محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
فصل نہم
عاین اور حاسد میں اشتراک و افتراق :
قوت مقناطیسی:
نظر بد لگانے والا اور حاسد من وجہ ایک جیسے ہیں، لیکن ایک دوسری وجہ سے دونوں میں فرق ہے۔ اس بات میں وہ دونوں ایک جیسے ہیں کہ ہر ایک کا نفس خاص کیفیت سے رنگین ہو کر اپنی توجہ کو کسی ایک مرکز پر مبذول کرتا ہے ا ور جس پر یہ توجہ مبذول کی جاتی ہے وہ ہدف ایذا و تکلیف بنتا ہے اور بعض اوقات اس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے۔
اب فرق سنئے! نظر لگانے والے کی آنکھوں میں جو مسموم اثر پایا جاتا ہے وہ صرف اس شخص یا چیز پر اثر کرتا ہے جس کے ساتھ وہ دوچار ہوئے لیکن حاسد کے لئے حاضر اورغائب یکساں ہے۔ نظر بد لگانے والے کے دل میں بھی اکثر حسد کا جذبہ موجود ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس کا اثر ایسی چیزوں پر بھی ہوتا ہے جن سے ان کوحسد نہیں ہوتا مثلاً پتھر یا حیوان یا کھیتی وغیرہ۔
نیز بعض اوقات اس کا اثر اپنی جان اور اپنے مال پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نظر بد کا اثر اسی شخص یا چیز پر ہوتا ہے جو صاحبِ نظر مستحسن ہو اور پھر وہ اس کو گھور کر دیکھ لے ارشاد ہے: وَ اِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِفُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمذَا سَمِعُوْا الذِّكْرَ ـ ’’قریب ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا تم کو اپنی آنکھوں (کی مقناطیسی) کے ذریعہ سے اپنی جگہ اور اپنے مرکز سے ہٹا دیں، اس حالت میں جب کہ وہ کلامِ پاک سنتے ہیں‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نظر بد کے اثر سے آپ کو ایذا پہنچانا ہے چنانچہ روایت ہے کہ بعض ایسے اشخاص جو نظرِ بد کے لئے مشہور تھے، نبی ﷺ کے سامنے لائے گئے اور انہوں نے آپ ﷺ کو گھور کر کہاکہ ہم نے تو کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا اور نہ کسی کا ایسا چبھتا ہوا کلام سنا۔
یہ اس قسم کے اشخاص تھے کہ جب کسی فربہ اونٹنی پر ان کی نظر پڑ جاتی تھی تو ان کو اپنی نظرِ بد کے اثر پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے غلام سے کہہ دیتے تھے کہ یہ ٹوکری لے لو اور فلاں شخص کی اونٹنی کا گوشت لے آؤ، اور ایسا ہی ہوتا تھا کہ ان کے گھورنے پر وہ اونٹنی زمین پر گر کر لوٹنے لگتی اور اس کا مالک اس کو مجبورًا ذبح کرتا۔
کلبی کہتا ہے کہ عرب میں ایک شخص تھا جو (اپنی نظر بد کے ا ثر کو تیز کرنے کے لئے) ایک دو دن کھانا چھوڑ دیتا تھا اور پۃر جب کوئی اونٹ یا بھیڑ بکری اس کے پاس سے گزرتی اور وہ کہہ دیتا کہ میں نے توا یسا اونٹ وغیرہ نہیں دیکھا تووہ فوراً گر پڑتا۔ اسی شخص سے کافروں نے درخواست کی کہ وہ نبی ﷺ کو اپنی نظرِ بد کا نشانہ بنائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے رسول کو محفوظ ومصئون رکھا اور یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ لیکن ایک دوسری جماعت مفسرین کی یہ کہتی ہے کہ اس سے مراد نظرِ بد کا اثر پہنچانا نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر لوگ جب تم کو قرآن پڑھتا ہوا سنتے ہیں تو تمہاری طرف عداوت کی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں اور ان کا یہ دیکھنا اس شدت سے ہوتا ہے کہ قریب ہے کہ تم کوگرا دیں ۔ زجاج نے یہی قول اختیار کیا ہے اور یہ محاورہ کلامِ عرب میں موجود ہے کہ فلاں شخص نے اس کو ایسی تیز نظر سے دیکھا کہ قریب تھا کہ وہ گر جائے، زجاج کہتا ہے کہ اس کا قرینہ یہ ہے کہ اس کو سماعِ قرآن کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ لوگ قرآن کریم کاسننا سخت ناپسند کرتے ہیں اور اس لئے جب اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تووہ تم کو بسبب بغض اور عداوت کے سخت تیز نظروں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں‘‘۔
مہلک نظر کے اسباب و اثرات :
میں کہتاہوں (یعنی علامہ ابن القیم ؒ فرماتے ہیں) کہ جو نظر مہلک اثر پیدا کرتی ہے اس کا سبب بعض اوقات حسد اور عداوت ہوتا ہے اور جیسے کہ حاسد کے نفسِ خبیث کا محسود پر موذی اور مہلک اثر پرتا ہے اسی طرح اس نظر بد لگانے والے کا بھی پڑتا ہے اور اس کا اثر اس وجہ سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے کہ سامنے ہونے کی حالت میںقوتِ نفسانی اپناعمل زائد کرتی ہے۔ کیونکہ دشمن جب نظروں سے غائب ہو تو ممکن ہے کہ انسان اس کی عداوت بھول جائے لیکن اس کو دیکھ کر پوشیدہ جذبات تموج پر آجاتے ہیں ا ور نفس بالکلیہ محسود کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس لئے اس حالت میں نظر قوی کا اثر ہوتا ہے یہاں تک کہ جس پر یہ نظر ڈالنا مقصود ہوتا ہے، بعض اوقات وہ گر جاتا ہے، بعض اوقات اس کو بخار ہو جاتا ہے اور کبھی وہ غش کھا جاتا ہے۔
اس قسم کے واقعات اکثر مشاہدہ میں آتے ہیں اور بہت لوگوں نے ایسا ہوتے دیکھا ہے۔بعض اوقات اس نظر بد کا سبب صرف ’’پسندیدگی‘‘ ہوتا ہے ا ور عام طور پر اسی کونظرِ بد کہا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو جب بنظرِ استحسان دیکھا جاتا ہے تو دیکھنے والے کے نفس میں ایک خاص کیفیت پیداہوتی ہے اور چونکہ بعض خبیث طبائع میںا یک زہریلا مادہ موجود ہوتا ہے جو اس کیفیت کے ظہور میں آتے ہی اس کا بھی ظہور ہوتا ہے اس لئے اس کا نتیجہ اس شخص یا چیز کی ہلاکت یانقصان ہوتا ہے جس پر وہ نظر ڈالی گئی ہے۔
نظرِ بد ایک حقیقت ہے!
عبدالرزاق بن معمر نے بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے کہ "العين حق" نظرِ بد کا لگنا ایک حقیقت ہے یعنی محض توہّم پرستی نہیں۔ عبید بن رفاعہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! جعفر کی اولاد اکثر نظرِ بد کا شکار ہو جاتی ہے تو کیاہم ان کے لئے کوئی دَم وغیرہ کا عمل کریں؟ آپ ﷺ نے اس بات کا جواب اثبات میں دیااور فرمایا کہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظرِ بد ہوتی۔
الغرض کافر لوگوں کو نبی ﷺ سے حسد اور عداوت تھی اور تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ حاسد کی نظر قوی تر ہوتی ہے اس لئے جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت سے مراد نظرِ بد کا اثر ڈالنا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ حسد اور عداوت کی نظروں سے آپ کو دیکھتے تھے جس کا بُرا اثر ہر طرح سے مسلم ہے۔
لیکن جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت سے مراد نظرِ بد کا اثر نہیں وہ اس لحاظ سے درست کہتے ہیں کہ کافروں کا دیکھنا ’’پسندیدگی‘‘ کا دیکھنانہیں تھا جس کو عام اصطلاح میں نظرِ بد کہا جاتاہے۔ ترمذی میں بروایت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ نبی ﷺ انسان نظر بد سے پناہ مانگاکرتے تھے‘‘ اور گر نظر بد میں کوئی شر نہ ہوتاتو آپ اس سے کیوں پناہ مانگتے نیز ترمذی میں حابس بن حبہ تمیمی کی ایک روایت ہے کہ میرے باپ نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ ’’نظرِ بد لگناایک حقیقت ہے‘‘۔
نظر بد اور تقدیر:
ایک دوسری حدیث ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظرِ بد ہوتی‘‘۔ اس کے بعد ترمذی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں ایک حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔
عاین بھی حاسد ہے:
نظرِ بد لگانے والا بھی ایک قسم کا حاسد ہے لیکن عام حاسدوں سے وہ زیادہ مضر ہے اور غالباً اسی نکتہ کے لئے سورئہ فلق میں حاسد کے ذکر پر اکتفا کیا گیاہے کیونکہ عام کے ضمن میں خاص داخل ہوتا ہے یعنی ہر ایک نظرِ بد لگانے والا حاسد ہے لیکن بالعکس نہیں اس لئے جب حاسد کے شر سے پناہ مانگ لی گئی تو نظرِ بد سے بھی پناہ لی گئی۔ حسد کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی کسی دی ہوئی نعمت کے زوال کی خواہش کرنا، حاسد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا دشمن ہے اور شر اس کی طبیعت میں مرکوز ہوتا ہے جو اس کے خبثِ فطرت کا نتیجہ ہے۔
جادو اور حسد:
برعکس حسد کے سحر اور جادو کا شر فطری نہیں بلکہ اکتسابی ہے اور جیسے کہ پہلے ذکر ہوا اس میں شیاطین کی ارواج خبیثہ سے استعانت کی جاتی ہے۔
عاین اور حاسد میں اشتراک و افتراق :
قوت مقناطیسی:
نظر بد لگانے والا اور حاسد من وجہ ایک جیسے ہیں، لیکن ایک دوسری وجہ سے دونوں میں فرق ہے۔ اس بات میں وہ دونوں ایک جیسے ہیں کہ ہر ایک کا نفس خاص کیفیت سے رنگین ہو کر اپنی توجہ کو کسی ایک مرکز پر مبذول کرتا ہے ا ور جس پر یہ توجہ مبذول کی جاتی ہے وہ ہدف ایذا و تکلیف بنتا ہے اور بعض اوقات اس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے۔
اب فرق سنئے! نظر لگانے والے کی آنکھوں میں جو مسموم اثر پایا جاتا ہے وہ صرف اس شخص یا چیز پر اثر کرتا ہے جس کے ساتھ وہ دوچار ہوئے لیکن حاسد کے لئے حاضر اورغائب یکساں ہے۔ نظر بد لگانے والے کے دل میں بھی اکثر حسد کا جذبہ موجود ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس کا اثر ایسی چیزوں پر بھی ہوتا ہے جن سے ان کوحسد نہیں ہوتا مثلاً پتھر یا حیوان یا کھیتی وغیرہ۔
نیز بعض اوقات اس کا اثر اپنی جان اور اپنے مال پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نظر بد کا اثر اسی شخص یا چیز پر ہوتا ہے جو صاحبِ نظر مستحسن ہو اور پھر وہ اس کو گھور کر دیکھ لے ارشاد ہے: وَ اِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِفُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمذَا سَمِعُوْا الذِّكْرَ ـ ’’قریب ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا تم کو اپنی آنکھوں (کی مقناطیسی) کے ذریعہ سے اپنی جگہ اور اپنے مرکز سے ہٹا دیں، اس حالت میں جب کہ وہ کلامِ پاک سنتے ہیں‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نظر بد کے اثر سے آپ کو ایذا پہنچانا ہے چنانچہ روایت ہے کہ بعض ایسے اشخاص جو نظرِ بد کے لئے مشہور تھے، نبی ﷺ کے سامنے لائے گئے اور انہوں نے آپ ﷺ کو گھور کر کہاکہ ہم نے تو کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا اور نہ کسی کا ایسا چبھتا ہوا کلام سنا۔
یہ اس قسم کے اشخاص تھے کہ جب کسی فربہ اونٹنی پر ان کی نظر پڑ جاتی تھی تو ان کو اپنی نظرِ بد کے اثر پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے غلام سے کہہ دیتے تھے کہ یہ ٹوکری لے لو اور فلاں شخص کی اونٹنی کا گوشت لے آؤ، اور ایسا ہی ہوتا تھا کہ ان کے گھورنے پر وہ اونٹنی زمین پر گر کر لوٹنے لگتی اور اس کا مالک اس کو مجبورًا ذبح کرتا۔
کلبی کہتا ہے کہ عرب میں ایک شخص تھا جو (اپنی نظر بد کے ا ثر کو تیز کرنے کے لئے) ایک دو دن کھانا چھوڑ دیتا تھا اور پۃر جب کوئی اونٹ یا بھیڑ بکری اس کے پاس سے گزرتی اور وہ کہہ دیتا کہ میں نے توا یسا اونٹ وغیرہ نہیں دیکھا تووہ فوراً گر پڑتا۔ اسی شخص سے کافروں نے درخواست کی کہ وہ نبی ﷺ کو اپنی نظرِ بد کا نشانہ بنائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے رسول کو محفوظ ومصئون رکھا اور یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ لیکن ایک دوسری جماعت مفسرین کی یہ کہتی ہے کہ اس سے مراد نظرِ بد کا اثر پہنچانا نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر لوگ جب تم کو قرآن پڑھتا ہوا سنتے ہیں تو تمہاری طرف عداوت کی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں اور ان کا یہ دیکھنا اس شدت سے ہوتا ہے کہ قریب ہے کہ تم کوگرا دیں ۔ زجاج نے یہی قول اختیار کیا ہے اور یہ محاورہ کلامِ عرب میں موجود ہے کہ فلاں شخص نے اس کو ایسی تیز نظر سے دیکھا کہ قریب تھا کہ وہ گر جائے، زجاج کہتا ہے کہ اس کا قرینہ یہ ہے کہ اس کو سماعِ قرآن کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ لوگ قرآن کریم کاسننا سخت ناپسند کرتے ہیں اور اس لئے جب اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تووہ تم کو بسبب بغض اور عداوت کے سخت تیز نظروں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں‘‘۔
مہلک نظر کے اسباب و اثرات :
میں کہتاہوں (یعنی علامہ ابن القیم ؒ فرماتے ہیں) کہ جو نظر مہلک اثر پیدا کرتی ہے اس کا سبب بعض اوقات حسد اور عداوت ہوتا ہے اور جیسے کہ حاسد کے نفسِ خبیث کا محسود پر موذی اور مہلک اثر پرتا ہے اسی طرح اس نظر بد لگانے والے کا بھی پڑتا ہے اور اس کا اثر اس وجہ سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے کہ سامنے ہونے کی حالت میںقوتِ نفسانی اپناعمل زائد کرتی ہے۔ کیونکہ دشمن جب نظروں سے غائب ہو تو ممکن ہے کہ انسان اس کی عداوت بھول جائے لیکن اس کو دیکھ کر پوشیدہ جذبات تموج پر آجاتے ہیں ا ور نفس بالکلیہ محسود کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس لئے اس حالت میں نظر قوی کا اثر ہوتا ہے یہاں تک کہ جس پر یہ نظر ڈالنا مقصود ہوتا ہے، بعض اوقات وہ گر جاتا ہے، بعض اوقات اس کو بخار ہو جاتا ہے اور کبھی وہ غش کھا جاتا ہے۔
اس قسم کے واقعات اکثر مشاہدہ میں آتے ہیں اور بہت لوگوں نے ایسا ہوتے دیکھا ہے۔بعض اوقات اس نظر بد کا سبب صرف ’’پسندیدگی‘‘ ہوتا ہے ا ور عام طور پر اسی کونظرِ بد کہا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو جب بنظرِ استحسان دیکھا جاتا ہے تو دیکھنے والے کے نفس میں ایک خاص کیفیت پیداہوتی ہے اور چونکہ بعض خبیث طبائع میںا یک زہریلا مادہ موجود ہوتا ہے جو اس کیفیت کے ظہور میں آتے ہی اس کا بھی ظہور ہوتا ہے اس لئے اس کا نتیجہ اس شخص یا چیز کی ہلاکت یانقصان ہوتا ہے جس پر وہ نظر ڈالی گئی ہے۔
نظرِ بد ایک حقیقت ہے!
عبدالرزاق بن معمر نے بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے کہ "العين حق" نظرِ بد کا لگنا ایک حقیقت ہے یعنی محض توہّم پرستی نہیں۔ عبید بن رفاعہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! جعفر کی اولاد اکثر نظرِ بد کا شکار ہو جاتی ہے تو کیاہم ان کے لئے کوئی دَم وغیرہ کا عمل کریں؟ آپ ﷺ نے اس بات کا جواب اثبات میں دیااور فرمایا کہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظرِ بد ہوتی۔
الغرض کافر لوگوں کو نبی ﷺ سے حسد اور عداوت تھی اور تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ حاسد کی نظر قوی تر ہوتی ہے اس لئے جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت سے مراد نظرِ بد کا اثر ڈالنا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ حسد اور عداوت کی نظروں سے آپ کو دیکھتے تھے جس کا بُرا اثر ہر طرح سے مسلم ہے۔
لیکن جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت سے مراد نظرِ بد کا اثر نہیں وہ اس لحاظ سے درست کہتے ہیں کہ کافروں کا دیکھنا ’’پسندیدگی‘‘ کا دیکھنانہیں تھا جس کو عام اصطلاح میں نظرِ بد کہا جاتاہے۔ ترمذی میں بروایت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ نبی ﷺ انسان نظر بد سے پناہ مانگاکرتے تھے‘‘ اور گر نظر بد میں کوئی شر نہ ہوتاتو آپ اس سے کیوں پناہ مانگتے نیز ترمذی میں حابس بن حبہ تمیمی کی ایک روایت ہے کہ میرے باپ نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ ’’نظرِ بد لگناایک حقیقت ہے‘‘۔
نظر بد اور تقدیر:
ایک دوسری حدیث ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظرِ بد ہوتی‘‘۔ اس کے بعد ترمذی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں ایک حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔
عاین بھی حاسد ہے:
نظرِ بد لگانے والا بھی ایک قسم کا حاسد ہے لیکن عام حاسدوں سے وہ زیادہ مضر ہے اور غالباً اسی نکتہ کے لئے سورئہ فلق میں حاسد کے ذکر پر اکتفا کیا گیاہے کیونکہ عام کے ضمن میں خاص داخل ہوتا ہے یعنی ہر ایک نظرِ بد لگانے والا حاسد ہے لیکن بالعکس نہیں اس لئے جب حاسد کے شر سے پناہ مانگ لی گئی تو نظرِ بد سے بھی پناہ لی گئی۔ حسد کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی کسی دی ہوئی نعمت کے زوال کی خواہش کرنا، حاسد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا دشمن ہے اور شر اس کی طبیعت میں مرکوز ہوتا ہے جو اس کے خبثِ فطرت کا نتیجہ ہے۔
جادو اور حسد:
برعکس حسد کے سحر اور جادو کا شر فطری نہیں بلکہ اکتسابی ہے اور جیسے کہ پہلے ذکر ہوا اس میں شیاطین کی ارواج خبیثہ سے استعانت کی جاتی ہے۔