعائیں مانگی جاتی ہیں انکامال انہی چار قسموں کی طرف ہے۔ ذیل کی آیت کریمہ میں اللہ کے بعض خاص بندوں کی زبان سے یہ دعا منقول ہے۔ انہی انواعِِ چارگانہ پر مشتمل ہے:
رَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُّنَادِيْ لِلاِيْمَانِ اَنْ اَمِنُوْا بِرَبِّكُمْ فَاَمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاَتِنَا
ـ (192: 3)
’’اے اللہ! ہم نے ایک منادی کو ندا کرتے ہوئے سنا کہ اپنے رب تعالیٰ پر ایمان لاؤ، اس لئے ہم ایمان لائے۔ اے ہمارے اللہ! ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہماری برائیوں کو دُور کر دے‘‘۔
اس میں موجود شر کے دفع کی درخواست ہے (کیونکہ جیسے کہ پہلے ذکر ہوا گناہ اور معاصی شر کی ایک قسم ہے۔
وَتَوَفَّنَا مَعَ الاَبْرَارِ
ـ (192: 3) ’’اور اے ہمارے اللہ! ہماری موت نیک لوگوں کے ساتھ ہو‘‘۔
اس میں موجود خیر کے بقا کی التماس کی گئی ہے۔ کیونکہ ایمان ایک عظیم ترین خیر ہے، جو تمام بڑی بڑی نیکیوں اور برکتوں کا سرچشمہ ہے اور درجات عالیہ کے حصول کا موجب ہے۔
رَبَّنَا وَاَتِنَا مَا وَعَدْتَّنَا عَلَى رُسُلِكَ
ـ (192: 3) ’’اے اللہ! ہمیں عطا کر جو کچھ تو نے ہمارے لئے اپنے رسولوں کی معرفت وعدہ فرمایا‘‘۔
یہ دعاء خیر معدوم کے موجود ہونے کے لئے ہے۔
وَلاَ تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ
ـ (193 : 39) ’’اور ہمیں قیامت کے دن ذلیل اور شرمندہ نہ بنا‘‘۔
اس میں معدوم شر کے عدم پر باقی رہنے کی استدعا ہے۔
اس سے تم کو معلوم ہو گا کہ اس آیتِ کریمہ کے ضمن میں جو دعا خاصانِ بارگاہ کی زبانی منقول ہے وہ مطالب چارگانہ کی جامع اور تمام اقسام خیرات پر مشتمل ہے اور مطالب کی ترتیب نہایت عمدہ ہے کیونکہ اس میں ان دونوں مطالب یعنی مغفرت اور بقائے ایمان کو جن کا تعلق اس زندگی سے ہے مقدم رکھا گیا ہے اور اس کے بعد ان دو قسموں کا ذکر ہے جس کا حصول آخرت میں ہو گا یعنی یہ کہ جو کچھ ان سے اللہ کے رسولوں نے وعدہ کیا اس سے وہ بہرہ ور ہوں اور روزِ قیامت کی شرمندگی سے محفوظ رہیں۔ صحیح روایت سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ اپنے خطبہ میں اکثر فرمایا کرتے تھے کہ نعوذ بالله من شرور انفسنا و من سيّات اعمالنا
ـ ’’ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے نفس کے شر اور بُرے اعمال سے پناہ مانگتے ہیں‘‘ ۔ اس میں نفس کے شر سے پناہ طلب کی گئی ہے جس میں کہ بالقوۃ ہر ایک شر کا وہ مادہ موجود ہے بالفاظ دیگر معدوم شر کے ظہور میں نہ آنے کی دعا ہے نیز بُرے اعمال سے پناہ طلب کی ہے جو موجود شر کی ایک بڑی قسم ہے۔ گویا اس استعاذہ میں شر کے دونوں اقسام سے پناہ مانگنے کی تصریح ہے۔ ’’سیئات اعمال‘‘ سے بعض علماء اور شارحینِ حدیث کے نزدیک اعمال خیر صالحہ کی عقوبت اور عذاب مراد ہے جس کو سیئات کے لفظ سے اس واسطے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کا وقوع اس کے مستوجب کو بُرا معلوم ہوتا ہے۔ اس صورت میںسبب اور مسبب دونوں کو مستعاذمنہ قرار دیا ہے، نفس کا سبب شر ہے اور عذاب اس کا مسبب۔
سیئات اعمال:
سیئات اعمال کی تشریح میں یہ دونوں توجیہیں احتمال رکھتی ہیں اور ہر ایک کی تائید میں ایک معقول دلیل موجود ہے۔ علماء کی جس جماعت نے سیئات اعمال سے بُرے اعمال مراد لئے ہیں اس کی دلیل یہ ہے کہ بُرے ا عمال کا منشاء نفس کی پوشیدہ شرارت ہے اور مؤخر الذکر یہ تمام بُرے اعمال کی تولید کا حقیقی سبب ہے۔ گویا حدیثِ نبوی کے ان میں نفس کی صفت مذمومہ اور اس کے نتائجِ بد دونوں سے استعاذہ کیا گیا ہے کیونکہ ان دونوں سے محفوظ ہونا تمام شرور سے محفوظ رہنے کے مترادف ہے۔
دوسرے فریق کے نزدیک جس کا یہ قول ہے کہ سیئات اعمال سے مراد بُرے اعمال کی عقوبت اورعذاب ہے، ترجیح کی وجہ یہ ہے کہ بہر حال عقوبت اور عذاب شرور نفس کا نتیجہ ہے اور ان دونوں میں سبب اور مسبب کا علاقہ ہے۔ گویا ہر ایک قسم کی عقوبت اور اس کے اسباب سے استعاذہ کیا گیا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل ششم
اسبابِ شر ما مبداء ومنتہی
شر کی چار قسمیں:
چونکہ یہ ضروری ہے کہ شر کے لئے کوئی سبب ہو جس سے وہ پیدا ہوا، نیز اس کے لئے ایک ا نتہاء اور انجام ہو گا اور چونکہ سبب کا وجود یا تو خود انسان کی ذات میں ہو گا یا اس سے خارج کسی اور چیز میں اور اس کا انتہاء اور انجام بھی یا خود اس کی ذات پر ہو گا کسی اور چیز پر۔ اس لئے مفصلہ بالا تقسیم کے بموجب شر کی چار قسمیں ہوئیں جن کو ماثور استعاذہ نے نہایت خوبی کے ساتھ جمع کیا ہے جو نبی ﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سکھلایا تھا اور صبح و شام سونے کے وقت اس کو دہرانے کی تاکید فرمائی تھی۔
اللهم فاطر السموات والارض عالم الغيب والشهادة رب كل شئ وملكه اشهد ان لا اله الا انت اعوذبك من شر نفسي وشر الشيطان وشركه ان اقترف على نفسي سهوا اواجره الى مسلم
ـ
’’اے اللہ! ۔آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے! پوشیدہ اور ظاہر کے جاننے والے! ہر ایک چیز کے مالک اور پرورش کرنے والے! میں اس بات کااقرار کرتا اور گواہی دیتا ہوں کہ سوائے تیرے کوئی معبود نہی، میں تیرے ساتھ اپنے نفس کے شر اور شیطان کے شر اور اس کے میرے ساتھ اعمال میں شریک ہونے کے شر سے پناہ مانگتا ہوںنیز اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں اپنے نفس پر ضرر پہنچانے کے لئے کوئی بُرا عمل کروں یا کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف میں مبتلا کروں‘‘۔
اس استعاذہ میںشر کے اصلی سبب نفس اور شیطان کا ذکر ہے اور اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اس کا انجام کبھی تو خود انسان کے اپنے نفس پر ہوتا ہے او رکبھی اس کے مسلمان بھائی پر۔ الغرض یہ باوجود اختصار کے ایک جامع استعاذہ ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل ہفتم
شرورجن کا معوّذ تین میں ذکرہے
افعال اللہ خیر محض ہیں!
اب ہم ان شرور پر مفصل بحث کرتے ہیں جن کا ذکر سورئہ فلق اور سورئہ ناس میں ہے۔ پہلی آیت: مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ
ـ ’’میں پناہ مانگتا ہوں ہر ایک ایسی چیز کے شر سے جس کو اس نے پیدا کیا‘‘۔
اس میں عام شر کا ذکر ہے اور شر کی نسبت اس مخلوق کی طرف ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔
اللہ تعالیٰ کی کسی صفت مثلاً خلق وغیرہ کی طرف اس کی نسبت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی کسی صفت یا فعل میں کسی طرح کاشر نہیںاور جیسے کہ اس کی ذاتِ مقدس، ہر ایک شر کی نسبت اور اضافت سے برتر اور منزہ ہے اسی طرح اس کی صفات اور اس کے افعال کی تنزیہ بھی واجب ہے۔ اس کی ذات اور اس کی صفات میں کسی قسم کاعیب اور نقص نہیں اور اسی طرح اس کے تمام افعال خیر محض ہیں، جن میں شر کی مطلق آمیزش نہیں۔ دنیا میں جو کچھ بھی شر پایا جاتا ہے وہ مخلوق ہی کی طرف منسوب ہے۔ اگر بفرضِ محال جنابِ کبریا تعالیٰ و تقدس کے افعال میں کسی قسم کا شر ہوتا تو ضرور تھا کہ اس شر کے لفظ سے اس کے لئے اسم صفت بنایا جاتا ہے جیسے کہ دوسرے اسماء حسنیٰ بنے ہیں اور اس صورت میں یہ کہنا غلط ہوتا کہ:
وَ للهِ الاَسْمَآئُ الْحُسْنَى
ـ ’’اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خوبصورت سے خوبصورت نام مقرر کئے گئے ہیں (سب نام اس کے احسن الاسماء ہیں) ‘‘۔
انتسابِ شر:
تمہارے دل میں یہ وہم پیدا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو جو عقوبت اور عذاب کے مستحق ہیں، عقوبت اور عذاب دیتا ہے کیونکہ اس کا ایسا کرناعین عدل و انصاف اور خیر مح ہے۔ جناب کبریائے تعالیٰ و تقدس کا یہ فعل شر کی آمیزش سے بالکلیہ پاک ہے (اگرچہ شر درد و تکلیف کا نام ہے) کیونکہ اس کا شر ہونا انہیں مستحقینِ عقوبت کے حق میں ہے اور بس۔ الغرض شر کا وجود اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور اس کے افعال سے بالکل الگ اور علیحدہ اس کی مخلوقات اور مفعولات میں پایا جاتا ہے اور اسی لحاظ سے اس کو خالقِ خیر و شر کہہ سکتے اور کہتے ہیں ۔
یہ ایک دقیق مسئلہ ہے اور اس لئے اس مقام پر دو باتوں کا ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے:
۱۔ یہ کہ جو چیز بذاتِ خود شر ہے یا شرر پر مشتمل ہے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال سے منفصل کوئی مفعول اور مخلوق چیز ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کی صفات یا اس کا فعل ہر گز نہیں ہو گا۔
۲۔ یہ کہ اس کا شر ہونا ایک امر اضافی ہو گا۔ یعنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف اس کو منسوب کیا جائے تو وہ خیر محض نظر آئے گا۔ البتہ کسی مخلوق کی طرف اس کی نسبت کی جائے تو وہ شر کی صورت میںظاہر ہو سکتا ہے۔
شر امر نسبی ہے!
یقین سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کا ہر ایک فعل (خواہ وہ مخلوق کے حق میں کتنا ہی بڑا شر ہو) کسی حکمتِ بالغہ پر مبنی ہوتا ہے جس کے ادراکِ ماہیت سے اکثروں کی عقل رسا قاصر رہتی ہے۔ اس لئے عمومًا ایسے موقعوں پر یہ مجمل ایمان کافی ہوتا ہے کہ:
اِنَّ اللهَ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ
ـ ’’بیشک اللہ تعالیٰ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے‘‘ـ۔
اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا قائل ہونا اسی کی طرف کسی شر کو منسوب کرنے کا منافی ہے کیونکہ جو کوئی شر کا فاعل ہوتا ہے اس کا یہ فعل یا تو اس کے احتیاج کا نتیجہ ہوتا ہے یا اس کے ناقص اور عیبناک ہونے کی وجہ سے اس سے اس قسم کا فعل ظہورمیں آتا ہے لیکن جس ذاتِ مقدس کی صفت الغنی الحمید ہے اس سے کسی ایسے فعل کا صادر ہونا ناممکن ہے۔
اس تقریر کا ملخص یہ ہے کہ ہر حالت میں شر ایک امر اضافی ہوتا ہے اور اگر اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے دیکھا جائے تو وہ خیر محض ہو گا۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کا یاد رکھنا تمہارے لئے معرفت رب تعالیٰ کاایک دروازہ کھول دے گا۔ ہم کو اس کی محبت کی جانب رہنمائی کرے گا اور تمہارے دل سے وہ شبہات دُور ہو جائیں گے جس میں پڑ کر اکثر لوگوں کی عقل چکر کھا جاتی ہے، اس مبحث کو ہم نے کتاب تحفہ ٔ مکیہ اور الفتح القدس میں بسط و تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے اس کی توضیح کے لئے چند مزید مثالیں سن لو۔
امر نسبی کی تمثیلات :
ایک شخص چوری کرتا ہے، اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے یا اس کو سخت قید کی سزا دی جاتی ہے۔ حاکم کا یہ فعل اس چور کے حق میں شر ہے لیکن عام لوگوں کے حق میںاور فی حد ذاتہ خیر محض ہے کیونکہ لوگوں کے مال کو بدمعاشوں کی دست درازی سے محفوظ رکھنے کی یہ ایک مؤثر تدبیر ہے اور عامۃ الناس کے ساتھ ایک بڑی نیکی ہے اس لئے حاکم کا یہ فعل عقلمندوں کے لئے مستحق ہزار آفرین ہے اور ایسا حاکم جو بدمعاشوں اور اچکوں کو کیفر کردار تک پہنچائے محبوب خلائق اور ہر دلعزیز ہو گا۔
اسی طرح جو شخص لوگوں کی جان اورآبرو پر حملہ کرتا ہے اس کو مناسب سزا دیناہر طرح سے مستحسن اور قابلِ تعریف ہے۔ اب تم خود سمجھ لو کہ لوگوں کے جان و مال اور آبرو پر حملہ کرنے والے کو سزا دینا م عیوب نہیں بلکہ مستحسن ہے جس کے نتائج اسی دنیاوی زندگی تک محدود رہتے ہیں تو کیاوہ شخص یا اشخاص عقوبت اور عذاب کے مستحق نہیں ہیں جو لوگوں کی روحانی زندگی کو تلف کرنا چاہتے ہیں جس کے نتائج دُور رس اور اس کااثر انسان کی حیاتِ ابدی پر پڑتا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے جو ہدایت اپنے رسولوں کی معرفت لوگوں کی اصلاح کے لئے بھیجی ہے اور جس سے دونوں جہان کی سعادت حاصل ہوتی ہے وہ لوگ اس سے لوگوں کو روکتے ہیں۔
الَّذِيْنَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ وَيَبْغُوْنَهَا عِوَجًا
ـ(45 : 7)
کیا ایسے مضر انسان کو اس کے کیفر کردار تک پہنچانا خیر محض اور خالص عدل نہیں ہو گا؟چاہے ایسا کرنا خود اس مضر ہستی کے حق میں کتنا بڑا شر ہو۔
مسئلہ تقدیر کا راز:
اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لو جس سے مسئلہ تقدیر کا راز کھل سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت میںتمہیں بصیرت حاصل ہو سکتی ہے اور یہ کہ وہ اپنے بندوں کے حال پر بہرکیف مہربان ہے، البتہ جیسے وہمہربان اور محسن ہے اسی طرح وہ حکیم اور عادل ہے، اس کی حکمت، اس کی رحمت کے منافی نہیں، وہ اپنی صفتِ رحمت اور احسان کو اپنی مناسب جگہ پر جلوہ دیتا ہے اور عدل و انتقام کی صفت کا اپنی مناسب جگہ پر اظہار فرماتا ہے:
وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْم
ـ
وہ غالب ہے جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے اور حکیم ہے اس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے اس کے تمام افعال خبر محض ہیں اس کی حکمت کے برخلاف ہو گا اگر وہ عقوبت اور غضب کے محل میں رحمت اور رضا کی صفت کو جلوہ دے یا رحمت کی جگہ غضب کااظہار فرمائے جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ دونوں امر اللہ تعالیٰ کے حق میں برابر ہیں اور اس کے افعال میں محض مشیت کارفرما ہے سبب اور مسبب کے قانون اور حکمتِ بالغہ کی کرشمہ آرائیوں کو اس میں کچھ بھی دخل نہیں ان کے دلوں پر ایک غلیظ حجاب ہے اور اس لئے اندھوں کی طرح ان کو تمام چیزیںنظر آتی ہیں۔
حکمتِ بالغہ:
اگر تم قرآن قریم کو شروع سے آخر تک غور کے ساتھ پڑھو تو تمہیں معلوم ہو گاکہ کلامِ پاک میں سبب اور مسبب کے اٹل قانون پر کس قدر زور دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے افعال میں حکمتِ بالغہ کے جلوہ گر ہونے پر انسان کو کہاں تک توجہ دلائی گئی ہے ۔ کلامِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ
ـ
’’کیا یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے مطیع فرمانبردار بندوں کے ساتھ مجرموں کا سلوک کریں؟ تمہاری عقل پر کیا پتھر پڑ گئے ہیں! تم کیسامتحکمانہ حکم صادر کر رہے ہو!!‘‘
دوسری جگہ ارشاد ہے:
اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوْا السَّيِّئَاتِ اَنْ نَّجْعَلَهُمْ كَاالَّذِيْنَ اَمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَآئً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتَهُمْ سَآئَ مَا يَحْكُمُوْنَ
ـ
’’کیا وہ لوگ جو بُرائیاں کر رہے ہیں یہ غلط خیال رکھتے ہیں کہ ہم ان سے ان لوگوں کا سا سلوک کریں گے جو ایمان لائے اور نیکیاں کی ہیں ان کی زندگی اوران کی موت برابر ہو گی؟ (اگر ان کا یہ خیال ہے تو) نہایت ہی بُرا حکم صادر کر رہے ہیں‘‘۔
اس قسم کی بیسیوں اور سینکڑوں آیتیں کلامِ پاک میں موجود ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے کافروں کے اس گمان کو سختی کے ساتھ باطل فرمایا ہے کہ وہ اپنے نیک اور بد اعمال بندوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے گا! اس طریقِ استدلال سے صاف واضح ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت میں یہ حقیقت منقوش ہے اور عقلِ سلیم کا یہی فتویٰ ہے، اللہ تعالیٰ کے قانونِ حکمت کا یہ مقتضاء ہر گز نہیں کہ فرمانبردار اور بے فرمان کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے۔ تمام بنی نوع انسان کے عقول میں فطرتًا یہ بات مرکوز ہے کہ رحمت اور احسان کی جگہ عقوبت اور عذاب کا رکھنا نہایت بُرا ہے اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس کے اس فعل کو سخت قابلِ اعتراض سمجھا جائے گا۔ اسی طرح عقوبت اور انتقام کے مناسب موقعوں پر رحمت اور احسان کا استعمال فطرتاً نہایت قبیح معلوم ہوتا ہے۔
مشاہدہ :
ایک شخص لوگوں کے جان و مال پر ناحق دست درازی کرتا ہے ا ور ان کی آبرو ریزی میں کوتاہی نہیں کرتا۔ لیکن ایک دوسرا شخص ہے جو اس قسم کے آدمی کے ساتھ امانت اور تحقیر کا سلوک کرنے کی بجائے نہایت تعظیم اور احترام سے پیش آتا ہے اور اس کے ساتھ احسان کرنے میں دریغ نہیں کرتا تو کیا کوئی سلیم الفطرۃ انسان اس کے اس فعل کو مستحسن سمجھ سکتا ہے۔ حاشا وکلا۔ ہر ایک شخص اس بیجا احسان کرنے والے کو نہایت بُرا خیال کرے گا اور اور اس کے اس فعل کو یقینا قبیح سمجھا جائے گا۔ یہی اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے بایں ہمہ عقلوں کو کیاہو گیا ہے کہ وہ ا للہ تعالیٰ کے عدل و انتقام کے افعال میں اس کی حکمت بالغہ کا مشاہدہ نہیں کر سکتے؟ کسی شاعر نے کیا اچھا فرمایا ہے :
نعمت الله لا تعاب ولكن ربما استقبحت عل اقوام
یعنی ’’اللہ تعالیٰ کی نعمتیںعیب سے مبرّا ہیں لیکن بعض موقعوں پر ان کا انعام زیبانہیں معلوم ہوتا‘‘۔
تہدید:
الغرض وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کے کسی طرح مستحق نہیں جو اس کے سبیلِ ہدایت پر چلنے سے دوسرے لوگوں کو روکتے ہیں اس کی رضا مندی کے مخالف امور میں مساعی رہتے ہیں جن ا مور سے وہ ناخوش ہوتاہے اس کو وہ بنظرِ پسندیدگی دیکھتے ہیں اور جنباتوں میں اس کی رضامندی متصور ہے ان سے بے اعتنائی برتتے ہیں بلکہ دوسری نظر سے ان کو ملاحظہ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے لیکن اغیار کو خوش کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زورلگاتے ہیں۔ الغرض وہ ہر ایک بات میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے فرمان پر عین ضد میں عمل کرتے ہیں۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے پیارے ہیں وہ ان کے ساتھ دشمنی رکھتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں سے عداوت ہے ان کو ان سے محبت ہے۔ وَكَانَ الْكَافِرُ عَلَى رَبِّهِ ظَهِيْرًا
ـ ’’کافر انسان ہمیشہ اپنے رب تعالیٰ کی مخالفت میں کوشاں رہتا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ اپنے کلام مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلَئِكَةِ اسْجُدُوْا لاَدَمَ فَسَجَدُوْا الاَّ اِبْلِيْسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهِ اَفَتَتَّخِذُوْنَهُ وَذُرِّيَتَهُ اَوْلِيَآئَ مِنْ دُوْنِيْ وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ بِئْسَ لِلظَّالِمِيْنَ بَدَلاًـ ’’اس قصہ کویاد کرو جب کہ ہم نے ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ تعمیل فرمان کے لئے سب نے سجدہ کیا مگر ایک شیطان نے نہ کیا وہ جنوں کی قوم میں سے تھا اس لئے اس نے اپنے رب تعالیٰ کے حکم سے سرتابی کی، کیا (بایں ہمہ تم مجھ کو چھوڑ کر اس کو اور اس کی اولاد کو اپنا دوست سمجھتے ہو؟ بحالیکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ظالموں کے لئے (جو مستحق عداوت کو دوست بنا کر ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے شیطان کے ساتھ رشتہ جوڑتے ہیں) نہایت ہی بُرا بدلہ ہے‘‘۔
اس خطاب کے ضمن میں غایۃ درجہ کی تہدید ہے۔ آیت کریمہ کے شروع میںیہ بتایا گیا ہے کہ میں نے شیطان لعین کو تمہارے باپ کے سامنے سجدہ کرنے کاحکم دیا جس سے اس نے سرتابی کی، اس پر میں نے اس کو اپنی بارگاہِ کبریائی سے مردود فرما کر لعین کا خطاب دیا اور تمہارے باپ کے لئے سجدہ سے انکار کرنے کی وجہ سے اس کو اپنا دشمن ٹھہرایا۔ لیکن تم ہو کہ اسی ملعون کو اپنا دوست سمجھ رہے ہو اور اس کی خاطر مجھ کو چھوڑ رہے ہو۔ کیا یہ عظیم ترین ظلم نہیں؟ اور جب قیامت کے دن انکشافِ حقیقت ہو گا تو کیا تم اپنے کئے پر سخت نادم ا ور متاسف نہیں ہو گے؟
میدانِ قیامت :
یقینا قیامت کے دن تم سے یہ کہا جائے گا (جس کے تم ہر طرح سے مستحق ہو) کیا عدل و انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ ہر ایک شخص کو تم میں سے اس کا رفیق بنا دیا جائے جس کو تم نے خود اپنے لئے رفیق منتخب کیا تھا۔ اسی طرح اولیاء الشیطان تو شیطان کی جماعت میں شریک ہوکر دوزخ کو چلے جائیں گے مگر اولیاء الرحمن کسی دوسرے کے پیچھے چلنے سے انکار کریں گے کیونکہ انہوں نے دنیا میں بھی دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر ایک اللہ کی فرمانبرداری اختیار کی تھی۔
حدیث شریف میں ہے کہ اسی اثناء میں اللہ تعالیٰ ان کے سامنے جلوہ فرما ہو کر ان سے اس طرح مخاطب ہو گا ’’تم بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں چلے گئے‘‘ اس کے جواب میں وہ عرض کریں گے ’’اے اللہ! دنیا میں ب کہ ہمیں ان کے ساتھ ربط و ضبط رکھنے کی سخت ضرورت تھی۔ صرف تیری ہی خاطر ان کو چھوڑ دیا تھا تو بھلا اب آخرت میں ہم کیوں ان کے پیچھے جانے لگے؟ ہم تو اپنے رب تعالیٰ کا انتظار کر رہے ہیں‘‘ (وہی جہاں ہم کو بھیجے گا ہم خوش ہیں) اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا ’’کیا تمہارے اور اس کے درمیان کوئی خاص علامت بھی ہے! عرض کریں گے ہاں! اس کی مثل نہیں ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایسی کیفیت کے ساتھ جلوہ فرما ہو گا کہ ان کا کوئی شک باقی نہیں رہے گا اور اس حالت میں وہ سب سربسجود ہوں گے‘‘ الخ۔ اس دن اللہ کے ساتھ سچی محبت رکھنے والوں کی آنکھیں ہوں گی اور کافروں اور مشرکوں کو اس بات کا عین الیقین حاصل ہو گا۔
اِنْ اَوْلِيَآئُهُ اِلاَّ الْمُتَّقُوْنَ
ـ ’’اللہ کے دوست وہی ہوتے ہیں جو تقویٰ کے زیور سے آراستہ ہوں‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل ہشتم
خیر الکلام وخیر العبادۃ کا تنزیہ
ـ ٔ تقدیس
ذاتِ باری تعالیٰ:
بعض عارفوں نے اس طرح اللہ تعالی کی شر سے تنزیہ بیان کی ہے کہ الشر لا يتقرب به اليك ’’شر کے ذریعہ کوئی شخص تیرا قرب حاصل نہیں کر سکتا‘‘ کسی اور عارف نے اس کے تقدس کا ان لفظوں میں اظہار کیا ہے کہ الشر لا يصعد اليك ’’شر کو تیری طرف سعود نہیں ہے‘‘ اپنی بساط کے موافق ہر ایک نے اس کی تنزیہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن نبی ﷺ نے جن الفاظ میں جنابِ کبریائے تعالیٰ و تقدس کی تنزیہ فرمائی ہے وہ ان تمام عبادتوں سے اعلیٰ و ارفع ہے۔
حدیث نبوی ﷺ :
نبی ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے : لبيك و سعديك والخير كله في يديك والشر ليس اليك
ـ ’’یہ بندئہ نیاز مند تیری خدمت میں حاضر ہے اس کو اعتراف ہے کہ تمام نیکیاں تیرے ہاتھ میں ہیں اور شر کو تیری طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ حدیث کے الفاظ میں اس بات کی تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس کی صفات اور اس کے افعالِ شر کی آمیزش سے مبرا ہیں اور کسی صورت میں شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ گو اس کی مخلوقات میںشر کا وجود پایا جاتا ہے جو بالکل انہیں کی طرف منسوب ہے۔
شر کی اضافت :چنانچہ سورئہ فلق کی پہلی آیت میں شَرِّ مَا خَلَقَ میں اس بات کی تصریح موجود ہے شاید تم نے قرآن کریم کے طرز پر بہت کم غور کیا ہو گا ورنہ تمہیں صاف نظر آ جاتا کہ اس کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت :
کلامِ پاک میں شر کی اضافت کبھی تو اس کے سبب کی طرف ہوتی ہے اور جس کی ذات سے شر کو قیام حاصل ہے ا سی کی طرح اس کو منسوب کیا جاتا ہے مثلاً :
وَالْكافِرُوْنَ هُمُ الظَّالِمُوْنَ
ـ ’’اور منکر ہی تو ظلم کرنے والے ہیں‘‘۔
وَاللهُ لاَ يَهْدِيْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِيْنَ
ـ ’’جو قوم کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر اڑی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ ا سکو ہدایت نہیں بخشتا ‘‘ ۔
یہودیوں کا حال بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے:
وَمَا جَزَيْنَاهُمْ بِبَغْيِهِمْ
ـ ’’یہ عقوبت ہم نے ان پر ان کے ظلم کی وجہ سے نازل فرمائی‘‘۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَمَا ظَلَمْنَاهُمْ وَلَكِنْ كَانُوْا هُمُ الظَّالِمِيْنَ
ـ ’’ہم نے ان پر مطلق ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی ظلم کرنے والے تھے‘‘۔
یہ چند آیتیں صرف نمونۃً لکھی گئی ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ تمام قرآن کریم اس مضمون سے بھرا ہوا ہے۔
دوسری صورت :
یہ ہے کہ شر کی اضافت کسی کی طرف بھی نہ ہو بلکہ مجہول کے صیغہ سے اس کو بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً یہ آیت جس میں مومن جنوں کا قول منقول ہے : وانا لا ندري اشر اريد بمن في الارض الخ
ـ ’’اور ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ کس قسم کا شر ہے جس کااہلِ زمین کو پہنچانا مقصود ہے یا ان کے رب تعالیٰ نے ان کو ہدایت دینے کا قصد فرمایا ہے‘‘۔ ہدایت کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے لیکن شر کی نسبت کو مجہول رکھا گیا ہے ۔ اس کس تفسیر سورئہ فاتحہ میں ہے کہ انعام و اکرام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ لیکن غضب کا اسناد مجہول ہے ۔ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ ـ
سیدناخضر علیہ السلام کا قول:
اسی طرح خضر علیہ السلام کے قصہ میں خضر علیہ السلام نے اپنے افعال کی اہمیت بتائے ہوئے جہاں کشتی کے توڑنے کا ذکر کیا ہے اس کو اپنے طرف منسوب کیا ہے کہ : فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِيْبَهَا
ـ ’’میں نے یہ چاہا کہ اس کو عیب لگا دوں‘‘ لیکن یتیموں کی دیوار کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَاَرَادَ رَبُّكَ اَنْ يَّبْلُغَا اَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا
ـ ’’اس لئے تمہارے رب نے ارادہ فرمایا کہ وہ دونوں یتیم اپنی بلوغت کی حد کو پہنچ کر اپنا خزانہ نکال لیں‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَلَكِنَّ اللهَ حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الاِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ ـ ’’لیکن اللہ تعالیٰ ہی نے تمہارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دی اور اس کو تمہارے دلوں میں زینت دی‘‘۔
دوسری جگہ فرماتا ہے : زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ
ـ ’’لوگوں کے دلوں میں خواہشاتِ نفسانی کو زینت دی گئی ہے‘‘۔
اوّل الذکر آیت میں زینت کا فعل مذکور ہے کیونکہ یہ تزئین خیر محض ہے لیکن دوسری آیت میں فعل مجہول استعمال کیا کیا ہے کیونکہ یہ تزئین شر پر مشتمل ہے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قول: سیدناابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے رب جلیل کی صفاتِ عالیان الفاظ میں بیان کرتے ہیں
اَلَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِ وَالَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَيَسْقِيْنِ وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ وَالَّذِيْ يُمِيْتُنِيْ ثُمَّ يُحْيِيْنِ وَالَّذِيْ اَطْعَمُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْئَتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ
ـ ’’وہ اللہ جس نے مجھ کو پیدا کیا اور وہی مجھ کو ہدایت دے گا۔ وہی اللہ ہے جو مجھے کھلاتا پلاتا ہے اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے۔ وہی اللہ ہے جو مجھے موت دے گا اور پھر مجھے زندہ کرے گا۔ وہی اللہ ہے جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے گناہوں کو بخش دے گا‘‘۔
اس میں جو خیر و کمال کے مظاہر ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کیطرف منسوب کئے گئے ہیں لیکن نقص و عیب کی باتیں مثلاً مرض اور گناہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی طرف منسوب کی ہیں کیونکہ والشر ليس اليك
ـ اس قسم کی مثالیں قرآن مجید میں بکثرت پائی جاتی ہیں جن کو ہم نے ’’الفوائد المکیہ‘‘میں بالتفصیل بیان کیا ہے اور یہ نکتہ بھی لکھا ہے کہ اَلَّذِيْنَ اَتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ (بصیغہ معروف)اور اَلَّذِيْنَ اُوْتُوْا الْكِتَابَ (بصیغۂ مجہول) کا باہمی فرق اسی اصول پر مبنی ہے۔ فعل معروف مدح کے مقام پر استعمال ہوا ہے اور فعل مجہول ذم کی جگہوں میں ارشاد ہوا ہے اسی طرح ایک مقام ارشاد ہوتا ہے :
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِيْنَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا
ـ ’’پھر اپنے چنے ہوئے بندوں کو ہم نے کتاب کا وارث بنایا‘‘۔
اس کے بالمقابل دوسری جگہ فرمایا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوْا الْكِتَابَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِنْهُ مُرِيْبٍ
ـ
’’وہ لوگ جن کو ان کے بعد کتاب کا وارث بنایا گیا ا یک قوی شک میں پڑے ہیں ‘‘۔
بہر کیف عالم میں جہاں کہیں بھی خیر و کمال ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہے برعکس اس کے شر اور نقصان کی نسبت سے اس کی ذات اس کی صفات اور اس کے افعال منزہ اوربرتر ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
باب ۲
تفسیر سورۃ الفلق
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ
ـ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ـ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ ـ وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ـ وَمِنْ شَرِّ النَّفَّثَاتِ فِيْ الْعُقَدِ ـ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ ـ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کہہ! میں روشنئ صبح کے مالک اللہ کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں، ہر ایک قسم کے شرسے (میں پناہ مانگتا ہوں) جو کسی مخلوق میںپایا جائے اور شبِ تاریک کے شر سے (میں پناہ مانگتا ہوں) جب کہ وہ چھا جاتی ہے اور گانٹھوں پر پھونکنے والی جماعتوں (جادوگر) کے شر سے (میں پناہ مانگتا ہوں) اور حاسد کے شر سے (میں پناہ مانگتا ہوں) جب کہ وہ حسد کرتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل اوّل
شر کی پہلی قسم
استعاذہ من شر ما خلق :
ہر ایک قسم کا شر جو کسی مخلوق میں پایا جاتا ہے : مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ کے مفہوم میں داخل ہے۔
ما خلق سے مراد:
’’کسی مخلوق‘‘ کا لفظ انسان، جن، جملہ حیوانات، حشرات الارض، آندھی، بجلی اور دیگر تمام آفاتِ سماوی اور ارضی پر مشتمل ہے اور اگرچہ اس لفظ کو عام ترین معنوں میں لیا گیا ہے لیکن پھر بۃی اس کاعموم اپنے مضاف لفظِ شر کے ساتھ مقید ہے اور اس لئے اس کاعموم مطلق نہیں، جس کے یہ معنی ہوں کہ ہر ایک چیز میں شر پایا جاتا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہر ایک شر سے پناہ مانگتا ہوں جو کسی مخلوق میں پایا جاتا ہے۔ بالفاظِ دیگر عموم پہلے لفظ میں مطلق ہے یعنی ہ ایک قسم کا شر اور دوسرے میں مقید یعنی کوئی مخلوق جس میں شر پایا جاتا ہے ہر ایک مخلوق اس سے مراد نہیں کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر ا یک مخلوق میں شر کا وجود ہو چنانچہ جنت ایک مقام ہے جس میں شر کا مطلق وجود نہیں۔ اسی طرح ملائکہ اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا وجود خیر محض ہے اور انہیں کی بدولت دنیا میں ہر ایک قسم کا خیر و برکت پھیلا ہے۔
الغرض مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ اپنی تعمیم کے لحاظ سے ہر ایک مخلوق کے شر کو جو دنیا اور آخرت میں پایا جاتا ہے شامل ہے۔ اور شیاطین الانس والجن کا شر، درندوں اور پرندوں کا شر، جڑی بوٹی کا شر، آندھی اور طوفان کا شر، بجلی اور زلزلے کا شر اور جملہ آفات و بلیات ارضی و سماوی کا شر اس کے مفہوم میں داخل ہے۔
استعاذئہ سفر :
نبی ﷺ سے صحیح مسلم میں ایک روایت ہے کہ جو شخص کسی مقام پر اتر کر یہ الفاظ کہے کہ اَعُوْذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ (۱) ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کی پناہ ڈھونڈ کر
۱۔ یہ استعاذہ اہل جاہلیت کے اس استعاذہ کا کہ نعوذ بسيد هذا الوادي من شر سقهاء قومه کا موحدانہ جواب اور اس کا نعم البدل ہے۔ مترجم۔
ہر ایک مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں‘‘ تو اس کو کوچ کرنے کے وقت تک کسی قسم کا ضرر نہیں پہنچے گا۔
سنن ابی داؤد میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی ﷺ جب سفر میں ہوتے تھے اور رات پڑ جاتی تھی تویہ الفاظ فرماتے :
يا ارض ربي وربك الله اعوذ بالله من شرّك وشرّ ما فيك وشرّ ما خلق فيك وشرّ ما يدب عليك اعوذ بالله من اسد اسود ومن الحية والعقرب ومن ساكن البلد ومن شرّ والد وما ولد
ـ (ابوداؤد)
’’اے زمین! تیرا اور میرا رب اللہ تعالیٰ ہے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں تیرے شر سے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں ہے اور اس چیز کے شر سے جو تجھ میں پیدا کی گئی ہے اور اس چیز کے شرسے جو تیرے اوپر رینگتی ہیں میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں شیر اور اژدھا سے سانپ اور بچھو سے، شہر کے باشندوں کے شر سے اور والد اور مولود کے شر سے‘‘۔
ایک دوسری حدیث میں استعاذہ کے الفاظ اس طرح ہیں:
اعوذ بكلمات ا لله التامات التي لا يجاوز هن برولا فاجر من شر ما خلق وذراء وبراء ومن شر ما نزل من السماء وما يعرج فيها ومن شر ما ذراء في الارض وما يخرج منها ومن شرفتن الليل والنهار ومن شر كل طارق الا طارقا يطرف بخير يا رحمن
ـ
’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جس کے حکم کے دائرہ سے کوئی نیک اور بد باہر نہیں، ہر ایک قسم کے شر سے جو کسی مخلوق میں پایا جاتا ہے جس کو اس نے پیدا کیا اور اس چیز کے شر سے جو آسمان سے اترتی اور اس میں چڑھتی ہے اور اس چیز کے شر سے جس کو اس نے زمین میں پھیلا دیا ہے اور جو کچھ اس سے نکلتا ہے اور دن اور رات کے فتنوں سے اور ہر ایک رات کے وقت آنے والے کے شر سے اس رات کے آنے والے کے جو خیر لے کر آتا ہے اے میرے مہربان رب!
 
Top