محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
فصل دوم
شر کی دوسری قسم!
استعاذہ من شر غاسق : اس سورۃ کی دوسری آیت :
مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ـ ’’اور میں پناہ مانگتا ہوں شب تاریک کے شر سے، جب کہ وہ چھا جاتی ہے‘‘۔ تخصیصص بعد تعمیم ہے۔
غاسق کے معانی :
اکثر مفسرین کا قول ہے کہ غاسق کے معنی شب تاریک ہے اور بقول ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کا اشتقاق غَسَقٌ سے ہے جس کے معنی ہیں رات کی تاریکی، جیسے کہ اس آیت میں ہے کہ :
اَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ ـ ’’نماز کو قائم رکھ سورج کے ڈھلنے کے وقت سے رات کی تاریکی تک‘‘۔
حسن اور مجاہد مقاتل رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی اپنی عبادتوں میں لفظ مذکور کی تقریباً یہی تشریح کی ہے لیکن بعض کے نزدیک غسق کے معنی ٹھنڈک اور خنکی کے ہیں اور چونکہ رات کو عموماً خنکی ہوتی ہے اس لئے اس کو غاسق کہتے ہیں۔ اس کا شاہد غساق کا لفظ ہے جو بقول ابن عباس و مجاہد و مقاتل رحمہم اللہ تعالیٰ زمہریر (۱) کو کہتے ہیں لیکن ان دونوں اقوال میں کوئی منافات نہیں کیونکہ رات کے وقت تاریکی اور خنکی دونوں پائی جاتی ہیں اور دونوں اقوال کے بموجب وجہ تسمیہ مختلف ہونے کے باوجد مسمیٰ ا یک ہے یعنی یہ کہ غاسق سے مراد رات ہے لیکن آیت کے مناسب تاریکی کے معنی ہیں کیونکہ اکثر فسادات رات میں تاریکی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں نہ کہ اس کی خنکی کی وجہ سے اس لئے استعاذہ کے مناسب حال غاسق کے معنی شب تاریک کے ہیں نیز مستعاذبہ کو رب الفلق (روشنئ صبح کا مالک اللہ) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس لحاظ سے بھی غاسق کے معنی شب تاریک ہو تو اس سے مستعاذبہ اور مستعاذ منہ میں کامل مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔
۱۔ زمہریر یعنی سخت سردی۔ ۱۲
غاسق سے مراد چاند:
ترمذی میں ایک حسن صحیح روایت ہے کہ ’’نبی ﷺ نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چاند کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ اس کے شر سے پناہ مانگو کیونکہ یہی غاسق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ ایک مرفوع روایت ہے اس لئے تمام دوسرے اقوال پر اس کو ترجیح دینا لازم ہو کا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تفسیر بیشک درست ہے لیکن یہ پہلی تفسیر کے مخالف نیہں بلکہ اس کے موافق اور اس کی مؤید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :
وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا اَيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْناَ آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً ـ
’’ہم نے دن اور رات کو اپنی قدرت کی دو نشانیاں بنایا۔ پھر رات کی نشانی کو ہم نے مٹا دیا اور دن کی نشانی کو ہم نے روشن بنا دیا۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ چاند رات کی نشانی ہے اس لئے رات اور چاند کے مفہوم میں تلازم ہے۔ (دونوں کا مفہوم آپس میں لازم و ملزوم ہے اس لئے دونوں پر غاسق کا اطلاق ہو سکتا ہے اور نبی ﷺ کا کسی ایک معنی کی تخصیص کرنا اس بات سے مانع نہیں کہ دوسرے معنی بھی مراد ہوں۔ چنانچہ نبی ﷺ سے کسی صحابی نے یہ دریافت کیا کہ: لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى ـ ’’وہ مسجد جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی (اور جس کا سورئہ توبہ میں ذکر ہے) سے کونسی مسجد مراد ہے؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ میری مسجد ہے۔ اب اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیتِ کریمہ میں اس سے مسجد قبا مراد نہ ہو بلکہ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى اپنے عمومیت مفہوم کے لحاظ سے دونوں مسجدوں کو شامل ہے یا جیسے کہ نبی ﷺ نے سیدناعلی، سیدہ فاطمہ اور حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے اللہ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ اب اس کے یہ معنی نہیں کہ نبی ﷺ کی ازواج اس کے مفہوم سے خارج ہیں بلکہ دراصل آیت کا نزول ازواجِ مطہرات ہی کے لئے تھا جیسے کہ سیاق سے واضح ہے۔ اس کی توضیح ایک اور مثال سے ہو سکتی ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ : ليس الشديد بالصرعة انما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب ـ ’’پہلوان وہ شخص نہیں جو لوگوں کو پچھاڑتا پھرے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو ضبط میں رکھے‘‘۔ اب اس کے معنی یہ نہیں کہ جو شخص دوسروں کوپچھاڑتا ہے وہ پہلوان نہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جوشخص غصہ کے وقت اپنے آپ کو ضبط میں رکھ سکتا ہے وہ بطریقِ اولیٰ پہلوان ہے۔ اسی طرح نبی ﷺ کا چاند کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمانا کہ هذا هو الغاسق یہ معنی نہیں رکھتا کہ شبِ تاریک غاسق کا مفہوم نہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ چاند بھی غاسق کے مفہوم میں داخل ہے۔
اذا وقب کے معنی :
یہ قول ضعیف ہے کہ غاسق سے مراد چاند بحالتِ خسوف ہے اور اِذَا وَقَبَ کے یہ معنی ہیں کہ جب اس کو گرہن لگ جائے۔ یہ سلف میں سے کسی کا قول نہیں۔ ترمذی کی حدیث میں اس بات کا کچھ ذکر نہیں کہ جب نبی ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا هذا هو الغاسق ـ تو اس وقت وہ خسوف زدہ تھا لیکن اگر وہ خسوف زدہ تھا تو راوی پر لازم تھا کہ وہ اس حالت کی تصریح کرتا۔ علاوہ ازیں لغت سے اس کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ وقوب کہیں بھی خسوف کے معنوں میںاستعمال نہیں ہوا بلکہ وقوب کے معنی دخول کے ہیں وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ یعنی من شر الليل اذا دخل بعض مفسرین کا قول ہے کہ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ کے معنی ہیں ثریاکے ستارے جب کہ وہ غروب ہونے لگیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ثریا (پروین) یا خوشہـ ٔ آسمان کا جب طلوع ہوتا ہے تو بیماریاں اور آفتیں کم ہو جاتی ہیں لیکن اس کے غروب ہونے کے زمانہ میں بیماریوں اور آفتوں کا نزول ہوتا ہے اگر ان لوگوں کی مراداپنے قول سے یہ ہے کہ غاسق کا لفظ اپنے عموم کے لحاظ سے پروین کی اس حالتِ خاص کو بھی شامل ہے تب تو اس میں کچھ حرج نہیں اور ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن اگر ان کا خیال یہ ہے کہ غاسق کا مفہوم انہی کے بیان کردہ معنوں تک محدود ہے تو یہ قطعًا باطل ہے۔
شر کی دوسری قسم!
استعاذہ من شر غاسق : اس سورۃ کی دوسری آیت :
مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ ـ ’’اور میں پناہ مانگتا ہوں شب تاریک کے شر سے، جب کہ وہ چھا جاتی ہے‘‘۔ تخصیصص بعد تعمیم ہے۔
غاسق کے معانی :
اکثر مفسرین کا قول ہے کہ غاسق کے معنی شب تاریک ہے اور بقول ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کا اشتقاق غَسَقٌ سے ہے جس کے معنی ہیں رات کی تاریکی، جیسے کہ اس آیت میں ہے کہ :
اَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ ـ ’’نماز کو قائم رکھ سورج کے ڈھلنے کے وقت سے رات کی تاریکی تک‘‘۔
حسن اور مجاہد مقاتل رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی اپنی عبادتوں میں لفظ مذکور کی تقریباً یہی تشریح کی ہے لیکن بعض کے نزدیک غسق کے معنی ٹھنڈک اور خنکی کے ہیں اور چونکہ رات کو عموماً خنکی ہوتی ہے اس لئے اس کو غاسق کہتے ہیں۔ اس کا شاہد غساق کا لفظ ہے جو بقول ابن عباس و مجاہد و مقاتل رحمہم اللہ تعالیٰ زمہریر (۱) کو کہتے ہیں لیکن ان دونوں اقوال میں کوئی منافات نہیں کیونکہ رات کے وقت تاریکی اور خنکی دونوں پائی جاتی ہیں اور دونوں اقوال کے بموجب وجہ تسمیہ مختلف ہونے کے باوجد مسمیٰ ا یک ہے یعنی یہ کہ غاسق سے مراد رات ہے لیکن آیت کے مناسب تاریکی کے معنی ہیں کیونکہ اکثر فسادات رات میں تاریکی کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں نہ کہ اس کی خنکی کی وجہ سے اس لئے استعاذہ کے مناسب حال غاسق کے معنی شب تاریک کے ہیں نیز مستعاذبہ کو رب الفلق (روشنئ صبح کا مالک اللہ) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے اور اس لحاظ سے بھی غاسق کے معنی شب تاریک ہو تو اس سے مستعاذبہ اور مستعاذ منہ میں کامل مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔
۱۔ زمہریر یعنی سخت سردی۔ ۱۲
غاسق سے مراد چاند:
ترمذی میں ایک حسن صحیح روایت ہے کہ ’’نبی ﷺ نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ پکڑ کر انہیں چاند کی طرف متوجہ کیا اور فرمایا کہ اس کے شر سے پناہ مانگو کیونکہ یہی غاسق ہے۔ کہا جاتا ہے کہ چونکہ یہ ایک مرفوع روایت ہے اس لئے تمام دوسرے اقوال پر اس کو ترجیح دینا لازم ہو کا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تفسیر بیشک درست ہے لیکن یہ پہلی تفسیر کے مخالف نیہں بلکہ اس کے موافق اور اس کی مؤید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ :
وَجَعَلْنَا الَّيْلَ وَالنَّهَارَ آيَتَيْنِ فَمَحَوْنَا اَيَةَ الَّيْلِ وَجَعَلْناَ آيَةَ النَّهَارِ مُبْصِرَةً ـ
’’ہم نے دن اور رات کو اپنی قدرت کی دو نشانیاں بنایا۔ پھر رات کی نشانی کو ہم نے مٹا دیا اور دن کی نشانی کو ہم نے روشن بنا دیا۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ چاند رات کی نشانی ہے اس لئے رات اور چاند کے مفہوم میں تلازم ہے۔ (دونوں کا مفہوم آپس میں لازم و ملزوم ہے اس لئے دونوں پر غاسق کا اطلاق ہو سکتا ہے اور نبی ﷺ کا کسی ایک معنی کی تخصیص کرنا اس بات سے مانع نہیں کہ دوسرے معنی بھی مراد ہوں۔ چنانچہ نبی ﷺ سے کسی صحابی نے یہ دریافت کیا کہ: لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى ـ ’’وہ مسجد جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی (اور جس کا سورئہ توبہ میں ذکر ہے) سے کونسی مسجد مراد ہے؟ تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ یہ میری مسجد ہے۔ اب اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آیتِ کریمہ میں اس سے مسجد قبا مراد نہ ہو بلکہ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى اپنے عمومیت مفہوم کے لحاظ سے دونوں مسجدوں کو شامل ہے یا جیسے کہ نبی ﷺ نے سیدناعلی، سیدہ فاطمہ اور حسنین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اے اللہ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔ اب اس کے یہ معنی نہیں کہ نبی ﷺ کی ازواج اس کے مفہوم سے خارج ہیں بلکہ دراصل آیت کا نزول ازواجِ مطہرات ہی کے لئے تھا جیسے کہ سیاق سے واضح ہے۔ اس کی توضیح ایک اور مثال سے ہو سکتی ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ : ليس الشديد بالصرعة انما الشديد الذي يملك نفسه عند الغضب ـ ’’پہلوان وہ شخص نہیں جو لوگوں کو پچھاڑتا پھرے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو ضبط میں رکھے‘‘۔ اب اس کے معنی یہ نہیں کہ جو شخص دوسروں کوپچھاڑتا ہے وہ پہلوان نہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ جوشخص غصہ کے وقت اپنے آپ کو ضبط میں رکھ سکتا ہے وہ بطریقِ اولیٰ پہلوان ہے۔ اسی طرح نبی ﷺ کا چاند کی طرف اشارہ کر کے یہ فرمانا کہ هذا هو الغاسق یہ معنی نہیں رکھتا کہ شبِ تاریک غاسق کا مفہوم نہیں بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ چاند بھی غاسق کے مفہوم میں داخل ہے۔
اذا وقب کے معنی :
یہ قول ضعیف ہے کہ غاسق سے مراد چاند بحالتِ خسوف ہے اور اِذَا وَقَبَ کے یہ معنی ہیں کہ جب اس کو گرہن لگ جائے۔ یہ سلف میں سے کسی کا قول نہیں۔ ترمذی کی حدیث میں اس بات کا کچھ ذکر نہیں کہ جب نبی ﷺ نے چاند کی طرف اشارہ کر کے فرمایا هذا هو الغاسق ـ تو اس وقت وہ خسوف زدہ تھا لیکن اگر وہ خسوف زدہ تھا تو راوی پر لازم تھا کہ وہ اس حالت کی تصریح کرتا۔ علاوہ ازیں لغت سے اس کی تائید نہیں ہوتی کیونکہ وقوب کہیں بھی خسوف کے معنوں میںاستعمال نہیں ہوا بلکہ وقوب کے معنی دخول کے ہیں وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ یعنی من شر الليل اذا دخل بعض مفسرین کا قول ہے کہ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ کے معنی ہیں ثریاکے ستارے جب کہ وہ غروب ہونے لگیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ثریا (پروین) یا خوشہـ ٔ آسمان کا جب طلوع ہوتا ہے تو بیماریاں اور آفتیں کم ہو جاتی ہیں لیکن اس کے غروب ہونے کے زمانہ میں بیماریوں اور آفتوں کا نزول ہوتا ہے اگر ان لوگوں کی مراداپنے قول سے یہ ہے کہ غاسق کا لفظ اپنے عموم کے لحاظ سے پروین کی اس حالتِ خاص کو بھی شامل ہے تب تو اس میں کچھ حرج نہیں اور ممکن ہے کہ ایسا ہو لیکن اگر ان کا خیال یہ ہے کہ غاسق کا مفہوم انہی کے بیان کردہ معنوں تک محدود ہے تو یہ قطعًا باطل ہے۔